بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
جرمنی اور قومی سلامتی کی پالیسی
سوال:
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد پہلی مرتبہ 14.6.2023کو جرمن حکومت نے مختلف جرمن اداروں کے ساتھ ایک سال سے زیادہ عرصے تک مذاکرات کے بعد قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی۔ کیا اس پالیسی سے 1945 میں دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی پر لگنے والی پابندیوں کا خاتمہ ہوگا؟ جرمنی کی جانب سے اس پالیسی کو اختیار کرنے کے بعد یورپی اور عالمی سیاست میں جرمنی سے کیا تو قع کی جاسکتی ہے؟
جواب:
دوسری جنگ عطیم میں شکست کی بنیاد پر جرمنی کو چار سیکٹرز میں تقسیم کیا گیا، جنگ جیتنے والے چار بڑے ممالک(امریکہ سوویت یونین برطانیہ اور فرانس)میں سے ہر ایک نے ایک سیکٹر کو کنٹرول کیا۔ پھر تینوں مغربی ممالک نے مغربی جرمنی کی تاسیس کی جبکہ روس نے مشرقی جرمنی کی تاسیس کی۔ عملی طور پر مغربی جرمنی ایک تابع ریاست کی حیثیت سے امریکہ کے ساتھ چلتی رہی۔ اسی طرح مشرقی جرمنی سوویت یونین(روس) کے ساتھ، چنانچہ مشرقی جرمنی مغرب کی طرف سوویت یونین کےلیے ایڈوانس ملٹری بیس کی حیثیت رکھتا تھا ، اسی طرح مغربی جرمنی مشرق کی طرف امریکی فوجی اڈے کی حیثیت رکھتا تھا۔یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی بات ہے۔۔۔مگر یہ صورت حال اس کے بعد بتدریج بدلتی رہی:
1۔ چند ظاہری امور کے علاوہ دونوں جرمن ریاستوں کی اپنے کیمپ لیڈر سے آزاد کوئی خودمختار پالیسی نہیں تھی۔ یہ صورت حال سوویت یونین کے کمزور ہونے اور 1990میں جرمنی کو متحد کرنے سے اتفاق کرنے تک جاری رہی۔ یعنی ماسکو مغرب کے حق میں مشرقی جرمنی سے دستبردار ہوگیا۔1991میں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے اور داخلی مسائل میں الجھنے کے بعد 1992 میں امریکہ کی مرضی کے خلاف یورپ کے اتحاد کےلیے ماسٹریچ معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی جرمنی یورپ میں ایک اہم اقتصادی قوت کے طور پر ابھرنے لگا۔ جرمنوں نے دیکھ لیا کہ عالمی صورت حال بدل چکی، جرمنی کی خود مختاری کےلیے پہلی اینٹ رکھنے کےلیےمعیشت کو مضبوط کرنے کا بہترین موقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی ایک ایسی معاشی قوت کے طور پر ابھرا جو دوسری یورپی قوتوں؛ جیسے فرانس اور برطانیہ یا عالمی قوتوں؛ جیسے روس اور امریکہ کو کسی قسم کا اشتعال دلائے بغیر ان سے مقابلہ کر رہا تھا۔ خاص کر جرمنی کی دفاعی پالیسی کم سے کم فوجی قوت کی پابندی پر مبنی تھی۔
2۔ اپنی صنعتی اور اقتصادی کامیابی اورروس کے ساتھ اپنی تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی وجہ سے جرمنی معاشی طور پر یورپی ممالک کی قیادت کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ جرمن قیادت ایک زمینی حقیقت کے طور نافذ ہوگئی جیسا کہ 2010میں یونان بحران میں ہوا۔ خلاصہ یہ ہے کہ یورپ میں یا یورپ کے ساتھ خارجہ تعلقات میں کوئی بھی بڑا اقتصادی معاملہ جرمنی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ یہ فرانس کےلیے مثبت بات نہیں تھی مگر عسکری طور پر جرمنی کا کمزور ہونے سے فرانس یہ سمجھتا تھا کہ مقابلہ بدستوردوستانہ میچ کے فریم ورک کے اندر ہی ہے۔ ان دنوں جرمنی سیکورٹی چیلنجز کےحوالے سے اپنے ویژن کو وائٹ پیپر کی شکل میں شائع کرتا رہتا تھا، جن کو اس کی وزارت دفاع شائع کرتا تھا۔ ان میں سے پہلا وائٹ پیپر1969 میں شائع کیا گیا اور آخری 2016 میں۔ ان میں سیکورٹی اور دہشت گردی پر بات ہوتی تھی مگر اس میں شرکت اقوام متحدہ کے ماتحت کرنے کی بات کی جاتی تھی۔ جب روس نے 2014میں کریمیا جزیرے کو یوکرین سے کاٹ کر اپنے اندر ضم کر لیا جرمنی نے بھرپور قوت سے اس کی مخالفت کی اور روس کے خلاف مغربی پابندیوں میں شریک ہوا۔ تاہم روس کے ساتھ بہت بڑے معاشی مفادات کی وجہ سے اس کے خلاف کسی اقدام کی قیادت کرنے سے باز رہتا تھا۔ اس بحث کے باوجود کہ روس کریمیا جزیرے کو اپنے اندر ضم کرکے یورپ کی سیکورٹی کو یکساں طور پر نقصان پہنچا رہا ہے، تاہم مینسک معاہدے میں جرمنی کی شمولیت سے جرمنوں کو یہ امید تھی کہ روسی خطرہ کریمیا اور دونباس کی سرحد پر رک جائے گی، جہاں روس نے اسی سال یوکرین کی حکومت کے خلاف علیحدگی پسندوں کی مدد کرکے آگ لگائی تھی۔
3۔ روس کی جانب سے2022 میں یوکرین پر حملے اور امریکہ کو اس بات کا یقین ہونے کے بعد کہ روس عالمی امن کے ان بنیادوں کو تباہ کر رہا ہے جن کو امریکہ نے بنائے تھے، یورپی اور بین الاقوامی صورت حال دونوں نے جرمنی کو اقتصادی قوت جو کہ اصل ہے کے ساتھ دوسری عسکری قوت کی اینٹ بھی رکھنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپی طاقتیں اس کی نیابت میں روس کے سامنے ڈٹ جائیں اور وہ خود چین کے آگے بڑھنے کا راستہ روکنے کےلیے تیار اور مستعد رہے۔ یہاں جرمنی نے دیکھ لیا کہ اب بڑی عسکری ریاست بننے کےلیے جرمنی کے سامنے بین الاقوامی میدان کھل گیا ہے۔ روس کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرنے کے بعد جرمنی نے اپنی فوج کو سپورٹ کرنے اور اس کو ترقی دینے کےلیے 100ارب یورو کے بڑےمالیاتی فنڈ کی تشکیل کا اعلان کردیا، تاکہ اس کی فوج اس کے دفاع کے قابل ہو۔ اور یہ اعلان کیا کہ یوکرین جنگ فیصلہ کن موڑ کی نشاندہی کر رہی ہے۔ بلکہ اپنے جنگی جہازوں کو بہت دور بھیجا جو بحرالکاہل پر پرواز کر رہے تھے، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ جرمن عسکری قوت ان پابندیوں سے آزاد ہو رہی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد لگی تھی۔ یوں جرمن قوم کے اندر عظمت کے جذبات انگڑائیاں لینے لگے، جرمن یوکرین بلکہ مشرقی یورپ کے حوالے سے خصوصی اقدامات کی باتیں کرنے لگے۔ جرمنی میں روس کے ان سامراجی عزائم کا مقابلہ کرنے کےلیے تیاری کی ضرورت پر بہت زیادہ باتیں ہونے لگی جو یوکرین کے باڈر پر ختم ہونے والے نہیں۔
4۔ چانسلر شولٹزکی حکومت نے 14.6.2023 کونیشنل سیکورٹی اسٹریٹیجی کو پیش کر نے کے دوران یہ دکھانے کے خواہشمند تھے کہ اس اسٹریٹیجی کے حوالے سے جرمنوں میں اتفاق ہے۔ اس لیے اتحادی حکومت میں جرمن پارٹیوں کے نمائندے اس کو پیش کرنے کے موقع پر چانسلر کے ساتھ موجود تھے۔ ان نمائندوں میں گرین پارٹی، فری ڈیموکریٹک پارٹی اور چانسلر شولٹزکی سوشلسٹ دیموکریٹ پارٹی کے وزراء شامل تھے۔ یہ جرمنی کے اندر ان تبدیلیوں اور جرمنی کو ایک ایسی عسکری اور سیکورٹی پوزیشن سے جس پر وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دہائیوں تک موجود تھا دوسری پوزیشن منتقل کرنا ہے۔ اگرچہ اپوزیش جماعتیں حکومت پر بڑے الزامات لگاتی تھیں کہ یہ اسٹریٹیجی مبہم ہے۔
5۔ شاید جرمن چانسلر شولٹزکا یہ بیان جرمن پالیسی میں اس نئے پیراڈائم شفٹ کی تشریح ہے:
"جرمن چانسلر نے اس بات پر زور دیا کہ آج جرمن حکو مت نے جس نیشنل سیکورٹی اسٹریٹیجی کی منظوری دی ہے یہ موجودہ بدلتے ہوئے حالات میں جرمنی میں لوگوں کی حفاظت کی ضمانت میں بڑا حصہ ہے۔ سوشلسٹ ڈیموکریٹک سیاست دان نے کہا کہ جرمن کابینہ نے اس اسٹریٹیجی کی منظوری دے کر ایک غیر معمولی اور اہم فیصلہ کیا ہے۔ شولٹز نےیہ واضح کیا کہ روس کے یوکرین پر حملے اور چینی حکومت کی پالیسی میں بڑھتی جارحیت ظاہر ہونے کے بعد جرمن سیکورٹی پالیسی کےلیے حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ شولٹز نے کہا کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری کسی سمجھوتے کے بغیر شہریوں کی سیکورٹی ضمانت دینے کےلیے کام کرنا ہے۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ اس ذمہ داری سے اس سیکورٹی اسٹریٹیجی کے ذریعے عہدہ برا ہوا جاسکتا ہے جو مکمل سیکورٹی کے بنیادی اصولوں پرچلتی ہو۔ انہوں مزید کہا کہ دفاعی پالیسی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے میں ماضی کی جرمن حکومتوں نے کوتاہی کی، اب ایک مکمل اور جامع طریقہ کار کی پیروی کی جائے گی۔" (ڈویچے ویلے جرمنی، (14.6.2023
6۔ جرمنی کی نیشنل سیکورٹی اسٹریٹیجی کی دستاویز کا راہنما اصول حکومت کی جانب سے شہریوں کی حفاظت ہے۔ اسی اصول پر وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کاربند تھے، مگر اس دستاویز میں جرمن فوج کی جانب سے صرف دفاعی ذمہ داری اداکرنے اور سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے اصول کو تبدیل کرکے اسے جامع اور ہمہ گیر بنایا گیا ہے۔ اب اس میں حملہ کرنا بھی شامل کردیا گیا ہے اور یہ یورپ کےلیے بھی بڑی اور خطرناک تبدیلی ہے۔ دستاویز میں جرمن فوج کی مکمل اور تیز رفتار ترقی کی بات کی گئی ہے۔ نیٹو کی جانب سے قومی پیداوار کے 2%فوج اور سیکورٹی پر خرچ کرنے کے2014 کے فیصلے کی پابندی اس کے علاوہ ہے۔ جرمنی باقی وزارتوں کو فوج کے حق میں اپنی اپنی بجٹ کم کرنے کےلیے تیار کر رہا ہے۔ جرمنی کی خوشحالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے۔ اسی لیے وزیر خزانہ کرسٹن لینڈنر نے کہا جرمنی کئی دہائیوں تک "امن کے فوائد سے لطف اندوز ہوتا رہا"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سمجھتا ہے کہ دفاع کے مسئلے کو اس قدر زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ وزیرخزانہ نے برلین میں اس اسٹریٹیجی کو پیش کیے جانے کے دوران کہا کہ "اس کا یہ مطلب ہے کہ بجٹ کے حصے دائمی طور پر تبدیل ہوکر رہ جائیں گے"۔ (ڈویچے ویلے جرمنی، 16.6.2023)
7۔ اسی طرح یہ دستاویز خطرات کے بارے میں جرمن حکومت کے نقطہ نظرکی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ چنانچہ بیرونی خطرات میں روسی فوج سرفہرست ہے، یا وہ جس کو وہ یوکرین پر روسی حملہ اور اس کے بعد کی اس سے کم درجے میں بڑھتے ہوئے چین اور اس کی حکومت کا راستہ روکنا جس وہ مغرب میں جارحانہ رویہ قرار دے رہے ہیں۔ جیسا کہ شولٹز کے بیان میں ہے"چینی حکومت کی بڑھتی ہوئی جارحانہ ظہور"۔ دستاویز میں داخلی خطرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ سائبر سیکورٹی، جرمن انفرسٹکچر کا چیلنج اور ماحولیاتی تبدیلی۔ اگرچہ ان مسائل کا براہ راست تعلق بھی بیرونی خطرات سے ہےکیونکہ یہ روس پر مغرب میں سائبر حملوں کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جرمن نیشنل سیکورٹی کی اسٹریٹیجی خارجہ پالیسی میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ اگرچہ جرمنی میں سیاسی ذہنیت کے بارے شکوک وشبہات بدستور موجود ہیں۔
8۔ اپنی فوج کی مضبوطی اس کی ترقی کےلیے بھاری بجٹ مقرر کرنے اور ملک سے باہر عسکری کاروائیوں جن میں حملے کرنا بھی شامل ہے، کے ذریعے جرمنی ان مسلط کردہ عسکری رکاوٹوں کو ہٹادے گا جن کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کی پابندیاں کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ پیچیدگیاں ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ یہ چیز اس کے اور فرانس کے درمیان بڑے اور بنیادی اختلافات کو ہوا دے گی۔ ان اختلافات کا مشاہدہ ابھی سے کیا جاسکتاہے۔ اگرچہ جرمنی ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے معاہدے(NPT) پر دستخط کر رکھا ہے اور بدستور غیرایٹمی ہونے کا پابند ہے، اس کی یقین دہانی وہ "جرمنی سے متعلق آخری سٹلمنٹ معاہدے" میں 1990 میں اس کی تصدیق کر چکا ہے۔ یہ معاہدہ اسی سال جرمنی کے متحد ہونے کے وقت چار بڑے ممالک کے ساتھ ہوا۔ جرمنی کے اندر ان تبدیلیوں کی گہرائی کو سمجھنے کےلیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جرمن فوج کو مضبوط کرنے کےلیے لازما اس کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور یہ "جرمنی سے متعلق آخری سٹلمنٹ معاہدے" کے خلاف ہےجس پر 1990 میں جرمنی کے متحد ہونے کے وقت دستخط کیا گیا تھا۔ اس معاہدے جرمن فوج کی زیادہ سے زیادہ تعداد 3 لاکھ 70ہزار ہو سکتی ہے۔ مگر امریکہ اور اس کے ساتھ برطانیہ کی جانب سے روس کے مقابلے میں جرمنی کو نیا کردار دینے سے جرمنی کےلیے اس معاہدے سے نکلنا آسان ہوجائے گا۔ اس کے ذریعے جرمنی اپنی عسکری قوت پر کسی بھی قسم کی روسی پابندیوں سے باہر نکلے گا۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے ترجیحات کے سامنے فرانس کا موقف کمزور ہے۔ بلکہ جرمنی اور فرانس کے درمیان بڑھتا ہوا اختلاف یورپی یونین کے ہی خاتمے کا کام کرسکتاہے، اور یہ ایسا معاملہ ہے جس کو امریکہ اور برطانیہ دونوں ہی خوش آئند کہیں گے۔
9۔ فرانس کے خوف کو کم کرنے کےلیے خاص کر جرمن فوج کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے جرمنی کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ جرمنی کا ذکر یورپی یونین کے ایک رکن کی حیثیت سے کیا جائے: "حکومت نے اسٹریٹیجی میں اہداف کا ایک مجموعمہ متعین کیا، جیسے یورپی سطح پر دفاعی ٹیکنالوجی کو مضبوط بنانا، جاسوسی تخریب کاری اور سائبر حملوں سے دفاع کو مضبوط کرنا۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کی سطح پر اسلحے کے برآمدکو کنٹرول کرنے میں تعاون کرنا"۔ ( ڈویچے ویلے16.6.2023)۔ لیکن ایک دوسرے زاویے سے یہ بھی پیرس کے لیے تشویشناک ہے اور وہ یہ کہ پیرس اب یہ مشاہدہ کر رہا ہے کہ یورپ کی پالیسیان اب برلین میں بنتی ہیں۔ جرمنی فضائی دفاع کےلیے یورپی پراجیکٹ کی بھی قیادت کر رہا ہے: (نئی اسٹریٹیجی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جرمنی آبادی اور معاشی قوت کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہونے کے ناطے یورپی دفاعی نظام اور نیٹو کو مضبوط کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ اسٹریٹیجی میں اس طرف اشارہ ہے کہ جرمنی اس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے۔ خاص طور پر وہ یورپی میزائل ڈیفنس شیلڈ "سکائی شیلڈ" بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیردفاع بوریس ببیسٹوریس نے اعلان کیا کہ 18 ممالک نے اصولی طور اس اقدام شراکت کی حامی بھری ہے۔ (الشرق 17.6.2023)۔
10 ۔ جہاں تک چین اور روس کو بطور جارحانہ حکومتوں دیکھنے کی بات ہے جرمن وزیر خارجہ بیربوک نے نیشنل سیکورٹی اسٹریٹیجی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:" سیکورٹی پالیسی کےلیے اسٹریٹیجی کی " تین مرکزی جہتیں ہیں" اور وہ یہ ہیں: دفاع استقامت اور پائیداری۔ یہ دفاع کے شعبے فوج کو مضبوط بنانے سول ڈیفس اور شہریوں کی حفاظت پر مشتمل ہے۔ پائیداری کے شعبے یعنی مزاحمت کی قوت میں "ہماری آزاد بنیادی جمہوریت ناجائز بیرونی تسلط کے خلاف "مزاحمت پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ "خام مال اور توانائی کے شعبے میں یک طرفہ انحصار"کے خاتمے اور متنوع ذرائع کی فراہمی پر مشتمل ہے۔ (ڈویچے ویلے 16.6.2023)، اس حوالے سے جرمنی چین سے سپلائی کو روکنے کی امریکی پالیسی پر گامزن ہے، کیونکہ امریکہ نے پورے یورپ کو چین اور روس سے زیادہ تر توانائی کی سپلائی لائن کو منقطع کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ جرمن بیانات میں یہ بات بالکل واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں۔ سابقہ مذکورہ ذرائع کے مطابق جرمن چانسلر شولٹز نے اس کی موافقت کی ہے، "ہمارے لیے یورپی یونین اور نیٹو سے منسلک رہنا بنیادی امر ہے"۔
11۔ اس جرمن نیشنل سیکورٹی اسٹریٹیجی کے حدوخال اس طرح خلاصہ ممکن ہے کہ:
ا۔ اس اسٹریٹیجی نےجرمنی کی ان عسکری پیچیدگیوں کا خاتمہ کر دیا جن کو دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر اس پر مسلط کیا گیا تھا۔ جرمنی ثابت قدمی سے اپنی فوج کو مضبوط بنانے اور اسی کو اپنی سیکورٹی کا ضامن بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ جرمنی بین الاقوامی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیڑیاں توڑ رہا ہےمگر ساتھ ہی وہ ایٹمی عدم پھیلاو پر دستخط کرنے والے ملک کے طور پر ہی رہ رہا ہے۔
ب۔ مغربی عالمی صورت حال کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر جرمنی اپنے دشمنوں کا تعین کر رہ ہے، جس کے مطابق پہلے درجے کا دشمن روسی فوج اور دوسرے درجے میں چین ہے۔ جس کے بارے جرمن استریٹیجی کہتی ہے کہ وہ تجارتی شراکت دار ہے مگر اس کے اردگرد پر بڑھتے ہوئے جارحانہ نظر رکھنےوالا ملک ہے۔ مگر جرمنی عالمی مسائل کو حل کرنے میں چین کے ساتھ تعاون بھی کرہا ہے، اس حوالے سے اس کا موقف جی ایس7کے اعلانیہ موقف سے مکمل ہم آہنگ ہے۔
ج۔ جرمنی اپنے اردگردسیکورٹی اور عسکری چیلنجوں کی نشاندہی بطور یورپی یونین اور نیٹو کے ایک رکن ملک کے کر رہا ہے، یوں جرمن اسٹریٹیجی اس بات کی یقین دہانی کر رہی ہے کہ وہ ان یورپی اور عالمی اداروں کےدائرے میں ہی کام کرنے کی پابندی کر رہا ہے۔
د۔ چونکہ یہ اسٹریٹیجی اس بات کی تائید کر رہی ہے کہ جرمنی یورپ کا حصہ ہے اور وہ نیٹو کا حصہ ہے، اور وہ یورپی اجتماعی نظام اور نیٹوکے اجتماعی نظام کے اندر ہی اپنی سیکورٹی کی بات کرتاہے، چنانچہ وہ اس عالمی نظام کا دفاع کر رہا ہے جس پر امریکہ کا کنٹرول ہے۔ تاہم یہ سب بھی اس جرمن اسٹریٹیجی کے خطرے کو کم نہیں کرتے، اسی طرح یہ جرمن اسٹریٹیجی ماسکو کےلیے ایک عالمی طور پر ایک بڑے نقصان سے کم نہیں، یہ اس کےلیے سویڈن اور فن لینڈ کے نیٹو میں شمولیت کی طرح ہے۔
ھ۔ جس طرح جرمنی نےگزشتہ تین دہائیوں میں یورپی یونین کے اندر اپنی پوزیشن کو اقتصادی مسائل میں اپنی قیادت کا لوہا منوالے کےلیے استعمال کیا جوکہ عظمت کی طرف اس کا پہلا قدم تھا۔ اسی طرح اب وہ یوکرین میں جنگ اور اپنے اردگرد بین الاقوامی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر فوج کو مضبوط کر رہا ہے اور عسکری صنعتی بیس قائم کر رہا ہے، جو عظمت کی طرف اس کا دوسرا قدم ہے۔ اس کے بعد اس کےلیے باقی رکاوٹوں کو ہٹا کر یورپی ممالک اور امریکہ سے آزاد جرمن اسٹریٹیجی بنانا ممکن ہو جائے گا۔ اگر چہ بہت جلد اس کی توقع نہیں تاہم واقعات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جرمنی اسی راہ پر گامزن ہوگیا ہے۔
12۔ آخر میں آج دنیا میں بڑے ممالک مقابلہ بازی میں ظلم اور بربریت سے خون بہا رہے ہیں ، زمین میں فساد برپا کر رہے ہیں، فصلوں اور نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔۔ لوگوں کے حالات اس وقت تک بہتر نہیں ہوں گے جب تک زمین ایک بار پھر خلافت کے نور سے منور نہ ہو۔ تب ہی نہ صرف مسلمانوں کےلیے امن وامان لوٹ آئے گا بلکہ ان سب کےلیے بھی جو اس کے سائے تلے آئیں گے۔ ۔تب ہی چاردانگ عالم میں حق کا بول بالا ہوگا۔
﴿وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً﴾
"اور کہدو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے والا ہی ہے"
﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيباً﴾
"اور وہ کہتے ہیں کہ "وہ کب ہے" کہ دو کہ ممکن ہے کہ وہ قریب ہو"
5 ذی الحجہ 1444ہجری
23.6.2023