بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
شام کے بحران میں بین الاقوامی کردار!
سوال:
ھولاند نے 19 اکتوبر 2016 کو پیرس میں روسی آرتھوڈکس مذہبی ثقافتی مرکز کے افتتاح کے بعد، جس میں پوٹین نے شرکت نہیں کی، یہ کہا کہ حلب پر روسی بمباری "حقیقی جنگی جرم" ہے (بی بی سی عربی20 اکتوبر2016 )۔ کرملین کے ترجمان دمیتری بیسکوف نے11 اکتوبر2016 کو اعلان کیا کہ صدر پوٹین نے رواں مہینے کی 19 تاریخ کو پیرس کا مجوزہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ یہ اعلان فرانسیسی صدر کی جانب سے پیرس میں روسی صدر کے استقبال میں تردد کے بیان کے بعد تھاجب روس کی جانب سے شام کے حوالے سے فرانسیسی منصوبے کو ویٹو کردیا گیا جس سے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔۔۔اس کشیدگی کا سبب کیا ہے؟ روس- یورپ تعلقات پر اس کا کیا اثر ہو گا؟ کیا یہ واقعات شام کے بحران میں سرگرم بین الاقوامی فریقوں پر اثر انداز ہوں گے؟ کیا روسی کردار کم ہو کر یورپی یونین کا کردار بڑھے گا؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔۔۔
جواب:
کشیدگی کے سبب کو واضح کرنے اور کیا اس کے اثرات کے نتیجے میں سرگرم بین الاقوامی فریقوں میں کوئی تبدیلی آئے گی ۔۔۔ ہم مندرجہ ذیل امور کو پیش کریں گے:
پہلا: روس کو شام میں بین الاقوامی کردار دینا بین الاقوامی شراکت کے حوالے سےاوباما انتظامیہ کی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اور واشنگٹن میں یہ ایک حقیقت ہے، اور بعض روسی سیاست دان بھی اِس بات کا اظہار اُس وقت کرتے ہیں جب وہ روس کے ساتھ شام کے حوالے سے بات چیت میں امریکہ کے غرور کا ذکر کرتے ہیں۔ روس کو شام میں قتل وغارت اور تباہی کی مہم سونپنے کے پیچھے امریکہ ہی تھا۔۔۔اسی طرح یورپی ممالک خاص کر برطانیہ اور فرانس کو شام کے بحران کو حل کرنے میں مداخلت سے دور رکھنے کے پیچھے بھی امریکہ ہی ہے۔
اس دوران روس کو اعتماد تھا کہ اس بین الاقوامی ذمہ داری سے روس بین الاقوامی منظرنامے میں اچانک ایک سرگرم ملک کے طور سامنے آئے گا، مگراُس کو اِس وقت جھٹکا لگا جب امریکہ نے اُس کو دوسرے مسائل میں شراکت دار بنانے سے انکار کیا، حتی کہ روس کے لیے حساس یو کرائن کے مسئلے میں بھی امریکہ نے روس کی جانب سےشام میں تعاون کے بدلے تعاون نہیں کیا اور یو کرائن میں روسی مفادات کا اعتراف تک نہیں کیا، کیونکہ شام ایک مسئلہ ہے اور یو کرائن ایک اور مسئلہ ہے۔
یوں روس شام میں مداخلت کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اپنی عسکری دھاک دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا، اگرچہ واشنگٹن میں بعض سیاست دانوں نے اس بین الاقوامی شراکت داری پر تنقید بھی کی۔ امریکی وزارت خارجہ میں پچاس سفارت کاروں نے ایک دستاویز کے ذریعے شام کے بحران کو روس کے بغیر اکیلے حل کرنے کا مطالبہ کیا، مگر واشنگٹن نے روس کو استعمال کرنے کی پالیسی پر ہی عمل درآمد کیا۔ اس امریکی پالیسی اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر روس کے نمایاں ہونے پر مغربی یورپ سیخ پا اور برانگیختہ ہو گیا۔۔۔
دوسرا: روس نے دیکھا کہ شام کی وجہ سے اس کی بین الاقوامی پوزیشن نمایاں ہو رہی ہے، عسکری مہم جوئی اور شام کے حوالے سے کیری – لاوروف ملاقاتوں کی وجہ سے اس کی عظمت کا دور واپس آنے لگا ہے، اس لیے یورپ کو شام سے دور رکھنے میں امریکہ کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کیا ۔ وہ امریکہ کی جانب سے اس بحران کو اِن دونوں تک محدود رکھنے پر خوش ہے، خاص طور پر امریکہ کی طرف سے ذمہ داری ملنے پر اور امریکہ کے ہی اثرونفوذ کے علاقے میں قدم رکھنے پر۔۔۔بین الاقوامی طور پر روس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ امریکہ کے بعد بڑا ملک ہے جیسا کہ امریکہ نے یورپ کے بڑے ممالک کو نظر انداز کیا غالباً یورپی ممالک روس سے یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ واشنگٹن کے نقش قدم پر نہ چلے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر امریکی غلبے کو ختم کرنے کے لیے یورپ کی معاونت کرے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ روس کی امریکہ کی جانب مکمل میلان نے یورپ کو سیخ پا کر دیا۔
تیسرا:یورپ کو شام کے بحران سے الگ رکھنے میں بنیادی کردار امریکہ ہی کا تھا، اسی نے اس موضوع کو اپنے اور روس تک محدود رکھا مگر حال ہی میں یورپ نے اس رکاوٹ میں دراڑیں ڈال کر شام کے بحران میں ٹانگ اڑانے کی جگہ پیدا کر لی اور یہ امید کرنے لگا کہ وہ مندرجہ ذیل طریقوں سے شامی بحران میں مداخلت کرسکتا ہے:
1۔ گزشتہ مہینوں کے دوران امریکہ شام کے بحران کے حل کے حصول میں قدم مضبوط کر رہا تھا، جس کا مقصد عنقریب جانے والے صدر کے لیے کچھ کامیابی حاصل کرنا تھا۔ اسی طرح اس کا مقصد امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک ہیلری کلنٹن کے انتخابی مہم کوتقویت پہنچانا بھی تھا، اسی لیے امریکہ اور روس کے درمیان معاہدہ ہوا اور روس نے حلب شہر پر وحشیانہ بمباری میں شدت پیدا کر دی۔ اس کے بعد روس اور امریکہ کے درمیان شام میں حملے روکنے پر9 ستمبر2016 کو اتفاق ہو گیا۔
2۔ اہل شام نے اس معاہدے کو مسترد کیا، یعنی امریکی منصوبے کو مسترد کیا، تمام مخلص انقلابیوں حتی کہ ان لوگوں نے بھی مسترد کردیا جن میں حیاء کا کوئی ذرہ باقی تھا، وہ معاہدے کی ذلت برداشت نہ کر سکے اور اس کو مسترد کیا اور یہ انکار امریکی اسپیشل فورس کے ساتھ تعاون کے حوالے سے انتہا کو پہنچا جن کو اردوگان نے"فرات شیلڈ" آپریشن کے ضمن میں داخل کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے اس امید کے ساتھ وحشیانہ بمباری میں شدت لانے کا فیصلہ کیا کہ اہل شام اور مزاحمت کو دباؤ میں لائے اور وہ امریکی منصوبے کو قبول کرنےپر راضی ہو جائیں یا اس میں سے کچھ قابل ذکر چیزیں قبول کروائے جس کو اوباما کے دور کے اختتام پر اس کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے۔۔۔چونکہ امریکہ یہ ظاہر کرتا آیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ ہے اس لیے روس کے ساتھ تناؤ میں اضافہ کیا تاکہ ایسا لگے کہ امریکہ وحشیانہ روسی بمباری کے خلاف ہے۔۔۔حتی کہ امریکہ نے شام میں روس کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا۔۔۔
3۔ یوں20 اور 22 ستمبر 2016 کو نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاسوں میں امریکہ اور روس کے درمیان لفظی جنگ انتہا کو پہنچ گئی۔۔۔اس نے شام میں امریکہ کے لیے نئی مشکلات پیدا کردیں جس کی وجہ سے امریکہ جنگ بندی کی طرف مائل ہوا، یعنی کیری-لاوروف کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئے اور امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ دوسرے آپشنز پر غور کر رہا ہے۔ امریکہ کی دیوار میں اس دراڑ کو دیکھ کر ہی یورپ نے اس کو ہلانے کی کوشش کی، اسی لیے یورپی ممالک نے نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران شام کے مسئلے کے حل کے لیےکیری -لاوروف حل کی ناکامی کی سرگوشیاں کرنا شروع کردیں اور اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ تا کہ شام کے بحران میں امریکہ کے شانہ بشانہ اس کا بھی کردار ہو۔۔۔پھر انھوں نے اس امید پر امریکہ اور روس کے درمیان خلیج کو بڑھانے کی کوشش کی امریکہ شام کے مسئلے سے روس کو دور کردے گا ۔ لہٰذا روس اور یورپ کے درمیان نئے تناؤ کی بنیادی وجہ یہ ہے۔
چوتھا: اس نئی صورت حال میں یورپ کا امریکہ کی دیوار میں پڑنے والی دراڑ میں داخل ہونے کی کوشش کرنا فطری بات تھی اسی لیے یورپ نے بیانات اور تجاویز کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کا مقصد شام کے بحران میں مداخلت کرنا ہے، اور اس میں سب سے پیش پیش فرانس ہے جس کی مثال یہ ہے:
1۔ امریکہ کی جانب سے شام میں روس کے ساتھ تعاون ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی فرانس آگے بڑھا، سلامتی کونسل میں شام میں جنگ بندی اور انسانیت سوز مظالم کو روکنے کے لیے فرانسیسی منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کا مطلب روسی مظالم روکنا تھا۔ فرانس نے اپنے اس منصوبے کی تمہید کے طور پر5 اور 6 اکتوبر2016 کو اپنے وزیر خارجہ کو فرانسیسی منصوبے کے لیے روس کو قائل کرنے کے لیے ماسکو بھیجا۔۔۔فرانسیسی منصوبے میں حلب پر پروازوں پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ انقلابیوں کو جھکانے پر مجبور کرنے کے لیے بمباری میں اضافے کے امریکہ اور روس کے درمیان سابقہ دوطرفہ ہم آہنگی کے برعکس تھا۔یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی وزیر خارجہ کے دورے کے دوران روس شش وپنج میں تھا۔ ایک طرف روس نے کہا کہ فرانسیسی منصوبے سے معاملات آسان ہو جائیں گے جبکہ دوسری طرف اس کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا۔ فرانس نے اپنے منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوشش جاری رکھی چنانچہ اپنے وزیر خارجہ کو ماسکو کے بعد سلامتی کونسل میں منصوبے کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن بھیجا۔
2۔روس نے8 اکتوبر2016 کو سلامتی کونسل میں ویٹو کے ذریعے فرانسیسی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔۔۔ جس سے روس اور فرانس اور یورپی ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہو گیا کیونکہ وہ شام کے مسئلے میں یورپی مداخلت کی راہ میں روس کو ایک روکاٹ کے طور پر دیکھ رہے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی نے خود یہ موقع پیدا کیا تا کہ یورپ اس کو دیکھ کر حرکت میں آئے جبکہ اُس نے اِس سے پہلے ہی روس کی جانب سے اس کردار پر ڈٹے رہنےکی ضمانت حاصل کی جو اس کو امریکہ نے دیا ہے۔
3۔روسی صدر کا 19 ستمبر 2016 کو پیرس کا دورہ طے شدہ تھا اور یہ اتفاق ہے کہ اسی وقت روس اور فرانس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ، اور اگرچہ یہ نجی دورہ تھا جو کہ روسی ثقافتی مرکز اور آرتھوڈک کلیسا کے افتتاح کے لیے تھا مگر اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ فرانسیسی صدر پوٹین کے ساتھ مشترکہ طور پر مرکز کا افتتاح کریں گے۔ لیکن اس کشیدگی کی وجہ سے فرانسیسی صدر نے10 اکتوبر2016 کوروسی صدر کے نجی دورے کے دوران پوٹین سے ملاقات کے بارے میں تردد کا اظہار کیا، جبکہ کرملین میں ماسکو کے حوالے سے مسلسل یہ اعلان ہو رہا تھا کہ روسی صدر کے دورے کی تیاری حسب معمول جاری ہے، اور اس صورتحال سے روس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ فرانس نے اعلان کیا تھا کہ فرانسیسی صدر پوٹین کے دورے کے دوران ان کے ساتھ صرف شام کے بحران کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے اور ان کے ساتھ افتتاحی تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے۔ فرانسیسی قائد نے کہا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب کے پیرس کے دورے کو صرف شام کے مسئلہ پر پر تبادلہ خیال کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ھولاند نے مزید کہا کہ وہ روسی ثقافتی مرکز کے افتتاح کی تقریبات میں پوٹین کے ساتھ شرکت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ میں صرف شام کے مسئلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہوں(رشیا ٹوڈے 11 اکتوبر2016) ۔ اس سے روس ناراض ہوا اور ماسکو نے11 اکتوبر2016 کو ہی روسی صدر کے پیرس کا دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ یوں فرانس اور روس کے درمیان تناؤ میں زبردست اضافہ ہوا۔
4۔فرانس کی طرف سے کشیدگی بڑھانے کا عمل جاری رہا :" فرانس کے مقامی اخبار نے اتوار کو خبر دی ہے کہ فرانسیسی صدر فرانسو اولاند نے کہا ہے کہ وہ روس پر دباؤ میں کمی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ وہ اپوزیشن کے خلاف جنگ میں شامی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے مگر وہ جاری جنگ کے حوالے سے بات چیت کے لیے روسی صدر ولادی میر پوٹین سے ملاقات کے لیے تیار ہیں" (رائٹرز16 اکتوبر2016 )۔
5۔ "برلن میں جرمنی اورفرانس کے سربراہی اجلاس کے اختتام کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران فرانسیسی صدر ھولانداور جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے جمعرات20 اکتوبر2016 کو روس اور شامی حکومت کی جانب سے حلب شہر پر بمباری کی شدید مذمت کی۔ھولاند نے اس بمباری کو"حقیقی جنگی جرم" قرار دیا۔۔۔ جبکہ انجیلا مرکل نے حلب پر روس اور شامی حکومت کی بمباری کو "غیر انسانی" قرار دیا "۔۔۔۔ ( بی بی سی عربی20 اکتوبر2016 )۔
٭روس اور فرانس کے تعلقات میں کشیدگی کے یہ اسباب ہیں خاص کر شام کے بحران کے حوالے سے۔۔۔ فرانس بھی روس کی طرح سیاسی داؤ پیچ میں ماہر نہیں، یعنی ان کی کشیدگی مزید کشیدگی کو جنم دے گی اور کبھی کبھی یہ دوطرفہ تعلقات میں جمود تک پہنچ جائے گی۔۔۔
پانچواں: جہاں تک روس اور فرانس کے تعلقات میں کشیدگی کا عمومی طور پر یورپ کے ساتھ تعلقات پر اثر اور ان تعلقات کے نتائج کی بات ہے تو وہ مندرجہ ذیل ہے:
1۔ روس اور فرانس کے درمیان کشیدگی روس کی پورے یورپ کے ساتھ کشیدگی ہے، خاص کر یورپ کے با اثر ممالک برطانیہ اور کسی حد تک جرمنی کے ساتھ۔۔۔سلامتی کونسل میں فرانس کا موقف اور فیصلہ یورپی یونین کی نمائندگی ہے جس میں برطانیہ بھی شامل ہے جو اب تک یورپی یونین کا رکن ہے، بلکہ برطانیہ اپنی پالیسی کو بڑی حد تک فرانس کے ساتھ ہم آہنگ رکھتا ہے۔ فرانس اپنی پیش قدمی کی عادت اور جرات کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست میں یورپی یونین خاص کر برطانیہ کا ہر اول دستہ ہے۔ اس کی طرف بڑا اشارہ فرانس اور روس کے تعلقات میں کشید گی کے فوراً بعد برطانیہ کے روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی سے ہوتا ہے،" سلامتی کونسل میں رائے شماری کے تھوڑی دیربعد ہی برطانوی مندوب نےروسی ویٹو کو روسی کاروائیوں کے لیے 'باعث شرمندگی' قرار دیا"( العربیہ نیٹ 8 اکتوبر2016 ) اورمیڈل ایسٹ آن لائن نے11 اکتوبر2016 کو خبر دی کہ،جانسن نےبرطانوی پارلیمنٹ میں کہا کہ " اگر روس نے یہی روش برقرار رکھی تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑا ملک ایک سرکش ریاست بن جانے کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا"، اس نے جنگ مخالف گروپوں کو روسی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کی دعوت دی، اس نے کہا کہ،"میں یقیناً مظاہرین کو روسی سفارت خانے کے باہر دیکھنا چاہوں گا"(رائٹرز)۔ اس نے مزید کہا کہ تمام دلائل اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ روس ہی اس خوفناک اقدام کا ذمہ دار ہے،جو کہ امدادی قافلے پر حملے کی طرف اشارہ ہے۔ روسی اخبار سبو تنیک کے مطابق دوسرے ہی دن12 اکتوبر2016 کو روس نے اس کا جواب دیا،" روسی وزارت دفاع نے جانسن کے دعوں کو نفسیاتی مرض کا نتیجہ قرار دیا جو دوسروں کے لیے دشمنی کے جذبات رکھنے سے لاحق ہوتی ہے۔ روسی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکو نے جانسن کے دعوں کو روس کے بارے میں ہسٹریا کا نتیجہ قرار دیا، جو کہ برطانیہ کے بعض رہنماوں کو لاحق ہے"۔۔۔پھر وہ بیان جس کا پہلے ہم نے ذکر کیا : " ھولاند نے بمباری کو"حقیقی جنگی جرم" قرار دیا اور میرکل نے اس کو "غیر انسانی" کہا۔۔۔" (بی بی سی عربی20 اکتوبر2016 )
یعنی روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی میں پورا یورپ شامل ہے، اور یورپ میں یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ شام کی وجہ سے روس پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے اور اس پر نئی پابندیاں لگائی جائیں۔۔۔یوں فرانس ، برطانیہ اور باقی یورپی ممالک روس کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدہ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور وہ روس اور اس کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس امید پر کررہے ہیں کہ اس طرح انہیں شام کے مسئلے میں مداخلت کا موقع مل جائے گا جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ان لوگوں کے مسلمانوں کے لیے عزائم اچھے نہیں ہیں، یوں یورپی ممالک کے لیے مسئلہ وہ قتل وغارت نہیں جس کا ارتکاب روس شام کے مسلمانوں کے خلاف کر رہا ہے، ان ممالک کا موقف گزشتہ 6 سال سے شام میں مسلمانوں کے خون کے سیل رواں کے بارے میں لا پرواہی سے بہت آگے ہے، مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ ممالک بڑے ممالک کے طور پر شام کے مسئلے کے حل میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔۔۔
2۔ روس فرانس تعلقات میں کشیدگی کے مطابق یورپی یونین میں تیزی سے کئی واقعات رونما ہوئے، چنانچہ " برطانیہ اور فرانس نے یورپی یونین سے شام پر روس کے فضائی حملوں کی مذمت اور ماسکو پر مزید پابندیوں کا مطالبہ کیا۔۔۔ فرانس کے وزیر خارجہ جان مارک ایرو نے کہا کہ روس پر دباؤ بھرپور ہونا چاہیے، اُس نے اِس طرف اشارہ کیا کہ یورپی یونین کے ایک موقف اختیار کرنے سے ہی حلب کے باشندوں کے قتل عام کو روکا جا سکتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس مزید 20 شامیوں پر سفری پابندی لگانا چاہتے ہیں، اسی طرح 12 روسی باشندوں اور دو سو مزید لوگوں پر پابندی لگائی جائیں گی جن میں تین ایرانی بھی شامل ہیں، جن کا شام میں جاری جنگ میں کردار ہے۔۔۔"( الجزیرہ17 اکتوبر 2016 )۔۔۔معاشی پابندیوں کے موضوع پر پابندی کے حوالے سے کسی فیصلے کے اجرا کے بغیر ہی عمل کیا گیا چنانچہ" نیوز چینل'رشیا تو ڈے' نے اعلان کیا کہ برطانوی بینک نے اپنے فیصلے کی وجوہات سے آگاہ کیے بغیر اس کے تمام اکاونٹس منجمد کر دیے ہیں ۔۔۔ اور رشیا ٹوڈےنے اپنے چیف ایڈیٹر مارگاریتا سیمونیان کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے ٹوئیٹ کیا ہے کہ ' برطانیہ میں ہمارے تمام اکاونٹس منجمد کردئیے گئےہیں! یہ حتمی فیصلہ ہے'۔۔۔"(الجزیرہ17 اکتوبر 2016 )۔۔۔" اور جمعرات کو یورپی رہنما برسلز میں روس کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بحث کریں گے اور شام میں اس کے اقدامات کی وجہ سے پابندیاں لگانے کے بارے میں دیئے گئے آپشنز پر غور کریں گے۔۔۔" ( رائیٹرز عربی19 اکتوبر2016 )
3۔ جوں جوں روس کے ساتھ فرانس اور یورپ کے تعلقات کشیدہ ہوتے جائیں گے روس اور یورپ کے درمیان رسہ کشی میں بھی اضافہ ہو تا جائے گا، جس کے مظاہر یو کرائن یا مشرقی یورپ کے کسی بھی علاقے میں نظر آئیں گے، اور یورپی ممالک روس پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔۔۔روس کے یورپ کے ساتھ تناؤ میں اضافے کےبہت سے اسباب ہیں،اور یہ صرف بین الاقوامی اہمیت کی وجہ سے شام تک محدود نہیں، اوراگر روس نے یورپ کے ساتھ سودے بازی میں عقلمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو یورپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی سے نقصان روس کو ہی ہو گا۔شام کے بحران میں پیش پیش ہونے کے بعد روس بین الاقوامی تعلقات میں عقلمندی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے، جس وقت دنیا شام میں روس کی جنگی جرائم کا ذکر کر رہی ہے وہ حلب میں بمباری میں مزید اضافہ کر رہا ہے، جو کہ روس کی سیاسی کوتاہ نظری کا ثبوت ہے۔ روس کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے مطمئن کیا گیا ہے ، اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ شام کے حوالے سے روس امریکہ تعلقات میں بظاہر تناؤ حقیقی نہیں۔ اس بظاہر تناؤ کے ماحول میں ہی امریکی دفتر خارجہ نے لوزان میں کیری اور لاو روف کی ملاقات کا اعلان کیا، جوکہ عملاً15 اکتوبر2016 کو ہو بھی چکی تھی جس میں بعض آلہ کاروں اور پیرو کاروں نے بھی بھرم رکھنے کے لیے شرکت کی جو پہلے روس کے ساتھ تعلقات کی نفی کرتے تھے اوراب ان سے مل رہے ہیں! جبکہ یورپ اب بھی ان سے ملنے سے روکتا ہے!
4۔ ایسا لگ رہا ہے کہ روس کو بھی ادراک ہو گیا ہے کہ وہ کس مشکل میں پھنس گیا ہے، امریکہ نے روس کو وحشیانہ بمباری کے لیے فرنٹ لائن بنا یا، یورپ نے امریکہ اور روس کے درمیان مصنوعی کشیدگی سے فائدہ اٹھایا اور روس کے وحشیانہ حملوں کے خلاف سخت موقف اپنایا۔۔۔اسی لیے روس نے یورپی موقف کو نرم کرنے کا ارادہ کیا اور جنگ بندی کے موضوع پر بات کرنے لگا۔ " روس نے' انسانی جنگ بندی' کا اعلان کیا جس کے دوران شامی شہر حلب پر بمباری روک دی۔ روس نے کہا کہ وہ جمعرات20 اکتوبر2016 کو حلب پر بمباری آٹھ گھنٹے کے لیے روک دے گاجوکہ مقامی وقت کے مطابق صبح اٹھ بجے اورعالمی معیاری وقت کے مطابق صبح پانچ بجے سے سہ پہر چار بجے تک ہو گی۔۔۔ یہ اعلان حلب پر روسی بمباری سے ایک ہی خاندان کے 14 افراد کے قتل کی خبروں کے بعد کیا گیا۔۔۔" (بی بی سی عربی17 اکتوبر2016 )۔۔۔اسی طرح پوٹین نے شام کے موضوع پر یورپ سے بات چیت کا اعلان کیا حالانکہ اس سے قبل وہ ھولاند سے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر چکے ہیں:" فرانس کے صدر کی جانب سے کل اعلان کیا گیا کہ روسی صدر ولادی میرپوٹین، فرانسیسی صدر فرانسو ھولاند اور جرمن چانسلر انجیلامرکل آج بدھ کے دن برلن میں شام کے بحران کے حوالے سے'مشترکہ اقدام' کے لیے ملاقات کریں گے۔۔۔" ( ایجنسیز،خلیج اخبار 19 اکتوبر2016 )۔
٭یوں فرانس اور روس کے درمیان تعلقات میں رونما ہونے والی کشیدگی کی باز گشت یورپ میں سنائی دی، اسی وجہ سے روس یورپ کے حوالے سے مشکل میں پھنس گیا اور اب اس مشکل سے نکلنے کے لیے راستہ ڈھونڈ رہا ہے، اسی لیے یورپی یونین سے شام کے بحران کے حوالے سے ملاقاتیں کر رہا ہے جبکہ اس سے قبل اس حوالے سے ھولاند نے بات کرنے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے تناؤ میں اضافہ ہوا اور صورت حال گرم ہوئی۔۔۔
چھٹا: کیا ان واقعات کے نتیجے میں شامی بحران کے حوالے سے بین الاقوامی یا علاقائی فریقوں میں کوئی تبدیلی آئے گی۔۔۔تو اس کی توقع نہیں کہ کوئی تبدیلی آئے بلکہ بین الاقوامی سر گرم فریق وہی ہو گا، یعنی امریکہ اور اس کے وکلاء روس،ترکی ، ایران اور سعودیہ۔ جہاں تک یورپی یونین کی بات ہے تو اس کا حصہ قابل ذکر نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ روس کے خلاف یورپی لہجے میں سختی اور شام کے بحران میں کردار کی خاطرامریکہ کی قربت کی ذلت آمیز کوشش کے باوجود امریکہ نے15 اکتوبر2016 کو لوزان کانفرنس بلائی اور یورپ کو اس میں شرکت کرنے نہیں دیا، جبکہ روس اس کانفرنس میں امریکہ کے شانہ بشانہ شامل تھا حالانکہ امریکہ یہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ روس کے ساتھ تناؤہے اور تعلقات کشیدہ ہیں۔۔۔! جب امریکہ نے یہ دیکھا کہ اس سے یورپ پریشان ہو گیا ہے تب امریکہ نے یورپ کو خوش کرنے کے لیے16 اکتوبر2016 کو یورپ کے ساتھ ایک اجلاس کیا جس میں کسی اور کو نہیں بلایا گیا اور ان کے ساتھ دل لگی کی اور اجلاس جہاں سے شروع ہوا تھا وہی ختم ہو گیا۔۔۔
٭اسی لیے شام کے بحران میں بین الاقوامی کردار امریکہ اور اس کے وکیل روس اور اس کے بعد امریکہ کے پیروکاروں تک ہی محدود رہے گا۔
یہ تو بین الاقوامی اور علاقائی فریقوں کے حوالے سے تھا، جو مکر کرتے ہیں اور سازشیں کرتے ہیں مگر شام اور شام سے باہر ایسے جواں مرد ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مخلص اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچے ہیں وہ ہر گز امریکہ روس اور ان کے پیرو کاروں کو اپنے مکر اور شریر منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور شام میں ان کو قدم جمانے نہیں دیں گے بلکہ ان کا حال بھی ایسا ہو گا جو ان جیسوں کا پہلے ہوا:
﴿قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ﴾
"ان سے پہلے لوگوں نے بھی مکر کیا اللہ نے ان کی جڑ اکھاڑ کر رکھ دی اور ان پر ان کی چھت ہی گر گئی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا جہاں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا"(النحل:26)۔
19 محرم الحرام 1438ہجری
بمطابق20 اکتوبر 2016