الخميس، 03 جمادى الثانية 1446| 2024/12/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

مسلم افواج کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں سے غداری

نصیر الاسلام محمود

جس وقت امت مسلمہ نے خواب غفلت سے بیدار ہو کرمغرب کی غلامی اور بالادستی سے آزادی کا مطالبہ کیا اس وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی افواج ان غیر شرعی حکومتوں کا دفاع کررہی ہیں جن کو کافر مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھا ہے۔مسلم افواج کو چاہیے تھا کہ موجودہ خودساختہ حکومتوں سے چھٹکارہ پانے کے ذریعے مغرب کی بالادستی سے آزادی اور ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جس کو اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ لیکن افواج نے انہی حکومتوں کا دفاع کیا حتٰی کہ ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر حکمرانوں کے حکم پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس سے ایسا لگا کہ مسلمانوں کی افواج بھی حق اور اپنی امت کے خلاف باطل کے دست وبازو بن گئے ہیں۔
امت کی جانب افواج کے اس المناک رویے کے کچھ اسباب ہیں اور ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے افواج نےان سرکش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ ان اسباب پر غور کرنے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دردناک صورت حا ل دائمی ہے یا عارضی کہ جس پر قابو پایا جاسکتا ہے خصوصاً اس وقت جب ریاست خلافت قائم ہوجائے گی جو انشاء اللہ اب بہت قریب ہے۔
مسلمانوں کی افواج کی جانب سے مغرب کی کٹھ پتلی حکومتوں، جو کہ کفر کے ذریعے حکومت کرتی ہیں، کا ساتھ دینے کےکئی اسباب ہیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
1۔ عسکری قیادت میں اعلی ترین عہدوں پر مغرب نوازوں کی موجود گی، جن کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اپنے تکبر اور بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لیےاپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذایہ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے اپنی فوجی غیرت سے دسبرتدار ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ میدان کارزار کے جرنیل نہیں بلکہ مال ودولت کے جرنیل ہیں۔ یہ قیادتیں مسلم افواج کی قیادت کے اہل نہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں امت کی رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے مغرب امت کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ خود ساختہ حکومتوں کی چوکیداری کرتے ہیں۔ یوں یہ قیادتیں مسلم علاقوں میں سرکشوں کے تخت و تاج اورخود ساختہ حکومتوں کی حفاظت کے لیے افواج کی قیادت کرتی ہیں۔حقیقی جنگوں میں افواج کی قیادت کرنے کی بجائے استعماری کافر کے مفادات کے لیے امت مسلمہ کے خلاف جنگ میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عراق کے خلاف جنگ میں مسلم افواج کا مغربی صلیبی اتحاد میں شامل ہو نا ہے۔اسی طرح ایک اور مثال پاکستانی فوج اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے فوجی یونٹوں کا افغانستان پر قبضے کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مدد کرنا ہے۔اگر یہ قیادتیں ان مسلم قیادتوں کی طرح ہوتیں جیسا کہ صحابہ، تابعین اور پھر اسلامی حکومت کے سائے میں تیرہ سو سالتک انکے نہج پر چلنے والے لوگ جن کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں، تو اس امت کو موجودہ کزتوری اور ذلت کا سامنا نہ ہوتا۔کہاں یہ موجودہ قائدین اورکہا ں محمدﷺ، اسلامی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف۔ بدر کے دن آپﷺ اپنے صحابہ کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے اور آپﷺ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس سے آپﷺ صفیں درست فرمارہے تھے، اس دوران سواد بن غزیۃ کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن النجار کے حلیف تھے ۔سواد بن غزیتہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے تیر سے ان کے پیٹ کو دبایا اور فرمایا: سواد قطار میں ہو جا ؤ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے تکلیف دی میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بدلہ لے لو۔ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے جب دبایا تھا تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بطن مبارک کو ظاہر کیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ ﷺ سےلپٹ گیا اور بطن مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سواد تم نے ایسا کیو ں کیا ؟ انہوں نے کہا: آپﷺ کو معلوم ہے کہ جنگ میں کود نا ہے اور ہو سکتا ہے کہ قتل ہوجاؤں تو میں نے چاہاکہ آپﷺ کے ساتھ آخری معاملہ میرا یہ ہو کہ میرا بدن آپﷺ کے بدن کو چھوئے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ ایک بار ایک مسلم کمانڈر جن کے سامنے لذیذ کھا نا لایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ سپاہیوں کو بھی یہی کھانا دیا گیا ہے۔ کہا گیا نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میرے لیے بھی وہی کھانا لاؤ جو عام سپاہیوں کے لیے ہے۔
2 ۔ مسلم افواج میں موجود فوجی نظریات اور قوائد کا اسلامی عقیدے سے الگ ہونا۔ اگرچہ عالم اسلام میں افواج کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہی ہے مگر ان افواج کا فوجی نظریہ اسلامی عقیدے سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم سپاہی وطنی چپقلش، نسلی تعصب یا کسی بھی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اپنے ہی ہم عقیدہ بھائی سے لڑتا ہے۔ وہ اسلامی عقیدہ جو ان کو یک جان کر تا تھا باہمی جنگوں اور لڑائیوں میں غیر مؤثر ہے۔ اسلامی عقیدے کی حمیّت عالم اسلام کی افواج میں موجود سپاہیوں پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سپاہی بشمول اپنے علاقے کے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے بہن بھائیوں کی آہ و بکا سن اور دیکھ کر بھی اس کو اپنے اس اسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتاجس کی بنیاد پر مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بے بس اور ستائے ہوئے مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں جیسا کہ شام کے مسلمان، برما کے مسلمان، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان اور افغانستان کے مسلمان لیکن مسلم افواج کے سپاہی اس کو اپنے عقیدے سے اس طرح مربوط نہیں کرتے جیسے وہ نمازاوربعض عبادات خصوصاً نوافل کو کرتے ہیں۔ اپنے مجبور بھائیوں کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے فریضے کواسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتے۔ وہ اگر چہ اللہ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے ہیں ...وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ... (اگر وہ دین کی بنیاد پر تم سے مدد مانگیں تو مدد تم پر لازم ہے)، مگر وہ اس آیت کو اپنے دینی بھائیوں کی مددکے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے مربوط نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر چہ ان کو اس خاتون کا قصہ یاد ہے جس نے "وامعتصماہ" یعنی "ہائے معتصم " کہہ کر مدد طلب کی تھی اور معتصم بھی اس کی مدد کےلیے نکل پڑا تھا اور اس کو اور اس کے ساتھ دوسرے خاندانوں کو آزاد کرالیا اور اس علاقے کو جس میں "انقرہ" بھی شامل تھا فتح کر لیا۔ مگر یہ اس قصے کو اپنے آباؤاجداد پر فخر کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے نہیں۔
اسلامی عقیدے کا مسلم افواج کے فوجی نظریے کی اساس ہونا لازمی ہے۔ اسلامی فوج کا نصب العین اسلامی عقیدے، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی حفاظت اور اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہےکیونکہ اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کی ہدایت ہے۔ کوئی بھی چیز جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے لیے خطرہ پیداکرے تو اسلامی افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے۔
3 ۔ مسلم افواج میں اسلامی ثقافت(اسلامی تربیت) کا فقدان بلکہ ان کی تربیت غیر اسلامی ثقافت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلم افواج کافر استعمار کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔مغرب اپنی ثقافت نافذکرنے کی شرط پر ہماری افواج کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔وہ ہماری افواج کو ایسے کورسز کرواتے ہیں جن میں کرپٹ مغربی آزادیوں کے تصور اور جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف لڑنے پر ان کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔یہ تربیت اس حد تک کی گئی کہ اب ہماری افواج اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے جنگ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ فوجی انٹلیجنس ایجنسیاں اسلامی شعائر کے پابند اور امت کے عروج کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہیں اور امت کے خلاف دشمن مغربی ممالک کی سازشوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے امریکہ خوش ہو جائے اور اس کے مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ اسی کو بنیاد بنا کر فوج نے یہ نظریہ اپنایا کہ دشمن اندرونی ہے جس کی تعریف امریکہ نے "سیاسی اور جہادی اسلام" کے طور پر کی ہے۔ انھوں نےامریکہ اور بھارت کودشمن نہیں سمجھا بلکہ سیاسی و جہادی اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دشمن قرار دیا۔ انھوں نے ان مجاہدین کو دبانا شروع کردیا جو خطے میں امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں اور یہ کہا کہ یہ لوگ "دہشت گرد" اور "قومی سلامتی" کے دشمن ہیں۔ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس نے فوج اور عام شہریوں میں موجود ان اسلام کے داعیوں کی جاسوسی کرنا شروع کردی جو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔
فوج کو لازمی بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ تعلیم وتر بیت فراہم ہونی چاہیے اور ان کی سوچ میں فکری بلندی کی سطح بھی ممکن حد تک اعلٰی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ فوج میں ہر شخص کی اسلامی تربیت بھی ہونی چاہیے جو انھیں اس قابل کرے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں تا کہ ایک سپاہی اپنے اصل دشمن کو جان سکے اور اسے شکست دینے کے لیے لڑے اور اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے اور رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق عمل کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ((كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ثَغْرَةٍ مِنْ ثُغَرِ الْإِسْلَامِ، اللهَ اللہَ لَا يُؤْتَى الْإِسْلَامُ مِنْ قِبَلِك)) "مسلمانوں میں سے ہر شخص اسلام کی چوکیوں میں سے ایک چوکی کا محافظ ہے، اسے اپنی چوکی سے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور اپنی چوکی پر شکست کو قبول نہیں کرنا ہے"۔
اس سب کچھ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا ان افواج سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
اس کا جواب ہے کہ یقیناً انہی سے امید بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر ان افواج نے امت مسلمہ کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا جس کی وجہ سے امت اپنے دشمنوں کے سامنے شرمندہ ہوئی مگر مسلم افواج میں مخلصین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو مناسب موقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی اجل اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امت کا عروج خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انہی فرزندوں پر موقوف ہے۔خالد نےبستر مرگ پر لیٹے ہوئے فرمایا تھا ((لقد شهدتُ مائة زحف أو زُهاءَها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربةٌ أو طعنة أو رَمْية، ثم هأنذا أموت على فراشي كما يموت العَيْر، فلا نامت أعين الجبناء)) "میں نے شہادت کی آرزو لیے سیکڑروں جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار، نیزے اور تیر کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی اب میری یہ حالت ہے کہ آج اونٹ کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ہمیشہ شرمندگی سے نم رہیں"۔یہ وہ سپاہی تھے جو واقعی اللہ کی تلوار کہلوانے کے حقدار تھے اوروہ تلوار اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف آخری دم تک حرکت میں رہی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی علاقوں میں فوجیوں کی بہت بڑی اکثریت صرف آرڈر(حکم) کی پابندی کر رہی ہے جبکہ ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس امت کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ان کو موجودہ ایجنٹ قیادتوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا تو وہ فوراً یہ کام کرگزریں گے ۔
یوں ان افواج سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہی کے اندر امت کے جواں مرد موجود ہیں۔ عنقریب امت اور اس کی افواج کافر مغرب سے چھٹکارا پالیں گی اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ)) "جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے"۔

Read more...

خلافتِ عثمانیہ کی فضائیہ

ڈاکٹر عبدلرافع، فواد سعید

رائٹ برادران کی اوہائیو (امریکا) میں پہلی کامیاب ہوائ جہاز کی پرواز کے صرف چھہ سال بعد ہی اسلامی ریاست (خلافتِ عثمانیہ) فوجی فزائی پروگرام کو شروع کرنے والی دنیا کی پہلی قوموں میں سے ایک بن گئی۔ مسلمانوں کا اس ٹیکنالوجی کو اپنانے میں یہ فوری قدم نہایت اثر انگیز لگتا ہے، دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ریاست کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤکے مقصد سے نئی نئی تکنیک اور ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی بنیاد خود رسول اللہﷺ نے رکھی۔
طبریؒ نے اپنی ‘تاریخ' میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے دو صحابہ، عروہ ابن مسعودؓ اور غطان ابن سلمہؓ، کو دبابس (ٹینک کی طرح کے ہتھیار)، منجنیق اور دھابور (ٹینک ہی سے ملتے جلتے) کی تکنیکی کاریگری کو سیکھنے کے لئے شام کے شہر جرش بھیجا تھا ۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت سے اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جیسے کہ فارس کے لوگوں کے انداز میں غزوہ میں خندق کا استعمال، یا پھر منجنیق کی تیاری اور اس کے استعمال کے فن کو سیکھنے کے لئے ایک گروہ کو یمن بھیجنا۔ اسلامی ریاست رسول اللہﷺ کی سنت پر اس وقت بھی عمل کرتی رہی جب وہ ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کر رہی تھی۔ اور جب توانائی کی پرواز اور فضائی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی پروان چڑھی تو اسلامی ریاست نے ان ٹیکنالوجیوں کو اپنے استعمال کے لئے حاصل کرنے کے لئے کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔
فضائیہ کی تاریخ کسی اور سائنس یا ٹیکنالوجی کی تاریخ سے مختلف نہیں ۔ فضائیہ میں یہ ترقی پہلی توانائی کی پرواز سے صرف چند سال پہلے ہی نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے جس میں چھوٹی چھوٹی پیشرفت میں بھی صدیاں بیت گئیں۔ کئی قدیم تہذیبوں نے پروجکٹائل ہتھیار تیار کئے اور اور انسان کی پرواز کے لئے طرح طرح کے آلات اور ڈزائن تیار کئے، جن میں سے بہت سےتجربے ناکام ہوئے لیکن کچھ کامیاب بھی رہے۔ ان میں قدیم یونان سے آرقائیتص کا مکانیکی کبوتر، چین سے آسمانی قندیل (گرم ہوائی غبارے) اور پہلا راکٹ ہتھیار جو چینیوں نے منگولوں کے خلاف استعمال کیا، جیسی مثالیں شامل ہیں۔ گیارہویں صدی ہجری کے تاریخ دان احمد محمد المقاری لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری میں عباس ابن فرناس پہلے شخص تھے جنہوں نےاپنے ڈزائن کئے ہوئے ونگ کونٹریپشن (پر نما آلے کے نظام) کے ذریعے سے گلائڈنگ ونگ (ہوا کے بہاؤ میں پروں کی) پرواز میں کامیابی حاصل کی۔
فضائیہ کے جدید دور کو صنعتی انقلاب کی آمد کے ساتھ مذید رہنمائی حاصل ہوئی۔ توانائی کی پرواز میں بڑی پیشرفت انیسویں صدی میں یورپ میں ہوئی جس کے نتیجے میں توانائی کی پروازوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ رائٹ برادران نے اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے ہم عصر لوگوں کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے، توانائی اور کنٹرول کے مسائل کو حل کیا اور ۱۹۰۳ میں اپنی تاریخی پرواز کی۔ اس کے بہت جلد بعد ہی انگلنڈ، فرانس، امریکہ، جرمنی، روس اور اٹلی نے اپنے فوجی فضائیہ کے پروگرام شروع کئے اور اسلامی ریاست نے بھی ان کی برابری کرتے ہوئے اپنا فضائیہ کا پروگرام ‘عثمانلی ہوا کووتلری' شروع کیا۔
اسلامی ریاست کے یورپ میں موجود فوجی سفارتکاروں نے یورپ میں ہونے والی فوجی ہوائی جہازوں کی تیاری کے کام کی معلومات حاصل کی اور بہت جلد ۱۹۰۹ میں خلافت عثمانیہ کے فوجی افسروں نے فرانسیسی ہوا بازوں کو استنبول میں کارکردگی دکھانے کی دعوت دی۔ جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ کی دعوت پر بلجیم کے پائلٹ بیرن ڈی کیٹرز نے استنبول آکر اپنے وائسن بائی پلین (دوہیرے پروں والے جہاز) کی نمائشی پرواز کی۔ اس مظاہرے کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریا ست میں ملٹری ایوییشن (فوجی ہوابازی) کے بارے میں آگاہی اور شوق پیدا ہوا۔ عہدیداروں نے پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی ایوییشن کانفرنس میں ایک ڈیلیگیشن بھیجا۔ ۱۹۱۰ میں مسلمان اُمیدواروں کو پائلٹ کی ٹریننگ کے لئے یورپ بھیجا گیا، لیکن ریاست میں مالی مشکلات کی بنا پر اس پلان کو ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے باوجود کچھ پائلٹوں نے پیرس کے فزائی اسکولوں میں ٹریننگ حاصل کر کے اپنی فضائی سندیں حاصل کیں۔
عثمانی خلافت کے فوجی عہدیدار یورپ کی قوموں کے درمیاں بڑھتی ہوئی ہتھیاروں کی دوڑ اور مستقبل کی جنگی حکمت عملی میں فضائیہ کی اہمیت سے بھرپور واقفیت رکھتے تھے۔ کسی اچانک حملے یا پھر دوسری قوموں سے پیچھے رہ جانے سے بچنے کے لئے، جنگی وزیر محمت سِوکت پاشہ نے لفٹنٹ کرنل صوریا بےکو ۱۹۱۱ میں ہوائی غباروں کی خریداری، ایوییشن کی فسیلیٹی کی تعمیرکی قیادت اور پائلٹوں کی ٹریننگ کے انتظام کی زمہ داری دی۔ جنگی وزارت کے سائنسی ریسرچ یونٹ کے زیرِ اثر ایوییشن کمیشن کو قائم کیا گیا۔ محمت سِوکت پاشہ کی جانب سے دی گئی زمہ داریوں کے علاوہ اس کمیشن کو جاسوسی اور سٹریٹجک معلومات اکٹھا کرنے کا کام بھی دیا گیا۔ نا صرف ہوائی جہازوں نہیں بلکہ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کے بارے میں بھی معلومات کو حاصل کیا گیا۔ جو کہ آنے والی اٹلی کے ساتھ جنگ میں بہت موئثر ثابت ہوئی۔
۱۹۱۱ میں اٹلی نے اسلامی ریاست کے کچھ حصے پر قبضہ کیا جو آج کے دور میں لیبیا کہلاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کی ناتجربے کار فضائیہ ہوائی جہازوں کو رکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔ فرانس سے ان ہوائی جہازوں کو خرید کر الجزائر کے زریعے میدان جنگ میں بھیجنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ ۲۸ ہوائی جہازوں اور ۴ ہوائی غباروں کے ساتھ اٹلی دینا کی پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں فضائیہ کا استعمال کیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں میں ترقی کی وجہ سے اسلامی ریاست تاریخ کی وہ پہلی قوم بنی جس نے جنگ میں اینٹی ایرکرافٹ (جہاز مار گرانے والے) ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ مسلمانوں کی فوج نے کامیابی کے ساتھ اٹلی کے ہوائی غباروں اور دوسرے ہوائی جہازوں کو مار گرایا اور ان میں سے کچھ پر قبضہ بھی کر لیا۔
۱۹۱۲ میں اسلامی ریاست کے پہلے پائلٹوں کپتان فیسا بے اور لفٹننٹ یوسف کننان بے اپنی ٹریننگ مکمل کر کے فرانس سے واپس ہوئے۔ انہیں رعایاکے دئے ہوئے فنڈ سے خریدے گئے ۱۵ ہوائی جہازوں میں سے ۲ دئے گئے۔ ۲۷ اپریل، ۱۹۱۲ کو فیسا بے اور یوسف کننان بے نے استنبول کے اوپر ہوائ جہازوں کو اُڑا کر اسلامی سرزمین پرجہاز اُڑانے والے پہلے مسلمان پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد، جولائی ۱۹۱۲ میں استنبول کے قریب یسِلکوئے نامی قصبے میں ایک فضائی ٹریننگ اسکول کھولا گیا تاکہ اسلامی ریاست خود اپنے پائلٹوں کو ٹریننگ دے سکے۔ یہ اسلامی ریاست کا ایک بہت اہم قدم تھا کہ جس نے دوسرے ملکوں پر انحصاری کو ختم کیا۔ جلد ہی پائلٹوں کی تعداد ۱۸ اور ہوائی جہازوں کی تعداد ۱۷ ہو گئی۔ جس کو جلد ہی اس وقت آزمالیاگیا جب بلقان کے نیم خودمختار علاقوں نے عثمانی خلافت سے بغاوت کی اور اسلامی ریاست کے خلاف علانِ جنگ کیا۔ اس تنازع کی ابتدا میں تو فضائیہ نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن جنگ کے دوسرے مرحلے میں ۹ جنگی ہوائی جہازوں اور ۴ ٹریننگ ہوائی جہازوں نے اہم کارکردگی دکھائی۔
اپنی فضائیہ کی دلیری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اور ریاست کے شہریوں میں جزبہ پیدا کرنے کے لئے خلافتِ عثمانیہ کے فوجی افسروں نے کئی طویل فاصلے والی پروازوں کا اہتمام کیا۔ اس سے فضائیہ کی طویل پروازوں کی کارکردگی میں اور پوری ریاست کی وسعت تک حفاظت کی صلاحیت میں بہتری پیدا ہوئی ۔ پہلی طویل پرواز عدرین سے استنبول تک اُڑائی گئی، جس میں ۳ گھنٹوں سے زیادہ وقت لگا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۱۳ کو بلقیس سِوکت حنیم پرواز اُڑانے والی پہلی مسلمان خاتون بنیں۔ فرانسیسی پائلٹوں کو ملنے والی پزیرائی کے جواب میں، جنہوں نے پیرس سے قاہرہ تک پرواز کی، اسلامی ریاست نے ۱۹۱۴ میں استنبول سے اسکندریہ تک ۱۵۰۰ میل کے فاصلے کو طے کرنے کے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ٹیکنالوجی کے ان اوائلی ادوار میں موجود ایوییشن کے خطرات کی وجہ سے ایسے دو معرکوں کا نتیجہ جہازوں کی تباہی کی شکل میں نکلا لیکن تیسرا معرکہ کامیاب رہا۔
جب عثمانی خلافت پہلی جنگِ عظیم کی لپیٹ میں آئی تو اُس کے پاس صرف ۷ ہوائی جہاز اور ۱۰ پائلٹ تھے۔ اس کے وزیروں کی ثابت قدمی اور جانفشانی کی وجہ سے اور اس کے نئے حلیف، جرمنی کی مدد سے، فضائیہ ۴۶ پائلٹوں، ۵۹ اوبزرور (مشاہدین)، ۳ اوبزرور غباروں، ۹۲ ہوائی جہازوں (جن میں ۱۴ سمندری ہوائی جہاز) اور اس کے علاوہ، ۱۳ بیک اپ پائلٹ، ۲۲ اوبزرور ٹرینیز اور ۲۱ ٹریننگ ہوائی جہازوں تک بڑہ گئی۔ جیسے جیسےجنگ آگے بڑہی، مسلمانون نےبرتانوی ہوائی جہازوں کو پکڑ کر اِس تعداد کو مزید بڑھانے کی کوشش کی۔ فضائیہ اس بات کی واضح دلیل ہے کے اسلامی ریاست اپنے آخری دنوں میں بھی دنیا کے حالات اور ترقی سے کس حد تک آگاہ رہی۔
یہ ہے وہ داستان جو اسلامی ریاست نے دنیا کے مسلمانوں کے لئے چھوڑی۔ وہ اسلام اور مسلمانوں سے مخلص رہی اور اُس نے مسلمانوں کی زندگیوں کا اوراُنکے مفاد کا تحفظ کیا۔ تُرکی کی موجودہ سیکیولر ریاست، اسلامی ریاست کی فضائیہ کی براہِ راست وارث ہے، جو اسے دنیا کی قدیم ترین فضائیہ میں سے ایک بناتی ہے۔ کیا کرتی ہے یہ ترکی حکومت جب پڑوس میں شام، عراق، لبنان اور فلسطین کے مسلمانوں کو قتل کیا جا تا ہے؟ کیا کرتی ہیں دوسرے مسلمان ممالک کی کٹپتلی حکومتیں جب مسلمانوں پر اُنکے اپنے علاقوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور انہیں قتل کیا جاتا ہے؟ کتنے پیچھے ہیں مسلمان اسلامی ریاست کی غیرموجودگی میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی، سب مرین ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور دوسری ٹیکنالوجیوں میں، جو کہ مسلمانوں کے دفاع کے لئے اتنی اہم ہیں؟ صرف وہ ریاست ہی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہ ہو سکتی ہے اور اس کے وسائل کو انکی حفاظت اور بہتری کے لئے استعمال کر سکتی ہے جس کی قیادت ایک مخلص مسلمان کر رہا ہو، یعنی خلیفہ ۔ اور یہ صرف اور صرف اسلامی ریاست کے از سرِنو قیام کے زریعے ہی ممکن ہے۔

Read more...

جبری گمشدہ افراد کی عدم بازیابی نے اس کفریہ نظام میں آزاد عدلیہ کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے


تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:17دسمبر2013
خبر: نومبر کا آخری ہفتہ اور دسمبر کے پہلے دس دن پاکستان کے میڈیا میں جبری گمشدہ افراد کا تذکرہ چھایا رہاجن کے عزیز و اقارب اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا ذمہ دار حکومتی ایجنسیوں کو ٹھراتے ہیں۔ ان جبری گمشدہ افراد میں سے کئی کو اغوا ہوئے تقریباً ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے، جبکہ ان میں کچھ افراد کی لاشیں ویران جگہوں سے ملیں جن پر شدید تشدد کے نشانات واضح تھے۔

تبصرہ: پاکستان میں جبری گمشدہ افراد کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت پیدا ہوا جب 9/11 کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کی ایک توانا آواز،پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی ان جبری گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ نوید بٹ کو 11مئی 2012 کو ان کے بچوں کی موجودگی میں حکومتی ایجنسی کے غنڈوں نے اغوا کیا تھا۔
یہ ظلم اور ناانصافی مشرف و عزیز حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ کیانی و زرداری حکومت میں اس ظلم میں مزید کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ اس عرصے میں ایک وزیر اعظم اپنی وزارت اعظمٰی سے صرف اس لیے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ اس نے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا۔لیکن اس عظیم انسانی المیے پر آج کے دن تک آئی۔ایس۔آئی (I.S.I)کے سربراہ یا ملٹری انٹیلی جنس (M.I)کے سربراہ یا افواج پاکستان کے سربراہ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری نہیں ہوا جبکہ کئی مقدمات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جبری گمشدہ افراد خفیہ ایجنسیوں کے قبضے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے وکیل نے کہا کہ "یہ ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ اب بھی آزاد نہیں ہے" ۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر نے کہا کہ "یہ محض ایک دھوکہ ہے"۔
چاہے آمریت ہو یا جمہوریت یہ کفریہ نظام صرف استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل اس کفریہ نظام میں "آزاد عدلیہ" نہیں ہے ۔ جب یہ سرمایہ دارانہ نظام ہمیں خارجی تعلقات، معیشت اور دیگر معاملات میں آزادانہ پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا تو کیا ہم اس غلامانہ نظام کے ذریعے آزاد عدلیہ کے قیام کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟ کیانی و زرداری حکومت سے راحیل و نواز حکومت تک، چہروں کی تبدیلی کبھی کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی۔ دراصل اس کفریہ نظام کا خاتمہ ہی وقت کی ضرورت ہے۔
آزاد عدلیہ کے قیام کے لیے پہلے آزاد سیاسی نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو کہ صرف خلافت کا نظام ہے۔یہ نظام عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے اثرو رسوخ سے آزاد کرتا ہے کیونکہ عدلیہ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرتی ہے اور ہر حکومتی عہدیدار چاہے وہ خلیفہ ہو یا امیر جہاد یا والی، کسی صورت عدلیہ کے سامنے پیش ہونے یا ان کے فیصلوں کو نافذ کرنے سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا خلافت میں عدلیہ عام عوام کے حقوق کی حقیقی ضامن ہوتی ہے اور اگر حکمران شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کریں تو ان کا سخت احتساب کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا " تم سے پہلے کے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بڑا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر سزا لاگو کردیتے۔ اللہ کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا" (بخاری)۔

Read more...

خود احتسابی (قرآن ،سنت اور علماءکے فرمودات کے آئینے میں)

قرآن کریم کی رُو سے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تَعْمَلُونَ "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو" (الحشر 59 : 18)۔ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرما تے ہیں کہ (ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دیکھ لے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے ) یعنی "حساب کتاب کے لیے جانے سے قبل ہی اپنا محاسبہ کرو اور سوچ لو کہ تم نے آخرت کے دن اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کے دن کے لیے کون کونسے نیک اعمال کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے تمام اعمال اور احوال سے باخبر ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں"۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ "اور میں ملامت کرنے والےنفس کی قسم کھاتا ہو" (القیامہ75 : 2)۔ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "اور ملامت کرنے والےنفس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اس کو ملامت کرتا رہتاہے ، کہتاہے کہ اس سے تیرا ارادہ کیا ہے؟ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کوستا ہے، ابن عباس، مجاہد اور حسن وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے"۔ حسن کہتے ہیں کہ "اللہ کی قسم اس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ میں اپنی بات میں کیا کہنا چاہتا تھا ؟میں کیا کھانے کا ارادہ رکھتا تھا ؟ اور میں اپنے آپ سے بات کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا ؟ اور فاجر (کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والا) اپنا محاسبہ نہیں کرتا"۔مجاہد کہتے ہے کہ "وہ گزرے ہوئے پر ملامت کرتاہے اور کوئی شر ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کا ارتکاب کیوں کیا اور اگر خیر کا کام ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کو زیادہ کیوں نہیں کیا؟ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملامت والاہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جس چیز پر کسی کو ملامت کرتاہے اسی پر اپنے آپ کو بھی ملامت کرتاہے ۔ ان تمام صورتوں میں "لَوَّامَةِ" کا مطلب ملامت کر نے والاہے جو کہ اچھی صفت ہے"۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ "اس دن انسان کو بتایا جا ئے گا کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیابلکہ انسان اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہے" ( القیامہ 75 : 13-14)۔ اس کی تفسیر میں ماوردی فرماتے ہیں کہ "اس میں تین تاویلات ہیں: ایک یہ کہ وہ جو کچھ آگے بھیج رہا ہے اس کے ذریعے اپنے آپ کے خلاف گواہ ہے،جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں، وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا " اور انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگا دی ہے اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کُھلا ہوا پائے گا۔ فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال آج پڑھ لو تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے" (الاسراء 17 : 13-14) دوسری تاویل یہ ہے کہ: اس کے جوارح (اعضاء) اپنے اعمال کے بارے میں اس کے خلاف گواہ ہیں۔ ابن عباس کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ "آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے ہم کلام ہوں گے اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے" (یٰس 36 : 65) تیسری تاویل یہ ہے کہ لوگوں کے عیبوں کو خوب باریکی سے دیکھنے والا جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے عیوب سے غافل ہے کہ اس کے نتیجے میں کیا سزا اور جزاء ملنے والی ہے۔ بصیرہ کے آخر میں"ہ" مبالغے کے لیے ہے ۔ جہاں تک اللہ کے اس فرما ن کا تعلق ہے وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ "اگرچہ وہ عذر پیش کرتا ہے" ( القیامہ 75 : 15)۔ اس میں بھی چار تاویلات ہیں: ایک یہ کہ اگر اس دن معذرت بھی کرے تو قبول نہیں کی جائے گی اور یہ قتادہ کا قول ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے بھی اتاردے اوریہ ابن عباس کا قول ہے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ وہ اپنی حجت کو سامنے بھی لائے اوریہ السدی کا قول ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ اپنا ستر اتار پھینکےکہ یمن کی لغت میں عذربھی ستر کو کہتے ہیں یعنی اگرچہ وہ اپنے عذر بھی پیش کرے اوریہ ضحاک کا قول ہے اور ایک پانچواں احتمال بھی ہے کہ اگر وہ معذرت چھوڑ بھی دے اور سرتسلیم خم بھی کردے اس کو نہیں چھوڑا جائے گا"۔
سنت نبوی ﷺ سے:
نبی ﷺ نے بھی اس ملامت کرنے والےنفس کی طرف اشارہ فرمایا جو مؤمن کانفس ہےاور اس کو ہمیشہ ملامت کرتارہتاہے۔چنانچہ اس حدیث میں فرمایا جس کو ترمذی اور احمد نے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے: امام احمد نے اپنی مسند میں اور الحاکم نے اپنی مستدرک علی الصحیحین میں النواس بن سمعان الکلابی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال دی ہے کہ راستے کے دونو ں پہلو میں دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں اور ان دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے آخر میں ایک منادی ہے جو کہتا ہے کہ: 'سیدھی راہ پر قائم رہو اور بھٹک مت جانا'۔ راستے کے اوپر بھی ایک پکارنے والا ہے جب بھی انسان کوئی دروازہ کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ: 'تیرا ستیناس ہو ! اس کو کبھی بھی مت کھولو کیونکہ اگر تو اس کو کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا' لہٰذا اس مثال میں یہ راستہ اسلام اور یہ دودیواریں اللہ عزوجل کی حدود ہیں اور یہ دروازے اللہ کی حرام کی ہوئی چیز یں ہیں، راستہ میں منادی کرنے والا اللہ کی کتا ب اور راستے کے اوپر پکارنے والا ہر مسلمان کانفس ہے"۔
ایک حدیث میں جو انس بن مالک نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الكيّس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنَّى على الله الأمانيّ» "ہوشیار آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے، بے بس شخص وہ ہے جس کا نفس اس کی خواہشات کے تابع ہو اور وہ اللہ سے طرح طرح کی تمنائیں کرے" اس کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إذا أراد الله بعبد خيراً جعل له واعظاً من نفسه يأمره وينهاه» " جس وقت اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے اندر ہی اس کے لیے ایک واعظ مقرر فرماتے ہیں جو اسے حکم دیتا ہے(نیک اعمال کا) اور روک دیتا ہے (نافرمانی سے)" السیوطی نے الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
سلف صالحین اور علماء کے نزدیک محاسبہ کا مطلب:
نفس کے محاسبے کا معنی اس کو کوسنے اور شدت سے نگرانی کرنے کے ہیں۔
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جو اللہ کے لیے اپنے نفس پر سختی کرے اللہ اپنی سختی (غصے) سے اس کو محفوظ رکھے گا"۔
امام احمد نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "آدمی اس وقت تک فقیہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ کے معاملے میں لوگوں سے سختی سے پیش آنے کے بعد اپنے آپ سے اس سے بھی زیادہ سختی سے پیش نہ آئے"۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں نفس کے محاسبے کا مطلب بندے کا یہ سمجھنا کہ اس کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے اور اپنے حق کو لے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے کیونکہ وہ ایک ایسے سفر میں ہے جہاں سے مسافر کبھی واپس نہیں آتا۔ اور وہ مزید کہتے ہیں کہ نفس یہ ہے کہ بندہ پہلے یہ دیکھے کہ آیا اس نے اللہ کا حق ادا کیا پھر دیکھے کہ کیا اس نے یہ حق کما حقہٗ ادا کیا ۔اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی نفس کا محاسبہ ہے کہ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے ۔ وہ ان کی ادائگیی میں سستی کرنے یا چھوڑدینےکی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضائع ہو جائیں۔ اس کے علاوہ نفس کی پاکی اور طہارت بھی خود احتسابی پر موقوف ہے اور خود احتسابی کے بغیر وہ نہ پاک صاف ہو سکتا اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو گی۔
محاسبے کے بارے میں ماوردی کہتے ہیں کہ "انسان رات کو اپنے دن بھر کے اعمال پر غور کرے اگر اچھے ہوں تو اس کو جاری رکھے اور اگر برے ہوں تو باز آئے اور مستقبل میں اس کا تدارک کرے"۔
حارث المحاسبی نے خود احتسابی کی تعریف یوں کی ہےکہ"کہ ہر حال میں کوئی بھی فعل انجام دینے یا اس کو ترک کرنے سےاس کا ضمیر مطمئن ہو یا کسی بھی فعل کے جوارح کو ادا کرنے میں مکمل یکسوئی کا مظاہرہ کرنا تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کام سے اللہ ناراض ہو گا تو اس کام کو دل اور جوارح سے ترک کردے اور اسی طرح اپنے آپ کو فرض کو ترک کرنے سے باز رکھے بلکہ اس کی ادائیگی میں جلدی کرے"۔
سعید بن جبیر اور عکرمہ نے نفس لوامہ کے بارے میں کہا ہے کہ "یعنی وہ خیر اور شر دونوں پر ملامت کر تاہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اچھے اور بُرے وقت میں صبر کرتا ہے۔
قتادہ نے کہا ہے کہ الَوَّامَة سے مراد فاجرہ (سیدھی راہ پر نہ چلنا) ہے جبکہ مجاہد کہتا ہے کہ وہ چھوٹ جانے والے فرض پر نادم ہو تا ہے اور کہتاہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا ۔
الفراء کہتے ہیں کہ "کوئی نفس نیک یا فاجر نہیں ہوتا وہ تو اپنے آپ کو خیر کے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ زیادہ کیوں نہیں کیا اور برے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ کاش میں یہ نہ کرتا"۔الحسن کہتے ہیں کہ "یہ مؤمن نفس ہے اور مومن اپنے آپ کو ملامت کرتاہے کہ میں نے اپنی بات سے کیا ارادہ کیا اوراپنے کام سے کیا ارادہ کیا جبکہ فاجر آگے بڑھتا ہی جاتا ہے اور اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتا ہے"۔مقاتل کہتے ہیں کہ "اس سے مراد کافر نفس ہے جو قیامت کے دن دنیا میں اللہ کے معاملے میں نا انصافی پر اپنے آپ کو ملامت کرے گا"۔
یحیی بن مختا رنےالحسن سے روایت کی ہے کہ "مؤمن اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کا احتساب کرتا ہے۔جو لوگ دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں قیامت کے دن اس سے حساب ہلکا لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں خود احتسابی نہیں کرتے اس سے سخت حساب لیا جائے گا۔مؤمن کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور اس کے دل کو بھاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تو میری خواہش ہے اور میری ضرورت بھی ہے لیکن اللہ کی قسم مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں میرے اور تمہارے درمیان بہت دوری ہے۔ اور جب اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں تو یہ نہیں چاہ رہاتھا ؟یہ کیا ہو گیا؟اللہ کی قسم آئندہ ایسا نہیں کروں گا ان شاء اللہ۔ مؤمنین ایسے لوگ ہیں جن کو قر آن پر بھروسہ ہے اور وہی ان کے اور ان کی ہلاکت کے درمیان حائل ہے۔ مؤمن دنیا میں ایک قیدی ہے جو اپنی گردن کو چھوڑانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ وہ اللہ سے ملنے تک کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو گا۔ اس کو معلوم ہے کہ اس کے کان، آنکھ، زبان اور جوارح کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا"۔
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ "کوئی آدمی اس وقت تک متقین میں سے نہیں ہو سکتا جب تک اپنے شریک سے زیادہ اپنا محاسبہ نہیں کرتا ہو، جب تک وہ یہ نہیں دیکھے کہ اس کا کھاناکہاں سے آتا ہے، لباس کہاں سے آرہا ہے، کہاں سے پی رہا ہے یہ سب حلال ہیں یا حرام"۔
ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا اور کہا کہ "تم یونس بن عبید ہو؟ کہا جی ہاں، اس نے کہا: اللہ کا شکر ہے تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے موت نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہا: جو چاہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا ۔ اس شخص نے کہا کہ زہد کی غایت کے بارے میں بھی مجھے بتادو؟ کہا: راحت کو ترک کرنا"۔
حسن بن علی الدقاق نے کہا ہے کہ " اطاعت کی بنیاد پرہیز گاری ہے اور پرہیز گاری کی بنیاد تقوی ہے اور اصل تقوی نفس کا محاسبہ ہے اور محاسبہ بھی خوف اور امید کے ساتھ کیونکہ خوف اور امید معرفت ہے اور معرفت کی اصل علم کی زبان اور فکر ہے"۔
الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ "اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضاہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے"۔
میمون بن مہران نے کہا ہے کہ "کوئی بھی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اپنے نفس کااس قدرسخت محاسبہ نہ کر ے جو دو شراکت دار ایک دوسرے کا کرتے ہیں اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ نفس خیانت کرنے والے شریک کی طرح ہے، اگر اس کا محاسبہ نہیں کرو گے تو یہ سب کچھ لے اڑے گا"۔
ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ "یاد رکھو تمہارا سب سے بڑ دشمن تمہارا اپنانفس ہےاس کی تخلیق ہی برائی کا حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔تمہیں اس کو سدھارنے اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے حکم دیا گیا ہے ۔تم اس کو اپنے رب کی عبادت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گاجس پر تم پھر قابو نہیں پاسکو گے۔ اگر اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں پابندی کرو گے تو امید ہے مطمئن رہو گے اور اس یاد دہانی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ مت کرو"۔

Read more...

شہداء کے سردار

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺپر ایمان لانے والو!
رسول اللہﷺنے فرمایا
«سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى إمام جائر فنصحه فقتله»

''شہداء کے سردار حمزہ ہیں، اور وہ شخص جس نے جابر حکمران کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے صحیح نصیحت کی اور اُسے قتل کر دیا گیا'' (الحاکم)
آج کے جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والو!
ہمارے آقا، رسول اللہﷺنے جابر حکمران کا محاسبہ کرنے والے کو شہداء کے سردار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شیر، محمدﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ سے متشابہہ بیان کیا۔ تو آخر یہ حمزہ کون ہیں جن کی صف میں ہم کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ یہ وہ حمزہ ہیں جنہوں نے قریش میں اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے، مشکل ترین وقت میں مسلمانوں کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اپنے رتبے کی وجہ سے، مختلف قبائل کے لوگوں کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنے۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد اُس پر اس مضبوطی سے جم گئے کہ کفار نے غزوہ احد میں ایک غلام وحشی کو آزادی کے بدلے اس ہدف پر معمور کیاکہ وہ حمزہ کوقتل کرے گا۔ یہ وہی حمزہ ہیں کہ جب اُحد کے دن رسول اللہﷺنے اُن کے جسدِخاکی کو دیکھا تو فرمایا ''میں نے اپنی زندگی میں اتنا شدید نقصان نہیں اُٹھایا جتنا آج اور مجھے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا جتنا آج ۔۔اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے قریش پر غلبہ عطا کیا تو میں اُن کے 30لوگوں کا مثلہ کروں گا''۔اور رسول اللہﷺکی طرف سے شہداء کے سردار حمزہ کے بارے میں انہی الفاظ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (•) وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (•) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللَّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (•)
ترجمہ: ''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقینا آپﷺ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے۔اوراگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہواور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لیے یہی بہتر ہے۔ آپ صبر کریں، بغیر توفیق الہٰی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور جو مکروفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں '' (النحل: 125 - 127)۔
یقینا یہ اُمت اپنے شہداء پر غمگین نہیں ہوتی، اور نہ ہی اُن کی گنتی کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے اور اُن کے چہرے اُس دن خوشی سے روشن ہونگے جس دن تمام انسان شدید خوف کی حالت میں اپنے فیصلے کا انتظار کر رہے ہونگے۔ یہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں شہداء کا مقام۔ تو پھر سیدالشہداء کی تو کیا ہی شان ہوگی؟
سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والو!
جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا رستہ رسول اللہﷺکا رستہ ہے۔یہ وہ افضل ترین عبادت ہے کہ جس میں نہ جسم تھکتے ہیں اورنہ ذہن اور قلوب اُس اجر عظیم کی تمنارکھتے ہیں جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔حکمران کا محاسبہ کرنا فرض ہے اور یقینا حکمران ہی المعروف کی بنیاد ہے اگر وہ عادل ہو، اور وہی منکر کی جڑ ہے اگر وہ ظالم ہو۔ امرباالمعروف ونہی عن المنکر کرنا اور ظالم کے ہاتھ کو روکنا، یہ وہ عمل ہے کہ جس کی شریعت میں بہت تعریف کی گئی ہے اور اس کے ترک کرنے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ''اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرورامرباالمعروف ونہی عن المنکر کرو ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا ،پھر تم اُس سے دعائیں کرو گے اور وہ اُنہیں قبول نہیں کرے گا'' (جامع الترمذی)
اور رسول اللہﷺنے فرمایا ''نہیں !اللہ کی قسم !تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑو اور اسے حق پر قائم رکھو۔ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے قلوب کو آپس میں ٹکرائے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسے بنی اسرائیل پر کی''
سیدالشہداء کے راستے پر چلنے والو!
جابر حکمرانوں کے محاسبے کے راستے پر چلتے ہوئے، مسلمان کسی قسم کے نقصان پر خوفزدہ نہیں ہوتا، جو ظالموں کی طرف سے تنگ کرنے،قیدوبند کرنے،تشدد کرنے اور کبھی شہید کر دینے کی حد تک بھی ہوتا ہے جیسا کہ آج ہم پوری مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔مسلمانوں میں نہ تو اپنے پیاروں کا ساتھ چھُٹ جانے کا خوف ہوتا ہے، نہ ہی اُن کا نفقہ ختم ہو جانے کا اور نہ ہی جان چلے جانے کا (جو اہل وعیال کے ساتھ اور اُن کے نفقے کی بنیاد ہے)۔کیونکہ وہ شخص جو سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونا چاہتاہے، وہ اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھتا ہے :
فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي
۔ '' پس، اُن سے مت ڈرو،صرف مجھ سے ڈرو '' (البقرہ: 150)
اور وہ قریش کی جارحیت پر رسول اللہﷺکے اس جواب کو بھی یاد رکھتا ہے ''اللہ کی قسم !میں اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھوں گا جس کے لیے اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔تاوقتیکہ یہ دین غالب آجائے یا میری گردن اُڑا دی جائے''
وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ بہترین رزق وہ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت میں مؤمنین کے لیے عطا کر رکھا ہے۔ اور بہترین صحبت اُن لوگوں کی ہے جو اس جنت کے سب سے اُونچے درجے میں ہیں۔وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ اس دنیا میں محبت رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کے درجے کو اُن لوگوں تک بلند کر دے گا تاکہ اُسے اپنے محبوب لوگوں کا ساتھ نصیب ہو۔ یہ ایمان اُس میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ زیادہ جدوجہد کرے، زیادہ قربانی دے، جنت الفردوس کی تمنا رکھے، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں بہترین رزق اور بہترین صحبت حاصل کرے اور اُس کا حشر اُن لوگوں کے ساتھ ہوجن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ انشاء اللہ۔
تو پھر آخر کیوں ایک مسلمان کے دل میں اس عارضی دنیا میں مال اور اہل وعیال کے نقصان کا خوف ہو؟ یہ ہے وہ عزم جو ہمارے گھر والوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور پریشانی کے وقت اُنہیں مضبوط رکھتا ہے۔ یہ ہے وہ عزم جو اُس تحریک کی آنکھوں میں نظر آتا ہے اور جوش وولولے میں محسوس کیا جاتا ہے جو کفروباطل کو مٹا ڈالنے کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ ہے وہ عزم کہ جسے دیکھ کر داعی کے گھر والے اُسے کہتے ہیں ''اگر تم ظالموں کے آگے کانپ گئے یا کمزور پڑے،تو تمہیں واپسی پر خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ شہادت تک ثابت قدم رہنا اور ہم مل کر جنت میں خوشیاں منائیں گے''
سیدالشہداء کے راستے پر دوڑنے کی تمنا رکھنے والو!
آئیں اس راستے پر مضبوطی سے قدم رکھیں۔ آئیں کہ ایک قدم بھی ہم کمزور مت پڑیں، نہ ہی ظالموں کے خوف کی وجہ سے اور نہ ہی اپنے پیاروں کی محبت کی وجہ سے۔ آئیں آگے بڑھیں، اُس اجر پر یقین رکھتے ہوئے جو ہم اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے اکھٹا کریں گے۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اُمت کی پُر عزم جدوجہد کے سامنے جابر حکمران کمزور پڑ رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس دعا کے ساتھ کہ بہت جلد ہم کفر کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے آغاز پر خوشیاں منائیں۔ ہماری زندگی سرداروں کی طرح گزرے اور ہماری موت شہداء کی طرح ہو۔ آمین۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (•) فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (•)
''جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہر گزمردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس روزیاں دیے جاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے '' (آلِ عمران: 169 - 170)۔

Read more...

امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کا انعقاد چاہتا ہے

تحریر: شہزاد شیخ

(پاکستان میں حزب التحریرکے ڈپٹی ترجمان)

تاریخ:18نومبر2013

 

خبر: بروز جمعہ یکم نومبر 2013 کو امریکہ نے تحریک پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا۔ اس واقع پر حکومت پاکستان نے شدید احتجاج کیا اور پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس عمل کو خطے کے امن پر ڈرون حملہ قرار دیا اور امریکہ سے پاکستان کے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور اس مسئلے پر حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔

 

تبصرہ: حکومت پاکستان کا بظاہر اس ڈرون حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرنا اور پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے امریکہ سے اس واقع پر شدید احتجاج کرنا شاید لوگوں کے لیے باعث حیرت اور خوشی کا باعث ہو کہ آخر کار ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال آہی گیا اور اب ہمارے حکمران اس امریکی جنگ سے نکلنے کے لیے سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں نے امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دینے کی بات اس وقت کرنا شروع کی جب امریکہ نے 2014 میں افغانستان سے محدود انخلاء کے نام پر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا اور اس مقصد کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی ایجنٹوں کا پاکستان کے قبائلی مسلمانوں سے مذاکرات کا فیصلہ قطعی اپنا ہوتا تو امن کے لیے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان امریکہ کے افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کے اعلان سے قبل کیوں نہ کیا گیا؟

درحقیقت امریکہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ 2014 کے بعد افغانستان کو چلانے کے لیے جو نظام دینا چاہتا ہے جب تک ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب بسنے والے مسلمان پشتون اس کی حمائت نہ کریں ،کسی صورت چل ہی نہیں سکتا۔لہٰذا امریکہ محدود انخلاء کے پردے میں افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں افغانستان کے مسلمان پشتونوں کو مذاکرات کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے وہیں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں اپنے ایجنٹوں کو اس نے پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کو بھی اس امریکی بندوبست پر قائل کرنے کے لیے مذاکرات کی اجازت دی ہے۔

لیکن امریکہ اپنے ایجنٹوں کی غداری کو چھپانے اور ان کے جھوٹے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے بظاہر پاکستان میں مذاکرات کی مخالفت کررہا ہے تا کہ مسلمان یہ دھوکہ کھا جائیں کہ امریکہ تو مذاکرات کا مخالف ہے اور اب ہمارے حکمران بھی اس کے احکامات کو ماننے سے انکار کررہے ہیں لہٰذا ہمیں ان مذاکرات کی حمائت کرنی چاہیے تا کہ امریکی منصوبے کو ناکام کیا جائے۔ یہ ایک ڈبل گیم ہے جو امریکہ خطے کے مسلمانوں کے ساتھ کھیل رہا ہے تا کہ خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ اور اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔

پاکستان اور افغانستان میں کسی صورت امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک خطے میں امریکہ کی موجودگی کی تمام اشکال کا خاتمہ نہ کردیا جائے چاہے وہ سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی بندش ہو یا امریکی فوجیوں، انٹیلی جنس اداروں ، نجی سکیورٹی اداروں اور سفارت کاروں کو خطے سے نکال دینا ہو۔ اور یہ صرف خلیفہ راشد ہی کرسکتا ہے جو مسلمانوں کو ، ان کی افواج کو اور ان کے تمام وسائل کو ایک خلافت کے سائے میں یکجا کرے گا ۔ لہٰذا خطے کے مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کے قیام کی زبردست جدوجہد کرنی چاہیے۔

 

Read more...

تفسیر سورہ البقرہ آیات 92 تا 96

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ2)9(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمْ الدَّارُ الآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ )94(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (95) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَأَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96)
"اور موسیٰؑ تمھارے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے، پھر بھی تم نے اس کے بعد (کوہِ طور پر جانے کے بعد) بچھڑے کو اپنا رب بنالیا اور تم ہی ظالم تھے(92)۔ اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمھارے اوپر طور کو بلند کیا اور کہا کہ جو شے ہم نے تمھیں دی ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور حکم سنو!،تو لوگوں نے نے کہا ہم نے سنا مگر نہیں مانتے۔ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) مں وہی بچھڑا پو ست ہوگاکتھا،ان کے کفرکی وجہ سے، آپ کہہ دیجئےکہیہ افعال توبہت برے ہںک ، جن کی تعلمم تمھارا ایمان تم کوکررہاہے، اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو! (93)۔آپ کہہ دیجئے اگر اللہ کے ہاں آخرت کا گھر لوگوں کی بجائے صرف تمھارے لیے ہی ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو(94)۔ لیکن وہ اس کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے کبھی اس کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے(95)۔اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں(96)۔
عطاء بن خلیل ابوالرَّشتہ( امیرحزب التحریر ) اپنی تفسیر(التیسیرفی اصول التفسیر)میں مذکورہ بالاآیات شریفہ کی تفسیرکے تحت فرماتے ہیں:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان آیات میں بتلایاہے کہ:
1۔ اللہ جلّ شانہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوبنی اسرائیل کی طرف قطعی دلائل اوراس کی نبوت ورسالت کی تائید کرنے والے معجزات دے کربھیجا،یہ معجزات وہ9نشانیاں تھیں جن کاذکردوسری جگہ کیا گیا ہے، وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ "ہم نے موسی ٰ علیہ السلام کو نوواضح نشانیاں عطاکی تھیں" (الاسراء / آیت/101)۔ وہ عصا(لاٹھی) جواژدہاکی صورت اختیارکرلیتی،اوریدبیضایعنی ہاتھ جس کووہ نکال دیتےتو چمکتا دمکتادکھائی دیتا،دریائےقلزم کاپھٹ جانااوراس کاایک خشک راستے میں تبدیل ہوجانا،ٹڈیاں ، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ کی صورت میں نازل کی گئی نشانیاں وغیرہ جیسے معجزات جوموسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی قطعی ہونے کےدلائل تھے۔مگر بنی اسرائیل نے جبکہ موسی ٰ علیہ السلام اپنے رب کے ساتھ ملاقات کے لئے کوہ طورپرگئے، ایک بچھڑے کی پرستش شروع کی اوراس کواپنامعبود بنالیا۔اس فعل شنیع کی وجہ سے وہ ظالم ٹھہرے،کیونکہ ان کایہ فعل بے جاتھاکہ ایک بچھڑے کوجو عبادت کے قابل نہیں تھا،اپناخد اتصورکرکے اس کی عبادت کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کویوں فرمایاہے کہ(ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ)....
اس آیت میں(ثُمَّ)کاکلمہ تراخی (تاخیر) کیلئے ہے، یعنی انہوں نے ان نشانیوںکااچھی طرح مشاہدہ کرلینے کے کافی عرصہ بعد یہ حرام حرکت کی۔ان کے پاس نشانیاں پہنچیں،انہیں بغور دیکھااورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی پراس کی قطعی دلالت کاانہیں پتہ چلا۔اس سب کے باوجود انہوں نے ایک بچھڑے کومعبود بنالیا۔اس طرح ان کے کردارپرمشتمل یہ تاریخی حقائق ان کیلئے سرزنش اورملامت ومذمت کے آئینہ دارہیں۔

2۔ پھراللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کوان سے لئے گئے میثاق اورعہد وپیمان اورکوہ طورکاان کے اوپرلاکھڑکرنےکی یاددہانی کراتے ہیں ،اوران کویہ بھی یاددلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوتورات کے اندردئے ہوئے احکامات پرسختی سے عمل پیراہونے کاحکم دیاتھا،جیساکہ اس سے پہلے اسی طرح کی ایک آیت،(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) البقرۃ / (63) گزری ہے کی تفسیرمیں ہم نے بیان کیا.مذکورۃ الصدرآیت میں اسی واقعہ طور کاذکرہے،البتہایک نیامعنی سمجھانے کیلئے اس آیت کو مکررلایاگیا،یعنی یہ کہ اللہ کاامرسننے کی قیمت اس وقت ہوتی ہے،جب اس کاسنناامرالٰہی پرجوں کے توں عمل کی نیت سے ہو۔بالفاظِ دیگرحکم کوتسلیم کرنے اوراس کی پیروی کی نیت سے سناجائے ،ورنہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے (وَاسْمَعُوا ) "سنو" لیکن اُن کاجواب تھا(سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا)"ہم نے سنااورنافرمانی کی" ۔جواب پرغورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ(وَاسْمَعُوا) "سن لو"کاجوحکم دیاگیا،یہ ماننے اورطاعت وقبول کے حکم پربھی مشملم تھا(محض سننے کا حکم ان کونہیں دیاگیاتھا) اگرچہ الفاظ میں اس کاذکرنہیں اوربسااوقات سننے سے مراد مان لیناہوتاہے ۔جیساکہ ہم نماز میں کہتے ہیں: سمع اللہ لمن حمدہ( حمد کرنے والے کواللہ تعالیٰ سنتے ہیں)۔
(وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93("ان کے قلوب ( کے ریشے ریشے ) میں وہی بچھڑا پیوست ہوگیاتھا،ان کے کفرکی وجہ سے،آپ کہہ دیجئےکہ یہ افعال توبہت برے ہیں ،جن کی تعلیم تمھاراایمان تم کوکررہاہے،اگرتم (بزعم خود) اہل ایمان ہو"۔
آیت کے شروع میں واؤ حالیہ (حالت بتانے کیلئے) ہے،مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسی حالت میں عَصَینَاکہاجب کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی،اوران کایہ قول کہ (سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا) ان کے کفرکے سبب تھا،اس لئے فرمایا(بِكُفْرِهِمْ)" ان کے کفرکے سبب"۔
پھراللہ تعالیٰ آیت کااختتام یہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ یہ لوگ دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیںکیونکہ ایمان کفرکی ضد ہے ،توایمان بچھڑے کوالٰہ بنانے کاحکم دیتا، نہ ہی اس کاکہ اس بچھڑے کیمحبت بطور ایک معبودکے دل نشین ہوجائے ،اوراس کی محبت کی وجہ سے اللہ، جوکہ معبودحقیقی اور خالق ہے،کی بات سننے اوراس پر عمل کرنے سے روکاجائے،(ایمان کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتا)۔
یہاں ایمان کی طرف حکم دینے کی نسبت اورایمان کاان کی طرف نسبت جواللہ تعالیٰ کے اس قول میں ذکرہے(قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ )93(یہ مذاق اُڑانے کیلئے ہے اورایک قسم کی پھبتی کسی گئی ہے۔ جیسے دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے قوم شعیب کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایاہے(اَصَلَوٰتُکَ تَامُرُکَ)(ھود/ آیت /87)"کیاتیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے"اس لئے اللہ تعالیٰ کے اس قول (قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ) کامطلب یوں بنتاہے کہ تم جواپنے آپ کومؤمن کہتے ہو،ایمان توتم نے ایک بچھڑے پرلایاہے ،جسے تم نے معبودبنایااوراس کی محبت تمہارے دلوں میں گھرکرچکی وغیرہ توایساایمان بہت براایمان ہے،یہ وہ ایمان نہیں جس کامطالبہ ربّ العالمین کرتاہے،بلکہ یہ توخالص کفرہے۔
3۔ پھرآیت نمبر 94 میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے اس جھوٹے دعوے کوبیان کرتاہے کہ جنت تو ہماری ہے،اس کاذکرسورہ بقرہ کی آیت نمبر/ 111میں اس طرح کیا گیا ہے(وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى) "یہ (یہود ونصاریٰ )کہتے ہیں کہ جنت میں ان کے سواکوئی اورہرگزداخل نہیں ہوسکتا"(البقرۃ /آیۃ 111)۔ یہ ان کاایک خودساختہ دعوٰی تھا۔اس کی قلعی کھُلنے کیلئے ان پرحجت قائم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ اگروہ واقعی اپنے اس دعوے میں سچے ہیں توانہیں چاہئے کہ وہ موت یعنی اللہ تعالیٰ سے ملنے کی تمناکرکے دکھادیں۔سو اگر یہ لوگ واقعی میں اللہ کے محبوب اورپسندیدہ ہوں،جیساکہ اس آیت میں ان کے اس خیال باطل کاذکرکیاگیاہے(وَقَالَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ)"یہود اورنصاریٰ (دونوں فریق )یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں" تواس تحدّی (چیلنج)کے بعدوہ اپنی صداقت کوثابت کرنے کیلئے فوراً موت کی تمنا کریں گے،ورنہ ان کاجھوٹاہوناثابت ہوجائے گا۔اوریہی ہوا،کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اس قسم کی کوئی تمناکرنے کی ہمتنہیں کی،کیونکہ ان لوگوں نے جوکفراورشرکے اعمال کئے ہیں،ان کابخوبی علم ہےجس کے ہوتے ہوئے وہ اللہ کاسامناکرنے سے ڈرتے ہیں۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں(وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ)(95("یہ لوگ ہرگز کبھی اس (موت) کی تمنانہ کریں گے،بوجہ (سزاکے خوف کے ) ان اعمال(کفریہ ) کاجواپنے ہاتھوں سمیٹتے ہیں"۔
یہ ان دلائل میں سے ہےجو قطعی ہوتےہیں اورجس کواللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کے زمانے کےیہود ونصاریٰ کے خلاف پیش کیا ہے،کیونکہ اگروہ اس دعوے میں کہ جنت ان کیلئے مخصوص ہے،حق پر ہوں،توپھرانہیں موت کی تمناکرنی چاہئے ،یہ بات یہودکی نسبت سے ہے اوراگرنصاریٰ حق پرہیں ،جیساکہ ان کاعیسی ٰ علیہ السلام کے بارے میں خیال تھاکہ وہ اللہ کابندہ نہیں ،بلکہ وہ خود الٰہ ہے توپھرآئیں اورمباہلہ کریں،اس کاذکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 میں ہے ،ارشادہے (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ "آپ یوں فرمادیجئے کہ آجاؤ ہم (اورتم) بلاکرجمع کرلیں اپنے بیٹوں کواورتمھارے بیٹوں کواوراپنی عورتوں کواورتمہاری عورتوں کواورخود اپنے تنوں کواورتمہارے تنوںکوپھرہم (سب مل کر) خوب دل سے دعاء کریں اس طورپرکہ اللہ کی لعنت بھیجیں،ان پرجو(اس بحث میں ) ناحق پرہوں "(آل عمران: 61 )۔لیکن عہد رسالت میں ان دونوں فریقوں نے یہ نہیں کیا۔نہ تویہودی اب تک موت کی تمناکرسکے اورنہ نصاریٰ نجران نے مباہلہ کی چیلنج کوقبول کیا۔ یہی ان پرقطعی حجت ہے اگروہ عقل رکھتے ہیں۔ امام احمد ؒنے یہ حدیث نقل کی ہے اورتفسیر طبری میں بھی مذکورہے ، لوان الیہود تمنواالموت لماتواولراوا مقاعدھم من النار،ولوخرج الذین یباھلون رسول اللہ ﷺ لرجعوالایجدون اھلاًولامالاً "اگریہود موت کی تمناکرتے تووہ مرجاتے اورجہنم میں اپنے ٹھکانے ان کونظر آتےاوراگررسول اللہﷺ کے ساتھ مباہلہ کرنے والے باہرآتے تواس حال میں لوٹتے کہ اپنا کوئی مال اوراہل وعیال نہ پاتے۔" (تفسیرطبری 1/424،مسندِاحمد 1/148)

4۔ یہود اپنی تعفن زدہ حقیقت کے نتیجے میں اپنے کالےانجام کاسامناکرنے کی وجہ سے موت سے خائف ہیں ،اس وجہ سے وہ تمام لوگوں سے زیادہ اس حیات دنیوی سے شدید محبت کرتےہیں،بلکہ مشرکین سے بھی بڑھ کرزیادہ محبت کرتے ہیں،جن کادنیاوی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی پر ایمان نہیں ۔توان مشرکین کی تمام تر محبت اس زندگی کے ساتھ اس لئے ہے کہ ان کاکسی دوسری زندگی کاعقیدہ ہی نہیں لیکن اس کے باوجود یہود ان مشرکین سے بھی زیادہ دنیاکی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ ٖآخری آیت میں ان کی اس حالت کابیان ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنْ الَّذِينَ اَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِأَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96) "اور آپ ضرور انہیں لوگوں سے زیادہ زندگی کا حریص پائیں گے،مشرکوں سے بھی زیادہ۔ ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ کاش !وہ ہزار سال کی عمر پائے!مگر عمر پانا انھیں عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو وہ کرتے ہیں"
تواس آیت میں جس زندگی کاذکرہے اس سے مطلق زندگی مراد ہے ،یعنی کوئی بھی زندگی۔لیکن آیت کے اس دوسرے ٹکڑے کےمفہوم کےذریعے اس کی مطلقیت کومقید کیاگیا( يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ )یعنی لمبی عمر ۔
اس آیت میں ( أَحَدُهُمْ ) کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹانابھی جائز ہے ،اور معنی اس طرح ہوگاکہ یہود ان مشرکین سے بھی بڑھ کرزندگی کے حریص ہیں جن میں ایک ایک آدمی ہزارسالہ زندگی کی خواہش کرتاہے کیونکہ یہ مشرکین تودنیاکی زندگی کے علاوہ کسی دوسری زندگی کوجانتے تک نہیں ،اس لئے وہ اس زندگی میں ممکن حد تک عرصہ دراز تک زندہ رہناچاہتے ہیں۔ اوراس میں یہ بھی ممکن ہے کہ ضمیریہود کی طرف لوٹے ،پھر معنی کچھ یوں بنتاہے کہ ان میں سے ہرایک طویل زندگی کاخواہشمند ہوتاہے ۔یہی راجح ہے اوراس کاقرینہ اللہ تعالیٰ کایہ قول ہے(وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ)ٖ ۔پس مشرکین کااس بات پرایمان نہیں کہ آخرت بھی ہوگی توان کاعذاب سے خائف ہونابھی متصور نہیں۔جہاں تک یہود کی بات ہے توانہیں توآخرت اوروہاں کے عذاب کایقین ہے۔ عذاب کایقین اس لئے ہے کہ اپنے بداعمال کاانہیں احساس ہے ،تووہ کبھی بھی موت کوپسند نہیں کریں گے،تاکہ حتی الامکان عذاب سے بچ سکے۔تو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ خواہ ان کی عمریں کتنی لمبی ہوجائیں ،ہزارسال یااس سے بھی زیادہ،عذاب بہرحال انہیں آپکڑےگا،کیونکہ آخرکار انہوں نے مرکر اپنے رب کے پاس لوٹنا ہے۔

Read more...

معاشرے میں زنا بالجبرکی بیماری جنسی آزادی کی لبرل سوچ کا منطقی نتیجہ ہے


اس سال ستمبر میں لاہور کی پانچ سالہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر اور پھر اس کو ایک ہسپتال کے باہر پھینک دینے کے واقع نے پاکستان اور پوری دنیا کو لرزا دیا۔ اس بھیانک واقع کو چند روز ہی گزرے تھے کہ فیصل آباد میں ایک چھوٹی بچی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کالج کی ایک طالبہ زنا بالجبر کا شکار ہوں گئیں۔ حالیہ چند سالوں میں پاکستان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات نے ملکی میڈیا کی کی شہ سرخیاں بنیںاور میڈیا نے پاکستان میں ان بڑھتے ہوئے گھناؤنے واقعات کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس جرم میں ملوث افراد کا تعلق معاشرے کے کسی مخصوص طبقے سے نہیں تھا بلکہ وہ مختلف پس منظر رکھتے تھے۔اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم(NGO) "ساحل" کے مطابق 2012 میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے 3861مقدمات ریکارڈ کیے گئے جوکہ 2011 کے مقابلے میں 17فیصد زائد ہیں۔صرف اس سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے لاہور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 113 واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ لیکن اس مسئلہ کی شدت ان اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس جرم کے حوالے سے معاشرے میں موجود شرم،مجرم کی جانب سے مزید حملے کے خوف اور پولیس کا اس جرم کے شکار مظلوموں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کی وجہ سے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس جرم کے واقعات اکثر منظر عام پر لائے ہی نہیں جاتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان واقعات کو پولیس کے پاس مقدمات کی صورت میں درج نہ کروانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین اور ان کے اہل خانہ اس قانونی نظام پر اعتماد کھو چکے ہیں جو انصاف کی فراہمی میں انتہائی تاخیر کرتا ہےجہاں ان مقدمات میں سزاؤں کا تناسب انتہائی کم ہے اور پولیس اور عدلیہ میں موجود کرپشن کی بنا پر اکثر ملزمان رہا ہوجاتے ہیں۔
ان واقعات کے خلاف ملکی سطح پر غم و غصہ صرف اس جرم میں ملوث لوگوں کے خلاف ہی نہیں کہ انھیں سخت ترین سزا دی جائے بلکہ عوام کا غصہ پولیس، سیاست دانوں اور اس نظام کے خلاف بھی ہے جو اس مسئلہ سے نمٹنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں۔ لوگوں کا غم و غصہ اس لیے بھی سیاست دانوں کے خلاف شدید ہے کیونکہ عورتوں اور بچوں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ان کاتساہل پر مبنی رویہ انتہائی شرمناک اور مجرمانہ ہے۔
جنسی جرائم میں اس قدر اضافے کا شکار صرف پاکستان ہی نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی بھارت پچھلے سال دسمبر میں دہلی کی ایک بس میں 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ ہونے والے زنا بالجبر اور اس کے قتل کے خلاف عوامی غم و غصہ سے گونج اٹھاتھا ۔ اس واقع کے بعد بھی زنا بالجبر کے کئی ایک ایسے واقعات ہوئے کہ جس نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی ان واقعات کو اپنی خبروں میں نمایاں جگہ دینے پر مجبور کردیا کیونکہ یہ بات اس لحاظ سے انتہائی اہم تھی کہ یہ مجرمانہ حملے ایک وبا کی طرح اس ملک میں ہورہے تھے جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت بھی ہے۔بھارت میں حالیہ سالوں میں اس قسم کے مجرمانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ جرم بھارت میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا جرم بن چکا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق بھارت میں ہر بیس منٹ میں ایک خاتون زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے اور ٹائمز آف انڈیا کے مطابق پچھلے چالیس سالوں میں بھارت میں اس جرم میں 792فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان گھناؤنے جرائم کے خلاف ایک بار پھرعوامی غم و غصہ کا نشانہ پولیس اور سیاست دان بنے کیونکہ انھوں نے اس جرم سے متعلق غفلت کا مظاہرہ کیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی تیزی نہیں دِکھائی۔ برطانیہ میں پچھلے ایک سال کے دوران میڈیا میں شوبز کی مشہور و معروف شخصیات کے ہاتھوں بچوں اور چھوٹی بچیوں کو جنسی لذت کے حصول کا ذریعہبنانے اور ملک کے کئی شہروں میں قحبہ خانوں کو چلانے والے گروہوں کی خبریں گردش میں رہی ہیں۔ بچوں کی حفاظت کی ایک تنظیم، NSPCCکے مطابق برطانیہ میں بالغ نوجوانوں کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے کہ جو اپنے پچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے جبکہ برطانیہ کے محکمہء صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ہر دس منٹ میں ایک عورت یا تو جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے یا اس پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں امراض کو قابو اور اس کے بچاؤ سے متعلق ادارےCenters for Disease Control and Preventionکے مطابق امریکہ میں ہر پانچ میں سے ایک عورت زنا بالجبر یا جنسی حملے کا شکار ہوئی ہے۔ یہ تمام اعدادوشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سیکولر لبرل ممالک میں جنسی حملے ایک عام جرم ہے۔
ان ممالک نے اس غلیظ اور گھناؤنے جرم کے خلاف ہونے والے عوامی ردعمل کے نتیجے میں محض چند نئی پالیسیاں اور قوانین بنائے جن میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں بھی شامل ہیں۔ حکومتوں کا اس قسم کا فوری ردعمل اس مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے ان کی سُست روی کے خلاف عوامی ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اس بات کو جانتے بوجھتے نظر انداز کردیتے ہیں کہ اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے مشرق و مغرب میں کی جانے والی کوششیں، جن میں سخت سزائیں بھی شامل ہیں ، اس مسئلے کو حل کرنا تو دور کی بات ، اس کی شدت میں کمی لانے میں بھی ناکام رہیں ہیں۔
ایک چیز جو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ لبرل اور سرمایہ دارانہ اقدار اور اس نظام کے متعلق سوالات اٹھائیں جائیں جو اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک میں رائج ہیں۔ زنابالجبر کا عام ہونا، پولیس کا اس کے متعلق بے فکری کا رویہ اور حکومتوں کا اس مسئلہ پر لاپرواہی پر مبنی رویہ دراصل معاشرے کو منظم طریقے سے ایسا بنا دینا ہے جہاں جنسی لذت کا حصول زندگی کے اہم ترین مقاصد میں سےایک ہوتا ہے اور لبرل اقدار مثلاًشخصی آزادی اور جنسی آزادی جس کے نتیجے میں عورت کے وقار اور عزت کو خاک میں ملا دیا جاتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام محض معاشی فوائد کے لیے اس کو فروغ دیتا ہے۔ان تمام چیزوں نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس نے مردوں کی نگاہ میں عورت کی عزت و مقام کو پامال کردیا ہے اور ان کی سوچ کو گندا اور غلیظ کردیا ہے جو انھیں ایسے خوفناک جرائم کی جانب مائل کرتا ہے اور پولیس، عدلیہ اورحکمرانوں کی نظر میں اس جرم کی سنگینی کو کم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اس جرم کو معمول کے کسی بھی دوسرے جرم کی طرح ہی دیکھتے ہیں اور یہ تمام باتیں بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔
لبرل آزادیاں افراد کو اس بات کی جانب راغب کرتی ہیں کہ وہ اپنی جنسی تسکین کو پورا کرنے کے لیے کسی سے بھی، کسی بھی طریقے سے تعلق قائم کرسکتے ہیں جس کو وہ اپنے لیے مناسب سمجھتے ہوں۔ یہ لبرل اقدار اشتہارات، فیشن، فحش مواد، موسیقی، ٹی وی اور فلمی صنعت کے ذریعے خصوصاً بولی وڈ اور لولی وڈ ثقافت کے ذریعےمعاشرے میں عام کی جاتی ہیں جو پاکستان اور دیگر سرمایہ دارانہ آزاد(لبرل) ممالک میں دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔ اس قسم کی صنعتیں اور ثقافت معاشرے پر مسلسل فحاشی کی بمباری کرتے ہیں اور جنسی جذبات کو مشتعل کرنے والی خواتین کی تصاویر اور کہانیوں کے ذریعے ایک فرد کے جنسی جذبات کو مسلسل مشتعل کیا جاتا ہے۔ خواتین کو مسلسل ایک شے، ایک چیز کے طور پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد مردوں کی خواہشات اور جذبات کو ہی پورا کرنا ہے اور اس طرح منظم طریقے سے معاشرے میں عورت کے مقام کو پست تر کردیا جاتا ہے۔ ڈرامہ، فلم اور فحش مواد کی صنعت مردوں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کو دِکھاتے ہیں جس سے دیکھنے والوں کی نظر میں اس شرمناک تشدد کا احساس ہی باقی نہیں رہتا۔اس کے ساتھ ساتھ شادی کے بندھن سے باہر مرد و عورت کے جسمانی تعلق کو ایک عام حقیقت قرار دیا جاتا ہے بلکہ اسے خوش نما عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی تہذیب پیدا ہوتی ہے جس میں مردو عورت کا تعلق محض ایک جنسی تعلق بن کر رہا جاتا ہے۔
یہ اسی خطرناک ماحول کا نتیجہ ہے کہ بہت سے مرد یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ سزا سے بچ نکلیں گے،اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں چاہے بچوں، بچیوں اور خواتین کو اس شرمناک حرکت کا نشانہ ہی کیوں نہ بنانا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول نے نہ صرف اس جرم کے مرتکب افراد کی نظروں میں عورتوں اور بچے بچیوں کی حرمت کو گھٹا دیا ہے بلکہ اُن لوگوں کی نگاہ میں بھی یہ کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہوتا جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد یعنی بچوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کریں اور اسی وجہ سے ہم اس جرم کے خلاف ان میں کسی قسم کی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھتے۔ لہٰذا اس قسم کی صنعت کو بے ضرر تفریحی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا منظم طریقے سے معاشرے کو جنسیات میں مشغول کردینا اور عورت کے مقام کو کمتر کردینا ریاست میں موجود خواتین اور بچوں کی حفاظت کے حوالے سے منفی نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اور کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام ان تمام خبائث کی پشت پناہی کرتا ہےکیونکہ اس نظام میں کسی بھی قیمت پر منفعت کی پیاس بجھتی ہی نہیں اور وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں چاہے اس کے نتیجے میں معاشرے میں عورت کا وقار مٹی میں مل جائے اور جنسی جرائم میں خوفناک حد تک اضافہ ہوجائے۔
تو پھراس مسئلہ کا حل کہاں ہے؟ اس مسئلے کو اخلاص سے حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم لبرل، سرمایہ دارانہ اقدار اور اس کے نظام کو مسترد کردیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لازمی ہے کہ ہم ان اقدار اور اس نظام کو قبول کریں جو کسی بھی صورت عورت کے مقام و مرتبے کی تذلیل نہ کرتا ہو، جو پیسے کو اخلاقیات پر فوقیت نہ دیتا ہو اور مردو وعورت کے تعلق کو محض جسمانی تعلق ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان کی اس جبلت کو ایسے طریقے سے پورا کرتا ہو جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے بلکہ نہ صرف مرد و خواتین بلکہ معاشرے کی فلاح اور ترقی کا باعث بھی بنے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسلامی طرز زندگی اور اس کے نظام میں یہ سب کچھ موجود ہے جو کہ اس کے عقیدے سے نکلتا ہے اور اس عقیدے کو پاکستان کے مسلمان دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور وہ عقیدہ ہے اسلام۔
اسلام نے عورت کے مقام ومرتبے، عفت و عصمت کو دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی قرار دیا ہے اور اس کے تحفظ کو ویسے ہی لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ اسلام کا تحفظ کرنا۔ رسول اللہﷺ نے خواتین کے متعلق فرمایا:((إنما النساء شقائق الرجال ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم))"خواتین مردوں کا آدھا حصہ ہیں۔ ایک شریف آدمی خواتین کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے لیکن ایک جاہل مرد،عورت کی تذلیل کرتا ہے"۔ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ ((اتقوا الله في النساء))"خواتین کے معاملے میں اللہ سے ڈرو" اوررسول اللہﷺ نے عورت کو مرد کے ہاتھ میں ایک امانت قرار دیا اور اس امانت کی حفاظت کے لیے ایک پورے قبیلے کو مدینہ بدر کر دیا کیونکہ بنو قینُقہ نے ایک مسلمان عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا۔لیکن اسلام صرف خواتین اور بچوں کی حفاظت اور ٖفلاح کو ہی انتہائی اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ ایک تفصیلی نظام اور اقداربھی فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست اپنے شہریوں کو جنسی جرائم سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور معاشرے کو ایک مخصوص شکل دینے کے لیے اس نظام کے قوانین ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کے لیے تقویت کو باعث بنتے ہیں۔
سب سے پہلے اسلام لبرل شخصی اور جنسی آزادیوں کو مستردکرتا ہے بلکہ معاشرے میں خوف خدا کے احساس کو پروان چڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں احتساب پر مبنی ذہنیت پیدا ہوتی ہے جو مردکو خواتین اور بچوں کی عزت کرنے کی جانب مائل کرتی ہے۔ لہٰذا اسلام معاشرے میں جنسیات کی ترویج کی ممانعت کرتا ہے اور جنسی جبلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے معاشرے کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ایسے تمام اعمال کی ممانعت کرتا ہے جس کے نتیجے میں عورت کو ایک شے کے طور پر دیکھا جائے اور عورت کا استحصال کیا جائے۔ اس طرح مردو عورت کے تعلقات کا محورکبھی بھی محض جنسی تسکین نہیں ہوتی اور عورت کا مقام و مرتبہ بھی برقرار رہتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اسلام کا معاشرتی نظام ایسے قوانین کا مجموعہ ہے جو مردو عورت کے تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ اس میں شریفانہ لباس، مرد و عورت کے اختلاط کو روکنا اور شادی کے بندھن سے باہر ان کے جسمانی تعلق کی ممانعت بھی شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات مرد وعورت کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ جنسی جبلت کی تسکین کو صرف اور صرف شادی کے بندھن کے ذریعے سے ہی پورا کرسکتے ہیں۔ لہٰذا جنسی جبلت کو دبایا نہیں جاتا اور نہ ہی کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ اس کی اس طرح تسکین کی جاتی ہے کو معاشرے کے لیے فلاح کا باعث ہو۔
اور تیسری بات یہ کہ اسلام جنسی جرائم کے خلاف انتہائی سخت سزائیں مقرر کرتا ہے جس میں چند مخصوص مقدمات میں موت کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام اس بات کو لازمی قرار دیتا ہے کہ ایک ایسا موثر عدالتی نظام ہو جو ان جرائم سے باآسانی نمٹ سکے۔
یہ تمام اقدامات عورتوں اور بچوں پر جنسی حملوں کو انتہائی کم کردیتے ہیں اور ایسا معاشرہ پیدا کرتے ہے جہاں لوگ خوف کی حالت میں نہیں رہتے بلکہ انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور یہ تحفظ کا احساس انھیں بغیر کسی خطرے کےسفرکرنے، پڑھنے اور کام کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ ماحول صرف اسی وقت پیدا کیا جاسکتا ہے جب ایک ریاست اسلام کا نظام مکمل طور پر اسلام کے نظام حکمرانی کے تحت نافذ کرے اور خواتین و بچوں کی عفت و عصمت کے تحفظ کو انتخابی نعرے کے طور پر نہیں بلکہ یاست کیپالیسی میں اولین ترجیح قرار دے۔ اس میں تعلیمی نظام اور میڈیا بھی شامل ہے جو معاشرے میں عورت کے بلند مقام کی ترویج کرے گا نہ کہ اس کو ایک ایسی شے کے طور پر پیش کرے جس کا کام مردوں کی خواہشات کو پورا کرنا ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سمجھنا کہ اس جرم کے خلاف شعور کی بیداری کے لیے مہم چلانے سے، پولیس کو بہتر تربیت دینے سےیا زیادہ سخت قوانین بنانے سے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں قابل ذکر کمی آجائے گی جبکہ دوسری جانب ایسا نظام نافذ ہو جو منظم طریقے سے خواتین اور بچوں کے عزت و مرتبے کو گھٹا تا ہو ، ان کے تحفظ کی ذمہ داری سے کوتاہی برتتا ہو، ایک خواب ہے جس کی تعبیر ممکن ہی نہیں۔ جب تک کہ اس تصور اور اس کی ترویج کرنے والی حکومت کو پاکستان سے اکھاڑ نہیں پھینکا جائے گا جو معاشرے میں ایسے جرائم کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ ہے اور اس کی جگہ اسلام کو نافذ نہیں کیا جاتا جو ایسی اقدار کی ترویج کرتا ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کی عزت و حرمت کو تحفظ حاصل ہو، تو ایسے انتہائی افسوسناک اور خوفناک واقعات کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا اور خبروں کی سرخیوں کی زینت بنتے رہیں گے۔
ڈاکٹر نظرین نواز
حزب التحریر کے میڈیا آفس کی رکن

Read more...

امریکہ اور کافر حربی ریاستوں سے قریبی تعلقات، پاکستان کے لیے ہمیشہ نقصان کا باعث بنے ہیں

تحریر: شہزاد شیخ
(ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ: 17اکتوبر2013

خبر: 14اکتوبر 2013 بروز پیر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان جیمز ڈوبنز نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانے سے ایک پریس ریزیں جاری کی گئی جس کے مطابق:"ڈوبنز نے پاک امریکہ تعلقات، خطے کے سلامتی امور اور افغانستان کے معاملات پر وزیر داخلہ چوہدری نثار ، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز اور چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویز کیانی سے بات چیت کی"۔
تبصرہ: امریکی نمائندہ خصوصی جمیز ڈوبنز نے یہ دورہ اس وقت کیا ہے جب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی 23 اکتوبر 2013 کو واشنگٹن میں امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات ہونے والی ہے۔ پاکستان میں بر سراقتدار آنے والا ہر حکمران اپنا سب سے پہلا غیر ملکی دورہ واشنگٹن یا لندن کا کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ پاکستان کے عوام کو یہ دِکھا سکے کہ وقت کی سپر پاور اور اس کےاتحادی ، اس کی حمائت کررہے ہیں اور اس کا قتدار مضبوط و مستحکم ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے بظاہر دوستانہ تعلقات استوار رکھنا کسی بھی پاکستانی حکمران کے کام نہیں آیا، کیونکہ جب بھی امریکہ نے یہ دیکھا کہ یہ حکمران مزید اس کے مفادات کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں رہا تو امریکہ نے ہمیشہ ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا، تو دوسری جانب امریکہ اور مغربی کافر حربی ریاستوں سے تعلقات کا پاکستان کو بھی فائدے سے زیادہ ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب پاکستان نے امریکہ و مغربی کافر حربی ریاستوں کی بات مانی یا ان پر بھروسہ کیا تو پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ 1948 میں جب افواج پاکستان اور مسلم مجاہدین، کشمیر کے محاظ پر بھارتی فوج کو شکست دیتے ہوئے سرینگر کی جانب پیشقدمی کررہے تھے تو بھارت بھاگا بھاگا اقوام متحدہ گیا اور پاکستان نے امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں کے دباؤ اور یقین دہانیوں پر یقین کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک 65 سال گزر چکے ہیں اور پاکستان اور کشمیر کے مسلمان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا انتظار ہی کررہے ہیں۔ اسی طرح جب 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے پاس کشمیر کو آزاد کروانے کا ایک سنہری موقع تھا لیکن امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں نے مداخلت کی اورانکےمشورے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور کشمیر کی آزادی کا موقع گنوا دیا۔ پھر 1971 میں جب بھارت نے اس وقت کے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو باوجود اس کے کہ امریکہ کا دشمن سوویت یونین بھارت کی کھلم کھلا اور بھر پور مدد کررہا تھا اور امریکہ کا پاکستان کےساتھ دفاعی معاہدہ بھی تھا ، امریکہ پاکستان کی مدد کو نہیں آیا ۔ پاکستان آٹھویں امریکی بحری بیڑے کے آنے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا اور مسلم تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کیا جس میں تقریباً ایک لاکھ مسلم فوج کو بھارت نے جنگی قیدی بنالیا اور اب پچھلے بارہ سالوں سے خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستان اس کی فرنٹ لائن سٹیٹ اور نان نیٹو اتحادی بن کر پچاس ہزار سے زائد شہریوں اور فوجیوں کا خون اور معیشت کو ستر ارب ڈالر کا نقصان اس جنگ کی بھینٹ چڑھا چکا ہے۔
لہٰذا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیں امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں سے تعلقات کو ختم کرنا ہو گا تب ہی ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنے معاملات میں آزادانہ فیصلے کرسکیں چاہے ان کا تعلق معیشت سے ہو یا خارجہ پالیسی سے ۔ لیکن ایسا صرف پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی ایسے جرات مندانہ اقدام اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو تمام امریکی فوجیوں، نجی سیکورٹی اہلکاروں اور سفارت کاروں کو ملک بدر کردے گی۔ خلافت تمام امریکی اڈے بنداور نیٹو سپلائی لائن کو کاٹ دے گی اور خلافت کے افواج مخلص مجاہدین کے ساتھ اس خطے سے امریکہ اور کافر مغربی حربی ریاستوں کو مار بھگائے گی اور ان کی نجاست سے اس سرزمین کو پاک کردے گی۔

Read more...

ملالہ یوسفزئی،ایک لڑکی جس کو مغرب اپنےمفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہا ہے

خبر:اپنی سولویں سالگرہ کے موقع پر ملالہ یوسفزئی ، جسے طالبان نے پاکستان میں لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے کی بنا پر سر میں گولی مار دی تھی ،نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا اور عالمی رہنماوں سے ہر بچے کو ''مفت،لازمی تعلیم ‘‘ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس کا استقبال جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کیا۔ بان کی مون نے نوجوانوں کی اسمبلی سے اس کا تعرف کرایا۔ بان کی مون نے کہا کہ ''ملالہ کو نشانہ بنا کر انتہا پسندوں نے یہ دیکھا دیا ہے کہ وہ ایک ایسی لڑکی سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں جس کے ہاتھ میں کتاب ہو‘‘۔ اس نے مزید کہا کہ ''ملالہ ہم سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کا مطالبہ کررہی ہے کہ ہم نوجوانوں پر خرچ کریں اور تعلیم کو پہلی ترجیع دیں‘‘۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم،گورڈن براؤن جو عالمی تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بھی ہیں،نے ملالہ کا تعرف کرایا اور اقوام متحدہ میں ملالہ کے دن کو منانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
http://thelede.blogs.nytimes.com/2013/07/12/video-of-malala-yousafzai-at-u-n-calling-on-world-leaders-to-provide-education-to-every-child/
تبصرہ:
1۔ کافر مغرب جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ہمیشہ پہلے مسلمانوں کو قتل کرتا ہے اور پھر ان کے جنازوں میں شریک ہو کر ان کے قتل پر افسوس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ مغرب کی آزادی کا تصورعورت کو ایسا سامان قرار دیتا ہے جس کوبغیر کسی شرم و حیا کے بیچا اور خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس کے مقام کو بلند کیا اور اس کی عزت و آ بروکا محافظ ہے۔ یہ حقیقت سب کے سامنے آشکار ہو چکی ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو '' آزادی‘‘اور ''عورت اور مرد کے درمیان برابری‘‘ کی دعوت دیتے پھرتے ہیں۔ اسی چیز نے مغرب کو سیخ پا کر دیا ہے اور وہ انانیت کا شکار ہو کر مسلمان عورت کو حسد کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہےباوجود اس کے کہ آج مسلم عورت کسی مثالی اسلامی معاشرے میں زندگی نہیں گزار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے ایجنٹوں اور اپنی قاتل کمپنیوں ''بلیک واٹر‘‘وغیرہ کے ذریعے اسلامی علاقوں بشمول پاکستان میں وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر ان جرائم کو مسلمانوں کے سر تھوپتے ہیں تا کہ مغرب یہ کہہ کر اپنے صلیبی یلغار کا جواز پیش کر سکے کہ یہ لوگ رجعت پسند، ترقی کے دشمن اور جرائم پیشہ ہیں۔ یوں اقوام عالم کے سامنے مسلمانوں کے قتل اور ان کی نسل کشی کا جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف یہ صلیبی یلغاران رجعت پسندوں سے انسانیت کو بچانے کے لیے ہے۔
2۔ پاکستان میں تعلیم سے محروم افراد کی تعداد پچپن ملین ہے جو کہ کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی کے برابر ہے۔ تو کیوں اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام نہیں کرتی اور صرف ملالہ کو تقلیم فراہم کرنے پر توجہ مبزول کرتی ہے؟ اس کے پاس اس بات کے لیے تو بے پناہ وسائل ہیں کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں ڈرون طیارے بھیج سکے جہاں ملالہ رہتی ہے لیکن پاکستان میں ناخواندگی کو ختم کرنے کے لیے وسائل کے کمی ہوجاتی ہے!
3۔ پچھلے سال پیچیاسی ہزار لوگوں نے ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کے لیے نامزد کیا۔ ٹائمز میگزین نے ''سال کی شخصیت‘‘میں دوسرے نمبر پر قرار دیا۔ مغرب، مسلم دنیا میں اس کے ایجنٹ حکمران اور وہ لوگ جو اس کے دن کو منا رہے ہیں آخر کیوں ملالہ کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں؟ یقیناً ان کی حمائت لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ کہ جس کو حاصل کرنے کے بعد بھی روزگار یا نوکری نہ مل سکے جبکہ پاکستانی گریجویٹس میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے؟ انھوں نے ملالہ کے مسئلے کو استعمال کیا ہے اور اس مسئلہ کو مغرب نے ہی پیدا کیا ہے تا کہ قدامت پسند علاقوں میں موجود مسلم عورتوں میں سے شرم و حیا کا خاتمہ کیا جائے اور اسلام کے تصوراور اس کی تہذیب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے مسخ کیا جائے۔ اور ایسا اس وقت کیا جارہا ہے جب خود مغربی تہذیب بے نقاب ہوچکی ہے اور مغرب کے لوگ ایک متبادل کی تلاش میں ہیں۔ لہذا کرپٹ سرمایہ دارانہ اور مغرب پسند حکومتوں سے فائدہ اٹھانے والے اسلام کی تہذیب کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں اور ان لوگوں کو جو ایک متبادل تہذیب کی تلاش میں سرکردہ ہیں،اسلامی تہذیب سے دور کرنے کی کوشش کرنے رہے ہیں۔اسلام سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جو اپنی بقا کے لیے لوگوں کے خون کا محتاج ہے۔

ابو عمر و

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک