الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
قاعدہ: ضرورت حرام  کو حلال کردیتی ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

قاعدہ: ضرورت حرام  کو حلال کردیتی ہے

ابو القاسم نصار کو جواب

سوال: میرے محبوب شیخ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں اس شرعی قاعدے کے بارے میں سوال پوچھنا چاہتا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ ،" ضرورت حرام کو حلال کردیتی "ہے ۔ یہاں ضرورت سے شرع  کا مقصد کیا ہے؟  میں اپنے سوال کو واضح کرنے کے لیے دو حالتوں کا ذکر کروں گا۔

پہلا شیخ یوسف القرضاوی  کا غیر ملکی سکولوں میں تعلیم کے مقصد کے حصول کے لیے حجاب اتارنے کےمباح ہونے کے بارے میں  فتویٰ ہے جس کو انہوں نے ضرورت قرار دیا ہے۔

دوسری حالت: مرد ڈاکٹر کی جانب سے بچے کی ولادت کروانا ۔

اگر ہم کہیں کہ ضرورت سے مراد  صرف موت اور ہلاکت ہے۔۔ تو پھر مرد ڈاکٹر  حاملہ خواتین کا معائنہ کیوں کرتے ہیں  بعض دفعہ ولادت کی نگرانی بھی کرتے ہیں  اور یہ خاتون ڈاکٹر موجود نہ ہونے کی صورت میں ضرورت ہے۔ اگر  ضرورت سے مراد موت ہے  تو ان دونوں حالتوں ۔۔۔تعلیم اور ولادت میں ایسا نہیں ہے۔

اللہ آپ کو برکت اور جنت کا بدلہ دے۔ ختم شد

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

بعض علماء نے  "ضرورت حرام کو حلال کردیتی ہے " کا قاعدہ   اختیار کیا ہے اور اس کے لیے  اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے:

﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾

"تم پر صرف مردار، خون،خنزیر کا گوشت اور وہ حرام کیا گیا ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، پھرجو مجبور ہو جائے،   گناہ کرنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے" (البقرہ: 173 )۔

اسی طر ح اللہ کے اس قول سے  استدلال کیا ہے :

﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾

"جو  شخص بھوک کی شدت میں  بےقرار ہوجائے بشرطیہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت  مہربان ہے" (المائدہ: 3)۔

اسی طرح اللہ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے:

﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍفَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾

"تم پر صرف مردار، خون،خنزیر کا گوشت اور وہ حرام کیا گیا ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، پھرجو مجبور ہو جائے،   گناہ کرنے والا اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے" (النحل: 115 )۔

اس قاعدے پر غور کرنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ درست نہیں:

    اس قاعدے  کو درست سمجھنے والوں نے   جن دلائل سے استدلال کیا ہے  وہ ان کے قول کی دلیل نہیں، بلکہ یہ جس مقصد پر دلالت کرتی ہیں  وہ یہ ہے    کہ  بھوک کی وجہ سے اضطراری(مجبوری) کی حالت میں  مردار کھانا جائز ہے۔۔۔  جیسا کہ آیت میں ہے: ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ﴾"جو بھوک کی وجہ سے مجبور ہو"(المائدہ: 3)۔   'مَخْمَصَةٍ' اس بھوک کو کہتے ہیں جس سے انسان مرنے کے قریب ہو جاتا ہے ایسی صورت میں  حرام کھانا اس کے لیے جائز ہے۔۔۔ اضطرار(مجبور) کے ساتھ آیت میں بھوک کی قید ہے  چونکہ یہ لفظ عام  یا مطلق نہیں اس لیے  اس کا مدلول صرف بھوک ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

اس قاعدے کو ماننے والے اس موضوع پر بعض  شروح(تشریح کی کتابیں) کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ جیسے یہ اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ہر ضرورت میں حرام حلال ہوجاتا ہے ، مگر حرام کو حلال قرار دینے یعنی رخصت کے لئے نص کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ عقلی دلیل ۔۔۔مثال کے طور پر  رمضان میں  سفر یا مرض کی حالت میں افطار (روزہ نہ رکھنا) نص سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ٗ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَر﴾

"اے ایمان والو  تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے  تاکہ تم تقوی اختیار کرو  ،گنے ہوئے دن ہیں  پس تم میں سے جو  مریض ہو یا سفر میں ہو  تو وہ دوسرے ایام میں گن لے"(البقرۃ:184-183)۔

لہٰذا ہر رخصت نص کی بنیاد پر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس قاعدے کو عموم کے طور پر لینا درست نہیں جیسا کہ اس کے ماننے والے کر رہے ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ اس قاعدے کے لیے جن دلائل سے استدلال کیا گیا ہے  ان سے صرف یہ ثابت ہو تا ہے مسلمان کے لیے اضطراری حالت میں  اُن کھانے کی چیزوں میں سے کھانا جائز ہے جن کو اللہ نے حرام کیا ہوا ہے ، اس کے علاوہ یہ دلائل کسی اور بات پر دلالت نہیں کرتے۔

دوسرےحالات میں رخصت کے لیے بھی دوسرے دلائل کی ضرورت ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دور میں یہ قاعدہ  ہر حرام کو حلال بنانے کاذریعہ بن چکا ہے،  ضرورت کا ایک مبہم لفظ کہہ کر بہت سارے امور کو اس کے ماتحت لایا جاتا ہے،    اپنی تفسیر کے مطابق ضرورت کے نام پر حرام کرنےکےواقعات کی کثرت ہو گئی ہے!

رہی بات ان مثالوں کی جن کا ذکر سوال میں ہے  کہ  حرام ہونے کے باوجود اس قاعدے"ضرورت حرام کو حلال کردیتی ہے" کے تحت حلال کردیے جاتے ہیں  ، یہ جائز نہیں ہیں ۔   بالغ مسلمان عورت  پرشرعی لباس خمار(اسکارف) کا استعمال لازمی ہے، غیر ملکی تعلیمی اداروں  میں تعلیم کے نام پر اس کو اتارنا جائز نہیں،  بلکہ اگر وہ پڑھنا چاہتی ہے  اور غیر ملکی سکولوں میں اس کی اجازت نہیں تو  دوسر ایسا سکول تلاش کرے  جہاں جلباب اور خمار کی اجازت ہو،  یا تعلیم کے لیے کوئی اور وسیلہ اختیار کرے، یا اپنے محارم کے ساتھ تعلیم کے لیے کسی اور علاقے میں چلی جائے۔۔۔مگر خمار نہ اتارے،  کیونکہ بالغ عورت کے لیے  تعلیم کے حصول کے لیے اسکارف اتارنے  کے جائز ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔

جہاں تک   علاج کے لیے ڈاکٹر کی جانب سے عورت کا معائنہ کر نے کے دلائل کا تعلق ہے تو  یہ بھی "ضرورت حرام کو حلال کردیتی ہے" کے قاعدے کے تحت نہیں آتا، بلکہ یہ صرف علاج کے جائز ہونے پر دلالت کرتے ہیں، جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان  ہے جس کو ترمذی نے اپنی سنن میں اسامہ بن شریک سے رویت کیا ہے کہ آپﷺ فرمایا :

قَالَتِ الأَعْرَابُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَتَدَاوَى؟ قَالَ: «نَعَمْ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، أَوْ قَالَ: دَوَاءً إِلَّا دَاءً وَاحِدًا » قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُوَ؟ قَالَ: «الهَرَمُ»

"بدو نے کہا: اے اللہ کے رسول  کیا ہم علاج کروا سکتے ہیں؟ فرمایا: 'کیوں نہیں، اے اللہ کے بندو علاج کیا کرو، اللہ نے ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی ہے جس کی شفاء موجود نہ ہو، یا آپ ﷺ نے یہ کہا کہ: سوائے ایک کےہر بیمار ی کی دوا موجود ہے'، لوگوں نے کہا، وہ کیا ہے؟ آپﷺ نےفرمایا: 'بڑھاپا'"۔

  اگر چہ  کئی حالات میں علاج کے لیے ستر کھولنا ضروری ہوتا ہے  اور علاج کے جواز کے دلائل بھی اس پر لاگو ہوتے ہیں ،  مگر ان حالات میں بھی صرف اس حصے سے پردے کو ہٹانا جائز ہے  جس کا علاج ضروری ہو  اس کے علاوہ بدن کا کوئی حصہ کھولنا جائز نہیں،یعنی صرف جس جگہ علاج کرنا ہو۔

آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ

16 ربیع الثانی  1437 ہجری

26 جنوری 2016

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک