الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
قاعدہ: جس عمل کے بغیر واجب ادا نہیں ہو تا وہ بھی واجب ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

 سوالات کے جوابات

قاعدہ: جس عمل کے بغیر واجب ادا نہیں ہو تا وہ بھی واجب ہے

حدیث مشہور کی تعریف

بکر الشرباتی کو جواب

سوال :

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،

میرے کچھ سوال ہیں جن کو میں ہمارے فاضل عالم  حفظہ اللہ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اوریہ دونوں سوال کتاب  اسلامی شخصیت کی تیسری جلد سے متعلق ہیں۔

پہلا سوال "جس عمل کے بغیر واجب ادا نہیں ہو تا وہ عمل بھی واجب ہے" کے موضوع  کے حوالے سے ہے۔ کتاب میں آیا ہے کہ :"جس چیز کا وجوب  اس (عمل) کے ساتھ مشروط ہو  اس میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ  شرط کا حصول واجب نہیں بلکہ واجب صرف  وہ ہے جس کے وجوب کی دلیل  آئی ہے  جیسا کہ کوئی متعین نماز جو کہ طہارت کے وجود کے ساتھ مشروط ہے۔۔۔" یہ جملہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس مثال میں ابہام ہے کیونکہ طہارت  نماز کے وجوب میں شرط نہیں بلکہ   صرف اس کی ادائیگی میں شرط ہے۔ میں نے اصول کی بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ وہ  اس عبارت کے لیے مثال  حج کی نسبت استطاعت کی دیتے ہیں یا زکواۃ کے نصاب کے لیے سال کے گزرنے کو دیتے ہیں۔  یہ مثالیں مجھے  مقصد کے زیادہ قریب معلوم ہوئیں، آپ کی  کیا رائے ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے؟

دوسرا سوالحدیث مشہور کے موضوع کے حوالے سےہے: کتاب کی دوسریجلد میں مشہور حدیث کی تعریف یوں ہے: "وہ حدیث جس کو صحابہ﷢کی اتنی تعداد روایت کرے  جو تواتر کے لئے کافی نہ ہوں لیکن تابعین کے عہد اور تبع تابعین کے عہد میں روایات کی تعداد تواتر تک پہنچ جائے" پھر کتاب کے تیسرےحصے میں تبدیلی کی گئی کہ :"وہ حدیث  جس کو  تمام طبقات میں تین  یا تین سے زیادہ نے روایت کیا ہو  اور تعداد تواتر کی حد تک نہ پہنچے"۔ میرا اشکال یہ ہے کہ تعریف کے بعد باقی تشریح اور مشہور حدیث کی مثالکتاب کی دوسریجلد کے مطابق ہی ہے، یہ پہلی تعریف ہی کی تشریح  اور تعریف ہے  نئی تعریف نہیں ہے۔ اللہ آپ کو بہترین جزا دے اور برکت دے ۔ختم شد

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

اول: جس کے بغیر واجب ادا نہ ہو تا ہو وہ بھی واجب ہے کا موضوع

محترم بھائی  جیسا کہ آپ کو معلوم ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ  موضوع کی ابتدا "جس کے بغیر  واجب ادا نہیں ہو تا ہے " سے ہے۔ حدیث  واجب کے نفاذ کے بارے میں ہے  نہ کہ وجوب یا ندب یا اباحہ کے حکم شرعی کے اثبات کے بارے میں۔۔۔ پس موضوع واجب کا نفاذ ہے۔  چنانچہ اگر واجب کے نفاذ کی تکمیل کسی معین امر کے بغیر نہ ہو تی ہو تو   یہ امر  بھی واجب ہو گا جب قاعدے کی شرائط مکمل ہوں۔ میں بات کو دہراتا ہوں کہ  موضوع   واجب کی تنفیذ کے بارے میں ہے  اس کے واجب ہونے کی دلیل کے بارے میں نہیں۔ کتاب میں جو کچھ آیا ہے اس کو اسی بنیاد پر سمجھا جانا چاہیے ۔اس حوالے سے کتاب میں جو کچھ آیا ہے میں اس کا ذکر بھی کر تا ہوں تا کہاس معاملے کو اسی سیاق و سباق میں سمجھا جاسکے۔

"جس کے بغیر واجب ادا نہیں ہوتا، اس کی دو قسمیں ہیں:ایک یہ کہ  جس کا وجوب  اس چیز سے مشروط ہو، دوسرا یہ کہ جس کا وجوب اس سے مشروط نہ ہو، یعنی اس چیز سے ۔جہاں تک  اس کا تعلق ہے  جس کا وجوب  اس کے ساتھ مشروط ہے  تو اس میں کوئی اختلاف نہیں  کہ شرط کا حصول واجب نہیں، بلکہ واجب صرف وہ ہے  جس کے وجوب کے بارے میں دلیل آئی ہے، جیسا کہ کسی معین نماز کا وجوب، جو کہ طہارت کے وجود سے مشروط ہے۔  نماز کے خطاب میں طہارت واجب نہیں، بلکہ یہ صرف  واجب کی ادائیگی کے لیے  شرط ہے"۔

اب میں اس کی طرف آتا ہوں جس کے بارے میں آپ نے استفسار کیا ہے وہ ہے "متعین نماز کا وجوب،جو کہ طہارت کے وجود کے ساتھ مشروط ہے"، آپ نے سوال میں کہا ہے کہ :

"اس مثال میں ابہام ہے  کیونکہ طہارت  نماز کے وجوب میں شرط نہیں  بلکہ صرف اس کی ادائیگی میں شرط ہے"۔ یہ بات درست ہے، لیکن   کتاب میں مذکور بات اس سے متناقض نہیں  اگر اس سیاق کا آپ ادراک کریں جس کا اس میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ بات اس اصول کے سیاق میں ہے کہ "جس کے بغیر واجب مکمل نہیں ہو تا"، اور وہ جملہ  جو آپ کے لیے مشتبہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ، "کسی متعین نماز کی تکمیل طہارت کے وجود سے مشروط ہے"، یعنی نماز کی تنفیذ  طہارت کے وجود کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ  پھر اس  اضافت کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا،یعنی  یہ ذکر کیوں نہیں کیا گیا کہ " کسی متعین نماز کی تکمیل "۔ جواب یہ ہے کہ  بحث ہی   واجب کی تکمیل کی ہو رہی ہے  نہ کہ اس عمل کے واجب ہونے کے دلائل کی ۔

  کسی معین چیز کی طرف اشارہ کرنا  جب سیاق اس پر دلالت کر تا ہو، یہ بات اصول کی کتابوں میں متعارف  ہے، یہاں سیاق اس پر دلالت کر تا ہے، جیسا کہ آپ فقرے کے آخر میں دیکھ رہے ہیں  جس کو ہم نے الشخصیۃ کتاب  جلد سوم  سے نقل کیا ہے جس کی نص یہ ہے:" ۔۔۔ پس طہارت  نماز کے خطاب کی حیثیت سے تو  واجب نہیں ، بلکہ یہ صرف واجب کی ادائیگی  کے لیے شرط ہے"۔   اسی کا آپ نے اپنے سوال میں یہ کہہ کر ذکر کیا ہے کہ : "کیونکہ طہارت نماز کے وجوب کے لیے شرط نہیں  بلکہ صرف اس کی ادائیگی کے لیے شرط ہے"،  کیا یہ بعینہ وہ نہیں جس کا ذکر کتا ب میں کیا گیا ہے اللہ آپ پر رحم کرے؟

جیسا کہ میں ابھی کہہ چکا ہوں  اصول  کی کتابوں میں  یہ عام بات ہے کہ  جب سیاق اس پر دلالت کر تا ہو تو کسی متعین  چیز کی طرف اشارہ کر کے مختصر بات کی جا تی ہے، اور یہ انداز واضح ہے جب وہ اس اصول یعنی "جس چیز کے بغیر واجب ادا نہیں ہو تا وہ چیز بھی واجب ہے " کے بارے  بات کر تے ہیں، مثال کے طور پر  ابو حامد الغزالی الطوسی  اپنی کتاب  المستصفی   میں "مالا یتم الواجب الا بہ"کے مسئلے کے باب میں  کہتے ہیں کہ : "نماز میں طہارت   کے واجب ہو نے  کا معنی  نماز کے واجب ہو نے کی طرح ہے"، اور یہ بات واضح ہے کہ  اس معنی میں کہ :"جیسا کہ  نماز کی تکمیل کے واجب  کے لیے طہارت کا واجب ہو نا ہے "،  یعنی نماز کی ادائیگی ، کیونکہ نماز کا،بطور حکم شرعی واجب ہونا دلیل پر موقوف ہے  طہارت   کے واجب ہونے پر موقوف نہیں۔

مثلاً الآمدی جو کہ الاحکام فی اصول الاحکام کے مصنف ہیں، اس مسئلے :"ما لا یتم الواجب الا بہ"میں  اس واضح شکل میں تشریح کر تے ہوئے کہتے ہیں :"اگر شارع یہ کہے کہ  اگر تم پاک ہو تو میں نے تم پر نماز  کو واجب کردیا" تو واضح ہے کہ اس فرمان کا مقصد یہ ہے کہ :"اگر تم پاک ہو تو میں نے نماز کی ادائیگی کو تم پر واجب کر دیا"۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا    مقصد  یہ ہے کہ طہارت  نماز کی ادائیگی  کے لیے شرط ہے اس کے وواجب ہونے کے لیے نہیں، لیکن کلام کا سیاق "ما لا یتم الواجب الا بہ " اس وجوب کی تکمیل   یا ادائیگی کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں  کیونکہ یہ سیاق میں ہی واضح ہے۔

ایک اور مثال  جو  سلیمان بن عبد القوی  الطوفی الصر صری  کی شرح مختصر الروضۃ  سے  "مالا یتم الواجب الابہ" کے مسئلے کے بارے میں ہے جس  میں وہ کہتے ہیں کہ :"جیسا کہ نماز کےقیام کا طہارت پر موقوف ہو نا" شایدسلیمان بن عبدالقوی اپنے بیان میں باقی  دونوں صاحبوں  سے  کچھ زیادہ واضح ہیں۔  انہوں نے "قیام" کہا  "وجوب" کا ذکر نہیں کیا،  مگر  سب کا مقصد  نماز کی ادا ئیگی ہے کیونکہ سیاق اس پر دلالت کر تا ہے۔  قاعدہ یہ ہے"ما لا یتم الواجب الا بہ" اور یہ بات ہی ادائیگی کے بارے میں ہے۔

مثال کے طور پر   ابن بدران  کی المدخل الی مذھب الامام احمد میں "ما لایتم الواجب الا بہ" کے مسئلے  میں انہوں نے مقصد کو سب سے زیادہ  واضح طور پر بیان کیا ہے ، وہ کہتے ہیں :"جان لو  اس مسئلے کے دو ملاحظے ہیں  پہلا  جو واجب کے وجوب پر موقوف ہوتا ہے  اور یہ واجب نہیں  اس پر اجماع ہے چاہے  یہ سبب ہو یا شرط ہو یا  کسی مانع کی نفی ہو پس سبب  جیسا کہ  نصاب ہے جس پر زکوۃ  کا وجوب موقوف ہے۔۔۔" دیکھئے یہ جملہ  "جیسا کہ نصاب ہے جس پر زکوٰۃ کا وجوب موقوف ہے"،  اس سے مراد   زکوۃ کی ادائیگی  کا وجوب ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : "شرط جیسا کہ کسی علاقے میں قیام  روزے کی ادائیگی کے وجوب کے لیے شرط ہے۔۔۔" ، یہاں تو موضوع کو مکمل واضح کر دیا  یہ نہیں کہا "کہ  روزے کے وجوب کے لیے شرط"۔

انہو نے یہ بھی کہا ہے کہ :"یہ یاتو فعل کے وقوع کے لیے  شرط ہو گی یا شرط نہیں ہو گی۔  اگر شرط ہے جیسا کہ طہارت  اور نماز کی دوسری تمام شرائط۔۔۔" ، یہاں انہوں نے بیان کیا کہ  طہارت فعل کے وقوع کے لیے شرط ہے یعنی نماز کے وقوع کے لیے ،یعنی اس کی ادائیگی کے لیے۔

اس بنا پر ہم نے بحث کی ابتدا میں شخصیۃ میں ذکر کیا کہ "ما لا یتم الواجب الا بہ فھو واجب" یہ اب بالکل واضح ہے  کیا ایسا نہیں ؟ میں دوہراتا ہوں : ما لا یتم الواجب الابہ کی دوقسمیں ہیں : ایک یہ کہ  جس کا وجوب  اس چیز سے مشروط ہو، دوسرا یہ کہ جس کا وجوب اس سے مشروط نہ ہو، یعنی اس چیز سے ۔جہاں تک  اس کا تعلق ہے  جس کا وجوب  اس کے ساتھ مشروط ہے  تو اس میں کوئی اختلاف نہیں  کہ شرط کا حصول واجب نہیں، بلکہ واجب صرف وہ ہے  جس کے وجوب کے بارے میں دلیل آئی ہے، جیسا کہ کسی معین نماز کا وجوب، جو کہ طہارت کے وجود سے مشروط ہے۔ نماز کے خطاب میں طہارت واجب نہیں، بلکہ یہ صرف  واجب کی ادائیگی کے لیے  شرط ہے"۔ 

رہی بات اس کی جس کا  آپ نے دوسرے سوال میں ذکر کیا ہے کہ  آپ نے اصول کی بعض  کتابوں میں  پڑھا  ہے کہ "انہوں نے حج کی نسبت  استطاعت کی اور زکوٰۃ کے نصاب کی نسبت سال کے گزرنے کی مثال دی ہے"۔ یہ اگر چہ کسی حد تک واضح ہے  مگر ہم نے جو کہا ہے اس سے بہت مختلف ہے کیونکہ استطاعت  حج کی ادائیگی کے لیے ہے اس لیے نہیں کہ حج اسلام میں واجب ہے یا غیر واجب، پس استطاعت  ادائیگی کے لیے ہے۔

جہاں تک زکوٰۃ کے نصاب کی نسبت  سال کا گزرنا  ہے اس مثال میں مشہور  یہی ہے  کہ "نصاب زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ہے"جیسا کہ ہم نے المدخل الی مذھب الامام احمد  کتاب کے حوالے سے ذکر کیا، اگر آپ نے  مثال کو اس قاعدے کے حوالے سے پڑھا ہو "مالا یتم الواجب الا بہ فھو واجب" اور اس مثال  "نصاب  میں سال گزرنے " کے حوالے سے پڑھا ہو تو اس میں گہرائی نہیں۔ زیادہ گہرائی یہ ہے کہ  نصاب زکوٰۃ کی ادائیگی کے واجب ہونے کے لیے ہے  اور سال کا گزرنا  نصاب کے لیے شرط ہے، کیونکہ واجب زکوٰۃ ہے نصاب نہیں، مالا یتم الواجب الا بہ  یعنی  جس کے بغیر زکوٰۃ کی ادائیگی  مکمل نہ ہو تی ہو ، جو کہ نصاب کی ملکیت ہے۔ اس نصاب کے لیے ایک شرط بھی ہے جو کہ سال کا گزرنا ہے ۔ بہر حال اس کو اِس طرح یا اُس طرح پڑھنے سے اس میں ابہام   ہو سکتا ہے۔۔۔مجھے امید ہے کہ   اللہ کے اذن سے بات  بالکل واضح  ہو گئی ہے ( نصاب اورسال گزرنے کی شرط دونوں زکوٰۃ کی ادائیگی کے وجوب کے لیے واجب ہیں)

دوسرا: حدیث مشہور کی تعریف کے حوالے سے:

آپ کے سوال کا جواب دینے سے قبل میں   جواب کے بارے میں علم اور تمہید کے طور  آپ کو یاد دلاتا ہوں :

1 ۔ پہلے بھی ہم سے حدیث مشہور کی تعریف کے بارے میں سوال کیا گیا  جو ہماری کتابوں میں مذکور ہے، اس میں اختلاف موجود ہے۔۔۔ہم نے اس سوال کا یوں جواب دیا:

ہم نے شخصیہ جلد سوم  صفحہ 80 (عربی)میں حدیث کے موضوع میں کہا ہے کہ :" اگر اس کو تبع  تابعین کی ایک جماعت نے  تابعین کی ایک جماعت سے نقل کیا ہو اور انہوں  ایک یا اس سے زیادہ صحابہ﷜ سے نقل کیا ہو جن کی تعداد تواتر تک نہ پہنچتی ہو تو وہ حدیث مشہور ہے "۔

اسی کتاب میں حدیث مشہور  کے بارے میں کہا : "حدیث مشہور وہ ہے جس کو  نقل کرنے والوں کی تعداد ہر طبقے میں  تین سے زیادہ ہو  مگر تواتر کی حد کو نہ پہنچے"۔ ہم نے ان دونوں تعریفوں کا ذکر  شخصیہ جلد اول میں  بھی کیا  اس لیے یہ دونوں تعریفیں درست ہیں :

پہلی تعریف احناف کی ہے ، وہ  صحابہ﷜ کے دور میں حدیث کے راویوں کی تعداد کی کوئی شرط نہیں رکھتے، بلکہ  ایک یا ایک سے زیادہ کو کافی سمجھتے ہیں ، مگر وہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں تعداد کی شرط رکھتے ہیں، یعنی  ایک جماعت سے متواتر ہو اور مشہور ہو ۔

دوسری  تعریف جمہور کی ہے خاص کر حدیث کے علماء کی  ۔وہ  تینوں طبقات میں تعداد  کی شرط رکھتے ہیں یعنی "صحابہ،تابعین اور تبع تابعین" میں۔ اور ان میں سے کچھ تین سے زیادہ کی شرط رکھتے ہیں ۔ ہم نے اپنی کتاب میں انہی دونوں تعریفوں کا ذکر کیا، یہ دونوں تعریفیں صحیح ہیں،اس لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کو حذف کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم  صرف یہ کرتے ہیں کہ ہم ہر تعریف کو  اس کے  کرنے والوں کی طرف منسوب کر تے ہیں وہ بھی اگر ضروری سمجھتے ہوں۔

2 ۔ اب ہم آپ کو اس کا جواب دیتے ہیں جس کا آپ نے  دوسرے سوال میں ذکر کیا ہے اور جس نے آپ کو پریشان کیا  ان تبدیلیوں کے متعلق جن کو  تشریح کا حصہ نہیں بنایا گیا۔۔۔آپ  کا مشاہدہ بالکل درست ہے کہ ہم نے تشریح کو تبدیل نہیں کیا۔ لیکن میں آپ کی توجہ حدیث مشہور کے ایک مسئلے  کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں  اور وہ یہ کہ   کچھ لوگ  حدیث مشہور کو  احد حدیث میں شمار نہیں کرتے ، کہتے ہیں کہ اس میں  ایسا ظن ہے جو یقین کے قریب ہے۔ توہم نے اس پر زور دیا کہ یہ ہر حال میں خبر الاحد ہے،کیونکہ بات یہ ہے کہ کوئی امر یا ظن ہو گا یا یقین، کوئی تیسرا نہیں۔ ظن اور یقین کے درمیان کوئی چیز نہیں، اِس کے قریب  اُس  سے دور   کوئی چیز نہیں؛ اس لیے اس بات کا کوئی معنی نہیں۔حدیث مشہور ظن کا فائدہ دیتی ہے۔۔۔چاہے یہ تابعین اور تبع تابعین  کے دور میں تواتر کی تعداد کو پہنچ جائے جیسا کہ بعض اس کی تعریف میں کہتے ہیں، یہ متواتر نہیں ہو تی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتبار  رسول اللہ ﷺ سے تواتر کا ہے صرف تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں تواتر کا نہیں، شرح میں یہ مسئلہ واضح تھا۔ اس کے باوجود ہم  دیکھ لیں گے کہ  شرح میں  کیا تبدیلی ہو گی یا کیا باقی رکھا جائے گا  اگر چہ یہ مذکورہ مسئلے پر اثر انداز نہیں ہو گا۔  یاد رہے کہ تعریف میں مسئلہ  کوئی فیصلہ کن نہیں  اور یہ  لفظ مشہور   کے معانی سے پیدا ہو تا ہے ۔ حدیث   کا مشہور ہو نا   اس کی شہرت کے گرد گھومتا ہے، کبھی  کسی خاص تعداد سے  حدیث کی شہرت کے بارے میں اطمینان ہو تا ہے  اور  کسی اور حدیث کی شہرت کے لیے اس سے مختلف  تعداد  سے اطمینان حاصل ہو پا تا ہے، یہ مجتہدین اور  حدیث کے علماء کے ہاں اصطلاح ہے ۔ اس میں کچھ نہ کچھ اختلاف ہے جیسا کہ ابھی ابھی ہم نے کہا ہے جو کہ حدیث  مشہور کے مدلول  پر اطمینان  کے لحاظ سے ہے۔لیکن تمام حالات میں   اس کا شمار احد میں ہی ہو گا  چاہے  زیادہ شہرت   اور نقل کرنے والوں کی تعداد کی وجہ سے اس سے اطمینان بھی حاصل ہو تا ہو۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حدیث کی شہرت   تابعین  اور تبع تابعین کے عہد میں اس کا مشہور ہو نا ہے ۔ اگر ان دو ادوار کے بعد  مشہور ہو جائے تو اس شہرت  کا کوئی اعتبار نہیں ۔  ایسی حدیث کو مشہور کہا ہی نہیں جا سکتا جو ان دو ادوار کے بعد لوگوں میں مشہور ہو جائے۔ مشہور احادیث میں سے آپ ﷺ کا یہ فرمان: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّـيَّاتِ»"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" اس کو بخاری  اور مسلم نے  روایت کیا ہے۔

3 ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ کے دونوں سوال درست ہو نے کے باوجود آپ نے پہلے سوال میں  کہا :"آپ کی کیا رائے ہے اللہ ہماری طرف سے آپ کو جزا دے" اور دوسرے سوال میں کہا :"میرا یہ اشکال ہے  اگر کوئی تشریح باقی ہو"۔ آپ کی جانب سے اس ادب سے سوال کرنا اور باریک بینی سے فکر کرنا  اور ہماری کتاب پر بہترین انداز سے تدبر کرنا  مجھے پسند آیا۔ اللہ آپ کو اورآپ کے ذریعے بر کت دے  جیسا کہ اللہ نے آپ کو عقل سے نوازا  اور اخلاق حسنہ سے مزین کیا ہے، اللہ آپ کے ساتھ ہو۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا تبہ

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

19 ذی القعدۃ 1436 ہجری

بمطابق3 ستمبر2015 عیسوی

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک