الجمعة، 08 ذو القعدة 1445| 2024/05/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: عدد میں مفہوم مخالفہ نمایاں

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب: عدد میں مفہوم مخالفہ

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ

مفہوم (مفہوم مخالفہ) میں عدد کے (مخالف)مفہوم ، جس پر عمل کیا جاتا ہے ،کے موضوع کو حکم شرعی میں بطور دلیل لیا جاتاہے، جس پر عمل شرائط کے ساتھ ثابت ہے: مخصوص عدد میں قید کی شرط اور  جو عدد  سے پہلےیا اس کے بعد کے ہرحکم کی نفی کرے جس کا لازمی عقل استدلال کرے، اور جو انسانی ذہن میں ابھرے۔ جیسے مثال کہ طور پر حدیث نبوی میں ہے: (إذا كنتم ثلاثة فأمرّوا أحدكم، أو واحد منكم) "جب تم تین ہو تو  اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر مقرر کرو"، اس حدیث کی وضاحت میں  عدد کےمفہوم مخالفہ پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی یعنی 'ایک پر'۔ جس کا معنی یہ ہوا کہ : ایک  سے زیادہ جائز نہیں۔ حدیث شریف کی نص میں  عدد(تین) بھی ہے  ،کیا اس پر عمل کیا جائے گا؟  یا یہ  بھی آنے والی مثال کی طرح ہے  جس پر عمل نہیں کیا جائے گا  نہ ہی اس کا مفہوم مخالفہ ہے  اور نہ ہی اس کے علاوہ کچھ ذہن میں ابھرتا ہے، مثلاً: "میرے جو دو پیسے تمہارے اوپر ہیں وہ مجھے واپس دو؟"  یعنی وہ رقم جو تم پر قرض ہے ،واپس کرو۔  یہ 'دو 'کو جماعت سمجھنے کے اعتبارسےہے۔۔۔

اللہ آپ کو ہماری اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے) ختم شدہ۔

ابو لوئی کی جانب سے

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ،

آپ کا سوال الشخصیۃ الاسلامیہ تیسرے جزو میں اس حدیث کے حوالے سے ہے جو عدد کے مفہوم میں مفہوم مخالفہ کے بارے میں بحث کے ضمن میں آئی ہے، الشخصیۃ میں یہ ہے:

 

"۔۔۔تاہم  یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ  عدد میں مفہوم مخالفہ پر عمل صرف  ایک ہی حالت میں کیا جائے گا،  وہ یہ کہ جب حکم مخصوص عدد کے ساتھ مقید ہواور عدد میں اس حکم کے ثبوت  اور اس کے سوا کی نفی پر دلالت پر کرتا ہو، یا  عدد میں اس حکم کی نفی  اور اس کے سوا میں ثبوت پر دلالت کرتا ہو، جو کہ کلام کے سیاق سے معلوم ہو  جیسا کہ مذکورہ خطاب میں ہے۔۔۔

 

 چنانچہ ہر وہ حکم جو مخصوص عدد سے مقید ہو اور  اس عدد میں اس حکم کے ثبوت اور اس کے سوا میں اس کی نفی پر دلالت کرتا ہو، یا  دلالت اس عدد میں نفی اور اس کے سوا میں ثبوت پر ہو،  جو کہ کلام کے سیاق سے ماخوذ ہو،  یعنی اس لفظ کو سنتے ہی ذہن اس طرف منتقل ہو تا ہو،  اس حالت میں عدد کا مفہوم پر عمل ہو گا۔

 اس کی مثال یہ حدیث ہے :

 

«إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ» "اگر تین آدمی  ایک ساتھ سفر میں ہوں تو ان کو اپنے میں سے ایک کو امیر  بنانا چاہیے"

اس کو ابو داوَد نے نقل کیا ہے۔ یہاں حکم  امیر بنا نے کا ہے، جس کو ایک مخصوص عدد سے مقید کیا گیا ہے جو کہ 'ایک'ہے۔  کلام کا سیاق اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ  اس سےمراد ایک شخص کو امیر بنا نا ہے ،دوکو نہیں۔ اس لیے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک سے زیادہ امیر بنانا جائز نہیں پس کلام کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حکم اس عدد سے مقید ہے،  اس لیے مفہوم مخالفہ پر عمل ہو گا۔۔۔

 

تاہم اگر کلام کا سیاق اس پر دلالت نہ کرتا ہو جیسا کہ کوئی شخص اپنے مقروض سے کہے: "میرے جو دو پیسے تمہارے اوپر ہیں وہ  مجھے دو" تب اس کا مفہوم مخالفہ نہیں ہو گا،  کیونکہ دو پیسے سے مراد حکم کو عدد میں مقید کرنا نہیں، بلکہ عدد کو مطلق رکھنا ہے کیونکہ  اس کا قرضہ سینکڑوں دینار بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کا یہ معنی ہے کہ عدد میں مفہوم مخالفہ پر عمل صرف دو شرائط کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے: ایک حکم کا عدد کے ساتھ مقید ہونا اور دوسرا  کلام کے سیاق غیر عدد کے حکم کی نفی کرنا"۔ ختم شد۔

 

آپ جانتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں لفظ "ایک"  میں عدد کے مفہوم پر عمل ہوتا ہے یعنی مفہوم مخالفہ، اسی حدیث میں آپ "تین" کے عدد کے بارے میں بھی پوچھ رہے ہیں کیا اس میں عدد کا مفہوم یعنی مفہوم مخالفہ پر عمل ہوتا ہے یا نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ  لفظ "تین"  کا ذکر اس حدیث  :

 

 

«إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ»

میں عدد کے مفہوم پر عمل  کے ساتھ ہے جیسا کہ لفظ"ایک" پر عمل ہو گا۔ کیونکہ لفظ "تین" بالکل لفظ "ایک" کی طرح قید ہے،  اس لیے مسافر اگر تین سے کم ہوں  یعنی دو ہوں تو ان پر  اپنے میں سے ایک کو  امیر مقرر کرنا واجب نہیں کیونکہ مفہوم مخالفہ پر عمل ہو گا چنانچہ اگر مسافر تین سے کم ہوں تو ایک کو امیر مقرر کرنا واجب نہیں۔۔۔

 

یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ : اسی طرح پھر اگر تین سے زیادہ بھی ہوں تو عدد میں مفہوم مخالفہ  پر عمل کرتے ہوئے ایک کو امیر مقرر کرنا واجب نہیں۔  جی ہاں یہ نہیں کہا جائے گا کیونکہ  تین سے زیادہ   'من بابِ الأولى' کی رو سے مفہوم موافقہ میں داخل ہے،  یعنی یہاں تنبیہ کم سے کم کے بارے میں ہے چنانچہ جب تین ہونے پر ایک کو امیر مقرر کرنا واجب ہے تو تین سے زیادہ ہونے پر ایک کو امیر مقرر کرنا بطریقہ اولیٰ واجب ٹھہرا۔۔۔یہ بات معلوم رہے کہ  مفہوم موافقہ ہی لفظ کے مدلول کا لازمی معنی ہے اس کو خطاب کا معنی اور مراد کہا جاتا ہے،  یہ جملے کی ترکیب سے معلوم ہو تا ہے،  یہ دلالت ِالتزام میں سے ہے کیونکہ  لفظ کو سنتے ہی ذہن اس کی طرف منتقل ہو تا ہے،  جس وقت یہ ذہنی التزام موجود ہو  تو عمل کسی اور پر نہیں اسی پر ہو گا۔ اس لیے تین سے زیادہ پر امیر مقرر کرنے کے حکم پر عمل مفہوم مخالفہ پر عمل کرتے ہوئے نہیں بلکہ مفہوم موافقہ کے مطابق ہے۔۔۔

یوں تین پر امیر مقرر کرنے کا حکم تین سے زیادہ پر بھی لا گو ہو تا ہے،  یہ اصول فقہ کے علماء کے ہاں معروف ہے۔۔۔

امیر مقرر کرنے کی احادیث کی تشریح کے ضمن میں نیل الاوَطار میں ہے کہ :

 

 "اس میں یہ دلیل ہے کہ عدد تین ہو یا اس سے زیادہ  تو ان میں سے ایک کو امیر  مقرر کرنا  شرعی تقاضاہے    کیونکہ اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اسی میں سلامتی ہے۔ امیر مقرر نہ کیے جانے کی صورت میں ہر ایک اپنی رائے پر قائم رہےگا اور اپنی خواہش پر عمل کرے گا اور سب ہلاک ہوں گے۔  امیر مقرر کرنے سے اختلاف ختم ہو گا  اور وحدت ہو گی۔ جب  کسی صحرا میں موجود  تین افراد  یا مسافروں کے بارے میں یہ حکم ہے تو  بطریقہ اولی کسی  بستی یا شہر میں موجود زیادہ لوگوں کے لیے امیر مقرر کرنا شرعی تقاضا ہے کیونکہ ان کو ایک دوسرے پر ظلم سے روکنے اور جھگڑوں کے تصفیہ کی زیادہ ضرورت ہے"

امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہے

 

7 شوال 1437ہجری

بمطابق12 جولائی2016  

Last modified onاتوار, 11 ستمبر 2016 04:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک