الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب: اصول فقہ میں خبر اور انشاء

بسم الله الرحمن الرحيم

 سوال کا جواب: اصول فقہ میں خبر اور انشاء

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ کی کتاب اصول الفقہ میں ، ابن النجار رحمۃ اللہ کی کتاب  الکوکب المنیر میں اور  اسی طرح  عقیدے کے اصول کی دوسری کتابوں میں خبر اور انشاء میں تفریق کی گئی ہے۔ دونوں کتابوں میں   طلاق اور ظہار(اسلام سے قبل طلاق دینے کا ایک طریقہ) کو انشاء کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے جیسا کہ علامہ ابن النجار اور دوسروں نے کہا ہے کہ ظہار کی اصل خبر ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ : مجھے خبر اور انشاء  میں فرق سمجھنے میں دشواری ہے ۔ ختم شد۔

حمزہ شہادہ کی جانب سے

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ،

جی ہاں  شخصیہ جزو تین میں خبر اور انشاء کا ذکر ہے۔ اسی طرح الکوکب المنیر میں بھی ، طلاق اور ظہار  کا ذکر ہے۔ مسئلہ یوں ہے کہ:

1۔خبر وہ مرکب کلام ہے جو کسی معاملے کے متعلق تصدیق اور تکذیب (انکار)  کرتا ہےلیکن  کسی چیز کا تقاضا نہیں کرتا۔۔۔جبکہ انشاء وہ مرکب کلام ہے  جو تصدیق اور تکذیب  نہیں کرتا بلکہ  کرنے یا نا کرنے کو قبول کرتا ہے، کیونکہ وہ کسی چیز کے بارے میں خبر نہیں دیتا بلکہ اس کو ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

مرکب کلام ہونے کا یہ معنی ہے کہ یہ اسنادی جملہ ہے جس میں مسند اور مسند الیہ ہے چاہے اسمیہ ہو یا فعلیہ۔۔۔یہ اس لیے کہ لغت میں مرکب  وہ ہے جس کا جزو معنی کے جزو پر دلالت کرے، مثلاً "قام زید" ایک جملہ فعلیہ ہے جس میں فعل اور فاعل ہے، اس کے تمام اجزا"قام" اور "زید" جملہ کے معنی کے جزو پر دلا لت کرتے ہیں ۔۔۔اسی طرح جملہ اسمیہ مثال کے طور پر" ھذا البیت جمیل" اس جملہ کے تمام اجزا اس کے معنی کے اجزا پر دلالت کرتے ہیں۔

پھر اگر یہ مرکب کلام  تصدیق اور تکذیب کو قبول کرتا ہو یعنی کسی چیز کی خبر دیتا ہو اور کسی چیز کو طلب نہ کرتا ہو تو یہ خبر ہے مثلاً"جاء حسن من المدینۃ"(حسن شہر سے آیا ہے)، یہ خبر ہے جس کی تصدیق اور تکذیب ممکن ہے۔ دلائل کے مطابق حسن کے آنے کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی ہے، جبکہ اس کے ساتھ  کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

مگر جب کلام تصدیق اور تکذیب نہ کرتا ہو  اور کسی چیز کی خبر نہ دیتا ہو اور کرنے  یا  نا کرنے کو قبول کرتا ہو یعنی کسی چیز کو طلب کرتا ہو تو یہ انشاء ہے، مثال"قم فصل"(کھڑے ہوجاؤ اور نماز پڑھو) یہ کوئی ایسی خبر نہیں کہ جس کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکے بلکہ  یہ نماز قائم کرنے کا مطالبہ ہے، یعنی کسی چیز کو ادا کرنے کا۔ اس کے جواب میں مخاطب  اپنے دلائل کے مطابق نماز ادا کرے گا یا نہیں کرے گا۔

اس کے علاوہ  طلب، زبان  کے تقاضے کے مطابق جملے کے ڈھانچے میں سے نکل سکتی ہے  جب وہ استعلاء کے طور پر اوپر سے نیچے کی طرف ہو  یعنی حقیقی طلب ہو، تو اس کو امر (حکم)کہا جاتا ہے ،اور یہی احکام شرعیہ کے استنباط کا محل ہے۔۔۔ اگر اس طرح نہ ہو جیسے استفہام (سوال)،التماس(درخواست)، تنبیہ(خبردار) اور جو اس کے ماتحت ہیں جیسے ترجی اور تمنی(امید/خواہش) وغیرہ، تو یہ احکام شرعیہ کے استنباط کا محل ہی نہیں کیونکہ ایسا ہونے کے لیے قرینے کی ضرورت ہے۔ اس سب کی تفصیل شخصیہ جزو تین میں کتاب اور سنت کی اقسام – امر اور نہی میں ہے۔۔۔

2۔ یہ تو لغت میں خبر اور انشاء کی اصل کے حوالے سے تھا۔۔۔مگر  قرینہ کے ذریعے خبر کو طلب کے لیے استعمال کرنا ممکن ہے اسی کو فقہ میں :' خبر بمعنی طلب ' کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال اللہ  تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا "اللہ کفار کو ایمان والوں پر کوئی اختیار نہیں دیتا"(النساء:141)۔

یہ لغت کے اعتبار سے خبر ہے  مگر یہ طلب کا فائدہ دیتی ہے  یعنی مسلمانوں کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ کافروں کو اپنے اوپر بالادستی دیں۔۔۔اسی طرح اوپر انشاء کا تذکرہ گزراہے جولغت میں اپنے اصل کے اعتبار سے انشاء ہے،  مگر یہ ممکن ہے کہ انشاء حقیقی طلب کا فائدہ نہ دے مثلاً: الا لیت الشباب یعود یوما "کاش کسی دن جوانی لوٹ آتی" یہ انشاء ہے مگر یہ حقیقی طلب کا فائدہ نہیں دیتی بلکہ یہ تمنی ہے۔

احکام شرعیہ  زیادہ تر  ان نصوص سے مستنبط کیے جاتے ہیں جو بطور انشاء ہوں اور  طلب کا فائدہ دیتے ہوں مثال کے طور پر اللہ کا فرمان، وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ "اور نماز قائم کرو"۔ اور کبھی کبھی اس خبر سے مستنبط کیے جاتے ہیں جو طلب کے معنی میں ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا" اللہ کفار کو ایمان والو پر کوئی اختیار نہیں دیتا"(النساء:141)۔

شخصیہ میں اسی معنی کا ذکر ہے:"۔۔۔پھر کتاب اور سنت دونوں کی تقسیم خبر اور انشاء میں ہوتی ہے مگر اصول کے استاد خبر پر نہیں انشاء پر ہی نظر رکھتے ہیں کیونکہ  زیادہ ترخبر میں حکم کا ثبوت نہیں ہو تا۔۔۔"۔

یہ ہے فرق خبر اور انشاء کے مابین۔۔۔اور احکام شرعیہ کا استنباط زیادہ تر انشائی نصوص سے ہو تا ہے جو حقیقی طلب کا فائدہ دیتے ہیں مگر کبھی کبھی خبری نصوص  سے بھی جب ایسا قرینہ موجود ہو کہ خبر طلب کے معنی میں ہے۔ یہ سب اس لیے کہ حکم شرعی کی تعریف یہ ہے کہ : " بندوں کے افعال سے متعلق شارع کا خطاب  بطور اقتضا یا وضع یا تخییر کے" یعنی یہ کسی بھی طرح بندوں سے مطالبہ ہے،  اس لیے اگر نص میں ایسی کوئی دلالت نہ ہو جو طلب کا فائدہ دیتی ہو جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیاہے  تو وہ نص حکم شرعی کے استنباط کا محل ہی نہیں ہو گی۔

3۔ رہی بات  طلاق اور ظہار کے بارے میں آپ کے سوال کی  کہ کیا یہ خبر کی قبیل سے ہے یا انشاء کی، تو اس کا بیان یوں ہے:

طلاق:
شخصیہ جزو تین صفحہ 161 میں آیا ہے کہ "عقود کے صیغے جیسے 'بعت' اسی طرح فسوخ جیسے' فسخت، اعتقت، طلقت' (میں نے ختم کیا،میں نے آزاد کیایا طلاق دی ) اور جو بھی ان جیسا ہے،لغت میں صرف خبر کے لیے ہیں۔ یعنی لغت میں اصلاً ہی  خبر دینے کے لیے ہیں انشاء کے لیے نہیں۔  شرع میں یہ خبرکے لیے استعمال ہو تے ہیں اور  اگر ان کو شرع میں ایسے حکم کو وجود میں لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو انشاء کے لیے منقول ہو تو انہیں انشاء کی جانب موڑ دیا جاتا ہے ناکہ خبر کی جانب"۔

کتاب الکوکب المنیر میں ہے کہ: "ہمارے مذہب اور اکثر علماء کے مذہب سے صحیح  کی دلیل: عقد اور فسخ کے صیغے  اور ان جیسے دوسرے  جن  کے معنی  ان کے لفظ کے وجود کے ساتھ ہو جیسے بعت(میں نے بیچا)، اشتریت(میں نے خریدا)، اعتقت(میں نے آزادکیا)،طلقت(میں نے طلاق دی/چھوڑ دیا)،فسخت(میں نے ختم کیا) وغیرہ  جو اس کے مشابہ ہیں  جن سے انشاء کے احکام نکلتے ہیں"

اس کے علاوہ کویتی فقہی انسائیکلو پیڈیا میں ہے: "فقہاء کی رائے یہ ہے کہ طلاق  میں  صریح الفاظ  کا مادہ'طلق' ہے یا جو لغت اور عرف کے لحاظ سے اس سے مشتق ہو مثلاً: طلقتنی(میں نے تمہیں طلاق دی) انت طالق، مطلقۃ(تمہیں طلاق ہوئی)"۔

اس کا معنی یہ ہے کہ عقود کے صیغے لغت کے لحاظ سےخبرہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی کپڑا فروخت کر رہا ہو  اور آپ آگے بڑھ کر اس سے کہتے ہیں، بکم ھذا الثوب؟(یہ کپڑا کتنے کا ہے؟) ۔ وہ کہتا ہے بیس روپے۔ آپ کہتے ہیں، میں نے یہ خرید لیا ۔ یہاں میں نے خرید لیا  فعل ماضی کا صیغہ ہے  جو کہ خبر کا فائدہ دیتا ہے  کہ خریداری ماضی میں مکمل ہوچکی ہے  حالانکہ یہاں عقد میں فی الحال انشاء ہے ماضی نہیں،  یعنی لفظ اشتریت  لغت میں  ماضی میں خریدنے کے بارے میں خبر ہے مگر یہاں عقد میں یہ حال کے بارے میں انشاء ہے۔ شخصیہ میں جو ہے اس کا یہی معنی ہے: "اگرشرع میں اسے حکم کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ انشاء کے لیے منقول ہوا" اور الکوکب المنیر میں جو آیا ہے اس کا معنی یہ ہے: "۔۔۔ عقد اور فسخ کے صیغے اور ان جیسے ۔۔۔ اُن میں سے ہیں جن سے احکام مستنبط کیا جاتا ہے جیسے انشاء "۔

سارے  عقود کے صیغوں کی یہی مثال ہے۔  مثال کے طور پر اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: "انی طلقتک" (یقیناً میں نے تمہیں طلاق دی)، تب یہاں لفظ طلقتک فعل ماضی ہے جو ماضی میں طلاق کی خبر دیتا ہے  یعنی لغت میں یہ خبر ہے مگر شرع میں جب طلاق کے حکم کو وجود میں لانے کے لیے  استعمال کیا جائے تو یہ انشاء کی طرف منتقل ہو گا۔۔۔

ب۔ ظہار(اسلام سے قبل طلاق دینے کا طریقہ جس میں بیوی سے یہ کہا جاتا تھا کہ تم میری ماں کی طرح ہو):

الکوکب المنیر کی شرح مختصر التحریر میں ہے کہ  ظہار کے خبر یا انشاء ہونے میں اختلاف ہےاور کہتا ہے کہ :" القرافی نے کہا : بعض دفعہ اس کے انشاء ہونے کا وہم کیا جاتا ہے مگر ایسا نہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ظہارکرنے والے کے جھوٹ کی طرف اپنے اس فرمان میں تین بار اشارہ فرمایا:

مَا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ إنْ أُمَّهَاتُهُمْ إلاَّ اللاَّئِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنْ الْقَوْلِ وَزُورًا وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

"وہ ان کی مائیں نہیں، ان کی مائیں تو وہ ہیں جن سے یہ پیدا ہوئے، یہ منکر اور جھوٹی بات کرتے ہیں اور اللہ ہی معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے"(المجادلہ:2)

کہا: یہ حرام ہے اور اس کے حرام ہونے کا سبب صرف جھوٹ ہو نا ہے۔۔۔ مگر برماوی نے کہا ہے: ظاہر  ایساانشاء ہے جواسکے برخلاف ہےکیونکہ بات کرنے والے کا مقصد  اس کے خبری معنی  کو انشاء  کی تحریم کے ذریعے متحقق کرنا ہے۔ اورتکذیب خبری معنی میں ہے نہ کہ  انشاء سے تحریم کا قصد کیا گیا ہے"۔

میں جس چیز کو ترجیح دیتا ہوں  وہ یہ کہ ظہار لغت میں خبر ہے اور یہی صحیح ہے مگر یہاں اس کا استعمال شرع میں ظہار کے حکم کو پیدا کرنے کے لیے ہے یوں یہ انشاء کی طرف منتقل ہوا۔ اس لیے ایک آدمی کا اپنی بیوی کو یہ کہنا کہ "انت علی کظہر امی"(تم میرے لئے میری ماں جیسی ہو) صیغہ کے پہلو سے خبر ہے مگر اس سے مقصود حکم  کا انشاء ہے یعنی  اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کا نہ کہ اس کے بارے میں خبر دینا ہے۔۔۔

امید ہے خبر اور انشاء کا موضوع واضح ہو گیا ہو گا۔۔۔

آپ کا بھائی

عطاء بن الخلیل ابو الرشتہ

12 رمضان 1437

17 جون 2016

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک