الخميس، 16 رجب 1446| 2025/01/16
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

شام کے حکمران کو ایسے معیاروں پر مت پرکھیں جو اس کے لیے نہیں ہیں۔

(ترجمہ)

 

خبر:

 

شام میں شراب کی اجازت دینے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، احمد الشرع نے کہا: "بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں آسانی سے بات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ قانونی معاملات ہیں۔" اس نے مزید کہا کہ عنقریب شام میں قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تشکیل دی جائے گی: "وہ فیصلہ کریں گے۔ اور کسی بھی حکمران یا صدر کو قانون کی پاسداری کرنی ہوگی۔"

)https://www.bbc.com/russian/articles/cdxz2y7dpq9o)

جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ جمعہ 3 جنوری کو دمشق میں تھے، لیکن الشرع نے جرمن وزیر خارجہ سے مصافحہ نہیں کیا کیونکہ وہ ایک خاتون ہیں۔

(https://nv.ua/world/geopolitics/lider-sirii-ne-pozhal-ruki-glave-mid-germanii-pokazali-video-50478989.html)

 

تبصرہ:

 

مذکورہ بالا دونوں خبروں نے شام کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں میں بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے۔

ایک طرف، مسلمانوں نے بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بوین کے سوال کی مذمت کی، جس نے شراب کے مستقبل کے بارے میں ایک فضول سوال پوچھنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر کا سفر کیا۔

 

بہت سے لوگوں نے بوین پر تنقید کی کیونکہ، شام کے نئے حکام کو درپیش مشکلات اور تباہی کے باوجود، اور اسد کے سابقہ نظام کے نا قابلِ تصور جرائم کے حجم کے باوجود، جن کا انکشاف صیدنایا جیل کی حالت سے ہوا، ایک مغربی میڈیا کے نمائندے نے شام میں شراب کے مستقبل کے بارے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی!

 

دوسری طرف، مسلمانوں میں احمد الشرع کے جرمن وزیر خارجہ اینالین بیربوک سے خاتون ہونے کی وجہ سے مصافحہ کرنے سے انکار پر بحث ہو رہی ہے۔

 

بہت سے لوگوں نے احمد الشرع کے اس اقدام کو بین الاقوامی تعلقات میں اسلام کا ایسا مظہر سمجھا جس کا تصور بھی محال تھا، اور موجودہ شامی حکام کے ایک اہم نمائندے کی جانب سے اس رویے کو اسلام کی فتح قرار دیا۔

 

ان دونوں خبروں کے سلسلے میں، امت مسلمہ کو مندرجہ ذیل باتوں کو واضح طور پر سمجھنا چاہیے:

مغربی رپورٹر کا شراب کے مستقبل کے بارے میں سوال بیوقوفانہ یا غیر مناسب نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس، اس سوال کو ایک قسم کے لٹمس ٹیسٹ کے طور پر دیکھنا ضروری ہے جس سے مغربی دنیا شام کے نئے حکام کو جانچ رہی ہے۔

 

یہ اس مثال سے ملتا جلتا ہے کہ کس طرح یورپی ممالک ہمیشہ تقریباً یورپی انضمام اور یورپی یونین کے رکنیت کے امیدوار ممالک کے لیے اقتصادی امداد کو اصلاحات کرنے کی ضرورت کے ساتھ مشروط کرتے ہیں، جن کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ مغربی دنیا کے لیے، اس طرح کے مسائل کو فروغ دینا زندگی اور موت کا معاملہ ہے، کیونکہ اگر وہ فریق جس پر وہ اپنا حکم مسلط کر رہے ہیں، ہم جنس پرستوں کے میدان میں مغربی معیارات پر عمل کرنے پر راضی ہو جائے، تو وہ باقی ہر چیز پر راضی ہو جائے گا یعنی زیادہ اہم اصلاحات اور دستبرداریوں پر بھی راضی ہو جائے گا۔

 

اسی طرح، شام کے سلسلے میں، شراب کا معاملہ سب سے اہم امتحان ہے، اور شامی حکومت کی جانب سے دستبرداری اختیار کرنے کا سب سے اہم اشارہ ہے۔ لہذا، یہ کوئی بیوقوفانہ اور غیر اہم سوال نہیں ہے کہ شام کے مسلمان اس کو معمولی سمجھیں۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ احمد الشرع نے اس سوال کا واضح اور قطعی جواب نہیں دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں وہ آسانی سے بات کرنے کا حق نہیں رکھتا، اور یہ کہ اس سوال کا فیصلہ ایک خصوصی کمیٹی کرے گی جو ایک نیا آئین بنائے گی!

 

حقیقت یہ ہے کہ شراب کی ممانعت قرآن کی قطعی نص سے ثابت ہے، جس میں کسی تشریح یا اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کے پاس شراب کی قطعی ممانعت کا اعلان کرنے کا نہ صرف حق ہے بلکہ یہ اعلان اس پر لازم بھی ہے۔

جہاں تک مصافحہ کرنے سے انکار کا تعلق ہے، تو یہ بات قابل غور ہے کہ احمد الشرع کوئی عام مسلمان نہیں ہے کہ اس کے اعمال کا جائزہ، پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنے، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنے، قسم کھانے سے انکار کرنے، یا شراب پینے سے انکار کرنے، یا جیسا کہ ہم اس معاملے میں کرتے ہیں، اس معاملے میں معروف شرعی رائے کے مطابق کسی خاتون سے مصافحہ کرنے سے انکار کرنے جیسے مسائل پر پرکھ کر کیا جا سکے۔

 

بلاشبہ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک نوجوان، جو بالغ ہو گیا ہو اور اس کے والد اس کی دیکھ بھال کرتے ہوں، سے کیا جانے والا مطالبہ، قبیلے کے اس سردار سے کیے جانے والے مطالبے سے مختلف ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ایک خاص طاقت کی بدولت اپنے پورے قبیلے کو اسلام کی پابندی کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

 

اسی طرح ایک ایسے شخص سے کیا جانے والا مطالبہ جو درحقیقت مسلمانوں کا حکمران ہے، اس مذکورہ مرد یا قبیلے کے سردار سے کیے جانے والے مطالبے سے مختلف ہو گا۔

 

بلاشبہ اگر پہلی مثال والے کے لیے اسلام کے انفرادی فرائض کی ادائیگی کافی ہے تو حکمرانوں پر انفرادی فرائض کے علاوہ پورے معاشرے کی سطح پر اسلام کا نفاذ بھی لازم ہے۔

 

اس لیے دن میں پانچ بار نماز پڑھنا، داڑھی رکھنا، قرآن کریم کی خوبصورتی سے تلاوت کرنا اور حج کرنا کسی اسلامی ریاست کے حکمران کو جانچنے کے معیار نہیں ہو سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں معیار، معاشرے میں شریعت کے احکام کا مکمل اور درست نفاذ ہونا چاہیے۔

 

خلافت کے خاتمے کے بعد سے، اس امت کی تاریخ میں ایسے ظالم حکمران رہے ہیں جنہوں نے حج کیے ہیں جیسے مصر کے سابق صدور (جمال عبدالناصر، انور سادات یا حسنی مبارک)، یا چیچنیا کا موجودہ حکمران رمضان قدیروف۔

 

بلاشبہ احمد الشرع کی جانب سے اسلام کے انفرادی مظاہر کا اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ہے، لیکن وہ آج شام کے اصل حکمران ہیں، اور ان کی جانچ کا معیار ان کے عہدے کے مطابق ہونا چاہیے۔

 

اللہ تعالیٰ نے قریش پر اس لیے تنقید کی کہ انہوں نے حجاج کی ضیافت اور مسجد الحرام کی دیکھ بھال کو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور اس کی راہ میں جہاد کرنے کے برابر کے درجے پر رکھا۔

 

﴿أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾۔

"کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا" ( سورۃ التوبة : آیت 19)

 

اسی طرح ایک کمزور فرد اور ایک مسلم ریاست کے حکمران کو ایک ہی سطح پر رکھنا اور ایک ہی معیار سے ان کا فیصلہ کرنا قرآن و سنت میں مذموم اور غیر منصفانہ ہے۔

 

آخر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا دونوں خبروں کی جانچ کے معیار میں یہ الجھن سیکولرازم کے ان نظریات سے جڑی ہوئی ہے جو بہت سے مسلمانوں کے ذہنوں میں پیوست ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ شراب کے معاملے کو حماقت کا مظہر سمجھتے ہیں، اسی طرح وہ مسلمانوں کے حکمرانوں کے اعمال کو اسلام کے انفرادی مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کے عہدے کی مناسبت والے اسلامی اعمال سے غفلت برتتے ہیں جن سے وہ حکمران دستبردار ہو جاتے ہیں

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھی گئی۔

فضل امزائییف

یوکرین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Last modified onبدھ, 15 جنوری 2025 20:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک