مسلم افواج کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں سے غداری
- Published in آرٹیکل
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- |
نصیر الاسلام محمود
جس وقت امت مسلمہ نے خواب غفلت سے بیدار ہو کرمغرب کی غلامی اور بالادستی سے آزادی کا مطالبہ کیا اس وقت یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی افواج ان غیر شرعی حکومتوں کا دفاع کررہی ہیں جن کو کافر مغرب نے امت مسلمہ پر مسلط کر رکھا ہے۔مسلم افواج کو چاہیے تھا کہ موجودہ خودساختہ حکومتوں سے چھٹکارہ پانے کے ذریعے مغرب کی بالادستی سے آزادی اور ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جس کو اللہ تعالٰی نے لوگوں کے لیے پسند کیا ہے امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ لیکن افواج نے انہی حکومتوں کا دفاع کیا حتٰی کہ ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر حکمرانوں کے حکم پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جس سے ایسا لگا کہ مسلمانوں کی افواج بھی حق اور اپنی امت کے خلاف باطل کے دست وبازو بن گئے ہیں۔
امت کی جانب افواج کے اس المناک رویے کے کچھ اسباب ہیں اور ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے افواج نےان سرکش حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ ان اسباب پر غور کرنے کے بعد ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دردناک صورت حا ل دائمی ہے یا عارضی کہ جس پر قابو پایا جاسکتا ہے خصوصاً اس وقت جب ریاست خلافت قائم ہوجائے گی جو انشاء اللہ اب بہت قریب ہے۔
مسلمانوں کی افواج کی جانب سے مغرب کی کٹھ پتلی حکومتوں، جو کہ کفر کے ذریعے حکومت کرتی ہیں، کا ساتھ دینے کےکئی اسباب ہیں جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
1۔ عسکری قیادت میں اعلی ترین عہدوں پر مغرب نوازوں کی موجود گی، جن کا نصب العین ہی یہ ہے کہ اپنے تکبر اور بے تحاشہ دولت جمع کرنے کے لیےاپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذایہ اپنے عہدوں سے چمٹے رہتے ہیں اور انہیں بچانے کے لیے اپنی فوجی غیرت سے دسبرتدار ہوتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ میدان کارزار کے جرنیل نہیں بلکہ مال ودولت کے جرنیل ہیں۔ یہ قیادتیں مسلم افواج کی قیادت کے اہل نہیں۔ بلاشبہ یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں امت کی رسوائی کے ذمہ دار ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے مغرب امت کے معاملات میں نہ صرف مداخلت کرتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ مغرب کی طرف سے مسلط کردہ خود ساختہ حکومتوں کی چوکیداری کرتے ہیں۔ یوں یہ قیادتیں مسلم علاقوں میں سرکشوں کے تخت و تاج اورخود ساختہ حکومتوں کی حفاظت کے لیے افواج کی قیادت کرتی ہیں۔حقیقی جنگوں میں افواج کی قیادت کرنے کی بجائے استعماری کافر کے مفادات کے لیے امت مسلمہ کے خلاف جنگ میں ان کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال عراق کے خلاف جنگ میں مسلم افواج کا مغربی صلیبی اتحاد میں شامل ہو نا ہے۔اسی طرح ایک اور مثال پاکستانی فوج اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے فوجی یونٹوں کا افغانستان پر قبضے کے لیے نیٹو اور امریکہ کی مدد کرنا ہے۔اگر یہ قیادتیں ان مسلم قیادتوں کی طرح ہوتیں جیسا کہ صحابہ، تابعین اور پھر اسلامی حکومت کے سائے میں تیرہ سو سالتک انکے نہج پر چلنے والے لوگ جن کے ذکر سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں، تو اس امت کو موجودہ کزتوری اور ذلت کا سامنا نہ ہوتا۔کہاں یہ موجودہ قائدین اورکہا ں محمدﷺ، اسلامی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف۔ بدر کے دن آپﷺ اپنے صحابہ کی صفیں سیدھی فرمارہے تھے اور آپﷺ کے دست مبارک میں ایک تیر تھا جس سے آپﷺ صفیں درست فرمارہے تھے، اس دوران سواد بن غزیۃ کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن النجار کے حلیف تھے ۔سواد بن غزیتہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے تیر سے ان کے پیٹ کو دبایا اور فرمایا: سواد قطار میں ہو جا ؤ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے تکلیف دی میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بدلہ لے لو۔ انہوں نے کہا : آپ ﷺ نے جب دبایا تھا تو میں نے قمیض نہیں پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے بطن مبارک کو ظاہر کیا اور فرمایا: بدلہ لے لو۔ سواد آپ ﷺ سےلپٹ گیا اور بطن مبارک کو بوسہ دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سواد تم نے ایسا کیو ں کیا ؟ انہوں نے کہا: آپﷺ کو معلوم ہے کہ جنگ میں کود نا ہے اور ہو سکتا ہے کہ قتل ہوجاؤں تو میں نے چاہاکہ آپﷺ کے ساتھ آخری معاملہ میرا یہ ہو کہ میرا بدن آپﷺ کے بدن کو چھوئے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ ایک بار ایک مسلم کمانڈر جن کے سامنے لذیذ کھا نا لایا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ سپاہیوں کو بھی یہی کھانا دیا گیا ہے۔ کہا گیا نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر میرے لیے بھی وہی کھانا لاؤ جو عام سپاہیوں کے لیے ہے۔
2 ۔ مسلم افواج میں موجود فوجی نظریات اور قوائد کا اسلامی عقیدے سے الگ ہونا۔ اگرچہ عالم اسلام میں افواج کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہی ہے مگر ان افواج کا فوجی نظریہ اسلامی عقیدے سے الگ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم سپاہی وطنی چپقلش، نسلی تعصب یا کسی بھی جاہلانہ سوچ کی وجہ سے اپنے ہی ہم عقیدہ بھائی سے لڑتا ہے۔ وہ اسلامی عقیدہ جو ان کو یک جان کر تا تھا باہمی جنگوں اور لڑائیوں میں غیر مؤثر ہے۔ اسلامی عقیدے کی حمیّت عالم اسلام کی افواج میں موجود سپاہیوں پر اثرانداز نہیں ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سپاہی بشمول اپنے علاقے کے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے بہن بھائیوں کی آہ و بکا سن اور دیکھ کر بھی اس کو اپنے اس اسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتاجس کی بنیاد پر مجبوروں اور مظلوموں کی مدد کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بے بس اور ستائے ہوئے مسلمان مدد کے لیے پکار رہے ہیں جیسا کہ شام کے مسلمان، برما کے مسلمان، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان اور افغانستان کے مسلمان لیکن مسلم افواج کے سپاہی اس کو اپنے عقیدے سے اس طرح مربوط نہیں کرتے جیسے وہ نمازاوربعض عبادات خصوصاً نوافل کو کرتے ہیں۔ اپنے مجبور بھائیوں کے حوالے سے اپنے اوپر عائد ہونے والے فریضے کواسلامی عقیدے سے مربوط نہیں کرتے۔ وہ اگر چہ اللہ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے ہیں ...وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ... (اگر وہ دین کی بنیاد پر تم سے مدد مانگیں تو مدد تم پر لازم ہے)، مگر وہ اس آیت کو اپنے دینی بھائیوں کی مددکے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے مربوط نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر چہ ان کو اس خاتون کا قصہ یاد ہے جس نے "وامعتصماہ" یعنی "ہائے معتصم " کہہ کر مدد طلب کی تھی اور معتصم بھی اس کی مدد کےلیے نکل پڑا تھا اور اس کو اور اس کے ساتھ دوسرے خاندانوں کو آزاد کرالیا اور اس علاقے کو جس میں "انقرہ" بھی شامل تھا فتح کر لیا۔ مگر یہ اس قصے کو اپنے آباؤاجداد پر فخر کرنے کے لیے پڑھتے ہیں ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے نہیں۔
اسلامی عقیدے کا مسلم افواج کے فوجی نظریے کی اساس ہونا لازمی ہے۔ اسلامی فوج کا نصب العین اسلامی عقیدے، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی حفاظت اور اسلام کی دعوت کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہےکیونکہ اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کی ہدایت ہے۔ کوئی بھی چیز جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے لیے خطرہ پیداکرے تو اسلامی افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادے۔
3 ۔ مسلم افواج میں اسلامی ثقافت(اسلامی تربیت) کا فقدان بلکہ ان کی تربیت غیر اسلامی ثقافت کے ذریعے کی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلم افواج کافر استعمار کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔مغرب اپنی ثقافت نافذکرنے کی شرط پر ہماری افواج کو اسلحہ فراہم کرتا ہے ۔وہ ہماری افواج کو ایسے کورسز کرواتے ہیں جن میں کرپٹ مغربی آزادیوں کے تصور اور جمہوریت کی تعریف بیان کی جاتی ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دراصل اسلام کے خلاف لڑنے پر ان کی تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔یہ تربیت اس حد تک کی گئی کہ اب ہماری افواج اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے جنگ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ فوجی انٹلیجنس ایجنسیاں اسلامی شعائر کے پابند اور امت کے عروج کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بناتی ہیں اور امت کے خلاف دشمن مغربی ممالک کی سازشوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر افواج پاکستان کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس سے امریکہ خوش ہو جائے اور اس کے مفادات کی حفاظت ہو سکے۔ اسی کو بنیاد بنا کر فوج نے یہ نظریہ اپنایا کہ دشمن اندرونی ہے جس کی تعریف امریکہ نے "سیاسی اور جہادی اسلام" کے طور پر کی ہے۔ انھوں نےامریکہ اور بھارت کودشمن نہیں سمجھا بلکہ سیاسی و جہادی اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دشمن قرار دیا۔ انھوں نے ان مجاہدین کو دبانا شروع کردیا جو خطے میں امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑتے ہیں اور یہ کہا کہ یہ لوگ "دہشت گرد" اور "قومی سلامتی" کے دشمن ہیں۔ پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس نے فوج اور عام شہریوں میں موجود ان اسلام کے داعیوں کی جاسوسی کرنا شروع کردی جو خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔
فوج کو لازمی بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ تعلیم وتر بیت فراہم ہونی چاہیے اور ان کی سوچ میں فکری بلندی کی سطح بھی ممکن حد تک اعلٰی ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ فوج میں ہر شخص کی اسلامی تربیت بھی ہونی چاہیے جو انھیں اس قابل کرے کہ وہ اسلام کو سمجھ سکیں تا کہ ایک سپاہی اپنے اصل دشمن کو جان سکے اور اسے شکست دینے کے لیے لڑے اور اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے اور رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق عمل کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا ((كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى ثَغْرَةٍ مِنْ ثُغَرِ الْإِسْلَامِ، اللهَ اللہَ لَا يُؤْتَى الْإِسْلَامُ مِنْ قِبَلِك)) "مسلمانوں میں سے ہر شخص اسلام کی چوکیوں میں سے ایک چوکی کا محافظ ہے، اسے اپنی چوکی سے اسلام کا دفاع کرنا ہے اور اپنی چوکی پر شکست کو قبول نہیں کرنا ہے"۔
اس سب کچھ کے بعد اب سوال یہ ہے کہ کیا ان افواج سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
اس کا جواب ہے کہ یقیناً انہی سے امید بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر ان افواج نے امت مسلمہ کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا جس کی وجہ سے امت اپنے دشمنوں کے سامنے شرمندہ ہوئی مگر مسلم افواج میں مخلصین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو مناسب موقع پر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کی اجل اور رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ امت کا عروج خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے انہی فرزندوں پر موقوف ہے۔خالد نےبستر مرگ پر لیٹے ہوئے فرمایا تھا ((لقد شهدتُ مائة زحف أو زُهاءَها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربةٌ أو طعنة أو رَمْية، ثم هأنذا أموت على فراشي كما يموت العَيْر، فلا نامت أعين الجبناء)) "میں نے شہادت کی آرزو لیے سیکڑروں جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار، نیزے اور تیر کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی اب میری یہ حالت ہے کہ آج اونٹ کی طرح بستر پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ہمیشہ شرمندگی سے نم رہیں"۔یہ وہ سپاہی تھے جو واقعی اللہ کی تلوار کہلوانے کے حقدار تھے اوروہ تلوار اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف آخری دم تک حرکت میں رہی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی علاقوں میں فوجیوں کی بہت بڑی اکثریت صرف آرڈر(حکم) کی پابندی کر رہی ہے جبکہ ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس امت کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ان کو موجودہ ایجنٹ قیادتوں سے جان چھڑانے کا موقع ملے گا تو وہ فوراً یہ کام کرگزریں گے ۔
یوں ان افواج سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہی کے اندر امت کے جواں مرد موجود ہیں۔ عنقریب امت اور اس کی افواج کافر مغرب سے چھٹکارا پالیں گی اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ)) "جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے"۔