بسم الله الرحمن الرحيم
بسم الله الرحمن الرحيم
صرف خلافت ہی امت کو سود پر مبنی بھاریحکومتی قرض سے نجات دلائے گی
گز شتہ سات سال میں پاکستان کے حکومتی قر ض میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔یہ قرض بیس ٹریلین روپے کی بلندترین سطح کو چھو چکا ہے جو کہ ۲۰۰۸ء میں ۳۔۶ٹریلین روپے تھا ۔صرف موجودہ حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں اندرونی قرض میں ۵۔۳ٹریلین کا اضافہ کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق حکومت اپنی آمدن کا ۴۴فیصد یعنی تقریباــ ً نصف قرض پر سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔اسطرح پاکستانی عوام پر اس قرض پر سود کی ادائیگی کا بوجھ تقریباً ۷ہزار روپے سالانہ فی کس ہے۔
جمہوری سرمایہ دارانہ ریاست میں حکومت کے مالیاتی حجم اور طاقت کا دارومدار مرکزی بنک کی حکومت کے لیے مالیات کے حصول کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔بالخصوص اسوقت جب حکومت مرکزی بنک سے براہ ِ راست قرض حاصل کرتی ہے۔حکومت اندرونی قرض (domestic debt) ایک تو کمرشل بنکوں اور non-bank public سے حاصل کر سکتی ہے اور دوسرے براہِ راست مرکزی بنک سے جو کہ بجٹ کے خسارے کو monetize کرنا کہلاتا ہے۔ مرکزی بنک سے براہِ راست قرض کا حصول کرنسی کی رسد (supply of money) میں اضافے کا باعث ہوتا ہے جس کے نتیجے میں افراطِ زر(inflation) جنم لیتا ہے کیونکہ مرکزی بنک یہ قرض محض اضافی نوٹ پرنٹ کر کے جاری کرتا ہے۔زرداری حکومت میں اپنے ۵سال میں سٹیٹ بنک سے براہِ راست قرض لینے کے سار ے ریکارڈ توڑ دیئے۔بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے زردار ی حکومت نے ۷۰۰ارب روپے کی خطیر رقم سٹیٹ بنک سے قرض کے طور پر حاصل کی۔اس کی وجہ سے اس دور میں افراطِ زر میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔مارچ ۲۰۱۲میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس کیا گیا جو سٹیٹ بینک کے سنٹرل بورڈ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرض کی تحدید کر سکے یعنی ایک مقررہ حد سے زیادہ حکومت کو قرض فراہم نہ کرے۔اس کے باوجود حکومتوں کے قرض لینے کی روش پر کوئی اثر نہیں پڑاکیونکہ منظور شدہ بل سے سٹیٹ بینک کے مذکورہ بالا اختیارکی شک کو اس وقت کے سینیٹر اسحاق ڈار اور اس وقت کے وزیر ِخزانہ حفیظ شیخ کے اعتراض پر نکال دیا گیا۔نواز حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے ۹ماہ میں سٹیٹ بنک سے ۴۰۰بلین کا قرض حاصل کیا۔یہ یاد رہے کہ نواز حکومت نے ۱۹۹۷میںسٹیٹ بنک کی اتھارٹی کے لیے یہ قانون پاس کیااور اس پر اتفاق کیا کہ حکومت قرض کے حصول کے سلسلے میں سٹیٹ بینک کی متعین کردہ حدود و قیود کی پاسداری کریگی۔اس قانون کی خلاف ورزی کا آغاز مشرف حکومت نے کیا اوریہ روش زرداری اور نواز حکومتوں نے جاری رکھی۔حکومتوں کا مرکزی بینک سے قرض لینا پچھلے سالوں میں افراطِ زر کا بہت بڑا سبب رہا۔
مقامی کرنسی پر مشتمل اندرونی قرض floating debt, permanent debt, unfunded debt کی صورتوں میں حاصل کیا جاتا ہے۔T.bills کی شکل میں کمرشل بنکوں اور بڑی کارپوریشنوں سے حاصل کیا جانے والا ۳سے ۱۲ماہ کا قلیل مدتی قرض floating debt کہلاتا ہے۔pakistan investment bond جیسے طویل مدتی قرض permanent debt کہلاتے ہیں۔جبکہ unfunded debt پرائس بانڈز اور saving certificate پر مشتمل ہوتا ہے۔اسطرح floating
and permanent debtکی صورت میںبینکس اور بڑے کاروبار حکومتی قرض فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیںلیکن اس سے بینکوں کی نجی کاروباروں کو قرض کی فراہمی کی استعداد اور نجی کاروباروں کے پھیلائومیں کمی واقع ہوتی ہے اور نتیجتاً معیشت سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔
تا حال بینک اور کارپوریشنز مجموعی طور پر ۷ٹر یلین کے PIBs,T.bills,Sukuk کے مالک ہیں جسکا مطلب بھاری قرض کی ادائیگی ہے۔گزشتہ مالی سال کی آخری سہ ماہی مارچ ۔مئی ۲۰۱۵میں حکومت نے T.bills کی مد میں ۳۷۔۱ٹریلین روپے کا قرض حاصل کیا جس میں۳۔۱ٹریلین گزشتہ قرض کی ادائیگی میں استعمال ہوئے۔بعد ازاں اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی ۔ستمبر ۲۰۱۵میں اسی مد سے۳۵۔۱ٹریلین حاصل کرنا مقرر کیے۔حالیہ سہ ماہی ستمبر۔نومبر میں حکومت نے ۵۔۱ٹریلین T.bill and PIBs کی مد میں حاصل کرنے کا پلان کیا ہے۔اسطرح سٹیٹ بینک حکومت کے لیے قرض حاصل کرنے اور پھر اس قرض کو ادا کرنے کے لیے اور قرض حاصل کرنے کے لیے سال بھر مصروفِ عمل رہتا ہے۔مارچ ۲۰۱۵میں سٹیٹ بینک نے ۲۰۳۰ارب روپے مارکیٹ سے حکومت کے لیے قرض حاصل کیا اور ۸۰۴۲ارب روپے ادائیگی کی۔مارچ ۔ مئی اور پھر جولائی۔ستمبر ۲۰۱۵میں حاصل کیا گیا بھاری قرض ایک سال کے اندر واپس کیا جانا ہے ۔پہلے سے حاصل شدہ قرض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس قرض کی ادائیگی کے لیے کھربوں روپے کے حصول کے لیے رواں مالی سال مستقل دردِ سر رہے گا۔قرض کی ادائیگی کے لیے قرض کا حصول ایک گورکھ دھندے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ایک طرف تو موجودہ حکومت توانائی کے گردشی قرضے کوگزشتہ حکومت سے ورثہ میں پانے کا رونا روتی ہے اور دوسری طرف حکومتی قرض کی شکل میں ایک اور گردشی قرضہ آنے والی حکومت کے لیے چھوڑے جا رہی ہے۔محدود مدت کے لیے منتخب حکومت کے اصول پر مبنی جمہوری سرمایہ دارانہ ریاست کا المیہ ہے جس کی سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے ڈبے میں بند سوچ کے حامل پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی ماہرین ملکی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ما حاصل کے نا کا فی ہونے کو اپنی غیر دانشمندانہ borrowing اور ظالمانہ ٹیکسوں کا جواز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت سرمایہ داریت چاہے جمہوریت یا آمریت کسی بھی ذریعہ سے پاکستان میں نافذ ہو،نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے ماحاصل کے ذخیرے سے محروم کر دیتی ہے جیسا کہ تیل، گیس اور بجلی۔تیل،گیس اور بجلی کے قیمتی اثاثوں کے ملکی اور غیر ملکی مالکان ان سے زبردست منافع حاصل کرتے ہیں اسطرح ایک طرف تو ان عظیم وسائل سے چند لوگ یا کمپنیاں منافع کما رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت نے ان وسائل پر بھاری ٹیکس عائد کرکے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ مزید برآں پاکستان کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ ٹیکسوں کے نظام نے متمول اور محروم میں تفاوت کو بڑھا دیا ہے۔پاکستان کے ٹیکسوں کے ۴بڑے مآخذ GST,central excise duty, custom duty and income tax ہیں۔ٹیکس محاصل کا ۶۸فیصدیعنی دو تہائی indirect taxes پر مشتمل ہے اور اگر سرچاجز کو شامل کیا جائے تو یہ ۷۶فیصد یعنی تین چوتھائی بنتا ہے۔اسطرح indirect taxes ملک کے کم خوشحال طبقے کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام عوام کو قیمتی قدرتی ذرائع کی ملکیت کے حق سے محروم کرکے حکومت کو قرض کی روش پر ڈال دیتا ہے۔حکومتی قرض حاصل کرنے کے مذکورہ بالا ذرائع معیشت کی تباہی پر منتج ہوتے ہیں ۔اگرمرکزی بینک سے قرض لینا افراطِ زر کا باعث ہوتا ہے تو کمرشل بینکوں اور کمپنیوں سے قرض لینا معیشت کو سست کر کے بحران میں ڈال دیتا ہے اور بیرونی قرضے ملکی خود مختاری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جمہوری سرمایہ دارانہ ریاست منتخب حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی توثیق سے اپنے لیے محاصل اور اخراجات میں من چاہی ترجیحات تعین کرے۔اسلامی ریاست ِ خلافت کو یہ اختیارات نہیں ہیں کیونکہ بیت المال کے محصولات اسلام کے متعین شرعی احکامات کے مطابق حاصل کیے جاتے ہیںاور اسلام ہی کے متعین احکامات کے مطابق خرچ کیے جاتے ہیں۔چونکہ یہ سب احکام شرعیہ ہیںچنانچہ نہ ہی محصولات کے ابواب میں اور نہ ہی اخراجات کے ابواب میں خلیفہ کی صوابدید ہے اور نہ ہی مجلسِ امت سے رائے لینے کی گنجائش بلکہ یہ دائمی ابواب ہیں جن کو شریعت کے دائمی احکام نے مقرر کر دیا ہے۔یہ تو ابواب کے حوالہ سے تھا جہاں تک سیکشنوں اور ہر سیکشن کے لیے مقررہ مقدار کا تعلق ہے تو یہ خلیفہ کی رائے اور اجتہاد پر موقوف ہے، کیونکہ اس کا تعلق رعایا کی دیکھ بھال کے معاملے سے ہے جسے شرع نے خلیفہ کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔
بیت المال کے اخراجات اور ان کے لیے ممکنہ قرض کا حصول مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی ہیں:
رعایا کی کفالت اور جہاد کے فریضے کی ادائیگی کیلئے اموال جو بیت المال پرفرض ہیں ، یعنی فقراء ،مساکین اورمسافر پر خرچ کرنااور جہاد پر خرچ کرنا۔ اس مدوں پر خرچ کرنا اموال کے ہونے یا نہ ہونے پر موقوف نہیں ہوتا،یہ ہر حال میں ریاست پر فرض رہتا ہے خواہ بیت المال میں مال موجود ہو یا نہ ہو۔اگر اموال موجود ہوتو علی الفور خرچ کیا جائے گا اور بصورت ِ دیگر ریاست پر لازم ہوگا کہ وہ مسلمانوں سے اس کیلئے اموال حاصل کرے اور اگر اس میں تاخیر سے مستحق لوگوں کو شدید دقّت پیش آنے کا امکان ہوتو ریاست کو اس کام کیلئے علی الفور قرض لے کر اسے انجام دینا ہوگا، اور مسلمانوں سے اموال جمع کر کے قرض ادا کردینا ہوگا۔تاہم اگر تاخیر سے شدید مشکلات پیش آنے کا امکان نہ ہو اموال حاصل ہونے تک انتظار (فَنَظِرَۃٌ اِلَی مَیْسَرَۃ)کا قاعدہ عائد ہوگا اور اموال مستحقین تک پہنچائے جائیںگے۔
وہ مصارف جو بیت المال پر معاوضہ کے طور پر واجب ہوں،جیسے اُن لوگوں کو ادا کرنا جنھوںنے کوئی خدمات انجام دی ہوں مثلاًفوجی سپاہیوں کی تنخواہیں،حکومتی ملازمین ، قضاۃ،مدرسین وغیرہ کی تنخواہیں۔لہٰذا یہ ادائیگی بھی اموال کے ہونے یا نہ ہونے پر منحصرنہیں ہوتی،بلکہ اسے ہر حال میں پورا کیا ہی جانا ہوتا ہے۔ اگر اموال موجود ہوں تو فوراً ادائیگی کی جائے گی ورنہ اور بصورت ِ دیگر ریاست پر لازم ہوگا کہ وہ مسلمانوں سے اس کیلئے اموال حاصل کرے اور اگر اس میں تاخیر سے مستحق لوگوں کو شدید دقّت پیش آنے کا امکان ہوتو ریاست کو اس کام کیلئے علی الفور قرض لے کر اسے انجام دینا ہوگا، اور مسلمانوں سے اموال جمع کر کے قرض ادا کردینا ہوگا۔تاہم اگر تاخیر سے شدید مشکلات پیش آنے کا امکان نہ ہو اموال حاصل ہونے تک انتظار (فَنَظِرَۃٌ اِلَی مَیْسَرَۃ)کا قاعدہ عائد ہوگا اور اموال مستحقین تک پہنچائے جائیں گے۔
وہ مصارف جو کسی مصلحت اور منافع ِعامہ کیلئے بغیر کسی بدل (return)خرچ کرنا بیت المال پرواجب ہو۔بالفاظ ِ دیگر یہ مصارف مختلف منافع ِ عامہ پر خرچ کئے جاتے ہیں اور اِن سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی،جیسے سڑکوں پر،پانی بہم پہنچانے کیلئے، مسجدوں،مدرسوں اور ہسپتالوں کیلئے جن کا موجود ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے اور ان کے نہ ہونے سے امت کو شدید مصائب جھیلنا پڑتے ہیں،لہٰذا اِن مصارف پر اخراجات بھی اموال کے ہونے یا نہ ہونے پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک فریضہ اور ذمہ داری ہیں، اگر اموال موجود ہوں تو اِن امور پر خرچ کئے جائیںگے، اور اگر موجود نہ ہوں تو یہ ذمہ داری امت کو منتقل ہوجاتی ہے اور اس کیلئے جس قدر وسعت ہو امت سے حاصل کئے جاتے ہیں اور بیت المال اِنھیں خرچ کرتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا خرچ جس پر کوئی آمدنی نہ ہوتی ہو اور جو رفاہ ِ عام کیلئے ہو، اور جس پر خرچ نہ کرنا سخت مشکلات پیدا کرتا ہو،اُس پر بہرحال خرچ کیا ہی جائے گا قطع نظر اس کے کہ اموال موجود ہیں یا نہیں۔اگر بیت المال میں اموال موجود ہوں تو ریاست پر ان کیلئے خرچ کرنا لازم ہوتا ہے اور مسلمانوں کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے؛تاہم اگر اموال موجود نہ ہوں تو یہ ذمہ داری مسلمانوں پر ہوجاتی ہے اور ان کا اس پر خرچ کرنا فرض ہوجاتا ہے۔
وہ مصارف جو کسی مصلحت اور منافع ِعامہ کیلئے بغیر کسی بدل (return)خرچ کرنا بیت المال پرواجب ہو،تاہم جن کے نہ کرنے سے امت کو شدید مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے،مثلاً کوئی پرانی سڑک موجود ہونے کے باوجود ایک نئی سڑک کی تعمیر ،ہسپتال موجود ہونے اور خاطر خواہ خدمات فراہم کرنے کے باوجود ایک نئے ہسپتال کی تعمیر،فاصلے کم کرنے کیلئے نئی سڑک کی تعمیر،وغیرہ۔ایسے منصوبوں کیلئے رقم کی فراہمی اموال کے موجود ہونے پر ہی منحصر ہوگی۔بیت المال میںاگر اموال موجود ہوں تو ایسے منصوبوں پر خرچ کئے جائیںگے ورنہ یہ ریاست کی ذمہ داری نہ ہوگی اور مسلمان ایسے منصوبوں پر خرچ کے پابند نہ ہوںگے کیونکہ فی الحقیقت یہ مسلمانوں پر فرض نہیں ہے۔
ایسے مصارف جوہنگامی صورت ِ حال سے نمٹنے کیلئے ہوں اور بیت المال پر واجب ہوں جیسے قحط،سیلاب،زلزلے یا دشمن کا حملہ۔اِن پر مصارف بیت المال میں اموال موجود ہونے یا نہ ہونے پر منحصر نہیں،بلکہ دونوں صورتوں میں واجب ہیں۔ اگر اموال موجود ہوں تو علی الفور خرچ کئے جائیںگے ورنہ یہ مصارف تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائیںگے۔ایسی صورت میںمسلمانوں سے فوراً اموال جمع کر بیت المال میں رکھے جائیںگے اور وہاں سے خرچ کئے جائیںگے۔اگر مسلمانوں سے اموال جمع کرنے میں تاخیر سے ضرر کا اندیشہ ہوتو ریاست پر اس کام کیلئے قرضلے کر بیت المال کے سپرد کرنا واجب ہوجائے گا اور بعد میں مسلمانوں سے اس مد میں اموال حاصل کرکے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بر عکس اسلام نجی ملکیت کو تقدس فراہم کرتا ہے اور اس کے غصب کا سدِ باب کرتا ہے۔پس ریاستِ خلافت میں ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں مگر مذکورہ بالا انتہائی نا گزیر حالات میں یعنی اگر شرع کے مقرر کر دہ محاصل شرع کے مقرر کردہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوں تو ریاستِ خلافت صرف اتنا ٹیکس لگائے گی جو ان کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں اور لوگوں کے ان اموال سے لے گی جو ان کی بنیادی ضروریات اور ضروری luxuries سے اضافی ہوں۔سرمایہ دارانہ نظام کے بر عکس اسلام لوگوں کے خون پسینے کی کمائی پر ڈاکہ ڈالنے یعنی انکم ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی withholding tax اور GST جیسے ظالمانہ ٹیکسوں کی اجازت دیتا ہے ۔حزب التحریر نے اپنی کتاب اموال فی دولت خلافہ میں تبنی کیا ہے کہ اسلامی ریاست کو indirect taxes لگانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی عدالت کی فیس ، ریاست کو دی جانے والی درخواستوں کی فیس، جائیداد کی خرید و فروخت کی فیس وغیرہ لی جائیں گی یہ اس لیے ہے کہ غیر منصفانہ ٹیکس کا لیا جانا نبی کریم کی اس حدیث سے ممنوع ہے۔ لا ید خل الجنہ صاحب مکس۔
ریاستِ خلافت انشاء اللہ عوامی ملکیت کی توانائی کے ذرائع اور معدنیات اور ان کے علاوہ شرع کے مقرر کردہ دوسرے ذرائع سے بیش قیمت محاصل اکٹھا کریگی اور موجودہ دور کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ ٹیکسیس کا خاتمہ کر دیگی۔