بسم الله الرحمن الرحيم
سوال جواب
- اسکینڈینیوین ممالک اور قرآن پاک کو جلانا
- اردگان کا خلیجی دورہ
سوال:
پہلا: الجزیرہ نے 31 جولائی 2023 کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا کہ: سٹاک ہوم میں سویڈش پارلیمنٹ کے سامنے دو افراد نے قرآن پاک کا ایک نسخہ جلا دیا اور پولیس نے انہیں تقریب منعقد کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ عین اسی وقت تنظیم تعاون اسلامی (OIC) نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہنگامی اجلاس کے دوران سویڈن اور ڈنمارک میں اس طرح کے گھناؤنی حرکتوں کے جاری رہنے کی مذمت کی۔ سلوان مومیکا اور سلوان نجم نے قرآن پاک پر پاؤں رکھے اور پھر اسے جلا دیا، جیسا کہ انہوں نے جون 2023 کے آخر میں اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے ایک مظاہرے میں کیا تھا۔ کیا یہ حرکتیں ان کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذاتی نفرت کی بنا پر ہیں؟ یا ان گھناؤنی کاروائیوں کے پیچھے سیاسی مقاصد کار فرما ہیں؟
جواب:
کافر ممالک، ان کے سیاست دان اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنے اندر مسلمانوں کے خلاف شدید نفرتیں پال رکھی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرف سے زہر اگل رہی ہیں۔ لیکن ان نفرتوں پر قائم رہنے اور بڑھتے چلے جانے، اور کفار کے ممالک میں ایک خطے سے دوسرے خطے میں ان نفرتوں میں فرق ہونے کا موضوع بہت سی تفصیلات کا متقاضی ہے۔ ان تفصیلات سے آگاہ ہونا اور مسلمانوں کے خلاف سیاسی اور انٹیلی جنس کی سازشوں سے آگاہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہ تفصیلات درج ذیل ہیں :
1 - اسکینڈینیوین ممالک کی تاریخ اور ان میں سیاسی ذہنیت کی تشکیل دو چیزوں پر منحصر تھی: پہلی یہ کہ وہ خالصتاً یورپی ممالک ہیں اور یہ یورپ کے انتہائی شمال میں واقع ہیں۔ "وائکنگز" کے دور میں یہ صرف آس پاس کے ممالک کو نوآبادیات کے لیے استعمال کرتے تھے اور یہ دور آٹھویں سے گیارہویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا تھا۔ یورپ میں بڑی طاقتوں کے ظہور سے پہلے سکینڈے نیویا کے لوگوں کے لیے یہ سنہری دور تھا۔ اور پھر جب برطانیہ شمال مغربی یورپ میں ایک عظیم طاقت کے طور پر ابھرا اور براعظم کے مشرق میں روس، وسط میں جرمنی ابھرا تو یہ اسکینڈینیوین ممالک وہیل مچھلیوں کے سامنے چھوٹی مچھلیوں کی طرح ہو گئے۔ برطانوی اثر و رسوخ کا اپنے پڑوسی ملک ناروے میں اضافہ ہوا، روس کا اثر و رسوخ اپنے ہمسایہ ملک فن لینڈ میں بڑھ گیا، جبکہ جرمنی کا اثر اپنے پڑوسی ملک ڈنمارک میں بڑھتا گیا۔ جہاں تک سویڈن کا تعلق ہے، جو اسکینڈینیوین ممالک کے وسط میں چھپا ہوا ہے تو اس نے کچھ خودمختاری برقرار رکھی اور ایک قابل ذکر فوج بنائی۔ سکینڈینیوین ممالک میں سے سویڈن کا بڑی طاقتوں پر انحصار سب سے کم تھا، لیکن چونکہ برطانیہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے دور میں بڑے ممالک میں سب سے زیادہ طاقت ور تھا، اس لیے اس کا اسکینڈینیویا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ ہونا فطری عمل تھا۔ روس اور جرمنی وہاں موثر انداز میں اثر و رسوخ قائم کرنے سے قاصر تھے۔
2 - اسکینڈینیوین ممالک کے اسلامی دنیا سے دور جغرافیائی محل وقوع کے نتیجے میں، وہ ان یورپی ممالک میں شامل نہیں تھے جنہوں نے اسلامی دنیا کو اپنی نو آبادیاں بنایا اور جن کا سلطنت عثمانیہ کی تباہی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ واسطہ پڑا، ڈنمارک کے لیے معمولی استثناء کے ساتھ۔ چنانچہ ان ممالک نے مسلمانوں اور یورپی ممالک کے درمیان دشمنی کی حالت سے خود کو بڑی حد تک دور رکھا، جبکہ آخر الذکر نے مسلم ممالک میں نوآبادیاں قائم کیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی حالیہ ہجرت، جیسے کہ عراقی، شامی اور صومالی باشندوں کی ہجرت، کی نمایاں بات یہ تھی کہ یہ ہجرت ان ممالک میں کثرت کے ساتھ تھی اور ان ممالک نے، خاص طور پر سویڈن نے، مسلم تارکین وطن کی شاندار مہمان نوازی کی، جس کی وجہ سے یہ خطہ اپنے ممالک سے بھاگنے والے مسلمانوں کے لیے امیگریشن کے نقطہء نظر سے پسندیدہ مقام بن گیا۔ لیکن یہ حالت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی، خاص طور پر جب مسلمانوں کے پاکیزہ اور خالص طرز زندگی نے سویڈن اور دیگر سکینڈینیوین ممالک حتی کہ عمومی طور پر یورپ کو متاثر کرنا شروع کیا، ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، مساجد کئی گنا بڑھ گئیں اور حلال کھانے کی دکانیں نمودار ہوئیں، اور یہ لہر یہاں تک بڑھ گئی کہ "باپردہ یورپی لڑکیوں" کا منظر سامنے آنے لگا۔ اس معاملے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ان میں احترام کے جذبات پیدا کرنے کی بجائے، مسلمانوں کے خلاف ان میں نفرت کو جنم دیا گیا اور پھر یہ نفرت پھیلتی چلی گئی! اور نام نہاد سویڈش سوشل سروسز اتھارٹی "سوشل" کا گھناؤنا رویہ ظاہر ہوا، جو چائلڈ پروٹیکشن کے بہانے مسلمان بچوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کرنے کے لیے مشہور ہو گیا! پھر مسلمانوں کے خلاف ان ممالک میں انتہا پسند تنظیموں کے گڑھ بننا شروع ہو گئے۔ اور ان تنظیموں نے قرآن پاک کو جلایا اور ترکی، عراق اور مصر جیسے ممالک کے جھنڈے جلائے! اور اس سے پہلے بھی مسلم مخالف مہمیں چل رہی تھیں، جن میں سب سے نمایاں کارٹون تھے جن میں اسلامی علامتوں کی توہین در توہین کی گئی تھی، جیسا کہ ڈنمارک کے ایک اخبار نے 2005 میں مسلمانوں کی توہین کرنے والے کارٹون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے بارے میں کارٹون شائع کیا تھا۔ بدنام زمانہ فرانسیسی اخبار "چارلی ہیبڈو" نے اسے 2006 میں دوبارہ شائع کیا اور ساتھ ہی مسلمانوں کو یکے بعد دیگرے اشتعال انگیزی پر ابھارا گیا۔ اس کے علاوہ، انتہائی دائیں بازو کے دھارے ابھر کر سامنے آئے جو "اسلاموفوبیا" یعنی اسلام کی مخالفت کو فروغ دیتے ہیں۔
3- جہاں تک اسلام دشمنی کی اس تازہ ترین لہر کا تعلق سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن کریم کے نسخوں کو جلانے سے ہے تو اس میں دو چیزیں دیکھی گئیں ہیں؛ پہلی: سویڈن میں قرآن پاک کو پہلی بار جلانے کا کام ڈنمارک کے انتہا پسند راسموس پالوڈن نے کیا، جو ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی "ہارڈ لائن" پارٹی کا رہنما تھا۔ (یورونیوز عربی، 22/01/2023)، اور یہ کام سویڈش اتھارٹی کی موجودگی میں ترک سفارت خانے کے سامنے کیا گیا تھا!
دوسری: یہ کہ سب سے زیادہ اشتعال انگیز کارروائی عراقی نژاد ایک انتہا پسند عیسائی نے کی، جس نے 2023 میں عید الاضحی کے مبارک دن نمازیوں کے باہر نکلنے کے فوراً بعد ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کے صفحات کو پھاڑ کر اسے لات مارنے اور جلانے سے پہلے اس پر سور کے گوشت کی چربی ڈالنے کی انتہائی اشتعال انگیز کارروائی کی۔ اور پھر اس کے بعد آزادی اظہار کے جھوٹے ناموں کے ساتھ سویڈن اور ڈنمارک میں ایک مہم کی شکل میں قرآن پاک کو جلانے کی کارروائیاں شروع ہوئیں۔! گویا ان دو نکات میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ کام سویڈن والے نہیں بلکہ غیر سویڈن والے کر رہے ہیں، اور اس کے لیے سویڈش آئین میں موجود خامی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ریاست ان اقدامات کی مذمت کرتی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ وہ آئین میں بیان کردہ آزادی رائے کے وجہ سے ان کو روک نہیں سکتی۔
4- واضح رہے کہ یہ کارروائیاں خاص طور پر ترکی کے لیے کی گئی تھیں، کیونکہ پہلا واقعہ اس کے سفارت خانے کے سامنے ہوا تھا، پھر قرآن پاک کو جلانے کے ساتھ اس کا جھنڈا بھی جلایا گیا۔ شاید امریکہ کا رد عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کارروائیوں کا کیا مطلب ہے: (امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا جو وزارت کی روزانہ کی سمری کے دوران آیا تھا: "مجھے دو باتیں کہنے دیں ... اور یہ ایسی بات نہیں ہے جو آپ نے پہلے ہمیں کہتے نہیں سنی ہو گی ... ہم نے مسلسل کہا ہے کہ مذہبی کتابوں کو جلانا بے عزتی اور نقصان دہ ہے، اور جو کام قانونی ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وہ مناسب بھی ہو ... لہذا میں سویڈش حکومت اور مقامی قانون نافذ کرنے والے حکام کو اس خاص واقعے کے بارے میں بات کرنے کا کہوں گا۔" انہوں نے اپنے جواب کو رکھتے ہوئے کہا کہ: "لیکن وسیع پیمانے پر، ہم ہنگری اور ترکی کو بغیر کسی تاخیر کے سویڈن کے الحاق پروٹوکول کی توثیق کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں تاکہ ہم جلد از جلد اس اتحاد میں سویڈن کا خیر مقدم کر سکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ سویڈن نے سہ فریقی یادداشت کے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا ہے جس پر فن لینڈ اور ترکی کے ساتھ گزشتہ سال میڈرڈ سربراہی اجلاس کے موقع پر اتفاق کیا گیا تھا..." CNN عربی، 29/06/2023
5 - چھان بین کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کو جلانے کی ان مذموم کارروائیوں کی یہ لہر بنیادی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مجرمانہ نفرت کا معاملہ ہے۔ اور اسی طرح اس کا مقصد ترکی کو مشتعل کر کے نیٹو میں سویڈن کے داخلے کو روکنا بھی ہے۔ شاید جس نے بھی ان کارروائیوں کی منصوبہ بندی کی تھی وہ جانتا تھا کہ سویڈن کو نیٹو میں شامل کرنے کی امریکی خواہشات پر ترکی کی قیادت حامی بھر لے گی اور یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے روس کو ایک اور اسٹریٹجک نقصان پہنچے گا۔ ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، ترک صدر اردگان نے نیٹو میں سویڈن کے الحاق کے معاملے کو 11/07/2023 کو لتھوانیا میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران ترک پارلیمنٹ بھجوانے پر اتفاق کیا، یعنی اس کے الحاق کی منظوری دینے پر اتفاق کیا۔ یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا اس میں یہودی وجود کا ہاتھ تھا، اس کے دو پہلو ہیں: پہلا یہ کہ سویڈن میں مقیم عراقی پناہ گزین جس نے قرآن پاک کو جلایا وہ موساد کا ایجنٹ ہے (ایرانی وزارت انٹیلی جنس نے آج پیر کی شام اعلان کیا کہ اس نے قابل اعتماد معلومات حاصل کی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ قرآن کو جلانے والے سلوان مومیکا کے سویڈن میں اسرائیلی موساد کے ساتھ تعلقات تھے۔ ایرانی وزارت نے سرکاری IRNA نیوز ایجنسی پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مومیکا کو موساد نے 2019 میں ملازمت پر رکھا تھا۔ اور یہ کہ اس نے عراقی عوام اور اسلامی قوم کے ساتھ غداری کے بدلے میں سویڈن میں رہائش حاصل کی۔ دی نیو عرب، 10/07/2023 ) جہاں تک دوسرے شخص کا تعلق ہے جس نے جلانے کے نئے واقعے میں حصہ لیا ہے تو وہ اسی کا دوست ہے اور اس سے منسلک ہے۔ دوسرا پہلو: یہودی وجود روس کے ساتھ مل کر نیٹو میں سویڈن کے الحاق میں رکاوٹ ڈال کر چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے، خاص طور پر نیتن یاہو اور بائیڈن کے درمیان تناؤ کی روشنی میں، جبکہ بائیڈن اب بھی نیتن یاہو کا استقبال کرنے سے انکاری ہے۔
6- آخر میں، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی تنازعات کے میدان میں مسلمانوں کے مقدسات کو پامال کیا جا رہا ہے!! اور مسلمانوں کے حکمران اور ان کی تنظیمیں ہاتھ باندھے کھڑی ہیں اور ان میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اس ذلت کو مزین کر کے دکھاتا ہے جس کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی مقصد!! کیا کوئی عاقل رکھنے والا نہیں ہے جو یہ سمجھ سکے کہ مقدسات کی پامالی پر ایک ایسی شدید جنگ کی ضرورت ہے جس سے دشمن شیطان کے وسوسوں کو بھول جائے؟! یہ واقعی تکلیف دہ ہے کہ سکینڈے نیویا جیسی کمزور قومیں اپنے آئین و قانون کو حجت بنا کر امت اسلامیہ کے جذبات کو اہمیت نہیں دیتیں۔ اور پھر مسلمانوں کی مقدس ترین چیز کو جلاتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ صورت حال ایسی ہی رہے گی جب تک کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسا خلیفہ نہ ہو جو خدا کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکومت کرے اور خدا کی راہ میں جہاد کرے اور خدا کے قانون کے مطابق حق کو برقرار رکھے ... اور پھر ان کمزور ریاستوں میں سے کوئی بھی اتنی جرت کرنے والا نہ ہو گا حتیٰ کہ بڑی ریاستوں کے نام سے پکارے جانے والے بھی مسلمانوں کے مقدسات کو نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کریں گے۔ اور یہ (خلیفہ) صرف اس شخص کی سزا سے مطمئن نہیں ہو گا بلکہ اُس ریاست یا اُن ریاستوں سے بھی بدلہ لے گا جو اس کی حفاظت کریں گی اور اسے پناہ دیں گی۔
﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾
”اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔“
(سورة الشعراء - آیت 227)
سوال:
دوسرا: (ایمریٹس ٹوڈے) نے 25 جولائی 2023 کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا کہ: (ترک صدر رجب طیب اردگان نے گزشتہ ہفتے 3 خلیجی ممالک کے اپنے دورے کو "بہت کامیاب اور نتیجہ خیز" قرار دیا۔ پیر کی شام ایک ٹیلی ویژن تقریر میں، اردگان نے اشارہ کیا کہ انہوں نے ایک بڑے تجارتی وفد کے ساتھ خلیج کا جو دورہ کیا، وہ خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک "انتہائی اہم قدم" ہے۔)
ترک صدر نے 17 سے 19 جولائی 2023 تک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور ان کے ساتھ 200 سے زائد تاجر اور وی آئی پیز بھی تھے .... بین الاقوامی سیاسی تعلقات کے حوالے سے خلیجی ممالک اور ترکی کے درمیان اختلاف ہونے کے باوجود اس دورے کا مقصد کیا ہے؟ یا یہ دورہ اقتصادی وجوہات کی بناء پر ہے، خاص طور پر ترکی کی موجودہ اقتصادی صورت حال میں مہنگائی دیکھنے میں آئی ہے؟ آپ کے لیے شکریے اور احترام کے جذبات کے ساتھ۔
جواب:
ان سوالات کے جواب کو واضح کرنے کے لیے، ہم درج ذیل کا امور کا جائزہ دیکھتے ہیں،
1- یہ دورہ، جس میں ان کے ساتھ 200 سے زائد کاروباری شخصیات اور اہم شخصیات موجود تھیں، ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی معاشی بحران کا شکار ہے، افراط زر کی شرح ریکارڈ سطح پر پہنچ رہی ہے، اور ترک لیرا کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔ اس لیے اس دورے کے دوران اقتصادی مسائل زیادہ واضح رہے اور اس دورے کے دوران، سرمایہ کاری سے لے کر صنعت تک، دفاع سے لے کر صحت تک اور قابل تجدید توانائی سے لے کر خلائی صنعت تک، کئی شعبوں میں 18 معاہدوں اور مشترکہ بیانات پر دستخط کیے گئے اور ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 50.7 بلین ڈالر کا معاہدہ ہوا۔
2- ترکی معاشی بحران کا شکار ہے اور قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں افراط زر 40 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ 100 فیصد کی سطح سے تجاوز کر چکا ہے۔ (آج بدھ کو شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ترکی میں مہنگائی جون کے مہینے میں کم ہوئی، مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.2 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو کہ 18 ماہ میں اس کی کم ترین سطح ہے۔ "انڈیپنڈنٹ" انفلیشن ریسرچ گروپ کے مطابق، افراط زر کی شرح سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر، 108.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے... الجزیرہ لائیو، 05/07/2023)
3 - ترکی کے مرکزی بینک نے مئی 2023 کے انتخابات سے قبل ڈالر کو مخصوص سطح پر برقرار رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں ڈالر مارکیٹ میں ڈالے، جس کی وجہ سے ترکی کے مرکزی بینک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ڈالر کی قیمت جو 28 مئی کے انتخابات میں 19.90 تھی، اب 26 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس طرح سال کے آغاز سے اب تک ڈالر کے مقابلے لیرا کی قدر میں کمی 28 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ (منگل کے اوائل میں ترک لیرا نے ڈالر کے مقابلے میں 26.10 کی نئی ریکارڈ کم ترین سطح کو چھو لیا جب حکام اور بینکرز نے کہا کہ مرکزی بینک نے کرنسی کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنے ذخائر کا استعمال بند کر دیا ہے۔ لیرا بعد میں 26.05 کی قیمت پر مستحکم ہوا، اور اس طرح سال کے آغاز سے لے کر اب تک اس میں 28 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ عربی 21، 27/06/2023)
4 - لہذا، اردگان نے بجٹ کی رکاوٹوں، دائمی افراط زر، اور ترک لیرا کی کمزوری کے پیش نظر سرمایہ کاری اور فنانسنگ کے حوالے سے بڑی امیدیں وابستہ کیں۔ (بلومبرگ میں فراہم کردہ تجزیے میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ اردگان عرب دنیا میں تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مغربی سرمایہ کاروں کے خلاء کو پر کیا جا سکے جو غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں۔(https://aposto.com. 21/7/2023)
5- خلیج کے ساتھ تعلقات کو آسان بنانے کے لیے، مہمت سمسیک کو مقرر کیا گیا ہے جنہیں پہلے برطرف کر دیا گیا تھا۔ انکے برطانیہ اور خلیج میں سرمایہ کاروں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ انہیں 28 مئی 2023 کے انتخابات کے بعد وزیر خزانہ مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے ای-ٹی-آئی بینک سے اسکالرشپ کے ساتھ انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں ماسٹر ڈگری مکمل کی ہوئی ہے اور لندن میں بین الاقوامی تنظیموں میں ماہر اقتصادیات، حکمت عملی اور مینیجر کے طور پر کام کیا ہوا ہے۔ وزیر خزانہ کے طور پر ان کی تقرری کا مقصد یورپ سے پیسہ لے کر آنا اور ترکی پر برطانوی تنقید کو کم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمت سمسیک نے جون میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا، اور مہمت سمیک، جو انگلینڈ میں مالیاتی حلقوں میں جانے جاتے ہیں اور مالیاتی اداروں میں کام کرتے ہیں، نے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں .... (پچھلے مہینے، نائب صدر Cevdet Yilmaz، وزیر خزانہ مہمت سمسیک اور مرکزی بینک کے گورنر Hafid Gay Erkan نے خلیجی ممالک کا دورہ کیا اور "معاشی تعاون کے مواقع" کا جائزہ لیا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ محکمہ اقتصادیات کے ان دوروں کا مقصد ان معاہدوں کی بنیاد رکھنا تھا جو اردگان کے خلیجی دورے کے دوران انجام پائیں گے۔ اس لیے اردگان کا دورہ اس کے لیے اقتصادی راہ ہموار کرنے کے بعد ہوا۔(https://www.indyturk.com/ 17/7/2023)
6- انقرہ کو اگلے نومبر میں متعدد قرضوں کی ادائیگیوں کا سامنا ہے اور اسے اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے قابل ہونے کے لیے نومبر سے پہلے بیرونی وسائل تلاش کرنا ہیں۔ چنانچہ اس نے بیرونی وسائل کی تلاش میں خلیج میں سرمایہ کاروں کا رخ کیا۔ (جے پی مورگن نے کہا کہ جولائی سے اکتوبر 2023 کی مدت کے لیے ترکی کی ماہانہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی $2.4 اور $3.5 بلین کے درمیان ہوں گی۔ جبکہ بینک نے بیرونی قرضوں کی بھاری ادائیگیوں کی موجودگی کا اشارہ دیا ہے جن کی ادائیگی دسمبر 2023 اور مارچ 2024 کے درمیان ہونی چاہیے۔ (https://www.bloomberght.com, 06/07/2023)
7- مندرجہ بالا کے مطابق، اردگان کے خلیجی دورے کے پیچھے سیاسی وجوہات کے مقابلے میں اقتصادی وجوہات بہت زیادہ ہیں، اور اٹلانٹک کونسل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والا مضمون اس کی تصدیق کرتا ہے۔ (اٹلانٹک کونسل کی ویب سائٹ کے ذریعہ شائع کردہ اس مضمون میں، محققین سرحات سوبوكج أوغلو اور موزة حسن المرزوقي وضاحت کرتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے میں ترکی کی دلچسپی کے پیچھے بنیادی وجہ سرمایے کی آمد کو راغب کرنا اور اردگان کو ایک ایسے رہنما کے طور پر برقرار رکھنا ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں اقتصادی ترقی حاصل کی۔ (https://www.atlanticcouncil.org 21/07/2023)
8- یہ اردگان کے بیانات میں بھی نظر آتا ہے: (اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ متحدہ عرب امارات خطے میں ترکی کے سب سے اہم تجارتی اور اقتصادی شراکت داروں میں سے ایک ہے، صدر اردگان نے یہ بھی اشارہ کیا کہ ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم 10 بلین ڈالر ہے۔ اردگان نے اشارہ کیا کہ ان کے متحدہ عرب امارات کے دورے میں مختلف شعبوں میں 13 معاہدوں پر دستخط ہوئے اور ان کی کل مالیت 50.7 بلین ڈالر ہے۔ ایمریٹس ٹوڈے، 25/07/2023)
9- اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اردگان کا خلیجی خطے کا دورہ بنیادی طور پر ایک اقتصادی دورہ ہے۔ ہم غلط نہیں ہوں گے اگر ہم یہ کہیں کہ یہ دورہ صرف ایک اقتصادی مقصد کے لیے تھا، جس کا مقصد افراط زر کو کم کرنا اور ترک لیرا کی پوزیشن کو بہتر بنانا، اور پھر اقتصادی منڈی میں ترکی کا توازن بحال کرنا ہے۔ یہ سب واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلم ممالک سے متعلق زمینی حقائق ان کے اتحاد کی ضرورت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان ممالک کی ظاہری اور باطنی دولت ان کے لوگوں کے لیے، ان کی غربت ختم کرنے کے لیے اور ان کے لیے شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ اس بات کو جان لیتے تو وہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہتے اور حقیقت میں ایک امت بن جاتے، یعنی بہترین امت جو بنی نوع انسان کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾
”(مسلمانو !) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کیلئے وجود میں لائی گئی ہے ۔ تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔ “(سورۃ آل عمران – آیت 110)
16 محرم 1445ھ
بمطابق 03/08/2023 ء