الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بسم الله الرحمن الرحيم

ابراہیم علیہ اسلام اور قربانی کا موسم

 

ذی الحج وہ مہینہ ہے جس میں مسلمان حضرت ابراہیم علیہ اسلام پر آنے والے سب سے کڑے امتحان اور اس میں ان کی  کامیابی کو یاد کرتے ہیں۔ اس 1436 ہجری کے ذی الحج کو قربانی کا پیغام کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیو نکہ یہ واضح ہے کہ ہم قربانیوں کے موسم سے گزر رہے ہیں۔ اس ذی الحج جب خلافت کا کارواں چلنے کا بس تیار ہی ہے، انشاء اللہ، خلافت کے داعیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت ہے۔ خلافت کے داعیوں کو  کفر  حکمرانی کرنے والوں کے غنڈوں  پریشان اور تنگ کررہے ہیں۔ انہیں گرفتار یا اغوا کر کے قید خانوں میں ڈالا جارہا ہے۔  انہیں مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور ان میں سے کچھ کو شہید بھی کردیا گیا ہے۔ شام میں ایک اعلانیہ جنگ چل رہی ہے جہاں مغرب ترک اور ایرانی ایجنٹ حکمرانوں کی مدد سے خلافت کے قیام کو روکنے کی  پوری کوشش کررہا ہے۔ وسطی ایشیاء میں ازبکستان کے لوگ ایک کے بعد ایک  خلافت کے داعیوں کی شہادت کو دیکھ رہے ہیں جو وحشی یہودی جابر کریموف کے بدترین جبر کے سامنے پوری استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بنگلادیش میں حکومت اپنا دماغی توازن کھو چکی ہے، گرفتاریا ں اور تشدد معمول بن گیا ہے یہاں تک کہ خواتین تک کو اس ظلم و جبر سے پناہ حاصل نہیں تا کہ خلافت کے داعیوں کے استقامت کو ہلا دیا جائے۔ اور پاکستان، جہاں حکومت کے غنڈوں نے خلافت کے کئی داعیوں کو قید کر رکھا ہے جبکہ جو آزاد ہیں ان کا اس حد تک پیچھا کیا جاتا ہے کہ مساجد کے باہر محض لیفلٹ بانٹنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

 

یقیناً اس ذی الحج کے مہینے میں قربانی کے سبق کی انتہائی اہمیت ہے۔ ہر وہ ایمان والا جو خلافت کے قیام کی فرضیت کو پورا کرنے کے لئے بھر پور کوشش کررہا ہے ، مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ابراہیم علیہ اسلام کی سبق آموز مثال  پر غور کرے۔ یقیناً ان لوگوں کی مثالیں جو آج حق کے لئے قربانیاں دیتے ہیں  مسلمانوں کےجوش و جذبہ کو بڑھانے کا باعث بنتی ہیں کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں۔ یقیناً مسلمان کا ایمان اسے نئی بلند  منزلوں تک لے جاتا ہے اور اسے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ اسلام اس بات کے لئے تیار تھے کہ جو چیز انہیں سب سے زیادہ عزیز ہے اسے قربان کردیں ،یعنی کے اپنی اولاد ،اور وہ بھی خود اپنے ہاتھوں سے۔ وہ ،جنہیں  بہت دعاوں کے بعد اولاد بڑی عمر میں دی گئی، اس بات کے لئے تیار تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم  پر اپنی اولاد کو قربان کردیں۔ وہ جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو پروان چڑھایا، کئی سالوں تک اسے کسی بھی نقصان سے محفوظ رکھا، چھری اٹھاتے ہیں کہ اپنے پیاری کی گردن کاٹ ڈالیں۔  یہ محض ان کا ایمان ہی تھا جس نے انہیں اس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ اتنی بڑی قربانی دے دیں جبکہ کسی بھی پیار کرنے والے والد کے لئے اپنی اولاد کو مارنے سے یہ زیادہ آسان ہوتا ہے کہ وہ خود کا ختم کرلے۔ یقیناً دنیا کی آزمائشوں میں  سب سے بڑی آزامائش اپنے ہاتوں سے  اپنی اولاد کو  قبر میں اتارنا ہوتا ہے۔

 

جس چیز نے ابراہیم علیہ اسلام کو اس قدر عظیم قربانی دینے کے لئے تیار کیا وہ ان کی جانب سےاللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بھر پور اطاعت تھی۔ ان  کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ کائنات کے مالک نے انہیں "خلیل اللہ" کے لقب سے نوازا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ،

 

وَٱتَّخَذَ ٱللَّهُ إِبۡرَٲهِيمَ خَلِيلاً۬ "اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا

"(النساء:125)۔

 

ابراہیم علیہ اسلام وہ تھے جنہوں نے سچ بولا اس بات کے باوجود کے لوگوں نے  انہیں مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے وقت کے  طاغوت کی اطاعت کا انکار بابنگ دہل کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ اسلام کی جانب سے بت پرستی پر براہ راست حملہ اس طرح بیان کیا ہے کہ

 

قَالَ أَتَعۡبُدُونَ مَا تَنۡحِتُونَ • وَٱللَّهُ خَلَقَكُمۡ وَمَا تَعۡمَلُونَ

"انہوں نے کہا کہ تم ایسی چیزوں کو کیوں بوجتے ہو جن کو خود تراشتے ہو۔ حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے"(اصفت:96-95)۔

 

اس بات کے باوجود کہ ابراہیم علیہ اسلام آزر ، ان کے والد اور جو قبیلے کے لئے بت بناتے تھے،کے گھر پیداہوئے تھے، انہوں نے صرف سچ ہی بولا۔ ابراہیم علیہ اسلام نے اس بات کی پروا نہ کی کہ ان کے گھر انے کو لوگوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور اگر وہ چاہتے تو خاموش بھی رہ سکتے تھے اور لوگوں کے درمیان انہیں جو ممتاز مقام حاصل تھا اس  سے لطف اندوز ہوسکتے تھے۔ لیکن سچ ان کے دل میں ایک آگ کی طرح جل رہا تھا جو انہیں اسے بولنے پر مجبور کرتا تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،

 

وَإِذۡ قَالَ إِبۡرَٲهِيمُ لِأَبِيهِ ءَازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصۡنَامًا ءَالِهَةً‌ۖ إِنِّىٓ أَرَٮٰكَ وَقَوۡمَكَ فِى ضَلَـٰلٍ۬ مُّبِينٍ۬

"جب ابراہیم نے اپنے والد آزر سے کہا تم کیا بتوں کو معبود بناتے ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہے"(الانعام:74)۔

 

ابراہیم علیہ اسلام نے نہ صرف لوگوں کی جانب سے خود کو مسترد کیے جانے کا صبر کے ساتھ سامنا کیا بلکہ انہوں نے اس نقصان کی بھی پروا نہ کی جو لازمی ان پر آنے والی تھی۔ جب کبھی جھوٹ کے پیروکار فکری بنیادوں پر لاجواب ہو جاتے ہیں اور ان کا جھوٹ بالکل واضح ہو جاتا ہے تو وہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے طاقت اور جبر کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ ان کے زمانے کا جابر نمرود  ان کے خلاف جبر کے استعمال پر اتر آیا لیکن اس کے باوجود ابراہیم علیہ اسلام ثابت قدمی سے کھڑے رہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ،

 

فَمَا ڪَانَ جَوَابَ قَوۡمِهِۦۤ إِلَّآ أَن قَالُواْ ٱقۡتُلُوهُ أَوۡ حَرِّقُوهُ

"تو ان کی قوم کے لوگ جواب میں بولےکہ اسے مار ڈالو یا جلا دو"(العنکبوت:24)۔

 

اس مقام پر یہ ہوسکتا تھا کہ ابراہیم علیہ اسلام خود کو نمرود کی آگ سے بچانے کے لئے اپنے پیغام اور عقائد سے دستبردار ہو جاتے لیکن انہوں نے خود کو شہادت کے لئے تیار کیا۔ انہوں نے انسانیت کو جہالت اور جبر  سے بچانے کے لئے آگ میں قدم رکھنا قبول کیا۔ لہٰذا انہیں آگ میں جھونک دیا گیا اور انہیں ان کے رب نے ایک معجزے کے ذریعے محفوظ رکھا جو اللہ کی جانب سے ان کی قوم کے لئے ایک نشانی تھی تا کہ وہ ہدایت کو پالیں۔ لیکن جب اس قدر واضح نشانی کے بعد بھی بت پرستوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو ابراہیم علیہ اسلام مایوس نہ ہوئے اور نہ ہی اس طویل راہ پر ان کے اٹھنے والے قدموں کی رفتار میں کوئی کمی آئی بلکہ وہ اسی ثابت قدمی کے ساتھ اللہ کی دعوت کی ترویج کرتے رہے۔

 

کئی دہائیوں کی قربانیوں کے بعد بھی حضرت ابراہیم علیہ اسلام ہر وقت قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ابراہیم علیہ اسلام اس شے کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے جو انہیں سب سے زیادہ عزیز تھی اور جو انہیں غیر معمولی حالات میں اللہ کے انعام کے طور پر ملی تھی۔ ابراہیم علیہ اسلام ایک بیٹے کی شدید خواہش رکھتے تھے لیکن ان کی بیوی ہاجرہ بانجھ تھیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ اسلام کی دعا کے بارے میں فرمایا،

 

رَبِّ هَبۡ لِى مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ "اے میرے رب! مجھے اولاد عطا فرما جو سعادت مندوں میں سے ہو"(الصفت:100)۔

 

حالات کے انتہائی نامفافق ہونے کے باوجود اللہ نے نہ صرف انہیں بیٹے سے نوازا بلکہ اس بات کا یقین دلایا کہ وہ پیغمبروں میں سے ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

فَبَشَّرۡنَـٰهُ بِغُلَـٰمٍ حَلِيمٍ۬ "تو ہم نے انہیں ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی"(الصفت:101)۔

 

اسماعیل علیہ اسلام ابراہیم علیہ اسلام کے لئے صرف ایک انعام ہی نہیں تھے جو انہیں بڑھاپے میں دیا گیا بلکہ طویل سالوں کی مشکلات اور تکالیف کے انعام کے طور پر ایک بوڑھے باپ کو  جوان اولاد سے نوازا گیا۔

لہٰذا ابراہیم علیہ اسلام نے اسماعیل علیہ اسلام سے کہا ،

 

قَالَ يَـٰبُنَىَّ إِنِّىٓ أَرَىٰ فِى ٱلۡمَنَامِ أَنِّىٓ أَذۡبَحُكَ فَٱنظُرۡ مَاذَا تَرَىٰ

"بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں  کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں  تو تمہارا کیا خیال ہے؟"(الصفت:102)۔

 

اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ان کے والد پریشان ہیں اسماعیل علیہ اسلام نے انہیں یہ تسلی دی،

 

قَالَ يَـٰٓأَبَتِ ٱفۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ۖ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلصَّـٰبِرِينَ

"ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئےاللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے"(الصفت:102)۔

 

لہٰذا  ابراہیم علیہ اسلام نے اس پر عمل کیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ اور پھر اللہ کے حکم سے چاقو نے نہیں کاٹا اور ابراہیم علیہ اسلام کو ایک دنبہ ملا اور اللہ نے فرمایا،

وَنَـٰدَيۡنَـٰهُ أَن يَـٰٓإِبۡرَٲهِيمُ • قَدۡ صَدَّقۡتَ ٱلرُّءۡيَآ‌ۚ إِنَّا كَذَٲلِكَ نَجۡزِى ٱلۡمُحۡسِنِينَ

"تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم، تم نے خواب کو سچا کردیکھایا، ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں"(الصفت:105-104)۔

 

لہٰذا ابراہیم علیہ اسلام کو اپنی استقامت کی بنیاد پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوئی اور انہیں انعام سے نوازا گیا۔

ہمارے اس عہد میں ابراہیم علیہ اسلام کی کہانی ان لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے جو جمہوریت، آمریت اور بادشاہت  کی صورت میں شرک کو دیکھتے ہیں۔  چاہے ہم اس کے خلاف بولیں یا اس پر خاموشی اختیار کریں یہ ہماری ترجیح ہے۔اس دین میں اللہ نے ہمیں جو احکامات دیے ہیں وہ ہم پر یہ لازم کرتے ہیں کہ ہم اپنی آسانیوں اور دنیوی نعمتوں کو فراموش کرتے ہوئے قربانی دینے کے لئے تیار رہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اس طرح ہم طاغوت کو گرانے کی راہ پر استقامت کا مظاہرہ کریں گے۔ ہمیں ان میں سے ہونا ہے جو دنیا کی نعمتوں پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں اس موسم میں، جو کامیابی سے قبل آخری موسم ہے، سختی اور آزمائش ہے۔ یہ قربانیوں کا موسم ہے جس کے ذریعے انشاءاللہ ہم جابروں کے دور کو ختم ہوتا  اور اسلام کو ایک ریاست، خلافت راشدہ  کی صورت میں قائم اور بلند ہوتا دیکھیں گے۔

 

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِى إِلَيْهِمْ مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الاٌّخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ

"اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (و سیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ اور متقیوں کے لئے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے ۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟"(یوسف:109)۔

 

حَتَّى إِذَا اسْتَيْـَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُواْ جَآءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّىَ مَن نَّشَآءُ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

"یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی۔پھر جسے چاہا بچا لیا اور ہمارا عذاب گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا"(یوسف:110)

 

لَقَدْ كَانَ فِى قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لاوْلِى الأَلْبَـبِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لْقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

"ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے جو بنائی گئی ہو بلکہ جو اس پہلے ہیں ان کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے"(یوسف:111)

 

مصعب عمیر، پاکستان

Last modified onپیر, 05 اکتوبر 2015 22:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک