بسم الله الرحمن الرحيم
سوال اور جواب:
افغانستان میں سیاسی ہلچلاور اس کے اثرات
سوال:
17 جولائی2021 کو قطر میں دواعلیٰ سطحی وفود کے درمیان مذاکرات کے دور کا اعلان کیا گیا، جس میں سات افراد طالبان اورسات افراد افغان حکومت کی طرف سے آپس میں بنیادی مسائل پر گفت وشنید کریں گے۔ ان مذاکرات کا اعلان 8 جولائی2021 کو امریکی صدر کی جانب سے 31 اگست تک اپنی فوج کے افغانستان سے انخلاء کو مکمل کرنے کے اعلان کے بعد ہوا۔ امریکہ نے پہلے 9 ستمبر کو انخلاء مکمل کرنے کا علان کیا تھا ۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ تحریک طالبان نے افغانستان کے وسیع علاقوں میں پیشرفت کی ہے اور طالبان کے دعویٰ کے مطابق افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر اب اُن کا کنٹرول ہے ۔2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے کے تحت سیاسی شراکت داری تک پہنچنے کےلیے تحریک طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے ہیں۔ کیا طالبان حکومت پر مکمل قبضہ کرلیں گے یا اس میں شراکتداری قبول کریں گے؟ کیا امریکہ واقعی افغانستان سے نکلے گا یا اس کا اثرونفوذ باقی رہے گا؟
جواب:
ان سوال کے حوالے سے صحیح رائے کو بیان کرنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل حقائق کو پیش نظر رکھیں گے:
1۔ امریکہ نے جب 2010 کے اواخر اور 2011 کے اوائل میں افغانستان سے انخلاء کی سنجیدگی سے منصوبہ بندی شروع کی ،تب سے امریکہ نے طالبان کی سینئر قیادت سے مذاکرات شروع کرنے کی سنجیدہ کوشش شروع کی ، اور پاکستان ان مذاکرات کا سہولت کار تھا۔ اُس وقت سے امریکہ نے طالبان کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرنا شروع کیا، اور 2014 میں مذاکرات کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے تک بات پہنچی۔ گوانتاناموبے جزیرے سے طالبان کے 5 قیدیوں کو ایک امریکی سارجنٹ(بو بیرگڈال) ،جس کو طالبان نے یرغمال بنارکھا تھا، کے بدلے رہا کیا گیا۔۔۔پھر دو افراد کے تحت مذاکرات میں تیزی سے پیش رفت ہونے لگی، جن کی اپنے اپنے فریق کے لیے طویل خدمات ہیں۔ 5 ستمبر2018 کو زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں مصالحت کےلیے امریکہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیاگیا، اور اسے افغانستان پر امریکی عسکری قبضے کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ خلیل زاد کے تقرر کے دو مہینے کے اندر22 اکتوبر 2018 کو، دی نیوز نے خبر دی کہ پاکستان نے ملّا عبد الغنی برادر کو کو رہا کردیا ہے جنہیں 8فروری 2010 کو کراچی میں ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ پاکستان میں زیر حراست تھے۔ اپنی رہائی کے بعد ، ملّا بردار کو دوحہ میں طالبان سفارتی آفس کا سربراہ متعین کیا گیا۔ بی بی سی نے25 فروری2019 کو خبردی کہ"۔۔۔طالبان نے امریکی عہدہ داروں اور افغان حکومت کے ساتھ پے درپے مذاکرات کے دوران جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ان میں پہلا نام ملّا برادر کا آیا تھا ، یہاں تک کہ اکتوبر 2018 میں ان کو رہا کردیا گیا۔ یہ مذاکرات قطر کی ثالثی کے تحت ہوئےتھے"۔ اس کے بعد مذاکرات میں ان دونوں افراد نے نمایاں کردارادا کیا ۔
2۔ پھر29 فروری2020 کو ان مذاکرات کے نتیجے میں دوحہ معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی نمایاں بات بی بی سی عربی نیوز نے یہ بیان کی کہ "امریکی اور افغان عہدہ داروں نے اعلان کیاہے کہ طالبان کی جانب سے معاہدے کی پابندی کی صورت میں، جس پر آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دستخط کیے گئےہیں، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی چودہ مہینوں کے اندر افغانستان سے اپنی افواج نکال لیں گے اگر طالبان نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔اس معاہدے کا اعلان کابل میں امریکہ و افغان مشترکہ بیان کے ذریعےکیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ افغانستان میں "ایک طویل اور پر مشقت سفر تھا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ" اتنے سال کے بعد اپنے فوجیوں کو وطن واپس لانے کا وقت آگیا ہے"۔ بی بی سی نے 29 فروری 2020 کو مزید بتایا کہ، "تنازعے میں 2400 سے زیادہ امریکی فوجی مارے گئےہیں۔"
3۔ دوحہ معاہدے کے بعد اگرچہ تصادم کے واقعات جاری رہے، لیکن بیانات اور ملاقاتوں میں تیزی آگئی جس میں اتارچڑھاؤ بھی آتے رہے۔14 اپریل2021 کو سی این این نے خبر دی کہ جوبائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ،" میں اب افغانستان میں امریکی فوج کی قیادت کرنے والا چوتھا صدر ہوں، دوڈیموکریٹ اور دو ری پبلیکن، میں یہ ذمہ داری پانچوے کو ہرگز منتقل نہیں کروں گا۔۔۔ امریکہ کی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔" اس کے بعد 8 جولائی 2021 کو بائیڈن نے خطاب کیا جس کے بعد پریس کانفرنس کی جس کو امریکی ذرائع ابلاغ نے نشر کیا جس میں اُس نے کہا، "ہم امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو ختم کررہے ہیں ۔۔۔ہم دو وجوہات کی وجہ سے گئے تھے:ایک یہ کہ اسامہ بن لادن کو جہنم کے دروازوں پر پہنچانا چاہتے تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ اس علاقے سے امریکہ پر مزید حملے کرنے کی القاعدہ کی صلاحیت کو ختم کرنا۔ ہم نے یہ دونوں اہداف حاصل کرلیے" اس نے مزید کہا تھا کہ "افغانستان میں ہماری فوجی مہم 31 اگست کو ختم ہوجائے گی"۔ اس نے یہ بھی کہا کہ، " امریکی فوج افغانستان کی تعمیر نو کے لیے نہیں گئی تھی۔ یہ صرف افغان عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ وہ جیسے مناسب سمجھیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور یہ کہ اپنے ملک کو کیسے چلانا ہے ۔" بائیڈن نے یہ بھی کہا،" اوراب ترجیح چین اور دوسری اقوام کے ساتھ اسٹریٹیجک مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کی مرکزی مضبوطی کو جمع کرنا ہے جو ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ ہمیں اپنے گھر اور دنیا بھر میں کوویڈ-19 کو شکست دینی ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اگلےوبائی مرض یا بائیولوجیکل خطرے کے لیے ہم بہتر طور پر تیار ہوں۔ اور ہم لمبے عرصے کے لیے اپنے دشمنوں اور مدمقابل اقوام کے لیے زیادہ ناقابل شکست ہوں گے اگر ہم نے پچھلے بیس سال نہیں بلکہ اگلے بیس سال کے لیے جنگیں لڑیں۔"
وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے واضح کرتے ہوئے کہا، "ہم اس حوالے سے کوئی تقریب نہیں رکھیں گے کہ 'مشن مکمل ہوا'۔ یہ ایک بیس سالہ جنگ تھی جو فوجی طور پر نہیں جیتی گئی۔ "(اناتولیہ عربی، 8 جولائی2021 )، یعنی امریکہ بیس سال کی کوشش کے باجود افغانستان میں کامیابی حاصل نہ کر سکا۔2 جولائی2021 کو امریکہ نے بگرام ائیر بیس خالی کردیا جو کہ اس کا سب سے بڑا اڈہ تھا، اور اس سے قبل دوسرے اڈوں کو بھی بند کرچکا تھا، اپنے صلیبی مہم کو اُس وقت سے پہلے ہی عملا ختم کیا جو کہ 11ستمبر تھا اور بعد میں اپنے خطاب میں نئی تاریخ یعنی 31 اگست کا اعلان کردیا۔
۔اس دوران تحریک طالبان نے اپنے عسکری حملوں کو وسعت دی ، اورشمال جنوب، مغرب اور پھر مرکز میں اضلاع ان کے قبضے میں آنے لگ گئے۔ افغان سرزمین پر طالبان کے قبضے کی تیز رفتاری قابل توجہ ہے ،خاص کر پڑوسی ممالک کے سرحدوں پر اور پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں پر۔ ماسکو جانے والی طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن شہاب الدین دلاور نے9 جولائی 2021 کو بیان دیا کہ"تحریک نے 85فیصد افغان سرزمین پر قبضہ کرلیا ہے۔" لیکن افغان سیکیورٹی فورسز کے ترجمان اجمل عمر شینواری نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا" ایسا کہنا درست نہیں ، بیشتر علاقوں میں جنگ جاری ہے۔"(ایجنسی فرانس پریس عربی، 11 جولائی2021 )۔ مگر طالبان کے وفد نے وعدہ کیا کہ " پڑوسی ممالک اور دوست ممالک میں مداخلت نہیں کریں گے "۔ دلاور نے کہا کہ "اس کے ماسکو کے دورے کا ہدف ان تمام معلومات کو پیش کرنا ہے جو امارت اسلامیہ کے متعلق ہیں۔ اور یہ کہ امارت اسلامی داعش کو افغانستان میں پھلنے پھولنے نہیں دے گی اور تحریک اس کے خلاف لڑے گی۔ اور یہ کہ تحریک طالبان ریاست کے عمومی ڈھانچے کا تعین کرنے کےلیے معاشرے کے نمائندوں سے مذاکرات کر رہی ہےاور یہ کام آخری مراحل میں ہے۔ اور یہ کہ تحریک کا ہدف اقتدار پر مکمل قبضہ کرنا نہیں ہے"(الجزیرہ عربی ، 9 جولائی2021 )۔
4۔پھرجولائی2021 کو اعلان کیا گیا کہ، " افغانستان میں تنازعے کے دونوں فریقوں نے ہفتے کے دن دوحہ میں اہم ترین موضوعات پر بحث کے لیے مذاکرات کے ایجنڈے پر تبادلہ خیال کے لیے مساوی 14 ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔ الجزیرہ نے دوحہ میں افغان مذاکراتی ذرئع کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی افتتاحی نشست مثبت ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ اور مذاکرات کا نیا دور افغان حکومت او رتحریک طالبان کے درمیان آج قطر کے درالحکومت دوحہ میں شروع ہوا، اس دور میں اہم ترین مسائل کے حوالے سے بحث کی جائے گی۔ افغان مصالحتی کمیٹی کے سربراہ اور حکومتی وفد کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ نے کہا کہ ملک میں امن کا حصول دونوں فریقوں سے نرمی کا تقاضا کرتاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب زمین امن کے لیےسازگار ہے۔ دوسری طرف دوحہ میں طالبان دفتر کے ترجمان ملّا عبد الغنی برادر نے کہا کہ وہ آج دوحہ میں شروع ہونے والی افغان امن بات چیت کے مثبت نتائج کے لیے بھر پور کوشش کریں گے۔( مصدر: الجزیرہ عربی اور ایجنسیاں)
5۔پھر 14 رکنی کمیٹی نے اپنی سرگرمیوں کا اختتام آج، 18 جولائی2021 کو کیا اور اس گفت وشنید کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، " دوحہ میں الجزیرہ کے نمائندے نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان تحریک کے وفود نے قطر کی وساطت سے دوحہ میں جاری حالیہ مذاکرات کے حوالے سے مشترکہ بیان پر اتفاق رائے کرلیا ہے کہ دوحہ بات چیت کے تحت جلد ایک اور اجلاس ہوگا۔ دونوں فریقین نے دہائیوں سے جاری تصادم کا منصفانہ حل نکالنے کے لیے مذاکرات کو تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حکومتی اور طالبان وفود کے مشترکہ بیان میں بتایا گیا کہ ان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے کہ منصفانہ حل تک پہنچنے کےلیے مذاکرات کو تیز کرنے پر اتفاق ہوا ہے ، اور یہ عہد کیا ہے کہ جب تک حل پر پہنچ نہیں جاتے اعلیٰ سطح پر مذاکرات ہوتے رہیں گے ۔ اس طرح افغان امن بات چیت کا دوسرا دور ختم ہوا ، جس کا ہدف ملک میں دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد امن کے قیام کے لیے سیاسی حل پر پہنچنا ہے۔ تحریک طالبان کے وفد میں موجود ایک ذرائع نے بتایا کہ تحریک نے تجویز دی ہے کہ تحریک اور حکومت کے درمیان اعتماد کی فضاء پیدا کی جائے، جس کے لیے دونوں فریق قیدیوں کو رہا کریں اور عید الاضحیٰ کے دوران وقتی جنگ بندی کا اعلان کیا جائے۔۔۔"(مصدر: الجزیرہ اور ایجنسیاں)
6۔اُن ممالک کا موقف جاننا بہت اہم ہے جن کو امریکہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کےلیے سرگرمی سے استعمال کر رہا ہے:
ا۔ پاکستان: پاکستان ہی نے 2018 میں طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا تھا۔ زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں مذاکرات شروع کرنے کے لیے طالبان کو سفری سہولیات فراہم کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا، سیکریٹری دفاع لویڈ اوسٹن نے 21 مارچ 2021 کو پاکستان کے آرمی چیف سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے " شکریہ ادا " کیا کہ " پاکستان افغان امن عمل کی مسلسل معاونت کر رہا ہے۔" (پینٹاگون کے سربراہ نے 23 مارچ 2021 کو افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی، الفجر میگزین، 23 مارچ 2021)۔ پاکستان کے سینئر فوجی افسران اور سیاسی طبقے نے افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں پاکستان کا کردار اہم ہے، آج بھی اور تاریخی طور پر بھی۔ تحریک طالبان افغانستان کے پاکستان سے روابط ہیں ۔ پاکستان کی آئی ایس آئی اور دیگر پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے افغانستان میں اثرو رسوخ اور روابط ہیں اور ان کے لوگوں کے طالبان سے رابطے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے کردار پر بہت انحصار کرتا ہے۔
ب۔ ترکی: جو کچھ اس نے شام اور لیبیا میں کیا، افغانستان میں بھی وہی کرنے کےلیے متحرک ہو رہا ہے اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ ترک ساحلی مقام انتالیہ میں ایک بین الاقوامی اجلاس کے دوران ترک وزیر خارجہ مولود جاویش اوگلو نے ترکی کی جانب سے افغانستان کے کابل ائر پورٹ کی سیکیورٹی کی تجویز پیش کی ۔۔۔واشنگٹن نے انقرہ کی جانب سے کابل ائر پورٹ کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے حوالے سے اہم کردار کی پیشکش کو خوش آئند قرار دیا۔ ترکی کی جانب سے یہ پیشکش گذشتہ مہینے برسلز میں اردوگان اور بائیڈن کی ملاقات کے بعد ہوا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی کابل ائرپورٹ کی چوکیداری کی ذمہ داری ادا کرے جس کے اب بھی 500 فوجی ائرپورٹ کے قریب ہیں۔ بائیڈن نے 8 جولائی 2021 کے اپنے خطاب میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ" ہم بین الاقوامی ائر پورٹ کی سیکیورٹی کی ضمانت کے لیے اپنے بین الاقوامی شراکتداروں سے رابطے کر رہے ہیں۔" اردوگان نے کہا"ہم نے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ مستقبل کے مشن کے انتظامات کا فیصلہ کیا ہے کہ ہم کیا قبول کرتے ہیں اور ہم کیا قبول نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے یہ مسئلہ نیٹو کے اجلاسوں کے دوران ، بائیڈن سے میری ملاقات کے دوران اور اپنے وفود کے مابین تبادلہ خیال کے دوران اٹھایا تھا۔ ہم افغانستان میں اس آپریشن کو بہترین طریقے سے نافذ کریں گے۔"( الجزیرہ عربی، 9 جولائی2021 )۔ 2 جولائی 2021 کو ترک صدر کے ترجمان ابراھیم قیلین کے متعلق خبر شائع ہوئی کہ انہوں نے کہا،" ترکی اس گرمی کے موسم میں نیٹو فورسز کے نکلنے اور امریکہ کی قیادت میں امداد ی مہم کے ختم ہونے پر کابل ائرپورٹ کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے گا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "افغان حکومت کی افواج کی تربیت ، مشورے اور معاونت کے لئے نیٹو کا امریکہ کی زیرقیادت ریزولوٹ سپورٹ مشن ستمبر میں مغربی فوجی اتحاد کے فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا۔"(3 جولائی2021 ،الشرق الاوسط)۔ تحریک طالبان نے ترکی کی موجودگی کو مسترد کیا اور اپنے بیان میں کہا کہ" امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی فورسز کے ملک سے نکلنے کے بعد ترک سیکیورٹی فوسز کی موجود گی ناقابل قبول ہے اس قسم کے فیصلے شرانگیز ہیں۔ انہوں کہا کہ ترک قیادت کا فیصلہ عقلمندی پر مبنی نہیں، کیونکہ یہ ہماری خودمختاری کے خلاف ہماری سرزمین کی سلامتی اور وحدت کو پامال کرنا اور ہمارے قومی مفاد کے خلاف ہے" (الجزیرہ، 13 جولائی2021)
ج۔ وسطی ایشیا: امریکہ اپنی کچھ فوج رکھنے کے لیے وسطی ایشیا ئی ممالک کی قیادتوں سے بات چیت کر رہا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ امریکی عہدہ دار قازق اور ازبک حکومتوں سے خطے کے اڈوں کے ممکنہ استعمال کے حوالے سے رابطے میں تھے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ انتونی بلینکن نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ انہوں نے 22 اپریل کو ازبک اور قازق وزرائےخارجہ سے امریکی اور نیٹو فورسز کی جانب سے فوجی اڈوں کے استعمال کے حوالے سے بات کی ہے۔امریکی اور مغربی اتحادی ممالک ڈرونز ، لانگ رینج بمبار اور جاسوس نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے افعانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا ایک مرکز بننے سے روکنے کی کوشش کریں گے" (نیویارک ٹائمز 27 اپریل 2021 )
7۔ مندرجہ بالا حقائق سے یہ واضح ہے کہ:
ا۔ مذاکرات کو جاری رکھنا امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کےلیے نہیں بلکہ دھوکہ دینے کے لیے ہے،امریکہ سامنے والے دروازے سے نکل کر پچھلے دروازے سے آنا چاہتا ہے جس کی حفاظت اس کے ایجنٹ کریں گے۔ پاکستان، ایران اور ترکی میں اس کے پیروکار اور افغانستان میں اس کے آلہ کار یہ کردار اداکریں گے، یوں یہ سب افغانستان میں امریکی اثرونفوذ کی حفاظت کے لیے بنیادی کردار ادا کریں گے۔۔۔
ب۔ جہاں تک قطر کی بات ہے تو وہ مذاکرات کا ماحول دومقاصد کےلیے بنا رہا ہے: پہلا مقصد امریکہ سے ساز باز کرکے سعودیہ کی جانب سے محاصرے کو ختم کروانا تھا، اور پھر ایسا ہی ہوا۔۔۔ خاص کر29 فروری2020 ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں دوحہ معاہدے کے بعد۔۔۔ دوسرامقصد یہ ہے کہ قطر نے اپنے آقا برطانیہ کی حمایت سے طالبان سے اپنے روابط کو امریکہ کو تنگ اور پریشان کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ جان بوجھ کر مداخلت کرنے کے نقطہ نظر سے کیا جارہا ہے کیونکہ قطر طالبان کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے، ان کے لیےسفارتی دفتر کھولا ہے اور میڈیا پلیٹ فارم مہیا کیاہے، جس کی وجہ سے امریکہ کو طالبان سے روابط کے آسانی کے لیے قطر کی ضرورت رہتی ہے۔۔۔ انگریز اسی طرح کرتاہے اور اس سیٹ اپ کو قطر اور خلیج میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے، اور امریکہ کے طالبان سے روابط کےلیے قطر کے کردار کی محتاجی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔۔۔
ج۔ طالبان کا امریکہ اور افغان حکومت میں اس کے ایجنٹوں کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونا بڑی غلطی تھی۔۔۔ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ افغان مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ رکھے، استعماری کفار اپنے اردگرد کے حالات کی وجہ سے اپنے مفادات کے حصول کےلیے ہی مذاکرات کرتے ہیں، امریکہ کے اردگرد حالات کو گہرائی سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکتاہے۔ لہٰذا جو بھی دماغ رکھتا ہے، اور سنتا اور مشاہدہ کرتا ہے وہ یہ جان لے کہ:
اول: اس صدی میں چین کا عسکری اور معاشی قوت کے طور پر ابھرنا امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہے۔۔۔ اس خطرے کی جانب توجہ اب امریکہ کی ترجیح ہے۔ امریکی عہدہ داروں کے بیانات اس کی تصدیق کرتے ہیں جو ہم نے پہلے 8 جولائی 2021 کی بائیڈن کی تقریر کے ایک حصے کو سامنے رکھا تھا جس میں اس نے کہا تھا :" اوراب ترجیح چین اور دوسری اقوام کے ساتھ اسٹریٹیجک مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی مرکزی مضبوطی کو جمع کرنا ہے جو ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ "
دوئم: وہ نقصانات جن کا امریکہ کو افغانستان میں سامنا ہوا جیسا کہ پہلے ہم نے بتایا تھا کہ بی بی سی نیوز نے 29 فروری2020 دوحہ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:" افغانستان میں امریکہ کے 2400 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے۔"
یہ سب اس پر دلالت کرتا ہے کہ مذاکرات کے بغیر امریکہ افغانستان سے شکست خوردہ ہوکر نکلنے والا تھا مگر وہ مذاکرات کے ذریعے اپنے نفوذکو محفوظ کرکے وہ حاصل کرکے نکلنا چاہتا ہے جو اس نے جنگ سے حاصل نہیں کیا!
د۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ طالبان میں سچے اور مخلص بھائی ہیں، لہٰذا ہم انہی سے کہتے ہیں کہ:
۔معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مذاکرات کو ختم کردیں ، امریکہ کو وہ حاصل کرنے نہ دیں جو اُس نے جنگ سے حاصل نہیں کیا۔۔۔
۔ اس بات کا یقین کرلیں کہ مسلمانوں کی موت وحیات کا مسئلہ طویل عرصے تک غائب رہنے کے بعد خلافت کا دوبارہ قیام ہے، یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے فرض اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے۔۔۔
۔ اور یہ جان لیں کہ اسلام اور سیکولر ازم کی ملغوبہ حکومت میں شراکت کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا کیونکہ اللہ صرف پاک چیز کو قبول کرتاہے۔۔۔
یہی حق ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ﴾
"حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں" (یوسف، 10:32)۔
اور صرف حق کی پیروی ہی طالبان، ملک، اس کے باشندوں اور تمام مسلمانوں کو بچائے گا۔۔۔حزب التحریر آپ کو یہی نصیحت کرتی ہے جیسا کہ آپ کی پچھلی حکومت کے آغاز میں ہم نےآپ کو نصیحت کی تھی کہ خلافت کے قیام کا اعلان کریں مگر آپ نے اس کو مسترد کیا، پھر آپ کو اندازہ ہوا کہ آپ نے اس کو مسترد کرکے غلطی کی جیسا کہ ملاعمر رحمۃ اللہ نے ایک مجلس میں اس غلطی کا اظہار کیا، لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔۔۔ اور ہم اب بھی اُسی نصیحت کو دہراتے ہیں، تو کیا اب کی بار کوئی مثبت جواب دینے والا ہے؟
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
" اے ایمان والو اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا اور اسی کی طرف تمہیں لوٹنا ہے"(الانفال، 8:24)
99 ذی الحجۃ 1442
19 جولائی2021