بسم الله الرحمن الرحيم
سوال وجواب :
ایران اور کردستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت
سوال:
6 جنوری 2018 کو ایران نے کردستان پر الزام لگایا کہ ایران میں جاری مظاہروں کو کروانے میں اس کا ہاتھ ہے اور 7 جنوری 2018 کو کردستانی خطہ نے اس الزام کو مسترد کیا ۔ کردستان خطہ میں ہونے والے زبردست مظاہروں کے دوران بالخصوص جو 19 دسمبر2017 کو سلیمانیہ میں ہوا تھا، کے متعلق ایسی خبریں موصول ہوئی تھیں کہ ان کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے جواب میں 28 دسمبر2017 کو ایران میں ہونے والے مظاہروں کی پشت پر کردستانی خطہ کا ہاتھ ہے؟ باالفاذ دیگر :
1- کیا ایران اورکرد خطہ میں جو کچھ ہوا وہ کسی قسم کا جوابی ردعمل ہے؟ 2۔ کیا یہ واقعات بے ساختہ اتفاقاً واقع ہوئے یا کسی بیرونی طاقت نے پشت پناہی کی تھی؟ 3۔ اگر ہاں تو یہ کون سی طاقت ہے؟ اورکیا ان مظاہروں کا مقصد ایران یا خطہ میں حکومت کو تبدیلی کروانا ہے؟ اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔
جواب۔
یہ دونوں واقعات کسی قسم کا ردعمل نہیں ہیں اور ایران کا اربل یعنی کردخطہ کے او پر الزام دھرنا داخلی واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی الجھن ہےاور اس وقت اربل خوداپنے بحران سے گزررہا ہےجو اس کوکمزورکررہا ہےاورموجودہ حالات میں اس کے اندر صلاحیت نہیں کہ وہ ایران کی سڑکوں کو مظاہرین سے بھردے! ایران کی سیاسی الجھن اس وقت کھل کرسامنے آ گئی جب اس نے مختلف فریقوں پر مظاہرین کو اکسانے کا الزام لگایا، ایرانی افسران نے غیر ملکی طاقتوں پر الزام دھراہے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی سفیرغلام علی خسرو نے جمعہ کے روز کہا کہ "ایران کےپاس پختہ ثبوت ہیں کہ مظاہرین کو غیر ملکی طاقتوں سے ہدایات موصول ہوئی ہیں (BBC Arabic 07/01/2018) ۔چنانچہ ایران کا اربل پر الزام اسی سیاسی الجھن کے تحت ہے۔ ایرانی ایکسپڈینسی کونسل کےسیکریٹری محسن رضا ئی نے6 جنوری2018 کو کہا کہ ایران میں ہونے والے ان واقعات کی تفصیلی منصوبہ بندی اربل میں کی گئی تھی (Russia today 07/01/01 2018)۔ کردستان خطہ نے اپنے ترجمان سوین دذئی (Sven Dzii) کے ذریعہ اس الزام کی تردید کی(Russia today 07/01/01 2018)۔ چنانچہ یہ معاملہ عمل کے ردعمل کا نہیں ہے بلکہ ہرایک کا اپناالگ مقصد اور اس کے اپنے حالات ہیں، یہ دونوں واقعات بیرونی پشت پناہی کے بغیر بےساختہ واقع ہوئے ہیں اوراس کے بعد بیرونی قوتوں کے مقاصدجڑ گئے تاکہ کرد ستان خطہ اور ایران کےتعلق سے ان مقاصد کو حاصل کیا جائے۔چنانچہ گزرے واقعات کی روشنی میں ان کی توجیح مندرجہ ذیل ہے:
اولاً: کُردخطہ کے واقعات
1۔ مختلف نیوز ایجنسیوں نے 19 دسمبر2017 کو رپورٹ کیا تھا کہ سلیمانیہ میں اساتذہ اور سرکاری ملازموں نے مظاہرے کیے ہیں جنہیں گذشتہ کئی مہینوں سے ان کی تنخواہیں اداء نہیں کی گئیں تھیں اوراس کے بعدان مظاہروں میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی اور یہ مظاہرے دیگر علاقوں مثلاً اربل تک پھیل گئے۔ اتنی تیزی سے لوگوں کے سڑکوں پر آنے کی وجہ خطہ کی معاشی بدنظمی کی وجہ سے لوگوں میں پھیلی ہوئی بے اطمینانی تھی جوبالخصوص بغداد کی جانب سے کرکک علاقہ کے تیل کےوسائل کو اپنےکنٹرول میں لینےکے بعد بڑھتی ہوئی معاشی تنگی اوربغداد کی مرکزی حکومت کا کردخطہ پر دیگر مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالنے سےپیداہوئی خصوصآً اربل اور سلیمانیہ علاقہ کے ہوائی اڈوں سے بیرونی ممالک کی پروازوں پر پابندی عائد کیا جانا جس کی وجہ سے بیرونی ممالک کے سفرمیں ہونے والی تکلیف کا سامناا اورہوائی سفرکرنے والوں کو بغداد کے بین الاقوامی ائیر پورٹ کے ذریعہ سفرکرنا پڑرہا ہے۔اس پر مزید دھکچا تب لگا جب مقامی اور بااثر سرکاری افسران پر معاشی بدعنوانی اور خطہ میں دولت بٹورنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ مظاہرے آگ کی طرح پھیل گئےبالخصوص ایسےکردعلاقوں میں جہاں مسعود برزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کےبر خلاف دیگر کردستانی پارٹیوں کااثرورسوخ زیادہ پایا جاتا ہے۔ کرکک اور دیگر علاقوں سے کردخاندانوں کی کرد خطہ میں منتقلی مقامی حالات زندگی کے بگڑنے کی وجہ سے مزید بدتر ہوگئے جوداخلی مقامی تحریکات کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحریک نےبے ساختہ طور پروجود میں آکرزور پکڑا تھا۔
2۔ مظاہرے اربل کی حکومت کے خلاف کیے گئے تھےجو کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے کنٹرول میں ہے، یہ برزانی کی پارٹی ہے اورمسعود برزانی خطہ کی صدارت سے استعفی دینے کے بعداپنے بھتیجے نوشیروان برزانی کی پشت پربیٹھا حکومت کو کنٹرول کررہاہےاور اِس بات کو کئی باتوں کی مددسے سمجھا جاسکتا ہے جیسے:
الف- مظاہرے سلیمانیہ کے علاقہ میں شروع ہوئے جو کہ برطانوی ایجنٹ مسعود برزانی کی مخالف پارٹیوں کے زیراثر علاقہ ہےچنانچہ تبدیلی کی تحریکات کا گڑھ سلیمانیہ ہے جس میں طالبانی کی پیٹریوٹک یونین پارٹی (Patriotic Union Party) کی مضبوط شاخ واقع ہے اور یہ پارٹیاں اس قسم کے واقعات کو بڑھاوا دینے اور اس کا انتظام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں البتہ ان کو مکمل طور پراپنے قابو میں رکھنے کی طاقت ان میں موجود نہیں ہے۔
ب- نوشیروان کے بیان سے واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ مظاہرے اس کی حکومت کے خلاف کیے گئے ہیں: "کردستان خطہ کی حکومت کے صدر نوشیروان برزانی نے خطہ کے خلاف ایک سازش کے متعلق متنبہ کیا کہ ایک بہت بڑی سازش تیار کی گئی ہے جو کسی کےوہم و گمان سے بھی بڑی ہےاورایسی پارٹیوں کے موجود ہونے کی طرف اشارہ دیا جوکہ خطہ میں عدم استحکام لانا چاہتی ہے اور مظاہروں کو قابو میں کرکے پرتشدد بنانا چاہتی ہیں"۔ اس نے مزید کہا کہ"ایسے پراسرار ہاتھ موجود ہیں جو خطہ میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں اور ہم ان کو روکیں گے" ۔مزیدان پارٹیوں کا نام لیے بغیر اس نےکہا کہ"جو بدامنی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں تو خطہ کی سیکوریٹی فورس ایسے معاملات سے سختی سے پیش آئے گی"۔ اس نے بیان کیا کہ"ہم ایک ایسے خطرے اور سازش کا سامنا کررہے ہیں جوتصورسے بھی زیادہ بڑا ہے اورسلیمانیہ میں جو کچھ ہوا وہ خطہ کی حفاظت اوراستحکام کوسبوتاژ کرنے کی کوشش تھی" ،اوراس نے اتحاد پر زور دیا اور ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی تاکہ سازش پر غالب آیا جاسکے-
(Kurdish Basnews website, 21/12/2017)۔
اس طرح نوشیروان نے اُن کردستانی پارٹیوں کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے سلیمانیہ میں ریفرنڈم کی زبردست مخالفت کی تھی اور جو امریکہ اوراس کے ایجنٹوں یعنی بغداد کی مرکزی حکومت اور ایرانی حکومت سے جڑے ہوئے ہیں ۔جن پارٹیوں نے برزانی کی حکومت کے خلاف مظاہروں اور احتجاج کو بڑھاوادیا تھا ان میں سے دی موومنٹ فار چینج پارٹی جو نیشنل یونین پارٹی سے علیحدہ ہونے کے بعد 2009 کے الیکشن میں خطہ کی دوسری بڑی طاقتور پارٹی تھی، نے مظاہروں کے بعد اربل کی حکومت سے اپنا تعاون ہٹالیا تھا اور اس کے سربراہ یاسین حسن نے الجزیرہ کو دئیےایک انٹرویو میں کہا کہ "مظاہرین پر گولی چلائے جانے کے بعد دی موومنٹ فار چینج اوردی اسلامک گروپ نے فیصلہ کیا ہےکہ موجودہ حکومت سے مکمل طورعلیحدہ ہوجائے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت فوری طور پر برخاست کی جائے اور قومی نجات کی حکومت قائم کی جائے"
(Al Jazeera Net 21/12/2017)۔
بی بی سی نے 26 دسمبر 2017 کودی موومنٹ فار چینج کے ایک لیڈر یوسف محمد جوعراق کے کردستان خطہ کی پارلیمنٹ کا صدر بھی تھااس کے موقف کو رپورٹ کیا تھا، اس نے استعفی دیا تھاتاکہ مظاہرین کے سامنے اربل کی حکومت کمزور پڑجائے : "عراقی کردستان خطہ کی پارلیمنٹ کے صدرنے اپنے استعفی کا اعلان بطوراحتجاج کیاکہ قانونی حکومت پر چند افراد کے گروہ اور چند پارٹیوں کا قبضہ ہے، یوسف محمد نے سیاست ، معاشیات ، زمین ، مال ، زندگی کے تمام پہلوؤں کے اوپر گروہوں کے قبضہ اور خطہ کی غیر منصفانہ تقسیم کی سخت مذمت کی "۔اس نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے ریفرنڈم کو مستردکرنا جو امریکی سیکریٹری ریکس ٹلرسن کی طرف سے خط کی شکل میں ظاہر ہوا تھا ، ایک سنہری موقعہ تھا جس کو خطہ کی حکومت نے گنوا دیا " (BBC 26/12/2017) ، اس طرح اس شخص کا یہ بیان یہ واضح کرتا ہے کہ یہ شخص اوراس کی موومنٹ کس طاقت کے ماتحت کام کررہی ہے۔
3- اس طرح سلیمانیہ میں ان مظاہروں کی شروعات اور ان کوکنٹرول کرنے کے پیچھے برزانی کی کردش ڈیموکریٹک پارٹی کی مخالف جماعتوں کا ہاتھ تھا، ان جماعتوں کے سربراہوں کا مظاہروں میں شامل ہونا ، ان میں سے چند کو سیکوریٹی فورس کی جانب سے حراست میں لیا جانااور ان جماعتوں کا اربل حکومت کو کمزور کرنے کی خاطر حکومت سے علیحدہ ہونا اور اس کو تحلیل کرنے کی بات کرنااور غیر تصدیق شدہ الیکشن کی تاریخ سے چند مہینہ قبل کردستان خطہ کی پارلیمنٹ کے صدر کا استعفی دینااور بغداد کی الاعبادی کی حکومت کا مداخلت کرنے کی وارننگ دینا ، یہ سب بتلاتا ہے کہ اگرچہ ان مظاہروں کی ابتداء بے ساختہ طور پر ہوئی تھی البتہ دوسراپہلوجو فطری طور پر اٹھنے والی اس تحریک کے اطراف اکٹھا ہوگیا تھااور یہ خطہ میں اپنے مقاصدکو حاصل کرنے کے لئےغیر ملکی محرکات کا پہلو تھا ۔
اور یہ دوسرا پہلو اس پیدا ہوئے دباؤ کے نتیجہ میں تھا جو برزانی کے اثرورسوخ کے مخالف کرد اپوزیشن گروہوں کی جانب سے پیدا کردہ دباؤ ، اس کے علاوہ بغداد کی حکومت کی جانب سے اربل میں برزانی حکومت کو برطرف کرنے کے لئے پیدا کردہ دباؤ اور مزید جو کچھ ترکی، ایران و بغداد میں کردستان خطہ کی علیحدگی کےریفرنڈم کےتعلق سے جو یہ کہا سنا گیا تھا کہ اس ریفرنڈم کےکروانے کا کھیل کھیلنے والوں کو سزاء دینا ضروری ہےاور یہ تمام جماعتیں اور اقتدار امریکہ کے وفادار ہیں اور اس بات کے ساتھ مزید ٹرمپ کی خطہ کے لئے پالیسی "America First" کے ساتھ جوڑ کردیکھیں کہ جن علاقوں میں برطانوی ایجنٹ موجود ہیں تو امریکہ خطہ میں اپنی پالیسی کے نافذ ہونے کی شکل میں مطمئن ہوتا ہے البتہ اگر دیگر علاقوں میں اس کے مفاد کے لئے ضرورت ہوتو وہ ان ایجنٹوں کو سزاء دیتا ہے یا ختم کرو ادیتا ہے جیسا کہ سعودی عرب میں بدعنوانی مخالف مہم کے تحت ایسا کیا گیا اور جیسا کہ یمن کےصنعاء میں علی عبداللہ صالح کے قتل کے بعدپیپلز کانگریس کے رہنماوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ یوں امریکہ اپنے مقامی اور علاقائی ایجنٹوں کو متحرک کررہا ہےتاکہ برزانی کی حکومت پر دباؤ بنا کر اس کو اقتدار سے بے دخل کردےاوراس طرح اربل کےاقتدار پر سے برطانوی اثرونفوذ کو ختم کردےاوراگر وہ ابھی یہ نہیں کرسکتا تو اس کے لئے سلسلہ وار دباؤ بنا کر ایسے حالات پیدا کئے جائیں گے ۔اور غالباً یہی کچھ کردستان میں واقع ہوا اوراس وقت واقع ہورہا ہے۔
دوم : ایران کے واقعات
28 دسمبر2017 کو ایران میں جو مظاہرے شروع ہوئےوہ معاشی طورپر خراب صورت حال اور خراب حالات زندگی مثلاً بڑھی ہوئی بے روزگاری، غربت اور بلندیوں کو چھونے والی قیمتوں کےخلاف لوگوں کا احتجاج تھا۔ ایسی رپورٹیں ہیں کہ بے روزگاری انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضاء رحمانی فاضلی نے یکم اکتوبر2017 کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ بے روزگاری کی موجودہ شرح 12 فیصد سے زیادہ ہے جو چند ایرانی شہروں جیسے احواز (عرب)، کرمان شاہ (کرد) اور بلوچستان میں 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور یہ کہ سائنسی مضامین سند یافتہ اوریونیورسٹی کے فارغ التحصیل گریجویٹس میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے (2/10/2017)۔ رپورٹ بتاتی ہیں کہ 21 فیصد کالج گریجویٹس بے روزگار ہیں اور 15ملین ( ڈیڑھ کروڑ) ایرانی خط غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزاررہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایران میں بھی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے نفاذسے ملک کی آبادی پر منفی اثرات پڑے ہیں جیسا کہ دیگر ممالک میں بھی اس مغربی نظام کےنفاذ کےمنفی اثرات سامنےآئے ہیں۔ ایران میں جب سے یہ سرمایہ دارنہ معاشی نظام نافذ ہوا ہے تودولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہوگئی ہےاور مالداروں کے ہاتھوں میں دولت اکٹھی ہوگئی ہے اور اکثر لوگ مال سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اس پرمزید یہ کہ غربت کے مسئلہ کو حل کرنے میں ناکامی ہے اور رباء (سودکاری) پر بینک چل رہے ہیں، اورآئی ایم ایف کی سفارشات اور پالیسیوں کی بنیاد پرمال پربے جا ٹیکس کا نظام عائد ہے۔
اوران واقعات سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد18 دسمبر2017 کو ایران کے دورے پرآیا تھا اور وہ ہمیشہ سے ایرانی حکومت کے ساتھ سالانہ مشاورت کرتا ہوا آیاہے۔ اس وفد کی سربراہ کٹرینا پرفیلڈنے ایرانی افسران سے خطاب کیا :"ایرانی مالیاتی نظام کو جن اندیشوں اوربڑھے ہوئے خطروں کا سامنا ہے، اس صورت حال میں حکومت کو چاہیے کہ بینک اور کریڈٹ اداروں کی تشکیل نو اورکیپٹلائزیشن کے عمل کو تیز ترکرے"۔ مزید اس نے کہا کہ :"اثاثوں کی درجہ بندی فوراً شروع ہونی چاہیئے اور متعلقہ فریقوں کے قرضوں کا تخمینہ لگایا جائےاورمتعین وقت کے تحت منصوبہ بند عملی خاکے کے ذریعہ دوبارہ بینک میں پیسے کو واپس لایا جائے(Recapitalize the banks) اور ڈوبے ہوئےقرضوں کی وصولی کی جائے۔۔اور بینک میں مال واپس لانے کے لئے طویل مدتی حکومتی بانڈز استعمال کیے جاسکتے ہیں "(Iran's Al Alam Official Page 19/12/2017) ۔ ان مطالبات کو پورا کرنے کی خاطر حکومت کی جانب سے لئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے قیمتوں اور بے روزگاری وغربت میں اضافہ ہوا جن کی وجہ سے لوگوں کےحالات زندگی بد سے بدتر ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے اور لوگ اپنی بدحالی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوئے۔
2- مظاہروں کی شروعات مشرقی ایرانی شہر مشہد سے ہوئی اور"مہنگے دام نہیں چلیں گے" جیسے نعرہ دئیے گئے جو جلدہی تقریباً 80 دیگر شہروں اور قصبوں میں پھیل گئےاور ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں اور کام گارطبقے نے اس میں شرکت اختیار کی اور وہ افسران کی بدعنوانی، بے روزگاری اور غریبوں و مالداروں کے درمیان مزید بڑھتےدولت کے فاصلے و فرق کو لے کرغصہ و ناراض تھے۔ "یہ مظاہرےتین عوامل کا نتیجہ تھے: آئی ایم ایف کی معاشی سدھارکی سخت پالیسی ، معاشی مسائل کے حل کی خاطر حکومت اور افسران کی کمزوری ونااہلی اورآخری یہ کہ حکومت کے فیصلوں میں شفافیت نہ ہونا اوراحتساب کو روکا جانا"۔یہ بات ایران کی شفافیت اور انصاف کے ادارے کے چیر مین احمد توکلی نے ٖفارس نیوز ایجنسی کو 30 دسمبر2017 کو ایک انٹرویو میں کہی ۔ یہ سب کچھ ایران کے بیرونی خرچوں کی وجہ سے ہوا ہے جو وہ جنگجوؤں اور ان کے حمایتیوں پر لبنان، ملک شام ، یمن وغیرہ میں خرچ کررہا ہے۔
اور یہ عوامل مل کرمعاشی مسئلے کو ایرانیوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بنا دیتا ہےجس نے ان کو مجبور کردیا کہ وہ مظاہرے اور دیگر ذرائع سے اپنے غصے و بےبسی کا اظہار کریں اور حکومت پر الزام لگائیں کہ اس نے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی ہے۔ "ایرانیوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ حکومت کوغزہ میں حماس ، لبنان میں حزب اللہ، ملک شام میں بشارالاسد کی حکومت، یمن میں حوثیوں کی مدد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ دغابازی ہے"(Arabic 21: 01/01/2018)۔ اور یہ سب بتاتا ہے کہ مظاہروں کی شروعات معاشی عوامل کی بناء پر اوربے ساختہ تھی لیکن حکومت نے اس کو تشددسے دبایا جس کی وجہ سے لوگ زخمی ہوئے اور اموات واقع ہوئیں۔ چند رپورٹوں کے مطابق 28 دسمبر2017 کو مظاہروں کی شروعات سے لے کراب تک زیرحراست لئے گئے افراد کی تعداد 1700 سے زائد ہوچکی ہے(BBC Arabic 07/01/2018)۔
3- یہ سب جانتے ہیں کہ معاشی مظاہروں کا علاج کرنے میں اگر تاخیر کی جائے گی جو اس کا صحیح حل مہیاکرے بالخصوص اگراس کے خلاف تشدد کا استعمال کیا جائے تو معاشی مظاہروں کو سیاسی مظاہروں میں تبدیل ہوتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی ہے اور یہی ہوا۔حکومت اوراس کی حمایت و طاقت فراہم کرنے والوں کے خلاف دئیے گئے معاشی نعروں کے ساتھ سیاسی نعروں کو بھی ملادیا گیا اور ایرانی حکومت کا خطے کی جنگوں میں مداخلت کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جن کے لئے اب تک کئی ارب ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں اور ان مظاہروں میں جب حکومت مخالف سیاسی رجحان بڑھنے لگا اور حکومت کی علامات اور اس کے سربراہوں پر جملے کسے جانے لگےتو یورپ اور امریکہ نے ان سیاسی رجحانات کا فائدہ اٹھانا شروع کیا اور یورپی میڈیا بالخصوص BBC برطانوی اوراس کے ٹیلویژن نے ان کی ہمت افزائی کی۔ چنانچہ الحیات نیوزپیپرکو ایران کے واقعات کے متعلق دئیے گئے انٹرویو میں جو 4 جنوری2018 کو شائع ہوا، اس میں فرانس کے صدرماکرون نےکہا تھا: "مظاہرے ایرانی سول سوسائٹی کا کھلا پن بتاتی ہے اور اسی وجہ سے میں نے صدر روحانی کو تشدد سے باز رہنے اور شہریوں کو آزادی اظہار رائے دینےکی یاددہانی کرائی ۔ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایران مظاہرین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہےتاکہ ہم فرانسیسی وزیرخارجہ" لےدرایان" کےطے شدہ ایران کے دورہ کی تیاری کے لئے ان باتوں پر نظر رکھیں اور پھراس ملک میں دورہ کرسکوں"۔ اس نے ایرانی حکومت کے ساتھ پائیدار گفتگو جاری رکھنے کی دعوت دی البتہ یووپ کی مداخلت آج وہ وزن نہیں رکھتی جس پر توجہ دی جائے کیونکہ آج یورپ بمشکل موثر ہے۔
4۔ آج جس پر توجہ دینا ضروری ہے وہ امریکہ کی مداخلت ہے۔ امریکی صدر نے یکم جنوری 2018 کواپنے ٹویٹر صفحہ پر ٹویٹ کیا کہ"ایران کی عوام بالآخر ظالمانہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اورجو سارا مال اوباما نے انہیں بے وقوفانہ طور پر دیا تھا، وہ دہشت گردی اور ان کی جیب میں چلاگیا ، لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے ،مہنگائی بہت ہے اور کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں، امریکہ اس پر نظر رکھے ہوئے ہے"۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے بیان دیا کہ "ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے"۔ مزید کہا کہ"ہم خاموش نہیں رہیں گے جس طرح ایرانی ڈکٹیٹرشپ اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کو دبا کررکھتی ہےاوراس کی کسی بھی خلاف ورزی کے لئے ایرانی سربراہوں کا حساب لیا جائےگا"(Iraq electronic newspaper 10/1/2018)۔ کئی امریکی حکام نے ، جن کی سربراہی ٹرمپ کررہا ہے، پہلے دن سے حکومت کے خلاف مظاہرین کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ نکّی ہیلی (Nicky Haley) نے جمعہ کے روزسیکیورٹی کونسل کو بتایا کہ امریکہ ایرانی مظاہرین کی حمایت کرتا ہے۔اُس نے کہا کہ"ایران کی عوام اپنی آزادی، اپنے خاندان کی خوشحالی اور اپنے ملک کی عزت کی خاطر چیخ رہے ہیں "۔ واشنگٹن کی جانب سے سیکیوریٹی کونسل کا اجلاس بلانے کی دعوت نے کونسل کے دیگر اراکین کو ناراض کیا ہےجن میں روس بھی شامل ہےجن کے نمائندوں نے ایرانی مظاہروں کو ملک کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے (BBC Arabic 7/1/2018)۔ واشنگٹن کی جانب سے سیکیوریٹی کونسل کا اجلاس بلانا اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ ایرانی مظاہروں کا فائدہ اٹھارہا ہےاور اتنی جلداس اجلاس کو بلانے کی دعوت نے سیکیوریٹی کونسل کےاراکین کو تعجب میں ڈال دیا۔ " ہیلی کی جانب سے ہنگامی اجلاس بلایا جاناتاکہ ایران کے مظاہروں پر بات چیت کی جائےاوراس نے اجلاس کے خلاف روسی مخالفت پر دباؤ ڈالا ، ان باتوں پر سیکیوریٹی کونسل کے اراکین حیران تھے"، BBC کی صحافی باربرا پیلٹ۔ سیکیوریٹی کونسل میں امریکی سفیرنے کہا کہ واشنگٹن " بغیر کسی توقف کے ایران کے ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنے لیے آزادی اور اپنے خاندانوں کے لیے خوشحالی ، اور اپنی قوم کی عزت کا خاطر مطالبہ کررہے ہیں"( BBC Arabic 06/01/2018۔)
5۔اس بات سے سوال پیدا ہوتا ہے: کیا امریکہ کی جانب سے مظاہرین کی حمایت یہ بتاتی ہے کہ وہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی کی کوشش کررہا ہے؟ یا پھر مظاہروں کا فائدہ اٹھا کر وہ کچھ دیگر مقاصد حاصل کرنا چاہ رہاہے؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں:
جہاں تک یہ بات ہے کہ امریکہ کے اقدام ایران میں قیادت کی تبدیلی کی خاطرہیں، تو یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ بات خود اسں نے کہی ہے؛ عراق اور ایران کے لیےامریکی نائب سیکریٹری خارجہ انڈریو بیک (Andrew Beck) نےالحیات نیوز پیپرکوبتایاہےجو 4 جنوری2018 کوشائع کیا گیا کہ"ہم صرف مظاہرین کی سلامتی کے متعلق بات کررہے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت مختلف چیزوں پراپنا رویہ تبدیل کرے بالخصوص مظاہرین کے ساتھ"اوراس بات پر زور دیا کہ " ٹرمپ انتظامیہ ایرانی حکومت کے رویہ میں تبدیلی چاہتی ہے نہ کہ ایرانی حکومت میں۔۔۔ "(عربی سے ترجمہ)۔ امریکہ اور ایران کے اقتدار میں اس کا کردار ہم پہلے سے جانتےہیں جو ہم نے اس سےپہلے بھی 21آگست2013 کو ایک سوال کے جواب میں بیان کیا تھا: (امریکہ کا ہاتھ ایران کے انقلاب میں شروع سے ظاہر تھا ۔۔اور خطے میں ایران کی جانب سے لئے گئے سیاسی اقدامات امریکی منصوبے کے موافق و مطابق رہے ہیں) اور اسی طرح ہم نے23 فروری کو2017 ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: (اس طرح خطے میں ایرانی کردار دراصل اچھی طرح پرکھی ہوئی امریکی پالیسی ہی ہےاوراس کا کردار امریکی پالیسی اور حالات کے مطابق بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے)، چنانچہ امریکہ کی جانب سے مظاہروں کی حمایت کا اعلان موجودہ ایرانی حکومت کی تبدیلی کے لئے نہیں ہے۔
6۔ تو پھر امریکہ کیوں ان مظاہروں کا فائدہ اٹھارہا ہے اور اس کو کس خاطر استعمال کررہا ہے؟ تو یہ دومقاصد کے لئے اہم ہے:
پہلا مقصدتو فلسطین اورالقدس ( یروشلم )کےمتعلق ٹرمپ کے دئیے گئے بیانات سے دھیان ہٹانے کی خاطر اور خطے کو ایران سے متعلق مصروف و بے چین رکھنا ہے تاکہ ایران ہی خطے کے دیگرممالک کو اپناسب سے بڑا دشمن نظرآئے اور اس طرح خطے میں سب کی توجہ ایران پر لگی رہے اور یہودی ریاست سے اگر پوری طرح نہ ہٹے تو کم ازکم اس پر کم توجہ جائے جوکہ فلسطین کا غاصب ہے۔
دوسرامقصدیہ کہ خطے میں امریکہ کے ایجنٹوں کو اس دھوکے کے ذریعے بچانا ہے کہ وہ خطے میں ایران کے خطرے کے خلاف کھڑے ہیں اور امریکہ کو ایران کے خطرات سے بچارہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے القدس کے متعلق آئے بیانات اور یہ کہ وہ یہودی ریاست کا دارلحکومت ہے جیسا کہ ہم نے 7 دسمبر2017 کو اپنے لیفلٹ میں بیان کیا تھا کہ امریکی ایجنٹوں کی پیٹھوں پر بیٹھ کر امریکہ کی جانب سے ایک زور دار تمانچہ تھا "القدس (یروشلم ) مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں بسا ہوا ہےاور ٹرمپ کے بیانات پر ان امریکی ایجنٹوں کی خاموشی اور امریکہ کے لئے اطمینان بخش ایجنٹ بنےرہنے کی خاطران کا اصرارمسلمانوں کے لئے ایک بڑاسکینڈل بنا ہوا ہے۔۔۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کا بیان ان کے کردار کو سہارا عطاء کرتا ہے جس کو پکڑ کر وہ ٹرمپ کے القدس کے متعلق بیانات آنے کے باوجود اپنےامریکی ایجنٹ بنے رہنے کی خاطراسےعذر کے طور پرپیش کریں ۔۔اور یہ کہنا کہ ٹرمپ ایران کے خلاف کھڑا ہے جو کہ سخت کٹر دشمن ہے اوراس کو عذربناناجرم کرنے سے زیادہ خطرناک ہے
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾
اللہ انہیں غارت کرے، یہ کس دھوکہ میں مبتلاء ہیں ( المنافقون :4)"۔
7۔یہ سب سے زیادہ ممکنہ صورتحال کو بیان کرتا ہے جو ایران میں ہونے والی صورت حال یعنی داخلی صورتحال اور غیر ملکی بیانات بالخصوص امریکیوں کےحوالےسے ہے۔
خلاصہ یہ ہے ، کافر استعماری ممالک کا مسلمان ملکوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنا صرف اس لئے ممکن ہے کیونکہ ان پر آج"رویبضہ" حکمران حکومت کرتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کے دشمنوں سے وفادار ہیں اور ان کی اطاعت و تابعداری کرتے ہیں ۔ رسول اللہﷺ نے اس فتنے کے متعلق متنبہ کیاتھا جیسا کہ ابو ہریرہ سے مسند احمد میں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»
"لوگوں پر ضروربےوفائی کے سال گزریں گے جس میں جھوٹوں کو صادق سمجھا جائے گااور صادق کو جھوٹا سمجھا جائے گا، خائنوں کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امین کو خائن سمجھا جائے گااور رویبضہ معاملات کو طے کریں گے۔ کہا گیا ، رویبضہ کون ہیں ؟ تو آپﷺنے فرمایا، گھٹیا اور نقلی لوگ جو عوام کے معاملات طےکرتے ہیں۔"الحاکم نے المستدرک میں صحیح کے درجہ پر روایت کیا ہے۔
اس امت کی برائی اس کے حکمرانو ں میں ہے لیکن یہ بہترین امت ہے جو تمام انسانوں کی طرف بھیجی گئی ہے اور یہ ان رویبضہ حکمرانوں کی ظالمانہ حکومت کی خاطر زیادہ مدت تک خاموش نہیں رہے گی ۔رسول اللہﷺ نے ہمیں خلافت راشدہ کی واپسی کی خوشخبری و بشارت سنائی ہے جیسا کہ مسند امام احمد اور الطیالیسی میں حظیفہ بن الیمان سے مروی ہے کہ،
«... ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ»،
"اورپھر ظالمانہ بادشاہت ہوگی جب تک اللہ چاہے گا باقی رکھے اور پھر اٹھالے گااور پھر اس کے بعد نبوت کے منہج پر خلافت راشدہ قائم ہوگی اور پھر آپﷺ خاموش رہے"۔
وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا
"اور وہ پوچھتے ہیں ایسا کب ہوگا؟ کہو شاید عنقریب ہے"(الاسری: 51)
24 ربیع الآخر 1439 ہجری
11 جنوری 2018