الجمعة، 24 ربيع الأول 1446| 2024/09/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

پریس ریلیز حزب التحریر کا با ضابطہ (آفیشل)رسالہ "الرایہ" کی دوبارہ  اشاعت

حزب التحریر کا مر کزی میڈیا   آفس مسرت کے ساتھ    الرایہ رسالے  کی دوبارہ اشاعت  کا اعلان کر تا  ہے ۔  یہ ایک سیاسی رسالہ ہے  جس کو حزب التحریر ہر ہفتے شائع کر تی ہے۔  اس میں امت مسلمہ کے مسائل اور ان کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔  اس رسالے کا پہلا شمارہ ذی القعدۃ 1373 ہجری بمطابق جولائی 1954 عیسوی میں شائع ہوا تھا۔ یہ رسالہ ہفتہ وار بدھ کی صبح  شائع ہو تا رہا  ۔ اس کے چودہ (14) شمارے ہی شائع ہو ئے تھے  جن میں  حق و سچائی کی آواز بلند ،سیاسی موضوعات پر بحث  اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا حل دیا اور حق بات ہی اس کا ہتھیار تھی مگر پھر بھی  ظالم اس کے وار برداشت نہ کر سکے  اور یہ اُن کے لیے راکٹ اور میزائل ثابت ہوا ۔  اردن کی حکومت  کلمہ حق کا   زخم  برداشت نہ کر سکی،خاص کر جب  حزب اور اس کے میگزین نے  اردنی وزیر داخلہ کی  جانب سے اس وقت کے اردنی آرمی چیف گلوب پاشا کے حکم سے  وعظ و ارشاد کے قانون کے اجرا کو چیلنج کیا ۔ اُس قانون کا ہدف  حزب کے شباب اور مخلص لوگوں کو  مساجد میں   درس دینےسے روکناتھا، اس لیے ظالموں نے چودہ شمارے نکلنے کے بعد ہی اس  رسالے کی اشاعت پر  پابندی لگا دی۔

اب الرایہ ایک نئی صبح کے ساتھ  دوبارہ آگیا ہے ۔ اس کا پندہرواں شمارہ بدھ 13 جمادی الاول 1436 ہجری  بمطابق4 مارچ 2015 عیسوی کو  اللہ کے اذن سے کامیابی کے ساتھ نور بن  کر  روشن کرنے لیے اور نار (آگ) بن  کر فساد کو جلا کر راکھ کر نے کے لیے حاضر ہے۔ اللہ  کی مشیت  سے یہ خلافت کے قیام  کے قریب ہونے اور رایۃ العقاب   کے بلند ہو نے کی خوشخبری بھی   لیے طلوع ہو رہا ہے، جو کہ حق اور عدل کا جھنڈا ہے  اور نبوت کے طرز پر ریاست خلافت راشدہ  مسلمانوں پر سایہ فگن ہو نے والا ہے اور ممکن ہے یہ دن قریب ہے۔

جلیل القدر عالم دین اور حزب التحریر کے امیر  عطاء بن خلیل ابو الرشتہ  حفظہ اللہ  نے  اس کی دوبارہ اشاعت کی مناسبت سے  : "الر ایہ   کو خوش آمدید ۔۔۔ یاد دہانی اور بشارت" کے عنوان سے  گفتگو کی  جس میں رسالے  کی پہلی اشاعت  کے واقعات کا ذکر کیا اور اس کے گزشتہ بعض  شماروں  کا حوالہ دیا ۔ آپ نے اللہ سبحانہ  و تعالٰی سے دعا کی  کہ  رسالے کی دوبارہ اشاعت  ایک یاد گار اور پر مسرت لمحہ ہو  اور یہ خلافت کے قیام کے قریب ہونے کی وجہ سے مسحور کن  بشارت  ہو  یقیناً  ایسا لگ رہا ہے کہ خلافت تو عملاً قائم ہو چکی ہے"۔

رسالے نے اپنے اس نئے شمارے میں  حزب کے امیر حفظہ اللہ  کا 3 مارچ کو استنبول  منعقد ہو نے والی  " جمہوری صدارتی ماڈل یا خلافت راشدہ ماڈل" کے موضوع پر کانفرنس سے افتتاحی خطاب  کو بھی من و عن شائع کیا ہے۔

اسی طرح  "عورت اور شریعت  : حق اور باطل کے درمیان"  کے موضوع  پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس  کے حوالے سے بیان جس کا انعقاد حزب التحریر کے میڈیا آفس کا شعبہ خواتین 28 مارچ کو   کر رہا ہے ،جس سے  پہلے عورت سے متعلق  حق اور باطل کی تمیز  کے بارے  ایک مہم بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ بھی اہم تر ین خبریں  اور سیاسی موضوعات اس شمارے میں شا مل ہیں، مندرجہ ذیل الیکٹرانک  صفحات کے ذریعے آپ الرایہ کو پڑھ سکتے ہیں:

الرایہ میگزین www.alraiah.net

فیس بک https://www.facebook.com/rayahnewspaper

گوگل پلس http://goo.gl/KaiT8r

ٹویٹر https://twitter.com/ht_alrayah

ای میل This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

عثمان بخاش

ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

Read more...

اہل شام کی ثابت قدمی صلیبی مغرب ،اس کے حمایتیوں اور آلہ کاروں  کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے

کسی بھی حقیقی تبدیلی ،ایجنٹ حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑنے  ،استعماری کافر،اس  کی کمپنیوں،سفارتخانوں اور عالم اسلام میں اس کے جاسوسوں کے ہاتھ کاٹنے  کی  تحریک سے برسر پیکار مغربی ممالک  بھر پور مال خرچ کر رہے ہیں۔۔۔ یہ ممالک اس  غلط فہمی میں مال خرچ کر رہے ہیں کہ یہ  نبوت کے طرز پر اس خلافت راشدہ  کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کےاحیاء کو روک لیں گے  یعنی جس خلا فت کی بشارت  اللہ کے بندے اور رسول محمد ﷺ نے دی ہے ۔۔۔ اب مغر ب  بے تحاشہ مال خرچ کر رہا ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی ،خواہ یہ بشار  حکومت کو نوٹوں  کی شکل میں یا  غذائی مواد اور ایندھن کی صورت میں یا پھر لبنان میں ایرانی تنظیم کو  اسلحہ فراہم کر کے تا کہ  وہ اہل شام کے خون بہانے کا سلسلہ جاری رکھے۔۔۔ جوں جوں یہ خباثت پر مبنی خرچہ بڑھ رہا ہے  شام کے مخلص لوگ بھی  اپنے کم وسائل کے ساتھ نظام کی تبدیلی کو روکنے کی  امریکہ اور اس کے کارندوں کے منصوبوں کے سامنے  چٹان  بنے ہوئے ہیں  ۔ وہ امریکہ  کی جانب سے خطے کو  خون میں نہلانے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت  شام،عراق،لیبیا،یمن اور مصر میں  قتل و غارت  اور خون کی ہولی کھیلنے کی سازشوں کے سامنے  سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں ! مغربی ممالک  جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یہ ان کے لیے حسرت کا باعث ہوگا ،

﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ

"بے شک  کافر  اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے  اپنا مال خرچ کرتے ہیں  ،وہ خرچ تو کر لیں گے مگر  یہ ان کے لیے وبال ہو گا اور پھر وہ مغلوب کیے جائیں گے  اور کافروں کو جہنم میں ہانک دیا جائے گا"(انفال:36) ۔

روس اور ایران نے  شام کے دیہاتوں اور شہروں میں  اپنے  ماہرین کی موجودگی کا اعتراف کر چکے ہیں جو وسیع پیمانے کے  تباہ کن منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔  عراق میں ماہرین کی تحقیقات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ عراقی فوج   دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر  بھر پور عسکری قوت سے  پورے پورے دیہات اور بستیوں کو   صفحہ ہستی سے مٹارہی ہے ،جس کا اس کے سوا  کوئی عسکری اور اخلاقی جواز نہیں  کہ یہ امریکی حکم پر کیا جارہا ہے ،جس کو المالکی نے بھی  نافذ کیا اور  اس کا جانشین العبادی  اور اس کے شریک کار بھی یہی کر رہے ہیں۔ امریکہ  ہر اس چیز کو تباہ کر نا چاہتا ہے  جو اس کے خیال میں  عنقریب  اللہ کے اذن سے قائم ہو نے والی خلافت  کے  قیام،اس کی  بقا،اس کی ثابت قدمی اور ترقی میں   معاون ہو سکتی ہے۔ امریکہ یہ اس وجہ سے کر رہا ہے کہ ان کا بدبودار  سرمایہ دارانہ آئیڈیلوجی   کا پیمانہ  صرف  مادیت ہے ، اس لیے وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسلامی ریاست  بھی اسی چیز پر قائم ہو تی ہے جس پر  ان کی ریاستیں قائم ہیں۔  لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوں گے،وہ نامراد ہوں گے اور ان کی امیدیں خاک میں مل جائیں گی۔ اسلام صرف اہل اسلام  کی جانفشانی اور اس کے  مخلص اور بیدار جوانوں کے عزائم کے بل بوتے پر قائم ہو تا ہے۔  رسول اللہ ﷺ  نے مدینہ منورہ  کی  ریاست قائم کرنے میں کسی موجودہ  انفراسٹریکچر یا  سپر اسٹریکچر  پر اعتماد نہیں کیا بلکہ    زبردست فکر کے علمبردار ایسے   جوان مردوں  پر اعتماد کیا  جن سے ریاست قائم ہو تی ہے اور وہی  اس کی صنعتی اور جنگی ڈھانچے کو  بام عروج پر پہنچاتے ہیں۔

اس لیے ہم امت کے حقیقی اور مخلص  انقلابیوں سے کہتے ہیں کہ ،

فکر ہی اسلحے  کا اساسی محرک ہے  وہی اسلحے کا لیے درست سمت کا تعین کرتی ہے ۔  اسی طرح ہم نے روم کو شکست دی  اور اسی طرح ہم نے فارس کی مجوسی سلطنت کو روند ڈالا۔  ہم نے ایسی منفرد  اسلامی ریاست قائم کی  جو تیرہ صدیوں تک  قائم رہی ۔  ہم اسلام کی زبردست ترقی یافتہ فکر  کے ذریعے ہی  مشرق اور مغرب کو  شکست کا مزہ چکا دیں گے۔  اسلحہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو  ان لوگوں کے ہاتھ میں ایک شر ہے جن کی کوئی فکر نہیں ۔  یہ درست فکر کے حاملین کے ہاتھ میں ہی اچھا لگتا ہے ،وہی  اس کے ذریعے اللہ کے اذن سے فتوحات حاصل کریں گے، اس اسلحے کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کے دل اپنے رب کے سامنے گڑ گڑا رہے ہوں گے اور ان کے باوضو ہاتھ اللہ کی مدد کی طلب میں  اٹھے ہوئے ہوں گے۔

حالیہ دنوں میں       جوبر ، الزبدانی اور شام کے دوسرے علاقوں  میں مخلص انقلابیوں  کی  کاری ضرب نے   حکومت اور اس کے کارندوں  کی جڑیں کھوکھلی کر دی  جس سے جن و انس میں سے سارے شیاطین  دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک ہوگئے( یورپی یونین کے وفد نے 1/2/2015 کو بغداد میں الجعفری سے ملاقات کی ) اور انہوں نے قتل و غارت اور  تباہی میں  شام اور عراق کے مجرموں  کے ہاتھ بٹانے کی یقین دہانی کی؛ اس لیے  دمشق کے سرکش کی جانب سے اپنے درندوں اور حقیقی دہشت گردوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے  الزبدانی  میں مائع بموں کی بارش پر کوئی حیرانگی نہیں ،جبکہ  ثابت قدمی کی علامت  جو بر پر کیمیاوئی ہتھیاروں سے حملے جاری ہیں۔

اے صداقت کے پیکر اور  اسلام کی عزت کے محاذوں  کے شہسوارو! تم نے اپنے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے ،تم نے اسلام کے دشمنوں کو حواس باختہ کر دیا ہے، تم نے سیکولر جمہوری ریاست کی ان کے سازشوں کو چکناچور کر دیا ہے ،  ہوشیار تمہارا دشمن تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کا میاب نہ  ہو ۔  قومی فوج بنانے کی امریکی اتحایوں کی دعوت تمہیں دھوکہ نہ دے  ایسی فوج  ان کے منصوبوں کو انجام دینے  اور تمہاری محنت پر پانی پھیرنے کا آلہ ہو گا  اور تم شام کو عمر بن عبد العزیز والا  شام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکو گے،جب پرندوں کے لیے بھی پہاڑوں پر اناج ڈالا جاتا تھا۔  امانت کو ضائع مت کرو ورنہ  تم بھی اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے  جو کہ انشاء اللہ  تمہاری کامیابی کا ستون ہے۔  اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو   ،اسلام کے تمام دشمنوں کے ناکوں کو خاک آلود کر کے خلافت انشاء اللہ قائم ہونے والی ہے۔

﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا وَنَرَاهُ قَرِيبًا

" ان کو وہ دور نظر آتا ہے اور ہم اس کو قریب دیکھتے ہیں "۔(المعراج:7-6)

 

حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس

Read more...

مرکزی میڈیا آفس ،حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک عالمی مہم بعنوان "خواتین اور شریعت،کیا حقیقت؟ کیا افسانہ؟"کا آغاز کررہا ہے جس کا اختتام ایک بین الاقوامی خواتین کانفرنس پر ہو گا

11فروری 2015، بروز بدھ،  کومرکزی میڈیا آفس حزب التحریر  کے شعبہ خواتین  نے وسیع پیمانے پر ایک عالمی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا عنوان"خواتین اور شریعت،کیا حقیقت ؟ کیا افسانہ؟" ہے۔ یہ مہم  ایک عظیم الشان بین الاقوامی خواتین کانفرنس پر منتج ہوگی جو  انشاء اللہ، 28  مارچ 2015 کو  منعقد کی جائے گی۔

یہ اپنی طرز کی ایک منفرد اور بے مثال کانفرنس ہو گی جو مشرق سے لے کر مغرب تک بیک وقت پانچ  ممالک میں اور مختلف برِ اعظموں میں الیکٹرانک ہال میں منعقد کی جائے گی۔نیز  اس میں شریک مقررین کی تقاریر کو دنیا بھر میں براہِ راست نشر کیا جائے گا۔

صدیوں تک،اسلامی شریعت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ خواتین اور اسکے حقوق کی دشمن اور اس کی تذلیل،غلامی اور جبر کا سبب ہے۔بعد میں آنے والی نسلوں پر غلط معلومات اورافسانوں کی شدید دھند چھائی ہوئی ہے جس نے ان تصورات کوتقویت بخشی ہے اور  اس بارے میں خوف و شک کی فضا پیدا کی ہے  کہ مسلم دنیا میں خلافت کے تحت اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں خواتین کے ساتھ کیا ہوگا؟حالیہ کچھ برسوں سے آزادیِ نسواں  کی تحریکوں،سیکولر میڈیا اور اداروں نے اسلامی معاشرتی قوانین بشمول اسلامی لباس،وراثت کے قوانین اور ازدواجی حقوق و فرائض  پر تابڑ توڑ حملے کیے ہیں اور انہیں فرسودہ، ظالمانہ اور خواتین کے ساتھ امتیازی قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں،  خواتین سے متعلق اسلامی  احکامات کی 'اصلاح'  کے لیے ایک واضح مغربی سیکولر ایجنڈا موجود ہے جس پر مسلم دنیا میں سی ای ڈی اے ڈبلیوجیسے بین الاقوامی معاہدوں،این جی اوز  یا حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیموں  کی سرگرمیوں کے  ذریعے؛ نیز اس خطے کی حکومتوں کے ذریعے ؛قوانین کو مغربی بنانے کے لیے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

یہ منفرد مہم اور کانفرنس  اسلامی شریعت کے تحت خواتین پر ہونے والے ظلم کی گھسی پٹی داستان کو چیلنج کرے گی اور  اسلام کی جانب سے خواتین  کے لئےمتعین کردہ اصل مقام،حقوق، کردار اور ان کی زندگیوں کا ایک واضح وژن پیش کرے گی؛جسے ریاستِ خلافت نافذ کرتی ہے۔یہ کانفرنس خواتین سے متعلق بعض اسلامی احکامات پر لگائے گئے الزامات کا نہ صرف جواب دے گی بلکہ اسلام کے منفرد معاشرتی نظام کی بنیاد، اقدار اور قوانین کی وضاحت کرے گی،نیز خواتین،بچوں، خاندانی زندگی اور بحیثیت مجموعی تمام معاشرے پر اس کے مثبت اثرات پر بھی روشنی ڈالے گی۔ یہ مغربی اور  'اسلامی' آزادیِ نسواں (فیمن اِزم) کے تصورات مثلاً صنفی مساوات اور لبرل آزادیوں کا بھی جائزہ لے گی، جنہیں اسلام میں خواتین کے ساتھ سلوک کی مذمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جبر سے خواتین کی نجات کے لیے درست راستے کی نشاندہی  بھی کی جائے گی۔ ہم اسلامی نصوص و تاریخ کے درست ترین حوالوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ریاست خلافت کے اداروں کی منظر کشی سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی یکساں رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ شریعت کے زیرِ سایہ خواتین کی زندگیوں کی صحیح تصویر دیکھ سکیں اور یہ کہ معاشرے کے مختلف شعبوں میں شریعت کا نفاذ کس طرح ان لاتعداد مسائل کو حل کرتا ہے جن کا سامنا آج خواتین کو کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ مہم اور کانفرنس مسلم خواتین میں خلافت کے قیام کے لیے بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت اور سیاسی سرگرمیوں کو اجاگر کرےگی؛جو مسلم دنیا کی خواتین کے لیے واحد درست طریقہ ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے مخلصانہ طور پر تشویش رکھتے ہیں ہے ؛ جوحقیقی طور پر اسلامی شریعت کے تحت خواتین کی حیثیت کے بارے میں سچائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ان کے لئے ایک مثبت، محفوظ اور باوقار مستقبل تخلیق کرنا چاہتے ہیں، ہم انہیں مندرجہ ذیل لنکس کے ذریعے اس اہم مہم کی حمایت اور اس سے آگاہی کی دعوت دیتے ہیں: www.facebook.com/womenandshariahA

آپ کیا مہم کے مواد کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو، برائے مہربانی رابطہ کریں  This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.%20">This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مہم یا کانفرنس کے حوالے سے سوالات یا انٹرویو کے لئے، برائے مہربانی رابطہ کریں This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.">

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

کانفرنس کی ترویجی  وڈیو کے لیے لنک کریں  http://youtu.be/tXuusEw7Pwg

 

ڈاکٹر نظرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحرير

شعبہ خواتین

Read more...

دمشق میں امریکی ایجنٹ بشار کی حکومت دہشت گردی کی سرغنہ ہے جسے واشنگٹن کی پشت پناہی حاصل ہے

واشنگٹن پوسٹ نے25 جنوری 2015 کو اپنی رپورٹ میں ذکر کیا کہ جنوبی یوکرائن کے  شہر ماریوپول کی پولیس ذرائع کا کہنا  ہےکہ روس نواز باغیوں نے ہفتے کے دن ماریوپول کے رہائشی علاقے پر راکٹ داغے ، جس کے نتیجے میں کم از کم  30 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یوکرائنی صدر  پوروشینکو نے راکٹ فائر کرنے  کو "انسانیت کے خلاف جرم" قرار دیا،جبکہ نیشنل ڈیفنس کونسل کی سیکرٹری الیگزنڈر تورشینوف نے روسی صدر پیوٹن کو اس "حملے کا کُلی طور پر ذمہ دار "ٹھہرایا۔ ادھر نیٹو نے بھی مشرقی یوکرائن میں روسی فورسز  کی طرف سے جدید راکٹ اور ڈرونز  کے ذریعے باغیوں کے ساتھ تعاون کی مذمت کی ہے اور ماسکو سے یہ تعاون روکنے کا مطالبہ کیا۔  لٹویا نے بھی موجودہ یورپی یونین کے صدر کی حیثیت سے یونین کے وزرائے خارجہ کو دعوت دی ہے کہ وہ صورتحال پر بحث ومباحثہ کے لئے غیر معمولی اجلاس منعقد کریں۔

اگر یوکرائن میں 30 شہریوں کے قتل  کو انسانیت کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے توپھردنیا اسدی ٹولے اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شام کے  ڈھائی لاکھ شہدا کے قتل کو کیا نام دیتی ہے ؟  12 ملین لوگوں کے اندرون وبیرون ِملک  بے گھرہونے کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے جو اندھا دھند بمباریوں  کے جہنم سے حفاظت  حاصل کرنے کی خاطر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے۔ ان بے رحم بمباریوں کی زد میں بلاامتیاز چھوٹے بھی آتے ہیں  اوربڑے بھی بشمول ان درجنوں شہریوں   کے جو جمعہ کے دن23 جنوری 2015 کو امریکی  طیاروں  کی شیلنگ کے نتیجے میں قتل اور زخمی ہوئے۔ ان طیاروں نے دمشق کے الغوطہ الشرقیہ  کے مضافات میں واقع حموریہ شہر پرمیزائل برسائے ۔  ان طیاروں نے خریداروں سے  بھری عوامی مارکیٹ کو نشانہ بنایا ۔   جب سے امریکی حکومت نے دمشق کے مضافات میں واقع  دوما،عربین اور زملکا کے شہروں اور قصبات پر  اپنی یلغاروں میں اضافہ کیا ہے ،یہی کچھ صورتحال دیکھنے میں آئی  ہے۔ اسد حکومت جو ہر 4منٹ بعد ایک شہری کو قید کردیتی ہے،ہر 10منٹ بعد ایک شہری کوزخمی کردیتی ہے  اور ہر 13 منٹ بعد ایک شہری کو غائب کردیتی ہے،ہر 15 منٹ بعد ایک شہری کو قتل کرڈالتی ہےاور ہر روز 8 بچوں کو قتل کردیتی ہے، اور ہر روز4  شہریوں کو تشدد کرکے ماردیتی ہے(statistics of victims of the Syrian regime's crimes from mid-March 2011 to 31 October 2014))۔  سیاہ بخت بشار حکومت  کی طرف سے ان تمام مجرمانہ اور وحشیانہ حربوں کو بروئے کار لانے کے  باوجود  امریکہ اس کو دہشت گرد حکومت نہیں سمجھتا، بلکہ  اس کی دعوت یہ ہے کہ بنیاد پرست اسلام کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے عالمی  اتحاد یوں کو اکٹھا کیا جائےنیزشام میں اپنے ایجنٹ اور  بغداد میں اس کے دوست سے چشم پوشی   کی دعوت دیتا پھرتا ہے اور اس کام کے لئے اسے ایران میں اپنے آلۂ کاروں  اور لبنان میں اپنے حزب(حزب الشیطان) کاتعاون حاصل ہے۔ جبکہ ترک افواج  قبروں میں پڑے مُردوں کی طرح چپ سادھ لی ہوئے ہیں۔

 

مسلمانو! ان حکمرانوں کے جرائم پر کب تک خاموش  تماشائی بنے رہوگے جوتمہیں اور تمہارے شامی بھائیوں کو بے یار ومددگارچھوڑ کراستعماری کفارکے ساتھ گٹھ جوڑ  کررہے ہیں۔

مسلم ممالک میں افواج کے قائدین! کیا تم اس امت میں سے نہیں ہو ں جس کے دشمنوں کے مقابلے میں تم نے اس کے دفاع کی قسم اٹھائی ہے، تم اللہ کے منادی کی آواز پر لبیک کیوں نہیں کہتے جب وہ تمہیں رب تعالیٰ کی خوشنودی  اور دونوں جہانوں میں تمہاری عزت کی طرف بلائے؟ تم  خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے لئے کام کرنے والوں کے ساتھ کام کرتے جس کی بشارت اللہ کے رسول اور اس بندے محمدﷺ نے دی ہے۔

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

"اے ایمان والو! اللہ اور اس کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اُس بات کی طرف  بلائیں جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ۔ اور  یہ  جان رکھو کہ اللہ انسان اور اُس کے دِل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اِکٹھا کرکے لے جایا جائے گا"(الانفال:24)

عثمان بخاش

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر

Read more...

تشدد کی کاروائیوں کے بارے میں امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ

امریکن پالیسی ویب سائٹ نے 9 دسمبر 2014 کو امریکی قید میں موجود مسلمانوں کے خلاف تشدد کے جرائم کے ارتکاب کے بارے 525 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپرٹ شائع کی!!قیدیوں کا منہ کھلوانے کے لیے "سی آئی اے" کی تشدد کے بارے میں امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ میں کونسی نئی بات ہے؟کیا کسی ایسے راز سے پردہ اٹھایا گیا جو پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا ؟کیا اس کے نتیجے میں اوباما ان سینکڑوں ڈرون حملوں پر معافی مانگے گا جن سے افغانستان سے یمن اور صومالیہ سے عراق تک ہزاروں لوگ قتل کیے گئے؟ کیا اس کے نتیجے میں ان تیرہ عرب ملکوں کے حکمرانوں اور ان کے جلادوں کا احتساب ہو گا جنہوں نے سی آئی اے کی نمائندگی کرتے ہوئے تشدد کیا جیسا کہ کہا گیا ہے؟کیا برطانیہ کی حکومت جس نے "سی آئی اے" کی کاروائیوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کوئی نصیحت حاصل کرے گی؟

ایسا کچھ نہیں ہو گا ،امریکی جلادوں کا احتساب نہیں ہو گا،نہ ان کے سربراہوں کا جنہوں نے ان جرائم کے ارتکاب کے احکامات دئیے جو کہ لبرل جمہوری "تہذیب"، جو انسانی حقوق کا واویلا کرتی ہے، کی پیشانی پررسوائی کا داغ ہے ۔۔۔بلکہ سی آئی اے کے تین سابق سربراہوں "مائیکل ھائیڈن "، "جارج ٹینٹ" اور "پورٹر گروس "نے ایک مشترکہ خط لکھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایجنسی نے جو کچھ بھی کیا وہ دہشت گردی سے امریکہ کو بچانے کے لیے کیا۔ امریکہ کے سابق صدر "جارج بش" اور اس کے نائب "ڈیک چینی" نے اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی اس کو تنقید کا نشانہ بنا یا۔ ڈیک چینی نے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بکواس ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکہ کے اعلٰی ترین دستوری عدالت کے جج انطولین سکالیا نے یہ کہہ کر اس رپورٹ کو دفن ہی کر دیا کہ "ہر ملک کو اپنے اعلٰی ترین مفادات کو پیش نظر رکھ کر انسانی حقوق کے تعین کی مکمل آزادی حاصلہ ہے" اور "نام نہاد " عالمی انسانی حقوق کی طرف اشارہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

جبکہ برطانیہ کی حکومت نے نئی قانون سازی میں جلدی دکھائی جس کی رو سے اساتذہ،ڈاکٹروں اور نرسوں کو مسلمانوں کے خلاف جاسوس بنا یا گیا۔ جب بھی ان میں سے کسی کو شک ہو جائے کہ اس کے سامنے والا مسلمان "شاید"انتہاء پسندانہ افکار کا علمبردار ہے تو قانون کی رو سے وہ اس کی اطلاع دینے کا پابند ہیں۔ یہ "نیشنل سیکیورٹی" کو محفوظ بنانے کے لیے ہے!

یہ کوئی نئی بات نہیں ، ڈاروینی سرمایہ دارانہ آئیڈیولوجی نے پہلے بھی یہی کیا ہے ۔ 1858 میں چارلیس ڈارون نے کہا تھا کہ مستقبل یہ ثابت کرے گا کہ مذہبی لوگوں سے جان چھڑانا گوروں کا حق ہے (کالونیوں میں گوروں کے علاوہ دوسروں کو ختم کرنا)۔ یہی وہ ڈار وینی پالیسی ہے جس کو مغربی استعمار نے ہر مغلوب قوم کی نسل کشی کے لئےنافذ کیا جیسے ریڈ انڈینز سے لے کر افریقی اقوام تک اور کسی جنگی حکمت عملی کے لیے نہیں کیونکہ عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی بلکہ اسی پالیسی کے تحت تباہ کن ہتھیارکے "تجربے" کے لیے جاپان کی پیلی قوم پر ایٹم بم گرایا۔

یہی "مغرب میں گورے استعماری شخص " کی تہذیب ہے ،جس کے زہر کی اب تک بعض جاہل ،فتنہ پرور اور ذہنی غلام اسلامی ملکوں میں وکالت کرتے ہیں اور اس بد گمانی میں مبتلا ہیں کہ استعماری مغرب ہمارے لوگوں کے مصائب کے بارے میں نرم دل اور حساس ہیں حالانکہ یہ حکمران ان کے جلاد ہیں اور انہی کے اسلحے سے اپنے لوگوں کو مارتے ہیں۔

تمام انسانیت کی نجات صرف اسی میں ہے کہ گلی سڑی اور ظالم تہذیب کو گڑھے میں دفنا یا جائے اور اس کی حامل ریاستوں منہدم کر کے اسلامی تہذیب کی اساس پر ریاست قائم کی جائے ،وہ تہذیب جو تمام انسانیت کے لیے ہدایت اور رحمت ہے؛نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

Read more...

ایک آرٹیکل "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کے جواب میں

پریس ریلیز

جناب محترم ایڈیٹر "العرب " ویب سائٹ
مزاج گرامی، اما بعد!
آپ نے 20 اکتوبر 2014 کواپنی ویب سائٹ پر سیف الدین العامری کا ایک مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا "حزب التحریر کے افکار میں تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر"۔ آرٹیکل کے عنوان اور اس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والا حزب التحریر کے ساتھ عداوت اور بدخواہی کی بیماری میں مبتلاء ہے جس کی بدولت حزب کے ساتھ انصاف کرنے کی توفیق نہ ملی بلکہ اس کی بدنیتی اور بدخواہی اس کو حزب پر بہتان تراشی کی حد تک ہانکتی چلی گئی۔
جہاں ہم جھوٹی خبروں، مغالطوں اور حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرنے پر مشتمل اس بے سروپا مضمون کی اشاعت پر افسوس کرتے ہیں، اورواقعی تعجب ہے کہ ایسے مضمون کو آپ نے شائع کیسے کیا جس کے بارے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ مضمون میں راست بازی کا فقدان ہے اور سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو سے کوسوں دور ہے، وہی ہماری خواہش ہے کہ مضمون کا جواب بھی شائع کریں، اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے۔
سب سے پہلے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے تاکہ حزب التحریر کی حقیقت کو واضح کیا جائے۔
حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کی آئیڈیا لوجی (مبدا) اسلام ہے۔ یہ امت کے اندر اور امت کے ساتھ مل کر اس لئے کام کرتی ہے تاکہ امت اسلام کو ہی اپنا مسئلہ سمجھے اور زندگی میں اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کے از سر نو قیام میں اُمت کی قیادت کرے۔ حزب کا کام سیاسی طریقے سے اسلامی دعوت کو لے کر جانا ہے اورحزب رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو مثال بناتے ہوئے دعوت کے لئے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست کے قیام کی دعوت میں سیاسی طریقہ اختیار کیا،نہ کہ مادی....یہ بات کہ حزب کی آئیڈیا لوجی اسلام ہے، اس کامطلب یہ ہے کہ حزب افکار و احکام اخذ کرنے میں صرف اسلامی عقیدہ اور شرعی نصوص کو اساس بناتی ہے۔ یہ بھی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تعمیل میں کہ: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں" (آل عمران:104)۔
اب آتے ہیں آرٹیکل کی طرف.....تو یہ بہر حال حزب پر بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ ہے۔ ان سب کے جواب کا یہ موقع نہیں، اس لئے ہماری بات فقط بعض امور تک محدود ہوگی تا کہ مضمون نگار کے بغض وحسد اور حزب اور اس کی افکار پر بحث میں اس کے اندر راست بازی کے فقدان ، اور کذب بیانی کو واضح کریں۔
اولاً :مضمون نگار نے اپنے مقالے کے لئے ایک عنوان قائم کیا ہے:
مضمون نگار حزب اور اس کے افکار کو "تاریک، فکری جکڑ بندی اور تکفیر ی نقطہ نظر" کا نام دیتا ہے۔ کیا مضمون نگار یہ نہیں جانتا کہ حزب کے افکاراور آراء صرف اور صرف اسلامی ہیں؟؟؟ تو ذرا سوچئے کہ ان کو "تاریک نقطہ نظر" سے منسلک کرنا کیسا ہے؟۔ جہاں تک بندش اور جکڑ بندی کی بات ہے تو مضمون نگار نے یہ واضح ہی نہیں کیا کہ اس سے اس کی مراد کیا ہے؟ .....جہاں تک تکفیر (کافر قرار دینے ) کا مسئلہ ہے تو بلا شبہ یہ اس کاافترا ہی ہے کہ حزب دیگر اسلامی تحریکوں کو کافر کہتی ہے !! مضمون نگار لکھتا ہے:"تحریریوں کےتکفیری فتووں سے شاذ ونادر ہی کوئی تنظیم، ایسویسی ایشن،یا اسلامی تحریک، یا کوئی اسلامی پارٹی بچی ہوئی ہو"۔ حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے، اور ہم مضمون نگار کو چیلنج دیتے ہیں کہ حزب کی کسی کتاب، لیفلٹ یا کسی ویب سائٹ سے کوئی ایسی عبارت لا کر دکھائے جس میں کسی اسلامی تحریک کو کافر قرار دینے کا ذکر تک موجود ہو، مگر چونکہ وہ ہرگز ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کرسکتا، اور ہمیں یقین ہے کہ مضمون نگار بغیر دلیل کے تہمتیں لگاتا جاتا ہے، اس لئے ہم اس کو نصیحت کرتے ہیں کہ حزب پر جو کیچڑ اچھالا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس پر اس کا حساب لے گا ..... جہاں تک حقیقت کی بات ہے تو حزب التحریر کا ان تحریکوں کے ساتھ تعلق دعوت کی بنیاد پر اور ان کو نصیحت کی حد تک ہے، اور حزب ان کو اسلامی احکامات کی خلاف ورزیوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے،یہ کام حزب ایک آئیڈیالوجیکل پارٹی کے حیثیت سے انجام دیتی ہے جو اسلامی دعوت کی حامل ہے.....تو جب حزب اسلامی تحریکوں کو نہ ہی کافر ٹھہراتی ہےاورنہ ہی یہ تحریکیں مضمون نگار کے اس بے جا الزام سے متفق ہیں تو وہ بتائے کہ اسے کہاں سے یہ بات ملی ہے۔؟
جہاں تک اس کی اس بات کا تعلق ہے کہ حزب التحریر جمہوریت کو کفر سمجھتی ہے، تو یہ ایک اسلامی رائے ہے یہ صرف حزب کی پسندیدہ رائے نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کی حقیقت صرف یہ نہیں،جیسا کہ مضمون نگار اور دیگر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی منظرکشی اس طرح کریں کہ یہ عوام کا حکمرانوں کو چننے کا عمل ہے، جبکہ جمہوریت کا مطلب بنیادی طور پر یہ ہے کہ بالادستی عوام کی ہے، یعنی عوام اپنے نمائندوں کے ذریعے ان نظاموں کی قانون سازی کرواتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں بالادستی شریعت کو حاصل ہوتی ہے اوریہ اسلام کے ان امور میں سے ہے جو کہ قطعی ہیں مگر مضمون نگار نے جان بوجھ کر اس کو نظر انداز کیا ہے۔ شرع کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ شرع ہی تمام نظاموں اور قوانین کا سرچشمہ ہے، اور عوام کے ذمہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ ہے جو ان نظاموں اور قوانین کے نفاذ کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہذا جمہوری فکر ایک کفریہ فکر ہے کیونکہ اس میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے نہ کہ شرع کی...اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ "حاکمیت اللہ کےسوا کسی کو حاصل نہیں، اسی نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے" (يوسف:40) اور ارشاد ہے، وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور رسولﷺتمہیں جو کچھ دیں وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اُس سے رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"(الحشر:7)۔
ثانیاً : مضمون نگار نے حزب کے "بیانات" کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ"یہ بیانات آزادی کی منطق اوراُن نظاموں سے متصادم ہیں جنہیں انسانوں نے عام انسانی ضابطوں کے مطابق زندگی کے لئے تخلیق کیا ہے"۔
مضمون نگار یہ بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک ایسی حزب کے بارے میں گفتگو کررہاہے جس کی آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اس لئے حزب نے جن احکام کی تبنی کی ہے یا جن افکار پراس کی بنیاد قائم ہے، ان کی بنیاد صرف اسلامی عقیدہ ہے۔ پس جو کوئی حزب کا محاسبہ کرنا چا ہے، اُسے چاہئے کہ صرف اسلام کی بنیاد پر اس کا محاسبہ کرے۔ اس لئے مضمون نگار کا انسانی نظاموں کی بنیاد پر حزب یا اس کے افکار کا محاسبہ کرنا کسی طرح موزوں نہیں؟؟؟ پھر یہ کہ مضمون نگار بھول گیا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اسلام کو ہی اپنی سوچ اور عمل کے لئے اساس بنائے، چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ پروردگار ِعالم کی بجائے انسانی قوانین کو اپنے لئے اساس یا افکار پر حکم لگانے کا پیمانہ بنائے، چہ جائیکہ وہ اُن اسلامی افکار پر جن پر حزب کھڑی ہے، لے دے کرے اور ا ن کو "تاریک خیالیوں" سے تعبیر کرے۔؟
ثالثاً : مضمون نگار حزب کے بارے میں کہتا ہےکہ "وہ بنیادی طور پر اس اُصول کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک مسلمان انسان آزادی اور حکمرانوں کے چناؤ، اپوزیشن میں شرکت اور احتجاج کرنے کی قابلیت رکھتا ہے"۔
کتنا واضح بہتان ہے؟!! حزب التحریر تو اپنے قیام کے پہلے دن سے لوگوں کو مغربی استعمار کی تمام شکلوں سے آزادی حاصل کرنے کی دعوت دیتی رہی ہے، اور اس استعمار کے تمام آلات واوزار کے خاتمے اور اسلامی زندگی کی واپسی کے لئے سرگرم عمل ہے...بلکہ حزب کثیر تعداد میں چھپنے والے اپنے لیفلیٹوں کے ذریعے مسلمانوں سے مطالبہ کرتی چلی آئی ہے کہ وہ حکمرانوں کا محاسبہ کریں اور ان کے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، ان کو تبدیل کریں اور اس راستے میں قربانی دیں، بلکہ اس مقصد کے لئے مسلمانوں کو متعدد اسالیب اختیار کرنے کی دعوت دی، مثلاً زبردست عوامی مارچوں کاانعقاد، پبلک کانفرنسیں،فکری وسیاسی سیمینار اور اہل باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے وفود کوبھیجنا وغیرہ ...اور چونکہ حکمرانوں کو حزب کی اہمیت کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ حزب کی آراء لوگوں کو ان کے اور ان کے ظلم کے خلاف مشتعل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ حزب کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں اور حزب کا تعاقب کرتے ہوئے گرفتاری، ٹارچر حتیٰ کہ بعض حالات میں حزب کے شباب کو شہید کرنے اور ان کے خلاف ظالمانہ احکامات دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ...تو مضمون نگار صاحب کس طرح ان قطعی حقائق سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور حزب کوبد نام کرنے پر تلا ہوا ہے۔فیا للعجب!
رابعًا : مضمون نگار نے لکھا ہےکہ "سیکولر پارٹیاں جو قومی یا محب ِوطن کہلائی جاتی ہیں، تحریریوں کے دائرہ فکر سے خارج ہیں، یعنی یہ انفرادیت کے حامی "کفریہ" سیاست کی حامل پارٹیا ں ہیں جو الہٰی شریعت کی قائل نہیں، چنانچہ ان سے بحث وتکرار اورلڑائی جھگڑے نہ کئے جائیں"۔مضمون نگار کے بقول کہ "حزب کی سیکولر پارٹیوں کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ یہ شریعت ِالہٰی کی قائل نہیں، اور یہ انفرادی "کفر یہ"سیاست کی حامل پارٹیاں ہیں"...یہاں ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ کسی پارٹی کا سیکولر ہونے کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ہے کہ یہ پارٹی دین کی زندگی سے جدائی کے فلسفے پر کھڑی ہوتی ہے، اور رب کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کو نافذ کرنے کی دعوت دیتی ہیں، بلکہ وہ زندگی میں اسلام کی واپسی کی مزاحمت کرتی ہیں ...تو ایک سیکولر پارٹی کیونکر اسلامی ہوسکتی ہے؟ پھر ایک سیکولر پارٹی سے منسوب شخص کے اسلام یا کفر کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ایک سیکولر پارٹی کا رکن ہے، بلکہ اس کا دارومدار اس کے عقیدے پر ہے۔ سو اگر وہ دین کے زندگی اور ریاست سے جدائی کا نظریہ رکھتا ہے اور وہ اس کی حقیقت سے پوری طرح واقف بھی ہے، تو وہ یقیناً کافر ہوگا،اگر وہ یہ عقیدہ نہیں رکھتا اور اس کا ایمان اسلامی عقیدہ پر ہے، مگر وہ اپنی لاعلمی، گمراہی اور مفاد ات وغیرہ کی وجہ سے سیکولر پارٹی کا رکن بن کر اس سے وابستہ ہوگیا ہے، تو ایسا شخص گناہ گار مسلمان ہے۔ پھر مضمون نگار نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حزب ان پارٹیوں کے ساتھ مزاحمت کی دعوت دیتی ہے...جبکہ اس نے "مزاحمت " کا مطلب قاری پر چھوڑ دیا ہے، تاکہ ایک عام قاری خود ہی اس کا معنی ومطلب متعین کرکے یہ نتیجہ نکالے کہ حزب اسلحہ کے ساتھ ان پارٹیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دیتی ہے!! حزب کا موقف ان سیکولر پارٹیوں کے بارے میں واضح ہے۔ حزب نے واضح کیا ہے کہ ان پارٹیوں نے جو افکار اپنا ئے ہوئے ہیں، یہ کفریہ ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد دین کی زندگی سے جدائی کا نظریہ ہے نہ کہ اسلام۔ اور حزب ان پارٹیوں کے اراکین کو یہ پارٹیاں چھوڑنے کی دعوت دیتی ہےاورمسلمانوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ انہیں اتار پھینکیں۔ حزب بتاتی ہے کہ یہ پارٹیاں مسلم ممالک کو نو آبادیات بنانے والی مغربی ریاستوں کے فضلے ہیں، کیونکہ سیکولر پارٹیاں اپنی تمام شکلوں میں ایسے افکار پر قائم ہوتی ہیں جو استعماری کفار کی تہذیب سےاخذ شدہ ہوتے ہیں۔
خامساً : مضمون نگار نے مبہم بلکہ متناقض انداز میں اخوان المسلمین کےساتھ حزب کے تعلقات کی بات کی ہے، اوراپنی بات کے اختتام میں یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے، اور حزب کے بارے میں یہ واضح ہے، بخلاف اخوان المسلمین کے جو پیچیدہ قسم کے اسالیب پر انحصار کرتی ہے، اور اکثر سیاست وتشدد کے پیچ وتاب سے دوچار رہتی ہے"۔
مضمون نگار نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ جملہ دہرایا ہے "پس اقتدار کے حصول کے لئے مختلف طریقوں سے حزب کا مدعا زیادہ تر 'جہاد' پر مرکوز ہے"۔ مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے کہ حزب مسلح اعمال کی بنیاد پر قائم ہے ...تو اگر چہ ہم پہلے یہ بیان کر چکے ہیں کہ حزب التحریر ایک سیاسی پارٹی ہے جو سیاسی طریقے سے دعوت لے کرجاتی ہے، مگر اس پر ہم یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ "اقتدار تک پہنچنے کا طریقہ حزب نے اپنی کتابوں اور لیفلیٹوں میں جا بجا ذکر کیا ہے اور حقیقت کے متلاشی شخص کے لئے یہ واضح ہے۔ بلکہ دور ونزدیک کے تمام لوگ یہ جانتے ہیں کہ حزب کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں عمومی بیداری پر مبنی اسلامی رائے عامہ ایجاد کیا جائے، نیز کار زارِحیات میں اسلام کے نفاذ کے لئے اہل قوت سے نصرۃ طلب کی جائے، حزب اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلحہ کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی، اس کی وجہ رسول اللہﷺ کی سیرت کی پیروی ہے"۔ عرف عام میں تو یہ ہوتا ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہیں، تو ہم اس افترا پرداز مضمون نگار سے پوچھتے ہیں کہ اپنے اس دعویٰ پر آپ کے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو پیش کرے، اور دشمن بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب تبدیلی کے طریقہ کار میں صرف فکری کشمکش اور سیاسی مقابلے پر انحصار کرتی ہے۔
سادساً: مضمون نگار حزب کے اندر تضادات کی بات کرتا ہے : "ادھر حزب کہتی ہے کہ "جمہوری نظام کفریہ نظام ہے" اور ادھر یہ کہ "اس کی بعض شاخیں انتخابات میں شرکت بھی کرتی ہیں، اور اتھارٹی کی طرف سے اپنی سرگرمیوں اور بھرتیوں کے لئے ان سے لائسنس بھی حاصل کرتیں ہیں۔ یہی وہ جوہری تناقض ہے جو اسلام پسندو ں کے اس صنف کے اندر پایا جاتا ہے"۔
جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا، اگر مضمون نگار جمہوریت کی حقیقت جانتا، جیسا کہ حزب نے بتایا ہے کہ یہ کفریہ نظام ہے، تو اس کو کوئی تناقض نظر نہ آتا ...تو حزب جمہوری نظام کو مسترد کرتی ہے، کیونکہ یہ اسلام کے ساتھ مکمل متناقض ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا.. جہاں تک انتخابات کی بات ہے، یعنی لوگوں کا نمائندوں کو اپنی رائے کے اظہار میں وکیل بنانا، تو اس میں حزب اس اعتبار سے شرکت کرتی ہے کہ وہ اس کو ایک مباح امر سمجھتی ہے، مگر اس میں شرط یہ ہے کہ رائے کے اظہار میں اسلامی احکامات کی پابندی کرے، حزب نے ایک دن کے لئے بھی انتخابات میں مغربی قانون سازی کی اساس پر شرکت قبول نہیں کی۔سابعًاٍ: مضمون نگار کہتا ہے: "....کیونکہ ان کی نظر میں اسلامی خلافت کا کوئی متبادل نہیں، اور خلافت بھی ایسی جو ان کی مطبوعات میں بالکل ہی غیر واضح ہے،اور ان میں سے ایک بھی یہ واضح کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کہ اس پُر اسرار خلافت کی طرف دُنیا کیسے منتقل ہوگی؟"۔
یہ مضمون نگار بھی ایک انوکھی شخصیت ہے!! اسلامی خلافت حزب کی مطبوعا ت میں واضح نہیں؟، اور خلافت کے دور کو پُراسراریت سے تعبیر کرتا ہے؟؟ کیا اس نے حزب کی کتابوں میں یہ تفصیلات نہیں پڑھیں،جیسے نظام الحکم فی الاسلام (اسلامی نظام حکومت) اور اجھزۃ دولۃ الخلافۃ (ریاست خلافت کے حکومتی اور انتظامی ادارے)؟؟ پھر اس نے حزب پر "پُراسرار خلافت کےدور کی طرف دنیا کی منتقلی کی کیفیت کی عدم وضاحت " کی بھی تہمت لگائی ہے، باجودیکہ حزب نے اپنی کئی کتابوں اور لیفلیٹوں میں اقتدار تک پہنچنے کی کیفیت کو بہت زیادہ واضح کیا ہے، مگر مضمون نگار نے اپنے کسی خاص مقصد کی خاطر اتنی بھی زحمت گوارانہیں کی کہ تحقیق کرتا اور حزب کی کتابوں کوپڑھ کر حقیقت کاکھوج لگالیتا۔!!
ثامناً: مضمون نگار کہتا ہے کہ"پس تحقیق کار (یعنی سعید حمودہ) نے یہ ثابت کیا ہے کہ حزب فلسطینی مسئلےکے حل میں کتابوں، آرٹیکل، تھیوری اور اصول وقواعد ڈھونڈنے کے نظریاتی حل سے آگے نہیں جاتی، نہ ہی عوامی مزاحمتی تحریک یا آزادی کی قومی تحریکات میں قابل ذکر شرکت کرتی ہے، نہ ہی اس نے اب تک کوئی مسلح ونگ کی تشکیل کی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ اس پارٹی کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین (فلسطین) پر قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو کافر ٹھہرائے۔ جبکہ انہی اوقات میں حزب کے کچھ افراد عرب دنیا کی دیگر جگہوں میں خودمسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں"۔
ایسے شخص کی باتوں پر تعجب نہیں ہوگا تو کیا ہوگا جو مسئلہ فلسطین کے اس بنیادی حل کو جو حزب نے نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، اس کو محض ایک تھیوری سمجھ رہا ہے ...موضوع کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ فلسطین پر قبضہ ہوچکا ہے، قابض قوت نے اس میں اپنا ریاستی وجود قائم کیا ہے، تو اب اس کی آزادی کے لئے شرعاً جہاد واجب ہے ...اور عملی طور پرجو امر آزادی کے حصول کو ممکن بناتا ہے وہ فوج کشی ہے، پارٹیوں یا تحریکوں کا قیام نہیں جو انہی ریاستوں سے مدد لیتی ہیں جو یہودی موجودگی کی محافظ ہیں، جیسےارد گرد کی ریاستیں وغیرہ....فلسطین کی آزادی کے لئے مسلم افواج کے حرکت میں نہ آنے پر کئی عشرے گزرنے کے بعدفلسطینی قضیہ کی حقیقت پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ لوگ جو نہر سے دریا تک فلسطین کی آزادی کی بات کرتے تھے، ان کی اکثریت یہ اعتراف کرتی نظر آتی ہے کہ فلسطین کے اکثر حصے پر قبضہ قانونی ہے، اور کچھ اس کی تیاری کرر ہے ہیں، لیکن یہ ہوگا اس وقت جب معاون ریاستیں ان مزاحمتی تحریکوں کی پرورش سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں گی اور وہ بند گلی میں پہنچ جائیں گے۔
لہذا اب کس کی تعریف کرنی چاہئے اور اس درست حل کے نفاذ کے لئے کس کے پیچھے چلا جائے، حزب التحریر کے پیچھے؟ جس نے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ ان پر آزادی کا راستہ واضح کیا کہ یہود ی وجود کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے مسلم افواج کو حرکت میں لانا ضروری ہے،اور یہ کہ امت پر واجب ہے کہ وہ ان حکمرانوں کےخلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے افواج کو روکا ہوا ہے، یا ان دیگر تحریکوں کے پیچھے چلا جائے جو غلام اور زیر دست ریاستوں اور ایجنٹ حکمرانوں کے آگے جھک گئیں جنہوں نے فلسطین، اس کے لوگوں اور خود ان کا بھی سودا کیا، جبکہ آزادی کا علم بھی تھامے رکھا،اور اب لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے اچانک مکر گئے بہانہ یہ کیا کہ "جتنا کچھ ہوا اس سے زیادہ ممکن نہ تھا؟؟؟
جہاں تک مضمون نگا ر کے بقول بد تر ہونے کی بات کی ہے وہ کہتا ہے "اس سے زیادہ بدتر یہ ہے کہ اب حزب کا کام یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس کی سرزمین پر قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو کافر قرار دے رہی ہے"!! تو وہ بتائے کہ یہ بات کہاں سے لایا؟؟ کیا حزب التحریر نے حماس، الجہاد یا حزب اللہ اور الفتح کو کافر کہاہے؟؟!! بلاشبہ حزب التحریر نے جنوبی لبنان میں، غزہ میں، عراق میں امریکی جارحیت کے مقابلے میں اور افغانستان میں مزاحمت کاروں کی ان کاروائیوں پر شاباش دی ہے، اور کہا کہ یہ بہادرانہ کارنامے ہیں، ایسی کاروائیوں کو انجام دینے والے ان شاء اللہ اجر کے مستحق ہوں گے، نہ صرف یہ کہ ان کی کاروائیوں کی اچھے انداز میں تعریف کی بلکہ مسلمانوں پر واضح کیا کہ ان کی مدد کرنا واجب ہے اور مسلم علاقوں اور انسانوں کو آزادی دلانےکے لئے فوج کی روانگی کو فرض قرار دیا ہے۔ مضمون نگار نے اپنی الزام تراشیوں کی تکمیل کرتے ہوئے حزب کے افراد پر یہ تہمت لگائی کہ یہ لوگ خود مسلمانوں کے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں!! تو اس واضح بہتان کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ"اے مضمون نگار خدا کا خوف کر"۔
تاسعاً: مضمون نگار کہتا ہے: صالح زہر الدین سعید حمودہ کی باتوں کو دلیل بناتے ہوئے یہ ثابت کرچکا ہے کہ حزب التحریر کی نسبت سے جہاد فقط اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ ہے خواہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے،نہ کہ آزادی، ترقی، اور خوشحالی کے اہداف کا حصول۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے! حزب التحریر پر اعتراض کے لئے ایک ایسے شخص کے مضمون کو بنیاد بنایا ہے جو مخالف ذہن رکھتا ہے، بلکہ اگر مضمون نگار صالح زہر الدین کی باتوں پر غور کرتا تو وہ جان لیتا کہ اس کی باتیں حزب کی حقیقت اور تاسیس کے دن سے لے کر آج تک اس کی روِش کے ساتھ مکمل ٹکراتی ہیں۔ حزب التحریر جس نے اپنی فکر اور طریقے سے بال برابر انحراف نہیں کیا، باوجودیکہ جن ممالک میں حزب کام کرتی ہے، ریاستی اداروں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کیا ہے، تو ہر قیمت پر حصول اقتدار کی کوشش کیسے ؟ ؟ تعجب ہے مضمون نگار نے ان تحریکوں کونہیں دیکھا جن کا اولین مقصد اقتدار کا حصول تھا کہ کس طرح انہوں نے سمجھوتوں پر سمجھوتے کئے اور اپنے افکار سے دستبردار ہوگئیں۔
مذکورہ تفصیل کی بنا پر یہ واضح ہوا کہ مضمون نگار نے کوئی ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں ذکرکیا ، جس کی اس نے کوئی دلیل یا ثبوت بھی دیا ہو بلکہ جھوٹ اور بہتان تراشیوں کا ایک پلندہ بیان کیا ہے، یقین کریں کہ ایک دفعہ تو ہم نے سوچا کہ ان گھٹیا باتوں کا جواب ہی نہ دیا جائے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ویب سائٹ کا ادارہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار ہے کہ ہر ایرے غیرے کا وکیل بن کر اپنی ساکھ کھو بیٹھے؟ کیا ادارہ ادنیٰ درجہ کا کوئی کاروباری اور موضوعی اخلاق بھی نہیں رکھتا جس کی بدولت ادارہ ایسی بے ہودہ باتوں کے لئے میدان کھولنے سے پہلے سوچے؟ بالخصوص جبکہ حزب کے میڈیا آفس ہر سو پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے آدمی امت کے اندر موجود ہیں، ان سے ملنے اور ملاقات کرنے میں کوئی دشوار ی بھی نہیں۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک