مھنا الجبیل کے مقالے کا جواب کیا یہ ممکن ہے کہ امت کی وحدت کو حاصل کرنے کے لئے جمہوریت خلافت کا متبادل ہو سکتی ہے؟
- Published in سینٹرل میڈیا آفس
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
پریس ریلیز
الجزیرہ ویب سائیٹ نے 23 اگست 2014 کو المعرفۃ سیکشن میں استاد مھنا الجبیل کا مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا : "وحدت ،خلافت اور جمہوریت"۔ اس مقالے کو لکھنے والے نے ان مسلمان نوجوانوں کو قدامت پسند کے نام سے مخاطب کیا جو جمہوریت کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں یا اسلامی وحدت کے حصول کے لیے اس کا تجربہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ وحدت بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت متواتر کے مطابق فرض ہے۔
لکھنے والے نے یہ سوچ عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ "جمہوری دستوری نظام کو سمجھنے بڑی تشنگی پائی جاتی ہے جبکہ یہ دستوری نظام ہی مختلف ادیان اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو قومی دستوری حق کی ضمانت دیتا ہے"۔ وہ مزید کہتا ہے کہ "وہ ممالک جو جمہوریت کے زیر سایہ ہیں دوسرے غیر جمہوری ممالک کے بنسبت اسلامی وحدت کے مفہوم اور پیمانے سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں"۔
اس پر زور دینے کے بعد کہ جمہوریت ہی وحدت کے حصول کا زیادہ قابل عمل طریقہ ہے، لکھنے والے نے اشاروں اور کنایوں میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اصطلاحی خلافت کے مفہوم کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ خلافت ایک تاریخی نام ہے جس کو وراثت میں حکمرانی پانے والوں کے لیے استعمال کیا گیا جو اس کے مستحق نہیں تھے۔ پھر اس نے خلافت کا یہ تصور دیا کہ چند علاقائی ممالک کی فیڈریشن بنا کر اس اتحاد کے سربراہ کو خلیفہ قرار دیا جائے!
لکھنے والےنے آخر میں اس کا یہ خلاصہ کیا ہے کہ شرع اور مسلمانوں کی تاریخ میں خلافت کی اصطلاح فکری پیچیدگی ،ظاہری فہم اور پھر دور حاضر کی سیاست میں اس کے نتائج ایسے نہیں جو بعض نوجوان سمجھتے ہیں،اس لیے کسی بھی مسلم قوم کے لیے وطن کو سیاسی اور اجتماعی قوت بنا نے اور آزادی کی خاطر قانونی مزاحمت کے لیے اس سیاسی ڈھانچے کو مسترد کر نے کا یہ کوئی معقول بہانہ نہیں ہے جو جمہوریت میں بن چکا ہے چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ملکوں کے درمیان وحدت کے حصول کے لیے جمہوری منصوبے پر ہی کاربند رہیں۔۔۔
اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر ہم یہ تبصرہ کریں گے:"جمہوری ریاست" کی اصطلاح گھڑ نے اور اس کو رواج دینے اور کسی ریاست کو جمہوری قرار دینے کے لئے مغرب نے تین من گھڑت،خیالی اور ناکام پیمانوں پر اعتماد کیا (Constitutional definition، Substantive measure، Procedural)۔ یہ تین اپنے تیئں خود تضادات کا مجموعہ اور عملاً خیالی ہیں !۔۔۔چنانچہ جمیکا جیسے ملک کسی حد تک جمہوری ملک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ یسے انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو جمہوریت پسندوں کو پسند آئے حالانکہ جمیکا اپنے شہریوں سے زیادتی کرتا رہتا ہے جو کہ خود مغرب کےمطابق "جمہوری آزادیوں" کے خلاف ہے۔اسی طرح انہوں نے عراق جیسے ملک کو جمہوریت میں بے مثال قرار دیا حالانکہ حال ہی میں المالکی کی حکومت جرائم میں صدام حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ! ۔۔۔ جنوری 2011 کے انقلاب کے بعد مصر کے انتخابات جن کے نتیجے میں مرسی حکومت بنی تھی اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ انتخابات شفاف تھے پھر فوج کی جانب سے سب کچھ الٹ دیا گیا اور مرسی کو برطرف کر دیا گیا اور یہ جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا!
ان زمینی حقائق اور جمہوری ماڈل کے مکمل ناکام ہو نے کے بعد ہم اس لکھنے والے کے ہدف کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ایک ایسے خیالی، تضادات سے بھر پو اور ناقابل عمل نظام پر اعتماد اور اسے اختیار کرنے کی دعوت اور امت کے عقیدے سے پھوٹنے والے نظام خلافت جس کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں جو تقریباً چودہ صدیوں تک نافذ رہا ، کو ترک کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا لکھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے ناکام اور خیالی نظام سے چمٹے رہنا جو ناقابل عمل ہے ایسا ہی ہے جیسا کہ ایسی رسی سے لٹکنا جو ہوا میں معلق ہو اور کیا یہ ایک خیالی چیز کے پیچھے بھاگنا نہیں۔۔۔؟
اس کے بعد مقالے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ جمہوریت لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مثالی نمونہ ہے حالانکہ زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں اور جمہوری ممالک کی صورت حال اس کے خلاف ہے۔ فرانس کو ہی لیں جہاں مسلمانوں عورتوں کے سکارف اوڑھنےپر پابندی ہے، سوئٹزر لینڈ میں مناروں پر پابندی لگائی گئی ہے، امریکی ڈرون جو افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں ۔۔۔بلکہ وہ صر ف مسلمان ہونے کی وجہ سے بغیر کسی منصفانہ عدالتی فیصلے کے خود اپنے مسلمان شہریوں کو قتل کرتے ہیں، امریکی خفیہ ایجنسیوں کو پیشگی قتل کی اجازت کا قانون جس کی اوباما نے بھی توثیق کردی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے ۔۔۔ پھر جمہوری مغرب کی جانب سے سب سے بڑا جرم جس کو (اسرائیل ) کہا جاتا ہے کی سرپرستی، ابوغریب کی شرمناکیاں، گونتاناموبے کی رسوائیاں اور اس کے ساتھ ویتنام میں امریکہ کی روسیاہی، پھر دیکھیں دوسری عالمی جنگ میں جو کچھ ہوا ۔۔۔آخر میں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جمہوریت نے انسانیت کو شر، قتل و غارت گری اور کرپشن کے سوا کیا دیا؟
خلافت ایک شرعی حقیقت ہے اور یہ شرعی وحدت بھی ہے ، کتاب اور سنت کے نصوص اس کے ذکر سے بھرے ہیں، اس کے قواعد کو بیان کرتے ہیں۔ خلافت کی فرضیت کے بارے میں امت یا آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ "کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کریں تو ان کو اس میں کوئی اختیار ہو اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا " (الاحزاب:36)۔
خلافت صرف بیعت کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب نہیں بلکہ یہ خلافت ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں معاشرتی نظام، اقتصادی نظام، حکمرانی کا نظام، عدالتی نظام، تعلیمی نظام، سزاوں کا نظام اور دیگر نظام ہائے حیات پائے جاتے ہیں۔ یہ نظام اس اسلامی ریاست میں صدیوں تک موجود تھے جو اسلام کو نافذ کرتی تھی، اسی لیے وہ ریاست دنیا کے لیے ایک آئیڈیالوجیکل ریاست تھی جس نے نور اور عدل کے علم کو بلند کیا، جس نے امت ، اس کے عقیدے اور اس کے مقدسات کی حفاظت کی ضمانت دی ۔۔۔
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاك إِلَّا رَحْمَة لِلْعَالَمِينَ﴾ "اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء:107)
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر