الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حقیقی تبدیلی صرف خلافت کے ذریعے ہی ممکن ہے

 

تیونس سے لے کر بنگلہ دیش تک، پوری مسلم دنیا میں جب بھی لوگوں کا غم و غصہ انتہا کو پہنچتا ہے، تو استعماری مغرب فقط ''چہرے کی تبدیلی‘‘ اور کچھ قوانین میں ظاہری ردوبدل کے ذریعے موجودہ کرپٹ نظام کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ یہ واضح طور پر نظر آ رہاہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود غدار، اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے، ''ق لیگ‘‘کی مانند ایک نئی ''کنگز پارٹی‘‘بنانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں تاکہ امت میں اس نظام کے خلاف موجود غم وغصے کوٹھنڈا کیا جائے۔ جبکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو کہ پچھلی چھ دہائیوں سے پاکستان میں لوگوں کی ابتر صورتحال کی اصل وجہ ہے ،اور جسے جمہوری حکمران اور فوجی آمر دونوں مسلسل نافذ کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ جب تک اِس کرپٹ نظام کو اُکھاڑ کراِس کی جگہ خلافت کے نظام کو نافذ نہیں کیا جاتا ، تب تک کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ لہٰذا حزب التحریر اُس ریاستِ خلافت کا ایک مختصر جائزہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتی ہے ، جو نہ صرف اِس دنیا میں آپ کو ظلم سے نجات دلائے گی بلکہ آخرت میں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کے غیض وغضب سے بچاؤ کا ذریعہ بنے گی۔


موجودہ سرمایہ دارانہ حکومتی نظام اِس اصول کی بنیاد پر قائم ہے کہ انسان ہی اقتدارِاعلیٰ کا مالک ہے اور اُسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے قانون بنائے۔ آمریت اور جمہوریت دونوں میں ایساہی ہے،پس گفتگو اور بحث کو اِن دونوں نظاموں تک محدود کرنے کا ہرگزکوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ آمریت اور جمہوریت دونوں میں پاکستانی قوانین استعماری قوتوںیا پھر سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود اُن کے ایجنٹوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اِس کے برعکس خلافت کے اندر آئین اور تمام تر قوانین صرف اور صرف قرآن اور سنت سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ خلافت میں خلیفہ یاپھر مجلسِ امت میں موجود منتخب مرد اور خواتین قوانین نہیں بنائیں گے، جیسا کہ آج کی جمہوری اسمبلیوں میں ہوتا ہے۔ بلکہ مجلسِ امت میں موجود منتخب نمائندوں کا کام اسلام کی بنیاد پر حکمرانوں کا محاسبہ کرنا اور اُنہیں نصیحت کرنا ہوتا ہے۔ پس خلافت ایک ایسا نظا م ہے جس میں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک صرف اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے قطعی طور پربیان کر دیا ہے:

 

(اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ)

''حکم صرف اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ ( یوسف:67)۔


اِسی طرح سرمایہ دارانہ معاشی نظام صرف استعماری طاقتوں اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود اُن کے ایجنٹوں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے جبکہ کروڑوں لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اور ان پر ظلم ڈھایا جاتا ہے۔ ''آزادیِ ملکیت ‘‘ کے نام پر یہ نظام استعماری قوتوں اور اُن کے ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ عوامی اثاثہ جات کے مالک بن جائیں اور پھر یہی لوگ اِن عوامی سہولیات کو ایسی قیمت پر فروخت کرتے ہیں جو عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے،اور یوں عوام ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ توانائی کا موجودہ بحران اِس کی فقط ایک مثال ہے۔ پاکستان کے توانائی پیدا کرنے والے ( پاور جنریشن ) پلانٹس کے ساتھ ساتھ گیس اور تیل کے شعبوں کی نجکاری کی جاچکی ہے اور اُن کا کنٹرول استعماری قوتوں کی کمپنیوں یا اُن کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اِس کے برعکس خلافت میں عوامی اثاثہ جات کی نجکاری نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ان اثاثوں کے حقیقی مالک عوام ہوتے ہیں ، جبکہ ریاست لوگوں کی نمائندہ کے طور پر صرف اِن عوامی سہولیات کو لوگوں تک پہنچانے کاانتظام و انصرام کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:

 

((المُسلمون شُرَکَاءُ فِیْ ثَلَاثٍ اَلْمَاء وَالْکِلَاء وَالنَّار))

''مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں، پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)‘‘ (مسند احمد)۔


اِس حدیث کی بنا پر توانائی کے تمام وسائل، جن میں گیس اور تیل کے کنویں، کوئلے کی کانیں اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں، کی کسی صورت نجکاری نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ خلافت اِن عوامی ملکیت کی چیزوں پرنہ تو کوئی ٹیکس لگائے گی اور نہ ہی اِن چیزوں پر کوئی منافع حاصل کرے گی۔ یوں بجلی اور تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی ،جس کے نتیجے میں لوگوں کی اکثریت سکھ کا سانس لے گی اور صنعت اور زراعت کے شعبوں کو ایک نئی زندگی ملے گی۔ مزید برآں، اسلام اِس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ اِن عوامی ملکیت کی چیزوں کو بیرونِ ملک ایکسپورٹ کرکے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کوبیت المال میں رکھا جائے اور پھراِس آمدن کو ریاستِ خلافت کے تما م شہریوں پر رنگ و نسل، زبان اور مذہب کی تفریق کے بغیر خرچ کیا جائے ۔


ریاستِ خلافت کے آمدنی کے ذرائع بھی موجودہ سرمایہ دانہ نظام سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:

 

((لَا ےَدْخُلِ الْجَنَّۃ صاحب مکَس))

''ٹیکس لینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ (مسند احمد)۔

 

اِس حدیث کے مطابق کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں پر اپنی من مرضی کے ٹیکس عائد کرے۔ چنانچہ خلافت میں بیت المال کی آمدنی کے ذرائع صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہوتے ہیں۔ پس خلافت میں حکمرانوں کو یہ ظالمانہ ''حق ‘‘حاصل نہیں ہوتا کہ وہ جب چاہیں اور جتنا چاہیں لوگوں پر ٹیکس عائد کردیں۔ جبکہ پاکستان میں نافذ موجودہ نظام میں جمہوری حکمران ہوں یا ڈکٹیٹر،دونوں کو اِس بات کا مکمل اختیار حاصل ہوتاہے کہ وہ ایسے ذرائع سے آمدن (ریونیو) اکٹھی کریں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔ اس حد تک کہ پچھلے 60سالوں سے پاکستان کے ایجنٹ حکمرانوں نے ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ کیا یہاں تک کہ آج جی ایس ٹی اور دیگر بلواسطہ ٹیکسوں (indirect tax)کا تناسب کُل آمدنی کے 50فیصد سے تجاوز کر چکا ہے ، جس نے پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو ابتری سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسلام میں لوگوں کی ذاتی ملکیت کو حرمت و تحفظ حاصل ہے ،پس ریاستِ خلافت ''ٹیکس‘‘ کے نام پر اپنے شہریوں کی ملکیتوں پرڈاکہ ڈال کر ان کا خون نہیں نچوڑ سکتی ۔ یہ صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جسے یہ طے کرنے کا اختیارہے کہ کونسا ٹیکس لیا جاسکتا ہے اوریہ ٹیکس بھی صرف اُنہی لوگوں سے وصول کیے جاتے ہیں جو اُنہیں ادا کر سکتے ہوں۔ اسلام کا اموال اکٹھا کرنے (revenue (collectionکااپنا ایک منفردنظام ہے ، جس میں عوامی اثاثہ جات جیسے گیس اور تیل سے ہونے والے اموال، زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی جیسے عشر اور خراج اور صنعتی پیداوار پر عائد ہونے والی زکوٰۃوغیرہ شامل ہے۔ ان ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈ کولوگوں پر ظلم کئے بغیر اُن کے امور کی دیکھ بھال پر خرچ کیا جائے گا۔


صرف خلافت ہی خارجہ پالیسی میں حقیقی تبدیلی لائے گی ۔ اسلام کے قوانین کے نفاذکا مطلب یہ ہے کہ وہ حربی ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں،جیسے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، انڈیا اور روس وغیرہ ، اسلامی علاقوں میں موجودان کے تمام سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا جائے گا۔ یوں مسلمانوں کے خلاف اُن سازشوں کا خاتمہ ہوسکے گا جو دشمن ریاستوں کے ان سازشی اڈوں سے جنم لیتی ہیں۔ مزید برآں خلافت پانامہ سے لے کر وینزویلا تک اور تھائی لینڈ سے لیکر کوریا تک غیر مسلم ریاستوں کو بھی اِس بات پر اُبھارے گی کہ وہ مغربی استعمار کے ظلم کے خلاف عالمی بغاوت کا حصہ بنیں۔ اور اِس کے ساتھ ساتھ خلافت پوری دنیا کے سامنے اسلام کی سچی ہدایت کو بھی پیش کرے گی ۔


صرف خلافت ہی داخلہ پالیسی میں حقیقی تبدیلی لائے گی۔ موجودہ جمہوری نظام میں دیگر مسلم ریاستوں کو بیرونی ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہر ملک اپنی الگ کرنسی،سرحدوں،خزانے اور فوج کا مالک ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس خلافت کے قیام کے پہلے روز سے ہی خلیفہ تمام مسلم سرزمینوں کو ایک کرنے کا کام شروع کردے گاتاکہ یہ علاقے دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ وسائل رکھنے والی ریاست کی شکل اختیار کر لیں،وہ ریاست کہ جس کی فوج ایک ہوگی، اُس کی سرزمین ایک ہوگی اور اُس میں رہنے والے لوگ نسل اور مسلک سے قطع نظر ایک امت ہونگے اور اُن کا بیت المال اور وسائل بھی ایک ہوں گے۔


خلافت اپنے تمام شہریوں کے جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے گی خواہ وہ مسلمان ہوں یا پھر غیر مسلم۔ غیر مسلموں کو اِس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ ذاتی معاملات مثلاً شادی اور مذہبی رسومات میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں۔ اِسی طرح عورتوں کو اِس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ مرد اور عورت کے درمیان تعلقات اور لباس سے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی پسند کا پیشہ اختیارکریں جیسا کہ شعبۂ تعلیم، انجینئرنگ، میڈیکل، سیاست، میڈیا، عدلیہ وغیرہ۔


اسی طرح صرف اسلام کے عدالتی نظام کے ذریعے اسلامی قوانین کے نفاذ سے ہی معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوگا۔ پاکستان میں رائج انگریز کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام سے کبھی بھی انصاف نہیں آسکتا۔ موجودہ نظام میں استعماری غلبے کے خاتمے کی کوشش کرنااورخلافت کے قیام کی پکاربلند کرنا ایک جرم ہے، جس کی سزا ایجنسیوں کی طرف سے اغواء یا پھر جیل کی صعوبتیں ہیں، جبکہ دوسری طرف یہ نظام استعمار کی موجودگی کا تحفظ ایک فرض کی مانند کرتا ہے۔ اس نظام میں جزیہ یا خراج کی عدم ادائیگی کوئی جرم نہیں لیکن سود کی عدم ادائیگی پر ایک شخص کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک آزاد جج بھی اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں نافذ کفریہ قوانین کے مطابق ہی فیصلے دے۔ خلافت کے اندر تمام افراد قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں اور خلیفہ سمیت کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔ خلافت میں ایسے قوانین کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی جو حکومتی طبقے کی لوٹ مار اور ظلم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، جیسا کہ اس نظام میں NROکے ذریعے کیا گیاہے ، کیونکہ خلافت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی قانون ساز نہیں ہوتا۔


یہ اسلام کے بابرکت قوانین کی ایک جھلک ہے ،جنہیں خلافت جلد ہی نافذ کرے گی، انشاء اللہ !


اے مسلمانانِ پاکستان!
آپ کے سامنے ایک طرف مغربی استعماری طاقتیں اورپاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود غدار ہیں جواِس بات کی بھرپورکوشش کررہے ہیں کہ ایک نئے جمہوری الیکشن کے ذریعے اِس تعفن زدہ اورگرتے ہوتے ہوئے نظام کو بچایا جائے،جبکہ دوسری طرف آپ کے سامنے حزب التحریرہے جس نے پچھلی چھ دہائیوں سے اِس امت کوتیار کیا ہے یہاں تک کہ یہ امت اب اسلام اور خلافت کی آواز بلند کر رہی ہے، اور اِس حزب نے 190شقوں پر مشتمل ریاستِ خلافت کا آئین بھی تیار کررکھا ہے تاکہ اُسے خلافت کے قیام کے آغاز ہی سے نافذ کردیا جائے ۔ آپ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ جمہوری سیٹ اَپ کے ذریعے کبھی بھی اسلام نافذ نہیں ہوسکتاکہ جس کے اندر اسلام کا نفاذ استعماری قوتوں اور اُن کے ایجنٹوں کی خواہشات کے رحم وکرم پرہو۔ پس آپ کے اوپر لازم ہے کہ آپ اِس کفریہ نظام سے منہ موڑ لیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکی پیش قدمی کا حصہ بن جائیں۔ اوریہ آپ پر ہے کہ آپ اس نظام کے تحت کسی بھی الیکشن کو مسترد کردیں اور پاکستان کی مسلح افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کریں کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نُصرۃ فراہم کریں۔


یقیناًخلافت کے قیام کے ذریعے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نازل کردہ سچے دین کا نفاذ نہ صرف پوری امت کے لیے خوشحالی لے کر آئے گا بلکہ دنیا بھر میں انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کے ظلم کی چکی میں پسنے والے لوگوں کے لیے اُمید کی مضبوط کرن ثابت ہو گا۔ایک ایسے وقت میں جب پہلے ہی لندن اور نیویارک میں ہزاروں لوگ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، یہی وہ وقت ہے کہ ظالمانہ دورِ حکومت کا خاتمہ کردیا جائے اور خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:


((ثم تکون ملکاً جبریۃً فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا،ثم تکون خلافۃً علی منھاج النبوۃ))۔
''پھرظالمانہ حکمرانی کا دور ہوگا ،تو وہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر وہ اسے اُٹھا لے گا جب وہ چاہے گا،پھر نبوت کے نقشِ قدم پردوبارہ خلافت قائم ہوگی ‘‘(مسند احمد)

Read more...

افواجِ پاکستان کے جرنیلوں، ائیر مارشلز (Air Marshalls)، نیوی ایڈمرلز (Navy Admirals) اوردیگر افسران کے نام

محترم برادرانِ اسلام!


ہم بطور حزب التحریر آپ سے اس حیثیت میں مخاطب ہیں کہ حزب التحریرایک عالمی سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ آپ ہم سے بخوبی واقف ہیں اور ہمارے ایجنڈے سے بھی آگاہ ہیں، کہ حزب التحریراسلامی ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے سرگرمِ عمل ہے ۔ حزب التحریر وہ واحد عالمی جماعت ہے جو کہ امت کو ایک مضبوط ریاست کی شکل میں اللہ کے کلمہ کے سائے تلے یکجا کرنے کے لیے پورے عالمِ اسلام میں کام کر رہی ہے ،جس پرمسلمانوں کا واحد خلیفہ حکمرانی کرے گا، اور جس کے ذریعے ہی مسلمانوں کو استعماری طاقتوں کے تسلط سے نجات ملے گی کہ جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے۔


ہم آپ کی ا س حیثیت کی بنا ء پر آپ سے مخاطب ہیں کہ پاکستان کے اصل حکمران آپ لوگ ہی ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ نہ صرف یہ کہ آپ مسلمانوں کی سب سے بڑی ایٹمی افواج کی قیادت کر رہے ہیں بلکہ آپ آئی ایس آئی کے ذریعے سِول اداروں یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ پر حتمی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس ملک کے حقیقی حکمران ہونے کے ناطے ، صرف آپ ہی کے ذریعے امت موجودہ بحرانوں، مصیبتوں اور ابتری کی زندگی سے نجات حاصل کر سکتی ہے، جن سے مغربی سرمایہ دار ریاستوں نے اُمت کو دوچار کر رکھاہے ؛ جبکہ آپ کا غلط فیصلہ اس امت کو مزید تباہی کی طرف لے جا ئے گا۔


محترم برادرانِ اسلام!


2مئی 2011ء کی رات کو امریکی نیوی سیلز(US Navy SEALS)نے مبینہ طور پر ہماری فضائی حدود کو پامال کیا اور ایبٹ آباد میں ایک گھر پر حملہ کر کے اُسامہ بن لادن کو قتل کیا اور اُس کی میت کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس واقعے سے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک پاکستانی افواج کو انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اندرونِ ملک یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا پاکستانی افواج ہماری خودمختاری کے تحفظ کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ جبکہ بیرونِ ملک آپ پر الزام عائد کیا گیا کہ آپ نام نہاد دہشت گردوں سے ملے ہوئے ہیں۔ امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے آپ کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی اور 18مئی 2011ء کو ایبٹ آباد حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اعلان کیا: ''اگر میں پاکستان کی جگہ ہوتا تو میں یہ کہتاکہ میں نے پہلے ہی قیمت چکا دی ہے، مجھے بے عزت کیاگیا۔ مجھے یہ دکھا دیا گیا ہے کہ امریکی یہاں آ سکتے ہیں اورکسی بھی جوابی کاروائی کے بغیر واپس جا سکتے ہیں‘‘۔ اورگویا اتنا ہی کافی نہ تھا کہ4مئی 2011ء کو بھارتی آرمی چیف جنرل وِی کے سنگھ نے کہا:''جب بھی ضرورت پڑی ،ہماری افواج کے تینوں حصے (پاکستان میں)ایسے ہی آپریشن کر سکتے ہیں‘‘۔


اگر ایک شخص امریکہ کے سٹریٹیجکاہداف کا جائزہ لے تو وہ قطعی طور پرجان سکتا ہے کہ امریکہ کے مفادات کو پورا کرنا درحقیقت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے ۔ امریکہ کے سٹریٹیجکمفادات یہ ہیں: روس اور چین کو یوریشیا (Eurasia)کے علاقے پر حاوی ہونے سے روکنا، وسط ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے وسائل کو کنٹرول کرنا، وسط ایشیاء اور کیسپین سِی (Caspian Sea) سے معدنی توانائی کی باحفاظت ترسیل کو کنٹرول کرنا اورخطے میں ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنا۔ ان اہداف کی تکمیل کے لیے پاکستان انتہائی اہم جگہ پر واقع ہے ، اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستانی پالیسی کو کوئی بھی رُخ دینے کے لیے فوج اور آئی ایس آئی کاکردار کلیدی ہے۔


ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ،امریکہ کے لیے یہ ضروری تھا کہ پاکستان کے علاقائی اثر و رسوخ کو کم کیا جائے۔ ایسا تین وجوہات کی بناء پر تھا: اول: امریکہ افغانستان میں بذاتِ خوداپنی موجودگی قائم کرنا چاہتا تھا ،لہٰذایہ ضروری تھا کہ پاکستان کے اثر ورسوخ کو کم کیا جائے۔ جس کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان طالبان کی مددو حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ دوم: امریکہ چاہتا تھا کہ بھارت چین کے خلاف کردار ادا کرے مگرکشمیر میں جاری جہاد بھارت کو اس کردار سے دور رکھے ہوئے تھا ۔ چین کے خلاف مضبوط بھارت امریکہ کی ضرورت تھی، جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ جہادِکشمیر کو روکا جائے اور بھارت میں موجود آئی ایس آئی کی جڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ سوم: خلافت کے قیام کو روکنایا خلافت کے قیام میں ہر ممکن تاخیر پیدا کرنا۔ چنانچہ پاکستان کی فوج کو کمزور کرنا اورپاکستانی افواج کی صفوں سے مضبوط ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل اسلامی رجحان رکھنے والے افسران کو فارغ کرنا۔


11ستمبر کے واقعے سے کہ جس کے تمام راز ابھی منظرعام پر نہیں آئے، امریکہ کو یہ موقع مل گیاکہ وہ افغانستان میں ایک نرم امریکہ نواز حکومت قائم کرے ۔ مشرف کی بھرپور مدد نے امریکہ کو اس قابل بنایا کہ وہ طالبان حکومت کا خاتمہ کر دے، اور اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں کو سفاکی سے قتل کرے۔ مشرف نے امریکہ کو مدد فراہم کی اور امریکہ افغانستان سے پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت کو ہٹا کر افغانستان میں ایک ایسی حکومت لے آیاجو امریکہ و بھارت نواز ہے اوراینٹی پاکستان ہے۔ مشرف کی اس غداری سے اس کے کورکمانڈر واقف تھے مگر وہ خاموش رہے اورانہوں نے مشرف کے پاکستان اور اس کی افواج کو کمزور کرنے کے اقدام کو قبول کر لیا۔


مشرف کے بعد بھی یہ پالیسیاں جاری رہیں، تاہم اب یہ کردار فوجی قیادت میں اس کے جانشینوں نے سنبھال لیا کہ جن کے سرغنہ جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا ہیں، جو امریکہ کواُسی درجے کی مدد فراہم کر رہے ہیں،جو کہ اس سے قبل مشرف کر رہا تھا ،تاکہ پاکستانی افواج اور پاکستان کو مزید کمزور کیا جائے۔


محترم برادرانِ اسلام!


یہ ہے وہ پس منظر کہ جس کے تحت ہم آپ کو پکار رہے ہیں ، کہ آپ کی یہ خاموش اکثریت اپنی خاموشی کو توڑے اور اس صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے کھڑی ہو جائے۔ کیونکہ اگر آپ خاموش رہے اور غلامانہ اطاعت کرتے رہے تو نہ صرف یہ کہ قیامت کے دن آپ اللہ کے غیض وغضب کا سامنا کریں گے بلکہ فوج کا وہ ادارہ کہ جس پر آپ کو فخر ہے مزید کمزور ہوتا جائے گا اور اسے اپنے ہی لوگوں کے خلاف مزیداستعمال کیاجائے گا۔ کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ اُس کی جنگ کو قبائلی علاقوں سے آگے ملتان اور کراچی جیسے بڑے شہروں تک پھیلایا جائے اور وہ ملک کہ جس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے آپ کی آنکھوں کے سامنے امریکی منصوبے کے مطابق مزید انتشار اور خونریزی سے دوچار ہو جائے گا۔ یہ امریکی منصوبہ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکہ کے وسیع تر اقدامات کا تسلسل ہے ، جس کا آغاز صدر بش نے کیا تھا اور جو موجودہ امریکی صدر کے دور میں بھی جاری ہے ۔


آپ میں سے وہ لوگ جو اس بات کے متعلق ذرا سا بھی شک و شبہ رکھتے ہیں کہ ہمارے ملک اور افواج کو کمزور کرنے کے ذمہ دار آپ خود ہیں ، توہم ان کے سامنے مندرجہ ذیل نکات رکھتے ہیں کہ وہ ان پر غور کریں:


کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت خاموش رہے جب امریکہ نے ایبٹ آباد پر کاروائی کی، اور یہ کاروائی کیانی اور شجاع پاشا کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی؟ یہ حملہ اس غیر معمولی میٹنگ کے بعد ہی ہوا ،جو افغانستان میں اتحادی افواج کے سربراہ جنرل پیٹریاس(Patraeus) اور جنر ل کیانی کے درمیان 25اپریل2011ء کو چکلالہ ائیر بیس پر ہوئی تھی، اور پھر اسی رات کو جنرل پیٹریاس نے وائٹ ہاؤس میں جاری میٹنگ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی تھی، اور اس میٹنگ کی سربراہی امریکی صدر اوبامہ خود کر رہا تھا۔ پھر اگلے ہی دن آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے آرمی کی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی میٹنگ میں غیر معمولی شرکت کی تھی ، حالانکہ آئی ایس آئی کا سربراہ عام طور پر اس میٹنگ کا حصہ نہیں ہواکرتا۔ یہی وہ ملاقات ہے جس کی طرف اوبامہ نے اپنی اُس تقریر میں اشارہ کیا تھا، جس میں اس نے نہایت تکبر کے ساتھ اُسامہ بن لادن کی موت کا اعلان کیا تھا۔ اوبامہ نے کہا : ''اور بالآخر پچھلے ہفتے میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمارے پاس جاسوسی کی اتنی معلومات آ گئی ہیں کہ ہم ایکشن لیں اور میں نے اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے آپریشن کا حکم جاری کیا ،تاکہ اسے سزا دی جائے ‘‘۔ اور آپ اُس خاموشی کے متعلق کیا کہیں گے جو آپ نے اس وقت اختیار کی جب ایبٹ آباد واقعے کے بعدکیانی نے امریکہ کے خلاف افواجِ پاکستان کے مخلص آفیسرز کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کی؟ اور انہیں امریکہ کے خلاف اُبھارنے کی بجائے اپنے ہی فوجیوں کے دلوں میں دشمن امریکہ کا خوف ڈالنے کی کوشش کی!


کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کی ہدایات پر جنگ کے میدان کو افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقے میں منتقل کر دیا ؟ اور جس طرح آپ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے امریکی مطالبے کے سامنے بلا سوچے سمجھے سرنگوں ہو ئے تھے ، اسی طرح آپ نے امریکہ کی ہدایات پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کے لیے افواج کو مغربی سرحد منتقل کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی، جس کے نتیجے میں مشرقی سرحد پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ امریکی ریاست آرکنساس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ہلری کلنٹن نے کہا: ''...تو پاکستان کے ساتھ ہماری گفتگو کا ابتدائی محور یہ تھا کہ کس طرح یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ دہشت گردوں کو اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ وہ (پاکستان کے)علاقوں پر قبضہ کر لیں...پس انہوں نے بھارتی سرحد سے فوجوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا اور پاکستانی طالبان کو اپنا ہدف بنا لیا‘‘۔ سٹریٹیجکسطح پر اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بھارت مضبوط ہوا کیونکہ ہماری توجہ اب دو محاذوں پر بٹ گئی ، اورکشمیر جو ہماری شہ رگ ہے اُس سے ہماری توجہ ہٹ گئی۔ امریکی ہدایات پر کیے جانے والے فیصلے کے نتیجے میں ہماری مسلح افواج اپنی سرحدوں کے اندر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانے لگیں، جس کے نتیجے میں آپ کی اپنی صفوں میں رخنے پیدا ہونے شروع ہو گئے ۔ آپ کئی مخلص فوجی افسران سے محروم ہو گئے جنہوں نے قبائلی علاقوں میں لڑنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ اس لڑائی میں مارے جانے والے افسر اور فوجی جوان اس کے علاوہ ہیں۔ علاوہ ازیں کیا اس کے نتیجے میں فوج کے اندر دھڑے بندی پیدانہیں ہوئی ،کیا فوج امریکہ نواز اور اسلام پسند دھڑے میں تقسیم نہیں ہوگئی ؟ اور وہ آفیسرز جو خطے میں امریکہ نواز پالیسیوں کی حمایت کے لیے تیار تھے انہیں پروموٹ(Promote) کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس نے اس دھڑے بندی کو مزید بڑھا دیا۔ یوں وہ مسلح افواج کہ جن کی ویژن (vision)مشرقی اور مغربی سرحدوں سے کہیں آگے تھی، جنہوں نے بھارت اورر وس کی راہ روکے رکھی،اب اس فتنے کی تباہ کن جنگ میں اپنی ہی آبادی سے لڑ رہی ہیں۔ تو اے معزز افسران،آپ کیونکر خاموش تھے جبکہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پاکستان اور مسلح افواج کو کمزور کیاجا رہا تھا؟!


اورکیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ آپ کی سرزمین پر ڈرون حملے کرے ،جس کا واضح مقصد قبائلی علاقوں میں بے چینی پیدا کرنا ہے؟ یہ غداری اتنی سنگین تھی کہ ڈرون طیارے بلوچستان میں ہماری ہی شمسی ائیر بیس سے اُڑ رہے تھے جبکہ ہمارے حکمران عوامی سطح پر اس کی مذمت کر رہے تھے۔ اوریہ غداری اس وقت بے نقاب ہو گئی جب 13فروری 2009ء کو امریکی انٹیلی جنس کمیٹی کی چےئر وُومینSen Dianne Feinsteinنے واضح طور پر بیان کیا کہ امریکی ڈرون طیارے پاکستان کی شمسی ائیر بیس سے اُڑ رہے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارا کرتا ہے کہ جنرل کیانی امریکہ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور وہ نہ صرف امت کو بلکہ آپ سب کو دھوکہ دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ کیانی نے امریکہ سے ڈرون حملوں میں اضافہ کرنے کے لیے بھی کہا۔ 11فروری2008کو اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کوایک کیبل بھیجی گئی، جو کہ 22جنوری2008کویو ایس سینٹ کام (USCENTCOM)کے ایڈمرل ولیم جے فیلن اور کیانی کے درمیان خفیہ ملاقات کے متعلق تھی، جس میں بیان کیا گیا تھا:''وزیرستان کی صورتِ حال کے متعلق کیانی نے پوچھا کہ کیا فیلن اس معاملے میں مدد کر سکتا ہے کہ وہ علاقہ جہاں لڑائی ہو رہی ہے، وہاں پر لگاتار ڈرون حملوں کی سہولت مہیا کی جائے‘‘۔ ڈرون طیارے ہماری سرزمین سے ہماری قیادت کی اجازت سے اُڑ رہے ہیں اور ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم انہیں گرانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ ڈرون حملے قبائلی سرداروں کے ساتھ ہمارے امن معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کا باعث بنے ہیں۔


اور کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ پاکستان میں اپنا علیحدہ خودمختار انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کرلے ، جو سی آئی اے کے ایجنٹوں اور بلیک واٹر کے کرائے کے قاتلوں پر مشتمل ہے۔ امریکی سی آئی اے اب فخر سے کہتی ہے کہ اب ہمیں آئی ایس آئی کی ضرورت نہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کو یہ معلوم نہ تھا ، کیونکہ لاتعداد عوامی جریدوں اور اخبارات میں اس کے متعلق آرٹیکل شائع ہوئے جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ یہ امریکی کرائے کے قاتل نہ صرف ہمارے شہریوں کو قتل کر رہے ہیں بلکہ بنیادی امر یہ ہے کہ وہ ہمارے حساس ترین مقامات اور اثاثہ جات کے متعلق انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ اگر مشرف، کیانی اور شجاع پاشا نے اس پر آنکھیں بند کیے رکھیں، تو آپ نے اپنا اٹھایا ہواحلف پورا کیوں نہ کیا اور انہیں رُکنے پر مجبورکیوں نہ کیا؟


کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے ریمنڈ ڈیوس جیسے بلیک واٹر کے کنٹریکٹروں کو اس بات کی اجازت فراہم کی کہ وہ سکولوں، مساجد، مارکیٹوں اور جھوٹے فلیگ حملوں(false flag attack)میں بم دھماکے اور قتل و خونریزی کروائیں، جیسا کہ امریکیوں نے عراق، افغانستان اور لاطینی امریکہ میں کیا تھا؟ پس بے گناہ شہری ان حملوں میں قتل ہوتے رہے اور آپ نے چپ سادھے رکھی ، جبکہ حقیقی مجرم امریکی کنٹریکٹرز کو کھلا ہاتھ فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا بھیانک کھیل جاری رکھیں۔


کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو حراست کے دوران تحفظ فراہم کیا اور پھر اسے رہا کرنے کی اجازت دی؟ اور بجائے یہ کہ اس واقعہ کو امریکی کارندوں کو پاکستان سے بے دخل کرنے اور امریکہ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے خاتمے کے لیے استعما ل کیا جاتا، ریمنڈ ڈیوس کورہا کردیا گیا۔ اور امریکہ نے اگلے ہی دن پاکستان پر ڈرون حملہ کر کے پاکستان کا شکریہ ادا کیا، جبکہ شجاع پاشا نے شکریے کے طور پر مزید87امریکی کارندوں کو ویزا فراہم کرنے پر امریکہ سے اتفاق کیا۔


کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے پاکستان کی سرزمین پر دنیا کی سب سے بڑی امریکی ایمبیسی کے قیام کی اجازت فراہم کی؟ جبکہ عراق میں ایسی ہی سہولت حاصل کرنے کے لیے امریکہ کو بہت بڑی جنگ لڑنا پڑی اور اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑے ، دوسری طرف آپ کی قیادت ہے کہ جس نے مزاحمت میں کوئی گولی چلائے بغیر ہی امریکہ کو یہ سہولت عطا کر دی۔ اگر امریکہ ایک بڑی سفارتی موجودگی کے بغیر ہی پاکستان میں یہ تمام تباہیاں لارہا ہے اور پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اُڑارہا ہے تو پاکستان میں امریکہ کی سب سے بڑی ایمبیسی کا قیام کیا گُل کھلائے گا، جبکہ پوری دنیا میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ امریکی ایمبیسیاں دراصل امریکی مداخلت کے لیے لانچنگ پیڈ کا کام کرتی ہیں؟ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی خاموشی پاکستان اور اس کی افواج کو کمزور کرنے کا باعث نہیں بنی؟


کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی قیادت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ ہمارے F-16طیاروں پر اپنا کنٹرول قائم کر لے؟ یہ بات معروف ہے کہ امریکہ نے F-16طیارے اپنے اہلکاروں اور الیکٹرانک کوڈز (codes)کے ساتھ مہیا کیے ہیں ، یوں پاکستانی ائیر فورس انہیں اس وقت تک استعمال نہیں کر سکتی جب تک امریکہ یہ کوڈز مہیا نہ کرے۔ پس طیاروں کواَپ گریڈ کرنے کی آڑ میں آپ کی قیادت نے ان طیاروں کو پاکستان کی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے ناکارہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی خاموشی نے پاکستان اور پاکستانی افواج کو کمزور نہیں کیا؟

 

کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب امریکہ نے آئی ایس آئی کے خلاف اپنی مہم شروع کی کیونکہ امریکہ کے نزدیک آئی ایس آئی تیسرے فریق کے ذریعے امریکہ کے خلاف جنگ (Proxy war)کر رہی ہے جسے اب امریکہ روکنا چاہتا ہے؟ آئی ایس آئی جو کہ کسی زمانے میں روس اور بھارت کے گھٹنے ٹیکنے پر قادر تھی،آج امریکہ اسے کھلم کھلا نشانہ بنا رہا ہے اور اسے مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے سٹریٹیجک اتحادیوں کو امریکہ کے حوالے کر دے تاکہ اوباما انتظامیہ آئندہ الیکشن جیت سکے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی خاموشی نے پاکستان اور اس کی افواج کو کمزور نہیں کیا ہے؟


ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے کہ پاکستان سے گزرنے والی' یو ایس /نیٹو‘سپلائی لائن کو کاٹ دینے سے امریکہ کی صلاحیت مفلوج ہو جائے گی کہ وہ افغانستان میں فوجی آپریشن جاری رکھ سکے اور پاکستان کی سرزمین پر اپنے بدنام زمانہ ڈرون حملوں کا تسلسل برقرار رکھ سکے ۔ توکیا یہ درست نہیں کہ اس معاملے پر آپ کی خاموشی نے افغانستان اور پاکستان میں امریکہ اور نیٹوکے کرائے کے قاتلوں کو زندگی کی ضمانت فراہم کر رکھی ہے؟


علاوہ ازیں آج صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں موجود اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک، اپنے فوجی اہلکاروں اور پرائیویٹ فوجی کنٹریکٹر زکے ذریعے پاکستان کے ہر گوشے تک رسائی حاصل ہو گئی ہے اور وہ حسبِ خواہش ہمارے فوجی طیارے استعمال کر سکتا ہے۔ اس امر نے امریکہ کو اس بات پر مکمل دسترس فراہم کر دی ہے کہ وہ پاکستان کے اندر یا باہر کوئی بھی آپریشن سرانجام دے۔ تاہم جب امریکہ نے ایبٹ آباد میں حملہ کیا تو کیانی نے لاعلمی و حیرت کا اظہار کیا! اِس تمام کے بعد بھی کیاآپ نہیں دیکھتے کہ یہ آپکی خاموشی ہی ہے جس نے امریکہ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ آپ کی غدار قیادت کے ذریعے پاکستان اور اس کے مضبوط ترین ادارے یعنی مسلح افواج کوکمزور کرے؟


اور کیا یہ درست نہیں کہ آپ اس وقت بھی خاموش رہے جب آپ کی حکومت نے آپ کی فوجی قیادت کے ذریعے حزب التحریرکے ممبران کو قید،ہراساں اور تشدد کرنے کی مہم شروع کی۔ ان کا جرم محض یہی تھا کہ مندرجہ بالا غداریوں کا سدِباب کیا جائے ،جس کے لیے وہ اس حکومت کو ہٹانے کے لیے کوشاں تھے جو کفریہ قوانین کے ذریعے حکمرانی کر رہی ہے،پاکستانی حکومت جو اسلام کو نظام اور طرزِ زندگی کے طور پر تسلیم نہیں کرتی اورجو محمد بن قاسم کے بیٹوں کو کشمیر کو آزاد کرانے، بھارت کو دوبارہ اسلامی حکمرانی کے تحت لانے اور امتِ مسلمہ کو ایک خلیفہ کے تحت وحدت بخشنے سے روک رہی ہے۔


معزز برادرانِ اسلام!


یہ محض فطری بات ہے کہ ایک مخلص شخص رکاوٹوں پر سوچ بچار کرتا ہے تاکہ انہیں دُور کیا جائے جبکہ غیر مخلص شخص بہانے بناتا ہے۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ کہیں گے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے کمزور ہے، ان سے ہم یہ کہتے ہیں کہ کیا یہ ہمارے اوپر نافذ پالیسیاں ہی نہیں کہ جنہوں نے ہمیں کمزور بنا رکھا ہے؟ کئی معاشی رپورٹیں یہ بیان کرتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری معیشت کو 68ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان پہنچا چکی ہے۔ شاہد جاوید برکی نے Woodrow Wilson Centreکے لیے جو سٹڈی سرانجام دی ، اس کے مطابق:''اگر امریکہ کی غیر فوجی امداد کو مکمل طور پر روک دیا جائے تو پاکستان کے GDPمیں اضافے پر اس اقدام کا اثر محض 0.14فیصد ہو گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال کیا ہے۔ پاکستان کے چاغی اور ریکو ڈِ ک کے علاقے میں موجودتانبے کا ذخیرہ دنیا میں پانچواں سب سے بڑا ذخیرہ ہے جبکہ یہاں موجود سونے کے ذخائر کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر ہے۔ اسی طرح تھر کے علاقے میں موجود کوئلے کا ذخیرہ دنیا کے وسیع ترین ذخائر میں سے ایک ہے،جس کا اندازہ 175بلین ٹن ہے ۔ پاکستان کے ثابت شدہ گیس کے ذخائر25.1ٹریلین کیوبک فٹ ہیں۔ پاکستان میں زرخیز زرعی زمین کی کوئی کمی نہیں، 2005میں پاکستان نے 21ملین میٹرک ٹن سے زیادہ گندم پیدا کی ،جو پورے افریقہ کی گندم کی پیداوار(20ملین)سے زیادہ اور پورے لاطینی امریکہ کی گندم کی پیداوار (24ملین)کے برابر ہے۔ پاکستان زرعی پیداوار کے لحاظ سے پوری دنیا میں 12ویں نمبر پر ہے، اسکی زمینیں ہر سال 32بلین ڈالر کا غلہ اُگلتی ہیں۔ اے برادرانِ اسلام! یاد رکھیں،معاشی قوت کا تعلق پالیسی اور ویژن سے ہے نہ کہ ذرائع کی کمی سے۔


جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے ، جو کہتے ہیں کہ امریکہ فوجی لحاظ سے بہت مضبوط ہے جبکہ ہم کمزور ہیں، اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ ہم امریکی ڈکٹیشن پر عمل کریں۔ آپ میں سے جو واقعی ایسا سمجھتے ہیں، ہم اُن سے کہتے ہیں: پاکستانی فوج دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوج ہے اور ایک مستحکم ایٹمی طاقت کی حامل ہے اور جدید میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ہے،جس میں اس علاقے میں امریکی فوجی موجودگی کو بے اثر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور یہاں سوال یہ نہیں کہ کیا امریکہ یہ دھچکا سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس وقت کہ جب اس کی فوج اپنی استطاعت سے زیادہ پھیل چکی ہے اور امریکہ کی اپنی رائے عامہ امریکی افواج کی واپسی کے حق میں ہے اور امریکی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے، کیا اس وقت امریکہ ایسے نقصان کے لیے تیار ہے جو پاکستانی افواج اسے پہنچا سکتی ہیں؟ خلیج کی دوسری جنگ میں ترکی کی افواج نے شمال کی طرف سے امریکہ کوجنگی دہانا مہیا کرنے سے انکار کر دیا تو کیا امریکہ نے بمباری کرکے ترکی کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا، اورکیا امریکہ ایسا کر بھی سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ 11مارچ 2009ء کو چیئرمین امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن سمیت اوبامہ انتظامیہ کے اہم عہدیداروں کے سامنے اپنی پری زینٹیشن کے دوران 'افغانستان اِنٹر ایجنسی پالیسی ریویو‘کے چیئرمین بروس رِڈل نے کہا کہ ہم نے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی انتہائی آپشن کو بھی سامنے رکھا اور ظاہر ہے کہ اِس آپشن کو فوراً مسترد کردیا کیونکہ ایک ایسے ملک پر حملہ کرنا جس کے پاس درجنوں ایٹمی ہتھیار ہوں پاگل پن سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اور اس پر سب نے اتفاق کیا‘۔ امریکہ کی کمزوری اس بات سے بھی عیاں ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کی فضاؤں، زمینی راستے ، ایندھن کی ترسیل اور انٹیلی جنس شےئرنگ کی ضرورت ہے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ مضبوط ہے؟ اور افغانستان میں دس سال جنگ لڑنے کے بعد بھی امریکیوں کو حقانی اور افغان طالبان سے ڈِیل کرنے کے لیے آپ کے سیاسی اثر رسوخ کی ضرورت ہے، تاکہ اوباما انتظامیہ اور امریکہ افغانستان کی دلدل سے نکل سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

إِنَّمَا ذَلِكُمْ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِي إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

''یہ شیطان ہی ہے جو کہ اپنے دوستوں سے تمہیں ڈراتا ہے، مگر تم ان سے مت ڈرو اورمجھ ہی سے ڈرو ،اگر تم مومن ہو‘‘(اٰل عمرٰن:175)


جہاں تک پاکستان کے سٹریٹیجک محل وقوع کا تعلق ہے،تو روس اور چین کی راہ روکنے کے لیے امریکہ کے یوریشیا(Eurasia) میں داخلے کا تمام تر دارومدار پاکستان پر ہے ، کیونکہ پاکستان کی حیثیت وسط ایشیائی ریاستوں کے دروازے کی سی ہے۔ علاوہ ازیں شمال میں وسط ایشیائی ریاستوں سے اورجنوب میں آبنائے ہرمز سے، گزرنے والے مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی محفوظ ترسیل کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستانی ریاست امریکہ کے سامنے ایک نرم اور اطاعت گزار ریاست ہو۔ آج ہمیں جس کی ضرورت ہے وہ ایک مخلص قیادت ہے جو پاکستان کے سٹر یٹیجک محلِ وقوع اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کو سرحدوں سے باہر تک پھیلا دے اور خطے میں امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی بجائے امت کے مفادات کا تحفظ کرے۔


جہاں تک آپ میں سے اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ کرگزرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ خلافت کے قیام کی کوشش ان کے دنیاوی مفادات کے کھوجانے کا باعث بن سکتی ہے ، وہ مفادات جو انہوں نے اِس ادارے کے ذریعے حاصل کیے ہیں یا اپنی ریٹائرمنٹ پر حاصل کریں گے ؛توہم ان سے کہتے ہیں کہ کیاآپ لوگوں کے لیے کرپٹ حکمرانوں کو ہٹانے کی اہمیت کہ جو امت کی موجودہ ابتر صورتِ حال ،خونریزی اورپاکستان اور اس کی افواج کی تباہی کی وجہ ہیں ،ان حکمرانوں کی طرف سے مہیا کیے گئے مادی مفادات سے بھی کم ہے؟ وہ مادی مفادات کہ جنہیں آپ لوگوں کی وفاداری کو خریدنے اور برقرار رکھنے کے لیے سستی رشوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید آپ کے دلوں میں اس وقت اللہ کا خوف امڈ آئے گا جب آپ یہ جان جائیں گے کہ آپ جو کچھ بھی کر لیں،ایک دن آپ نے لازماً اپنی قبر میں اترنا ہے۔ اور آپ کو اپنا مال و دولت،زمین و جائیداد اور باغات سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا ہو گا:


( کَمْ تَرَ کُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ o وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْھَا فٰکِھِیْنَ o کَذٰ لِکَ قف وَاَوْرَثْنٰھَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ o فَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ
)
''وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے ۔ اور آرام کی وہ چیزیں جن میں وہ عیش کر رہے تھے ۔ اسی طرح ہوا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا ۔ سو نہ تو ان پر آسمان رویا اور نہ ہی زمین ، اور نہ ہی انہیں مہلت ملی‘‘(الدخان:25تا29)


محترم برادرانِ اسلام!


گذشتہ سالوں کے دوران ہم بے شمار پمفلٹوں اور پریس ریلیزوں کے ذریعے آپ کو خبردار کر چکے ہیں ،جن سے آپ بخوبی آگاہ ہیں، اس حد تک کہ آپ ہمارے نشر کر دہ پمفلٹوں اور پریس ریلیزوں کے ہر جملے اور لفظ پر نظر رکھتے ہیں۔ دس سال قبل آپ نے ہماری اس وارننگ کو نظر انداز کر دیا تھا جب ہم نے اپنے پمفلٹوں کے ذریعے آپ کو بتایا تھا کہ آپ کی غدار قیادت مشرقی اور مغربی سرحدوں کے متعلق پالیسی کو اُلٹے رخ تبدیل کرنے کی اجازت دینے جا رہی ہے ۔ دس سال قبل آپ نے ہماری اس وارننگ کوبھی نظر انداز کر دیا تھاجب ہم نے آپ کو خبردار کیا تھا کہ آپ کی غدار قیادت پاکستان کی سرزمین پر امریکی انٹیلی جنس کارندوں کو کھلم کھلا کام کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ پانچ سال قبل آپ نے ہماری اس وارننگ کو نظر انداز کر دیا جب ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ کی غدار قیادت نے ڈرون حملوں کی خفیہ طور پر اجازت دے دی ہے جبکہ عوام کے سامنے وہ ان حملوں کی مذمت کرتی ہے۔ اور ایک سال قبل آپ نے ہماری وارننگ پر کان نہیں دھرا کہ امریکہ ہمارے شہروں میں یک طرفہ کاروائی کی صلاحیت رکھتا ہے ،جیسا کہ پھر ایبٹ آباد حملے میں ظاہر ہوگیا۔


توکیا آپ آج ہماری وارننگ پر دھیان نہیں دیں گے جب ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں آپ کی غدار قیادت ہمارے ایٹمی اثاثے امریکہ کے حوالے کر دے گی؟ تو اگر ایک دن امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کو کنٹرول میں لینے کے لیے یک طرفہ کاروائی کا آغاز کیا ،جبکہ کیانی پہلے ہی امریکیوں کو ایسی یک طرفہ کاروائیوں کے قابل بنا چکا ہے، تو کیا آپ ایک مرتبہ پھر خاموش رہیں گے اور حیرت ظاہر کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے؟ اور کیا آپ ہماری اس وارننگ پر دھیان نہیں دیں گے کہ امریکہ نے کیانی اور شجاع پاشا کے ساتھ مل کر شہرِکراچی کو خون میں نہلا دیا ہے تاکہ امریکہ کی جنگ کو پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے شہر تک پھیلا دیا جائے ، اور پاکستانی افواج کے لیے ایک اور دہانا کھول دیا جائے۔ اور اگر ایک دن اس جنگ کو ملتان یا اس سے بھی آگے تک پھیلا دیا گیا تو کیا تب بھی آپ حیرت کا اظہار کریں گے اورچُپ سادھے رکھیں گے؟


آپ کے لیے ہرگزجائز نہیں کہ آپ خاموشی اختیار کیے رکھیں جبکہ آپ کی زبانوں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ آپ اس ملک اور اس ملک کے مسلمانوں کا تحفظ کریں گے۔ تو کیا آپ اس عہد کو توڑنے کے جرم کے مرتکب نہیں ہورہے؟ ہم جانتے ہیں اور آپ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ آپ کے درمیان ایسے مخلص عناصر موجود ہیں ،جنہوں نے اپنی ذمہ داری اور فرض کو پہچانا اور امریکی غلامی کے خلاف آواز بلند کی اور انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا اور انہیں افواجِ پاکستان سے بے دخل کر دیا گیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنا فرض پورا کیا بلکہ وہ قیامت کے دن آپ کے گناہوں سے بھی بری ہوں گے۔ لیکن اے بھائیو! آپ اُس بھاری دن اللہ کے سامنے کیا عذر پیش کریں گے؟


محترم برادرانِ اسلام!


حل واضح ہے کہ آپ ان کرپٹ اور سیکولر حکمرانوں اور اس کفریہ استعماری نظام کو اُکھاڑنے اوران کی جگہ خلافت کے قیام کے ذریعے اللہ کے قوانین کو نافذ کرنے میں ہمارے ساتھ مل کر اور ہمارے ذریعے کام کریں۔ خلافت کے ذریعے ہی آپ اس قابل ہوں گے کہ آپ امتِ مسلمہ کو وحدت بخشیں، لوگوں کے حقوق کو پورا کریں ، دولت کی عادلانہ تقسیم قائم کریں اور افواج کو واپس ان کے بنیادی کام کی طرف لائیں کہ وہ مسلمانوں کی جان اور عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور خطے سے بیرونی تسلط کا خاتمہ کرے۔ خلافت کا قیام آپ پر فرض ہے اور اگر آپ نے اس فرض کو پورا کیا تو ربِ کائنات کی رضامندی آپ کی منتظر ہے، جس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اور اگر آپ نے دیر کی اور منہ پھیرا تو تمام امت قیامت کے دن آپ کے خلاف گواہی دے گی کیونکہ آپ نے امت کے مسائل کے حل سے رُوگردانی کی۔


ہم جانتے ہیں کہ آپ میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے سامنے معاملے کی سچائی واضح ہے اور جن کے دل اس بات پر اللہ کے خوف سے لرزتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرض سے کوتاہی برتی ہے۔ ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ اے محترم بھائیو، ہم یہاں آپ کے درمیان پہلے سے ہی موجود ہیں، آپ اپنی صفوں میں نگاہ دوڑائیں،آپ ہمیں پا لیں گے۔ اور یہ کہ اللہ پر ہی توکل کریں ، وہ آپ کے لیے کافی ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:


(يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ)
''اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہا ری مدد کریگااور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘(محمد:7)


اور اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے صالح اعمال کیے ہیں کہ وہ ان کے ذریعے خلافت قائم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لاَ يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْفَاسِقُونَ

''وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال اختیار کئے ہیں،اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں لازماً حکمرانی عطا کرے گا،جیسا کہ اُس نے اُن کو حکمرانی عطاکی تھی جو ان سے قبل تھے،اور اُن کیلئے لازماً ان کے اِس دین کو محکم کر کے جما دے گا، جسے اس نے ان کیلئے پسند کیا ہے،اورضرور ان کی خوف کی حالت کوامن و بے خوفی سے بدل دے گا۔ وہ میری بندگی کریں گے،اورمیرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے،اور جو کوئی اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق
ہیں‘‘(النور:55)


اوررسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:


((عصابتان من امتی احرز ھما اﷲ من النار عصابۃ تغزو الھند، وعصابۃ تکون مع عیسی بن مریم علیہما السلام))
''میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ آگ سے بچائے گا؛ ایک وہ گروہ جو ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم ؑ کے ساتھ ہوگا‘‘۔(النسائی و احمد)


اور ابوہریرۃؓ نے روایت کیا:


(( وعدنا رسول اﷲ ﷺغزوۃ الھند، فإن ادرکتھا انفق نفسی ومالی، وان قتلت کنت افضل الشہداء، و ان رجعت فانا ابوھریرۃ المحرر))
''رسول اﷲ ا نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا، اگر میں اُس وقت موجود ہوا تو میں اپنا مال اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا۔ اگر میں قتل کیا جاؤ ں تو میں افضل شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ واپس لوٹا تو (گناہوں سے)آزاد ہونگا‘‘۔(النسائی، احمد ، الحاکم)


یہ دو احادیث آپ کے غور کرنے کے لیے ہیں اور آپ کو ان احادیث میں موجود بشارتوں کو حاصل کرنے کی تمنا کرنی چاہیے۔ ان بشارتوں کے حصول کا راستہ یہی ہے کہ آپ حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں ، کیونکہ خلافت کے علاوہ اور کون ہے جو ان اعلیٰ افواج کو ہند کی فتح کی طرف لے جائے گا۔ پس آپ جان لیں کہ اللہ نے ان تمام گناہوں کی بخشش کا راستہ بھی آپ کو دکھا دیا ہے جو آپ نے ان غداریوں پر خاموش رہ کر جمع کر لیے ہیں۔


اے اللہ گواہ رہنا کہ ہم نے پیغام پہنچا دیا!

Read more...

رمضان 1432ھ اعلامیہ ''خلافت- دنیا کی قیادت کرنے والی ریاست کا قیام قریب ہے‘‘

 

حزب التحریر ولایہ پاکستان کے زیراہتمام اِس سال رمضان کے دوران پاکستان بھر میں اجتماعات کا اہتمام کیا گیا۔ اِن اجتماعات میں دو اہم موضوعات پر بات کی گئی اوّل ''خلافت ہی وہ ریاست ہے جو دنیا کی قیادت کرسکتی ہے‘‘ اور دوسرا '' خلافت کا وقت آن پہنچاہے‘‘۔ مندرجہ ذیل اعلامیہ اِن اجتماعات میں تقسیم کیا گیا:


1: موجودہ حکمران مسلمانوں سے دستبردار ہو چکے ہیں:
اپنے بے پناہ وسائل اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ پر اپنے عظیم تر ایمان کے باوجود، امت مسلمہ کو اپنی سرزمینوں پر استعماری منصوبوں کا سامنا ہے اور وہ معاشی تنگدستی، جانوں کے ضیاع ، اپنے دین پر حملے اور اپنی سرزمینوں پر قبضوں کی صورت میں شدیدتباہی وبربادی اور تکلیف کا سامنا کررہی ہے۔ فوجی اور سیاسی قیادت میں موجود غداروں نے اپنے حقیر ذاتی مفاد کے حصول کے لیے، آمریت اور جمہوریت کے نفاذ کے ذریعے امتِ مسلمہ کو اللہ کی طرف سے عطا کی گئی رحمتوں کو زحمتوں میں بدل دیا ہے ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


(أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَأَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ0جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِءْسَ الْقَرَارُ)
''کیا تم نے اِن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں اتارا۔ وہ دوزخ جس میں یہ لوگ داخل ہونگے اور وہ برا ٹھکانہ ہے‘‘ (ابراہیم:28-29)


2: ریاستِ خلافت تمام بنی نوع انسان کے لیے دنیا کی قیادت کرنے والی ریاست ہوگی:
ماضی میں خلافت صدیوں تک دنیا کی قیادت کرنے والی واحد ریاست رہی ہے اور کوئی اور ملک اُس کا ہم پلہ نہ تھا۔ اِس ریاست نے مسلمانوں کے بے پناہ وسائل کو ایک واحد ریاستِ خلافت کی شکل میں مجتمع کررکھا تھا، وہ ریاست جو تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اُس ریاستِ خلافت نے دنیا کی سیاست کو انصاف اور تقویٰ کی بنیاد پر ایک نیا رُخ دیا اور یہ ریاست دنیا کی قوموں کے لیے قابلِ رشک تھی۔ مسلمانوں کا یہی انصاف دنیا میں اسلام کے لیے رستے کھولتا گیا اور لوگ گروہ در گروہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہونے لگے۔ اوراگرچہ تاتاریوں اور صلیبیوں کی مضبوط فوجوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی سرزمینیں مقبوضہ بھی بنیں، تاہم مسلمانوں نے اُن کے ظلم کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور آخر کار اُن کے قبضوں کو ختم کرکے دم لیا۔ بالکل اِسی طرح آنے والی ریاستِ خلافت اِس بات کو یقینی بنائے گی کہ اسلام ایک بار پھر ناصرف مسلمانوں بلکہ رنگ، نسل یا مذہب سے قطع نظر ساری دنیا کے لوگوں کے لیے رحمت بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
''اور ہم نے آپ(ﷺ) کو سارے جہان کے لیے رحمت بناکربھیجا ہے ۔‘‘ (الانبیاء:107)


3: خلافت کا سورج اب طلوع ہونے کوہے:
خلافت کا قیام اب پاکستان کے مسلمانوں سمیت ساری امتِ مسلمہ کا مطالبہ بن چکا ہے۔ مسلمان کرپٹ اور تعفن زدہ جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کی حقیقت کو جان چکے ہیں اور ریاستِ خلافت کے ذریعے اسلام کے نفاذ کی خواہش ان کے دلوں میں جاگزیں ہو چکی ہے۔ مزید برآں رسول اللہ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو بشارت دی ہے کہ ظلم کی حکمرانی کے بعد خلافت دوبارا قائم ہو گی۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:


((ثم تکون ملکا جبریۃ فتکون ماشاء اللّٰہ ان تکون ثم یرفعھا اذا شاء ان یرفعھا ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ))
''پھر ظلم کی حکمرانی ہوگی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا اور جب اللہ چاہے گا اِس کا خاتمہ ہوجائے گا، پھر نبوت کے نقشِ قدم پر دوباراخلافت قائم ہوگی ۔‘‘(مسنداحمد)
مزید برآں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مومنین سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اُنہیں حکمرانی عطا کرے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ
''اللہ تم میں سے اُن لوگوں سے وعدہ فرما چکا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، کہ انہیں ضرور زمین میں اِن حکمرانوں کی بجائے حاکم بنائے گا جیسے کہ اُن لوگوں کوحاکم بنایا جوان سے پہلے تھے ‘‘(النور:55)


4: ظالم حکمران، خلافت کے قیام کو روکنے کی کوششوں میں ناکام ہی رہیں گے:
موجودہ حکمران اور اُن کے استعماری آقا اِس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ اسلامی ریاست کا قیام قریب ہے، اِسی لیے اُنہوں نے ایذارسانیوں، اغواء اور تشدد کے ذریعے خلافت کی پکار کے داعیوں کے خلافت اپنی کاروائیاں تیز کردی ہیں۔ اِن کاروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ خیر کی طرف دعوت کو ہمیشہ ظالموں کے ظلم کا سامنا رہا ہے۔ بے شک تمام پیغمبروں، خاتم النبین محمد ﷺ ، آپ کے صحابہؓ اور وہ لوگ جنہوں میں اچھائی اُن کی پیروی کی، سب کو ایسے ہی ظلم کا سامنا رہا ہے۔ اِسی لیے ظالموں کو جان لینا چاہیے کہ اُن کو ہمیشہ ناکامی کا ہی سامنا رہے گا جیسا کہ تمام ادوار میں قطع نظر اُن کے ماضی، حال یا مستقبل کے حربوں کے اُنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


( وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ)
''اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ گرنے والے ہیں‘‘ (الشعراء:227)


5: مسلمان مسلح افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں:
امتِ مسلمہ پوری جانفشانی اور قربانیوں کے ساتھ، اسلام کی خاطر شام سے لے کر پاکستان تک اور پاکستان سے لے کر انڈونیشیا تک بیدار ہوچکی ہے۔ وہ اُمتِ مسلمہ جو اپنے لوگوں کی شہادتوں کو نقصان نہیں گردانتی بلکہ سمجھتی ہے کہ یہ شہید کامیابی میں سب سے آگے نکل چکے ہیں۔ جبکہ کافر دشمن دن رات سازشیں تیار کررہے ہیں اوراسلام اور مسلمانوں کے خلاف اِن سازشوں کی تیاری میں وہ پاکستان کی غدار قیادت کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنیدکرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج میں موجود مخلص افسران آگے بڑھیں اور تاریخ کا رُخ ایک بار پھر اسلام کے حق میں پھیر دیں۔ مسلح افواج کے پاس یہ قابلیت موجود ہے کہ وہ گھنٹوں کے اندر اتھارٹی کو تبدیل کرسکتے ہیں اور ظالم حکمرانی کا خاتمہ کر سکتے ہیں، پس ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے ہوئے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے، خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں:


(يا أيها الذين ءامنوا إِنْ تَنْصُروا اللّـهَ يَنْصُرْكم ويثبِّتْ أقْدامَكم )
''اے اہل ایمان اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہا ری مدد کریگااور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔‘‘(محمد:7)

Read more...

لیبیا کے جابر کا خاتمہ مبارک

 

حزب التحریر لیبیا، اس ملک کے جابر حکمران کرنل قذافی کے گرنے پر تمام امتِ مسلمہ کو عام طور پر اور لیبیا کے مسلمانوں کو خاص طور پرمبارک باد پیش کرتی ہے۔


( کَمْ تَرَ کُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ o وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْھَا فٰکِھِیْنَ o کَذٰ لِکَ قف وَاَوْرَثْنٰھَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ o فَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ)
''وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے ۔ اور آرام کی وہ چیزیں جن میں وہ عیش کر رہے تھے ۔ اسی طرح ہوا ،اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا ۔ سو نہ تو ان پر آسمان رویا اور نہ ہی زمین ، اور نہ ہی انہیں مہلت ملی‘‘(الدخان: 25-29)


حزب التحریر لیبیا مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے انہیں شہداء کی اُس فہرست کی یاد دلاتی ہے ، کہ جس کا پہلا دستہ حزب التحریر کے وہ 13شہید تھے جنہیں جابر قذافی نے تیس سال قبل اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھااوراس کا آخری دستہ وہ شہدا ہیں جو جابر حکمران کے خلاف کھڑی ہونے والی مزاحمت میں اس سال نشانہ بنے۔


لیبیا کے جابر حکمران اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں بہنے والا خون اور اس کے نتیجے میں لوگوں کوحاصل ہونے والی فتح اللہ کی عظمت کو ہی بیان کرتے ہیں۔


حزب التحریر لیبیا مبارک باد کے ساتھ ساتھ اس بات کو بیان کر دینا چاہتی ہے کہ اس کا ہدف یہ ہے کہ جابر قذافی کے دورِ حکومت کے خاتمے کے بعداب اللہ کے حکم کو نافذ کیا جائے، نہ کہ انسانوں کے بنائے ہوئے وہ نظام جنہیں امریکہ اور یورپ اور اس کے ایجنٹ، قذافی کے بعد نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


حزب اس ہدف کو حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرے گی ،اور وہ اپنی اس کوشش میں اللہ ہی پر بھروسہ کرتی ہے اور لیبیا کے مخلص مسلمانوں پر انحصارکرتی ہے۔


(وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِيٌّ عَزِیْزٌ)
''اور جو اللہ (کے دین) کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا ، بے شک اللہ بڑی قوت اورغلبے والا ہے‘‘(الحج:40)

Read more...

اِس رمضان خلافت کے قیام کے لیے'' نُصْرَۃ ‘‘کو تلاش کرو

 

اے مسلمانانِ پاکستان! ہم حزب التحریر کے شباب آپ کو رمضان کی مبارک باد دیتے ہیں، جو تمام مہینوں میں سب سے زیادہ بابرکت مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جوغزوۂ بدر میں قریش کے خلاف فتح سے لے کر تاتاریوں کی شکست تک اور پھر صلیبیوں سے بیت المقدس کی آزادی تک،اسلامی ریاست کے تمام ادوار میں، مسلمانوں کی فتح کا مہینہ رہا ہے۔

 

ہم آپ سے مسلمان بھائی کی حیثیت سے مخاطب ہیں ، کہ آپ ایسی سرزمین پر بستے ہیں جو وسائل کے لحاظ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہم پلہ ہے۔ جس پر بسنے والے مسلمان دنیا کی چھٹی سب سے بڑی آبادی ہیں ،جس کا بڑا حصہ باصلاحیت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور جس کا رقبہ برطانیہ اور فرانس کے مجموعی رقبے کے قریب ہے اور یہ ملک دنیا کے انتہائی سٹریٹیجک مقام پر واقع ہے۔ اورجس میں توانائی اور معدنیا ت کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور جو زرعی صلاحیت کے لحاظ سے دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں سے ہے۔ اورجس کی فوج دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوج ہے ، جس کے پاس جنگیں لڑنے کا تجربہ اور ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اورجس فوج کا شہادت وفتح کا جذبہ دشمن فوج کے جنگی جذبے سے برتر و اعلیٰ ہے۔

 

اور ہم ایسے وقت میں آپ کو رمضان کی مبارک باد دے رہے ہیں جب امتِ مسلمہ کے دشمن پہلے سے کہیں زیادہ خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ امت اسلامی ریاستِ خلافت کے قیام کے ذریعے اپنی حقیقی طاقت کا ادراک نہ کر لے۔ جو اللہ کے اذن سے جلد قائم ہونے والی ہے۔


اے مسلمانانِ پاکستان! کئی سالوں سے امریکہ اس بات پر فکر مند ہے کہ خلافت کسی بھی مہینے پاکستان سے جنم لے سکتی ہے۔ مارچ 2009ء میں امریکی سینٹ کام(Centcom) کمانڈرز کے مشیرڈیوڈ کل کلن David Kilcullen نے اپنے بیان میں کہا:''پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی 173ملین ہے، اوراس کے پاس 100نیوکلےئر ہتھیار ہیں، اوراس کی فوج امریکہ کی فوج سے بڑی ہے...ہم ایسے نقطے پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم ایک سے چھ ماہ میں دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ناکام ہو جائے گی...انتہاء پسند اقتدار میں آجائیں گے...اور یہ ایسی صورتِ حال ہے کہ آج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اس خطرے کے سامنے کچھ بھی نہیں‘‘۔ اور نومبر 2009میں آرٹیکل:'' ہتھیاروں کی حفاظت-کیا غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیار محفوظ رکھے جا سکتے ہیں؟‘‘میں بیان کیا گیا: ''بنیادی خطرہ بغاوت کا ہے-کہ پاکستانی فوج کے اندر موجود انتہاء پسند تختہ الٹ دیں... اوباما انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے حزب التحریر کا تذکرہ کیا ...جس کا ہدف خلافت کا قیام ہے: یہ لوگ پاکستان کی فوج میں جڑیں بنا چکے ہیں اور فوج میں ان کے گروپ(cells) موجود ہیں۔ ‘‘

 

اورجہاں تک ہندو ریاست کا تعلق ہے، تو اسی مضمون میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی'را‘کے سینئر عہدیدارنے 16نومبر2009ء کو نیویورکرمیگزین میں کہا:''ہمیں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق ڈر ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ کہیں مولوی ملک پر قبضہ نہ کر لیں ۔ ہمیں پاکستان کی فوج میں موجود اُن اعلیٰ افسران سے خطرہ ہے جو خلافت پسند ہیں...کچھ لوگ جن کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیںیہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اسلامی فوج کی قیادت کریں ‘‘۔

 

بے شک آپ کے دشمن کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ۔ وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں خلافت قائم ہو اور پاکستان پورے عالمِ اسلام کو دنیا کی سب سے بڑی ریاست کی شکل میں وحدت بخشنے کے لیے نقطۂ آغاز بن جائے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

(مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ)

''کافراہلِ کتاب اور مشرکین نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے خیرو بھلائی نازل ہو۔ جبکہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے اپنی رحمت مخصوص کر لیتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘(البقرہ: 105)۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان! یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آپ کے دشمن خلافت کے عنقریب قائم ہونے پر خوفزدہ ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کے واقعے، ایبٹ آباد آپریشن، پی این ایس مہران پر حملے ، امریکی نگرانی میں مارکیٹوں اور مساجد میں بم دھماکوں اوراس کے علاوہ امریکہ کے اشاروں پر اٹھائے جانے والے بے شمار اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود غدار پہلے سے کہیں زیادہ بے نقاب ہو چکے ہیں ۔

 

یہ غدار امریکہ کے خلاف آپ لوگوں کے غیض و غضب کو محسوس کرتے ہوئے اپنے تخت و تاج کو بر قرار رکھنے کے لیے امریکہ سے دشمنی کا ڈرامہ رچا رہے ہیں اوریہ تأثر دیتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ تاہم اس تأثر کا مقصد آپ کو دھوکہ دینا اور آپ کے غصے کو کم کرنا ہے ، اور امریکہ کے مفادات کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر پردہ ڈالنا ہے۔ چنانچہ وہ شمالی وزیرستان کے حوالے سے امریکی مطالبات کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہوں نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے پیش خیمے کے طور پر ملحقہ کرم ایجنسی میں آپریشن شروع کر دیا ہے۔ یہ غدارظاہراً میڈیا میں یہ بیان دیتے ہیں کہ انہوں نے امریکی جاسوسوں کے لیے ویزے ختم کر دیے ہیں لیکن دوسری طرف انہوں نے خفیہ طور پر پاکستان میں''رجسٹرڈ‘‘ امریکی جاسوسوں کی مختصر فوج کی موجودگی کو برقرار رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ غدار کہتے ہیں کہ یہ امریکی جنگ ہماری جنگ ہے اور اسے ہم اپنے وسائل کے ساتھ کسی بیرونی مددکے بغیر لڑ رہے ہیں،جیسا کہ ISPRکے ترجمان نے 11جولائی 2011کو اپنے بیان میں کہا ۔ مگر 12جولائی کو پاکستان کے وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ اگر امریکیوں نے امداد بند کر دی تو پاکستان قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلا لے گا؛ جس نے اس بات کو واضح کردیا کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے جس میں ہماری فوج کو کرائے کی فوج کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

 

ان کا یہ جھوٹ اور فریب ملک کے طول و عرض میں پھیلی امریکی انٹیلی جنس اور فوج کی موجودگی اور قبائلی علاقوں میں امریکہ کی صلیبی جنگ پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے، کہ جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں اور کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں اور ہزاروں پاکستانی فوجی اور سویلین امریکی مفادات کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ان غدارو ں کو نہ تو آپ کی پرواہ ہے اور نہ ہی یہ آپ کے ساتھ مخلص ہیں ۔ آپ کے موجودہ قائدین بالکل ویسے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے بیان فرمایا:

 

((أَعَاذَكَ اللَّهُ مِنْ إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ قَالَ وَمَا إِمَارَةُ السُّفَهَاءِ قَالَ أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي لَا يَقْتَدُونَ بِهَدْيِي وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَأُولَئِكَ لَيْسُوا مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُمْ وَلَا يَرِدُوا عَلَيَّ حَوْضِي ))

''اللہ تمہیں بے وقوف قیادت سے بچائے۔ صحابہؓ نے سوال کیا: بے وقوف قیادت کونسی ہو گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ حکمران جو میرے بعد آئیں گے، وہ میری لائی ہوئی ہدایت کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ میرے طریقے پر عمل کریں گے ۔ پس جس نے بھی ان حکمرانوں کے جھوٹ کی تصدیق کی اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کی وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں۔ اور انہیں قیامت کے دن میرے حوضِ (کوثر) پر نہیں آنے دیا جائے گا ‘‘(مسند احمدبن حنبل)۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان! مسلم دنیا میں اٹھنے والی لہر کے بعد مغرب بالخصوص صلیبیوں کا سرغنہ امریکہ، خلافت کے دوبارہ نمودار ہونے سے خوفزدہ ہے۔ مغرب پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت میں موجوداپنے ایجنٹوں کے ذریعے خلافت کے قیام کی طرف پیش قدمی کوروکنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن وہ لڑکھڑا رہا ہے، اس کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں،اس کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں اورآپشنز ختم ہو رہی ہیں۔

 

تاہم وہ امت جو صراطِ مستقیم پر ہے اور جس کے پاس اللہ کی واضح ہدایت موجود ہے ، اس کے سامنے اسلام کو بطورِ حکومت واپس لانے کا واضح راستہ موجود ہے۔ اسلام خونی انقلاب کے ذریعے نہیں آئے گا اور نہ ہی جمہوریت یا آمریت کے ذریعے اسلام کی حکمرانی قائم ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے درجنوں قبائل سے نصرۃ(عسکری مدد) طلب کی ۔ آپﷺنے نصرۃ کے حصول کے لیے تکلیفیں برداشت کیں اور قربانیاں دیں، آپ ﷺپر سنگ باری کی گئی یہاں تک کہ خون رسنے سے آپ ﷺکے جوتے خون سے تر ہو گئے۔ اس کے باوجودآپ ﷺ نصرۃ کے حصول کی کوشش کرتے رہے اور اللہ سے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ اوس اور خزرج کے اہلِ قوت خود آپﷺکے پاس آ گئے۔ یوں انصارِمدینہ نے آپﷺکواسلام کے نفاذ کے لیے نصرۃ(عسکری مدد)فراہم کی اور یوںیثرب مدینۂ منورہ بن گیا۔

 

اس سلسلے میں ماہِ رمضان کے بابرکت مہینے میں جو پہلا اورواحد قدم آپ سے درکار ہے وہ یہ ہے کہ آپ خلافت کے قیام کے سلسلے میں پاکستان کی مسلح افواج کے ہر اس فوجی آفیسر تک پہنچیں جسے آپ جانتے ہیں ۔ آپ خلافت کے لیے نصرۃ کے حصول کو ملک گیر ایجنڈا بنا دیں۔ کاروبار کی کوئی جگہ، عوامی مقامات اور کوئی گھر نصرۃ کی گفتگو سے خالی نہ رہے۔ نصرۃ کی آواز مساجد کے منبروں سے اٹھنے لگے اور مسلمان نصرۃ کے متعلق دعا کو اپنی دعاؤں کا حصہ بنا لیں۔ یہاں تک کہ جب پاکستان میں نصرۃ کے ذریعے خلافت قائم ہو تو لوگ اس کا اسی طرح استقبال کریں جیسا کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے موقع پر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کا استقبال کیا تھا۔ جب لوگ اہلِ قوت کے ساتھ مدینہ کے داخلی راستوں پرجنگی لباس پہنے کھڑے تھے تاکہ منافقین کورخنہ ڈالنے سے روکا جائے۔

 

اے پاکستان کی مسلح افواج میں موجود مخلص افسران! امت تیار ہے اور یہ اب آپ پر ہے ،جو امت میں قابلیت رکھتے ہیں، کہ آپ ان منافق ظالموں کو ان کی گردن سے پکڑلیں اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کردیں۔ اور ایسے مخلص اور بہادر شخص کا بدلہ دنیا کے محدود پیمانوں کے مطابق نہیں ہو گا بلکہ اُس کے اِس نیک عمل کا بدلہ آخرت کے دن خوشیوں سے معمور لازوال زندگی کی شکل میں ہو گا جس کے سامنے دنیا کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور یہ وہ عظیم بدلہ ہے جو ماضی میں آپ کے مسلح بھائیوں کو حاصل ہوا یعنی وہ انصارؓ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نصرۃ دی تھی اور اسی اجر کے حصول کے لیے آج آپ کو آگے بڑھنا ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ اللہ ، اس کے رسول ﷺاور مومنین کی خاطرغور و فکر اورپلاننگ کے ساتھ مخلصانہ قدم اٹھائیں اور اتھارٹی کو لے کر اسے مخلص اور باخبر حزب کو منتقل کریں ، تاکہ حزب اُس خلافت کو قائم کرے جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کرے گی، مسلم علاقوں کو کفار کے قبضے سے نجات دلائے گی، مسلمانوں کے علاقوں کو وحدت بخشے گی اور اسلام کو بطورِ رحمت تمام انسانیت تک پہنچائے گی۔

 

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
''اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں ،وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور قتل کرتے ہیں اور انہیں قتل کیا جاتا ہے۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنااللہ نے اپنے اوپر لازم کرلیاہے۔ اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے۔ پس جو سودا اللہ سے تم نے کیا اس پر خوش ہوجاؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے ‘‘(التوبۃ : 111)

Read more...

اس رمضان ،ہمارے ایمان کا تقاضا عمل ہے یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَجِیْبُواْ لِلّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحْیِیْکُمْ ''اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسولؐ (کی پکار ) پر لبیک کہو جب کہ وہ تمہیں ایسے کام کیلئے بلاتے ہیں جو تمہیں (

 

اے اﷲ! ہم تیری اس پکار پر لبیک کہتے ہیں! کئی جھوٹی قومی ریاستوں پر محیط امت گزشتہ سال سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے، وہ قومی ریاستیں جنہیں مغرب نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے گھڑا تھا۔ امت اپنے جابر کٹھ پتلی حکمرانوں کے خلاف متحرک ہوئی ہے۔ مسلمان کفر کی حکمرانی کے خاتمے اور اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں اور ان کا خون بے دریغ بہایا جا رہا ہے۔ انہیں مصائب، تشدد اور جبرکا سامنا محض اس لیے ہے کیونکہ وہ اﷲ کی پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں۔

 

اللہ کی پکار کا جواب دینے میں امت کی خواتین مردوں کے ساتھ شامل ہیں۔ تیونس میں ہونے والی ریلیاں ہوں یا مصر کے مظاہرے، شام میں عورتوں اور بچوں کے جلوس پر فائرنگ ہو یافلسطین کی پاک بیبیوں پر ظلم وجبر۔ وسطِ ایشیا کی نیک مسلمان خواتین پر تشدد ہو یا پھر عراق کی وہ عورتیں جن کے بچے اس لیے مر رہے ہیں کیونکہ خوراک کی کمی کی بنا پر ان بچوں کو ماں کا دودھ بھی میسر نہیں۔ اور پھرافغانستان اور قبائلی علاقوں کی وہ عورتیں بھی ہیں جن کے خاندانوں پر امریکی صلیبی جنگ کے تحت بمباری کی جا رہی ہے۔

 

ان خواتین کا ایمان انہیں ان مصائب و آلام کا اس وقت سامنا کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے جب ان کے گھر تباہ کئے جا تے ہیں، انکے خاندانوں کو ماراپیٹااور قتل کیا جاتا ہے۔ یہ ان کا ایمان ہی ہے جو ان کو دین کے ساتھ جڑے رہنے کا صبر و استقلال عطا کرتا ہے۔ یہ ان کا ایمان ہی ہے جس نے ان کو تمام مسلم دنیا میں خلافت کی آواز بلند کرنے پر آمادہ کیا ہے۔

 

اے پاکستان کی مسلمان بہنو!
آپ اﷲ کی اس پکار کا کیا جواب دیں گی؟ رمضان کا بابرکت مہینہ ایک بار پھر ہم تک آن پہنچا ہے۔ اس مہینے میں اﷲسبحانہ وتعالیٰ شیطان کو باندھ دیتے ہیں اور ہمارے نیک اعمال کا اجر کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ اس ماہ جب ہم قرآن پاک پڑھیں تو یہ نہ بھولیں کہ قرآن کا مقصد محض تلاوت نہیں بلکہ اس کو نافذ کرنابھی ہے۔ فرائض کے نفاذ کو ترک کردینے سے ہم اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔اسلام کے مطابق زندگی گزارنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیں دین کے مکمل نفاذ کی ضرورت ہے،جس کے لیے اسلامی ریاست یعنی خلافت کا قیام ناگزیر ہے۔اور خلافت کا مقصد مسلمانوں پر اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کے مطابق حکومت کرنا ہے اور اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کو پوری دنیا تک پھیلانا ہے ۔

 

خلافت ایک ایسافرض ہے جس کا قیام معیشت، معاشرت، حکومت، خارجہ پالیسی اور تعلیم کے میدانوں میں لاتعداد فرائض کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ خلافت کے بغیر ہم کفر کے قوانین کے مطابق زندگی گزاررہے ہیں جو ہمارے لیے حرام ہے۔

 

اس رمضان ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اﷲسبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کی پیروی کریں اور اپنی اس موجودہ حالت کو، جس کے تحت آج ہم کفر کے غلبے اور جبر تلے زندگی گزاررہے ہیں، ایسی حالت سے بدلنے کے لئے عمل کریں جہاں ہم اسلام کے بابرکت نظام تلے زندگی گزار رہے ہوں۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:۔


إِنَّ اللّہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
'' بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس کو نہ بدلیں جو کچھ ان کے نفوس میں ہے۔‘‘(الرعد:11)

 

اﷲسبحانہ وتعالیٰ ہم سے تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم اپنے کرپٹ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے عمل کریں۔ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم ایمان کا مطلب مایوس ہو کربیٹھ رہنا اور خود پر ترس کھاناسمجھ لیں اورحالات کو جوں کا توں چھوڑ دیں یا کوئی عمل کئے بغیر محض دعاکرتے رہیں۔ ہمارے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ ہم اپنی عقل استعمال کر کے یہ فیصلہ کر لیں کہ چونکہ عمل بہت مشکل ہے اس لیے ہم کچھ نہیں کریں گے۔ منکر کو دور کرنے اور اسلامی ریاست کو دوبارہ قائم کرنے کے فرض کو پورا کرنے کے بجائے محض ضرور تمندوں کوکھاناکھلانے،غریبوں کی مدد کرنے، لکھنے پڑھنے یا دوستوں اور رشتہ داروں کو افطار پر بلا لینے سے یہ اہم فرض ادا نہیں ہوسکتا۔

 

اے پاکستان کی مسلمان بہنو!
اﷲسبحانہ وتعالیٰ نے آپ پر کچھ اعمال فرض کئے ہیں جنہیں آپ کسی حال میں بھی چھوڑ نہیں سکتیں؛ مثلاً نماز، رمضان کے روزے، اپنے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال، باطل کی مذمت، کفر نافذ کرنے والے حکمران کا محاسبہ اورریاستِ خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے دین کے دوبارہ نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا۔ خلافت ان تمام مسائل کا درست حل ہے جن کا آج ہمیں سامنا ہے، خواہ وہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہو یا بڑھتی ہوئی قیمتوں کا۔یہاں تک کہ روئیتِ ہلال کے مسئلے پر امت کی تقسیم کا بھی یہی حل ہے۔ جب تک ہم ان مسائل کے حل کے لیے غلط اور غیر متعلقہ اعمال کی طرف رجوع کرتے رہیں گے ہم ناکام، مظلوم و مغلوب اور ذلت اور رُسوائی کا شکار رہیں گے۔

 

اے پاکستان کی مسلمان بہنو!
یہ امت بہترین امت ہے اور یہی امت حق کی علمبردار ہے۔ یہ امت ایک ایسے عادلانہ نظام کے تحت زندگی گزارتی رہی ہے جس میں نہ صرف اس کے مسلمان شہری خوش و خرم تھے بلکہ اہلِ کتاب بھی اس حد تک مطمئن تھے کہ شام کے عیسائی شہریوں نے اپنے ہم مذہب صلیبیوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑی!


اب ایک بار پھر دنیا سے فساد کے خاتمے کے لیے اسلام کو کارزار حیات میں واپس آنا ہوگا۔ خلافت کے دوبارہ قیام کے بغیر یہ کسی صورت ممکن نہیں؛ کیونکہ یہ صرف خلافت ہی ہے جو اسلام کا نور بھٹکے ہوئے لوگوں تک پہنچا سکتی ہے۔ عملی میدان میں اسلام کی واپسی اب ہوا چاہتی ہے۔ کیونکہ اب امت کے لیے سوا ئے اسلام کے، کوئی دوسری فکر یانظریہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نیز یہ کہ مسلم علاقوں میں حکومتوں کی کمزوری اور ان کی غداری بھی ہر شخص محسوس کر رہاہے۔

 

اے پاکستان کی مسلمان بہنو!
اس رمضان اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہیے ۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ آپ اپنے رب کی اطاعت میں عمل کریں۔ یہ عمل آج اور ابھی سے ہونا چاہئے۔ اپنے رشتہ داروں،سہیلیوں اور ہمسائیوں تک اسلام کے نفاذ کی دعوت پہنچائیں۔ مسلح افواج میں موجود اپنے شوہروں، بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں تک یہ دعوت پہنچائیں کہ وہ خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرت فراہم کریں ۔ اب ان مخلص افسروں کے لیے وقت آن پہنچا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت خود سنبھال کراتھارٹی حزب التحریرکے سپرد کر دیں تاکہ وہ خلافت قائم کریں اور اسلام کو انقلابی اور مکمل طور پر نافذ کرے۔ اﷲسبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:۔

 

فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً
''تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہ ہوں گے جب تک اپنے تنازعات میں آپ ؐ کوحاکم نہ بنائیں اور جو فیصلہ آپؐ کر دیں اُس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔‘‘

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک