بسم الله الرحمن الرحيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خروج اور حزب التحریر کا منہج
آج کے دور میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ اُمّت مسلمہ ایک بہت ہی کھٹن مرحلے سے گزر رہی ہے، اس پر ظا لم حکمران مسّلط ہیں، جو کہ اُن پر ایسے نظام نا فذ کررہے ہیں، جو کہ سر سرا سر کفر پر مبنی ہیں۔ ایسے میں امّت میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے کہ کس طرح ان دونوں سے چھٹکارا پایا جائے۔ اسی مقصد کو حا صل کرنے کے لیے امّت میں سے ہی کچھ آوازیں بلند ہوئیں جنھوں نے ان حکمرانوں اور ان نظاموں کو ہٹانے کے بارے میں مختلف آرا ء دیں۔ جیسے کہ اسی نظام کا حصّہ بن کر اسی کے بیچ میں سے تبد یلی لانا، صرف اپنی اصلاح ہی کرنا، ان حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا وغیرہ۔ انہی آرا ء میں سے ایک را ئے" خروج" کی بھی ہے۔
امّت مسلمہ کی تاریخ میں خروج کے مسئلے پر فقہا کے درمیان ایک اہم سیاسی اور فقہی بحث رہی ہے۔ خروج کے لفظی معنی بے دخل کرنے کے ہیں۔ اس کے شرعی معٰنی کسی حکمران کو حکمرانی سے ہٹانے کے ہیں جو کہ کفِر بواح نا فذ کر رہا ہو۔ آج کے دور میں خروج کے معاملے میں اگرچہ بحث و مباحثہ بہت سر گرمی سے ہوتا ہےلیکن اس کی حقیقت کے بارے میں بہت کم حلقوں میں صحیح آگا ہی پا ئی جا تی ہے۔ خروج کے متعلق ہمارے معاشرے میں مختلف آراء پا ئی جاتی ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
(1 فرد کی اصلاح پر توجہ دینے والے علماء کی رائے
(2 تکفیری رائے
(3 سعودی علماء کی رائے
(4 modernist سکالرز کی رائے
(5 مولانا مودودی کی رائے
(6 کلاسیکل فقہا کی رائے
(1) فرد کی اصلاح پر توجہ دینے والے علماء
خروج کے معاملے میں یہ علماء اس لفظ کے دو معانی لیتے ہیں۔
(1 حکمرانوں کو ان کی حکمرانی سے بے دخل کرنا
(2 اپنے گھروں سے دین کی تبلیغ کے لیے نکلنا
پہلی رائے کے معاملے میں یہ علماء جن کتب کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ "شرح العقائدالنفسیہ" ہے۔ اس کتاب میں علامہ سعد الدین تفتازافی (متوفی ٧٩٣ ھ) نے ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج کا عمل مستحب بیان کیا ہے۔ امام محمّد کی کتاب" السیرالکبیر" سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مو قف بھی یہی تھا وہ فرماتے ہیں۔ "سوائے اس کے کہ وہ حکمران کسی ایسے کا م کا حکم دے جس کے بارے میں کسی ایک کو بھی اشتباہ نہ ہوکہ وہ ہلاکت ہے یا حکمران کسی شخص کو معصیت کا حکم دے تو اس وقت اس مسئلے میں حکمران کی اطاعت رعایا پر لازم نہیں ہے لیکن ان کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ صبر کریں اور اپنے حکمران کے خلاف خروج نہ کریں۔ جیسا کہ حدیث ابن عباسؓ میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا ہے
«مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَصْبِرْ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
"جو کوئی اپنے حکمران میں کوئی نا پسندیدہ امر دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جس نے بالشت برابر بھی اطاعت سے منہ موڑا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
یہ علماء خروج کا جو دوسرا مطلب لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے گھروں سے نکلنا تاکہ لوگوں تک دین کی سمجھ اور طریقہ پہنچایا جا سکے۔ جس کے لیے وہ اس قرآن کی آیت کو بطور ثبوت پیش کر تے ہیں:
((انَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ))
"اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں" ( التوبہ:122)
اور اس کی دلیل میں رسول ﷺکی زندگی سے وہ واقعات بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں رسولﷺنے صحابہ کرام کو مختلف علاقوں میں دین کی تبلیغ کے لیے بھیجا جیسا کہ: "سعد بن ابو بردہ سے روایت ہےکہ انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے والد سے یہ سنا کہ رسول ﷺنے انہیں اور معاذ بن جبل ؓ کو یمن بھیجنے سے پہلے یہ نصحیت کی کہ وہ نرمی برتیں اور یمن کے لو گوں پر سختی نہ کریں اور انہیں خوشخبریاں دیں اور ان کے ساتھ مل کر بغیر کسی تفرقے کے فیصلے کریں" ۔ اس طرح حضرت عاصم بن عمر سے روایت ہے کہ جدیلہ قبیلے کی شاخوں سے کچھ لوگ رسول ﷺ کے پاس اُحد کے بعد آئے۔ انھوں نے رسول ﷺ سے کہا کہ "ہماری سر زمین پر اسلام آیا ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چند صحابہ کو بھیجیں تاکہ وہ ہمیں دین کی سمجھ دے سکیں"۔ رسول ﷺنے ان کے ساتھ چھ صحابہؓ کو روانہ کیا جن کے امیر مرصد بن ابو مرصد تھے۔ اسی تناظر میں آج کل ایک قابل ذکر مسئلہ جو کہ زیرِبحث آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا تبلیغی خروج صرف مردوں کیلیے ہے یا پھر عورتیں بھی دین کی تبلیغ کے لئے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں؟
(2) تکفیری رائے:
خروج کے مسئلے پر جو دوسری قابل ذکر رائے ہمیں ملتی ہے وہ تکفیری فکر سے ہے۔ تکفیری یا سلفی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ حکمران جو کہ اسلام کی جگہ کفر نافذ کرتا ہے وہ کافر ہو چکاہے او ر اس کے خلاف جہاد فرض ہو چکا ہے۔ اور اس عمل کو وہ خروج کے طو ر پر پیش کر تے ہیں۔ حکمرانوں کے کفر کے واضح ہو جانے کے لیے سور ہ المائدہ کی آیت کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے:
(( وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ))
"اور جو لوگ اللہ کی وحی کے ذریعے فیصلے نہیں کر تے تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں"(المائدہ : 44) ۔
اور ان کافر حکمرانوں کو جو کہ کفر نافذکرتے ہیں ان کے لیے اس حدیث کو کا فی سمجھا جاتاہے جس میں رسول ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا:
«خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ» ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ؟ فَقَالَ: «لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَاتِكُمْ شَيْئًا تَكْرَهُونَهُ، فَاكْرَهُوا عَمَلَهُ، وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ»
"تم میں سے بہترین حکمران وہ ہیں جو کہ تم سے محبت کریں گے اور تم ان سے محبت کر و گے، وہ تمہیں دعائیں دیں گے اور تم انہیں دعائیں دو گے اور تم میں سے بدترین حکمران وہ ہیں جو تم سے نفرت کریں گے اور تم اُن سے نفرت کرو گے اور جو کہ تم پر لعنت بھیجیں گے اور تم ان پرلعنت بھیجو گے۔"
جس پر صحابہ کرام نے پوچھا کہ اے رسول ﷺکیا ہم ان کو بزور شمشیر نہ ہٹا دیں۔ تو رسولﷺ نے فرمایا" ہر گز نہیں، جب تک کہ وہ تم پر صلاۃ قائم رکھیں"۔ ایک اور حدیث میں اسی طرح آتا ہے کہ " جب تک کہ وہ کفرِ بواح نہ کریں" یعنی کھلم کھلا اور واضح کفر۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ کا فتویٰ جس میں انہوں نے کہا "یہ دین سے ثابت ہے اور اجماع سے ثابت ہے کہ ہر وہ شخص جو دین کے علاوہ کسی دین کی اطاعت کی اجازت دیتا ہو، اور کسی او ر شرع کی سوائے شرع محمدﷺ کے قانون کے اتباع کی اجازت دیتا ہو، وہ شخص کافر ہے"۔ اسی طرح ابن کثیر کی رائے جس میں انھوں کے کہا " اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی شرع جو کہ قرآن اوررسول ﷺکی سنت جس کے ساتھ نبی ﷺ کو بھیجا گیا ہے،مخلوق میں سے کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ اس کو چھوڑ سکےسوائے یہ کہ وہ کافر ہو"۔
تکفیری رائے اس با ت کا مطالبہ کر تی ہے کہ جو حاکمِ وقت اس وقت کفر کے نفاذ میں پیش پیش ہے اس کے خلاف ہتھیاروں کے ذریعے خروج کیا جائے اور ان کو ہٹا کر خلافت کو قا ئم کیاجائے۔
(3) سعودی عرب کے علماء کی رائے
اگرچہ سعودی عرب کی21 رکنی سینئرعلماء کمیٹی کے بیشتر فتاویٰ عموماً حکومتی معاملات پر مشتمل نہیں ہوتے۔ یہ علما ء جنبلی، شافعی، مالکی اور حنفی مسلک سے ہوتے ہیں۔ لیکن جب بھی کسی حکومتی معاملے پر ان کی رائے درکار ہو تی ہے تو وہ عموماً ایک سی ہی ہو تی ہے۔ جیسا کہ ایک بیان جوسعودیہ کے تمام اخبارات میں شائع ہوا جس پر تمام 21 علماء کے دستخط تھے میں کہا گیا تھا کہ ایران اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور اس میں جس حدیث کو بطو ر ثبوت پیش کیا گیا تھا اس کا ترجمہ یہ ہے:"اور جس نے ہمارے ساتھی /حواری کو قتل کیا وہ کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا۔" اسی طرح 3 اکتوبر2011 کا ایک فتویٰ جس میں عوامی احتجاج کی اس وجہ سے ممانعت کی گئی تھی کیو نکہ اس سے سعودیہ کے حکمرانوں کے خلاف فتنہ بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ چونکہ ان علماء کے مطابق سعودی ریاست کی بنیاد قرآن و سنت ہیں، اس لیے خروج کے معاملے میں ان تمام علماء کی رائے بالکل ایک سی ہے۔ ان کے مطابق حکمرانوں کے خلاف خروج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکیونکہ اس سے ملک میں فتنہ پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اور اس کے لیے وہ مندرجہ ذیل آیات اور احادیث بطور ثبوت پیش کرتے ہیں
((وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ))
"اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو " (آلِ عمران :103)
اور یہ آیت:
((يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ))
"اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرو اس کے رسول ﷺکی اور اپنے میں سے اہلِ اقتدار کی" (النساء : 59)
،یایہ حدیث:
«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ وَ مَن مَاتَ وَ لَیسَ فِی عُنُقِہِ بَیعَۃ مَاتَ مِیتَۃ جَاہِلِیّہ»
"اور جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ آخرت میں اللہ کے سامنے ایسے پیش ہو گا کہ اس کے پاس کوئی جواز نہ ہو گا اور جو اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت کا طوق نہ ہو۔ وہ جاہلیت کی موت مرا"(مسلم)۔
ان آیات اور احادیث کو بنیاد بنا کر جو رائے سعودی علماء کی طرف سے آتی ہے، وہ سعودی حکمرانوں کے خلاف خصوصی طور پر اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کے خلاف عمومی طو ر پر کسی بھی قسم کے خروج کی کسی طو ر پر بھی اجازت نہیں دیتی۔
(4) modernist سکالرزکی رائے
خروج کے معاملے میں modernist سکالرز کے مطابق قرآن میں خروج کا کہیں بھی ذکر نہیں آیا ، احادیث میں بھی صرف خروج کے کرنے یا نہ کرنے کا ذکر ہے، اس کے طریقہء کار کے بارے میں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ ہاں جو موٹے مو ٹے اصول قرآن و سنت سے ثابت ہوتے ہیں ان کے مطابق مندرجہ ذیل تمام افعال کا ثابت ہونا لازم ہے۔
(1 حکمران جبری آمریعنی ڈکٹیٹرہو۔
(2 وہ کوئی ایسی چیز جو کہ کفر ہو اس کا نفاذ کرے یعنی کہ نماز کی اجازت نہ دے۔
(3 وہ شخص جو خروج کرے وہ پہلے اپنی جماعت تیار کرلے تاکہ وہ خروج کے بعد حکمرانی کر سکے۔
(4 جو شخص خروج کرنے والی جماعت کا سربراہ ہو ، اسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو یعنی کہ زمین اور آسمان گواہی دیں کہ یہ شخص مسلمانوں کا امیر بننے کے مستحق ہے۔
پاکستان کے ایک modernist سکالر کے مطابق دور جدید میں ان اصولوں پر اس خطے میں پورا اترنے والا صرف ایک ہی شخص تھا جو کہ محمد علی جناح تھے۔ اوروہ خروج کرنے میں کامیاب ہوئے۔
(5) سیّد ابو الاعلی مودودی کی رائے:
زمانہء جدید کے حوالے سے مولانا مودودی نے خروج کے معاملے میں اپنی رائے اپنی کتاب خلافت و ملوکیت میں دی ہے اور یہ رائے انھوں نے اس مسئلے پر ایک طویل بحث کے بعد دی ہے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے مطابق اہلسنت کے درمیان خروج کے مسئلے پر بنیادی طو ر پر اختلاف رہا ہے۔ ان کے مطابق امام ابو حنیفہ کے نزدیک خروج کے جائز ہو جا نے کے لیے کڑی شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے۔ جیسے کہ
(1 کھلم کھلا کفرِ بواح کا ثابت ہونا
(2 جس جماعت نے خروج کرنا ہے ان کے پاس اتنی طاقت اوروسائل ہونا کہ وہ کم از کم خون بہا کر اقتدار کو تبدیل کر سکیں ۔
اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ نے زید بن علی کے لیے فتویٰ ضرور دیا جب انھوں نے عباسیوں کے خلاف خروج کا اعلان کیا مگر ان کی مالی مدد نہ کی کیونکہ ان کے مطابق زید بن علی کے حواری ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ اور یہ مقدار خروج کے لیے نا کافی ہے۔ اس کے بعد امام ابو حنیفہ نے نفس ذکیہ ( محمد بن عبد اللہ) کے بنو عباس کے خلاف خروج کی بھی کھلم کھلا مدد کی اور ہمدردی دکھائی جس کے بدلے میں امام ابو حنیفہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر وہ اپنی شرعی دلیل کی بنیاد پر اپنی بات پر قائم رہے۔ اسی دور میں امام مالک کا طرز عمل بھی بالکل ویسا ہی تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ ہماری گردنوں میں تو خلیفہ منصور کی بیعت ہے تو ہم دوسرے مدعی خلیفہ کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں تو اس پر انہوں نے فتویٰ دیاکہ عباسیوں کی بیعت جبری ہے اور ہر عقد جو جبری ہو وہ باطل ہے۔ جس کی وجہ سے مدینہ کے گورنر جعفر نے امام مالک کو کوڑے لگوائے جن سے انکا ہاتھ شانے سے اکھڑگیا۔
مولانا مودودی نے امام حسین کی مثال بھی دی ہے۔ بیشتر صحابہ جو کہ اس وقت زندہ تھے انہوں نے امام حسین کے یزید کے خلاف مہم کی اس وجہ سے قطعی طور پر ممانعت نہیں کی تھی کہ یہ کوئی حرام فعل تھا بلکہ جس جس نے بھی انہیں روکا تھا وہ صرف اس بنیاد پر تھا کہ اہل عراق قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان کے خطوط ملنے کے بعد ان کی حمایت کو اپنے لیے کافی نہ سمجھیں اور اپنے آپ کو کسی خطرے میں نہ ڈال لیں۔ یعنی یہاں اختلاف تدبیر کے لحاظ سے تھا نہ کہ جواز و عدم جواز کے لحاظ سے ۔ اس بحث کے درمیان میں ہی مولانا مودودی اپنی رائے کو پیش کرتے ہیں کہ یزید کے تسلط کے دوران اور اس کے بعد کا جو نظا م تھا وہ ملوکیت تھی اور اس کے خلاف بزور شمشیر خروج جائز تھا۔ اور یہ ان کی کتاب میں سے ایک سطر ہے کہ کیونکہ یزید، حجاج بن یوسف اور دیگر بنو عباس کے جابر حکمرانوں نے "پُرامن جمہوری" طریقوں سے تبدیلی کا کوئی راستہ کھلا نہ چھوڑا تھا۔" پس اس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کے دور میں بھی خروج جائز ہو سکتا تھا اگر تبدیلی کے لیے کوئی پُر امن جمہوری طریقہ دستیاب نہ ہوتا۔ مگر چونکہ آج جمہوریت کے ذریعے ایک مکمّل اسلامی تبدیلی لائی جا سکتی ہے، اس لیے آج کے دور میں ہتھیاروں کے ذریعے خروج کا کوئی جواز نہیں۔
اب ہم ان تمام آراء کی حقیقت کی طرف آتے ہیں۔
(1) جہاں تک پہلی رائے کا تعلق ہے تو یہ رائے کلاسیکل فقہاء کی اجتماعی رائے میں سے ہی ہے۔ اور اس حقیقت کا ذکر ہم بعد میں ہی کریں گے۔
جہاں تک ان(اصلاحی علماء) کی دوسری رائے کا تعلق ہے۔ تو اس میں قرآن کی آیت میں لفظ خَرَجَ کا غلط مفہوم لیا گیاہے۔ جس کا مطلب ہوتاہے "باہر نکلنا" اور اس کا اطلاق خروج پر کیا گیاہے جس کا مطلب ہے "بے دخل کرنا" اسی طرح یہ کہنا کہ ہم 3دن یا 40دن یا 4 ماہ خروج کرتے ہیں صحیح نہیں کیونکہ یہ شرعی اور لغوی دونوں معانی کے موافق نہیں بیٹھتا۔
اور جہاں تک ان واقعات کا تعلق ہے جن میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کی جماعتوں کی تشکیل کی اور ان کو مختلف علاقوں میں بھیجا تو یہ کام انھوں نے بطور سربراہِ ریاست کیا نہ کہ کسی جماعت کے سردار کے طور پر۔ معاذ بن جبلؓ کے یمن بھیجے جانے والے واقعے کی بھی حقیقت یہ ہے کہ جنوبی جزیرہ نما عرب سے فارس کے اثرورسوخ کے خاتمے کے بعد وہاں کے حکمران گروہ "اَبنا" نے مسلمانوں سے مدد مانگی اور کہا کہ ہمارے علاقے کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں آپ ان میں دین کی سمجھ اور فیصلے کرنے کے لیے کسی کو بھیجیں۔ جس پررسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل کو وہاں پر احکامِ صلاۃ اور احکامِ زکوة کو قائم کرنے کے لیے بھیجا۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال جو کہ ایک ریاست کے حکمران کے طور پر کیے گئے ان کو ایک جماعت کے کام پر قیاس کرنا درست نہیں۔ اسی طرح خروج کا معاملہ حکمران کو پُرامن طریقہ سے یا بزور شمشیر ہٹانے کا ہے نہ کہ اپنے گھروں سے نکل کر لوگوں کو عبادات کی طرف بلانے کا۔
(2 سلفی رائے کی حقیقت:
آج کل ایک فاش غلطی جو سلفی اور تکفیری علماء کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ کلاسیکل فقہاء کی خروج کی رائے کو لے کر اس کا اطلاق آج کے دور پر کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دو مختلف مناط پر ایک ہی حکم لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دو مختلف حقیقتیں اس لیے ہیں کہ ایک حقیقت اسلامی ریاست کی ہے، جس میں حکمران اسلام کے احکامات میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد حکم پر کفرِ بواح شروع کر دے۔ اور دوسری حقیقت ایسی ریاست کی ہے جس کی بنیاد ہی کفر پر ہو اور اس کے خدوخال اور ریاستی ڈھانچے بھی کفریہ ہوں اور اس میں کفر نافذ ہوتے ہوتے مستحکم ہو گیا ہو۔ پہلی صورت میں یعنی جب اسلامی ریاست میں حکمران اسلام کے احکامات میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد حکم پر کفرِ بواح شروع کر دے اور ان کفریہ قوانین کے نفاذ کو واپس لینے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر اسے تلوار کے ذریعے ہٹایا جائے گا۔ مگر دوسری صورت میں کہ جب کفریہ ریاست کی بجائے ایک نئی ریاست کو اسلام کی بنیاد پر وجود میں لانا ہو تو پھر رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار کی اتباع کی جائے گی کہ جو آپ ﷺ نے مکہ میں اختیار کیا یعنی ایک گروہ کی تشکیل، معاشرے میں فکری و سیاسی جدوجہد اور نصرۃ کے حصول کے ذریعے نئی ریاست کا قیام۔
(3 سعودی علماء کی رائے کی حقیقت
جہا ں تک سعودی علماء کی رائے کا تعلق ہے، تو ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ سعودی بادشاہت قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم ہے قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ سعودی ریاست اپنے نظام اور اپنے خدوخال سے ہرگزوہ شرائط پوری نہیں کرتی جو کہ اسے ایک اسلامی ریاست بنائیں۔ اور جن آیات کا حوالہ سعودی علماء دیتے ہیں وہ صرف اسی حکمران کی اطاعت کی بات کرتی ہیں، جو کہ اسلامی ریاست یعنی خلافت میں اللہ کی وحی کو مکمل طور پر نا فذ کر ے۔ اسی لیے اپنے حکمرانوں کے خلاف خروج کو روکنا کلاسیکل فقہاء کے نقطہ نظر سے غلط ہے۔
(4 modernist سکالرز کی رائے کی حقیقت
modernist سکالرزکی رائے خروج کے متعلق مناط کی ایک غلط سمجھ دیتی ہے۔ ان کے نزدیک ریاست کے کفر ہونے کا تعلق جمہوریت کے ذریعے حکمرانی، یا پھر حدود کا منقطع ہو جانا نہیں ہے بلکہ اگر کوئی ریاست نماز سے روکے تو صرف تب ہی وہ کفرِ بواح کی مرتکب ہو گی۔ اگر بالفرض اس رائے کو ٹھیک مان لیا جائے تو پھر امریکہ یا اسرائیل غیر اسلامی ریاستیں نہیں رہتیں کیونکہ وہاں بہر حال نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ اسی لیے modernist سکالرز کی خروج کے معاملے میں رائے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس نے مناط کا ہی غلط ادراک کیاہے۔
(5 مولانا مودودی کی رائے کی حقیقت:
اگرچہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب " خلافت اور ملوکیت" میں کلاسیکل فقہاء جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام ماملک کے خروج کے متعلق دلائل کو بڑے احسن پیرائے میں بیان کیا ہے۔ مگر جب آج کل کے دور میں جو حکمران کفرِ بواح نافذ کر رہا ہے اس کو ہٹانے کی بات آئی تو انھوں نے یہ حقیقت بیان کر دی کہ اُس زمانے میں چونکہ تبدیلی کے لیے کو ئی پُر امن جمہوری طریقہ نہیں تھا اس لیے اُس وقت خروج ہو سکتا تھا،مگر آج نہیں ،کیونکہ اب ہمارے پاس حکمرانوں کو ہٹانے کے لیے ایک پُر امن جمہوری طریقہ دستیاب ہے۔ یہ رائے بھی اسی بنیاد پر غلط ہے کہ ہمیں خروج کی دلیل کو چھوڑنے کے لیے اور جمہوری طریقے کو اپنانے کے لیے قرآن و سنت سے دلیل چاہیے۔ محض حقیقت کے متعلق ایک مفروضہ قائم کر کے کہ اس وقت کوئی پر امن جمہوری طریقہ موجود نہیں تھا، یہ دعویٰ کر دینا کہ اب ہمیں شرعی طریقہ چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اپنانا ہو گا، یہ انداز اپنی بنیاد سے ہی غلط ہے۔
6)) کلاسیکل فقہاء کی رائے:
خروج سے متعلق کلاسیکل فقہاء کی رائےاسلامی ریاست میں کفرِ بواح کے نفاذ سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک ایسی کفر یہ ریاست جو بنیاد سے ہی کفر پر مبنی ہو۔ اس لیے اس رائے کا اطلاق آج کے دور پر کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ آج کوئی بھی ریاست ایسی نہیں جس کی بنیاد کفر پر مبنی نہ ہو اور جس میں قانون کے ماخذ اور ریاستی ڈھانچےتک کفر پر مبنی نہ ہوں ۔ لہٰذا ہم اِن کلاسکیکل فقہاء کی رائے ، جو کہ اس وقت کی حقیقت کے مطابق تھی، لے کر آج کی حقیقت پر نافذ نہیں کر سکتے بلکہ موجودہ حقیقت میں حکمرانوں کی تبدیلی کے لئےنئے اجتہاد کے ذریعے قرآن و سنت سے حکم شرعی اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں حزب التحریر کے پہلے امیر شیخ تقی الدین النبہانی نے ان حکمرانوں اور ان کفریہ نظاموں کو اسلام سے تبدیل کرنے کے لیے ایک مکمّل اجتہاد کیا ہے جس کی تفصیلات ہمیں حزب التحریر کی کتاب "تبدیلی کے لیے حزب التحریر کا منہج" میں مل سکتی ہیں۔ حزب التحریر کی رائے کے مطابق آج تبدیلی لانے کے لیے خروج صحیح طریقہ نہیں ہے کیونکہ آج کے دورکے معاشرے رسول ﷺکے مکی دور کے معاشرے سے مشابہت رکھتے ہیں،کہ جب کفر ہی نافذ تھااور جس کو رسول ﷺ نے ایک فکری اور سیا سی جدوجہد اور طلبِ نصرۃ کے ذریعے اسلام سے تبدیل کیا تھا۔ آج کے دور میں تبدیلی لانے کے لیے یہی طریقہ ہی صحیح ہے۔
شہريار نجم , پاکستان