الثلاثاء، 24 محرّم 1446| 2024/07/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

1۔ خلیفہ کے لئے عدل شرط ہے

2۔ وہ دنیا کی سزا جو آخرت میں کفّارہ کا باعث بنے

3۔ کفار سے مدد طلب کرنا

بجانب: عبادة الشامي

 

سوال:

اے ہمارے معزز شيخ، اللہ آپ کی مدد ونصرت کرے، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته،

1۔ "گرد کو ہٹانا" کے  دوسیہ میں غاصب حکمران کے حکم کے بارے میں درج ذیل ذکر ہے: "غاصب حکمران سے متعلق حکم یہ ہے کہ اس سے بزور شمشیر لڑا جائے جب تک وہ مارا جائے یا پھر حکمرانی چھوڑ دے"۔  ہم یہ جانتے ہیں کہ خلیفہ کی شرائط میں عدل شامل ہے اور جو شخص موجودہ حکمران کو قتل کرے اور زبردستی اقتدار پر قبضہ کرے وہ عادل نہیں ہو سکتا۔ کیا اس مذکورہ میں اور ایک گذشتہ سوال کے جواب، جس کا عنوان تھا "خلافت کے نفاذ کا شرعی طریقہ کار اور غالب حکمران"، میں باہم تناقض نہیں ہے؟ اگر کوئی تضاد نہیں ہے تو کیا غالب حکمران کے بارے میں ہمارا نیا تصور آچکا ہے جس نے پرانے فہم کو تبدیل کر دیا ہے ۔۔۔؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیے۔

 

2۔ آجکل ہم داعش کی جانب سے مسلمانوں پر شرعی حدود کے نفاذ کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کیا جس شخص پر داعش کی جانب سے یا کسی بھی ریاست کی جانب سے حدود لاگو کی جائے تو کیا قیامت کے دن اللہ کے سامنے  اس سے کسی گناہ کا مواخذہ نہیں ہو گا؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیے۔

 

3۔ کیا خلافت کے لئے ، جو اللہ کے اذن سے قریب ہے، جائز ہے کہ وہ کافر ریاستوں کے ساتھ دوستی کرے اور اتحاد بنائے چاہے یہ ریاستیں حربی فعلاً ہی ہوں جیسے جرمنی کیونکہ کچھ مفادات مشترکہ ہیں تاکہ دوسرے حربی ممالک  کو خلافت کمزور یا فتح کر سکے۔ یا پھر کیا یہ اتحاد صرف ان حربی حکماً ممالک کے ساتھ ممکن ہو گا جیسے وینیزویلا۔ کیا حربی فعلاً ممالک کے ساتھ اتحاد بنانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا قریش کے ساتھ معاہدے کا موازنہ درست ہو گا کیونکہ قریش صلح حدیبیہ میں حربی فعلاً تھے؟

بارك الله

 

جواب:

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،

1۔ جہاں تک دوسیہ میں جس کا تذکرہ ہے، وہ سوال و جواب سے مختلف نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ آپ کے پاس پرانا ایڈیشن ہے جس میں غالب حکمران کے بارے میں حکم موجود نہیں ہے، نیا ایڈیشن جو ہمارے پاس موجود ہے اس میں مسلط حکمران کے بارے میں حکم موجود ہے۔

مسلط حکمران کے بارے میں حکم کا ذکر نظام الحکم میں بھی موجود ہے (صفحہ نمبر 76)۔

لہذا سوال و جواب اور دوسیہ میں جس کا تذکرہ ملتا ہے ان میں کوئی فرق نہیں۔

 

جہاں تک خلیفہ کے لئے عدل کی شرط کا تعلق ہے تو یہ درست ہے۔ مسلط سلطان کو اس وقت تک بیعت نہیں دی جا سکتی جب تک وہ اپنے کرتوتوں سے توبہ نہ مانگےاور ان کی اصلاح نہ کرے، اور رعایہ بھی اس روش پر مطمئن ہو اور اسے بیعت دی ہو۔ دوسرے الفاظ میں بیعت سے پہلے عدل ضروری ہے۔ جیسے آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے گناہوں سے توبہ مانگے اور ان کو درست بھی کرلے تو وہ شخص عادل ہو گا اور وہ عدل پر واپس آچکا ہو گا۔۔۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تشویش کی وجہ یہ خیال ہے کہ مسلط سلطان اپنے ظلم و جبر کے ساتھ ہی بیعت بھی حاصل کر لے گا تاہم آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ ایسے شخص کو کیسے بیعت دی جاسکتی ہے جو عادل نہ ہو، مگر حقیقت اس سے مختلف ہے۔ خلیفہ کی بیعت اس وقت تک نہیں دی جاسکتی جب تک وہ توبہ نہ کرلے اور اپنی غلطی پر اصلاح نہ کرلے اور رعایہ کو بھی اپنے حکمران کی عدالت پر اطمینان ہو، تاکہ ان کی جانب سے بیعت ایک عادل شخص کے لئے ہو۔

میں امید کرتا ہوں کہ یہ معاملہ اب واضح ہو گا۔

 

2۔ ایک شخص اس دنیا میں سزا پانے سے آخرت میں گناہوں سے اس وقت پاک ہوتا ہے جب ریاست شرعی قوانین کا نفاذ کر رہی ہو۔ ہم اس سوال کا جواب پہلے ہی 22/01/2014 کو دے چکے ہیں، میں آپ کے لئے جواب دہرا دیتا ہوں:

"جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے: کیا سزا پانے سے آخرت کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ یہ درست ہے اگر سزا دینے والی اسلامی ریاست ہو جو انسانی قوانین کی بجائے اللہ کی شریعت نافذ کرے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
- مسلم نے عبادہ بن الصامت سے روایت کیا ہے: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کہا جب ہم مجمع میں تھے:


«تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَسَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ»

"مجھے بیعت دوکہ اللہ کے سوا کسی کو عبادت میں شریک نہیں کروگے، زنا سے بچو گے، چوری نہیں کرو گے،  اور کسی کا ناحق قتل نہیں کروگے۔ جو کوئی اس عہد کا پاس رکھے گا اس کی جزا اللہ دے گا، اور جو کوئی کسی گناہ کا مرتکب ہوا اور اس گناہ کی شرعی سزا اس دنیا میں پا لی تو یہ سزا آخرت میں اس گناہ کا کفارہ ہو گی۔ اور جس کسی سےگناہ سرزد ہوا اور اللہ نے اسے پردہ میں رکھا تو آخرت میں اللہ اسے سزا دے گا یا پھر اسے معاف کر دے گا"۔

 

لہذا اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جو کوئی اس دنیا میں سزا پا لے، یہ سزا آخرت میں کفارہ کا باعث بنے گی اور اس گناہ کی سزا سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔  اس حدیث اور اس دنیا کی سزا جو کفارہ کا باعث بنتی ہے سے واضح ہے کہ یہ اسلامی ریاست سے دی جانے والی سزا ہے، ایسی ریاست جس میں خلیفہ کو اسلام کے نفاذ کرنے کی بیعت دی گئی ہو۔ تاہم رسول اللہ ﷺ نے حدیث کا آغاز ایسے کیا:

 

«تُبَايِعُونِي... فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ»

"مجھے بیعت دو ۔۔۔ جو کوئی اس عہد کا پاس رکھے گا اس کی جزا اللہ دے گا، اور جو کوئی کسی گناہ کا مرتکب ہوا اور اس گناہ کی شرعی سزا اس دنیا میں پا لی تو یہ سزا آخرت میں اس گناہ کا کفارہ ہو گی۔"

 

 چنانچہ جو سزا کفارہ کا باعث بنے گی، اس کا انحصار بیعت کی موجودگی پر ہے، اور بیعت صرف ایسے حکمران کو دی جاتی ہے جو اسلام کے ذریعے حکومت کرے۔ لہذا وہ سزا جو آخرت میں کفارہ کا باعث بنے صرف ایسی ریاست سے دی جاسکتی ہے جو اسلام کا نفاذ کرے، واللہ عالم "ختم شد

 

 3۔ آپ کا کفار سے اتحاد کے بارے میں سوال جس میں ان سے مدد طلب کی جائے ۔۔۔ یہ اسلام کی رو سے جائز نہیں ہے:

الف) اس موضوع پر کتاب اسلامی شخصیت جزو دوئم کے باب "کفار سے مدد طلب کرنا" میں درج ذیل تذکرہ ہے:

" کفار سے بطور آزاد ریاست مدد طلب کرنا حرام ہے،اس بات کی دلیل وہ حدیث ہے جو احمد اور نسائی نے انس ؓ سے روایت  کی ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لا تستضيئوا بنار المشركين»

'مشرکین کی آگ سے روشنی مت حاصل کرو"۔

 

مشرکین کی آگ سے مدد نہ طلب کرنے کا مطلب جنگ کے دوران بطور آزاد ریاست یا قبیلہ کے شامل ہونا۔ البیھقی نے کہا: الحافظ ابو عبداللہ سے ابو حمید الساعدی تک صحیح اسناد کے ساتھ روایت ہے کہ:

 

«خرج رسول الله ﷺ حتى إذا خلَّف ثنيَّة الوداع إذا كتيبة قال: من هؤلاء؟ قالوا بني قينقاع وهو رهط عبد الله بن سلام قال: وأسلموا؟ قالوا: لا، بل هم على دينهم، قال: قولوا لهم فليرجعوا، فإنّا لا نستعين بالمشركين »

"رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے یہاں تک کہ وہ ثنيَّة الوداع کے رہنما کے پاس سے گزرے۔ آپ نے کہا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ بنی قینقاع ہیں اور یہ عبداللہ بن السلام کی قیادت میں ہیں۔ آپ نے کہا: کیا انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں یہ اپنے ہی دین پر ہیں۔ اس پر آپ نے کہا: ان سے کہو کہ واپس لوٹ جاو کیونکہ ہم مشرکین سے مدد نہیں لیتے"۔

 

رسول اللہ ﷺ نے بنی قینقاع سے آنے والےعبداللہ بن السلام کے دستے کو واپس لوٹا دیا کیونکہ وہ اپنی کفر شناخت کے ساتھ آئے تھے، اور وہ اپنے ساتھ  بنی قینقاع  کی پہچان کے لئے جھنڈے بھی لائے تھے جن کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معاہدہ تھا۔ اس بنا پر آپؐ نے ان کی مدد کو مسترد کر دیا۔ اس مدد سے انکار کی وجہ ان کا اپنے جھنڈے تلے اور بطور الگ ریاست کے شامل ہونا تھا  اور اس بات کی دلیل آپؐ کا خیبر کے یہودیوں سے مدد کو قبول کرنا تھا کیونکہ وہ انفرادی حیثیت سے لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ ابو حمید الساعدی کی حدیث میں شرعی علت موجود ہے، اگر علت پائی جائے گی تو وہی حکم ہو گا اور علت کی عدم موجودگی میں حکم بھی معدوم ہوگا۔ اس حدیث میں علت اس کے الفاظ سے ثابت ہے جب یہ کہا گیا کہ:

 

«إذا كتيبة قال: من هؤلاء قالوا: بني قينقاع وهو رهط عبد الله بن سلام»

"۔۔۔ رہنما کے پاس سے گزرے۔ آپ نے کہا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ بنی قینقاع ہیں اور یہ عبداللہ بن السلام کی قیادت میں ہیں"۔

 

اس رہنما کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ وہ آزاد حیثیت سے اپنی شناخت کے جھنڈے سمیت آئے تھے کیونکہ ہررہنما کے پاس ایک جھنڈا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ کافر لیڈر اور آزاد جھنڈے کے تلے بنی قینقاع  کی جانب سے شامل ہونے آئے تھے جن کے ساتھ آپؐ ایک ریاست کی حیثیت سے معاہدہ تھا۔ ان کی مدد سے انکار کی یہی اصل وجہ تھی نہ کہ وہ صرف کفار تھے کیونکہ آپؐ نے ان کی علیحدہ شناخت کے باعث ان کو لوٹ جانے کو کہا جو اسلام سے مخالف تھی۔ اس بات کو مزید تقویت انسؓ کی حدیث سے ملتی ہے کہ: »لا تستضيئوا بنار المشركين«"مشرکین کی آگ سے روشنی مت حاصل کرو"۔

 

کیونکہ یہ علیحدہ ڈھانچہ کے تحت آئے تھے، اور اس پر مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے قزمان سے اسی غزوہ احد میں مدد کو قبول کیا حالانکہ وہ مشرکین میں سے تھے۔ یعنی کفار کی ایسی مدد سے انکار فرمایا جو اپنی الگ حیثیت سے آئے اور ان کفار کی مدد کو قبول کیا جو انفرادی حیثیت سے آئے۔ چنانچہ کفار میں سے جو بحیثیت الگ قوم یا ریاست یا قبیلہ اپنے جھنڈے تلے اکھٹے ہوں، ان کی مدد حاصل کرنا کسی صورت بھی صریح حرام ہے۔ جہاں تک خزاعة قبیلہ کا تعلق ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قریش کے خلاف فتحِ مکہ کے موقع پر گئے اور وہ ایک آزاد قبیلہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ کسی آزاد ریاست یا قبیلہ کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ خزاعة کا قبیلہ صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھا جب قریش اور مسلمانوں کے مابین صلح کا معاہدہ لکھا جارہا تھا۔ جب معاہدے میں یہ الفاظ تحریر کیے گئے:

 

«وإنه من أحب أن يدخل في عقد محمد وعهده دخل فيه، ومن أحب أن يدخل في عقد قريش وعهدهم دخل فيه»

"جو کوئی بھی رسول اللہ کے ساتھ معاہدے میں شریک ہونا چاہے ہو سکتا ہے، اور جو کوئی قریش کے ساتھ معاہدے میں شریک ہونا چاہے ہو سکتا ہے" (احمد سے مروی)

 

اس معاہدے کے تحت خزاعة قبیلہ نے فوراً کہا: ہم محمدؐ کے ساتھ معاہدہ اور عہد کرتے ہیں، اور بنی بکر نے فوراً کہا کہ ہم قریش کے ساتھ معاہدہ اور عہد کرتے ہیں۔ چنانچہ خزاعة مسلمانوں کے ساتھ معاہدے میں شامل ہو گئے جو قریش اور مسلمانوں کے درمیان تھا۔ لہٰذا  رسول اللہ ﷺ کا خزاعة قبیلہ کو پناہ دینا اسی معاہدے کی رو سے تھا۔ چنانچہ ان کے قبیلہ کا اسلامی جھنڈے تلے لڑنا اور اسلامی ریاست کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہر گز آزاد ریاست کی مدد کے مترادف نہیں بلکہ یہ انفرادی مدد کے برابر تھا۔ جہاں تک کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خزاعة قبیلہ کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اتحاد یا معاہدہ تھا، تو یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ معاہدہ تہ مسلمانوں اور قریش کے مابین تھا نہ کہ مسلمانوں اور خزاعة  کے مابین ۔۔۔"

 

لہذا کسی کافر کا اتحادی بننا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ان کی مدد طلب کرنا جائز ہے۔ مگر اہل الذمہ میں سے جائز ہے کہ وہ مسلمانوں کی فوج کا حصہ بنیں۔

 

ب) اسی موضوع کو مسودہ دستور کی دفعہ نمبر 190 میں مفصل بیان کیا گیا ہے، جس میں یہ درج ہے:

"دفعہ نمبر190: فوجی معاہدات اور اس نوعیت کے دیگر معاہدات یا اس سے منسلک دیگر معاہدات مثلاً سیاسی معاہدات، اڈے اور ائر پورٹ وغیرہ کرایہ پر دینے کے معاہدات، سب ممنوع ہوںگے۔  البتہ اچھی ہمسائیگی، اقتصادی، تجارتی، مالیاتی، ثقافتی معاہدات یا عارضی جنگ بندی کے معاہدات کیے جا سکتے ہیں۔

 

معاہدات کی تعریف یہ ہے کہ یہ وہ سمجھوتے ہیں کہ جو حکومتیں آپس میں خاص تعلق کو منظم کرنے اور قوانین و شرائط کی تجدید کی غرض سے طے کرتی ہیں۔ مسلمان فقہاء نے ان معاہدات کے لئے "الموادعات" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ۔۔۔ تاہم معاہدے کے انعقاد کی صحت کے لئے یہ شرط ہے کہ اس معاہدے کا موضوع ایسا ہو جس کی شرع نے اجازت دی ہے۔معاہدات کی کئی اقسام ہیں ۔۔۔

جہاں تک عسکری معاہدات کا تعلق ہے تو یہ رسول اللہ ﷺ کے اس قول کی وجہ سے حرام ہیں، آپؐ نے فرمایا:

 

«لا تستضيئوا بنار المشركين»

'مشرکین کی آگ سے روشنی مت حاصل کرو۔'

 

اس کو احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ کسی قوم کی آگ کنایہ ہے جنگ کے دوران ان کے وجود سے۔ اس پر مزید آپؐ کی ایک اور حدیث کی بنا پر یہ حرام ہے، آپؐ نے فرمایا:

«فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ»"میں کبھی کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔" اس کو مسلم نے عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے۔ ابو داود اور ابن ماجہ نے عائشہ ؓ سے یہ نقل کیا: «إِنَّا لا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ»"ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے"، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لاَ نَسْتَعِينُ بِالْكُفَّارِ عَلَى الْمُشْرِكِينَ»"ہم مشرکین کے خلاف کفار سے مدد نہیں لیتے" اس کو ابن ابی شیبہ نے سعید بن المنذرسے روایت کیا ہے۔۔۔"ختم شد

چنانچہ کفار (مشرکین) کی بطور ریاست مدد طلب کرنا یا ان کے ساتھ اتحاد بنانا  مندرجہ بالا دلائل کی رو سے حرام ہے۔

 

ج)  جہاں تک صلح حدیبیہ کے معاہدے کا تعلق ہے جو رسول اللہ ﷺ اور قریش کے مابین تھا، تو وہ اتحاد نہیں تھا، کیونکہ اتحاد کا مطلب اکٹھے لڑنا وغیرہ ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک وقتی صلح نامہ تھا جو رسول اللہ ﷺ اور عملی کافر حربی کے مابین طے پایایہاں تک کے ان پر مسلمان قابض ہو گئے۔ اسلامی ریاست کسی  کافر ریاست جو عملی طور پر حالتِ جنگ میں ہو سے صلح کا معاہدہ کر سکتی ہے اگر وہ کافر ریاست کا وجود پہلے سے ہو۔تاہم اگر ایسی کفر ریاست جو مسلمانوں کی زمین پر قابض ہو، اس سے کسی طرز کا معاہدہ کرنا حرام ہے کیونکہ ایسی صورت میں معاہدہ کرنا اس کے نا جائز قبضے کو تسلیم  کے مترادف ہے۔ اس کا اطلاق  آج کی اس "یہودی وجود" پر ہوتا ہے جو ایسی تمام زمین پر  قابض  ہے جو مسلمانوں   کے ماتحت تھی۔ مسودہ دستور کی دفعہ نمبر 189 کے چوتھے پیراگراف میں مندجہ ذیل کا ذکر ہے:

"دفعہ نمبر189: اسلامی ریاست کے دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات ان چار پہلوؤں پرمشتمل ہوں گے:

۔۔۔

(4)   جو ممالک ہمارے ساتھ عملاً حالتِ جنگ میں ہیں جیساکہ 'اسرائیل' تو اس کے ساتھ تمام معاملات کو حالتِ جنگ کی بنیاد پرنپٹایا جائے گا۔   اس کے ساتھ ہمارا معاملہ عملی جنگ کا ہوگا، خواہ اس کے ساتھ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہو یا نہ ہو، اور اس کے شہری ہمارے ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔

۔۔۔

ان جارح اور عملی جنگ کرنے والے ممالک سے دائمی جنگ بندی یا دائمی امن معاہدہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے جہاد معطل ہو جائے گا جبکہ جہاد قیامت تک جاری رہنے کے لئے ہے۔ دائمی جنگ بندی سے اسلام کی دعوت بھی رک جائے گی اور اسلام دوسرے ادیان پر غالب نہیں آسکے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

[ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ]

"اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ ہی کا ہو جائے"(الانفال - 39)

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

«وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ»

 "جہاد اس وقت سے لے کر جب اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے جاری رہے گا جب تک میراآخری امتی دجال سے لڑے گا۔"

اس حدیث کو ابو داود نے انس ؓ سے روایت کیا ہے۔

 

ان ممالک کے ساتھ وقتی صلح اور وقتی جنگ بندی (سینر فائر)کرتے وقت مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھاجائے گا۔
 *جس ریاست اور ہمارے درمیان عملی جنگ ہو رہی ہو اور اس کی وہ زمین بھی غیر اسلامی ہو جہاں اس کا وجود ہے تو ان کے ساتھ وقتی صلح اور جنگ بندی جائز ہے، یعنی ایک معلوم مدت تک ان سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنا جائز ہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ جنگ بندی مسلمانوں اور اسلام کے مفاد میں اور شرعی شرائط کے مطابق ہو۔

اس کی دلیل صلح حدیبیہ ہے ۔یہ صلح اسلامی ریاست ، جسے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں قائم کیا تھا اور قریش کی ریاست جو ایسی زمین پر قائم تھی جس کو اسلام نے ابھی تک فتح نہیں کیا تھا،یعنی ایسی ریاست جس کی زمین اسلامی نہیں تھی، کے درمیان ہوئی تھی۔
 * وہ ریاست جس کے اور ہمارے درمیان عملی جنگ ہو رہی ہو،اگر وہ پوری کی پوری اسلامی زمین پر قائم ہو یعنی اس کی سرزمین ایسی ہو کہ جس کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا ہو اوراس کی سر زمین کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جس کو مسلمانوں نے پہلے فتح نہ کیا ہو جیسے (اسرائیل) یہودیوں کی وہ ریاست جو فلسطین کی سرزمین کو غصب کر کے (چھین کر )بنائی گئی ہے؛ اس کے ساتھ صلح جائز نہیں کیونکہ اس ریاست کا قیام ہی شرعاً باطل ہے۔ اس کے ساتھ کوئی صلح کرنے کا مطلب اسلامی سر زمین سے اس کے حق میں دستبردار ہونا ہے جو حرام اور اسلام میں بہت بڑا جرم ہے بلکہ اس کے ساتھ دائمی طور پر حالت جنگ میں رہنا فرض ہے، خواہ اسلامی سرزمین پر مسلط کیے گئے غیر قانونی حکمرانوں نے اس کے ساتھ جنگ بندی کا کوئی معاہد ہ کر رکھاہو۔

 

یوں یہودی ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہد ہ کرنا خواہ وہ معاہدہ بالشت بھر زمین کے بدلے ہی کیوں نہ ہو، شرعاً حرام ہے ،کیونکہ یہ ریاست غاصب ظالمانہ ریاست ہے۔ اس کا وجود ہی مسلمانوں کی زمین پر ہے۔ اس کے ساتھ صلح کرنے کا مطلب مسلمانوں کی زمین سے دستبرداری ہے اور اس کے ناپاک وجود کو برقرار رکھنا بلکہ مضبوط کرنا ہے اور یہ شرعاً جائز نہیں۔ اسلام حتمی طور پر تمام مسلمانوں کو اس ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اپنی فوجوں کو متحرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہر طاقت رکھنے والے کو اس فوج میں شامل ہونے کا حکم دیتا ہے۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسکے وجود کو مٹا نہ دیا جائے اور اسلامی زمین کو اس کے چنگل سے آزاد نہ کرا لیا جائے۔ ارشاد باری ہے

[وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا]

 ’’اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگزکو ئی راستہ (اختیار یاغلبہ) نہیں دیا ‘‘(النساء:141)۔

اور فرمایا

[فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُم]

 ’’جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی ہے‘‘(البقرۃ:194)۔

 

اور ارشاد باری ہے

[وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ]

’’انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے‘‘(البقرۃ:191)۔"

ختم شد

 

لہٰذا صلحِ حدیبیہ کا معاہدہ کوئی معاہدہ نہیں ہے، یہ ایک عارضی صلح نامہ ہے جو اسلامی ریاست اور قریش کے مابین طے پایا جبکہ قریش اس زمین پر پہلے سے موجود تھے۔ اس کا اطلاق ہر اس کافر ریاست پر ہو گا جس کے ساتھ اسلامی ریاست صلح کرنا چاہے اس شرط پر کہ کافر ریاست پہلے سے مکمل یا جزوی وجود رکھتی ہو اور یہ معاہدہ عارضی ہو اور  اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں ہو۔تاہم اگر کافر ریاست کا وجود مسلمانوں کی زمین پر ہو تب کسی طرح کا صلح کا معاہدہ کرنا جائز نہیں جیسے اوپر مفصل بیان کیا گیا ہے۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خليل أبو الرشتہ

26 رجب 1438ہجری

2017/04/23م

Last modified onمنگل, 06 جون 2017 23:12

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک