الأربعاء، 19 صَفر 1447| 2025/08/13
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

 

افغانستان — پاکستانی سیاست کی چکی اور علاقائی ایجنڈے کے سندان کے بیچ

 

 

سن 2023 سے، پاکستانی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کی کارروائیوں میں شدت لانا شروع کی، ایک ایسی حکمتِ عملی کے تحت جس کا مقصد کابل میں طالبان کی قیادت میں قائم عبوری افغان حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ امریکی ارادے کے مکمل تابع ہو جائے۔ افغانیوں کی پاکستان کی طرف نقل مکانی کی کئی تاریخی وجوہات ہیں، جن کی جڑیں 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف جہاد، اس کے بعد کی خانہ جنگی، اور پھر (2001 تا 2021) افغانستان پر امریکی جارحیت و قبضے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے تاریخی طور پر افغانستان کے مسلمانوں کے لیے ایک اسٹریٹیجک گہرائی (Strategic Depth) کا کردار ادا کیا ہے، جس کی بنیادیں ان قبائلی رشتوں پر استوار ہیں جو "ڈیورنڈ لائن" کے آرپار پھیلے ہوئے ہیں۔

 

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق، پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد 2002 میں تقریباً 30 لاکھ تک جا پہنچی، جن میں سے لگ بھگ 13 لاکھ 50 ہزار افراد باقاعدہ رجسٹرڈ تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے مہاجرین کی ملک بدری کی کارروائیاں وقفے وقفے سے جاری رکھیں۔ "انٹرنیشنل کرائسس گروپ" کے اندازے کے مطابق، پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو تین زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

 

1. اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ "پروف آف رجسٹریشن" (PoR) کارڈ رکھنے والے۔

 

2. پاکستانی حکومت کی جانب سے جاری کردہ "افغان سیٹیزن کارڈ" (ACC) رکھنے والے۔

 

3. وہ بڑی تعداد جو کسی بھی قسم کی قانونی دستاویزات سے محروم ہے۔

 

پاکستان کی افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی تین نمایاں مراحل سے گزری:

 

پہلا مرحلہ: سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کا دور (1980ء کی دہائی اور بعد)

 

سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے دوران، پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں، جو امریکی اسٹریٹیجی کے عین مطابق تھا — ایک ایسی اسٹریٹیجی جس کا مقصد افغانستان کو سوویت یونین کے لیے "ویت نام" میں بدلنا تھا۔ ان مہاجرین کو "افغان مجاہدین" کے نام سے منظم کر کے جنگی تربیت دی گئی تاکہ وہ سوویت یونین کی افواج کے خلاف کارروائیاں انجام دے سکیں۔ 1989 میں سوویت یونین کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کی سرحدیں نسبتاً کھلی رہیں، اور کسی بڑے تصادم سے بچنے کے لیے معمولی حد تک قوائد و ضوابط نافذ کیے گئے۔

 

دوسرا مرحلہ: 11 ستمبر 2001 کے بعد کا دور

 

جب واشنگٹن نواز جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آیا تو افغانیوں سے متعلق پاکستانی پالیسی میں انقلابی تبدیلی آئی۔ جو مجاہدین کل تک ہیرو کہلاتے تھے، وہ دہشت گرد قرار پانے لگے۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے کی حمایت کے لیے اور پشتون قبائل کو طالبان کی مدد سے روکنے کے لیے پاکستان نے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ سرحدوں کو جزوی طور پر بند کیا گیا، میڈیا مہمات کے ذریعے پناہ گزینوں کو جرائم و منشیات سے جوڑا گیا، اور قانونی ترامیم کے ذریعے قبائلی علاقوں (فاٹا) کی خصوصی حیثیت ختم کر کے انہیں خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ اس پالیسی کے دو مقاصد تھے:

 

1. مجاہدین کے ان رہنماؤں کی گرفتاری جو مہاجرین میں چھپے ہوئے تھے۔

 

2. سرحد کے دونوں طرف کے مسلمانوں کے درمیان دائمی خلیج پیدا کرنا تاکہ خلافت کے کسی بھی وحدت پسند منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے — وہ خلافت جس کا صرف نام بھی مغرب اور اس کے اتحادیوں کو لرزا دیتا ہے۔

 

تیسرا مرحلہ: امریکی انخلا (2021) کے بعد کا دور

 

اگست 2021 میں امریکی انخلا کے بعد سرحد کے آرپار پشتون قبائل کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا، جنہوں نے 2002 سے جاری پاکستانی فوجی کارروائیوں سے تباہ حال اپنے علاقوں کی بربادی کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرایا۔ ساتھ ہی تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی فوج کے خلاف حملے تیز کر دیے، جنہیں ریاستی عسکری کارروائیوں اور محرومیوں کا ردِ عمل سمجھا گیا۔ اس پس منظر میں، پاکستانی حکام نے سیکیورٹی سخت کی اور افغان مہاجرین کے مسئلے کو افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کا ایک آلہ بنا دیا تاکہ دونوں اقوام کے درمیان فاصلہ مزید گہرا ہو۔

 

موجودہ پالیسی

 

نومبر 2023 میں ملک بدری کی نئی مہم کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوا، جس میں تقریباً 13 لاکھ غیر قانونی افغانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فروری 2025 تک پاکستان 8 لاکھ سے زائد افغانوں کو جبراً ملک بدر کر چکا تھا۔ جنوری 2025 میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغانوں کو 31 مارچ تک علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا، ساتھ ہی ایسا "این او سی" حاصل کرنے کی شرط رکھی گئی جو تقریباً ناممکن تھا۔ مارچ میں وزارتِ داخلہ نے افغان شہری کارڈ (ACC) منسوخ کرتے ہوئے ان کے حاملین کو مہینے کے اختتام تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا، جبکہ 30 جون کے بعد پروف آف رجسٹریشن (PoR) کارڈز کی تجدید بھی بند کر دی گئی، جس سے مزید 16 لاکھ پناہ گزین ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہو گئے۔

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، نومبر 2023 سے فروری 2025 کے درمیان کم از کم 844,499 افغانیوں کو جبراً ملک بدر کیا گیا، جبکہ باقی ماندہ افراد کی ملک بدری کی حتمی تاریخ 1 ستمبر 2025 مقرر کی گئی۔

 

یوں، وہ پاکستانی ریاست جو برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک اسلامی اکثریتی ریاست کے تحت یکجا کرنے کے مقصد سے قائم ہوئی تھی، آج انہی مسلمانوں کو—جو سوویت اور امریکی جارحیت سے بچ کر افغانستان سے فرار ہوئے—ملک بدر کر رہی ہے۔ وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہی ہے کہ مسلمان ایک اُمّت ہیں؛ ان میں کوئی فرق نہیں — نہ افغان و پاکستانی میں، نہ عرب و عجم میں — سوائے تقویٰ کی بنیاد کے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«يا أيها الناس، ألا إن ربكم واحد، وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي على أعجمي، ولا لعجمي على عربي، ولا لأحمر على أسود، ولا لأسود على أحمر إلا بالتقوی»

"اے لوگو! یاد رکھو، تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر، اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کی بنیاد پر" (أحمد)

 

مغربی استعمار کی مسلط کردہ قومی ریاستوں کے نظام نے عالمِ اسلام میں سرحدی تنازعات پیدا کیے، اور امت کے وسائل کو جہاد کے بجائے سرحدوں کی حفاظت میں ضائع کیا۔ مثال کے طور پر، پاکستان نے "ڈیورنڈ لائن" پر باڑ لگانے کے لیے 500 ملین ڈالر خرچ کیے، جبکہ یہی رقم مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے مجاہدین کی تربیت میں استعمال کی جا سکتی تھی۔

 

اسی طرح، بارڈر اور پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں میں سختی نے افغانستان میں پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے نفرت کا بیج بو دیا ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح، جبری ملک بدریوں سے پیدا ہونے والے اختلافات دراصل دشمنانِ اُمّت — بالخصوص امریکہ اور بھارت — کے مفاد میں جا رہے ہیں، اور پاکستان و افغانستان کے درمیان کسی بھی ممکنہ اتحاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

 

آخر میں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ اسلام میں "پناہ گزین" کا کوئی تصور موجود نہیں؛ مسلمان ایک اُمّت ہیں، اور جس طرح کوئی شخص اپنے گھر کے کمروں میں آزادی سے نقل و حرکت کرتا ہے، ویسے ہی مسلمان عالمِ اسلام کے کسی بھی علاقے میں بلا روک ٹوک آ جا سکتا ہے۔ امن و استحکام کا قیام امت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹنے اور سرحدیں کھینچنے سے نہیں، بلکہ اسلامی عقیدہ اور شرعی نظامِ حیات پر کاربند ہونے سے حاصل ہو گا۔ آج پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں پائی جانے والی افراتفری کی اصل جڑ، وہ نظریاتی سیاسی ریاست (خلافت) کا فقدان ہے جو اُمّت کو وحدت بخشتی ہے۔ لہٰذا، خلافت راشدہ علیٰ منهاج النبوة کے قیام کے لیے جدوجہد نہ صرف شرعی فریضہ ہے، بلکہ یہ امن کے لیے ناگزیر بھی ہے

 

﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ

 

"یقیناً یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری ہی عبادت کرو" (سورۃ الأنبیاء : آیت 92)

 

الرایہ میگزین کے شمارہ نمبر 560 کے لیے تحریر کردہ

 

بلال المہاجر - پاکستان

 

 

Last modified onبدھ, 13 اگست 2025 01:18

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک