بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
قرآن پاک میں سائنسی معجزے
از طرف فہد زلوم
سوال:
امیرِ محترم! اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سلام کے بعد عرض ہے کہ قرآن کریم میں سائنسی معجزے کا کیا مطلب ہے؟ کیا واقعی قرآن سائنسی معجزات پر مشتمل ہے؟اور کیا واقعی یہ سائنس کے قبیل میں سے ہی ہیں یا کچھ اور ہے ؟
جواب:
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جہاں تک" قرآن کریم کے اندر سائنسی معجزے " کا تعلق ہے تو اس قسم کی اصطلاح کا وجود نہ تو نبی کریم ﷺ کے دور میں تھا اورنہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں تھا۔اس کی وضاحت کچھ یوں ہے:
1۔ معجزہ کہتے ہیں "نبوت کا دعویٰ کرنے والے انسان کے ہاتھ پر کسی ایسی غیر معمولی چیز کا ظہور ،جسے وہ منکرین نبوت کے سامنے بطور چیلنج کے پیش کرےاور وہ اس کی مثال لانے سے بالکل عاجز اور بے بس ہوکر رہ جائیں۔ چنانچہ نبی کے معجزے میں ان دو امور کا پایا جانا ضروری ہے: ایک یہ کہ پیش کردہ معجزہ خلافِ عادت اور نا مانوس چیزہو ، دوسرا یہ کہ نبی جس کو اللہ سبحانہ و تعالی ٰ نے معجزہ عطا کر کے اس کی خصوصی مدد کی ہے ، معجزہ دکھا کر منکرین نبوت کو چیلنج کرے ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ جسے انہوں نے اپنی نبوت کے ثبوت میں بطور چیلنج پیش کیا ، قرآن کریم ہی ہے، اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے کسی اور چیز کے ذریعے عربوں کو چیلنج نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾
"کہہ دو کہ اگر تمام انسان اور جنات اس کام پر اکٹھے بھی ہوجائیں کہ قرآن جیسا کلام بنا کر لائیں، تب بھی وہ اس جیسا نہیں لا سکیں گے ، چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کرلیں۔"(الاسراء :88)
اور یہ ارشاد:
﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾
"بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ وحی اس (پیغمبر) نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہے؟، (اے پیغمبر! ان سے) کہہ دو:" پھر تو تم بھی اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں بنا لاؤ، اور (اس کام میں مدد کے لیے) اللہ کے سوا جس کسی کو بلاسکو بلا لاؤ ،اگر تم سچے ہو۔"( ہود: 13)،
اور ارشاد فرمایا،
﴿وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾
"ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو "(البقرۃ:23)
2۔ قرآنی معجزے کا سب سے زیادہ ظہور اس کی فصاحت و بلاغت(معیاری عربی) اور حیرت انگیز حد تک اس کی رفعت و بلندی میں ہوتا ہے۔ قرآن کے معجزانہ اسلوب میں یہ صفات عیاں ہیں۔ قرآن کے اندازِ بیاں اور اسلوب کلام میں جو وضاحت ،قوت، حسن و خوبی، بانکپن اور کمال و جمال پایا جاتا ہے ،کسی انسان کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکتی۔ باہم متوازن اور مربوط الفاظ جن کے ذریعے معانی کو ترتیب دے کر پیش کیا جائے، اُسلوب کہلاتا ہے، یا تعبیر کی ایک کیفیت جس میں معنی و مراد کو لغوی عبارات کے سانچے میں ڈھال کر نمایاں کیا جائے۔اُسلوب کی وضاحت یہ ہوتی ہے کہ جو معنی ذہن نشین کرانا مطلوب ہو ،وہ اختیار کردہ تعبیر میں نمایاں ہوں۔ اسلوب کی قوت؛ ایسے الفاظ کا انتخاب جو مطلوبہ مراد کی طرف رہنمائی کرے اور جو اس معنی کے موافق ترین ہوں، مثلاً نازک معانی کو نازک الفاظ کے ساتھ،طاقتور معنی کو زور دار الفاظ کے ساتھ اور گھٹیا معنی کو ا س کے موافق الفاظ کے ساتھ ادا کیا جائے، وغیرہ۔ جہاں تک اسلوب کی حسن و خوبی کی بات ہے تو یہ ادا کردہ معنی ٰ کے لیے مناسب ترین ،خالص اور شستہ عبارات کے چناؤ سے حاصل ہوتی ہے جو آس پاس کے ایک یاکئی جملوں کے الفاظ ومعانی کے کے ساتھ بھی متناسب ہوں ۔
3۔ قرآن کی تلاش و جستجو میں مگن رہنے والا شخص قرآنی اسلوب کی بلندیوں ،وضاحت اور قوت و جمال کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتا ہے۔اسے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کا اپنا ایک مخصوص نہج ہے، جہاں ہر معنی و مفہوم کے لیے ایسے الفاظ نازل کیے گئے ہیں جو اس معنی کے لیے سب زیادہ موزوں اور مناسب ہوتے ہیں۔ ایک ایک لفظ اپنے آس پاس کے الفاظ اور معانی کے بھی مناسب ہوتا ہے ۔اس کیفیت میں کوئی ایک آیت بھی مختلف نہیں۔ تو اس کا معجز ہونا ایک تو اس کے اسلوب سےواضح ہوتا ہے، جہاں بات کرنے کا ایک خاص انداز دیکھا جاسکتا ہے ،جس کا انسانی کلام کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں ہوتی ،نہ ہی انسانی کلام میں اس کی مشابہت پیدا کی جاسکتی ہے۔دوسرا یہ کہ اس میں معنوں کو نہایت مناسب الفاظ اور جملوں کے قالب میں ڈھال کر اُتارا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جو انسان اس کی فصاحت و بلاغت کی رَعنائیوں کا ادراک کرسکتاہو اور اس کے معانی کی گہرائیوں میں اُتر سکتا ہو، اُس کے کانوں کے ساتھ اس کے الفاظ ٹکراتے ہی متاثر ہوجاتا ہے اور سراپا اشتیاق بن کر گڑگڑاکر سجدہ ریز ہوجاتا ہے، بلکہ ناواقف لوگوں پر بھی اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کا دل و دماغ اس کے ترنم کے اسیر ہوجاتے ہیں ، وہ معجزاتی آسمانی نغمہ کے آگے بے بس ہوکر گڑاگڑا نے لگتے ہیں، خواہ معنی سمجھ نہ بھی آئیں۔اس لیے قرآن ایک معجزہ ہے اور تا قیامت معجزہ رہے گا۔
4۔ اس کے دلائل کہ قرآن کریم کا معجز ہونے کی وجہ اس کی لغوی اُسلوب ہے، تو ان میں سے چند یہ ہیں:
ا۔ معجزات کے حوالے سے یہ ایک معلوم حقیت ہے کہ کوئی نبی اپنی قوم کو چیلنج دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو معجزہ لے کر آتا تھا تووہ ایسا کام ہوتا تھا جس میں اس کی قوم اعلیٰ درجہ کی مہارت کی حامل ہوتی تھی،اور اس پر پوری طرح ان کو دسترس حاصل ہوتی تھی۔ اس طرح چیلنج دے کر ان کو لاجواب کردینا مقصود ہوتاتھا۔موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی قوم کو جادو کے عمل کے حوالے سے چیلنج کیا ،جبکہ وہ اس فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔عیسیٰ علیہ السلام کی قوم جو فنِ طب (میڈیسن) کے میدان کی شہسوار تھی اورعلاج معالجے کے سلسلے میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی تھیں۔انہوں نے اپنی قوم کو چیلنج کیا کہ وہ کوڑھ اور برص جیسی لا علاج بیماریوں کا علاج کریں اور مردوں کو زندہ کرکے دکھائیں۔ جہاں تک حضرت محمد ﷺ کی قوم کا معاملہ تھا، وہ نہ تو علوم ِ طبعیہ (فزکس،کیمسٹری) میں حد درجہ ماہر تھے، نہ ہی ان کو جادو اور طب میں کوئی فوقیت حاصل تھی،البتہ لغت و تعبیرمیں یکتائے روزگار تھے اور یہی ان کا مشغلہ تھا، گویااس کے علاہ کسی اور کام میں ان کو پختگی حاصل نہیں تھی ۔ وہ لوگ عربی زبان کی تراش خراش اور نثر نگاری کے انواع و اقسام ،شعر کے بحور اور اوزان میں اس کو ڈھالنے میں زندگیاں کھپا دیتے تھے۔۔۔ چنانچہ ان کو چیلنج دینے کے لیے مناسب ترین یہی تھا کہ معجزہ بھی زبان و بیان کی رو سے پیش کیاجائے ،جس کو وہ لوگ جانتے تھے یعنی عربی زبان کے اسلوب کے حوالے سے ان کو چیلنج کیا جائے۔
ب۔ قرآن کریم نے عربوں کو چیلنج کیا کہ وہ اسی جیسی کوئی سورت مثلاً سورۃ الکوثر جیسی چھوٹی سورت ہی سہی ، لا کر دکھائیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سورۃ الکوثر اور اس کے علاوہ دوسری چھوٹی سورتوں میں سائنسی امور پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے،ان میں جو کچھ واضح ہے وہ شاندار اُسلوب بیاں ہی ہے ،جس کی مثال عرب نہ لاسکے۔
ج ۔ عربوں کے لیے جو امر باعث حیرت تھا اور قرآن کے سننے پر جس کے آگے اپنی نااہلی اور عاجزی و درماندگی کا بر ملا اظہار کرتے نہیں جھجکتے تھے وہ امر یہی بے مثال لغوی اسلوب تھا، نہ کہ سائنسی پہلو جس کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مشہور و معروف چیز ہے عربوں سے تواتر کے ساتھ منقول ہے، ایک عرب نے تو قرآن کے بارے میں یہاں تک کہا تھا کہ یہ سحر البیان (جادوئی کلام ) ہے۔
د۔ نبی ﷺ سے کہیں بھی منقول نہیں کہ انہوں نےقرآن میں مذکور سائنسی پہلوؤں سے عربوں کو چیلنج کیا، بلکہ آنحضرت ﷺ کا مطالبہ ان سے یہ تھا کہ قرآن جیسے انداز میں کوئی کلام بنا کر لاؤ۔
ھ ۔ قرآن نے ایسے مضامین اور مطالب پیش کیے جنہیں نبی ﷺ کے زمانے میں موجود عرب جانتے تھے، کبھی کبھار قرآن پاک انہی کی باتوں کو نقل کرتا ہے،جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد:
﴿وَقَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا * أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا * أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا * أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَى فِي السَّمَاءِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا﴾
"اور کہتے ہیں کہ:" ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے ایک چشمہ نہ نکال دو، یا پھر تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہوجائے، اور تم اُس کے بیچ بیچ میں زمین کو پھاڑ کر نہریں جاری کردو، یا جیسے تم دعوے کرتے ہو، آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُسے ہم پر گرادو، یا پھر اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے آمنے سامنے لے آؤ۔"(الاسراء :93-90)۔
ان تمام آیات کریمہ میں قریش والوں کے کلام کو نقل کیا گیا ہے، یعنی ان آیات میں جو مطلب و معنی ذکر کیا گیا ہے ، قریش اس کو جانتے تھے۔ لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ قرآن نے انہی کی باتوں کو ایسے انوکھے اور شاندار اسلوب میں پیش کیا جس کے مثل لانے سے قریش قاصر تھے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا معجزہ ہونا قرآن کریم کے مخصوص زبانی اسلوب کے پہلو سے ہے۔ یہ چند دلائل ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا اعجاز لغوی اسلوب یا اندازِ بیان کے پہلو سے ہی ہے۔
5۔ جو لوگ سائنسی معجزے کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ، اس سے ان کا مقصد قرآن کی وہ آیات ہیں جو سائنسی نظریات یا حقائق پر منطبق ہوسکتی ہیں، جیسے:
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ * ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ * ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ﴾
"اور ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا پھر ہم نے اُسے ٹپکی ہوئی بوند کی شکل میں ایک محفوظ جگہ پر رکھا پھر ہم نے اُس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر اُس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنادیا، پھر اُس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا، پھر اُسے اُٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہوگیا، غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے۔ " (المؤمنون :14)
مگر ان جیسی آیات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرنے کے لیے اتریں نہ کہ کسی سائنسی پہلو کو ثابت کرنے کے لیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ان آیات کے مخاطبین جو نبی کریم ﷺ کے دور میں تھے ، ان آیات میں موجود سائنسی حقائق سے نابلد تھے۔۔۔ اسی لیے ان پہلوؤں سے ان کو چیلنج بھی نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ قرآن میں ذکر شدہ سائنسی حقائق معجزات کے قبیل سے نہیں جس کے ذریعے آنحضرت ﷺ نے اپنی قوم کو چیلنج کیا تھا، اور ان کے دعوائے نبوت کے لیے دلیل بنے۔
6۔ خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کا معجزہ ہونا اس کے اسلوب بیان کے حوالے سے ہے اور اسی کا چیلنج دیا گیا۔ قرآن نے رسول اکرم ﷺ کی نبوت منوانے کے لیے عربوں کو سائنسی معجزات کے حوالے سے چیلنج نہیں کیا۔۔۔۔ قرآن کریم ہی محمد رسول اللہ ﷺ کا معجزہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دیا مگر ان سے نہ ہوسکا اور بھلے یہ ایک دوسرے کے معاون ومددگار بھی بن جائیں تو نہیں لاسکتے۔
﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾
"کہہ دو کہ اگر تمام انسان اور جنات اس کام پر اکٹھے بھی ہوجائیں کہ قرآن جیسا کلام بنا کر لائیں ،تب بھی وہ اس جیسا نہیں لا سکیں گے ، چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کرلیں۔"(الاسراء:88)
یوں رسول ﷺ کا معجزہ جس کو اپنی نبوت کے اثبات کے لیے بطور چیلنج پیش کیا تھا ، قرآن کریم ہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
8 رمضان المبارک 1438ھ
مطابق 03/06/2017ء