بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
ہر طرف پھیلی بے پردگی سے کیسے نمٹا جائے
(عربی سے ترجمہ)
عبداللہ ابن المفکر کی جانب سے سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ معزز شیخ۔میں اللہ سے آپ کی حفاظت کی دعا کرتا ہوں اور یہ کہ وہ آپ کو اس دعوت و دین کیلئے صحت مند رکھے اور آپ کو اپنی عبادت میں لمبی زندگی عطاء کرے اور آپ کو دوسرے خلافتِ راشدہ کاقیام دکھائے۔میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ اسلامی طرزِ زندگی کی طرف اس دعوت کومضبوط کرے اور اس کی حفاظت کرے اور ہماری امت کو ایک جھنڈے تلے وحدت بخشے، آمین۔
میرا سوال مرد کی عورت پر نگاہ پڑنے سے متعلق ہے۔ مغرب میں زیادہ تر خواتین اپنا ستر نہیں ڈھانپتی(کم از کم بال اور بازو،اور گرمی اور موسمِ گرما میں تقریباً پورا ستر)۔میرا یہ ماننا ہے کہ ان کا ستر دیکھنا مرد کیلئے حرام ہے، قطع نظر کہ وہ پرکشش ہوں یا بد صورت خواتین ہوں، بالکل جیسے کسی مرد کیلئے دوسرے مرد کا ستر دیکھنا حرام ہے جبکہ اس کی طرف کوئی کشش بھی نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پہلی نظر جائز ہے لیکن اس پہلی نظر کے بعد دیکھنا حرام ہے۔مغرب میں روز مرہ کی زندگی میں کسی مرد کا ہر دن ہی کسی ستر کھولی عورت سے واستہ پڑتا رہتا ہے۔گاڑی چلاتے یا پیدل چلتے تو یہ ممکن ہے کہ وہ صرف پہلی نظر ہی ڈالے لیکن کام کرنے کی جگہ ، اسکول اور بازاروں میں یہ عملاً ممکن نہیں۔
یہ ایک مرد کیلئے عملاً ناممکن ہے کہ وہ ستر پر نظر پڑے بغیر دفتر میں موجود اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ کام کر سکے۔ اگر ایک بار اس کی ستر پر نظر پڑ گئی، تو اگلی ہر بار کیلئے اسے یا تو آنکھیں بند رکھنی پڑیں گی یا زمین کی جانب نگاہ رکھنی پڑے گی۔میں یہاں خواہش کے ساتھ دیکھنے کی بات نہیں کر رہا۔شاید وہ خاتون ساتھی بدصورت ہو لیکن دفتری کام کرنے کیلئے مرد کو اس کے ستر کی جانب دیکھنا ہی پڑے گا لیکن اسے تو صرف ایک ہی دفعہ دیکھنے کی اجازت ہے(جیسے میں سمجھتا ہوں)۔
ایک مسلمان طالبِ علم اپنی کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا جہاں خاتون استانی اپنا ستر ظاہر کیے ہوئے ہے۔کلاس کے شروع میں اسے دیکھنے کے بعد باقی تمام سبق کے دوران اس کی جانب دیکھنا جائز نہیں ہو گا، چاہے وہ عمر رسیدہ یا بدصورت ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ اپنا ستر ظاہر کر رہی ہے جسے دیکھنا حرام ہے۔
بازاروں میں بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ مرد عورت کے ساتھ معاملہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ وہ زمین کی جانب دیکھے یا اپنی آنکھیں بند رکھے۔ اگر وہ بدصورت بھی ہو ، تو بھی وہ اس کے ستر کی جانب نہیں دیکھ سکتا۔
میرا سوال:
کیا میرا سمجھنا درست ہے کہ غیر محرم عورت کے ستر کی جانب دیکھنا حرام ہے، سوائے پہلی نظر کے، چاہے وہ بدصورت ہی کیوں نہ ہو ، بالکل ویسے ہی جیسے کسی مرد کے ستر کی جانب دیکھنا حرام ہے اگرچہ اس کی طرف کوئی کشش نہیں؟ اگر یہ حرام ہے تو کیا ستر کھولی خواتین کے ساتھ کام کاج کرنا معاملے کے حساب سے، بالضرورۃ جائز ہے؟
کیا آپ پہلی نظر کی عملی طور پر وضاحت کر سکتے ہیں؟
کیا آپ نظریں نیچی رکھنے"یغضوا ابصارھن/ابصارھم" کو عملاً واضح کر سکتے ہیں اور یہ کب کرنا چاہیے؟
جزاکم اللہ خیراً عزیز شیخ۔
منجانب: سیف الدین عبداللہ۔ اختتام
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جہاں تک اسلام نافذ نہ کرنے والے ممالک میں موجودہ حالات میں ہر طرف پھیلی بے پردگی کی بات ہے جس سے بچنا مشکل ہے، ان حالات میں اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں دو احکامات دیے ہیں:
پہلا: ہم نظریں نیچی کریں یعنی نظر وں کو اس طرح نیچے رکھیں کہ چل سکیں اور اپنے کام کر سکیں۔۔۔
دوسرا: ہم اچانک نظر پڑنے کے بعد دوبارہ نظر نہ دوڑائیں۔۔۔
اس مسئلے کو ہم نے اسلام کا معاشرتی نظام(کتاب) میں تفصیل سے بیان کیاہے، آپ کے سوال کے جواب میں ہم بیان کرتے ہیں:
(۔۔۔جب سے مغربی تہذیب نے ہم پر یلغار کی ہے اور مسلمانوں کے علاقوں میں کفریہ نظاموں کے ذریعے حکمرانی کی جانے لگی ہے غیر مسلم عورتیں تقریبا برہنہ ہوکر باہر نکلنے لگی ہیں جن کے سینے، کمر، بازو اورٹانگیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کی نقالی میں بعض مسلم عورتیں بھی اسی طرح کے لباس میں باہرنکل آتی ہیں یہاں تک کہ بازار میں چلنے والی یا دوکان میں کھڑی خریدوفروخت کرنے والی عورت میں مسلمہ اور غیر مسلمہ کا فرق مشکل ہوگیا ہے۔
ان شہروں میں رہنے والے مسلمان مردوں کیلئے اپنے بل بوتے پر اس منکر کا خاتمہ ناممکن ہو گیاہے۔ اس بے ستری سے نظریں بچا کر ان شہروں میں رہنا بھی ان کیلئے نا ممکن ہو گیا ہے۔ کیونکہ طرز زندگی اور رہائشی مکانات کی شکل کی وجہ سے مردوں کی نظر عورتوں کے ستر پر پڑنا ناگزیر تھا، اس لیے کسی بھی مرد کے لیے عورتوں کے ستر سے نظروں کو بچانا ممکن نہیں، چاہے ان کے سینوں، بازوؤں، کمر، پنڈلیوں اور بالوں کو نہ دیکھنے کی جتنی بھی کوشش کرے، سوائے یہ کہ اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے اورباہر نہ نکلے۔ایسا تو ممکن نہیں کیونکہ مرد کو خریدوفروخت، اجارہ، کام کاج وغیرہ سے متعلق زندگی کی ضرورتوں میں لوگوں کے ساتھ تعلقات کی ضرورت ہے۔ان تمام کاموں کو ستر پر نظر پڑے بغیر کرنا اس کیلئے ممکن نہیں ۔
لیکن ایسی خواتین کی طرف دیکھنے کی حرمت قرآن و سنت کی صریح نص سے ثابت ہے پھر انسان کیا کرے؟ اس مسئلے سے نکلنا صرف دوصورتوں میں ممکن ہے:
ایک یہ کہ اچانک نظر پڑنا جو راہ چلتے نظر پڑتی ہے۔ اس صورت میں (ستر پر)پہلی غیر دانستہ نظر معاف ہے مگروہ دوبارہ نظر نہیں ڈال سکتا، جیسا کہ جریر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ نَظْرَةِ الْفُجَاءَةِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي
"میں نے رسول اللہ ﷺ سے اچانک نظر پڑنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے مجھے نظر پھیر لینے کا حکم دیا"(مسلم)۔
علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّمَا لَكَ الْأُولَى، وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ
"نظر پڑنے کے بعد دوبارہ نہیں دیکھنا چاہیے، پہلی نظر جائز ہے مگر دوسری نہیں"۔ اس کو احمد نے بریدہؓ سے روایت کیا ہے۔
دوسری صورت ایسی عورت سے بات کرنے کی ہے جس کیلئے سرنہ ڈھانپنا اور بازو کھلے رکھنا عادت بن چکی ہے، اس سے نظریں ہٹانا اور نگاہ نیچی رکھنا واجب ہے۔ بخاری نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ : »كَانَ الْفَضْلُ رَدِيفَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ«" فضل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر بیٹھے ہوئےتھے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگےاور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا"۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ﴾"مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں"(النور:30)۔ اس آیت میں غضُّالبصر سے مراد نظروں کو کم کرناہے(خفض –to lesson, to curtail)۔ یوں روز مرہ کے کام کاج کے دوران مرد کیلئے اس کا حل نظروں کو کم کرناہےجیسے کسی عورت کے ساتھ ضروری گفتگو میں، یا گاڑی میں سفر کے دوران یا سخت گرمی کی وجہ سے سائے میں کھڑے ہوئے۔ کیونکہ اس قسم کے کام مردوں کی عام زندگی کی روزمرہ ضروریات ہیں، جو ناگزیر ہیں اور وہ خواتین کی ستر کھولنے کی مصیبت کو ٹال بھی نہیں سکتا ،لہٰذا اسے آیت پر عمل کرتے ہوئے نظریں نیچی (کم)رکھنی چاہیے، اس کے علاوہ کچھ کرنا اس کے لیے جائز نہیں۔
یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ مشکل عام ہو چکی ہے اور اس سے بچنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ قاعدہ شریعت سے متصادم ہے۔عام مشکل بن جانے کی وجہ سے حرام کبھی حلال نہیں ہوتا، نہ ہی اس وجہ سے کبھی حلال حرام ہوجاتا ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کہ چونکہ یہ عورتیں کافر ہیں تو ان سے باندیوں کا معاملہ کیا جائے گا، ان کا ستر باندی کا ستر ہے، کیونکہ عورت کے بارے میں حدیث عام ہے جو تمام خواتین پر لاگو ہے، حدیث میں مسلم عورت نہیں کہا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: » إنَّ الْجَارِيَةَ إذَا حَاضَتْ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إلَّا وَجْهُهَا وَيَدَاهَا إلَى الْمِفْصَلِ«" لڑکی جب بالغ ہو جائے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آنا چاہیے"، یہ عورت کے ستر کو دیکھنے کی صریح حرمت ہے، چاہے وہ عورت مسلم ہو یا غیر مسلم اور اس کا تمام حالات میں عمومی اطلاق ہے۔ کافر عورت کو باندی پر قیاس نہیں کیا جائے گا کیونکہ قیاس کی کوئی وجہ نہیں۔
۔۔۔ شہروں میں رہنے والے ان افراد کو جو معاشرے میں گھل ملنے پر مجبور ہوتے ہیں یا اپنا ستر کھلا رکھنے والی کافرعورتوں سے لین دین، خرید وفروخت، ان کے ساتھ بات چیت، ان سے کرایے پر کچھ لینے یا کرایہ پر دینے یا ان کو کچھ بیچنے وغیرہ پر مجبور ہوتے ہیں، ان کو اس دوران نظریں کم رکھنی چاہیے، اور بقدر ضرورت اور مجبوری ہی لین دین کرنا چاہیے) ۔اقتباس ختم ہوا۔
امید کرتا ہوں یہ جواب آپ کے سوال کےلیے کافی ہوگااور اللہ ہی زیادہ علم وحکمت والا ہے۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
9 ذی الحجہ 1442ھ،بمطابق 19 جولائی 2021ء