الأربعاء، 18 محرّم 1446| 2024/07/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانوی ریفرنڈم کے نتائج

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانوی ریفرنڈم کے نتائج

سوال:

برطانیہ میں23 جون2016 کو یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکلنے کے بارے میں ریفرنڈم ہوا، جس کے نتیجے میں تقریبا 52 فیصد نے نکلنے کے حق میں رائے دی۔ اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس کی حکومت مزید تین مہینے چلے گی۔۔۔کیا ریفرنڈم کا نتیجہ کیمرون کی خواہش کے برعکس تھا؟ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے اقتصادی اور سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ کیا برطانیہ کا یونین سے نکلنا حتمی ہے یعنی واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا ؟ کیا اس موضوع میں امریکہ کا کوئی کردار ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

 

جواب:

سوال میں جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی وضاحت کے لیے ہم یہ کہیں گے:

 

1۔ برطانیہ 2008 کے اقتصادی بحران کے بعد سےیورپی یونین کے ساتھ اپنےمسائل پر تسلسل سے روشنی ڈالتا رہا اور یہ بتاتا رہا کہ کس طرح یورپی یونین برطانوی مفادات کے مطابق کام نہیں کررہی ۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے یورپی یونین کے حوالے سے برطانیہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے جنوری 2016 میں ڈیوس کانفرنس میں کہا:” یورپی یونین برطانیہ میں زیادہ مقبول نہیں رہی ۔ یورپی یونین کے حوالے سے برطانوی عوام میں موجودتشویش کو مد نظر رکھ کر ہمیں ایک ریفرنڈم کی ضرورت ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت زیادہ قانون سازی اور افسر شاہی(بیوروکریسی) ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت زیادہ محض صرف ایک کرنسی کا ہی کلب بن سکتا ہے۔ یہ سوچ کہ کیا واقعی یورپ ایک حقیقی سیاسی اتحاد کی سوچ رکھتا ہے ،ایک ایسا سیاسی اتحاد ہے جس سے برطانیہ کبھی مطمئن نہیں رہا ۔ برطانیہ کبھی بھی ایسے خیال سے خوش نہیں تھاکہ ہم ایک سیاسی اتحاد کا حصہ ہوں ۔ ہم قابل فخر اور خود مختار قوم ہیں، ہمارے پاس خود مختار جمہوری ادارے ہیں جن پر ہم فخر کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے مفادات کی خوب حفاظت کی ہے۔ ہم یہ واضح طور پر کہنا چاہیں گے کہ ہمارے لیےیورپ ایسا ہے جہاں خود مختار قومی ریاستیں مشترکہ مفادات کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں، مگر یہ زیادہ گہری سیاسی اتحاد نہیں جسے برطانوی عوام نہیں چاہتے اور جس پر دستخط نہیں کریں گے” Gov.Uk) 21 جنوری 2016 )۔۔۔ اس بنیاد پر گزشتہ فروری میں یورپ کے ساتھ مذاکرات میں قدم رکھا اور برطانیہ جو چاہتا تھا اس میں سے زیادہ تر حاصل کرلیا: برطانیہ کے قومی تشخص کی حفاظت کا حصول چنانچہ برطانیہ یورپی یونین میں مکمل ضم نہیں ہو گا بلکہ اپنا خود مختار وجود برقرار رکھے گا اور شینگین معاہدہ اس پر لاگو نہیں ہو گا۔

 

لہٰذا اس کی سرحدوں پر وہ پابندیاں لاگو نہیں ہوں گی جسے وہ ناپسند کرتا ہے ، یونین اس کی کرنسی اسٹرلنگ کو قبول کرے گی اور وہ یوروزن کا حصہ نہیں بنے گا ، برطانیہ میں آنے والے یورپی باشندوں کوچار سال رہائش اختیار کرنے کے بعد متعین امداد اور مفت رہائش کے حصول کا حق ہو گا۔۔۔کیمرون نے دستخط کے وقت اعلانیہ طور پر کہا کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوگئے،” یورپی یونین کے قائدین کے ساتھ جس معاہدے تک پہنچے اس کے مطابق یونین میں برطانیہ کا مخصوص مقام ہو گا”( بی بی سی20 فروری2016 )۔ کیمرون نے یورپی یونین سے درخواست کی کہ ” اتحاد کے رکن ممالک کے قومی پارلیمان کو زیادہ اختیارات دیے جائے اور ان پارلیمنٹس کو ،جن میں برٹش پارلیمنٹ بھی ہے، یورپی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو کلعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہو”۔ مگر یونین نے اس مطالبے کو قبول نہیں کیا۔۔۔برطانیہ نے بہت کچھ حاصل کیا مگر وہ چاہتا تھا کہ وہ یورپی یونین کے فیصلوں اور قوانین کا پابند نہ ہو جس کو چاہے قبول کرے اور جس کو چاہے مسترد کردے اور یورپی یونین کی اس پر بالادستی نہ ہو۔ انگریز یہی چاہتے تھے کہ یورپی یونین بہت ہی کمزور رہے اور اس کا اپنے اراکین پر کنٹرول نہ ہو۔ برطانیہ حسب عادت یونین کے قوانین کا پابند ہوئے بغیر یونین سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، وہ ریفرنڈم کے موضوع اور یونین سے نکلنے کی باتوں کو دباؤ اور استثنیٰ حاصل کرنے کے وسائل کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔۔۔

جیسا کہ معلوم ہے کہ کیمرون نےاپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ 2015 کے انتخابات میں کامیاب ہونے کی صورت میں وہ یہ ریفرنڈم کروائے گا جو برطانیہ کی عادت کے مطابق امتیازات کے حصول کے لیے ہو گا، کیونکہ اس کے ذریعے یورپی یونین اور اس کے دوسرے رکن ممالک کو سیاسی اور اقتصادی انتشار سے ڈرایا جائے گا جو ریفرنڈم کے نتیجے میں برطانیہ کے یونین سے نکلنے سے پیدا ہوگا!

 

یونین سے مفادات کے حصول کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے دھمکی دینے کی برطانوی پالیسی نئی نہیں تھی بلکہ یہ برطانیہ کی جانب سے یونین میں شمولیت کے پہلے دن سے ہے۔ برطانیہ یورپی اقتصادی گروپ کا ممبر جنوری 1973 میں بنا اور اس نے اپنی کرنسی”اسٹرلنگ پاونڈ” کو بھی محفوظ رکھا اور “شینگن” زون سے باہر رہنے کا نعرہ بھی یورپی یونین میں ہونے کے باوجود خاص طور پر لگایا۔ وہ یونین میں رہنے کے لیے “ریفرنڈم ” کی بات کو یورپی ممالک پر دباؤ کے لیے ہی استعمال کرتا رہا، جس کا مقصد یونین کے اندر برطانیہ کے لیے مزید امتیازات کا حصول تھا۔ اس نے 1975 میں یورپی یونین میں رہنے کے لیے لاگو ہونے والی شرائط میں بہتری کے لیے ریفرنڈم کرایا، جس میں برطانوی شہریوں نےیورپی اقتصادی گروپ میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔۔۔

موجودہ ریفرنڈم بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے برطانوی ریفرنڈمز میں سے ایک ہے! اس میں کنزرویٹیوز نے بڑی مکاری دکھائی اور کنزرویٹیو جماعت کے قائدین نے یونین سے نکلنے اور یونین میں رہنے دونوں مہموں کی ایک ساتھ سرپرستی کی!! چنانچہ یونین میں رہنے کی مہم کی سرپرستی خود برطانوی وزیر اعظم کیمرون کر رہا تھا اور یونین سے نکلنے کی مہم کی سرپرستی پارلیمنٹ کے رکن بوریس جونسون کر رہا تھا جو کہ پہلے لندن کا میئر تھا، جس نے لندن سے پارلیمنٹ میں کنزرویٹیو کی سیٹ کے حصول کے لیے استعفیٰ دیا تھا تا کہ مستقبل میں وزیر اعظم بن سکے۔ اسی طرح موجودہ وزیر انصاف مایکل گوف نے یونین سے نکلنے کی مہم کی سرپرستی کی۔۔۔کیمرون نے اعلان کیا کہ ” یورپی یونین میں رہنے یا نکلنے کے لیے ریفرنڈم 23 جون 2016 کو ہو گا اور اس کا فیصلہ حکومت کے اجلاس کے بعد کیا گیاتھا”(مونٹی کارلو20 اپریل2016)۔ اس بات کے باوجود کہ معاہدے کے لئے مطلوبہ حمایت موجود تھی ، کیمرون نے اپنی جماعت کو اس کی حمایت کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ کیمرون نے ایک بار کہا کہ “جمعرات کے ریفرنڈم میں یونین سے نکلنے کا فیصلہ “بڑی غلطی” ہوگی جس کے نتیجے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی جو کئی دہائیوں تک رہ سکتی ہے “۔ اس کی حکومت کے وزیر انصاف مایکل گوف نے سنڈے ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ اگر یونین سے الگ ہوا تو “ترقی کا مینار” بن جائے گا۔ گوف نے مزید کہا کہ:” شہریوں کو جمہوریت کے لیے ووٹ دینا چاہیے اور برطانیہ کو امید کے لیے ووٹ دینا چاہیے”(بی بی سی 19 جون2016)۔ اس طرح برطانوی وزیر اعظم کیمرون اور اس کی جماعت کے قائدین کا ایک گروپ برطانیہ کے یورپی یونین میں شامل رہنے کے کیمپ میں تھا جبکہ وزیر انصاف اور کیمرون کے وزارء کا ایک اور گروپ “برطانیہ کے باہر ہونے” کی مہم کی سرپرستی کر رہا تھا جس میں کنزرویٹیو جماعت کے معروف رہنما اور لندن کے سابق میئر بوریس جونسن بھی تھا۔

 

حکمران کنزرویٹیو جماعت، جس کی قیادت کیمرون کر رہا تھا، کی مذکورہ ریفرنڈم کے بارے میں پالیسی کو باریک بینی سے دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ کیمرون یہ توقع کر رہا تھا کہ نتائج فیصلہ کن نہیں ہو ں گے بلکہ برابر ہوں گے اور کچھ لوکچھ دو والی صورت حال ہو گی اور ان غیر فیصلہ کن نتائج کو یونین کے ساتھ دو بارہ مذاکرات کا ذریعہ بنا یا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کنزرویٹیو جماعت بیک وقت یورپی یونین میں رہنے اور اس سے باہر نکلنے کی مہم کی قیادت کر رہی تھی۔۔۔ مگر نکلنے یا شامل رہنے کی کوئی بھی مہم سنجیدہ نہیں تھی صرف یہ بات سنجیدگی پر مبنی تھی کہ ریفرنڈم کو یورپ کو مزید پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ کیمرون نے معاہدے کی حمایت کے باوجود اپنی جماعت کو اس کی حمایت کا پابند نہیں کیا۔ اگر وہ یونین میں شامل رہنے میں سنجیدہ ہوتا تو اپنی جماعت سے اس کے حق میں ووٹ دینے کا مطالبہ کرتا اور نتائج اس میں شامل رہنے کے حق میں ہوتے۔ مگر اس نے ووٹنگ میں جماعت کو تقسیم کیے رکھا کیونکہ مقصد شامل رہنے یا باہر نکلنے کے بارے میں اکثریت کا حصول نہیں تھا جیسا کہ ہم نے کہا ہے۔۔۔اس کی تائید بظاہر نکلنے کی مہم چلانے والے جانسن کے بیانات سے بھی ہوتی ہے جس کے بیانات ریفرنڈم سے قبل کچھ اور تھے اور اس کے بعد کچھ اور بعد کے بیانات سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ یونین میں شامل رہنے کے حق میں تھے! جانسن نے ریفرنڈم کے نتائج کے بعد پیر کو کہا کہ برطانیہ” یورپ کا حصہ ہے” اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون “مضبوط” ہوگا، اور اشارہ دیا کہ برطانیہ یونین سے”نکلنے میں جلد بازی نہیں کرے گا” http://www.almodon.com/arabworld/2016/6/28/ ،

 

بلکہ نکلنے کی مہم میں اس کا شریک کار نایگل فاراج، جو کہ برطانوی خود مختار پارٹی کے سربراہ اور کنزرویٹیوز منحرف ہے اور برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کازبردست حامی ہے، نے ریفرنڈم کے بعد یورپی پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں کہا:”ہم بڑے کیوں نہیں ہوتے، عملی، عقلمند اور حقیقت پسند کیوں نہیں بنتے، ہمیں آپس میں ایک اچھا بغیرکسٹم ڈیوٹی کا معاہدہ کرنا چاہیے ، اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ برطانیہ آپ کا دوست ہو گا، ہم آپ کے ساتھ تجارت کریں گے، آپ کے ساتھ تعاون کریں گے اور ہم دنیا میں سب سے اچھے دوست ثابت ہوں گے۔ ہمیں ایسا کرنے دو ہمیں ہمارے عالمی اور مستقبل کے خواب حاصل کرنے دو”(ٹیلی گراف 28 جون 2016)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کنزر ویٹیو جماعت نکلنے اور شامل رہنے کی دونوں شاخوں کے ذریعے جس چیز کی منصوبہ بندی کر رہی تھی وہ نکلنا یا شامل رہنا نہیں بلکہ ایسی صورت حال پیدا کرنا تھا جس سے مذاکرات میں یونین پر ممکنہ حد تک دباؤ بڑھا یا جائے اور اس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جائے جس کے لیے ریفرنڈم کا نتیجہ غیر فیصلہ کن اور مساوی ہونا ضروری تھا تاکہ لو اور دو کی گنجائش نکل آئے اور ان نتائج کو یونین کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا ذریعہ بنا یا جائے۔

 

مگر نتائج حسب توقع نہیں تھے اور 52 فیصد کی اکثریت نے نکلنے کے حق میں ووٹ دیا جوکہ چونکا دینے والا تھا! کیونکہ برطانیہ یونین میں رہنا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے خاص کر معاشی حوالے سے، ساتھ ہی وہ اس کے قوانین کی پابندی بھی نہیں چاہتا! یہی وجہ ہے کہ اس نے یونین میں اپنے لمبے سفر کے دوران پیچید گی پیدا کی، ریفرنڈم کی دھمکی دیتا رہا، اعتراض اور مسائل پیدا کرتا رہا، اور اس کے اکثر داؤ پیچ کامیاب بھی ہوتے رہے۔۔۔مگر اس بار کامیاب نہ ہو سکا! برطانیہ یونین سے عملاً الگ ہو کر تعلقات منقطع نہیں کر سکتا کیونکہ اس صورت میں وہ قریب المرگ ہوجائے گا۔۔۔اس کے باوجود وہ اکثریت کی رائے کو اہمیت دے رہا ہے جو نکلنے کے حق میں ہے۔۔۔ وہ شش وپنچ میں مبتلا ہے اور اپنی ہی مکاری میں پھنس گیا ہے!

 

2۔ جمعرات 23 جون2016 کو منعقد ہونے والےبرطانوی ریفرنڈم Brexit کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپ بلکہ اس سے باہر کی دنیا کوبھی ایک صدمے کا سامنے رہا کیونکہ رائے عامہ کے تجزیے یہ بتا رہے تھے کہ رائے دہندگان کی اکثریت برطانیہ کے یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ہے۔ اس کے باوجود نتائج کا اثر شدید تھا جو برطانیہ سے نکل کر یورپی یونین تک پہنچا اور اس سے بھی تجاوز کرکیا، مگر اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اس کا زیادہ اثر برطانیہ پر پڑے گا :

 

۔ جہاں تک معیشت کی بات ہے، تو اس ریفرنڈم کے نتائج نے برطانیہ اور اس کی معیشت پر اعتماد کو چند منٹ میں ہی ہلا کر رکھ دیا۔ ڈالر کے مقابلے میں پاونڈ کی قیمت میں 10فیصد اور یور کے مقابلے 7فیصد کمی آئی۔ ایشیائی اور یورپی مارکیٹ کو جھٹکے لگے، چنانچہ رائٹرز نے 28 جون2016 کو لکھا کہ ” ریفرنڈم کے نتائج نے عالمی حصص میں سے تین ٹرلین ڈالرز کو نگل لیا اور اب بھی پالیسی سازوں کی جانب سے اپنی معیشتوں کی حفاظت کا عہد کرنے کے باوجود اتار چڑھاؤ جاری ہے”۔برطانیہ صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیےمرکزی بنک کے گورنر کو آگے لایا اور اس نے کہا” کہ مارکیٹس کو چلانے میں مدد فراہم کرنے کے لئے بینک آف اگلینڈ اپنے معمول کے ذرائع کے ذریعےاضافی 250 ارب پاونڈ اسٹرلنگ فراہم کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔۔۔۔مستقبل میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے ہم کسی بھی اضافی فنڈز کی فراہمی سے نہیں ہچکچائیں گے “(بی بی سی24 جون2016)۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ” اسٹینڈرڈ اینڈ پورز”، “موڈیز” اور “فیچ” نے برطانیہ کی کریڈٹ ریٹنگ کم کردی اور بیانات جاری کیے جن میں کہا گیا:” برطانوی کریڈٹ ریٹنگ “AAA ” سےگر کر ” AA” پرآگئی ہے” یعنی دو درجے گر گئی ہے۔۔۔ یہ برطانیہ میں پہلی بار ہوا۔ ان ایجنسیوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ ” ریفرنڈم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے مختصر مدت میں معیشت کے پھیلاؤ میں بڑی کمی ہو گی۔۔۔ سیاسی ماحول اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ترقی کے متعلق پیش گوئی کی جاسکے اور اس وقت ترقی میں استحکام اور فعالیت کم ہے ۔۔۔ اور اسکاٹ لینڈ کی خود مختاری کے لیے بھی ریفرنڈم کیے جانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے”( اے ایف پی27 جون2016)۔

 

آئی ایم ایف نے جائیدادوں کی قیمتوں میں بڑی کمی آنے کے بارے میں خبردار کیا۔ جبکہ برطانوی وزارت خزانہ نے کہا”آنے والے دو سالوں میں جائیدادوں کی قیمتوں میں 10 سے 18فیصد کمی آ سکتی ہے جہاں پر انہیں ہونا ہیے تھا”(بی بی سی24 جون2016)۔ اور برطانوی وزیر خزانہ جورج اوزبون نے اعلان کیا کہ “برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلے کے بعد معاشی چیلنجزکا سامنا کرنے کے لئے برطانیہ کو اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا”۔ کمپنیوں نے نئی ملازمین کی بھرتی روکنے کا اعلان کر دیا ہے اور ملازمین کو کم کرنے کا بھی امکان ظاہر کردیا جس سے ان لوگوں کے خواب چکنا چور ہو گئے جو یہ سمجھتے تھے کہ یورپی یونین سے نکل کر برطانیہ معاشی ترقی کرے گا”(رائٹرز28 جون2016)۔ بعض کمپنیوں نے فوراً ہی ہنگامی طور پراپنی شاخوں کو لندن سے یورپ کے دوسرے شہروں میں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔ مارکیٹ کھلنےکے فوراً بعد ہی برطانوی اسٹاک ایکسچینج FTSEکے انڈیکس میں فوراً 8فیصد کی کمی آئی اور”یہ 2008 کے بعد ایک دن میں سب سے بڑا خسارہ ہے”(الجزیرہ نیٹ 24 جون2016)۔

 

اس سب کا یہ مطلب ہے کہ ریفرنڈم کے نتیجے میں برطانیہ کو نقصان اٹھانا پڑا اوریونین سے حتمی طور پر نکلنے کی صورت میں یہ اس کے لیے اچھی خبر نہیں۔ اس کو اب بھی 2008 کے مالیاتی بحران کے چیلنجوں کا سامنا ہے اور یہ یورپی یونین سے بڑا فائدہ اٹھا تا ہے جیسا کہ ہم نے 2 مئی2016 کے سوال کے جواب میں کہا تھا: ” برطانیہ یورپی یونین سے اقتصادی فائدے اٹھا تا ہے، اس سے اس کی کمپنیوں اور مالدار ٹولے کو فائدہ پہنچتا ہے۔ برطانیہ کی معیشت خدمات پر مشتمل ہے جبکہ برطانیہ میں بنیادی خدمت مالیاتی خدمات ہیں۔ برطانیہ بہت کم سامان برآمد کرتا ہے، مگر آمدن کے لیے وہ مالیاتی خدمات پر بھروسہ کرتا ہے اسی طرح سرمائے اور غیر ملکی کرنسیوں پر۔ اسی طرح یورپی یونین کی مشترکہ مارکیٹ کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ بلاروک ٹوک پورے یورپ کو برآمدات کرے، جس سے بڑی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لیے اس کی جانب سے یورپی یونین کو چھوڑنے کا مطلب اس موقع کو ضائع کرنا ہے جس سے ملک میں سیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح یورپی یونین برطانیہ کا اہم تجارتی شراکت دار ہے، اگر وہ ایک یورپی ملک ہونے کے باوجود یونین سے الگ ہو جاتا ہے تو یورپ میں اس کا مقام کمزور ہو گا۔۔۔ اس کے علاوہ اس حالت میں اس کو باہر سے یورپی یونین کے چیلنج کا سامنا ہو گا جو یونین پر اس کے اثر کو کمزور کرے گا جبکہ برطانیہ کا اثر اس میں شامل رہنے کی وجہ سے ہی زیادہ قوی اور فعال ہے۔۔۔”۔

 

ہم نے اسی سوال کے جواب میں کہا تھا:”مارچ 2015 کو برطانیہ یورپی محکمہ انصاف میں یورپی مرکزی بینک کے خلاف داخل کیا گیا کیس جیت گیا، کیونکہ یورپی مرکزی بینک نے یورو زون کے لین دین اور معاملات کو یورپی یونین کے اندر لے جانے کی کوشش کی تھی، اس اقدام کے نتیجے میں لندن پیچھے رہ سکتا تھا، جبکہ پیرس اور فرینکفرٹ زیادہ جاذب مالیاتی مراکز بن سکتے تھے، جس سے برطانیہ کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔۔۔”۔ اگراس میں پانامہ لیکس کے دستاویزات اور برطانیہ میں ٹیکس چوری کی محفوظ پناہ گاہوں کے نتائج کو بھی شامل کیا جائے جیسا کہ ہم نے 5 مئی2016 کے سوال کے جواب میں کہا۔۔۔اس سب کے باوجود برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے اگر ریفرنڈم کر تا ہے تو یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے! اگر برطانیہ عملاً یونین سے نکلتا ہے تو لندن مالیاتی مرکز ہونے کا امتیاز کھو دے گا اور فرینکفرٹ خاص طور پر جو کہ یونین کا مالیاتی مرکز بھی ہے لندن کے مقابلے میں زیادہ جاذب مرکز ہو گا، یوں برطانیہ کے نقصانات بے پناہ اور تباہ کن ہوں گے۔

 

۔ جہاں تک سیاسی اثرات کا تعلق ہے تو اس ریفرنڈم نے برطانیہ میں موجود اقوام کو برطانوی یونین میں محدود رکھنے کے حوالے سے گہرا اثر ڈالا۔ یہ اس لئے کہ اسکاٹ لینڈ کی عوام نے مکمل طور پر یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا، اسی طرح شمالی آئرلینڈ نے بھی مگر اب یہ اقوام خود برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حوالے سے ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہی ہیں، یعنی کہ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں خود برطانیہ کی وحدت سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کی برطانیہ نے پیش بندی نہیں کی تھی کیونکہ داخلی طور پر کیمرون کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے 2014 کے ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ کو برطانیہ سے الگ ہونے سے روکا۔ برطانیہ نے سمجھا کہ اسکاٹ لینڈ کا موضوع ایک لمبے عرصے کے لیے بند ہو گیا، مگر23 جون2016 کو برطانیہ میں ریفرنڈم کے بعد یہ موضوع مضبوطی سے تازہ ہو گیا۔ چنانچہ اسکاٹ لینڈ کے سینئروزیر اسٹرجون نے ریفرنڈم نتائج کے اعلان کے فوراً بعد بیان دیا کہ 2014 کے ریفرنڈم کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی تھی جب اسکاٹ لینڈ کے عوام نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا، اسکاٹ لینڈ یورپی یونین میں ہی رہنے کے لیے یورپی یونین سے مذاکرات کرے گا،اور یہ برطانیہ سے الگ ہوئے بغیر مشکل ہے۔ اس نے کہا کہ ” وہ برطانیہ جس کے ساتھ رہنے کے لیے اسکاٹ لینڈ نے ووٹ دیا تھا وہ موجود نہیں رہا، اور اس جانب اشارہ کیا کہ اس بات کے “قومی امکانات” ہیں یورپی یونین سے نکلنے کے برطانوی ووٹ کے بعد اسکاٹ لیند میں نیا ریفرنڈم کرایا جائے” (میڈل ایسٹ آن لائن26 جون2016)۔ جبکہ شمالی آئر لینڈ، جو کہ برطانیہ کا سب سے کمزور حصہ ہے، میں ” شین فین پارٹی نے، جو کہ آئرش ریپبلیکن آرمی IRA کا سیاسی چہرہ ہے، جمعے کی صبح متحدہ آئر لینڈ کے لئے ریفرنڈم کی دعوت دی۔ یہ دعوت برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد آئی۔ اور ریپبلیکن آرمی نے نے کہا کہ یورپی یونین کے حوالے سے ریفرنڈم کے اثرات ریاست برطانیہ کے لیے بہت زیادہ ہونگے “( فرانس 24، 25/6/2016 )۔۔۔یوں برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ریفرنڈم نے برطانیہ کے ٹوٹنے کو ایک بار پھر شمالی آئر لینڈ میں سیاست دانوں کا موضوع بنا دیا، اسی طرح اسکاٹ لینڈ میں بھی۔

یہی وجہ ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج نے معاشی نقصانات کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے حصے بخرے ہونے کےخطرات میں اضافہ کردیا۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کر تا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج برطانیہ کی خواہش کے برعکس تھے اور اس نےبرطانیہ کو اپنے ہی مکاری کے جال میں پھنسا دیا ہے۔ اپنی ہوشیاری پر اعتماد اس کے گلے پڑ گیا اورریفرنڈم کے بعد سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے جو کہ برطانیہ کی جدید سیاسی تاریخ میں ایک نئی بات ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس قدر پریشان ہیں کہ اخبار نیو یارک ٹائمز نے پیر27 جون2016 کو شہ سرخی لگائی کہ” سیاسی اور قانونی استحکام کی شہرت رکھنے والا ملک انار کی کی راہ پر”۔ یہ ریفرنڈم کے بعد برطانیہ کو درپیش مسائل پر تبصرہ تھا!

 

3۔اس لیے توقع اس بات کی ہے کہ برطانیہ جلد بلکہ طویل مدت میں بھی یونین سے نکلنے میں تاخیر کی بھر پور کوشش کرے گا۔ وہ خباثت اور دھوکہ بازی میں ماہر ہے۔۔۔بیانات اور وضاحتوں سے یہی ظاہر ہو رہا ہے۔۔۔ ذرائع ابلاغ میں آنے والے تبصروں سے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔سب ریفرنڈم پر عمل میں ٹال مٹول بلکہ ریفرنڈم کے حوالے سے واپسی اور دائرے میں گھونے کا اشارہ دے رہے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل امور کے ذریعے ہو سکتے ہیں:

ا۔2007 کے لزبن معاہدے کے شق نمبر 50 کا متن برطانیہ کو ٹال مٹول اور قلابازیاں کھانے کا موقع دیتا ہے جس کو وہ اپنی سیاسی خباثت اور مکاری کے ذریعے استعمال کرے گا۔ اس شق کے مطابق نکلنے کے اقدامات شروع کرنے سے قبل برطانیہ کو یورپی کونسل، جو کہ ریاستی سربراہوں اور رکن ممالک کے حکمرانوں پر مشتمل ہے، کو یونین سے نکلنے کے حوالے سے اپنی نیت سے آگاہ کرنا ہو گا۔ اس کے بعد “نکلنے کے معاہدے ” کے لیے زیادہ سے زیادہ دو سال تک مذاکرات کرنے ہوں گے۔ کیمرون نے برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے کہا:” حالیہ مرحلے میں حکومت یونین سے نکلنے کے لیے مذاکرات کی ابتداء نہیں کرے گی۔ لزبن معاہدے کی شق 50 پر عمل درآمد سے قبل اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس بات کا تعین کریں کہ ہم یورپی یونین سے کس قسم کے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں”( بینا27 جون2016)۔ اور کیمرون نے دار العوام کے سامنے زور دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ ہی یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ نکلنے کے اقدامات کب شروع کیے جا سکتے ہیں۔ اس نے کہا”برطانوی حکومت فی الحال یورپی یونین سے نکلنے کے حوالے سے یورپی معاہدے کی شق 50 کو فعال نہیں کرے گی” (الجزیرہ نیٹ 27 جون2016 )۔

 

یوں برطانیہ کی جانب سے یونین سے نکلنے کے لیے مذاکرات کے مطالبے میں تاخیر کا امکان ہے! صرف یہ نہیں بلکہ کیمرون نے فوراً استعفیٰ نہیں دیا بلکہ اس کو تین مہینے کے لیے موخر کیا تاکہ نئی حکومت قائم کی جاسکے اور وہ حکومت چاہے تو مذاکرات کا مطالبہ کرے، یعنی مذاکرات کیمرون کے بعد ستمبر 2016 میں آنے والے نئے وزیر اعظم کے حوالے کیے گئے جب کنزر ویٹیو جماعت اپنے نئے سربراہ کو منتخب کرنے کے لیے اجتماع منعقد کرے گی۔ ریفرنڈم کے نتائج کے اعلان کے بعد کیمرون نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ وہ اکتوبر میں اپنے منصب سے استعفیٰ دے گا اور یہ معاملہ اپنے بعد آنے والے پر چھوڑے گا کہ وہ شق 50 پر کب عملدر آمد کرتا ہے http://elaph.com/Web/News/2016/6/1096000) اسی طر ح “برطانوی وزیر خزانہ جورج اوزبورن نے بھی یقین دہانی کرائی کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حوالے سے مذاکرات نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے شروع نہیں ہوں گے”(الجزیرہ نیٹ،27 جون2016)۔۔۔ایک قانون دان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:” حقیقت یہ ہے کہ شق 50 پر عملدر آمد میں جتنی تاخیر کی جائے گی اتنا ہی اس کے لاگو نہ ہونے کے امکان میں اضافہ ہو گا۔ کیونکہ جتنی تاخیر کی جائے گی تو نئےواقعات پیش آئیں گے اور بہانے کام آئیں گے” (شق 50 پر عملد درآمد کیوں اہم ہے، ڈیوڈ الین گرین 25 جون 2016 )۔ یہی وجہ ہے کہ دو یورپی سفار ت کار سمجھتے ہیں کہ جمعرات کے ریفرنڈم میں برطانویوں کی جانب سے یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے کے باوجود برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کے براہ راست اقدامات نہیں کرے گا۔ ایک سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ:” میری ذاتی رائے ہے کہ وہ ہر گز اپنے نکلنے کے بارے میں اپنی نیت کا اظہار یورپی یونین سے نہیں کریں گے”۔ سفارت کار نے مزید کہا:”ہم چاہتے ہیں کہ لندن ابھی شق 50 پر پیش رفت کرے تاکہ معاملہ واضح ہو۔ چونکہ اس حوالے سے ان کو جھکانا ہمارے لیے ممکن نہیں اس لیے میں توقع کرتا ہوں کہ وہ وقت لیں گے”۔ اس نے مزید کہا:”میں اس کو بعید از امکان نہیں سمجھتا اور یہ میری ذاتی رائے ہے وہ ہر گز ایسا نہیں کریں گے”(Arabi 21 27 جون2016)۔

 

ب۔ خود ریفرنڈم کےموضوع کے حوالے واپسی اور مڑنے کا امکان ہے جیسے ایک بار پھر ریفرنڈم کو دہرانے کے لئے قانونی دروازے تلاش کرنا یا اس کی شرائط کے حوالے سے مذاکرات کرنا۔ اگر چہ ایک ایسے ملک کے لیے ریفرنڈم کو دہرانا آسان نہیں جو اپنے آپ کو جمہوریت کے علمبردار کے طور پر پیش کرتا ہے اور جو عوام کی رائے کی مخالفت نہیں کرتا مگر برطانیہ اپنی سیاسی مکاری کی وجہ سے کوئی راستہ ڈھونڈ لے گا، جس کی طرف مندرجہ ذیل باتیں اشارہ کرتی ہیں:

 

ا۔ ریفرنڈم کو دہرانے میں دلچسپی رکھنے والوں سے دستخط لینے کے لیے الکٹرونک درخواست دی گئی ہے” برطانوی پارلیمنٹ کی سائٹ پر درخواست دی گئی ہے جس میں برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بارے میں دوبارہ ریفرنڈم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، 28 جون2016 تک ریفرنڈم کو دہرانے کے حامیوں کے3.8 ملین دستخط جمع کیے گئے ہیں، درخواست، جو ویلیم اولیفر ھیلی نے دی ہے، میں کہا گیا ہے کہ ” دستخط کرنے والے برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے کہ اگر نکلنے کے حق میں ووٹ 60 فیصدسے کم ہو ں اور 75 فیصد سے کم لوگ حق رائے دہی استعمال کریں تو ریفرنڈم کا اعادہ ہو نا چاہیے””( برطانوی اخبار ٹیلی گراف 27 جون2016)۔

ب۔ اس بات کے پیش نظر کہ ریفرنڈم کا اعادہ اس جمہوریت کو ہلاکر رکھ دے گا جس کےبرطانیہ گن گاتا ہے۔۔۔ اسی لیے بعض انگریز قانون دان دوسرے راستوں کا عندیہ دے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ (ہاوس آف کامنز اور ہاوس آف لارڈز) وزیر اعظم کو یورپی یونین کے نام کسی نوٹی فیکیشن جاری کرنے سے منع کر سکتی ہے۔ چنانچہ لارڈ پینک کیوسی( کامن لاز کے مشہور ماہر) نے کہا:” پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بغیر وزیر اعظم قانونی طور پر یورپی یونین کو کوئی نوٹی فیکیشن نہیں دے سکتے” http://www.bbc.com/news/uk-politics-uk-leaves-the-eu-36671629)

ج۔ ایک خارجی وجہ بھی ہے جس کے لیے برطانیہ یورپی یونین میں رہنا چاہتا ہے اور وہ اس کو کمزور کرنا اور مسلسل اس کے لئے دباؤ کا باعث رہا ہےتا کہ اس کے اندر کشمکش کا بیج باقی رہے۔ یہ خارجی وجہ امریکہ ہے، ” اوباما نے گزشتہ اپریل میں لندن کا دورہ کیا، اور برطانویوں کو یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دینے کا مشورہ دیا” (الجزیرہ24 جون2016)۔ امریکہ چاہتا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین میں شامل رہے تا کہ یہ اتحاد اختلافات کا شکار رہے، کیونکہ امریکہ کو معلوم ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کی وحدت کے لیے کام نہیں کرتا بلکہ اس کی راہ میں روکاٹ بنتا ہے، اس کے بہت سارے فیصلوں کو مشکوک بنا تا ہے، صرف اپنے مفاد کے لیے سوچتا ہے۔ اس طرح برطانیہ یونین میں ایک منفی تباہی پھیلانے والےعنصر کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ سب امریکہ کے مفاد میں ہے جو یورپ کو متحد ،طاقتور اور عالمی سطح پر سیاسی یا اقتصادی میدان میں اپنا مدمقابل دیکھنا نہیں چاہتا۔ اگر برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے سے خود برطانیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا ہے تب یہ بھی امریکہ کے مفاد میں ہے ۔۔۔اسی لیے نتائج جب برطانیہ کے الگ ہونے کے حق میں آئے تو امریکی صدر اوباما نے وزیر خارجہ جان کیری کویورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان ثالثی کے لیے یورپ بھیجا تا کہ برطانیہ کے حوالے سے یورپی رد عمل کو کم سے کم کیاجائے۔ جب کیری 27 جون2016 کو برسلز پہنچا تو کہا:”یہ ایک بنیادی بات ہے کہ اس عبوری مرحلے میں ہماری توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہیے کہ کوئی بھی آپے سے باہر نہ ہو اوربغیر سوچے سمجھے کوئی حرکت نہ کرے”۔ اورلندن میں کیمرون کے ساتھ ملاقات کے بعد کیری نے کہا:”یورپی یونین سے نکلنے کے برطانوی ووٹ پر عمل درآمد شاید کبھی نہ ہو اور یہ کہ لند ن کو اس معاملے میں کوئی جلدی نہیں، کیمرون سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے یونین سے نکلنے کے حوالے سے مذاکرات کرنے پر قادر نہیں کیونکہ وہ ایسا چاہتا نہیں ۔۔۔ وزیر اعظم لزبن معاہدے کے شق نمبر 50 کو متحرک کرنا نہیں چاہتے جو یورپی یونین سے نکلنے کے دو سالہ اوقات کار کی ابتداء کردیتا ہے۔ ۔۔۔ اورکیری نے وضاحت کی کہ لندن دوسال بعد بھی تعاون کے کسی نئے معاہدے پر دستخط کے بغیریونین سے الگ ہو نا نہیں چاہتا۔۔۔اس سوال کے جواب میں کہ نکلنے کے فیصلے سے”رجوع” کا کوئی امکان اور راستہ ہے کیری نے کہا” میں سمجھتا ہوں کہ کئی راستے ہیں”(فرانس 29 جون 2016)۔

یہ خارجی وجہ برطانیہ اور یونین کے درمیان تعلقات کا کوئی راستہ نکال سکتا ہے، اسی میں امریکہ کا مفاد ہے جیسا کہ پہلے ہم نے کہا۔

 

4۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یورپی یونین برطانیہ کے کھیل کو سمجھنے لگی ہے ، اس لیے الگ ہونے کی کاروائی شروع کرنے کے لیے لزبن معاہدے کے شق 50 کی طرف رجوع کرنے سے قبل ناروے اور سویڈن ماڈل کی اساس پر پہلے غیر رسمی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے ذریعے اپنے مفاد کی حفاظت چاہتی ہے۔ مگر برطانیہ ناروے اور سویڈن کے برعکس یورپی منڈی تک رسائی چاہتا ہے اور افراد کی آزادانہ نقل وحرکت کی مخالفت کرتا ہے جو کہ برطانوی رائے دہندگان کے مابین بنیادی مسئلہ ہے۔ مارکل (جرمن چانسلر)نے اس کو قطعی طور پر بعید از امکان قرار دیا کیونکہ سامان،خدمات اور سرمائے کی آزادی کے ساتھ افراد کی آزادانہ نقل وحرکت ہی وہ آزادی ہے جس کو یورپی یونین مقدس گردانتا ہے۔ یورپی یونین برطانیہ کی مکاری کو سمجھتی ہے، اس لیے نہ صرف اس فکر کو مسترد کیا بلکہ 27 رکن ممالک اور برطانیہ کے درمیان کسی بھی خفیہ بات چیت پر پابندی لگا دی۔ چنانچہ یورپی کمیشن کے سربراہ جان کلوڈ یونکر کہا:” مجھے کھری کھری بات کرنے دو، برطانوی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی خفیہ کاروائی ممکن نہیں”، اور کہا : ‘میں نے تمام کمشنرز اور کمیشن کے ملازمین پر بالکل واضح کردیا ہے؛کسی قسم کے خفیہ مذاکرات نہیں ہوسکتے، کوئی خفیہ مذاکرات نہیں ” (Evening standard ،28 جون2016 )۔

یورپی پارلیمنٹ کا اجلاس 28 جون2016 کو شروع ہوا اور دو دن جاری رہا۔ اس اجلاس میں پہلا مطالبہ یہ گیا کہ برطانیہ فوراً یورپی یونین سے نکلنے کے لیے لائحہ عمل کا اعلان لزبن معاہدے کے مطابق کرے تا کہ ایسے کسی شک وشبہے کی گنجائش نہ رہے جو یونین کی وحدت کی حفاظت کے لیے بری ہو۔ یورپی کمیشن کے سربراہ جان کلوڈ یونکر نے یورپی پارلیمنٹ کے سامنے کہا:” ایک لمے عرصے کے لیے ہم شش وپنچ میں نہیں رہ سکتے برطانیہ کو کل یا پرسوں نہیں بلکہ فوراً اپنا موقف واضح کرنا چاہیے”۔ اس نے برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی شرائط کے حوالے سے کسی قسم کے خفیہ مذاکرات کو یا لندن کی جانب سے اوقات کار دینے کو مسترد کر تے ہوئے کہا:” اوقات کار ہم دیں گے وہ نہیں جو یورپی یونین سے نکلنا چاہتے ہیں”(اے ایف پی الجزیرہ 28 جون2016)۔ کیمرون برسلز آیا اور یورپی یونین کے پہلےاجلاس میں شریک ہوا اور جاتے ہوئے کہا:” مجھے امید ہے کہ ہم ایسے پر اعتماد تعلقات قائم کریں گے جو ممکن حد تک تجارت اور سیکیورٹی معاملات میں معاون ہوں جو کہ ہمارے لیے بہتر ہے”( ڈی پی اے28 جون2016)، یعنی وہ یورپی یونین نہیں چاہتا بلکہ صرف وہ چاہتا ہے جس کی برطانیہ کو ضرورت ہے جو کہ معاشی اور سیکیورٹی میں تعاون ہے۔ جرمن چانسلر مارکل نے لندن کو واضح پیغام دیا کہ:” نکلنے کے لیے ریفرنڈم کرنے کے بعد برطانیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے تمام امتیازات کو محفوظ رکھے اور ساتھ ہی اپنی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائے”(ڈ پی اے28 جون2016)۔۔۔یعنی یورپ والوں نے برطانیہ کے ساتھ دوٹوک موقف اختیار کیا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد نکلے اس سے پہلے کہ وہ نکلنے میں ٹال مٹول کے دوران ان کو کوئی نقصان پہنچائے۔

 

سربراہی اجلاس کے اختتام پر یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ ڈونلڈ ٹوساک نے اعلان کیا کہ” یورپی رہنماوں نے بدھ کو واضح اعلان کیا ہے کہ برطانیہ کے لیے یونین سے نکلنے کے بعد افراد کی آزادانہ نقل وحرکت کو قبول کیے بغیر یورپ کی مشترکہ منڈی میں داخل ہونے کے لیے مذاکرات ممکن نہیں۔۔۔اس صورت میں مشترکہ منڈی کا وجود ہی نہیں ہو گا”۔ اس نے مزید کہا کہ برطانیہ کی جانب سے یونین سے الگ ہونے کے فیصلے کے بعد ہونے والی پہلی بحث میں جو کہ برسلز میں ہوئی جس میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچا گیا اسی لیے ہم نے 16 ستمبر کو 27 ممالک کے درمیان ایک مشاورتی اجلاس سلویکیا کے دار الحکومت براٹسلاوا میں بلایا ہے تا کہ اس بحث کی پیروی کریں۔۔۔اس نے کہا کہ :”شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اپنی مشترک تاریخ میں ایک نئے دور سے گزر رہے ہیں۔۔۔ ہماری بات چیت سے ایک ہی واضح مسئلہ سامنے آیا : قائدین متحد رہنے کا ہی مصمم ارادہ رکھتے ہیں”( ا ے ایف پی29 جون2016)۔

اس کا یہ معنی نہیں کہ یورپی یونین پر ریفرنڈم کے نتیجےکا کوئی منفی اثر نہ ہوا اگر چہ یہ وہی خطرہ نہیں جس کا سامنا خود برطانیہ کو ہے، بلکہ یورپی یونین متاثر ہوا اور اس کے ممالک میں ریفرنڈم کے مطالبے کا دروازہ کھل گیا۔۔۔ چنانچہ دائیں بازو کی بہت ساری قوتوں نے اپنی حکومتوں سے اس قسم کے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جس میں یورپی یونین کی پہلی اینٹ فرانس بھی شامل ہے، اس کے ساتھ یورپی کمیشن نے بشمول فرانس کے یورپ کے کئی ممالک میں اس قسم کے ریفرنڈم کے لیے یورپ کی پارٹیوں کی 32 درخواستوں کو جمع کیا ہے، جو کہ یورپی یونین کے وجود کے لیے ہی خطرہ ہے۔۔۔ یونین کے بانی ممالک خاص کر فرانس اور جرمنی ،جو کہ دو بڑے اور زیادہ بااثر ممالک ہیں، نے یونین کو برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور ان کے ساتھ اٹلی، ہالینڈ ،بلجیم اور لگسمبرگ نے بانی ممالک کی حیثیت سے ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔۔۔اجلاس کے بعد فرانس کے صدر ہولاند نے کہا”برطانیہ کا یونین سے نکلنا یورپ کے لیے چیلنج ہے” اس نے ” اس المناک آپشن پر بڑے افسوس کا اظہار کیا” اور کہا:” یقیناً برطانویوں کے یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دینے نے یورپ کو ایک خطرناک امتحان میں ڈال دیا ہے، اگر پہلے کی طرح اس کا تسلسل ممکن نہیں ۔۔۔تو اپنی قوت اور اتحاد کا اظہار کرنا چاہیے۔۔۔”(اے ایف پی24 جون2016)۔۔۔ اسی طرح دوسرے بانی رکن جرمنی نے بھی پریشانی کا اظہار کیا اور اس کی چانسلر مارکل نے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا:” برطانیہ کا نکلنا یورپ اور اس کو متحد کر نے کے انتظام پر کاری ضرب ہے” اور اس نے فرنسیسی صدر ہولاند ، اطالوی وزیر اعظم ریننری اور یورپی کمیشن کے سربراہ ٹوسک کا پیر27 جون2016 کو اجلاس طلب کیا اور کہا:”اس فیصلے کے نتائج کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیایورپی یونین کے 27 ممالک یہ ثابت کرنے کے لئے تیار اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ برطانوی ووٹ سے کوئی جلد بازی پر مبنی سادہ نتیجہ اخذ نہ کرلیں کہ جس کا نتیجہ یورپ کی تقسیم ہو ۔۔۔آج یورپ دوراہے پر کھڑا ہے یورپی یونین اور یورپی تعاون دو راہے پر ہیں، یونین کے ممالک کو صورت حال کا درست تجزیہ کرنا چاہیے اور اس بنیاد پر مشترک فیصلہ کرنا چاہیے ” (اے ایف پی24 جون2016)۔ جرمن وزیر خارجہ اسٹائن مائر نے ریفرنڈم کے نتائج کے اعلان کے بعد جرمن ٹی وی چینل زیٹ ڈی ایف سے بات کرتے ہوئے کہا:” برطانوی حکومت نے یورپ کے مستقبل سے کھیلا اور ہارگیا”۔ لگ رہا ہے کہ جرمن برطانیہ کی خباثت اور اس کے برے نتائج کو سمجھتے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ نے برطانیہ کی حقیقت کو بے نقاب کیا کہ اس نے یورپی یونین کے مستقبل سے کھیلا ہے اور وہ اس کی سلامتی اور طاقتور بقاء نہیں چاہتا۔ یہ شخص جرمن سیاستدانوں میں سے برطانیہ کے حوالے سے سب سے زیادہ بیدار ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ برطانیہ یونین میں رہے کیونکہ یہ جانتا ہے کہ برطانیہ تباہی گرانےکی کھدال ہے۔

 

جرمن،فرنچ اور اطالوی قائدین کا اجلاس 27 جون2016 کو برلن میں ہوا جس میں انہوں نے یورپی یونین کی بقاء پر کاربند رہنے کا عہد کیا، اوراس لیے انہوں نے برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد کے مرحلے میں اس وقت تک برطانیہ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی مخالفت کی جب تک برطانیہ رسمی طور پر نکلنے کی درخواست نہیں دیتا جس کا مقصد اس پر دباؤڈالنا اور نکلنے کی درخواست دینے پر مجبور کرنا تھا تا کہ یہ مسئلہ لٹکا نہ رہے، کیونکہ ایسی صورت میں یہ یونین کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی لیے مارکل نے کہا” ہم اس بات پر متفق ہیں کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حوالے سے اس وقت تک کسی قسم کے رسمی یا غیر رسمی مذاکرات نہیں ہوں گے جب تک برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے یورپی کمیشن کی سطح پر درخواست نہیں دیتا” (ڈی بی اے 27 جون2016)۔

 

اس سب کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کے داؤ پیچ ہی سبب ہیں، ان کا مسئلہ ان کی استطاعت پر موقوف ہے وہ کس طرح اپنے اتحاد کو برقرار رکھتے ہیں اور برطانوی داؤ پیچ کا مقابلہ کرتے ہیں جو کہ سیاسی داؤ پیچ میں ان سے زیادہ ماہر ہے۔۔۔ بہر حال اگر یورپی جلد سے جلد برطانیہ سے جان چھڑانے اور یونین کو مضبوط کرنے کے لیے نئے اقدامات کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ لیکن برطانیہ اگر یورپی یونین سے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو تا تو باہر سے اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم اس کو اقتصادی صورت حال کی وجہ سے سنگین مسائل کا سامنا ہے جس کی بری علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ اسی طرح اس کی اندرونی صورت حال بھی غیر مستحکم ہو سکتی ہے کیونکہ اسکاٹ لینڈ نےبرطانیہ سے الگ ہونے کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کیاہے۔ اسی طرح شمالی آئر لینڈ نے بھی برطانوی اتحاد سے الگ ہونے اور جنوبی آئر لینڈ سے الحاق کےلیے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو برطانیہ کا قصہ تمام ہو گا کیونکہ پھروہ انگلینڈ اور ویلز کے ٹکڑوں کا مجموعہ رہے گا۔ یوں ریفرنڈم کا اجراء برطانیہ کے لیے خسارے کا سودا تھا۔ وہ اپنی ہی مکاری کا شکار ہوا جیسا کہ اب تک کے واقعات سے لگ رہا ہے اور مندرجہ بالا نکات میں نظر آرہا ہے۔ اگر یورپی یونین نے برطانیہ کے داؤ پیچ کے بارے میں بیداری کا مظاہرہ کیا تو یہ بات برطانیہ کے لئے درست ثابت ہو گی کہ ” یہ اپنی ہی پرانے کالونی میں ہانگ کانگ کی طرح ایک جزیرہ ہو گا مگر چین کے جنوبی ساحل میں نہیں بلکہ یورپ کے مغربی ساحل پر”!

 

5۔مختصر یہ کہ برطانیہ ایک ایسی پریشان کن صورت حال سے دوچار ہوا ہے جس کی منصوبہ بندی اس نے نہیں کی تھی جبکہ اس کے لیے فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ ریفرنڈم سے رجوع کرنے میں بہت ساری قانونی پیچیدگیاں اور اس جمہوریت کی توہین ہے جس کے گن وہ گاتا ہے، جبکہ نکلنے کے سفر کو مکمل کرنے میں برطانوی مفادات کو خطرات لا حق ہیں۔ یوں برطانیہ کے امتیازات کا زمانہ چلا گیا ہے۔ یورپی کمیشن کے سربراہ جان کلوڈ یونکر نے کہا” یورپ کی مشترکہ منڈی کا حصہ بننے کے خواہشمندوں کو بغیر کسی استثنیٰ کے اس کے سخت قواعد کی پابندی کرنی پڑے گی” (بی بی سی 29 جون2016)۔ اس سب کی وجہ سے برطانیہ کی جانب سے ٹال مٹول اور نکلنے کی درخواست دینے سے انکارفطری بات ہے، شاید آنے والے مہینوں میں وہ ممکن حد تک اپنے مفادات کی حفاظت کے کوئی راستہ نکالے گا۔

اگر برطانیہ حتمی طور پر نکلنے پر مجبور ہوا اور یونین سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم نہ کر سکا تو اقتصادی سکڑاؤ اور سیاسی توڑپھوڑ کا شکار ہو گا اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ پھر وہ یورپی یونین کو توڑنے کے لیے اپنے گندے وسائل کو استعمال کرے گا۔ کچھ یورپی ممالک شاید اس کا ساتھ دیں جو تاریخی طور پر اس کے ساتھ “وفاداری” رکھتے ہیں۔ برطانوی خود مختار پارٹی کے سربراہ فاراج نے28 جون2016 کو برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران کہا کہ “برطانیہ یورپی یونین کو چھوڑنے والا آخری ملک ہر گز نہیں ہو گا” جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ برطانیہ کے نکلتے وقت دوسرے اس کی پیروی کریں گے۔۔۔ یورپی یونین کو توڑنے میں اس کو امریکہ کی مدد بھی حاصل ہو گی کیونکہ اس کام میں برطانیہ اور امریکہ کے مفادات مکمل طور پر مشترک ہیں۔

 

یوں یہ کہنا شاید درست ہے کہ بریکزٹ Brexit ریفرنڈم کے نتائج برطانیہ کی منصوبہ بندی کے برعکس نکلے، جس سے غیر واضح صورت حال پیدا ہو گئی اور تمام احتمالات کے امکان پیدا ہو گئے ہیں۔ اگر برطانیہ ریفرنڈم سے رجوع کرتا ہے تو اس کی جمہوریت لٹکتی ہے مگر ساتھ ہی اس کو غیر معمولی خطرات کا سامنا ہے اس لیے ممکن ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کو گرانے کی کھدال بن جائے اور اللہ نے سچ فرمایا ہے

 

﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ

“مکاری تو صرف مکاری کرنے والے کو ہی پھنسا تی ہے”(فاطر:43)۔

30 رمضان 1437ہجری

5 جولائی2016

 

Last modified onپیر, 29 اگست 2016 02:05

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک