الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

خراجی زمین کے وقف پر محصول

یوسف ابو اسلام کے لیے

 

سوال:

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں آپ کے علم سے فیضیاب کرے۔محترم شیخ، میرے دو سوال ہیں۔ پہلا یہ کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ شخص جو وقف کررہا ہے، وہ وقف کی گئی ملکیت کے عین کا مالک ہوگا ؟ دوسرا یہ کہ کیا عشری زمین اور خراجی زمین کے درمیان وقف کے حوالے سے مختلف شرعی احکامات ہیں ؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اور ہماری حزب پر آپ کی زندگی اور صحت کے ذریعے برکتیں نازل کرے اور لوگوں کے دلوں کو آپ کے وسیلے سے کھول دے۔

 

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاۃ

 

اول : خراجی زمین کے  وقف کے حوالے سے علماء کی رائے  مختلف ہے:

 

1) کچھ اس زمین کے وقف کی اجازت دیتے ہیں جس پر عمارت یا فصل موجود ہو، تو اگر ایک شخص جو  خراجی زمین کا  مالک ہو، اس پر سکول بناتا ہے، وہ اس کو طلباء کے لیے وقف کرسکتا ہے، یا وہ مثال کے طور پر  زیتون کے درخت لگاتا ہے،  تو وہ اس کے پھل (فصل) کو فقراء اور مساکین کے لیے وقف کرسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ یہ وقف مستقل ہو:

 

کویتی فقہ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق:

ابن عابدین نے الخسف سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: " بازار میں دکانوں کو وقف کرنے کی اجازت ہے ، اگر زمین کی ملکیت ان کے پاس ہے جنہوں نے اس کو کرائے پر لے کر بنایا، اور اگر سلطان (جس کے پاس حکمرانی ہے) ان کو وہاں سے بے دخل نہیں کرتا، اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا تصرف ان کے پاس ہے جو ان عمارتوں کے مالک ہیں، اور وہ اس کی وراثت میں شامل ہیں اور اس کے مطابق آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ سلطان ان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں پریشان کرتا ہے، بلکہ وہ اس سے حاصل ہونے والی پیداوار کو لیتا ہے  اور اس کو آگے بڑھاتا ہے، جو کہ پچھلی نسلوں سے چلتا آرہا ہے اور اس پر کئی زمانے گزر گئے، اور وہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہورہے ہیں ، خرید و فروخت کے ذریعے اور کرائے کے ذریعے، اور یہ ان کی وصیت میں شامل ہے۔وہ عمارتوں کو توڑتے ہیں ، نئے سرے سے نئی اور دیگر عمارتیں بناتے ہیں ، اس میں بھی وقف کی اجازت ہے"۔ابن عابدین نے کہا کہ انہوں نے الفتح میں اس کی اجازت دی ہے، اور اس کو جاری رکھنے کی علت تسلسل ہے۔اور اگر زمین پر فصل لگائی جائے تو اس کے وقف کا حکم وہی ہے جو عمارت کا حکم ہے، لیکن اگر وہ زمین کو صرف کھودتا  ہے یا کھاد بناتا ہے، تو اس کو وقف بنانے کی اجازت نہیں۔

 

2) دیگر علماء وقف کی اجازت منفعت کی بنیاد پر کرتے ہیں، پھر چاہے وہ منفعت عارضی ہی کیوں نہ ہو۔تو اگر ایک شخص نے اپنے گھر کو ایک سال کے لیے کرائے پر چڑھایا، تو وہ اپنے گھر کو ضرورت مندوں کے لیے وقف کرسکتا ہے ، اس مقررہ مدت کے لیے جس کا تعین کرائے کے عقد میں طے ہوا، یا وہ فصل کی کٹائی کی مدت تک کے لیے فصل کے کرائے کو وقف پر دے سکتا ہے ، ان ضرورت مندوں کو، جن کے ساتھ کرائے کا معاہدہ طے پایا، یعنی یہ کہ وہ منفعت کی بنیاد پر وقف کی اجازت دیتے ہیں ، بنا اس شرط کے کہ یہ مستقل ہو، بلکہ یہ عارضی فائدے کے لیے بھی ہو سکتا ہے:

 

کویتی فقہ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق: حنفی، شافعی، حنبلی جمہور علماء منفعت کی بنیاد پر وقف کو جائز قرار نہیں دیتے، کیونکہ وہ یہ شرط لگاتے ہیں کہ وقف کے طور پر دی گئی املاک (موقوف) کوئی ایسی چیز ہو جس سے فائدہ حاصل کیا جا سکے جب کہ اس کا اصل عنصر برقرار رہے، ساتھ ہی انہوں نے وقف کے مستقل ہونے کی شرط بھی رکھی(1)۔جبکہ مالکی علماء منفعت کی بنیاد پر وقف کو جائز قرار دیتے ہیں، تو اگر ایک شخص اپنے گھر کو مقررہ مدت کے لیے کرائے پر چڑھاتا ہے، اس کے لیے اس مدت میں اس کی منفعت کو وقف کرنا جائز ہے، اور کرایہ کی مدت ختم ہونے پر وقف ختم ہو جائے گا، کیونکہ ان کے نزدیک وقف کا مستقل رہنا شرط نہیں (2)۔

 

(1) المغنی المحتاج  2/377، شرح  منتہیٰ الارادت2/492 ، البدائع 6/220، حاشیہ ابن  عابدین 3/359

(2) حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر4/76، الشرح الصغیر 2/298، الحلابی

 

دوم : ایک اور اہم رائے یہ ہے کہ وقف جائز نہیں ہے جب تک کہ اراضی (رقبہ) مستقل طور پر وقف کرنے والے (واقف) کی ملکیت نہ ہو۔ اس سلسلے میں وزنی دلائل کی وجہ سے ہم اس رائے کو درست سمجھتے ہیں ، اور اس کی وضاحت یہ ہے:

 

1) مقدمہ دستور جلد دوم کی شق 133 میں ہم یہ بیان کرتے ہیں:

"عشری زمین ہو یا خراجی دونوں کی خریدو فروخت اور انہیں بطور میراث حاصل کرنا جائز ہے۔ کیونکہ زمین کسی بھی دوسری ملکیت کی طرح مالک کی حقیقی ملکیت ہوتی ہے اور ملکیت کے تمام احکام اس پر نافذ ہوتے ہیں۔  عشری زمین کا معاملہ تو واضح اور ظاہر ہے۔  تاہم خراجی زمین بھی ملکیت کے حوالے سے بالکل عشری زمین کی طرح ہے ان دونوں زمینوں میں سوائے دو باتوں کے اور کوئی فرق نہیں۔  پہلی بات عین کے مالک ہونے کے حوالے سے ہے دوسری بات یہ ہے کہ زمین پر کیا واجب ہے(عشر یا خراج)۔

 

  جہاں تک عین کی ملکیت کی بات ہے تو عشری زمین کا مالک عین اور فائدہ (پیداوار) دونوں کا مالک ہوتا ہے جبکہ خراجی زمین کا مالک صرف زمین کی پیداوار کا مالک ہوتا ہے ۔ اس لیے عشری زمین کا مالک جب چاہے اپنی زمین وقف کر سکتا ہے کیونکہ وہ اصل اور پیداوار دونوں کا مالک ہے جبکہ خراجی زمین کا مالک اس زمین کو وقف نہیں کر سکتا کیونکہ وقف کرنے کے لیے شرط ہے کہ وقف کرنے والا اس عین یعنی اصل کا مالک ہو جس کو وہ وقف کر رہا ہے اور خراجی زمین کا مالک چونکہ زمین کا مالک نہیں بلکہ صرف پیداوار کا مالک ہے زمین کا مالک بیت المال ہے۔

 

عشری زمین پر عشر اور نصف عشر واجب ہے۔  دوسرے الفاظ میں زمین کی پیداوار اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پرزکوٰۃ ہے ،جبکہ خراجی زمین پرخراج یعنی ریاست کی جانب سے سالانہ کے حساب سے مقرر کیا ہوا مال ہے" ۔اقتباس ختم ہوا۔جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خراجی زمین میں وقف جائز نہیں ہے کیونکہ وقف کے لیےزمین کے عین کی ملکیت ضروری ہے، جبکہ خراجی زمین کا عین (رقبہ) کی ملکیت بیت المال کے پاس ہوتی ہے، اس لیے وہ اس کے عین کا مالک نہیں بلکہ اس کی پیداوار کا مالک ہوتا ہے۔

 

2) ہم نے اس موضوع سے متعلق پچھلے سوال و جواب جو مؤرخہ 13 فروری 2019 کو شائع ہوا،  جس کا آپ اپنے سوال میں حوالہ بھی دے رہے ہیں، اس میں بیان ہوا ہے کہ :"۔۔۔ مثال کے طور پر، وقف کے لیے زمین  کی ملکیت ضروری ہے، اس لیے اگر عشری زمین کا مالک اسے بطور صدقہ دینا چاہتا ہے، تو اسے اجازت ہے کہ وہ جب چاہے ایسا کرسکتا ہے۔ البتہ خارجی زمین کا مالک ایسا نہیں کرسکتا ، کیونکہ کسی چیز کو بطور وقف دینے کے لیے شرط ہے کہ اسے صدقہ کرنے والا خود اس چیز کا مالک ہو، اور خارجی زمین کا مالک زمین کے عین کا مالک نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ صرف اس کی پیداوار کا مالک ہوتا ہے، کیونکہ زمین کی عین کی ملکیت   بیت المال کے پاس ہوتی ہے"۔اقتباس ختم ہوا۔

 

3) جہاں تک وقف کے جائز ہونے کی شرط کے طور پر زمین کے عین (رقبہ) (اصل ملکیت جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے) کے  دلائل کا تعلق ہے ، تو وہ مندرجہ ذیل ہے:

 

بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ :  عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر میں ایک زمین حاصل کی، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اس کے بارے میں آپ سے مشورہ طلب کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے خیبر میں ایک زمین ملی ہے اور میرے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں۔ آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا (إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا) "اگر تم  چاہو تو اصل زمین کو ایک طرف رکھ کر اس میں سے صدقہ کر سکتے ہو"۔چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے زمین صدقہ کر دی (اس شرط پر کہ اصل زمین نہ بیچی جائے گی، نہ تحفے میں دی جائے گی اور نہ ہی وصیت کی جائے گی، اور اس کی پیداوار غریبوں، رشتہ داروں، غلاموں کی آزادی، جہاد، اور مہمانوں اور مسافروں کے لیے استعمال کی جائے گی، اور اس کا منتظم معروف طریقے سے کھانا کھا سکتا ہے، اور اپنے دوستوں کو بھی کھلا سکتا ہے، اس نیت کے ساتھ کہ وہ مالدار نہیں ہونا چاہتا۔میں نے یہ حدیث ابن سیرین سے بیان کی تو انہوں نے کہا: مال کو ذخیرہ کیے بغیر تا کہ مالدار نہ بنا جائے۔

 

اور بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال میں سے کھجوروں کا ایک باغ تھمغ کو صدقہ کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! میرے پاس کچھ مال ہے جو مجھے بہت قیمتی ہے  اور میں اسے صدقہ میں دینا چاہتا ہوں"۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: (تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ لَا يُبَاعُ وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ) "اصل زمین صدقہ (یعنی وقف کے طور پر) اس شرط پر دو کہ اصل زمین نہ بیچی جائے گی، نہ تحفے میں دی جائے گی اور نہ ہی وصیت کی جائے گی، بلکہ پھل صدقہ میں خرچ کیا جائے گا"۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا، اور یہ فی سبیل اللہ ، غلاموں کی آزادی، غریبوں، مہمانوں، مسافروں اور رشتہ داروں کے لیے تھا۔ اس کا منتظم اس میں سے معروف اور منصفانہ طور پر کھا سکتا ہے، اور اپنے کسی دوست کو بھی اس میں سے کھلا سکتا ہے ، اس شرط کے ساتھ کہ وہ  اس کے ذریعہ مالدار بننے کی نیت نہ رکھے۔

 

اسی طرح مسلم نے اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر میں ایک زمین حاصل کی، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اس کے بارے میں آپ سے مشورہ طلب کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ کی طرف سے مجھے خیبر میں  ایک زمین ملی ہے اور میرے لیے اس سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: (إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا) "اگر تم چاہو تو اصل زمین کو ایک طرف رکھ کر اس میں سے صدقہ کر سکتے ہو''، عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا لیکن اصل کو نہ بیچا جائے نہ تحفہ دیا جائے اور نہ ہی وصیت کی جائے۔ انہوں نے کہا : ”عمر رضی اللہ عنہ نے اسے فقراء کو، رشتہ داروں کو، غلاموں کو آزاد کرنے اور مہمانوں کے لیے وقف کردیا۔ اس کا انتظام کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ اس میں سے کچھ معروف طریقے سے کھالے یا اپنے دوستوں کو کھلا دے اور (اپنے لیے) ذخیرہ نہ کرے۔ اس (راوی) نے کہا: میں نے یہ حدیث محمد سے بیان کی، لیکن جب میں (ان الفاظ ) تک پہنچا تو اس میں سے (اپنے لیے) ذخیرہ کیے بغیر۔ محمد نے کہا : "مال ذخیرہ کیے بغیر تاکہ مالدار نہ بنا جائے"۔ابن عون نے کہا: جس نے اس کتاب کو (وقف سے متعلق) پڑھا اس نے مجھے بتایا کہ اس میں (الفاظ ہیں) " مال ذخیرہ کیے بغیر تاکہ مالدار نہ بنا جائے"۔

 

چنانچہ احادیث نبویﷺ سے واضح ہے کہ وقف کی تخصیص ملکیت کے عین کو (ایک طرف رکھ کر) اس کے فائدے تک رسائی ہے۔ اور اس کی تخصیص   کا تقاضہ یہ ہے کہ ملکیت کی عین (رقبہ) اس شخص کے پاس ہو ، جو اس کو وقف کررہا ہو یعنی واقف ایک طرف رکھ کر اسے وقف کرے ، کیونکہ کوئی شخص ایسی ملکیت کا وقف نہیں کر سکتا جس کا وہ مالک نہ ہو۔پس ملکیت کو الگ کرنا صرف اس کے مالک کا حق ہے کیونکہ یہ اس زمین  کے عین  (رقبہ) میں تصرف ہے۔لہٰذا، اگر زمین  کی عین (رقبہ) کسی شخص کی ملکیت نہیں ہے، تو وہ اسے وقف کیسے کر سکتا ہے؟عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اس زمین (رقبہ) کے مالک تھے جسے رسول اللہﷺ نے ایک طرف رکھنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ اوپر کی احادیث میں بیان ہوا ہے۔کیونکہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے خیبر میں ایک زمین حاصل کی۔اور وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس بارے میں مشورہ طلب کیا۔عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا : یا رسول اللہ ﷺ مجھے خیبر میں   ایک زمین ملی ہے اور میرے لیے اس سے زیادہ قیمتی کوئی شے نہیں ہے۔آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟  یعنی وہ زمین عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھی اور وہ زمین کے مالک تھے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھنے کے لیے آئے کہ اس کا کیا معاملہ کیا جائے۔

 

لہٰذا یہ  ا حادیث وقف کی  شرعی حیثیت پر دلالت کرتی ہے کہ صدقہ کرنے والا خود اس چیز کا مالک ہونا چاہیے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی مبارک احادیث کے الفاظ ہیں : ( إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا..)، "اگر تم چاہو تو اصل زمین ایک طرف رکھ سکتے ہو ..." (تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ...)، "اصل زمین صدقہ میں دے دو..." (إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا) ، ، "اگرتم چاہو تو اصل زمین کو ایک طرف رکھ سکتے ہو ..."اور چونکہ خارجی زمین کا عین مسلمانوں کے بیت المال کے پاس ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کے عین کا مالک نہیں ہوتا بلکہ صرف اس کی منفعت کا مالک ہوتا ہے۔اور چونکہ وہ اس کے عین کا مالک نہیں ہوتا ، کیونکہ اس کا عین بیت المال کے پاس ہوتا ہے ، تو وہ کیسے اس کو وقف کرسکتا ہے ؟

 

4) اس طرح ہم شرعی دلائل کی بنیاد پر ترجیح دیتے ہیں اور تبنی کرتے ہیں ، جو کہ یہ ہے کہ خراجی زمین کا وقف جائز نہیں،  لیکن اس کو بیچنا، اس کی پیداوار میں سے خیرات کرنا اور اس کی پیداوار میں سے صدقہ کرنا یا اس کی قیمت وصول کرنا اور وہ تمام کام جو شرعاً جائز ہیں، سوائے وقف کے کیونکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس کے لیے زمین کے عین (رقبہ) کی ملکیت  ہونی چاہیے، اور خراجی زمین کے عین کی ملکیت بیت المال کے پاس ہوتی ہے۔

 

سوم : جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ : "کیا عشری زمین اور خراجی زمین کے درمیان وقف کے حوالے سے مختلف شرعی احکامات ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں خراجی اور عشری زمین کے تصرف سے متعلق کوئی اور اختلاف نہیں ملا سوائے ان دو چیزوں کے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ، یعنی عشری زمین پر زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے  اور خراجی زمین  پر زکوٰۃ کب فرض ہوتی ہے، اور دوسرا مسئلہ عشری  زمین میں وقف کی اجازت اور خارجی  زمین میں وقف کی عدم اجازت ہے ۔

 

ہمارے نزدیک یہی سب سے  درست رائے ہے جس کی ہم نے تبنی کی ہےاور اللہ سبحانہ و تعالیٰ العلیم اور الحکیم ہیں۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

21 ربیع الثانی 1441 ہجری

بمطابق 18 دسمبر 2019 عیسوی

Last modified onبدھ, 24 جولائی 2024 07:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک