الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب:دلیل کی تعریف میں   المطلوب الخبری کا مطلب

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب:دلیل کی تعریف میں   المطلوب الخبری کا مطلب

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، جلیل القدر امیر اللہ آپ کی حفاظت کرے،

اصول  کی ادلہ(ثبوت) کی تعریف میں آیا ہے: وہ جس کے ذریعے (یقینی)علمسےمطلوب خبری تک پہنچا جائے۔۔۔ اور فروع کی ادلہ کی تعریف میں آیا ہے: وہ جس کے ذریعے صحیح نظر سے مطلوب خبری تک پہنچا جائے۔۔۔ ختم شد٭ مطلوب خبری سے کیا مقصود ہے؟۔

کیا  'الامارۃ ' اس مسئلہ پر مشتمل ہو تا ہے جس پر دلیل قطعی طور پر دلالت کرے،  اور اس مسئلے پر  جس پر دلیل  ظنی طور پر دلالت کرے ، جو فہمِ دلیل اس مسئلے  کے بارے میں مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد حاصل ہو)؟اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

ابو حنیفہ کی جانب سے

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

اصولیوں کے نزدیک دلیل  یہ ہے: "وہ جس کے ذریعے (یقینی)علم سے مطلوب خبری تک پہنچنا ممکن ہو" جبکہ فقہاء کے نزدیک دلیل  یہ ہے: " وہ جس کے ذریعے صحیح نظر سے مطلوب خبری تک پہنچنا ممکن ہو"۔

"مطلوب خبری" کی اصطلاح ان دونوں تعریفوں میں"مطلوب تصوری"سے جدا کرنےکے لیے آئی ہے۔۔۔"مطلوب خبری" کے معنی کو سمجھنے کے لیے اصطلاح والوں سے رجوع کیا جائے گا،  وہ مطلوب کی دو قسموں میں فرق کرتے ہیں: مطلوب تصوری اور مطلوب خبری۔۔۔مطلوب تصوری: کسی شئے کی حقیقت کا ذہن میں تصور کرنا اس کی تعریف کے ساتھ  ۔۔۔

مثال کے طور پر: جب آپ کہتے ہیں"الکون"(کائنات)مفرد کلمہ ہے،اور آپ کہیں "مخلوق"ایک مفرد کلمہ کی طرح  ہے، پس  الکون کے معنی اور اس کی ماہیت کا تصور  اور "مخلوق" کے معنی اور اس کی ماہیت  کا تصور مطلوب تصوری میں داخل ہے۔۔۔مطلوب تصوری گویامفرد کلمہ سے ہے۔۔۔مگر ان مفرد الفاظ کے معنی کے تصور کے بعد  اگر آپ ان میں سے ایک کی دوسرے کی طرف نسبت کریں جو ایسی نسبت ہو جس کی تصدیق اور تکذیب داخل ہو اور آپ کہیں مثال کے طور پر: "الکونُ مخلوق"(کائنات مخلوق ہے) تو آپ نے یہاں "مخلوق" کی خبر کو"الکون" کی طرف نسبت دی  یعنی الکون کے بارے میں یہ خبر دی کہ وہ مخلوق ہے۔  دوسرے الفاظ میں  آپ نے اس قضیئہ کو ثابت کیا اور اس کی تصدیق کی(یعنی ایمان لائے)، یعنی آپ نےصدق کا حکم لگایا، یہی مطلوب خبری ہے۔ اس کو مطلوب خبری کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ  جملہ اسمیہ یا جملہ فعلیہ سے خبر کو منسوب کرنے کی وجہ سے ہے، یوں یہ مرکب کے قبیل سے ہے مفرد کے قبیل سے نہیں۔۔۔

مثلاً الخمر حرام (شراب/نشہ آور شےحرامہے) ، ان مفرادات میں سے ہر ایک کے معنی کا الگ الگ تصور کرنایعنی آپ خمر کے معنی کو جانتے ہیں کہ وہ مشروب جو نشہ آور ہے۔ اس تعریف سے حلال یا حرام کا علم نہیں ہوتا یعنی حکم معلوم نہیں ہوتا،  بلکہ یہ ذہن میں معنی کا تصور ہے۔۔۔اسی طرح حرام کے معنی کو سمجھنا کہ ممنوع ہے ،  یہ مفرد کلمے کا معنی حکم نہیں بلکہ یہ ذہن میں تصور اور تعریف ہے۔۔۔

یوں ہر مفرد کلمہ  جس کو کسی اور سے مربوط کیے بغیر اکیلے تعریف کیا گیا،   مطلوب تصوری ہے۔

مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کی طرف منسوب کیا گیااور کہا کہ: "الخمر حرام" (شراب حرام ہے)۔۔۔آپ نے اس قضیہ"مرکب" کی تصدیق کی ، آپ نے حکم لگا یا کہ شراب فعلاً حرام ہے یا آپ نے اس قضیہ کاانکارکیاکہ شراب حرام نہیں ، ان دونوں حالتوں میں اس کو مطلوب خبری کا نام دیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر  : "زید ٌ قائم"(زید کھڑا ہے) ۔ اگر آپ نے زید کا معنی سمجھا کہ ایک متعین شخص ہے اور قائم یعنی اپنے پاوں پر کھڑا ہے  اس کو تصور کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر آپ نے حکم لگا یا کہ زید کھڑا ہے یعنی اس قضیہ کے مضمون کی تصدیق کی یا یہ حکم لگایا کہ زید کھڑا نہیں ہے یعنی آپ نے قضیے کے مضمون کو جھٹلایا  تو اس کو بھی مطلوب خبری کا نام دیا جاتا ہے۔

اس لیے مطلوب خبری  دوتصوراتی مطلوبوں پر مبنی ہے، پہلے آپ ذہن میں موجود کسی شئی کی حقیقت کا تصور (سمجھتے)کرتے ہیں ، پھر ذہن میں موجود کسی اور چیز کی حقیقت کا تصور (سمجھتے)کرتے ہیں ، پھر ان میں سے ایک شئی کو دوسرے شئی کی طرف سندکے طور پر منسوب کر تے ہیں  یعنی جملہ اسمیہ یا فعلیہ  کے ذریعے اور  اس پر اثبات یا نفی کا حکم لگاتے ہیں، تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں، درست یا غلط قرار دیتے ہیں، تنفیذ یا عدم تنفیذ کی بات کرتے ہیں، یہ اسنادی نسبت ہی مطلوب خبری ہے۔۔۔

"مطلوب خبری "مرکب  کے قبیل سے ہے جس تک دلیل کے ذریعے پہنچا جاتا ہے،  چاہے دلیل قطعی ہو یا ظنی، عقلی ہو یا نقلی، آپ کا یہ کہنا کہ "الکون مخلوق"(کائینات مخلوق ہے)  مطلوب خبری ہے جس تک آپ دلیل سے پہنچے ہیں۔۔۔

آپ کا یہ کہنا کہ  "الخمر حرام" (شراب حرام ہے)   مطلوب خبری ہے جس تک آپ دلیل سے پہنچے ہیں۔۔۔آپ کا یہ کہنا کہ زید قائمٌ مطلوب خبری ہے جس تک آپ  دلیل سے پہنچے ہیں۔۔۔

جہاں تک مطلوب تصوری کی بات ہے یہ مفرد کے قبیل سے ہے جس تک دلیل کے ذریعے نہیں پہنچا جاتا، بلکہ یہ مفرد کلمہ کی حقیقت  اور معنی کا فہم ہے مثلا:

"الکون مخلوق" (کائنات مخلوق ہے) کو ثابت کرنے کے لیے دلیل ضروری ہے کیونکہ آپ پوچھ رہے ہیں کہ : کائنات کی مخلوق ہونے کی کیا دلیل ہے؟۔۔۔مگر یہ نہیں پوچھ رہے ہیں کہ الکون کی کیا دلیل ہے؟  کیونکہ یہ درست نہیں۔۔۔ہاں یہ پوچھ سکتے ہیں کہ : الکون کا معنی کیا ہے یا الکون کی تعریف کیا ہے؟

اس بنا پر اصولیین کے ہاں دلیل کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ:  وہ جس کے ذریعے  "مطلوب خبر ی "کے (یقینی)علم تک پہنچا جاتا ہے۔۔۔اور فقہاء کے نزدیک: وہ  ہے جس  میں صحیح نظر سے مطلوب خبری تک پہنچا جاتا ہے۔۔۔یہ مطلوب تصوری سےجداکرنے کے لیے  ہے کیونکہ اس کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ معنی یا حقیقت کی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے ۔

رہی بات الامارۃ کے بارے میں آپ کے سوال کی ۔۔۔

تو فقہاء  دلیل اور الامارۃ میں کوئی فرق نہیں کرتے، ان کے نزدیک دلیل میں قطعی اور ظنی شامل ہو تے  ہیں،  یعنی یہ ظنی مسائل اور قطعی مسائل پر منطبق ہوتی ہے۔۔۔

جبکہ اصولیوں  میں سے ایک فریق  دلیل اور الامارۃ میں فرق کرتا ہے، ان لوگوں کے نزدیک دلیل  صرف وہ ہے جو قطعی ہے اور جو ظنی ہو اس کو دلیل نہیں الامارۃ کہا جاتا ہے۔۔۔ اس لیے اصولیوں کے نزدیک الامارۃ صرف ظنی مسائل میں ہو تا ہے قطعی مسائل اس میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔۔۔

یاد رہے کہ لغت میں  کبھی الامارۃ کو علامت کا نام دیا جاتا ہے جب وہ اس مدلول علیہ شئے سے  الگ نہ ہو تا ہو جیسے الف اور لام (حروف) کا اسم پر دلالت کرنا جو اس سے جدا نہیں ہوتے اور اس کی علامت ہیں۔

اگر  مدلول علیہ شئی سے جدا ہو جیسے بارش کا بادل سے الگ ہوناتب اسےالامارۃ کا نام دیا جا تا ہے،  دلیل الامارۃ اور علامت کے برخلاف ہے۔

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

26 شعبان 1437 ھ

2/6/2016 م

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک