الأربعاء، 18 محرّم 1446| 2024/07/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب: پانامہ لیکس دستاویزات اور اس کے پس پردہ محرکات

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب:

پانامہ لیکس دستاویزات اور اس کے پس پردہ محرکات!

سوال :

پانامہ لیکس دستاویزات  صحافیوں اور سیاست دانوں  خاص کر ان لوگوں کے ہاں موضوع بحث ہے  جن کے نام ان  دستاویزات میں آئے ہیں۔۔۔ میں نے  الرایہ میگزین شمارہ 73  میں مقالہ پڑھا کہ ان لیکس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے ،کیا یہ درست ہے؟  ان لیکس کے بارے میں  جو کچھ لکھا گیا  ہے اس کے مطابق یہ ٹیکس چوروں کی محفوظ پناہ گاہوں پر ضرب  لگانے کے لیے ہے جس کا مطلب یہ ہے  اس میں اقتصادی پہلو ہے، مگر مقالے میں یہ نہیں بتا یا گیا ہے۔ اس لیے ان لیکس  کے اقتصادی مقاصد کی نوعیت کیا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا ان لیکس  کے پیچھے کارفرما عوامل  سیاسی ہی ہیں جیسا کہ مقالے میں کہا گیا ہے یا اس میں اقتصادی عوامل بھی ہیں؟ اس امر کی وضاحت کی امید کرتا ہوں، آپ کا شکریہ۔

 

جواب:

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مقالے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان لیکس کے پیچھے  امریکہ کا ہاتھ ہے، تو یہ درست ہے۔   رہا سوال لیکس کے پس پردہ سیاسی محرک  کے ساتھ ساتھ اقتصادی محرک کاجس کا ذکر مقالے میں کیا گیا ہے تو  اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں اقتصادی محرک بھی ہے، مگر مقالے میں لیکس کے سیاسی پہلو پر بات کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی،  دوسرے پہلوں  تک بات کو توسیع نہیں دی گئی تھی۔۔۔ بہر حال ہم لیکس کے  موضوع پر مزید روشنی ڈالیں گے اور انشاء اللہ  سیاسی اور اقتصادی دونوں عوامل کا احاطہ کریں گے تاکہ ہر پہلو سے صورتحال واضح ہو جائے، اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔

اول: مسئلے کی حقیقت:

1۔ اپریل 2016 کے اوائل سے ہی عالمی میڈیا  دنیا بھرکے بھار ی بھر کم سیاست دانوں کی دولت اور کرپشن  کے خبروں میں مصرودف ہو گیا جرمن اخبار Suddeutsche Zeitung  نے 11.5 ملین دستاویزات شائع کیں جو 1977 میں اس کے قیام کے وقت سے  کمپنی Mossack Fonseca لاء فورم کے یومیہ  لین دین کی تفصیلات پر مشتمل تھیں۔  یہ دستاویزات ایک سال پہلے اخبار کو ایک ذرائع "جون ڈو" سے  ملی تھیں۔  کمپنی کے بانیوں میں سے ایک رامون فونسیکا نے  کہا کہ ان دستاویزات کایہی وہ واحد جرم ہےجو قانون  کے خلاف نہیں  یعنی کہ کمپیوٹر کو ہیک کرنے کا عمل۔ اس قدر بے تحاشہ  دستاویزات میں معلومات کےتجزئیے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کو جرمن اخبار نے   370 ارکان پر مشتمل صحافیوں کی بین الاقوامی اتحاد  کے حوالے کیا  اور پانامہ پیپر ز کو موجودہ شکل میں شائع ہونے سے ایک سال پہلے ان کا تجزیہ کیا گیا، جبکہ11.5لیکس پیپرز میں سے صرف 149 دستاویزات کو شائع کیا گیا (الغد ٹی وی 4/4/2016)

یہ موجودہ اور سابقہ سربراہان حکومت، سیاسی شخصیات  اور کاروباری لوگوں کی ٹیکس کی چھوٹ فراہم کرنے والی پناہ گاہوں میں  ہونے والی سودے بازیوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔۔۔اس لیکس نے  ایک عالمی ہیجان پیدا کر دیا حتٰی کہ تجزیہ کاروں نے"پانامہ لیکس" کو  سب سے بڑا صحافتی تحقیقاتی اعدادوشمار اور  انسانی تاریخ کی سب سے بڑی لیکس قرار دیا،بلکہ کئی لحاظ سے  یہ مشہور ویکی لیکس سے  سے بھی بڑی اور زیادہ خطرناک تھی۔

صحافیوں کے بین الاقوامی اتحادنےانکشاف کیا کہ "دستاویزات سب سے پہلے جرمن اخبارSuddeutsche Zeitungسے ملیں جس کے بعد ہم نے ان کو تحقیقات کے لیے 70 ملکوں کے 370 صحافیوں میں تقسیم کیا ،  یہ مشکل کام تقریباً ایک سال جاری رہا"(الجزیرہ 4/4/2016 )۔ جبکہ جرمن اخبار نے کہا ہے کہ  "یہ معلومات اس نے ایک خفیہ ذرائع سے بغیر کسی مالی معاوضے کے ایک خفیہ واسطے کے ذریعے حاصل کی ہیں  اورغیر متعین سیکورٹی  کے اقدامات کے مطالبے کے ساتھ۔۔۔" (الجزیرہ 4/4/2016)۔  یہ دستاویزات دنیا کے 2 سو سے زائد ممالک کے 2 لاکھ  14 ہزارسے زیادہ آف شور کمپنیوں کے اعدادوشمار پرمشتمل ہیں۔ صحافیوں کی بین الاقوامی اتحاد کی تنظیم نے مزید کہا کہ "دستاویزات سے  بڑی تعداد میں عالمی شخصیات  جن میں 12 ریاستی سربراہان ہیں، 143 سیاست دانوں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث  ہونے کے شواہد ملے ہیں جیسے ٹیکس چوری اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرنا" (الجزیرہ 4/4/2016 )۔ کمپنی کے ایک  بانی  رامون فونسیکا نے تسلیم کیا کہ تحقیقات میں جن دستاویزات کا ذکر ہے جن کو سینکڑوں اخبارات نے شائع کیا ہے  درست ہیں، تا ہم انہوں نے   " کمپنی کی جانب سے کسی بھی قسم کے خلاف قانون کام کے ارتکاب  کی تردید کی"،  انہوں نے اعتراف کیا کہ "  کمپنی کی ڈیٹا بیس کو کامیابی سے ہیک کیا گیا مگر یہ محدود ہے" (الجزیرہ 4/4/2016)۔ جرمن اخبار  Suddeutsche Zeitung   کے دو صحافیوں، جن کو یہ دستاویزات موصول ہوئیں تھیں،  نے کہا کہ "ہمیں آدھی دستیاب دستاویزات ملی ہیں ، آنے والے دنوں میں   ہم ایسے موضوعات شائع کریں گے  جو بہت سے ممالک کے لیے معنی خیز  ہیں  اور  شہ سرخی ہوں گے"(الجزیرہ ٹی وی 8/4/2016)۔

2۔  اس بڑے صحافتی زلزلے کے ساتھ  ساتھ آنے والے  رد عمل کے نتیجے میں  آئرلینڈ کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دےدیا،  برطانوی وزیر اعظم  ڈیوڈ کیمرون پریشانی سے دوچار ہوئے،  روسی صدر پوٹین سوال کا جواب دیتے ہوئے  آپے سے باہر ہوگئے،  دنیا کے کئی ممالک نے   اس بڑے مالیاتی سیکنڈل کے ذمہ داروں سے تحقیقات کا اعلان کیا۔  جرمن اخبار اور صحافیوں کے اتحاد نے  کہا کہ ان دستاویزات کا اگلہ مرحلہ زیادہ  حیران کن ہو گا۔

اس تمام سیاسی ہلچل کے باوجود  آف شور کمپنیوں کی شکل میں اس قدر بے تحاشہ  دولت کے   خفیہ لین دین  کو افشاں کرنے کے  اقتصادی اہداف  اس کے سیاسی اہداف سے کم نہیں ہوں گے۔    موساک فونسیکا لاء فرم  ان بڑی کمپنیوں  میں سے ایک ہے  جو   پوری دنیا میں آف شور کمپنیاں بنانے کے لیے  قانونی خدمات فراہم کرتی ہیں اور ان لوگوں کی بے تحاشہ دولت کی دیکھ بھال کرتی ہیں  جو مالی لین دین کے دوران اپنی شناخت ظاہر کرنا نہیں چاہتے اور ان کی دولت  نظروں سے اوجھل بینکوں کی خفیہ الماریوں میں پڑی ہے جن کو"ٹیکس سے پناہ کی جگہ" کہا جاتا ہے۔ اسی طرح   حقیقی کمپنیاں بھی ویسی ہی قانونی سہولیات چاہتی ہیں جیسی کہ موساک فونسیکا فراہم کرتی ہے۔ان کا کام اس طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ دو ممالک کی سرحدوں کے درمیان موجود کوئی "فری زون"جہاں ان ممالک کا ٹیکس نظام لاگو نہیں ہوتا اور صرف ایک متعین رقم آف شور کمپنی کے قیام کے وقت "ٹیکس ہیون" ملک کو دی جاتی ہے۔  پانامہ دستاویزات میں  2 لاکھ 14 ہزار آف شور کمپنیوں  کے مراسلے ہیں جن کو موساک فونسیکا نے  متعدد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بنایا۔  اس لیے پانامہ دستاویز  کے دور رس سیاسی اور اقتصادی  اثر ات ہوں گے۔۔۔

دوسرا: لیکس کے سیاسی اثرات:

یہ لیکس دسیوں ممالک  میں حکام کی دولت اور املاک کے لیے خطرہ ہیں اس لیے یہ محال ہے کہ کوئی اتفاقی کام ہو۔  چونکہ ان لیکس میں بڑے بھی شامل ہیں جیسے روسی صدر اس لیے یہ کسی چھوٹے ملک کا کام نہیں۔ ان لیکس کی ڈوریوں کا پیچھا کرنے  اور ان کے حوالے سے سیاست دانوں کے وضاحتوں  کو پرکھنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کام کے پیچھے امریکہ ہی ہے، اوروہ اس طرح ہے:

1 ۔  جرمن اخبار  Suddeutsche Zeitung جس نے نامعلوم ذرائع سے  ان لیکس تک رسائی حاصل کی ،سیکورٹی امور کے لیے مختص ہے  اور  جرمن انٹلیجنس اکثر جن معلومات کو لیک کرنا چاہتی ہے اس اخبار کے ذریعے لیک کرتی ہے۔ اسی اخبار سے سب سے پہلے 2010 میں   دبئی میں مبحوح کو قتل کرنے  کےلئے آسٹریا میں موساد کے کنٹرول روم کی موجودگی کی نشاندہی گئی۔  اسی اخبار نے  جرمن انٹلیجنس کی یہ رپورٹ بھی لیک کی تھی کہ جرمن قومی انٹلیجنس امریکی سی آئی اے  کی نمائندگی کرتے ہوئے   کئی سال تک یورپی ممالک کی جاسوسی کرتی رہی(بی بی سی 30/4/2015 ) ۔اس اسکینڈل نے جرمن چانسلرمارکل کو  یورپی ریاستوں کے سامنے شرمندہ کیا۔ اخبار نے  کہا کہ  جرمنی کی جانب سے امریکہ کے لیے جاسوسی  فرانس کے صدارتی محل ، وزارت خارجہ  اور  یورپی کمیشن  کے خلاف بھی تھی اوریورپ میں   مزید صنعتی اور اقتصادی اہداف بھی تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ لیکس  اس تناؤ میں کمی کے لیے تھیں  جو جرمنی میں ایجنٹ سنوڈن کی لیکس کے نتیجے میں پیدا ہواتھا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ   نے جرمنی میں  بڑے پیمانے پر جاسوی کی جس میں   چانسلر مارکل کا فون ٹیپ کرنا بھی شامل ہے۔یعنی  یہ امریکہ کی جانب سے  جرمنی میں پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے کے مقصد کے لیے تھا  اور یہ دکھانا تھا کہ خود جرمنی بھی  یہی جاسوسی کر رہا ہے ! یہ بھی واضح ہے کہ یہ امریکی اہداف  جرمن انٹلیجنس کے ذریعے  جرمن اخبار " Suddeutsche Zeitung" کی وساطت سے حاصل کیے گئے، یعنی  امریکی سیکیورٹی کی ڈوریاں  سابقہ واقعات کے ذریعے پانامہ لیکس سے ملتی ہیں۔ یہی اخبار Suddeutsche Zeitung ہی وہ پہلا اخبار ہے  جس کو دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے پانچ مہینے بعد  6 اکتوبر 1945 کو باواریا میں امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے لائسنس ملا تھا (وکی پیڈیا) اور اس اخبار کا سربراہ ھانس لینڈیکیر جو کہ ایک مشہور جرمن صحافی ہے ایک طویل عرصے تک سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ (http://whitetv.se/ 2016/04/03

امریکی شہری " بریڈلی بیر کنفیلڈ"  ،جس نے  سوئس اکاؤنٹس کے راز کو امریکی  اداروں کے لیے  افشاں کیا تھا، نے ان لیکس کے بارے میں کہا ہے کہ : " اگر نیشنل سیکیورٹی ایجنسی اور سی آئی اے غیر ملکی حکومتوں کی جاسوسی کرسکتی ہیں  تو کیا وہ اس قسم کی لاء فرم  کی جاسوسی نہیں کر سکتی؟! وہ اس طرح  چھان شدہ معلومات رائے عامہ کو دے رہے ہیں  کہ جس سے  امریکہ کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچے۔۔۔ ان لیکس کے پیچھے  بڑی شر انگیزی پوشیدہ ہے"

(http://www.cnbc.com/2016/04/12/swiss-banker-whistleblower-cia-behind-panama-papers.html).


وکی لیکس کے اپنے "ٹوئیٹر" اکاونٹ میں ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا گیا کہ  موساک فونسیکا  کمپنی کی دستاویزات کو لیک کرنے کے لیے سرمایہ  براہ راست امریکی حکومت نے فراہم کیا اور امریکی ارب پتی جورج سوروس  نے دیا (الوفد 9/4/2016 )۔۔۔ اسی طرح جرمن نژاد  مورگن موساک،  جو کہ "موساک فونسیکا" کمپنی کا اولین بانی ہے،  کے بارے میں انٹلیجنس کی سابقہ فائلوں  کے مطابق امریکی سی آئی اے کے ساتھ   تعلقات کا شبہ ہے۔۔۔

موساک نے  امریکی سی آئی اے  کے لیے جاسوسی کی پیش کش کی تھی"( ایلاف مصری وئب سائٹ 4/4/2016 )۔ موساک نے  دستاویزات  اسکینڈل پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا (ایلاف سائٹ 8/4/2016 )  کمپنی کے جو تبصرے سنے جا رہے ہیں وہ اس کے پارٹنر فونسیکا کے ہیں جو کہ  پانامہ کے صدر کے مشیر ہیں۔۔۔ یاد رہے کہ  موساک کمپنی کا  امریکی سی آئی اے کے ساتھ پہلے بھی لین دین تھا اور یہی کمپنی  سی آئی اے کے ایجنٹوں  کی آماجگاہ تھی جن کو  اسّی کی دہائی میں  ایران- کونٹرا اسکینڈل کہا جاتا ہے(رشیا ٹو ڈے 12/4/2016 )۔

2۔ جرمن اخبار سے یہ دستاویزات    ایک سال قبل تحقیقات کرنے والی صحافیوں کی بین الاقوامی اتحادکی تنظیم  کو منتقل ہوئیں جس کا ہیڈ کواٹر واشنگٹن میں ہے، اور واشنگٹن میں ہی  پانامہ لیکس کی  تقریباً11.5 ملین دستاویزات  کی ایک سال کے عرصے تک چھان بین اور تجزیہ کیا گیا ! یہ ایک مہنگی کاروائی تھی جس میں 370 صحافیوں نے کام کیا۔۔۔صحافیوں کی بین الاقوامی اتحاد کی تنظیم  اپنے نا موار قسم کے کاموں کے لیے مشہور ہے  اسی نے 2013 میں  ایک لاکھ بیس ہزار آف شور کمپنیوں   کے چرائی گئی فائلوں کو افشاں کیا تھا جن کی مقدار2.5 ملین تھی،  اسی نے 2014 میں  ملٹی  نیشنل کمپنیوں اور لگسمبرگ کے درمیان ٹیکسوں میں کمی سے فائدہ اٹھا نے کے لیے ہونے والے معاہدوں کو بے نقاب کیا تھا۔ اسی نے 2015 میں   سوئیزرلینڈ میں برطانوی  ایچ ایس بی سی بنک اکاؤنٹس کو بے نقاب کیا تھا۔  اسی طرح صحافیوں کی اس بین الاقوامی  اتحاد کی تنظیم کو فنڈز  بلا شک وشبہ  ایسی کئی تنظیمیں دیتی ہیں  جو کہ امریکی سی آئی اے سے مربوط ہیں، جسے فورڈ اور جورج سوروس کا ادارہ ۔۔۔( Voltairenet.org 8/4/2016 )۔

3 ۔ کئی مغربی اور مشرقی تجزیہ نگار  اور دانشور سمجھتے ہیں کہ امریکہ ہی  پانامہ پیپر اسکینڈل کے پیچھے ہے،  اوران کی دلیل یہ ہے کہ  امریکیوں اور ان کی کمپنیوں کے نام پانامہ پیپرز سے غائب ہیں۔  انہوں نے یہ ملاحظہ کیا ہے کہ نسبتاً بہت کم امریکی سیاست دانوں ،کاروباری لوگوں اور امریکی اداروں  کے بارے میں دستاویزات میں ذکر ہے۔ اخبارات کا  گروپ McClatchy  وہ واحد امریکی اخباری ادارہ ہے جس نے  دستاویزات کی چھان بین میں حصہ لیا، اور  اس کے علاوہ کوئی  اہم اور بڑے اخبار  یا امریکی ادارے نے اس میں حصہ نہیں لیا۔

  جن اخبارات نے  دستاویزات کے تجزیے میں حصہ لیا، ان کو صرف اس میں چار امریکی نظر آئے،  جن پر پہلے بھی الزامات لگ چکے ہیں یا جن کے مالی جرائم پر انہیں سزا بھی ہوچکی ہے  جیسے جعلی سازی اور ٹیکس چوری یعنی یہ چاروں  پہلے سے ہی جانے پہچانے  مجرم ہیں!

اس نکتے پر بات  کرتے ہوئے فرانسیسی اخبار " فان مینوت" نےاشارہ کیا کہ"پانامہ دستاویزات میں امریکہ کا ذکر نہ ہونے سے  سب نے اس شک و شبہے کا اظہار کیا ہے کہ  امریکی انٹلیجنس ہی   پانامہ کے ان دستاویزات کو لیک کرنے کے پیچھے ہے جس کا مقصد بعض ممالک خاص کر روس میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے"۔ اخبار نے کہا ہے کہ چین سے روس اور برطانیہ تک  پانامہ لیکس نے  دنیا بھر میں کئی  نمایاں عہدہ داروں کے ملوث ہو نے کو بے نقاب کیا ہے  مگر  اب تک  بین الاقوامی سرمایہ کاری کے اصل کھلاڑی  امریکہ کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ اخبار نے بات یہ کہہ کر ختم کی کہ " امریکہ کی جانب سے ان  لیکس سے تعلق  نہ ہونے  کے دعووں کے باوجود   اس کی پرانی پالیسی کی وجہ سے اسی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے  کیونکہ وہی مد مقابل پر اثر انداز ہونے اور  دنیا میں تشویشناک صورت حال پیدا کرنے  کے لئےگندے دستاویزات لیک کر تا رہا ہے  جس کے لیے وہ ایسے وقت کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے مفاد میں ہو"( اخبار الیوم الجزائریۃ 9/4/2016 )۔

4 ۔ ان لیکس میں وہ سیاسی شخصیات شامل ہیں  جن کو تنگ کرنا،  کمزور کرنا اور ان کی کرپشن کو بے نقاب کرنا امریکہ کے لیے اہم ہے! جن میں سے نمایاں یہ ہیں:

ا۔ پوٹین، لیکس کی پہلی لہر  کا رخ  پوٹین کے آدمیوں کی طرف تھا، اور  یہ  اس امریکی پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ قفقاز،وسطی ایشیاء اور یو کرائن میں روس کے لیے مسائل پیدا کر تا ہے۔ واشنگٹن میں ہونے والی ایٹمی سربراہی کانفرنس سے روس کو دور رکھنا بھی کوئی آخری عمل نہیں تھا۔کرملین کا رد عمل بھی براہ راست تھا جب  اس کے ترجمان بیسکوف نے فوراً الزام لگا یا کہ واشنگٹن ہی ان لیکس کے پیچھے ہے، اس  نے کہا" تحقیق کر نے والی صحافیوں کے بین الاقوامی  اتحاد  میں شامل لوگ صحافی ہی نہیں بلکہ  ان میں سے بیشتر امریکی وزارت خارجہ ، سی آئی اے   اور دوسرے انٹلیجنس اداروں کے حالیہ یا سابقہ ملازمین ہیں "۔ اس نے زور دے کر کہا: "  ہم جانتے ہیں کہ اس ادارے کو فنڈز کون دیتا ہے"(رشیا ٹو ڈے 4/4/2016)

پوٹین نے خود روسی ٹی وی سے بات چیت کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے  پانامہ دستاویزات کے بارے میں کہا:"بات جس قدر تعجب کی ہو مگر  یہ معلومات قابل اعتماد نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں  معلوم ہے کہ یہ صحافیوں کے ذریعے نہیں بلکہ قانون کے لوگوں کی جانب سے آئیں ہیں"۔ پوٹین نے سوال کیا :" کون یہ اشتعال انگیز اقدامات کررہا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ امریکہ کے سرکاری اداروں کے اہلکار ہیں"۔  اس نے کہا کہ مذکورہ جرمن اخبار،  جس نے یہ افشاں کیا،  صحافیوں کے ایک گروپ کی ملکیت ہے  جو امریکی مالیاتی ادارے" گولڈمین سیکس" کی ہیں اور اس نے پیش گوئی کی کہ"ستمبر 2016 کے روس کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ اس قسم کی مزید اشتعال انگیزیوں کی توقع ہے"(الشروق: 14/4/2016 )۔

ب ۔ اسی طرح ان لیکس میں برطانوی وزیر اعظم  کا نام بھی شامل ہے،  وہ اس لین دین میں مرتکب ظاہر کیے گئے ہیں،  چنانچہ ان دستاویزات کے افشاں ہونے  کے ایک ہفتے کے اندر ہی ان کی مقبولیت 8 نکتے گرگئی اس بات کے باوجود کہ انہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے پیش کردیے اور پانامہ دستاویزات میں ان سے متعلقہ دستاویزات انہیں صرف 30 ہزار اسٹرلنگ پاونڈ کے معاملے میں ملوث کرتی ہیں!  مگر وقت کے انتخاب نے برطانوی وزیر اعظم کو پریشان کر دیا کیونکہ  وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے برطانیہ کے شہریوں کو یورپی یونین میں شامل رہنے کے لیے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے پر قائل کرنا چاہ رہے تھے۔ "برطانوی ویز اعظم ڈیوڈ کیمرون  کو پانامہ لیکس میں اس کے باپ کا نام آنے پر سوالات،تنقید اور ٹیکس کے بارے میں اپنے اقرار ناموں کو ظاہر کرنے کے مطالبے کا سامنا رہا۔۔۔دستاویزات میں  یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کیمرون کے باپ  Ian قانونی خدمات کی کمپنی  موساک فونسیکا کے ایک صارف تھے اور اس کے قانونی ہونے کے باوجود  اس نے اپنی خفیہ تدابیر کو  برطانیہ سے باہر موجود کمپنی میں استعمال کیا۔۔۔ کیمرون نے برطانوی نیو چینل" ای ٹی وی" کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ  انہوں نے اس منافع پر آنے والے سارے ٹیکس جمع کیے ہوئے ہیں  جو ان حصص سے حاصل ہوئے تھے۔ اُس نے اِس طرف اشارہ کیا کہ  باپ کی جانب سے  یہ کمپنی بنا نا  ٹیکس سے بچنے کے لیے نہیں تھا"(عربی           21 16 /4/2016 )۔

ج ۔ ان لیکس میں چین بھی شامل ہے، چنانچہ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ " کم از کم 8 ایسے کیسز ہیں جن کا تعلق سیاسی آفس کے اراکین کے خاندانوں  سے تعلق رکھنے والے افراد  کے حوالے سے ہیں جنہوں نے لاء فرم موساک فونسیکا  کے ساتھ لین دین کیا۔ اسی طرح اس میں صدر  Jinping کے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں جن میں  اس کا داماد DengJiagui بھی ہیں" (واشنگٹن پوسٹ 4/4/2016 )۔ یقیناً یہ  چینی صدر کو پریشان کرے گا اور  چین کے سیاسی حرکات پر اثر انداز ہو گا اگر چہ چین کی کمیونسٹ حکومت  اس کی زیادہ پرواہ نہیں کرتی۔۔۔!

د ۔ ان لیکس میں  مسلمانوں کے کئی موجودہ اور سابقہ  حکمرانوں کے نام بھی شامل ہیں۔۔۔ مگر دو وجوہات کی بنا کر ان کی کوئی اہمیت نہیں: پہلی وجہ یہ کہ  یہ امریکہ اور برطانیہ  کے ایجنٹ ہیں، اس میں امریکی ایجنٹ بھی شامل ہیں جیسے مخلوف کے بیٹے جو کہ شام میں بشار کے ارد گرد ہیں، سعودیہ میں شاہ سلمان اور مصر کے معزول صدر مبارک کے بیٹے وغیرہ اور بہت سارے۔ اسی طرح برطانوی ایجنٹ جیسے قطر اور امارات کے حکمران  اور ان کے ساتھ اردن کے سابق وزیر اعظم ابو راغب اور دوسرے بہت سارے۔  دوسری وجہ یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی کرپشن نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے  اور ان انکشافات سے ان کی بدبو میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا۔۔۔ اگر چہ ان لیکس کی بنیاد پر آئس لینڈ کے وزیر آعظم نے استعفی دیا مگر  اس سے ان حکمرانوں کی کرسیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔  یہ کرپشن میں ڈوبے ہوئے حکمران ہیں ان دستاویزات کے لیک ہونے سے  ان کی حالت میں مزید تھوڑا سا اضافہ ہوا ۔ان لوگوں کی کرپشن کا لیکس میں ذکر شاید اس وجہ سے بھی کیا گیا ہو کہ اس طرح ان لیکس کے اصل ماسٹر مائنڈ سے توجہ ہٹائی جاسکے تا کہ  کچھ لوگ یہ کہہ سکیں کہ ان کے پیچھے امریکہ ہے جس نے برطانوی ایجنٹوں کو بے نقاب کیا ۔۔۔جبکہ کچھ لوگ یہ  کہیں کہ اس کے پیچھے برطانیہ ہے جس نے امریکی ایجنٹوں کو بے نقاب کیا !! مگر اس استدلال کے لیے کوئی قابل ذکر دلیل موجود نہیں۔۔۔

یوں اس کے دور رس سیاسی اثرات پر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ امریکہ ہی ان لیکس کے پیچھے ہے۔

تیسرا: لیکس کا اقتصادی اثر:

امریکہ نے ان لیکس کے ذریعے اقتصادی پہلو سے  دو اساسی امور کو حاصل کرنا چاہا، اور وہ یہ ہیں: ٹیکس سے بھاگنے والو کی سرکوبی خاص کر امریکہ کی بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کی  جن کا ٹیکس  امریکہ کی موجودہ   ناگفتہ بہ معاشی صورتحال کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔دوسرا ٹیکس چوری کی محفوظ پناہ گاہوں کو"بے نقاب" کرنا  خاص کر  برطانیہ کے ٹیکس پناہ گاہوں کو  جس کا مقصد برطانوی معیشت  کو ہلادیناا اور ان پناہ گاہوں میں پڑے سرمائے کو اپنی جانب متوجہ کر کے امریکی معیشت میں جان ڈالنا۔۔۔ اس کی وضاحت یوں ہے:

1۔ صدر کلنٹن کی حکومت کے دوران  گلوبلائزیشن  کی پالیسی، جس پر امریکہ کار بند تھا، سے بہت سارا امریکی سرمایہ  سرحدوں سے باہرچلا گیا۔  امریکہ سرحدوں کی رُکاوٹوں کو توڑ کرریاستوں کو اقتصادی طور پر اپنی کالونی بنا نا چاہتا تھا۔ امریکی ٹریژیز   کمزور اسٹاک مارکیٹوں میں  اپنے شکار کو  تلاش کرتے تھے اور اسی طرح امریکی  صنعت  سستے مزدوروں کی تلاش میں تھی۔ گلوبلائزیشن کے ذریعے امریکہ  مالیاتی کنٹرول میں کامیاب ہوا،  مگر  دوسری طرف  امریکی سرمایہ دار وں کو بھی  بھاری امریکی ٹیکسوں سے جان چھڑانے کا موقع ہاتھ آگیا  اور انہوں  نے اپنے ملک کے ٹیکس  کے نظام کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ گلوبلائزیشن  کے نظام کی تکمیل اور  سرمایہ داروں کی تحریک کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہی  نئی قسم کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایجاد کی گئیں جنہیں "آف شور" کا نام دیا گیا  جو کسی ایک ملک میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں مگر   سرگرم  کسی دوسرے ملک میں ہوتی ہیں، اپنے اموال کو کسی تیسر ے ملک بر آمد کرتی ہیں،  ان کا انتظام کسی چوتھے ملک  کوئی اور کمپنی چلاتی ہے اور غالباً ان "آف شور" کمپنیوں  کی نمائندگی  " موساک فونسیکا" جیسی کمپنی کرتی ہے یا  ان کے اصل مالکوں کے علاوہ کوئی اور شخص۔ ان   قانونی اقدامات  کے ذریعے امریکی سرمایہ دار وں کو  اپنے ملک کے بھاری ٹیکس سے جان چھڑانے کا موقع مل گیا اور ان خیالی کمپنیوں کے ذریعے اصل مالکوں کے ناموں کو چھپایا گیا۔  یہ کمپنیاں  ایسے ممالک اور جزیروں میں  رجسٹرڈ ہوتی ہیں  جہاں ٹیکس کا کمزور نظام ہے، بلکہ اکثر آف شور کمپنیاں تاسیس کے وقت ان کو خوش آمدید کہنے والے ممالک  کو سالانہ  مقرر ہ مقدار میں ہی رقم ادا کرتی ہیں اور ان ممالک کو " ٹیکس کی جنت" کہا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ کار  کوئی  قابل ذکر ٹیکس ادا کیے بغیر ہی کام کرتی ہیں اور کماتی ہیں۔

2 ۔ یہ تو ٹیکس سے بھاگنے کے پہلو سے تھا  جبکہ کرپشن کے نقطہ نظر سے  خاص کر سیاست دانوں اور  بڑے سرمایہ داروں  کے سوئس اکاونٹس   گندی دولت چھپانے کے ٹھکانے تھے، مگر  گلوبلائزیشن کے مطابق

آف شور کمپنیوں کے نظام کے ظاہر ہونے کے بعد  ان سیاست دانوں کے لیے اپنی ناجائز دولت کو  دفن کرنے کے نئے آفاق کھل گئے۔ ان کے سامنے برطانیہ نے  تاج برطانیہ کے ماتحت کئی جزیروں  جیسے  کریبین، ورجین آئی لینڈ، جرسی، گورنسی اور مان کے جزیرے  میں  ٹیکس  کے نظام کو آسان  بنا یا  ۔  اسی طرح اس کے کئی ماتحت ممالک جیسے سائپرس،دبئی اور  بحر ہند میں سائچلس نے بھی یہی کیا۔ یوں یہ چھوٹے چھوٹے جزیرے  ٹیکس کی وہ بڑی بڑی جنتیں بن گئیں جو   اپنے ممالک کے ٹیکس سے بھاگنے والے بڑے بڑے کرپٹ سرمایہ دار   حقیقی تجارتی کمپنیوں  کی میز بانی کرنے لگی ۔ برطانیہ نے جو کچھ کیا امریکہ نے بھی اپنے بعض اسٹیٹس میں ایسا ہی کیا جیسا کہ  ڈیلاور، نواڈا اور چند ایسے ممالک میں جو اس کے ماتحت ہیں جیسا کہ  پانامہ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ  یہ مالیاتی اور خدمتی  سرگرمیاں  جو موساک فونسیکا کمپنی  یا اس جیسی کمپنیاں کرتی ہیں  ان کے ہاں قانونی اقدام  ہیں مگر اس میں  ٹیکس چوری اور دولت چھپانے کی چھوٹ ہے۔ جب ان  ٹیکس سے چھوٹ والی کمپنیوں کے لوگ اسٹاک مارکیٹ  وغیرہ میں  تجارتی لین دین کرتے ہیں تو یہ  کرپٹ افراد  اور عہدہ دار  آف شور کمپنیوں کے نظام  کو ہی  ان خزانوں کو  خفیہ  جزیروں میں دفنانے کے طریقےکے طور پراستعمال کرتے ہیں ۔  اسی مقصد کے لیے وہ یا ان کے نمائندے  موساک فونسیکا جیسی قانونی کمپنیوں کو اپنی دولت کے انتظام کی ذمہ داری دیتے ہیں۔ یوں  یہ کمپنیاں کئی ملکوں میں حکومتوں میں  بے تحاشہ کرپشن کے ذریعے کمائے گئے سرمایے کے ذریعے مالیاتی فنڈز قائم کر تی ہیں اور ان مالیاتی فنڈز کو   ان ممالک کے عہدہ داروں کی مدد سے کمزور اسٹاک مارکیٹ  پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔"اس مال کو باہر نکالنے والوں" کی مدد سے اور کرپشن نیٹ ورک کے ذریعے  اس ملک میں اس کام کو آسان بنانے کے لیے  بھاری رشوت دیتی ہیں  تا کہ لوگوں کے مال پر ہاتھ  صاف کر کے  اس کو لے کر ان جزیروں میں بھاگا جائے جن کو اپنے اموال سے محروم ہو نے والے افراد جانتے ہی نہیں۔۔۔!

3 ۔ عراق اور افغانستان میں مہنگی جنگ لڑنے کے بعد  امریکہ کو پیسے کی سخت ضرورت ہے،  خاص کر جب 2008 کا عالمی مالیاتی بحران کا دھماکہ ہوا  اور اس کے بعد امریکہ اور یورپ کے درمیان زبردست اقتصادی جنگ شروع ہو گئی،اور   امریکہ اور یورپ دنوں نے اپنی مارکیٹوں کی حفاظت کی پالیسی اختیار کی۔ اس کے بعد بینکنک اور  کرنسی کے شعبے  میں معرکہ آرائی شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔یورپ کے مشہور بینکس جیسے بار کلیز، کریڈٹ سویس ، ڈیوٹچیک اور اسٹنڈرڈ چارٹڈ۔۔۔ کو بینکوں کی نگرانی کے لیے  امریکی ادارے"Bank US Regulators" کی جانب سے سخت سزاوں کا سامنا رہا،اور اب توجہ اس اقتصادی جنگ میں ٹیکس سے بھاگنے والوں کی جانب منتقل ہو گئی ہے، جس کا مقصد ٹیکس جنتوں کو بے نقاب کرنا ہے، تاکہ پیسے کو  امریکی بینکنک نظام  کی طرف لایا جا سکے۔  کئی پہلوں سے یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہو ئی،  اوراسی جستجو نے امریکہ کو خفیہ سوئس اکاونٹس سے پردہ اٹھانے کے بڑے اقدام پر مجبور کیا۔

(http://www.wsj.com/articles/inside-swiss-banks-tax-cheating-machinery-1445506381)

اس بار  ایسا لگ رہا ہے کہ برطانیہ کی ٹیکس جنتیں ہی ہدف ہیں۔ اخبارات نے کہا ہے کہ پانامہ کا جزیرہ برطانوی ٹیکس جنت کے طور پر سب سے زیادہ مقبول ہے، ان  رجسٹرڈ برطانوی کمپنیوں کی تعدادجو بے نقاب ہوئی ہیں ان کی تعداد215000 میں سے 113000 ہے۔

(http://www.wsj.com/articles/panama-papers-raise-pressure-on-u-k-to-rein-in-offshore-tax-havens-1459966548

نیکولاس شاکسون ،جو کہ "ٹیکس جنت" کتاب کے مصنف ہیں ، کہتے ہیں کہ " لندن  دنیا بھر میں ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کے بڑے حصے کا مرکز ہے"۔ اس ماہر نے  برطانوی دار الحکومت لندن کو " مکڑی کے جال" سے تشبیہ دی ہے جو سمند ر پار دوردراز علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے جو کہ برطانوی سلطنت کے باقیات ہیں جیسے ورجین جزائر (الشروق 6/4/2016)۔

4 ۔ ٹیکس کے حصول میں کمی کی وجہ سے امریکی قرضوں میں  بے پناہ اضافہ ہوا او ر یہ اضافہ اس طرح جاری رہا کہ بطور عالمی قوت کے امریکہ کے مستقبل کے لیے خطرہ بن گیا۔"  20 جنوری 2009 کو جب اوبامانے صدارت کا منصب سنبھالا تویہ قرضہ10.6 ٹریلین ڈالرز تھے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب یہ قرضہ 19 ٹریلین  ڈالر ہو چکا ہے۔ 2016 کا بجٹ پروگرام جس پر اوباما نے دستخط کیے تھے جس میں قرضوں کی سطح کو بلند کر کے18.5 ٹریلین ڈالر  سے بڑھا  کر19.6  ٹریلین ڈالرز کیا گیا۔ معاشی نمو کی موجودہ رفتار کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ  امریکہ  ایک بار پھر اس سطح کو بلند کرنے پر مجبور ہو گا"( رشیا ٹوڈے 2/2/2016 )۔ اسی وجہ سے امریکہ نے  دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں  وافر مقدار میں پیسے کی تلاش شروع کردی۔  امریکہ نے اپنی اس مہم کی ابتداء خفیہ سوئس اکاؤنٹس کے تالے توڑنے سے کی اور آخر کار  ان بینکوں میں موجود مخصوص قلعوں کو فتح کیا اور سوئس بینک امریکی حکومت کے سامنے امریکی شہریوں  کے ذاتی اکاؤنٹس کھولنے کے پابند ہو گئے۔بلکہ  امریکہ نے عالمی معیشت میں دوردور تک اثرو نفوذ کے لیے حملے شروع کیے جیسا کہ 2015 میں فٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم "فیفا" پر کرپشن کے بہانے حملہ کیا جس کا مقصد  اس بڑے معاشی سیکٹر میں اپنے لیے قدم رکھنے کی جگہ پیدا کرنا تھا۔۔۔

جس وقت امریکہ  اندرونی طور پر  ٹیکس  اکھٹے کرنے میں سختی کر رہا تھا اس وقت اوکسفام کے مطابق 50 بڑی امریکی کمپنیوں نے 1400 ارب ڈالرز کو ٹیکس جنت میں چھپا رکھا تھا (الیوم السابع المصریۃ 15/4/2016 )۔ یہی وہ چیز ہے جس کی تلاش امریکہ پانامہ لیکس کے ذریعے کر رہا ہے۔ یوں یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ  امریکہ  کی جانب سےپانامہ دستاویزات کو لیک کرنے  کا ہدف صرف روس،چین اور برطانوی وزیر اعظم پر ضرب لگانا نہیں بلکہ  اس کا مقصد اپنی معیشت میں جان ڈالنے کی کوشش بھی ہے۔  اس نقطہ نظر کو تب تقویت ملتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان خفیہ  جزیروں میں جو پیسہ چھپایا  گیا ہے اس کی مقدار30 سے 40 ٹریلین ڈالرز ہے(رشیا ٹوڈے 5/4/2016 )۔ یہ خلائی دولت ہے جو اس سے پہلے دنیا کو معلوم نہیں تھی  اور یہ گزشتہ ایک صدی کے دوران  کئی قوموں کو لوٹنے کے نتیجے میں جمع ہوئی ہے۔  یہ دولت ایک ملین ٹن سونے کے برابر ہے جو کہ بہت بڑی رقم ہے۔۔۔یعنی  اس دولت کے ذریعے  امریکی ریاست اور معیشت کو بچایا جا سکتا ہے، اگر امریکہ  اس کو ٹیکس کے دائرے میں لانے میں کامیاب ہوا تو بلاشبہ یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔

5۔ امریکہ دو بڑے معاشی ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے  یعنی  ٹیکس سے بھاگنے کی روک تھام اور کرپشن کی بڑی دولت کو لانا۔ اور یہ اوباما کی جانب سے" پانامہ لیکس" کے مسئلے پر پہلے تبصرے میں بھی واضح ہے جب اس نے کہا:" گزشتہ دودنوں کے دوران   پانامہ سےلیک ہونے معلومات کے بارے میں خبروں سے ہم نے یہ نئی بات دیکھی ہے کہ ٹیکس چوری ایک بڑا اور عالمی مسئلہ ہے، یہ صرف دوسرے ملکوں کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہاں امریکہ میں بھی  ایسے افراد ہیں جو انہی امور اور اسی نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں"۔ اس نے پھر کہا کہ " ان سرگرمیوں میں سے بہت ساری قانونی ہیں  مگر  یہ خود ایک مسئلہ ہے  کہ یہ قوانین کمزوری سے مرتب کیے گئے ہیں جو  ان لوگوں کو جن کے پاس وکلاء اور حساب کتاب کے ماہرین ہیں ان سے چھٹکارا پانے کی اجازت دیتے ہیں  جو عام شہریوں  پر تو نافذکیے جاتے ہیں، یہاں امریکہ میں  ایسی لوبیاں ہیں جن سے صرف مالدار فائدہ اٹھا سکتے ہیں  اور ان کے ذریعے نظام سے کھیلتے ہیں"۔(خبر ایجنسی الیمنیۃ 6/4/2016 )۔

یوں  دور رس اقتصادی اثرات کو دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ  ان لیکس کے پس پردہ امریکہ ہی ہے۔

آخر میں  اس قسم کی دستاویزات کا لیک ہو نا جو سرمایہ دارانہ آئیڈیولوجی  کے فساد  اور مادی قیمت کے علاوہ کسی اور قیمت کے نہ ہونےکو بے نقاب کرتے ہیں کوئی تعجب کی بات نہیں۔اس کے حاملین گندے طریقوں سے مال جمع کرنے کے لیے دوڑتے ہیں۔۔۔ یہ آئیڈیولوجی ہی سرتاپا شرہے جب تک یہ آئیڈیولوجی نافذ ہے اس شر سے چھٹکارا ممکن نہیں۔  دنیا کی بھلائی اس مسلط شیطانی آئیڈیولوجی کے زوال میں ہے  اور اس کے ساتھ ان تمام  خودساختہ حکومتو ں کے زوال میں جو اللہ کی جگہ قانون ساز بنے ہوئے ہیں۔۔۔ تب ہی خلافت راشدہ میں مجسم اسلام کی عظیم الشان آئیڈیولوجی  دنیا کی قیادت کرے گی  اور ہر طرف خیر کو عام کرے گی،  دنیا اس خیر سے استفادہ کرے گی۔۔۔ تب ہی دنیا اس خیر سے جگمگائے گی  اور اللہ کا یہ قول پورا ہو گا: 

 

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

"کہہ دیجئے حق آگیا اور باطل مٹ گیا  اور باطل تو ہے ہی مٹنے کے لیے"(الاسراء:81)

 

اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں

 

28 رجب 1437 ہجری

 

Last modified onہفتہ, 26 نومبر 2016 12:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک