الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوالات کے جوابات

نیٹ ورک مارکیٹنگ (Network Marketing)کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا حکم

 

زیدگ اللہ اور حسیم عدنی

سوالات:

زیدگ اللہ کا سوال:

ہمارے جلیل القدر شیخ ! اسلام علیکم ورحمۃ اللہ ، میرا سوال نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی میں کام کرنے کے حوالے سے ہے ، اللہ آپ پرر حم کرے اور دعوت میں آپ کی مدد کرے۔

 

حسیم عدنی کا سوال:

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، میرا سوال  اس Q-netکمپنی کے حوالے سے ہے جو نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی مصنوعات کو فروخت کرتی ہے۔ سیلز مین  ایک نیٹ ورک میں جتنےگاہگ بناتا ہے اتنا ہی اس کا کمیشن بڑھ جاتا ہے چاہے وہ چیز کو بیچنے کے لئے سرے سے کوئی کوشش ہی نہ کرے۔ یہ تجارت اسلامی ممالک اور عرب ممالک میں عام ہو رہی ہے  اس کے بارے میں آگاہ کیجئے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جس کا نمبر 100 ہے وہ چیز فروخت کرتاہے ، پھر اس نیٹ ورک کا بنانے والا اس کا کمیشن وصول کرتا ہے جبکہ اس نے کوئی خاص کوشش نہیں کی ہوتی لیکن وہ یہ قیمت وصول کرتا ہے کیونکہ وہ اس نیٹ ورک کو بنانے والا ہے یا اس سیلز نیٹ کو بنانے والوں میں سے ایک ہے۔ برائے مہربانی اس کا جواب دیں کیونکہ اس قسم کی فروخت (سیلز) پوری مسلم دنیا، جس میں عرب دنیا بھی شامل ہے ، میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

 

جواب:

  آپ دونوں کو وعلیکم و سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ کے سوالات کا ایک ہی موضوع ہے اوراگر چہ  آپ نے موضوع کی تفصیل نہیں بتائی ، تا ہم اس قسم کا کاروبار عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے متعددعلاقوں سے مجھے سوالات موصول ہوئے ہیں۔ میں جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے بعض سوالات کا ذکر کروں گا  تا کہ صورت حال واضح ہو  پھر  اس کے بارے میں جواب دوں گا۔

 

  جنوب مشرقی ایشیا سے سوال:

      میڈکل پروڈکٹس کی تجارتی کمپنی اپنے  خریداروں کے ساتھ  مندرجہ ذیل طریقے سے لین دین کرتی ہے:

    جب ایک گاہک  ایک چیز خرید لیتا ہے  تو اسے   دو خریداروں سے کمیشن کمانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے جن کو وہ کمپنی کے پاس لے کر آتا ہے۔ پھر جب یہ دو خریدار کمپنی کی کوئی چیز خرید لیتے ہیں تو انہیں بھی یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دو دو خریدار کمپنی کے پاس لے کرآئیں ۔ اس کے ساتھ ہی پہلے خریدار کو ان چاروں پر   اضافی کمیشن لینے کا حق بھی حاصل ہوجا تا ہے جن کو وہ دو خریدار لے کر آئے تھے جنہیں پہلا خریدار لایا تھا ۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے؟

وسطی ایشیا سے سوال:

   ہمارے ہاں  ایک تجارتی کمپنی کویسٹ نیٹ (Quest Net)  مندرجہ ذیل طریقے سےلین دین کر تی ہے :

 

کویسٹ نیٹ کے پاس چیزیں ہیں۔۔۔جو بھی ان چیزوں کے لیے مارکیٹنگ کر نا چاہتا ہے تو کمپنی اس کے لیے یہ شرط رکھتی ہے  کہ وہ پہلےان چیزوں میں سے کوئی چیز خرید ے ۔ان چیزوں کوخریدنے کے بعد اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کمپنی سے چیزیں خریدنے کے لیے لاسکتا ہے اور اس کے عوض اسے کمیشن ملتا ہے۔ اگر وہ چھ لوگوں کو قائل کرلیتا ہے کہ وہ اس کمپنی سے چیزیں خرید لیں تو کمپنی اس کو کمیشن میں250   ڈالر دیتی ہے اور یہی تسلسل جاری رہتا ہے۔   مثال کے طور پر  مارکیٹنگ کر نے والا پہلا شخص  دو بندوں کو قائل کر تا ہے اور وہ  کمپنی کی کوئی چیز خرید لیتے ہیں ، جس کے بعد یہ دو خریدار مزید دو دو خریدار لاتے ہیں اور اس طرح کُل چھ خریدار ہوجاتے ہیں۔ اب پہلے خریدار کو  250 ڈالر ملتے ہیں جبکہ دوسرے دو خریداروں کو کچھ نہیں ملتا جب تک ان میں سے ہر ایک چھ خریدار اور نہ لے آئے اور پھر ان دونوں کو بھی 250 ڈالر ملتے ہیں جبکہ پہلے والے خریدار کو 500 ڈالر ملتے ہیں کیونکہ یہ سب اسی کے پیروکار ہوتے ہیں۔

 

یہ تب ہو تا ہے کہ اگر خریدار کو  کمپنی کی چیزوں کی مارکیٹنگ کرکے کمیشن کمانے میں دلچسپی ہو ۔ یہی ان چیزوں کو خریدنے کا محرک ہے  یعنی کمانے کی توقع۔ اسے اس کمپنی کی چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی  کیونکہ  ان چیزوں کی اصل قیمت کمپنی کی طرف سے مقرر کی گئی قیمت کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں ہوتی۔

 

لیکن  اگر چیز خریدنے  والا اس چیز کی مارکیٹنگ میں کامیاب نہیں ہو تا یعنی  وہ دو خریدار لانے میں کامیاب نہیں ہوتا  تو   اس کے ہاتھ میں وہی ایک چیز آتی ہے جو اس نے انتہائی مہنگے داموں خرید ی ہوتی ہے اور اسے کمپنی سے کوئی رقم بھی نہیں ملتی۔اس کے نتیجے میں وہ  خریدار جو  دوسرے گاہک نہیں لا سکتے  یا خریداروں کی قطار میں آخر میں آتے ہیں  وہ نقصان میں رہتے ہیں۔ ہمارے خطے وسطی ایشیا میں یہ عام ہو رہا ہے۔کیا یہ کام جائز ہے؟

 

      مارکیٹنگ کرنے والے کی جانب سے لائے جانے والے گاہکوں کی تعداد کے مختلف ہونےکے باوجود، جنوبی مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا کے سوالات ایک ہی مسئلہ سےمتعلق ہیں ۔ یقیناً یہی آپ دونوں کے سوالات کی حقیقت بھی ہے اور  ان کا جواب ایک ہی ہے اور چونکہ  وسطی ایشیا کا سوال زیادہ جامع ہے  اس لیے جواب دیتے ہوئے اسی کو سامنے رکھو ں گا۔

 

"کویسٹ نیٹ" کمپنی کی حقیقت جاننے  اور لین دین میں ان کے اسلوب کے اختلاف کے باوجود  یہ ایک ہی نظریہ ہے ، وہ یہ کہ کمپنی  مارکیٹنگ کرنے والوں  کے ساتھ جو  خریدار"گاہک" لاتے ہیں  لین دین کر تی  اور  متعین شرائط کے مطابق ان کو کمیشن دیتی ہے، یعنی وہ کمپنی کے پاس  کمیشن والے ایجنٹ ہیں جو کمپنی کے لیے گاہک لاتے ہیں اور اس کا کمیشن لیتے ہیں۔۔۔اس پر غور کرنے سے  یہ واضح ہو جاتا ہے:

 

پہلا:

اس قسم کی کمپنیاں اس نیٹ ورک   مارکیٹنگ  کے ذریعے متعدد اشیاء میں   لین دین کرتی ہیں  اور یہ کمپنیاں اپنی مارکیٹنگ کر نے والوں کے لیے یہ شرط رکھتی ہیں کہ وہ  خود بھی ان چیزوں میں سے کوئی چیز خریدیں۔ اس کے بعد ہی  اس کو دوسرے گاہک لانے  کا حق حاصل ہو تا ہے اور اس کے بدلے اس کو کمیشن ملتا ہے"یعنی وہ کمپنی کا ایجنٹ ہو تا ہے  اور کمیشن لے کر اس کے لیے گاہک لاتا ہے"۔ وسطی ایشیا کے سوال کے مطابق جب تک وہ 6 گاہک نہیں لائے گا اس کو کمیشن نہیں ملے گا اور دوسرے سوال میں 2  گاہک لانے پر ملے گا۔ یعنی اس غرض کے لیے کمپنی کے مخصوص پروگرام کے مطابق ۔

دوسرے لفظوں میں  پہلا خریدار    ان دو یا چھ گاہکوں پر کمیشن لے گا  جو وہ لایا  جس میں  ان مزید 4 کا کمیشن بھی ہو گا جن کو پہلے دو گاہک  لائے یعنی پہلے شخص کو اب چھ کا کمیشن ملے گا۔   مارکیٹنگ کا یہ عمل"ایجنٹ بنانا"  اسی طرح جاری رہے گا ۔

 

دوسرا :

      لین دین کی یہ قسم شرع کے خلاف ہے  اس کی تفصیل اس طرح سے ہے:

1۔ کمپنی "مارکیٹنگ "کرنے والے کے لیے اپنی کسی چیز کو  خریدنے کی شرط عائد کر تی ہے تب ہی اس  کو کمپنی کا ایجنٹ بننےاور کمیشن لینے کا حق حاصل ہو تا ہے، یعنی وہ گاہک لا کر ان پر کمیشن لے سکتا ہے، چاہے یہ کمیشن  چھ گاہک لانے کے بعد ملے یا دو لانے کے بعد  ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ خریداری کا عقد(معاہدہ) اور ایجنٹ بننے کا عقد، دو عقود ہیں جن کو  ایک ہی  عقد میں یکجا کیا گیا ہے، یا دو  سودے ہیں  جن کو ایک ہی سودا بنا یا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے مشروط ہیں۔ یہ عمل حرام ہے۔

حدیث ہے کہ: نَهَى رَسُولُ اللهِ عَنْ صَفْقَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ "رسول اللہ ﷺ نے  دوسودوں کو ایک میں یکجا کر نے سے منع کیا ہے" (اس کو احمد نے  عبد الرحمن بن عبد اللہ  بن مسعودسے ان کے والد کے  حوالے سے نقل کیا ہے)۔   یہ گویا یوں ہے کہ  میں کہوں: اگر تم نے مجھے بیچ دیا تو  میں تم سے کرائے پر لوں گا  یا  تمہارے لیے ایجنٹ بنوں گا یا تم سےخریدوں گا وغیرہ ۔ واضح بات ہے کہ سوال  کے مطابق صورت حال ایسی  ہی ہے، ایک ہی عقد میں  فروخت اور ایجنٹ بننا دونوں شامل ہیں،  یعنی ایجنٹ کا کام کرنے کے لیے کمپنی سے خریدنا شرط ہےکیونکہ  کمیشن کے لیے مارکیٹنگ وہی کر سکتے ہیں ہیں جو کمپنی کی چیز خرید لیں۔

 

2 ۔  ایجنٹی فروخت کرنے والے  اور جو گاہک لارہا ہے کے درمیان  عقد ہے۔ اس عقد میں ایجنٹی کا کمیشن  اسی شخص کو ملتا ہے جو پہلے دو گاہک لایا تھا  پھر یہ  دو نوں مزید جو گاہک لائے تھے اس کا کمیشن بھی اسی کو ملتا ہے جبکہ   یہ ایجنٹی کے عقد کے خلاف ہے ۔

 

3 ۔ کمپنی سے خریدنے کی قیمت میں بھی انتہائی زیادتی ہے، یعنی خریدنے والے کو اس کا علم بھی ہوتا ہے مگر  ان "پیچیدہ" اسالیب کے نتیجے میں معاملہ دھوکے سے خالی نہیں جن کو کمپنی   اپنے کاروبار  کی ترویج کے لیے استعمال کرتی ہے  اور خریدار کو  کمپنی کی چیز کی بھاری قیمت ادا کرنے پر تیار کرتی ہے جو کہ حقیقی قیمت سے کہیں زیادہ ہو تی ہے ۔

 

یہ سب کچھ کمپنی کی جانب سے  خریدار کو سبز باغ دکھانے کی وجہ سے ہو تا ہے  کیونکہ اس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس چیزکو خریدنے سے  اس کو کمپنی کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کر کے کمیشن کمانے کا موقع ملے گا جو اس کے لائے ہوئے گاہکوں اور  اُن گاہکوں کے لائے ہوئے گاہکوں پر ملے گا ۔

مگر جب خریدار کوئی گاہک نہیں لاپاتا خاص کر وہ لوگ جو آخر میں آئے تو وہ دھوکے کھاچکے ہوتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹی سی چیز کی ایک بھاری قیمت ادا کر چکے ہو تے ہیں! دھوکہ اسلام میں حرام ہے۔

 

  رسول اللہ ﷺ نے فرما یا: الخَدِيعَةُ فِي النَّار "دھوکہ جہنم میں لے جاتا ہے" (اس کو بخاری نے  ابن ابی اوفی سے  نقل کیا ہے)۔

رسول اللہ ﷺ نے  خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے ایک آدمی سے یہ فرمایا: إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لاَ خِلاَبَةَ"جب کوئی چیز فروخت کرو تو یہ بتاو کہ اس میں کوئی دھوکہ نہیں" (اس کو بخاری نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)۔ خلابہ  دھوکے کو کہتے ہیں۔  یہ حدیث کی منطوق (الفاظ)ہے اوراس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ دھوکہ حرام ہے ۔ یو ں اس قسم کے سودے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ کویسٹ نیٹ کمپنی  کا معاملہ  جیسا کہ سوالات  میں واضح کیا گیا ہے   خلاف شرع معاملہ ہے۔ میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے  خلافت کے قیام کی  اور اسلام کے اقتصادی نظام کو نافذ کرنے کی ہمیں توفیق دے  جس میں   صاف ستھرے اقتصادی معاملات کو بیان کیا گیا ہے  جو  ریاست کے تمام شہریوں  کے لیے  خوشحال اور مطمئن زندگی  زندگی کی ضمانت ہے ۔ اللہ ہی طاقت اور حکمت والا ہے ۔

 

           والسلام علیکم ورحمتہ اللہ

        تمہارا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

4 ذی القعد 1436 ہجری بمطابق 19 اگست 2015  

Last modified onاتوار, 11 ستمبر 2016 04:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک