السبت، 25 ربيع الأول 1446| 2024/09/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب : تیل کی قیمتوں ہونے والی اچانک کمی کے اسباب

سوال :

آج1دسمبر 2014بدھ کے دن بعض ذرائع ابلاغ نے  خبر شائع کی ہے کہ برنٹ خام تیل کی قیمت 49.66  ڈالر فی بیرل یکارڈ کی گئی ۔ اسی طرح  امریکی خام تیل کی قیمت بھی  تقریبا  47 ڈالر فی بیرل  تک گر گئی ہے۔ یاد رہے کہ 2014 کے جون کے مہینے کی ابتدا  میں  تیل کی قیمتیں 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں تھیں۔ پھر بدتدریج گرنے لگیں  یہاں تک کہ سردیوں کے آغاز   دسمبر 2014 کےاختتام  تک 60 ڈالر فی بیرل  بلکہ  اس سے بھی کم ہوگئیں   یہاں تک کہ وسٹ ٹیکساس خام تیل  کی قیمت 58.53  ڈالر تک گرگئی۔ اب جنوری 2015  کے پہلے ہفتے  میں تیل کی قیمت50 ڈالر تک آگئی  یعنی 50 فیصد سے بھی زیادہ کمی  تقریبا پانچ مہینے کے اندر  ! تیل کی قیمتوں میں اس اچانک کمی کے کیا اسباب ہیں؟ اور مستقبل میں تیل  کی قیمتوں  کے بار میں کیا متوقع ہے؟

 

جواب :

تیل کی قیمتوں میں کمی کے مختلف اسباب ہیں  جن میں سے  نمایاں ترین اقتصادی عوامل ہیں جن کا  سیاسی مقاصد سے تعلق نہیں ہے ۔۔۔لیکن ساتھ ہی ساتھ  سیاسی عوامل بھی ہیں جو اقتصادی عوامل کو حرکت دینے کے لیے ہے  جس سے  سیاسی مفادات کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔۔۔

اقتصادی عوامل  جن کا  سیاسی مقاصد سے تعلق نہیں ہے تو وہ یہ ہیں: تیل کی ترسیل کا زیادہ ہو نا یا  طلب میں کمی ۔۔۔، تیل والے علاقوں اور اس کے آس پاس   ہنگامے خاص کر  عسکری  گرما گرمی۔۔۔،تیل کی مارکیٹ میں غیر یقینی صورت حال  اور تیل کی بر آمد یا در آمد پر اثر انداز ہو نے والے ممالک  کی معیشت  کے حوالے سے اعدادو شمار میں کمی بیشی ۔۔۔۔

 

سیاسی عوامل  کا جہاں تک تعلق ہے تو ایک ریاست کی جانب سے  اقتصادی عوامل کو متحرک کرنا  جیسے  بغیر کسی معاشی ضرورت کے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنا یا ذخیرے میں موجود تیل کی پیداوار کو مارکیٹ میں لے آنا تا کہ تیل کی قیمت پر اثر انداز ہوکر مدمقابل ریاستوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہواجاسکے خصوصاً وہ ممالک جن کی معیشت کا انحصار ہی تیل کی قیمت پر ہوتا ہے یا عام تیل کی قیمت کو اس قدر کم کردینا کہ شیل تیل کو نکالنا معاشی لحاظ سے ناممکن ہوجائے۔

ہم ان  امور کو بیان کریں گے پھر   تیل کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی  کے حوالے سے ترجیحی  اسباب  کا خلاصہ پیش کریں گے:

پہلا :سیاسی مقصد سے خالی اقتصادی عوامل:

1-سپلائی اور طلب :

تیل بھی کسی بھی سامان کی طرح ہے  جس کی قیمت  طلب اور رسد  کے مطابق ہی  مقرر ہو تی ہے۔ جب تیل کی مارکیٹ میں  سپلائی  زیادہ ہوتی ہے  تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔ یہ اس وقت  ہوتا ہے جب  تیل در آمد کرنے والے ممالک میں معاشی بحران  کی وجہ سے   طلب کم ہوجاتی ہےکیونکہ بحران کا شکار ملک مہنگے دام میں تیل خریدنے کی سکت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے طلب میں کمی آتی ہے۔۔۔ اسی طرح جب تیل کی طلب بڑھ جاتی ہے اور وہ رسد (سپلائی) سے زیادہ ہوجائے تو قیمت بڑھ جاتی ہے ۔

 

2-پریشانی اور عسکری ہنگامہ آرائی:

ایک اور وجہ ہے جو تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو تی ہے  اور وہ " تجسس" ہے یعنی تیل کی مارکیٹ کے بارے میں توقعات ،جیسے  تیل والے علاقوں میں ہنگامے یا جنگ کے نتیجے میں تیل کی پیداوار یا سپلائی میں تعطل  کے واقعات۔۔۔اس لیے مشرق وسطیٰ میں  سیاسی کشیدگی  کی وجہ سے بھی تیل کی قیمتوں   اضافہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا    تیل کی رسد (سپلائی)  اور طلب میں کسی تبدیلی کے بغیر بھی صرف  تعطل کے خدشات سے بھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں  تیل کی قیمتیں کم ہو کر  سابقہ قیمت یا حقیقی قیمت پر بحال ہو جاتی ہے۔  مثال کے طور پر فروری  2012 میں یہودی ریاست اور امریکہ کی ایران کے ساتھ جنگ  کے بیانات سے تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں تھیں،فوربز میگزین  نے کہا ہے کہ  "کئی سالوں کے بعد تیل کی قیمتیں اس وقت اعلٰی ترین سطح پر پہنچ گئیں تھی اور  اس کا بڑا سبب  جیو اسٹریٹیجک  معاملات تھے جب ایران کے معاملے کو عسکری  طریقے سے حل کرنے کی بات کی گئی "(ایران پر حملے سے امریکہ کو کساد بازاری کا سامنا ہو گا " فوربز  فروری 2012 )۔

 

3-قیاس آرائیاں اور اقتصادی اعداد وشمار سے فائدہ اٹھا نا:

تیل کے درآمد یا بر آمد سے  تعلق والے  بعض ممالک   کے اقتصادیات کے بارے میں برے اعداو وشمار جو تیل  درآمد یا برآمد کرتے ہیں جیسا کہ امریکہ یا چین،  تیل کی قیمتوں  کی کمی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ،قطع نظر اس بات کے کہ طلب اور رسد میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔  اس حالت میں مارکیٹ  اقتصادی  ترقی میں کمی کے حوالے سے خوف  کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ سمجھنے لگتی ہے کہ تیل کے استعمال میں لازمی کمی لازمی ہوگی جس کے نتیجے میں اس کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یو ں بیوپاری  تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی یا اضافے کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں اور اس طرح  تیل کی قیمت طلب و رسد کی کمی بیشی کی وجہ متاثر ہوتی ہے۔

اقتصادی اعداد وشمار اور قیاس آرائیوں کا انحصار   تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک جیسے روس،کنیڈا اور سعودی عرب ۔۔۔ ، تیل در آمد کرنے والے ممالک جیسے چین ،چاپان  وغیرہ ،  تیل کی ملٹی نیشنل کمپنیاں جیسے ایکزون، بی پی وغیرہ  اورتیل کے کار ٹل  جیسے او پیک ، حصہ دار کے نام سے تیل کے مشہور تاجر وں پر  ہوتا ہے۔  ان میں سے ہر گروپ تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو نے کی طاقت رکھتا ہے، خواہ تیل کی رسد یا طلب پر ہو اثر انداز ہو کر  یا قیاس آرائیوں کے ذریعے ۔  بحران کے شکار ممالک  کے  اعدادو شمار اور ان کے متعلق قیاس آرائیاں  تیل کی قیمتوں پر  زبردست طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

 

دوسرا: سیاسی عوامل کے حصول کے لئے  اقتصادی عوامل کو متحرک کرنا:

1-شیل آئل کا مسئلہ:

امریکہ  نے زیر زمین چٹانوں کو توڑ کر تیل نکالنے (شیل آئل) کے سبب سب سے زیادہ تیل بر آمد کرنے میں سعودی عرب اور روس پر بھی سبقت حاصل کر لی ہے۔ 2014 کی گرمیوں میں "بینک آف امریکہ" نے کہا کہ امریکہ اس سا ل بھی  دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک رہے گا۔ وہ شیل آئل  نکالنے میں سعودی عرب اور روس سے آگے نکل گیا ہے۔اس سے ملک کی معیشت  میں زندگی آئے گی۔مائع اور اس کو قدرتی گیس سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ  امریکہ کی جانب سے  خام تیل کی پیداوار  بھی اس سال دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں  یومیہ پیداوار 11 ملین بیرل سے زیادہ  تھی("امریکہ کو سعودی عرب کو پیچھے چھوڑنے کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک کے طور دیکھا جاتا ہے"بلوم برگ جون 2014 )۔

امریکہ میں شیل گیس اور آئل کا انقلاب  تیل کی پیداوار میں اضافے کا سبب ہے کہ اس کی پیداوارجو 2011 میں5.5  ملین بیرل یومیہ تھی  اب بڑھ کر 10 ملین  بیرل یومیہ ہو چکی ہے جو اس کی زیادہ تر ضروریات  کو پورا کرتی ہے ۔ اس لیے سعودی عرب سے اس کی در آمد کم ہو کر تقریبا آدھی ہو گئی جو کہ 8 لاکھ 78 ہزار بیرل روزانہ ہے جبکہ پہلے یہ1.32ملین بیرل روزانہ تھی۔

لیکن شیل آئل میں یہ مشکل ہے کہ اس کو نکالنے میں خرچہ بہت  زیادہ ہے جو 75 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جاتا ہے  جبکہ قدرتی آئل کا خرچہ  7 ڈالر فی بیرل سے زیادہ نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ  شیل آئل پیدا کرنے والے ممالک اوران  کے سر خیل امریکہ کے لیے   پٹرول  کی قیمت  خرچے سے کم ہو نا تباہ کن ہو گا۔۔۔

2-تیل کی قیمتوں میں کمی   کا موضوع اقتصادی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ مد مقابل  ریاستوں  کو سزا دینے کے حصے کے طور پر ہے:

دو بین الاقوامی مسائل ایسے ہیں  جو دنیا کے لیے اثر اور اہمیت رکھتے ہیں:

ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات اور روس کی جانب سے کریمیا پر قبضہ،یہ دو ریاستیں اپنی بجٹ کے بڑے حصے میں  تیل کی بر آمدات پر انحصار کرتی ہیں۔اچانک اس کی قیمت میں آدھی تک کمی  یقیناً مذکورہ دو مسائل کے بارے میں ان کی پالیسی پر اثر انداز ہو گا۔ روس کے بجٹ میں  تیل اور گیس  یعنی انرجی کا حصہ 50 فیصدکی حد تک ہے بلکہ بعض اندازوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ۔ یوں  روس کو اپنی معیشت کو اعتدال پر رکھنے کے لیے  اس بات کی ضرورت ہے کہ تیل کی قیمت 105 ڈالر  فی بیرل ہو۔

جبکہ ایران کی بجٹ میں تیل کا حصہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔۔۔یہ بجٹ کے 80 فیصدسے بھی زیادہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایران سمجھتا  ہے کہ تیل کی قیمت 130 ڈالر  فی بیرل سے زیادہ ہو نی چاہیے تا کہ اپنی اندرونی  منصوبوں کو پروگرام کے مطابق جاری رکھے اور خطے میں اپنے کارندوں کی پشت پناہی کو بھی برقرار رکھ سکے۔ اس لیے پیٹرول کی قیمت میں اس قدر کمی اس کے بجٹ کو متاثر کرے گا۔

 

تیسرا : اوپر ذکر کیے گئے اسباب  کو پرکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے :

1-سیاسی مقصد سے خالی اقتصادی عوامل:

ا-طلب اور رسد   میں حالیہ  برسوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی  اور انتہائی معمولی تبدیلی سے اس طرح اچانک  کمی نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ  گرمیوں تک  تیل کی بین الاقوامی  قیمت  تقریبا 106 ڈالر  (وسٹ ٹکساس خام)فی بیرل تھی۔ یہ قیمت تقریبا چار سال سے تھی لیکن تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی   کی مکمل طور پر اقتصادی توجیہ ممکن نہیں۔ 2004 سے  ایک عشرے تک تیل کی یومیہ پیداوار 80 ملین بیرل سے زیادہ تھی۔2013 کے اختتام پر عالمی منڈی میں تیل کی پیداوار86.6  ملین بیرل  یومیہ تھی،پھر پیداوار اس سے بھی زیادہ ہوئی  اور 2013 کے آخر اور  2014 کی چو تھی  سہ ماہی میں  طلب بڑھ گئی  اور طلب اور رسد  قریب قریب ہو گئی۔ انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کی طرف سے جاری کیے جانے والے  اعداد و شمار کے مطابق  2014 کی تیسری سہ ماہی  میں رسد اوسطا93.74 ملین بیرل تک پہنچ گئی جبکہ طلب 93.08  ملین بیرل تھی ( مصدر : انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کی وئب سائٹ)۔  چارسالوں میں یہ فرق انتہائی معمولی تھا جس سے تدریجی طور چند ایک ڈالر کی کمی تو ہو سکتی تھی  لیکن پانچ مہینے کے اندر  نصف تک گرنا ممکن نہیں سوائے اس کہ  اقتصادی  عوامل بنیادی سبب نہ ہوں۔

ب-افرا تفری اور عسکری ہنگا مہ آرائی بھی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ بھی  گزشتہ چار سالوں سے برقرار ہے۔۔۔ خطے کے بحران اچانک اس قدر شدید نہیں ہوئے جو تیل کی قیمتوں میں  اس  اچانک کمی کا سبب ہوں۔ ہنگامے اور پریشانی تو خطے میں 2011 سے ہیں اور اب بھی  اسی طرح جاری ہیں اس میں اچانک کچھ نیا نہیں ہوا۔

یہ بھی یاد رہے کہ در اصل  خطے اور دنیا میں سیاسی بحرانوں  کے سائے میں تیل کی قیمتوں اضافہ ہو تا ہے  جیسا کہ 1973 سے  مختلف حادثات  کے وقت ہوا۔ اب یوکرائن،شام،عراق اور لیبیا میں زبردست بحرانوں کا سامنا ہے  تو پھر ہونا تو یہ  چاہیے تھا کہ  بیرل کی قیمت بڑھ  120 ڈالر بلکہ  بعض توقعات کے مطابق 150 ڈالرتک پہنچ جاتی۔  اگر اس کے پیچھے صرف  اقتصادی اسباب اور عوامل ہو تے تو قیمتوں میں یہ غیر معمولی کمی  نہ ہوتی  کیونکہ بحران اور جنگیں  سپلائی لائنوں کو متاثر کر تی ہیں  اس لیے رسد میں کمی واقع ہوتی ہے  جس سے قیمتیں کم نہیں زیادہ ہو جاتی ہیں،اس لیے تن تنہا اقتصادی عوامل نہیں  بلکہ دوسرے اسباب بھی ہیں۔

ج-قیاس آرائیوں اور اقتصادی اعداد وشمار سے فائدہ اٹھا نا۔ 2008 سے جب اقتصادی بحران شدت اختیار کر نے  اور معاملات بگڑنے پر بھی   اس قدر شدت نہیں آئی بلکہ  اس میں بہتری دیکھ نے میں آئی تھی ،اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے  صرف اقتصادی عوامل ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کا بنیادی سبب نہیں کہ اس  سے  قیمتیں پانچ مہینے پہلے کی نسبت آدھے سے بھی کم ہو جائیں۔

 

2-سیاسی عامل والے کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے  اقتصادی حرکت کے لیے سیاسی عامل:

ا-شیل آئل کا مسئلہ:

شیل آئل کو نکالنے کا خرچہ  70 سے 80 ڈالر  فی بیرل کے درمیان ہے ۔ اس کو نکالنے میں جدید  ترین ٹیکنا لوجی کے استعمال سے  یہ خرچہ کم ہو کر 50 سے 60  ڈالر فی بیرل تک آسکتا ہے ۔I H S   کمپنی (جو کہ تیل تلاش کرنے والی کمپنی ہے) سمجھتی ہے کہ  گزشتہ سال شیل آئل  نکالنے کا خرچہ کم  ہو کر 70 سے 57 ڈالر فی بیرل ہو چکا ہےکیونکہ تیل نکالنے والوں کو جلد سے جلد کنویں کھودنے  اور مزید تیل نکالنے کے  طریقے کا علم ہو گیا ہے  ( "سینٹ بمقا بلہ شیل آئل" اکانومسٹ 6 دسمبر 2014 )۔ اس لیے  تیل کی قیمتوں کا 50  یا 40 ڈالر فی بیرل تک کم ہونے سے    شیل آئل  نکالنا  نقصان کا باعث ہو گا  بلکہ  اگر یہ کمی 60 -70  فی بیرل تک بھی ہوتی  یہ مناسب نہیں تھی کیونکہ   اقتصادی تنا سب کے لیے  خرچ اور قیمت فروخت میں  مناسب فرق درکار ہو تا ہے۔

اس لیے  او پیک  یا سعودیہ کی طرف سے   تیل کی پیداوار میں کمی نہ کر نے کا یہی سبب ہو سکتا ہے۔۔۔یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ امریکہ نے  قدرتی تیل  کی قیمتوں میں اضافہ اور فی بیرل  سو ڈالر سے زیادہ ہو نے پر ہی  شیل آئل سے فائدہ اٹھا نا شروع کیا  اس لیے قدرتی  تیل کی قیمتوں میں کمی   شیل آئل کی پیداوار  کو جاری نہیں رکھ سکتی ۔

قدرتی تیل کی قیمتیں اس کمی کو برداشت کر سکتی ہیں  کیونکہ  اس پر خرچہ 7 ڈالر فی بیرل سے زیادہ نہیں آتا  جبکہ شیل آئل  پر خرچہ اس سے  دس گنا تک زیادہ ہے ۔اس لیے یہ بات سمجھی جانی چاہیے کہ قدرتی تیل کی قیمتوں میں اس کمی کے باوجود یہ منافع بخش ہے جیسا کہ سعودی  وزیر تیل  علی النعیمی نے کہا کہ "اوپیک  اپنی پیداوار میں کمی نہیں کرے گا خواہ  عالمی مارکیٹ میں قدرتی تیل کی قیمتیں 20 ڈالر تک بھی گرجائیں" (الجزیرہ24 دسمبر 2014 )  اور  اس نے یہ وضاحت  بھی کی کہ " کئی سالوں  تک اوپیک اور سعودیہ  کے حصے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ،وہ 30 ملین بیرل یومیہ کی حد میں ہیں جس میں 6.9  ملین بیرل  سعودیہ کی پیداوار ہےجبکہ اوپیک سے باہر دوسرے ممالک   پیداوار میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں"۔

یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ موجودہ شاہ عبد اللہ کی قیادت میں سعودی حکومت  کے انگریز کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پیداوار میں کمی نہ کرنے اور اس مقصد کے لیے اوپیک پر دباو نہ ڈالنا   انگریز کی پایسی کے ضمن میں ہے جس کے لیے اس نے سعودیہ کو اپنا ہم نوا بنا کر امریکہ  کے شیل آئل کی پیداوار کو متاثر کر رہا ہے۔

ب-جب امریکہ اوپیک کے اس رویے کو سمجھ گیا جو اس  کے سب سے بڑے حصہ دار سعودیہ کی وجہ سے ہے ،خاص کر تیل بر آمد  کر نے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے  جب 27 نومبر 2014 کو اپنے ہیڈ کواٹر  ویانا میں اپنا اجلاس منعقد  کیا، جہاں تنظیم کے اراکین   نےقیمتوں کو سہارا دینے کے لیے  پیداوار میں کمی پر اتفاق نہیں کیا کیونکہ سعودیہ نے پیداوار میں کمی سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ  کچھ عرصے تک وہ  قیمتوں میں اس کمی کو برداشت کر سکتے ہیں۔ جب  امریکہ یہ بھانپ گیا تو  جان کیری نے 9 نومبر 2014کو سعودیہ کا دورہ کیا اور امریکی وزیر خاجہ نے   اپنے اس   اچانک دورے میں سعودی فرمانروا سے ان کی گرمیوں کی رہائش گا ہ پر  ملاقات کی ۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ نے  اس دورے کا   تیل کے علاوہ کوئی اور مقصد بیان کیا مگر قرائن  اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ  دورے کا موضوع تیل اور اس کی قیمتیں تھیں۔۔۔اسی دورے کے بعد ہی  اس  سال  ستمبر کے مہینے کے باقی دنوں میں سعودیہ نے  تیل کی پیداوار میں ایک لاکھ  بیرل یومیہ کا اضافہ کرنا شروع کردیا  دیا  جو نومبر کے مہینے کے  پہلے ہی ہفتے تک جاری رہا ۔ سعودیہ نے  تیل ( عرب لائٹ ) کی قیمت میں 45 سنٹ فی بیرل کمی کر دی  جس سے  تیل کی قیمتیں تیزی سے 80 ڈالر فی بیرل سے نیچے آ گئی۔  امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی عہدہ دار نے  نے  کہا کہ  اس ملاقات میں تیل کی عالمی رسد پر بات ہوئی تھی۔

جب  کیری پیداوار میں کمی پر سعودیہ کو قائل  نہ کر سکا تو  دوسرے پہلو سے قیمتوں میں کمی کی بات کی کیونکہ یہ کمی روس پر اثر انداز ہو گی جس نے کریمیا پر قبضہ کر رکھا ہے اور  ایران کو متاثر کرے گی  جس کے ساتھ ایٹمی موضوع پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس نے یہ دیکھا کہ ان دو  کے ساتھ اس سلوک سے سعودیہ بھی خوش ہو گا۔ لیکن اس نے یہ کہا کہ یہ کمی 80  ڈالر فی بیرل کی حد تک ہو اور ایسا لگتا ہے کہ سعودیہ نے بھی اس  بات کو قبول کیا  یا بظاہر قبولیت کا اظہار کیا  کیونکہ برطانوی میگزین ٹائم نے16 اکتوبر 2014  کو کہا کہ "سعودیہ نے  محتاط انداز سے ایک موقف اختیار کیا کہ  قیمتوں کو 80 ڈالر کے قریب رکھا جائے گا  تاکہ شیل آئل کونکالنے  کی اقتصادی طور پر گنجائش نہ ہو،جس نے امریکہ کو دوبارہ  سعودیہ سے تیل درآمد کرنے اور شیل آئل کو  مارکیٹ   سےباہر کرنے پر مجبور کیا"۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ انگریز  امریکہ کے مقابلے سعودیہ کی پشت پناہی کر رہا تھا  کیونکہ برطانیہ اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے  اور  مالیاتی بحران  سے نجات کے لیے سر گرم تھا  خواہ یہ دوسروں  کے خرچے اور کسی پر ضرب لگانے کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ  عبد اللہ آل سعود کی موجودہ حکومت  انگریز کا ہی خوشہ چین ہے۔

امریکہ نے یہ ظاہر کر دیا کہ اس نے سعودیہ کو کمی پر  مطمئن  کر لیا ۔ اسی طرح  یورپ کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ  ان کی طرف سے کریمیا پر قبضے پر روس پر دباو نہ ڈالنے کا الزام غلط ہے اور یہ بھی کہ وہ  ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران پر دباو نہیں ڈال رہا ہے۔۔۔امریکہ نے یہ دکھا یا کہ یہ الزام درست نہیں  اس کی دلیل  تیل کی قیمتوں میں کمی کی موافقت  سے دونوں ریاستوں  کا بجٹ متاثر ہوا۔۔۔اس کے ساتھ روس کے بعض  مخالفین  کو بھی خوش کیا۔ اس سے پہلے مارچ  میں ارب پتی جورج سوروس نے امریکی انتظامیہ کو تجویز دی تھی کہ  کریمیا پر قبضہ کر نے پر  روس کو سبق سکھا نے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔۔۔یو  ں کیری نے اس کمی پر   یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ  وہ اس کا حامی ہے  لیکن ایک خاص حد تک ،پھر اس سے یورپ اور روس مخالفین کو دھوکہ دیتا ہے  کہ وہ کریمیا پر  قبضہ کرنے پر روس کے خلاف ہے مگر حقیقت یہ نہیں۔۔۔

لیکن پہلی بار  امریکہ اپنے آپ کو ناکام دیکھتا ہے ۔ ہوائیں اس کی کشتی کے مخالف چلی ہیں  کیونکہ چند مہینوں کے اندر ہی تیل کی قیمتیں کم ہو کر 60 ڈالر فی بیرل تک گر گئیں۔ سعودیہ نے پیداوار میں کمی نہ کرنے پر اصرار کیا  بلکہ پیداوار میں  اضافہ کیا اور اس عمل نے تیل کی مارکیٹ میں رد عمل کوجنم دیا ۔

 

چوتھا : موجودہ توقعات :

1-قیمتوں کی اپنی پرانی جگہ پر بحالی میں  مشکل کا سامنا ہے

2-لیکن کمی کو جاری رکھنے سے بھی دونوں اطراف  متاثر ہوں گے

ا-سعودیہ،  جس کے پیچھے  یورپ  اور خاص  طور پر برطانیہ ہے  ،  کو  اپنی 860 ارب  ریال کی بجٹ میں 145 ارب  ریال خسارے کا سامنا ہے  جو اخراجات کے لیے درکار تھے،یعنی 40 ارب ڈالر  خسارہ اوریہ پٹرول کی قیمتیں کم ہو نے کی وجہ سے  ہوا۔ یہ  خسارہ اس کے اندرونی منصوبوں کو متاثر کرے گا ۔ اس سے بھی اہم یہ کہ  سعودیہ کے لیے برطانیہ سے درآمدات  خصوصا ً اسلحے پر اثر پڑے گا  کیونکہ سعودیہ کو بجٹ میں کمی   اور خسارے کا سامنا ہے۔۔برطانیہ سے سعودیہ کے لیے در آمدات  2012 میں 7.5  ارب پاونڈ اسٹرلنگ تک پہنچ گئی تھیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے  سعودیہ کی معیشت متاثر ہو گی ۔۔۔خاص کر اس کی بجٹ کے 89 فیصدکا دار ومدار تیل کے بر آمدات پر ہے۔  اس لیے قیمتوں میں کمی کا بر قرار رہنا  اس پہلو سے اثر انداز ہو گا۔۔۔

ب-دوسرے پہلو سے قیمتوں میں کمی کا جاری رہنا  امریکہ کی جانب سے شیل آئل کی پیداوار کو متاثر کر ے گا۔ یہ اس لیے کہ  گزشتہ چند سالوں میں  قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے  امریکہ میں شیل آئل  نکالنے پر سرمایہ کاری کی گئی اور وہ  منافع بخش ثابت ہوا تو 2008 سے  اس میں  4 ملین  بیرل  تیل یومیہ کا اضافہ کیا گیا  اور یہ  تیل کی بین الاقوامی پیداوار   میں ایک موثر حصہ ہے۔

اگر چہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی  امریکہ میں معاشی سر گرمیاں تیز ہو گئیں  لیکن  شیل آئل  کی تجارت  سے محروم ہونا اس کے لیے زیادہ بھاری  ہے۔  امریکہ  یورپ،سعودیہ اور اوپیک کو آسانی سے اپنی سرمایہ  کاری کو  تباہ کرنے نہیں دے گا  ۔

3-امریکہ   کو یاتو شیل آئل  کی پیداوار کے خرچے کو کم کر نے کے لیے  جدید ٹیکنالوجی  کے اسالیب  پر اعتماد کر نا پڑے گا  تاکہ اس کی قیمت بھی  تیل کی موجودہ قیمتوں کے پیمانے پر آجا ئے۔ یہ  آسان کام نہیں  خاص کر جب   تیل کی قیمتوں میں یہ کمی کا سلسلہ جاری رہے۔ لگ بھی ایسا رہا ہے کہ اس کی قیمتوں میں یہ کمی فی الحال نہیں رکے گی۔  آج 7 جنوری 2015 کی خبر ہے کہ  یہ 50 ڈالر  فی بیرل سے بھی کم ہو چکی ہے۔۔۔یا پھر امریکہ  براہ راست سعودیہ کی طرف متوجہ ہو گا  اور اس کے  لیے کچھ بحران پیدا کر دے گا  اور اس کے بجٹ خسارے کو بڑھا دے گا جس سے مجبور ہو کر  وہ پیداوار میں کمی کرے گا جس کے نتیجے میں  قیمت میں اضافہ ہو گا۔۔۔یا پھر  یمن اور لیبیا میں  برطانیہ کے لیے پیدا کیے گئے بحرانوں میں کمی کرے گا  تا کہ اس کے بدلے  برطانیہ  سعودیہ پر پیداوار میں کمی کے لیے دباو ڈالے  پھر  اوپیک بھی اس میں کمی کرے یوں  تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں۔۔۔چونکہ ان تینوں میں سے کسی بھی حل کے لیے منصوبوں  بلکہ سازشوں کی ضرورت ہے ۔۔۔اس لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کا بحران   قابل دید رہے گا۔ یہ طاقتوروں کی رسہ کشی  یا  سرمایہ دارانہ طریقے پر کچھ لو اور کچھ دو کی سوادابازی  سے   کم یا زیادہ ہوتی رہیں گی۔۔۔

پانچواں : یقیناً  عالمی سیاست غیر مستحکم اور پریشان کن ہے،ا یک بحران سے چھٹکارہ پانے سے پہلے ایک اور بحران کا سامنا ہو تا ہے۔ یہ سب دنیا پر مسلط  سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن ہے  جو اپنے  گود میں ہی عالمی بحرانوں  کو پالتا ہے ۔ اسی سے عالمی نظام   عمومی طور پر  اور لوگوں کی زندگی  خاص طور پر  تنگ ہو جاتی ہے۔۔۔  جب تک یہ نظام دنیا میں قائم رہے گا یہ کرپشن،یہ تباہی،یہ بد بختی اور پریشان حالی  باقی رہے گا۔ یہ بحران اس ربانی نظام کو  نافذ کیے بغیر  حل نہیں ہوں گے جس کو اللہ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے  جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے  جس کے آغوش میں ہی عدل اور اطمینان اور اس کے سائے میں  ہی خوشحالی ہے

﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا

"وہ کہتے ہیں کہ  وہ کب ہے ؟کہہ دیجئے  شاید قریب ہی ہوگا"(الاسراء:51)

Read more...

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُ "اے ایمان والو صبر کرو اور مقابلہ میں مضبوط رہو اور لگے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو"(آل عمران:200)

حکومت کے وفادار میڈیا ذرائع نے    حکومت کی جانب سے حال ہی میں کیے جانے والے فیصلے کی پوری تفصیلات  شائع کیں ہیں جس کے تحت  نوجوان  سفر سے پہلے  لازما "شعبہ ریکروٹمنٹ" سے اجازت لیں گے۔ نیا فیصلہ ہر اس شامی کے لیے ہے جس کی عمر 18 سال سے 42 تک ہو۔ جو یہ اجازت لینے کا خواہشمند ہو   اس کو 300 امریکی ڈالر یا اس کے مساوی شامی لیرہ ادا کرنا ہوں گے۔ امیگریشن اور پاسپورٹ  ڈپارٹمنٹ نے   ایک ہنگامی ٹیلی گرام   بھیجا ہے  جس میں  لازمی خدمت سے فارغ ہونے والوں کو  ریکروٹمنٹ  کے شعبے کی اجازت کے بغیر  سفر کی اجازت نہ دینے کا   مطالبہ کیا گیا ہے۔

اے اسلام کے مسکن شام کے مسلمانو ! دور حاضر کے طاغوت بشار کے خلاف  شام کے مبارک انقلاب  کے چار سال ہونے پر  اور شام کے مسلمانوں کے امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی سازشوں  کے سامنے ڈٹ جانے کی وجہ سے   اور روس اور ایران کی جانب سے اس مجرم حکومت کو ہر قسم  کی مادی،عسکری اور افرادی قوت کے ذریعے مدد کے باوجود،بین الاقوامی  برادری کی جانب سے دور حاضر کے فرعون  کی اس خوف سے پشت پناہی کہ کہیں اس کے ختم ہونے سے  یہ انقلاب خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ میں تبدیل نہ ہوجائے ۔۔۔ اس سب کے باوجود اس انقلابی تحریک  نے  اس کی مادی ،عسکری اور افرادی طاقت  کا صفایا کر دیا جس سے  وہ ان لو گوں سے  عسکری خدمات لینے پر مجبور ہوا ہے جنہوں نے فوجی خدمات انجام نہیں دیں  یا دے چکے ہیں (جن کی عمریں 18 سے 42 سال کے درمیان ہیں )کہ انہیں   ریکروٹمنٹ  ڈپارٹمنٹ سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے اوراسی لیے ان کو بیرونی سفر سے روک دیا  گیا ہے بلکہ ان کو گرفتار کرکے  زبردستی  ان کے ذریعے حکومت کو بچانے  اور  ان کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ اس بات کا واضح مظہر ہے کہ  یہ حکومت کمزوری کے کس حد کو پہنچ چکی ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ عنقریب اللہ کے اذن سے یہ حکومت ختم ہوجائے گی ۔ حکومت  کا یہ قدم   ظاہر کرتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جھوٹ بولتی ہے کہ طاقتور ہے اور حلب کا محاصر کر سکتی ہے جبکہ  وہ تو اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتی۔

 

اے شام کی مبارک سر زمین  کے مجاہدو !

شام میں آج جو  ہو رہا ہے  اس کو صرف اللہ پر ایمان اور اس کے دین کی سربلندی  کی بنیادد پر اس کے سامنے ڈٹ کر ہی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس سرکشی کو ختم کرنے کے  لیے تم نکلے ہو تو حق پر ثابت قدم رہو ،ظالم سرکشوں  کے سامنے کمزوری مت دکھاو اور ایسے ہی بنو جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيل * فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ * إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

"ان لوگوں سے جب لوگوں نے کہا کہ  لوگ تو تمہارے خلاف اکھٹے ہو گئے ہیں ان سے ڈروتو  اس سے ان کا ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا اور کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے  اور وہی بہترین کار ساز ہے اس لیے وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹے ، انہیں  کوئی برائی (نقصان) نہیں پہنچی انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی اور اللہ ہی بہت فضل والا ہے  یہ تو بس شیطان ہے جو  اپنے دوستوں کو ڈرا تا ہے،  تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو"(آل عمران:175-173)

اور اللہ تعالی نے ان سے کامیابی کا وعدہ کیا:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

"اے ایمان والو صبر کرو اور مقابلے میں مضبوط رہو اور لگے رہو اور اللہ سے ڈرو  تاکہ  تم کامیاب ہو سکو"(آل عمران:200)۔

و مضبوطی سے کھڑے رہو اور صابر رہو اور اپنی جدوجہد جاری رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم کامیاب ہوسکو۔

احمد عبدالوہاب / ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں سانحہ پشاور کی مذمت میں مظاہرے کیے اے افواج پاکستان ! خطے سے امریکی شیطانی وجود کا خاتمہ کرو جو دہشت گردی کا ماخذ ہے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے منگل 16 دسمبر کو پشاور میں ہونے والے اندوہناک اور وحشیانہ حملے کےخلاف آج  ملک بھر میں  مظاہرے کیے جس میں ایک سو بتیس بچےاورنو بڑوں کو بے دردی سے قتل کردیا  گیا تھا۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ :"اے پاک فوج!سانپ کا سر کچل دو، امریکی ایمبیسی اڈے بند کرو "، "دھماکے بدامنی اور عدم استحکام، وجہ ہے امریکہ اور غدار حکمران

مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ اس قسم کے شیطانی حملے اور قتل  و غارت گری امریکی انٹیلی جنس کرواتی ہے تا کہ خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا سکے۔اس قسم کے وحشیانہ حملے جس میں معصوم بچوں  تک کو قتل کردیا جائے دراصل اس امریکی خارجہ پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے جس کے تحت  خفیہ  طور پر  اس ملک کی فوج اور عوام پر حملے کرائے جاتے ہیں۔ یہ خفیہ حملے ثابت شدہ امریکی ہتھکنڈے ہیں جو اس کی انٹیلی جنس اور پرائیوٹ ملٹری دنیا بھر میں اختیار کرتی ہیں تا  کہ ہدف شدہ  ملک کو عدم تحفظ کا شکار کردیا جائے۔

مظاہرین نے ان  مخلص قبائلی مسلمانوں سے جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف لڑ رہےہیں مطالبہ کیا  کہ  وہ ان حملوں کی بھر پور مذمت کریں  اور اُن لوگوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں جو اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے امریکی منصوبے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

مظاہرین  نے افواج پاکستان کے مخلص افسران سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ  اللہ  سبحانہ و تعالٰی کے احکام کے مطابق  لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں کیونکہ وہی اس بات کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے حزب التحریر کو نصرہ فراہم کر کے خلافت کا قیام عمل میں لائیں۔ پھر خلافت امریکی  سانپ کے سر کو کچل دے گی،  امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں کو بند ، امریکی سفارت کاروں اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کو  ملک بدر کردے گی جو آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں ،  لوگوں سے رابطے کرتے ہیں اور ڈالر بانٹتے ہیں اور اس طرح پاکستان کو امریکی نجس وجود سے پاک کردے گی۔

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

http://cms.hizb-ut-tahrir.info/info/images_topics/Image/wilayat/pakistan/2014/12/2014_12_18_PK/2014_12_18_PK_Pics%20(5).jpg

Read more...

نیشنل ایکشن پلان دراصل امریکی پلان ہے نیشنل ایکشن پلان امریکی صلیبیوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کو ختم کرنےکا منصوبہ ہے

امریکہ کے حکم پر راحیل-نواز حکومت کی جانب سے اعلان کردہ نیشنل ایکشن پلان پاکستان سے بدامنی کے خاتمے کے لئے نہیں بلکہ جہاد کے تصور اور امریکہ اور کفار کےخلاف جہاد کرنے والوں کو ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ بظاہریہ نیشنل ایکشن پلان ان لوگوں کے خلاف ہے جو ملک میں فوجی و شہری تنصیبات پر حملے اور فوجیوں اور شہریوں کو قتل کرتے ہیں لیکن جس طرح خصوصیت سے اس منصوبے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ "اچھے اور بُرے طالبان میں کوئی امتیاز نہیں رکھا جائے گا" وہ اس بات کو بے نقاب کردیتا ہے کہ بدامنی پھیلانے والوں کو ختم کرنے کی آڑ میں اُن مجاہدین کا خاتمہ کرنا مقصود ہے جو امریکہ کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ چونکہ راحیل-نواز حکومت بھی پچھلی حکومتوں کی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے سامنے اس بات کا اقرار کرنے کی ہمت نہیں رکھتی کہ امریکہ کے حکم پر انہیں اچھے طالبان (جو امریکہ کے خلاف افغانستان میں جہاد کررہے ہیں) کو ختم کرنا ہے لہٰذا انہیں اور بُرے طالبان (جو شہریوں اور فوجیوں کا نشانہ بناتے ہیں)کو ایک ہی درجے میں شامل کردیا گیا ہے۔

امریکہ اور راحیل-نواز حکومت اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ تمام تر مکرو فریب ، سازشوں اور بم دھماکوں کے باوجود پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کو جہاد کے تصور اور افغان جہاد سے متنفر نہیں کرسکے ، لہٰذاکوئی بھی نیشنل ایکشن پلان عوام اور افواج پاکستان کی حمائت حاصل کر ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے اس نیشنل ایکشن پلان کو نافذ کرنے کے لئے فوجی عدالتوں کی صورت میں فوجی قوت کےاستعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی حکومت کا اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے فوجی قوت پر انحصار کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اِن پالیسیوں پر عوام کو قائل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آئین کی بنیادوں کو تبدیل کرنے کے لئے اُس کی دفعہ 8 اور دفعہ(A-B) 212 میں ترامیم لائیں جارہی ہیں اور خود اپنے ہاتھوں یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ آمریت کی طرح جمہوریت میں بھی انسانوں کے بنیادی حقوق صرف اس وقت تک ہی محفوظ ہیں جب تک حکمران چاہتے ہیں۔

امریکہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے تیرہ سال سے تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کے عوام کے دل ودماغ کو جیتنے اور اسلام کے خلاف امریکی جنگ کو پاکستان کی جنگ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے کیونکہ مسلمان جانتے ہیں کہ جہاد اسلام کی شان ہے اور اس سے دست برادری دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔ لہٰذا اب آخری حربے کے طور پر امریکہ پاکستان کے معاشرے کو جہاد سے دستبردار کروانے اور انہیں کفریہ سیکولر تصورات کو اپنانے کے لئے سیاسی وفوجی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے فوجی قوت کو استعمال کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

حزب التحریر پاکستان کے عوام، افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران اور ان لوگوں کو جو خود کو عوام کا رہنما کہتے ہیں، خبردار کرتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی حمائت اور مدد کرنا اللہ سبحانہ و تعالی، اس کے رسولﷺ اور مسلمانوں سے غداری کے مترادف ہے اور جس کی سزا بہت سخت ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کے معاشرے کو سیکولر بنانے اور جہاد کے تصور سے دستبرداری کا منصوبہ ہے لہٰذا اس کی ہر سطح پر مذمت اور مخالفت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

فمن كره فقد برئ، ومَن أنكر فقد سلم، ولكن مَن رضي وتابع

"تو جس نے برا جانا وہ بَری ہوا اور جس نے انکار کیا وہ (گناہ سے) محفوظ رہا۔ لیکن جو راضی رہا اور تابعداری کی وہ بَری ہوا نہ محفوظ رہا"

(مسلم)۔

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

راحیل-نواز حکومت کا قوم سے خطاب فوجی عدالتوں کا قیام خطے میں امریکی راج کو دوام دینے کے لئے ہے

بدھ اور جمعرات کے درمیانی شب وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی حمائت سے تیار ہونے والے ان تجاویز کو پیش کیا جس کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کو ممکن بنائے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ ان تجاویز میں سب سے اہم خصوصی عدالتوں کا قیام ہے جس کے جج فوجی افسران ہوں گے۔ دراصل یہ خصوصی عدالتیں فوجی عدالتیں ہی ہونگیں لیکن راحیل-نواز حکومت نے اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لئے انہیں خصوصی عدالتوں کا نام دیا ہے۔

سانحہ پشاور کی آڑ لے کر فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ملک سے بدامنی کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو سزائیں دینا ہے جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کررہے ہیں اور عام عوام اور افواج میں موجود مخلص افسران کو خوفزدہ کرنا ہے جو اس ملک کو امریکی جنگ سے نکالنا اور خلافت کے قیام کی صورت میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے متعلق امریکہ نے جتنا دباؤ ڈالا، خاص کر حقانی اور گل بہادر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنا ، سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد اس بات سے مشروط کرنا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ کانگریس کو ہر سال اس بات کی یقین دہانی کروائے گا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں کامیابی سے فوجی آپریشن کررہا ہے اور امریکہ کا یہ اقرار کر نا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں حقانی نیٹ ورک کمزور ہوا ہے ، یہ تمام باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں فوجی آپریشن بدامنی کے خاتمے کے لئے نہیں بلکہ اس کی آڑ لے کر مخلص جہادیوں کو نشانہ بنانے کے لئے ہورہے ہیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے جواز میں یہ کہنا کہ حالت جنگ میں عام عدالتیں کام کرنے سے قاصر ہیں تو حقیقت تو یہ ہے کہ برطانوی راج کا چھوڑا ہوا عدالتی نظام عام حالات میں بھی انصاف فراہم کرنے سے یکسر عاری ہے تو کیا عام حالات میں بھی فوجی عدالتیں لگا دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ دس سال تک حکمران اور مسلسل حالت جنگ میں رہے اور اس کے ساتھ ساتھ منافقین اور یہود کی سازشوں کا بھی سامنا کرتے رہے لیکن کبھی بھی شہری حقوق غضب نہیں کئے گئے، نہ ہی اسلامی ریاست پولیس سٹیٹ میں تبدیل ہوئی ، بلکہ ان تمام حالات میں بھی ریاست کے شہریوں کو حکمرانوں کا احتساب کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔

دس سال سے قبائلی علاقوں اور ملک کے کونے کونے میں فوجی آپریشن جاری ہیں جس میں حکومت کے دعووں کے مطابق ہزاروں دہشت گردوں کا صفایا اور سیکڑوں بار ان کی کمر توڑی جاچکی ہے لیکن اگر اس کے باوجود ملک میں فوجی و شہری تنصیبات پر حملے اور قتل وغارت گری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تو اس کی بنیادی وجہ افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کی موجودگی ہے جو خصوصاًپاکستان میں فتنے کے آگ کو جلائے رکھنا چاہتا ہے تا کہ اس فتنے کو بنیاد بنا کر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار قبائل اور پاکستان کے عوام میں موجود ان مخلص لوگوں کو نشانہ بنا ئیں جو امریکہ کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔

سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار پاکستان کو اس امریکی جنگ سے نکالنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جہاد کے تصور کے خاتمے،لوگوں کے بنیادی حقوق کو غضب اور انصاف کے بنیادی اصولوں کا جنازہ نکال رہےہیں۔ جب کبھی بدامنی کے امریکی ماسٹر مائنڈز ریمنڈ ڈیوس اور جوئل کاکس گرفتار ہوئے تو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے نہ صرف انہیں رہا کروادیا بلکہ حفاظت کے ساتھ ملک سے باہر بھی بھجوا دیا۔ پاکستان سے بدامنی کا خاتمہ اس خطے سے امریکہ کو نکالے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اصل میں وہی اس کا ماخذ ہے۔ لہٰذا ملک سے بدامنی کے خاتمے کے لئے خطے سے امریکی وجود کا خاتمہ ضروری ہے جو صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

پریس ریلیز شہریوں کی ہلاکتوں  میں اضافے کا براہ راست سبب غیر ملکی قبضہ اوراستعماریت ہے

افغانستان کے لئے اقوام متحدہ کا مشن UNAMAنے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عام شہریوں کی  ہلاکتوں میں اضافہ ہوا،بالخصوص 2014 میں گزشتہ سالوں کی بنسبت یہ تعداد 19فیصدکی  شرح سے بڑھی۔ اقوام متحدہ کا مشن برائے افغانستان کی طرف سے 2009سے تا حال      17252 افغانیوں  کے قتل  اور 29536 کے زخمی ہونے کو ریکارڈ کیا گیاہے  جبکہ دوسری طرف اس رپورٹ میں یہ ذکر بھی  کیا گیا کہ ان نقصانات  اور ہلاکتوں  میں سے 75فیصدکے ذمہ دار طالبان ہیں کیونکہ اس علیحدگی پسند گروہ نے ہی بین الاقوامی اور افغان فوجیوں پر شدید  حملے کئے۔

حقیقت  میں ان تمام انسانی نقصانات کا اصل سبب  افغانستان میں امریکہ اور ناٹو کی جنگی مشینری کی موجودگی ہے۔       یہ مشینری مظلوم افغانی قوم کے خلاف مختلف   فورسز کے ذریعے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جیسا کہ سپیشل امریکن اینڈ افغان فورسز، باہمی سیکورٹی معاہدوں  کے  امن فورسز، بلیک واٹر ، مائیکل نیٹ ورک،علاقائی پولیس اور قومی انقلابی فورسز،اس  کے ساتھ جنگی طیاروں سے بمباری اور ڈرون  حملے شامل ہیں۔

افغانستان کی صلیبی جنگ تیرہ سال کا عرصہ پوراکرچکی ہے مگر بالآخر امریکہ اور ناٹو کو  شرمناک اور ذلت آمیز فوجی شکست کا سامنا کرناپڑا۔  لہٰذابھاری نقصانات اوربڑے خساروں کے  بغیرکم قیمت کے ساتھ جنگ کی قیادت کرنے کے لئے  امریکہ اور ناٹو نے افغانستان میں اپنی افواج میں کمی کر کے جنگ کو مقامی اور افغان باشندوں کے مابین جنگ کی سطح پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔  جنگ کو جاری رکھنے کے لئے اُنہوں نے افغان فورسز کے لئے میدان جنگ  چھوڑدیا ۔ مزید برآں ، کابل اور واشنگٹن کے درمیان باہمی سیکورٹی معاہدے  (BSA) کے مطابق امریکی اور ناٹو فورسز رہنمائی کا کردار ادا کریں گے اور اپنے اڈو ں میں تعینات رہیں گی۔

بہر حال ، افغانستان کی عسکری وسیاسی قیادت کے لئے  ضروری ہے کہ  وہ قابض  مغربی استعماریوں کے آلہ کاروں اور مزدوروں  کا کردار ادا نہ کریں اور اپنے بھائیوں کے قتل سے اپنا ہاتھ روکیں۔    کیونکہ اسلام دشمن اور استعماری اہداف کے حصول کے لئے مغرب مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرواناچاہتا ہے۔  بحران کی اس کیفیت کو  جڑوں سے تبدیل کرنے اور اس المناک صورتحال سے نکلنے  کا ایک ہی حل  ہے  کہ نبوت کے نقش ِ قدم پر خلافت کو قائم کیاجائے اور دشمنوں  کے خلاف قوت ایک کی جائے۔

حزب التحریر کا  مرکزی میڈیا آفس

ولایہ افغانستان

Read more...

سانحہ پشاور اور پاکستان میں امریکہ کی خفیہ جنگ

پاکستان کے شہر پشاور میں  واقع آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے وحشیانہ حملے کو ہوئے چند دن گزر چکے ہیں۔ اس حملے میں سرکاری اعلامیہ کے مطابق مرنے والوں  کی تعداد ایک سو اکتالیس ہے جس میں بہت بڑی تعداد اسکول کےمعصوم بچوں کی ہے۔ اس اندوہناک واقع نے پورے پاکستان کو غم و غصے میں مبتلا کردیا اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس وحشیانہ عمل کی شدید مذمت کی جس میں قبائلی علاقوں کی گروہ اورافغانستان کے طالبان کے ملا عمر بھی شامل ہیں۔

 

جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے اور  مقتولین دفنا دیے جاتے ہیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا  کردی جاتی ہے تو ہم  ان  وجوہات اور اس سے جوڑے واقعات کے جانب متوجہ ہوتے ہیں جو   اس سانحہ پر منتج ہوئے اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ پھر دوبارہ ویسا ہی سانحہ کبھی واقع نہ ہو۔ ہمسائیہ ملک افغانستان میں امریکہ کی ایک دہائی سے جاری جنگ اور پاکستان کے یکے بعد دیگرے آنے والی سیاسی وفوجی قیادت کا اس امریکی جنگ میں شمولیت کے فیصلے کو جاری و ساری رکھنا اس سانحہ کا پس منظر ہے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے امریکہ سے تعلقات کا تجزیہ کرنے سے یہ  واضح ہوتا ہے کہ  خطے میں امریکہ کی موجودگی پاکستان کے ہزاروں لوگوں کی  جانیں گنوادینے کی اہم ترین وجہ ہے۔

 

خطے میں امریکہ کی پہلی  سب سے اہم مداخلت افغانستان پر سوویت روس کے حملے کے دوران  آپریشن سائیکلون کے نام سے ہوئی تھی جو کہ مجاہدین کو سی۔آئی۔اے کی جانب سے مسلح کرنے کی مہم کا خفیہ  نام تھا۔ امریکہ نے جہادی گروپوں کے لئے کئی تربیتی پروگرام شروع کیے جن میں کار بم دھماکے، اہم شخصیات کو قتل کرنے اور سرحد کے پار سوویت روس میں داخل ہو کر اس کی تنصیبات پر حملے شامل تھے۔ امریکی سی۔آئی۔اے نے ان مقاصد کے لئے رقم اور دیگر وسائل فراہم کیے اور پاکستان کی آئی۔ایس۔آئی نےان وسائل کو  افغانستان میں سوویت روس کے خلاف گوریلہ جنگ کے لئے استعمال کیا۔ 1989 میں سوویت روس کے چلے جانے کے بعد امریکہ بھی اس خطے سے چلا گیا اور بعد کے معاملات کو سنبھالنے کے لئے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ امریکہ نے جہادی نیٹ ورکس کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا لیکن پھر 9/11 کے بعد پاکستان کو حکم دیا کہ اب وہ انہیں ختم کردے۔

 

جنرل مشرف کی قیادت میں پاکستان نے امریکہ کو افغانستان میں جنگ کے لئے فوجی،  فضائی اڈے  اور رسد کی نقل حمل کے لئے زمینی راستے فراہم کیے۔ مشرف نے اپنی سوانح حیات، ان دی لائن آف فائر ، میں لکھا ہے کہ "ہم نے 689 لوگ پکڑے اور 369 کو امریکہ کے حوالے کیا۔ ہم نے اس سے کئی ملین ڈالر کمائے"۔ کابل سے طالبان کو نکال باہر کرنے کے بعد اور عراق میں کھڑی ہونے والی مزاحمت نے امریکہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی فوجی، سیاسی اور سیکورٹی قوت مشرق وسطیٰ کے جانب مبزول کردے۔ طالبان کو اگرچہ کابل سے نکال دیا گیا تھا لیکن انہیں  شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ پاک افغان سرحد کی جانب چلے گئے تا کہ اپنی شیرازہ بندی کرسکیں۔ امریکہ کی توجہ عراق کی جانب مبزول ہونے کی وجہ سے طالبان کو ایک بار پھر کھڑا ہونےکا موقع ملا اور 2005 تک وہ پوری طاقت کے ساتھ  افغانستان میں واپس آچکے تھے اور بہت سے علاقوں پر دوبارہ اپنی بالادستی کو بحال کررہے تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب امریکہ نے پاکستان میں اپنے خفیہ آپریشنز کا آغاز کیا۔ امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو شکست دینے ، افغان مزاحمت کو طاقت و مدد فراہم ہونے والی رسد اور راستوں کو ، جو کہ تمام کی تمام پاکستان سے آرہی تھیں، کو کاٹ دینے  اور خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔ افغان مزاحمت کو مدد فراہم کرنے میں وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک، فاٹا میں موجود کئی قبائل اور سوات کا علاقہ شامل تھے۔ اکثر امریکی عہدیداروں نے اپنے بیانات میں پاکستان کے فوجی اہلکاروں، آئی۔ایس۔آئی اور سیاسی حکومت کے  اہلکاروں پر حقانی نیٹ ورک اور دیگر قبائل کے سات تعلقات اور انہیں افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے مدد فراہم کرنے کے الزامات لگانے شروع کردیے۔ یہ الزامات 2010 میں ویکی لیکیز کی جانب سے جاری کی جانے والی دستاویزات میں افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس رپورٹز میں بھی  موجود تھے۔ ان دستاویزات میں افغانستان میں امریکہ اور بین الاقوامی افواج کے خلاف لڑنے والے عسکری گروہوں کے آئی۔ایس۔آئی سے تعلقات کو بیان کیا گیا تھا۔ یہ وہی عسکری گروہ تھے جنہیں امریکہ نے  80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت روس کے خلاف استعمال کیا تھا۔

 

شروع میں امریکہ نے پاکستان کی حکومت پر، جس کی قیادت فوجی آمر پرویز مشرف کررہا تھا، دباو ڈالا کہ وہ ان عسکری گروہوں سے، جو پاک افغان سرحد پر موجود ہیں، سے نمٹے اور ان کا خاتمہ کردے۔ لیکن یہ فوجی آپریشن افواج پاکستان اور عوام میں انتہائی غیر مقبول تھے۔ کئی لوگ ان آپریشنوں کو اس نظر سے دیکھتے تھے کہ یہ امریکی جنگ ہے اور کسی صورت پاکستان کی مفاد میں نہیں کہ وہ ان لوگوں سے جنگ کرے جو افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف ایک جائز جہاد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان آپریشنز کے نتیجے میں بننے والےمہاجرین اور ہلاک ہونے والے مسلمان عورتوں اور بچوں  کی تصاویرنے عوامی رائے عامہ تبدیل کردی اور یہ مطالبہ ہونے لگا  کہ افواج پاکستان ان آپریشنز سے خود کو علیحدہ کرلیں۔ 2005 کے شروع میں پاکستان نے قبائلی علاقے میں موجود مختلف عسکری گروہوں سے فوجی  آپریشنز کی جگہ مذاکرات کرنے شروع کردیے۔ لیکن یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھا کیونکہ وہ بہت تیزی سے افغانستان کے بڑے حصوں سے اپنا کنٹرول  اس وجہ سے کھوتا جارہا تھا کہ افغان طالبان کو پاکستان و افغانستان کے درمیان موجود قبائل سے مدد فراہم ہورہی تھی۔

 

یہ مشرف تھا جس نے 2006 میں امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان میں سی۔آئی۔اے کو خفیہ آپریشن کرنے کی اجازت دی۔ اس معاہدے کے تحت سی۔آئی۔اے کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ طالبان اور القائدہ کی جاسوسی کرنے کے لئے  نجی سیکورٹی ایجنسیوں جیسے بلیک واٹر (زی ورلڈ وائڈ) اور ڈائن کورپ  کی خدمات حاصل کرسکے گی۔ ایک سینئر پاکستانی سیکورٹی عہدیدار نے 2011 میں رائٹر کو بتایا کہ "2009 کے آخر میں جناب حقانی (2011-2008تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر) کو سات ہزار ویزے جاری کرنے کا ایک خصوصی صدارتی حکم نامہ جاری ہوا اور ویسا ہی حکم نامہ وزیر اعظم کے آفس کے تحت بھی جاری ہوا"۔ پاکستانی حکومت نے چار سو امریکیوں کو بغیر آرمی کے سیکورٹی چیک کے ویزے جاری کیے تا کہ سی۔آئی۔اے کو پاکستان میں اپنی موجودگی کو بڑھانے میں مدد فراہم ہوسکے۔

 

یہی وہ دور تھا جس کے دوران جب پاکستان کے بازاروں، سکولوں، مزارات، فوجی اڈوں اور شہری علاقوں میں  یکے بعد دیگرےبم دھماکے یا کار بم دھماکے ہونے لگے۔ یہ دھماکے پاکستان میں عوامی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے شروع ہوئے اور پھر فاٹا اور سوات میں فوجی آپریشن کے مطالبے زور پکڑنے لگے۔ بلکہ در حقیقت ہر بڑے فوجی آپریشن سے قبل کوئی بہت بڑی دہشت گردی کے کاروائی بھی لازمی ہوتی تھی۔

پاکستان میں امریکی ایجنٹوں  کی بڑہتی موجودگی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے وارداتوں نے یہ سوال اٹھا دیا کہ آخر سی۔آئی۔اے پاکستان میں کر کیا رہی ہے؟اور پھر سی۔آئی۔اے کا کردار 2011 میں ریمنڈ ڈیوس کے گرفتاری کے بعد بے نقاب ہوگیا۔

 

ریمنڈ ڈیوس 27 فروری 2011 کو اس وقت گرفتار ہوا جب اس نے لاہور کے ایک بس سٹاپ پر دو موٹر سائیکل سواروں کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ جلد ہی یہ بات بے نقاب ہو گئی کہ ریمنڈڈیوس پاکستان میں سی۔آئی۔اے کی جاسوسی کرنے والی ٹیموں کا ایک حصہ ہے۔ ڈیوس کو جب گرفتار کیا گیا تو اس سے 158 اشیاء برآمد ہوئیں جن میں جاسوسی کے لئےاستعمال ہونے والے آلات اور پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی تصاویر بھی شامل تھیں۔  پنجاب پولیس کے عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ "تفتیش کے دوران اس کے ٹی۔ٹی۔پی کے ساتھ قریبی تعلقات کا انکشاف ہوا، ڈیوس خونی مزاحمت کھڑی کرنے کے لئے پنجاب سے طالبان کے لئے نوجوان بھرتی کرنے میں اہم کردار ادا کررہا تھا"۔ کرائے کے گوریلوں کی ٹیٹو والی لاشیں برآمد ہونے کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے پاکستان میں بد امنی پیدا کرنے کے لئے امریکہ پاکستان کے کئی عسکری گروپوں میں اپنے ایجنٹ داخل کرچکا ہے۔ڈیوس سے ہونے والی تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 330 افراد پاکستان میں بے چینی و بدامنی پیدا کرنے کے لئے خفیہ طور پر کام کررہے ہیں۔

اس بات کے واضح شواہد سامنے آجانے کے بعد کہ پاکستان میں سی۔آئی۔اے اور اس کے لئے کرائے پر کام کرنے والی بلیک واٹر موجود ہے اور بم دھماکوں میں یہی ملوث ہیں ، ان بم دھماکوں کو سیاسی و فوجی قیادت نے ہمیشہ امریکی مطالبات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ان مطالبات میں شمالی  قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن بھی شامل تھا اور یہ مطالبہ پاکستان کی عوام کے خلاف سازش کو واضح کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بل آخر ڈیوس کو چھوڑ دیا ۔ ڈیوس اپنے مشن میں کامیاب ہوچکا تھا جس کے تحت وہ اس ماحول کو پیدا کرچکا تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی و فوجی قیادت قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے جواز کو ثابت کرسکیں۔

 

امریکہ کی جانب سے پاکستان کی افواج پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی ایکشن کرانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ مرکزی حکومت سے بدظن ہوجائیں اور آزادی کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں۔ یہ وہ صورتحال ہو گی جس کےامکانات کے متعلق امریکہ نے بات کی اور ایک امریکی پروفیسر مائیکل چوسوڈوسکی(Michel Chossudovsky) نے پاکستان کی بالکانائیزیشن  کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ مستقل مزاجی سے پاکستان میں سماجی، لسانی اور عملی تقسیم کے لئے کام کررہا ہے جس میں پاکستان کا ٹوٹ جانا بھی شامل ہے۔ امریکہ نے یہی جنگی حکمت عملی افغانستان اور ایران کے بھی اختیار کررکھی ہے"۔

 

پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کیونکہ امریکہ کو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں کچھ غدار میسر آگئے ہوئے ہیں۔ لیکن انہیں افواج پاکستان میں  کئی مخلص فوجی افسران  اور عوام کی جانب سے پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے بازاروں میں بم دھماکے کروائے اور سیکڑوں معصوم جانوں کو قتل کردیا۔ امریکہ کو اس خطے سے نکال باہر کرنے سے ہی پاکستان میں عدم استحکام اور بد امنی کا خاتمہ ہوگا۔

 

عدنان خان نے مرکزی میڈیا آفس  حزب التحریر کے لئے یہ مضمون  لکھا

Read more...

پاکستان سے امریکی وجود کا خاتمہ، دہشت گردی کا خاتمہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے امریکہ سے مدد مانگناشہدائے پشاور کے خون سے غداری ہے

جمعرات کو وزارت داخلہ نے امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا کہ وہ جنوبی ایشیا کے سیکورٹی معاملات کے ماہر ین پاکستان بھیجے تا کہ وہ تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی کو انسداد دہشت گردی کا منصوبہ بنانے میں مدد فراہم کرسکیں۔

ہر پاکستانی مسلمان اس بات سے باخبر ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا براہ راست فائدہ امریکہ اٹھاتا ہے ۔ ملک میں کسی بھی بڑے دہشت گردی کے واقعے کے بعد کبھی بھی سیاسی فوجی قیادت میں موجود غدار عوام کے تحفظ میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے بلکہ ان واقعات کو جواز بنا کر تحفظ پاکستان ایکٹ جیسے کالے قوانین بناتے ہیں تا کہ اسلام کے نام پر اٹھنے والی ہر آواز کو ، چاہے وہ کتنی ہی پرامن کیوں نہ ہو، دبا دیا جائے اور امریکہ کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو نشانہ بنانے کے لئے نئے آپریشن شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس خطے کے مسلمان کسی صورت امریکہ کی غلامی تسلیم کرنے کے لئے راضی نہیں ہورہے جس کی وجہ سے امریکہ سی۔آئی۔اے اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک جیسے اداروں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرواتا ہےاور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار سی۔آئی۔اے اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو ، حساس فوجی تنصیبات سے لے کر قبائلی علاقوں تک میں گھومنے بھرنے ، ایجنٹ بنانے اور ان ایجنٹوں کے ذریعے سے حملے کروانے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ 21 فروری 2011 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پنجاب پولیس کے ایک عہدیدار کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا کہ "ریمنڈ ڈیوس لاہور اور پنجاب کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔۔۔۔پنجاب سے نوجوانوں کو خونی کاروائیوں کے لئے بھرتی کررہاتھا۔۔۔ اس کے ڈیجیٹل کیمرے سے دفاعی تنصیبات کی تصویریں برآمد ہوئیں"۔

پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دہشت گردی کے سرغنہ،امریکہ سےمدد طلب کرنا پشاور میں قتل ہونے والے 141 معصوم بچوں اور بڑوں کے خون سے غداری اور مذاق ہے۔ پچھلے تیرہ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جتنا امریکہ کو پاکستان میں قدم جمانے اور آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی گئی اسی قدر دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوا کمی بالکل بھی نہیں ہوئی۔ اس حقیقت کے باوجود راحیل-نواز حکومت کا ایک بار پھر اس ملک کے معصوم لوگوں کے تحفظ کے لئے خونی امریکی بھیڑیے سے مدد مانگنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمران اس ملک سے دہشت گردی اور اس کے معصوم عوام کا خون ناحق کو بہنے سے روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

پاکستان کے عوام کو یہ بات جان لینا چاہیے کہ جب تک امریکی سفارت خانہ ، قونصل خانےبند اور سفارتی ، فوجی اور انٹیلی جنس اہلکار ملک بدر نہیں کئے جاتے ، جو دہشت گردی کی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور دہشت گردوں کو مادی وسائل فراہم کرتے ہیں، یہ آگ کسی صورت نہیں بھجے گی چاہے کتنے ہی آپریشن یا مذاکرات کر لئے جائیں۔ لہذا عوام کو راحیل-نواز حکومت کو پاکستان سے امریکی موجودگی کے خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہیے جو اس دہشت گردی کا ماخذ ہے۔

شہزاد شیخ

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

تشدد کی کاروائیوں کے بارے میں امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ

امریکن پالیسی ویب سائٹ نے 9 دسمبر 2014 کو امریکی قید میں موجود مسلمانوں کے خلاف تشدد کے جرائم کے ارتکاب کے بارے 525 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپرٹ شائع کی!!قیدیوں کا منہ کھلوانے کے لیے "سی آئی اے" کی تشدد کے بارے میں امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ میں کونسی نئی بات ہے؟کیا کسی ایسے راز سے پردہ اٹھایا گیا جو پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا ؟کیا اس کے نتیجے میں اوباما ان سینکڑوں ڈرون حملوں پر معافی مانگے گا جن سے افغانستان سے یمن اور صومالیہ سے عراق تک ہزاروں لوگ قتل کیے گئے؟ کیا اس کے نتیجے میں ان تیرہ عرب ملکوں کے حکمرانوں اور ان کے جلادوں کا احتساب ہو گا جنہوں نے سی آئی اے کی نمائندگی کرتے ہوئے تشدد کیا جیسا کہ کہا گیا ہے؟کیا برطانیہ کی حکومت جس نے "سی آئی اے" کی کاروائیوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کوئی نصیحت حاصل کرے گی؟

ایسا کچھ نہیں ہو گا ،امریکی جلادوں کا احتساب نہیں ہو گا،نہ ان کے سربراہوں کا جنہوں نے ان جرائم کے ارتکاب کے احکامات دئیے جو کہ لبرل جمہوری "تہذیب"، جو انسانی حقوق کا واویلا کرتی ہے، کی پیشانی پررسوائی کا داغ ہے ۔۔۔بلکہ سی آئی اے کے تین سابق سربراہوں "مائیکل ھائیڈن "، "جارج ٹینٹ" اور "پورٹر گروس "نے ایک مشترکہ خط لکھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایجنسی نے جو کچھ بھی کیا وہ دہشت گردی سے امریکہ کو بچانے کے لیے کیا۔ امریکہ کے سابق صدر "جارج بش" اور اس کے نائب "ڈیک چینی" نے اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی اس کو تنقید کا نشانہ بنا یا۔ ڈیک چینی نے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بکواس ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکہ کے اعلٰی ترین دستوری عدالت کے جج انطولین سکالیا نے یہ کہہ کر اس رپورٹ کو دفن ہی کر دیا کہ "ہر ملک کو اپنے اعلٰی ترین مفادات کو پیش نظر رکھ کر انسانی حقوق کے تعین کی مکمل آزادی حاصلہ ہے" اور "نام نہاد " عالمی انسانی حقوق کی طرف اشارہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

جبکہ برطانیہ کی حکومت نے نئی قانون سازی میں جلدی دکھائی جس کی رو سے اساتذہ،ڈاکٹروں اور نرسوں کو مسلمانوں کے خلاف جاسوس بنا یا گیا۔ جب بھی ان میں سے کسی کو شک ہو جائے کہ اس کے سامنے والا مسلمان "شاید"انتہاء پسندانہ افکار کا علمبردار ہے تو قانون کی رو سے وہ اس کی اطلاع دینے کا پابند ہیں۔ یہ "نیشنل سیکیورٹی" کو محفوظ بنانے کے لیے ہے!

یہ کوئی نئی بات نہیں ، ڈاروینی سرمایہ دارانہ آئیڈیولوجی نے پہلے بھی یہی کیا ہے ۔ 1858 میں چارلیس ڈارون نے کہا تھا کہ مستقبل یہ ثابت کرے گا کہ مذہبی لوگوں سے جان چھڑانا گوروں کا حق ہے (کالونیوں میں گوروں کے علاوہ دوسروں کو ختم کرنا)۔ یہی وہ ڈار وینی پالیسی ہے جس کو مغربی استعمار نے ہر مغلوب قوم کی نسل کشی کے لئےنافذ کیا جیسے ریڈ انڈینز سے لے کر افریقی اقوام تک اور کسی جنگی حکمت عملی کے لیے نہیں کیونکہ عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی بلکہ اسی پالیسی کے تحت تباہ کن ہتھیارکے "تجربے" کے لیے جاپان کی پیلی قوم پر ایٹم بم گرایا۔

یہی "مغرب میں گورے استعماری شخص " کی تہذیب ہے ،جس کے زہر کی اب تک بعض جاہل ،فتنہ پرور اور ذہنی غلام اسلامی ملکوں میں وکالت کرتے ہیں اور اس بد گمانی میں مبتلا ہیں کہ استعماری مغرب ہمارے لوگوں کے مصائب کے بارے میں نرم دل اور حساس ہیں حالانکہ یہ حکمران ان کے جلاد ہیں اور انہی کے اسلحے سے اپنے لوگوں کو مارتے ہیں۔

تمام انسانیت کی نجات صرف اسی میں ہے کہ گلی سڑی اور ظالم تہذیب کو گڑھے میں دفنا یا جائے اور اس کی حامل ریاستوں منہدم کر کے اسلامی تہذیب کی اساس پر ریاست قائم کی جائے ،وہ تہذیب جو تمام انسانیت کے لیے ہدایت اور رحمت ہے؛نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ۔

عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک