الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں

حزب التحریر خلافت کے لئے اپنی غیر عسکری جدوجہد جاری رکھے گی

ایک بار پھر حزب التحریر کا نام دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ اخبارات میں شائع کیا جا رہا ہے اور حکومتی ادارے یہ تأثر دے رہے ہیں گویا حزب التحریر دیگر جماعتوں کی طرح کوئی عسکری جماعت ہے۔ نیز اسے دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی ناکام کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس امریکی کاوش میں پنجاب حکومت مرکز کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے۔ حزب التحریر اس مذموم کوشش کی شدید مذمت کرتی ہے اور اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ اس قسم کے الزامات حزب التحریر کو خلافت کے قیام کے لئے اپنی غیر عسکری جدوجہد سے نہیں روک سکیں گے۔ حزب التحریر کی پابندی کے خلاف رِٹ ہائی کورٹ میں گزشتہ چار سال سے سرد خانہ میں پڑی ہے اور اس پر کوئی کاروائی نہیں کی جارہی۔ ''آزاد عدلیہ ‘‘ کے لئے یہ رِٹ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی چاکری میں نام پیدا کرنے والی مشرف حکومت سے پنجاب کی 'جمہوری حکومت‘ کسی طوربھی پیچھے نہیں رہی۔ بلکہ ''دہشت گردی ‘‘ کے نام پر جاری اسلام کش اقدامات میں وہ زرداری جیسے ایجنٹ کے مکمل حلیف ہیں۔ آج پنجاب حکومت وفاقی حکومت کی طرح اسی کافر امریکہ کے اشاروںپر ناچ رہی ہے جو خطے سے اسلام کا صفایا کے لئے دین رات ایک کئے ہوئے ہے۔

لاہور بم دھماکے کے فوراً بعد، جیسا کہ ہم نے امت کو متنبہ کیا تھا، حکومت اسلامی جماعتوں اور مدرسوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے لئے کمر بستہ ہوگئی ہے گویا کہ وہ اسی دھماکے کی منتظر تھی۔ یہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے جو امریکہ نے اس خطے کے لئے 11-9 کے بعد مرتب کی تھی۔ اس پالیسی کے تحت ان تمام عناصر کی سرکوبی کرنا ضروری تھا جو خطے میں امریکی تسلط اور عوام کو سیکولر بنانے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیش کرسکیں۔ اسی لئے جہاد کے متوالوں اور اس کفریہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والی غیر عسکری جماعتوں دونوں کو دہشت گرد قرار دے کر امت سے کاٹنے اور پھر انہیں کرش کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ یہی نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں نصاب کو مزید سیکولر بنایا گیا اور مدرسہ اصلاحات کے نام پر ان کا نصاب بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ قبائلی علاقے میں ان لوگوں کو کچلنے کے بعد جو امریکہ کے خلاف مزاحمت پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اب امریکہ پنجاب کا رُخ کرنا چاہتا ہے اور پنجاب حکومت اس میں ان کا مکمل ساتھ دے رہی ہے۔ مزید برآں حکمران حزب التحریر کو بھی عسکریت پسندی سے منسلک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حزب التحریر ہی وہ جماعت ہے جو امریکی منصوبوں کا بھانڈہ عوام کے سامنے پھوڑتی ہے اور کفریہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر خلافت ِ راشدہ کا نظام نافذ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ ہے وہ امریکی منصوبہ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکی ایجنسیاں جگہ جگہ بم دھماکے کروا کر حکومت کے لئے آپریشن کا جواز فراہم کررہی ہیں۔ پاکستان میں پھیلی یہ دہشت گردی امریکی آمد سے شروع ہوئی اور یہ انتشار امریکی انخلائ سے ہی ختم ہو گا۔ اس حقیقت میں امت کو کوئی شک نہیں! حکومت اس اہم فریضہ سے پہلو تہی کررہی ہے ،چنانچہ یہ ذمہ داری عوام اور اہل طاقت کو اپنے سر لینی ہوگی۔ امت کو چاہئے کہ وہ امریکی رسد کو پر امن اور سیاسی طریقہ سے روکیں چاہے اس کے لئے انہیں جی ٹی روڈ بلاک کرنی پڑے یا ٹینکر مالکان کا سوشل بائیکاٹ کرنا پڑے۔ امریکی رسد ہی وہ شہ رگ ہے جسے کاٹ کر امریکہ کو خطے سے نکالا جاسکتا ہے۔

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

بلیک واٹر اور حکمرانوں کی ملی بھگت سے لاہور پھر خون میں نہا گیا! لاہور میں دھماکے کروا کر امریکہ ایک نیا آپریشن شروع کروانا چاہتا ہے

حزب التحریر علی ہجویری (رح) کے مزار سے ملحقہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے جس میں چالیس سے زائد مسلمان جاں بحق اور 200 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ امریکہ اور اس کی پرائیویٹ فوج بلیک واٹر اور ڈائن کورپ نے ایک بار پھر قتل عام کا بازار گرم کر دیا۔ کل ہی پنجاب حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے کے لئے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا تھا اور آپریشن کو شروع کرنے کے لئے کل کے دھماکے سے بہتر جواز حکومت کو مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ عوام جان چکے ہیں کہ مساجد، اسلامی یونیورسٹیوں،اسکولوں اور بازاروں کا نشانہ بننا اور بلیک واٹر اور دیگر امریکی دہشت گرد تنظیموں کے دفاتر کا محفوظ رہنا اتفاقاً نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ ہی ان کاروائیوں کے پیچھے ہے۔ وہ مسلمانوں کا قتل عام کر کے فوجی آپریشنوں کے لئے رائے عامہ ہموار کرتاہے۔ سوات، جنوبی وزیرستان اور اورکزئی ایجنسی میں آپریشن کے نام پر کئے جانے والے قتل عام سے قبل ہر دفعہ شہری علاقوں میں بم دھماکے کروائے جاتے تھے اور پھر اس کے نتیجے میں عوامی غم و غصے کی لہر کو فوجی آپریشن کے حق میں استعمال کیا جاتا تھا۔ امریکہ اور اس کے ایجنٹ جان لیں کہ اب عوام اس دھوکے میں آنے والے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل دھماکوں کے بعد عوام نے حکومت اور اس کی ایجنٹوں کے خلاف شدید مظاہرہ کیا اور اس قتل عام کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ مزید برآں اس دھماکہ کے ذریعے امریکہ دینی ذہن رکھنے والوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان مسلکی انتشار کا شکار ہو کر امریکہ کو خطے سے نکالنے کے لئے متحد نہ ہو سکیں۔

یہ وہی پالیسی ہے جو اس نے عراق میں اپنائی تھی۔ حزب التحریر تمام مکاتب فکر کے علمائ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس امریکی منصوبے کو ناکام بنا دیں اور یک آواز ہو کر امریکہ کو خطے سے نکالنے کا اعلان کریں کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے جس کے خطے میں آنے کے بعد پاکستان جہنم کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ ہم اہل طاقت میں موجود مخلص عناصر سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بندوقوں کا رخ اپنے ہی بھائیوں کی طرف کرنے کا امریکی حکم مسترد کر دیں اور اپنی تمام تر طاقت امریکہ کو خطے سے باہر نکالنے کے لئے استعمال کریں۔ صرف اسی صورت میں پاکستان میں لگی اس فتنے کی آگ کو بجھایا جاسکتا ہے۔

Read more...

حزب التحریر ۱۸ جولائی ۲۰۱۰کو بیروت میں عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کرے گی

حزب التحریر ۱۸ جولائی ۲۰۱۰ کو بیروت،لبنان میں عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کررہی ہے۔ یہ کانفرنس یوم سقوط خلافت ، 28 رجب 1342 ھ ﴿بمطابق 3 مارچ 1924ئ﴾ کی یاد میں منعقد کی جارہی ہے جسے گزرے 89 تکلیف دہ سال ہو چکے ہیں۔ کانفرنس کا عنوان ہے: ''دنیاکے اہم ترین بین الاقوامی اور علاقائی مسائل کے متعلق حزب التحریرکا نقطۂ نظر‘‘۔ اس بات کا اعلان پاکستان میں حزب التحریر کے نائب ترجمان شہزاد شیخ نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔انھوں نے کہا کہ1924 میں خلافت کے انہدام کے بعد سے مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہو چکی ہے اوران کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔

شہزاد شیخ نے کہا کہ حزب التحریر اس وقت چالیس سے زائد مسلم ممالک میں خلافت کے انعقاد کے لئے متحرک ہے۔ اس سے قبل حزب التحریر نے ۲۰۰۷ میں انڈونیشیا میں دنیا کے دسویں بڑے سٹیڈیم میں خلافت کانفرنس منعقد کی جس میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد نے شرکت کی۔ ۲۰۰۹ میں انڈونیشیائ میں عالمی علمائ کانفرنس منعقد کی جس میں ہزاروں علمائ نے خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔ مزید برآں ۲۰۰۹ میں جب سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے پوری دنیا معاشی بحران کا شکار ہوئی تو حزب التحریر نے سوڈان میں عالمی اقتصادی کانفرنس منعقد کی جس میں اس بحران کی وجوہات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حزب نے اسلامی اقتصادی نظام کو متبادل کے طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔

حزب کے ڈپٹی ترجمان نے کہا کہ اس سال 28رجب ، یوم سقوط خلافت کے موقع پرحزب التحریر نے پوری دنیا میں پائے جانے والے مسلمانوں کے اہم سیاسی مسائل اور تنازعات پر عالمی میڈیا کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ امت کے سامنے ان کے تمام سیاسی مسائل کا عملی حل پیش کیا جائے۔ اس کانفرنس کا مقصد امت کو باور کرانا ہے کہ ان کے مسائل کبھی بھی امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے استعماری ممالک اور زرداری،حسنی مبارک اور شاہ عبد اللہ جیسے غدار مسلم حکمران حل نہیں کریں گے بلکہ انہیں خلافت قائم کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا اور ان مسائل کو اسلامی احکامات کی روشنی میں حل کرنا ہوگا۔ اس کانفرنس کے ذریعے شرکائ کو مستقبل قریب میں قائم ہوا چاہتی سپر پاور یعنی خلافت کی داخلہ اور خارجہ پالیسی سمجھنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ حزب التحریر کی شکل میں امت میں پائے جانے والی حقیقی قیادت خلافت کے قیام کے ذریعے امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے اور بیروت میں ہونے والی کانفرنس اس حقیقت کو پوری دنیا پر آشکار کریگی۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے مخلص سیاستدان اور میڈیا کی شخصیات کی بڑی تعداد شریک ہوگی۔ کانفرنس میں فلسطین، عراق، سوڈان، افغانستان، کشمیر، انڈونیشیائ کی علیحدگی کی تحریکوں، قبرص، وسطی ایشیائ، مشرقی ترکستان ﴿سنکیانگ﴾ کے مسائل سمیت مغربی دنیا میں مسلمانوں کے مسائل پر مقالے پڑھے جائیں گے۔ نیز دنیا کو درپیش عالمی مسائل جیسے بین الاقوامی معاشی بحران اور ایٹمی بحران پر بھی سیر حاصل بحث کی جائیگی۔ یہ کانفرنس بروز اتوار، 6 شعبان 1431ھ، بمطابق 18جولائی 2010ئ بمقام: برسٹل کانفرنس ہال، لا برسٹل ہوٹل کنونشن سنٹر ورڈن، بیروت، لبنان میں منعقد کی جائیگی۔

حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان شہزاد شیخ نے کہا کہ ہم میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیںکہ امت کو درپیش سنگین مسائل اور اس کے حل پر ہونے والی اس اہم بین الاقوامی کانفرنس کو بھر پور کوریج دے اور اس کانفرنس میں پیش کیے جانے والے حل کو لوگوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

اس کانفرنس کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس سے فون،فیکس یا ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتاہے۔


فون /فیکس نمبر:009611307594
ای میل:This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

ویب سائٹ: www.hi.zat.one

 

Read more...

امریکی صلیبی جنگ لڑنے کے لئے عوام کی چمڑی سے دمڑی نچوڑی جا رہی ہے

گیلانی - زرداری حکومت نے امریکی تلوے چاٹنے کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ حکومت نے اپنے آقا امریکہ کی معیشت کو بچانے کیلئے اپنے ہی لوگوں پر ٹیکس بڑھا کر اور کھانے پینے کی اشیائ پر سبسڈی گھٹا کر امریکی صلیبی جنگ کے لئے پیسے بٹورنے کا نیا منصوبہ بنا لیا ہے۔ موجودہ بجٹ امریکی صلیبی جنگ کے لئے عوام کی چمڑی سے دمڑی نکالنے کی بدترین مثال ہے۔ آئندہ سال امریکی صلیبی جنگ لڑنے کے لئے فوجی بجٹ میں 29 فیصد ﴿99ارب روپے﴾ کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت ''وارٹیکس‘‘ لگا کر پاکستان کے غریب عوام سے مزید 83 ارب روپے ہتھیائے گی نیز 102 ارب سبسڈی کی مد میں بھی کاٹے جائیں گے تاکہ اس پیسے کو قبائلی علاقے کے مسلمانوں پر بمباری کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ پاکستان کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے امریکی جنگ لڑنے کا اقرار تو خود امریکی اعلیٰ عہدیدار نے کیا ہے۔ امریکی سابق نائب سیکریٹری خزانہ پال کریگ رابرٹ نے اپنے حالیہ مضمون میں اقرار کیا ہے کہ '' واشنگٹن کی ایمائ پر حکومت پاکستان اپنے عوام کے خلاف جنگ کر رہی ہے جس سے بیشمار لوگ ہلاک اور باقی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے... امریکی نائب سیکرٹری خزانہ نیل وولن نے حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ اپنے عوام کے خلاف جنگ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے لوگوں پر ٹیکس لگائے، کٹھ پتلی حکمران آصف علی زرداری نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی‘‘۔ کیا اب بھی یہ سیکولر ایجنٹ حکمران اس جنگ کو اپنی جنگ کہہ سکتے ہیں؟

موجودہ بجٹ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حکومت جمہوری ہو یا آمرانہ پاکستان کا بجٹ آئی ایم ایف کا وضع کردہ ہوتا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت عوام کی اقتصادی حالت سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں بہتر نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف اسلام کا معاشی نظام ہی ہے جس میں تمام قسم کے بالواسطہ ٹیکس مثلاً سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، بزنس ٹیکس، کسٹم، ایکسائز، سرچارج اور ایڈیشنل سرچارج، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی وغیرہ حرام ہوتے ہیں اور امیر سے بلاواسطہ ٹیکس (Direct Tax) وصول کیا جاتا ہے جبکہ غریب پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ زکوٰۃ صاحب نصاب سے، خراج زمین کے مالک سے، عشر پیداوار کے مالک سے، رکاز خمس خزانے کے مالک سے، جزیہ کمانے کے قابل غیر مسلم سے لیا جاتا ہے۔ اسلام میں متعین ٹیکس ہیں اور حکومت محض اپنی مرضی کے مطابق یا آئی ایم ایف جیسے استعماری ادارے کے دبائو پر عوام پر ٹیکس نہیںلگاسکتی۔ اسلام محض ہنگامی حالات میں محدود مدت کے لئے صرف امیر مسلمانوں کی پس انداز شدہ دولت پر ٹیکس لگانے کی اجازت دیتا ہے جسے ترقیاتی کاموں میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ تیل، گیس، معدنیات اور دیگر وسائل کو اسلام عوامی اثاثہ قرار دیتا ہے اور اسے نج کاری کے بہانے چند سیٹھوں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ نیز ان وسائل کو عوام تک پہنچانے کی ذمہ داری ریاستِ خلافت کی ہوتی ہے جس پر ریاست ہوش ربا منافع بھی نہیں کماسکتی۔ یوں بجلی، گیس، تیل وغیرہ نہایت ہی ارزاں قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں جس سے مہنگائی کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ۔ نیز لاچار، معذور، اور غریبوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا خلافت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کمیونسٹ نظام کی مانند سرمایہ دارانہ نظام بھی ناکام ہو چکاہے۔ یہ نظام امریکہ اور یورپ کے مسائل حل نہ کر سکا تو پاکستان کے اقتصادی مسائل کیسے کریگا؟ حکمران جان لیںکہ اپنی غداریوں کو چھپانے کیلئے یہ سیاسی ڈھکوسلے امت کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ اور اہل قوت سن لیں، امت خلافت سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہو گی۔

 

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

مصیبت کی گھڑی میں مدد کے لیے ایک اپیل: آج... ابھی... اے سلطان محمد الفاتح کے جانشینو!

اپنی سفاکانہ کھلی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے نفرت انگیز یہودی افواج نے غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے بحری جہازوں پرشب خون مارا۔ وہ لوگ جنہوں نے ان فوجیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کی ،یہودی فوجیوں نے اُن میں سے درجنوںافراد کو ہلاک اور متعدد کوزخمی کردیا۔ یہودی فوجیوں نے غزہ کے لیے جانے والے بحری جہازوں پر یوںدھاوا بولاگویا وہ فوجوں سے لدے جنگی بیڑے کے جہاز ہوں جو یہودیوں کے قلعوں کو گرانے جارہے تھے،حالانکہ وہ بحری جہاز تو فقط عام لوگوں کو لے جا رہے تھے جن کا ہدف صرف انسانی امداد اور میڈیا کے حوالے سے کام تھا۔

اور اگرچہ یہ جہازاُس سے کہیں کم ہیںجو اِس امت پر غزہ کے لوگوں کاحق ہے۔ غزہ کے لوگ کہ جنہوں نے صبر کیا ، ثابت قدم رہے اور مدد کے لیے پکارا، لیکن مسلمانوں کے کسی ایک بھی حکمران نے اُن کی پکار کا جواب نہیں دیا۔ اگرچہ یہ امدادی جہاز نہ تو ناکہ بندی ہی ختم کرسکتے ہیں اور نہ ہی یہودی دشمن کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں،مگر نفرت انگیز یہودی ریاست کی قیادت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے اپنی روائتی جارحیت اور سفاکی کا مظاہرہ کر رہی ہے اورجرائم کا ارتکاب کرتی جارہی ہے اور انہیں اُس ترک ریاست کی کوئی پرواہ نہیںجو اپنے آپ کوعظیم عثمانی خلفائ کی وارث سمجھتی ہے اور اُن دوستانہ تعلقات کی بھی پرواہ نہیںجنہیں یہ یہودی خود ترک حکمرانوں سے قائم کرنے پر مضر تھے بلکہ اِس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے انہوں نے تمام مسلم حکمرانوں کی بھی کوئی پرواہ نہیںکی۔

بین الاقوامی برادری، یورپی ریاستوں، اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور عرب لیگ کے رویوں، علاقائی اور عالمی پانیوںسے متعلق اُن کے قانونی فیصلوں اور سفارتی سرگرمیوںکی شہہ پر یہودی ریاست کی طرف سے اِس گھنائونے جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ صورتِ حال اس بات کی عکاسی کرتی ہے یہ ادارے سیاسی لحاظ سے بے کار اور محض بے فائدہ ہیں اوریہ ہر ذمہ داری سے دستبردارہو چکے ہیں۔ ناجائز یہودی وجود ایک بدمعاش ریاست ہے جو مغرب کی مدد سے عالمی قوانین اور اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غیر قانونی اور قابلِ نفرت اعمال سرانجام دے رہی ہے، وہ مغرب جو ایسی ہر جارحیت پر اُس کا احتساب کرنے کی بجائے فقط کمزور ردِ عمل پر اکتفا کرتا ہے۔

آج امت عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید جیسی قیادت سے محروم ہے ، جس نے فلسطین کی ریاست پر سودے بازی کے لیے آنے والے یہودی وفد کو ایسا جواب دیا جو ان کے منہ پر تھپڑ تھا، سلطان کا یہ طرزِ عمل تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا گیا۔ اور آج امت محمد الفاتح جیسے جری اور متقی شخص کی قیادت سے محروم ہے ، جس نے اسلامی فوج کی قیادت کی اور رومی سلطنت کو زمین بوس کیا۔

تو کیا آج ترکی کے حکمران اسی طرح غضب ناک ہو ں گے جس طرح سلطان عبد الحمید دوئم ہوئے تھے؟ کیا وہ سلطان محمد فاتح جیسی بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کریں گے؟ کیا وہ یہودی ریاست کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے اسی طرح لپکیں گے جیسا کہ معتصم نے کیا تھا،تاکہ اس حقیر اور نفرت آمیز ریاست کو ایسا سبق سکھایا جائے جو تاریخ کا رُخ تبدیل کر دے؟ یا وہ محض میڈیا پر غم و غصے کے اظہاراور سطحی سیاسی اقدامات پر ہی اکتفائ کریں گی جس کا مقصد غصے میں مبتلا مسلمانوں کے جذبات کو غلط رُخ دینا اور ٹھنڈ ا کرنا ہے۔

بے شک ان حکمرانوں کی غداری اور فلسطین اور اس کے لوگوں سے دستبرداری ان کے بے کار خوابوں سے متعلق کسی بھی امید کو ختم کر چکی ہے۔ نہ ہی ترک حکومت سے کوئی خیر متوقع ہے جس نے اپنے باشندوں اور ان کے ساتھ شریک لوگوں سے غفلت برتی ہے۔ یہ حکمران جنگی جہازوںاورکثیر ا فواج کے ساتھ اپنے دشمن کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں، جبکہ وہ اِس دشمن کی خون آلود تاریخ اورقتلِ عام کے سلسلے سے آگاہ ہیں۔ پس ہم ترک افواج اور تمام اسلامی افواج میں موجود مخلص کمانڈروں کو پکارتے ہیں کہ وہ اس گھنائونے مذاق کے خاتمے کے لیے حرکت میں آئیں...ابھی...فوراً!۔ ایک مخلص لیڈر کے تقرر کے لیے فوری عمل ، جو مسلم افواج کو بیرکوں سے باہر نکالے ، ان کے خون کو گرمائے اور یہودیوں کی خرمستیوں اور تکبر کا خاتمہ کرے۔ وہ مخلص قیادت جو ایسے مرد میدانِ جنگ میں اتارے جو شہادت سے اس سے زیادہ محبت کرتے ہوںجتنا یہودی زندگی سے محبت کرتے ہیں، وہ یہودیوں کو شیطان کی سرگوشیاں بھلا دیںاور ان کی نفرت آمیز حقیقت اور بزدل فطرت کو بے نقاب کردیں،اور فلسطین سے یہودی ریاست کا خاتمہ کردیں، اور بابرکت سرزمین سے اس کانٹے کو نکال دیں۔

﴿ وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ﴾

''اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے۔ ‘‘ ﴿الانفال:72﴾

 

Read more...

یہود یہود ہیں ، ان سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے!! درجن بھر امدادی کارکنوں کو قتل کر کے یہودنے ایک بار پھر دنیا پر ثابت کر دیا کہ اسرائیل کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں

ترکی کے امدادی جہاز پر شب کی تاریکی میںہلہ بول کر کے درجن سے زائد امدادی کارکنوں کو قتل کر کے یہود نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہود اللہ کی وہ ''مغضوب‘‘ قوم ہے جن کی روش سے دن میں پانچ دفعہ پناہ مانگنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیا ہے۔ یہ اور اس جیسے بے شمار کام صرف یہود جیسی ملعون قوم ہی کر سکتی ہے جن کے آبائو اجداد کو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے سور اور بندر بنایا گیا۔ یہ وہی قوم ہے جس نے انبیائ کے ایک گروہ کو تو قتل کر ڈالا اور دوسرے گروہ کی تکذیب کی۔ آج کا قتل عام ان کی تاریخ میں کوئی بڑا ''کارنامہ‘‘ نہیں وہ اس سے قبل صابرہ وشتیلہ جیسے قتل عام کر چکے ہیں۔ لیکن دنیا محض اس لئے سکتہ میں آگئی کیونکہ اس دفعہ بہنے والا خون ارزاں فلسطینی مسلمانوں کا نہ تھا، ورنہ تو یہود کے لئے سینکڑوں مارنا اور پوری مغربی دنیا اور مسلمان حکمرانوں کا منہ دیکھتے رہنامعمول کا عمل بن چکا تھا۔ حزب التحریر اس بہیمانہ اور بزدلانہ قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ یرغمالیوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ حز ب التحریر نے آج لاہور میں اس ضمن میں مظاہرہ کیا اور دیگر بڑے شہروں میں آنے والے دنوں میں مزید مظاہرے کئے جائیں گے۔


امریکہ کی ناجائز اولاد، اسرائیل کو محض اس لئے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کی جرأت ہوئی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کو پچاس سے زائد زندانوں میںجکڑ دیا گیا ہے جس میں سے ہر ایک پر ایک غدار حکمران داروغہ بنا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ یوں ایک ارب سے زائد مسلمان استطاعت رکھنے کے باوجود اسرائیل کے ناپاک وجود کا خاتمہ نہیںکر سکتے اور آج بھی قبلہ اول پر یہودی قابض ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت روکنے اور غزہ کے محصور مسلمانوں کو بچانے کا ایک ہی رستہ ہے اور وہ قومی اسمبلی، اوآئی سی یا اقوام متحدہ کے ایوانوں سے ہو کر نہیں گزرتا بلکہ یہ رستہ مسلمانوں کی فوجی چھاؤنیوں سے نکلتا ہے۔ یہ ذمہ داری مسلم افواج کے جرنیلوں کی ہے کہ وہ اپنے ٹینکوں اور میزائلوں کا رُخ اسرائیل کی طرف کر دیں اور اپنی فوجوں کو متحرک کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کا خاتمہ کریں۔ اور اس میں حائل ہونے والے غدار حکمرانوں کو بھی روندتے چلے جائیں۔ ہم پاکستانی فوج کو بھی پکارتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور ایٹم بم اور دیگر اسلحہ کو گارڈ آف آنر کے لئے چمکانے کے بجائے جہاد کے لئے تیار کریں۔ اگر زرداری اور گیلانی جیسے ایجنٹ حکمران راستے کی رکاوٹ بنیں تو انہیں اکھاڑ کر ایک مخلص خلیفہ کو بیعت دیں اور اس کی سرکردگی میں اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔

 

نوید بٹ
پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک