الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب:نمازِاستخارہ کا طریقہ

بسم الله الرحمن الرحيم

 سوال کا جواب:نمازِاستخارہ کا طریقہ

سوال:

السلام علیکم،

میں نمازِ استخارہ  کا طریقہ جاننا چاہتا ہوں اور کیا استخارہ کرنے والا  استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ دیکھتا ہے؟  جلد سے جلد جواب کی امید ہے، اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

جود رضوان رضوان کی جانب سے۔ختم شد

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کا تہ

  رسول اللہ ﷺ نے  اس حدیث میں، جس کو بخاری  وغیرہ نے روایت کیا ہے، استخارہ کی نماز کو مکمل اور واضح طور پر بیان کیا ہے۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ  ہر کام میں  ہمیں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے،  بالکل ویسے ہی جیسے وہ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے ،آپ ﷺ فرماتے تھے کہ:

«إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي – أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ – فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي – أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ – فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي» قَالَ: «وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ»

"جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے ،  تو فرض کے علاوہ دو رکعت  پڑھے پھر کہے:  اے اللہ میں آپ سے آپ کے علم کے مطابق خیر کا سوال کر تا ہوں  اور تجھ سے تیری قدرت  سے مدد مانگتا ہوں، تیرے عظیم فضل  کا سوال کرتا ہوں  کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے   میری کوئی قدرت نہیں،تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، تو ہی غیب کو جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تیرے علم کے مطابق یہ کام میرے دین، میرے معاش اور میرے انجام کے لیے خیر ہے ( یا یہ کہےکہ اگر میرے حال اور مستقبل کے لیے  خیر ہے) تو مجھے اس کو کرنے کے قابل بنا اور اس کو میرے لیے آسان کر دے، پھر اس میں میرے لیے ڈال برکت دے، اگر تیرے علم کے مطابق یہ کام میرے دین،میری معاش اور انجام کے لیے شر ہے(یایوں کہےکہ اگر میرے حال اور مستقبل کے لیے شر ہے ) تو مجھے اس سے بچا اور اس کو مجھ سے دور کر دے، جہاں بھی خیر ہو وہ مجھے نصیب کر دے پھر مجھے  خوش کر دے " آپﷺ نے مزید کہا کہ"ضرورت مند اپنی ضرورت کا نام لے "۔

اس حدیث سے استخارہ کی نماز کی کیفیت  واضح  ہوگئی، لہٰذاجو بھی استخارہ کرنا چاہتا ہے  تو وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے اور نماز ختم کرنے کے بعد  استخارہ کی مذکورہ  دعا کرے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔  یوں نمازِ استخارہ یا دعائے استخارہ ختم ہو جائے گی،  یہ نمازِ استخارہ کا طریقہ ہے ۔۔۔ مگر نماز استخارہ سے متعلق کچھ اور امور ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

1 ۔کسی معاملے کو اس کے تمام پہلوؤں سے دیکھنے کے بعد اگر ایک آدمی نے فیصلہ کرنا ہے اور وہ کسی ایک جانب جھکاؤ رکھتا ہے اور اس کے مطابق آگے بڑھنا چاہتا ہے تب  وہ دو رکعت نماز پڑھے گا اور اس میں استخارہ کی دعا پڑھے گا،  اللہ کے سامنے گڑ گڑا ئے گا  کہ وہ کام اگر خیر ہے تو آسان بنا دے اور اگر شر ہے تو اس سے باز رکھے۔  یعنی اس کا م کا ہر زاوئیے سے جائزہ لینے سے پہلے اور اس کو کرنے کا ارادہ کرنے سے پہلے استخارہ نہ کرے ۔ حدیث پر غور کریں  "جب تم میں سے کوئی مکمل ارادہ کرے تو دو رکعت  نفل نماز پڑھے پھر یہ کہے اے اللہ میں تیرے علم کے مطابق تجھ سے خیر کا سوال کرتا ہوں۔۔۔"(بخاری)

2 ۔ نبی ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو استخارہ کرنے کی ترغیب دینےکے بعد اس کو خواب دیکھنے سے جوڑا ہو،  رسول اللہ ﷺ نے اس کے نتیجے کو خواب سے مربوط ہی نہیں کیا، جابرؓ کی حدیث میں آپ ؐنے فرمایا:«فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ» "مجھے اس کی قدرت دے، اس کو میرے لیے آسان بنا دے اور پھر اس میں میرے لیے برکت دے" ، اور یہ فرمایا کہ : «فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي»"اس  کو مجھ سے دور کردے اور  مجھے اس سے روک دے ،جہاں خیر ہے وہ میرے نصیب میں کرے  اور مجھے خوش کر دے" اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استخارہ کو کسی خواب سے مربوط نہیں کیا بلکہ اس کو اللہ کی طرف سے آسانی اور قدرت دینے سے مربوط کیا یعنی آدمی جس کام کو کرنے کی کو شش کر رہا ہے اس کے حوالے سے اللہ سے خیر طلب کر تا ہے کہ اگر یہ کام  خیر ہے تو اللہ اس کو کامیاب کرے اور آسان کرے  ورنہ اس کو دور کر دے۔  یوں استخارہ  کام اور اختیار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد کرنے کا نام ہے کہ وہی اپنی رضا کے مطابق  خیر کو اختیار کرے۔  اگر اس کام میں اس کی رضا نہیں تو  اس کام کو نہ ہونے دے۔

3 ۔ جابرؓ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا کہ: «فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي» "مجھے اس سے روک دے اور اس کو مجھ سے دور کر دے  اور خیر جہاں ہے اس کو مجھے نصیب کردے اور مجھے خوش کر دے" اس سے یہ سمجھا گیا کہ کسی قسم کا شرح ِصدر ہو نا  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے اختیار کی نشانی ہے  یعنی اگر شرح ِصدر ہو تو آدمی  اس کام کو کرنے کے لیے آگے بڑھےگا اور اگر دل مطمئن نہ ہوتو اس کام سے باز رہےگا، کیونکہ استخارہ کرنے والے کا اس سے منہ پھیرنا   تنگ دلی سے ہو گا۔۔۔ امام الشوکانی ؒ نے' نیل الاوطار' میں  امام نووی ؒسے نقل کیا ہے کہ : "استخارہ کرکے اورشرح ِصدر   حاصل ہونےکے بعد کام سرانجام دے، استخارہ سےقبل کے شرح ِصدر پر اعتماد نہ کرے کیونکہ یہ استخارہ سے پہلے اس کی خواہش تھی ۔ بلکہ استخارہ کرنے والے کو چاہیے کہ  اپنے اختیار کو بالکل ترک کرے  ورنہ وہ اللہ سے  خیر طلب کرنے کی بجائےاپنی خواہش  سے خیر طلب کرنے والا ہو گا ۔ اور اللہ سےخیر طلب کرنے میں اور علم و قدرت  کا صرف اللہ کے لیے ہونے کووہ سمجھنے میں غیر مخلص بھی ہو سکتا ہے،  اگر وہ مخلص ہو تب ہی وہ  اپنے نفس کے اختیار کو ختم کر کے  اللہ پر ہی بھروسہ کر سکتا ہے"۔ مگر  میں جس بات کو ترجیح دیتا ہوں  وہ یہ ہےکہ یہ(استخارہ کی)علامت درست نہیں  کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں،   اس موضوع پر وہ حدیث جس پر بعض لوگ  اعتماد کر تے ہیں   اس کی سند میں بہت زیادہ شکوک ہیں جیسا کہ محققین نے کہا ہے، وہ حدیث یہ ہے:

ابن السنیی نے "دن اور رات کے اعمال" میں  نقل کیا ہے کہ  ابو العباس بن قتیبہ العسقلانی نے ہمیں بتا یا کہ عبید اللہ بن الحمیری نے روایت کیا ہے کہ ابراہیم بن  العلاء بن النضیر بن انس بن مالک  نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ  میرےباپ نے اپنے باپ پھر دادا سے روایت کیا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :«يَا أَنَسُ، إِذَا هَمَمْتَ بِأَمْرٍ فَاسْتَخِرْ رَبَّكَ فِيهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْظُرْ إِلَى الَّذِي يَسْبِقُ إِلَى قَلْبِكَ، فَإِنَّ الْخَيْرَ فِيهِ»"اے انس! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اپنے رب سے سات بار استخارہ کرو  پھر دیکھو کہ  تیرے دل میں جو آیا اس میں خیر ہے" ابن حجر ؒنے 'فتح الباری' میں کہا : "۔۔۔نووی  ؒنے 'الاذکار ' میں  کہا ہے کہ  استخارہ کے بعد  جیسا شرح ِصدر ہو ایسا کرے  اور اس کے لیے انس ابن السنی والی روایت سے استدلال کیا ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ کرو تو اپنے رب سے  سات بار استخارہ کرو پھر دیکھو  کہ جو تمہارے دل میں آئے وہی خیر ہے،اگر ایسا ثابت ہوتا تو اس پر اعتماد کیا جا تا مگر  اس کی سند انتہائی کمزور ہے"۔

لہٰذا وہی بات رہ گئی جو ہم نے حدیث کا حوالہ دے کر پہلے کہی  کہ جب بھی کسی کام کا پکا ارادہ کر لے  یعنی   غورو فکر  اور ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد استخارہ کرے ۔۔۔اس مفہوم کے صحیح ہونے  کی گواہی وہ حدیث بھی دے رہی ہے جس کو  الحاکم نے  اپنے مستدرک میں ابو ایوب  الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا:

«اكْتُمِ الْخطْبَةَ ثُمَّ تَوَضَّأْ فَأَحْسِنِ وُضُوءَكَ، ثُمَّ صَلِّ مَا كَتَبَ اللَّهُ تَعَالَى لَكَ، ثُمَّ احْمَدْ رَبَّكَ وَمَجِّدْهُ، ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِيَ فِي فُلَانَةٍ، – يُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا – خَيْرًا لِي فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي، فَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي»

"رشتہ مانگنے کا پکا ارادہ  کرنے کے بعد وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے ، پھر  نماز پڑھ لے،  اللہ کی حمدو ثنا کرے  ،پھر کہے: اے اللہ تو قدرت رکھتا ہے میری کوئی قدرت نہیں تو علم رکھتا ہے میرا کوئی علم نہیں تو ہی غیب کی باتوں کو بہتر جانتا ہے،  اگر فلاں (لڑکی کا نام لے)  میرے لیے دینی،  دنیاوی اور اخروی لحاظ سے خیر ہے تو اس کو میرے نصیب میں کر دے ، اگر کوئی اور  میرے دین،دنیا اور آخرت کے لیے بہتر ہے تو اس کو میرے نصیب میں کر دے" اس حدیث سے واضح ہے کہ استخارہ کرنے والا   ایک متعین عورت کے ساتھ نکاح کا پکا ارادہ کر چکا ہے  مگر اس نے اس امر کا اظہار ابھی نہیں کیا ہے بلکہ چھپایا ہے، اس کے بعد اس کے بارے میں استخارہ کرے اور  معاملہ اللہ کے سپرد کرے  کہ اگر اس میں  خیر ہے تو اس کو کر دے ورنہ کہیں اور اس کا رشتہ کردے جہاں خیر ہو، کہیں بھی استخارے کو خواب یا شرح صدر سے مربوط نہیں کیا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ استخارہ کے موضوع پر میں جس بات کو ترجیح دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ:

جب آدمی ہر پہلو سے تحقیق کے بعد کسی کام کا عزم کرے اور اس کام کو کرنا ترجیح ہو تب  دو رکعت نماز پڑھ کر  استخارہ کی دعا پڑھے اور وہ کام کرے، اس دوران اللہ کے سامنے گڑگڑائے کہ اگر یہ کام خیرہے تو آسان بنا دے ورنہ اس سے باز رکھے۔

یعنی کسی بھی کام کا ہر پہلو سے پہلے جائزہ لے اور کرنے کو ترجیح دے تب ہی استخارہ کرے ،پھرکام کو کرے ۔۔۔حدیث پر غور کریں :« اِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ» "جب تم میں سے کوئی کسی کام کا عزم کرے  تو دو رکعت نفل نماز پڑھے پھر کہے :  اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے مطابق خیر طلب کر تا ہوں ۔۔۔" اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث سےمیں اسی بات کو ترجیح دیتا ہوں،  یہ نہیں کہ استخارہ کر کے خواب کا انتظار کرے  یا کسی ایک طرف میلان کا انتظار کرے  کیونکہ حدیث کہتی ہے کہ، «إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ» "جب تم میں سے کوئی کسی کام کا عزم کرے"۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں اس قول کو دوسرے اقوال پر ترجیح دیتا ہوں مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ جانتے ہیں کہ زیادہ صحیح کیا ہے۔

تمہارا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

1 جمادی الاولی 1437 ہجری

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک