الأربعاء، 02 جمادى الثانية 1446| 2024/12/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کل جماعتی کانفرنس افغانستان میں امریکی قبضے کو جاری رکھنے اور امریکی جنگ کو ہماری جنگ قرار دینے کے لیے منعقد کی گئی

تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:20ستمبر2013

خبر:

9 ستمبر 2013 کو حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں صرف سیاسی جماعتوں ہی نے شرکت نہیں کی بلکہ افواج پاکستان کی سینئر ترین قیادت، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور ڈائریکٹر جنرل آئی۔ایس۔آئی ظہیر الاسلام نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے باہر نکالنے کے لیے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہونا تھا ۔ کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں امن کی خاطر حکومت قبائلی عوام کے ساتھ فوجی آپریشنز کی جگہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔

تبصرہ:

جیسے جیسے 2014 قریب تر آتا جارہا ہے ویسے ویسے امریکہ افغانستان سے انخلاء کے نام پر اپنے قبضے کو مستقل رکھنے کے لیے طالبان کے ساتھ کسی دیر پا معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تیزی لاتا جارہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے طالبان کو قطر میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دی اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو حکم دیا کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔ 9 ستمبر کو ہونے والی کل جماعتی کانفرنس بھی اسی امریکی ہدف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے منعقد کی گئی۔اس کانفرنس میں حکومت کو یہ کہا گیا کہ وہ قبائلی لوگوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کانفرنس نے اس امریکی جنگ کو یہ کہہ کر اپنا قرار دے دیا کہ "دہشگردی کےخلاف جنگ کےطریقہ کاراوروسائل کافیصلہ خودکرینگے"۔ تو اب اگر طالبان امریکی شرائط کے مطابق افغانستان سے محدود انخلاء کے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے تو پاکستان فوری طور پر طالبان کے خلاف "ڈنڈا " اٹھا سکتے ہیں۔
یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ وہ جماعتیں جو دن رات اس امریکی جنگ سے پاکستان کو نکالنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں انھوں نے بھی اس کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کردیے۔ انھوں نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے اس موقف کی بھی تائید کردی ہے کہ یہ انخلاء پاکستان کی کامیابی ہے۔ حقیقت یہ ہے امریکی صدر اوبامہ سمیت کئی امریکی عہدیدار اس بات کا اظہار ایک سے زائد بار کرچکے ہیں کہ 2014 کے بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج درجنوں کی تعداد میں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں موجود رہیں گی ۔ ان ہزاروں امریکی افواج کے مستقل قیام کے لیے امریکہ افغانستان میں 9 فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ یہ بات بھی کئی موقعوں پر واضع کرچکا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی نگرانی میں بنائے گئے افغانستان کے آئین کو لازماً قبول کیا جائے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر اوبامہ اورکرزئی 2مئی2012 کو ایک سٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں جس کے تحت 2014 کے بعد بھی امریکہ کو افغانستان میں سیکیورٹی کے امور کے علاوہ بھی کام کرنے کی اجازت ہو گی۔
یہ صورتحال کس طرح پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟ وہ ملک جو اپنے "کالے بجٹ" کا بڑا حصہ اپنے اعلانیہ دشمنوں ایران اور شمالی کوریا کے خلاف خرچ نہیں کررہا بلکہ پاکستان اور اس کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی پر خرچ کررہا ہے ،اسے پاکستان کی دہلیز،افغانستان میں مستقل قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان میں امریکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے سلسلے کوجاری رکھ سکے گا۔ یقیناً ہندو ریاست نے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے افغان سرحد کے ساتھ قونصلیٹس کے پردے میں سینکڑوں اڈے قائم کررکھے ہیں ۔ تو پھر کس طرح پاکستان کی دہلیز پر ہزاروں امریکی افواج کی موجودگی پاکستان کی کامیابی ہوسکتی ہے؟
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ہی امریکی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور جو بھی جماعتیں ان دونوں میں سے کسی میں بھی شرکت کرتی ہیں کبھی بھی امریکی مطالبات اور احکامات سے روگردانی کرنے کی جراءت نہیں کرسکتیں۔ پاکستان میں صرف خلافت کا قیام ہی خطے سے امریکی راج کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ خلافت امریکی سفارت خانہ، قونصلیٹس، اڈوں اور نیٹو سپلائی لائن کو بند اور اس کے سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی۔ اور اگر اس کے بعد بھی امریکہ نے اس خطے میں رہنے کی کوشش کی تو خلافت افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ طاقت کے ساتھ اس کے خلاف جہاد کا اعلان کردے گی۔

Read more...

مصر میں امریکہ ہی درحقیقت شکست کھا گیا

''واشگنٹن نے اپنے مفادات کے لیے مصر کو امداد دے کر یہ سوچ لیا تھا کہ وہ معملات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جیسا کہ جیسا کہ ایک لمبے عرصے اس نے ایسا کیا ،مگر عنقریب مصر کے حوالے سے امریکی موقف تبدیل ہو جائے گا اور اس کا کردار محدود ہو گا،،-Steven A Cook. صدرمرسی کو ہٹانے کے بعد تین اہم مسائل پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی جو کہ یہ ہیں:
۔ انقلاب امریکی اشیر باد اور جنرل السیسی کے تقرر سے رونما ہو۔
۔ مرسی حکومت کے دوران سیاسی اسلام فیل ہو گیا،جس کا مطلب ہے کہ پورے خطے میں ایسا ہوا۔
۔ مرسی کے بعد تمرد(نافرمانی)کی تحریک اورعام اپوزیشن کوئی واضح تصور دینے میں ناکام ہوگئی،یہ غلط فہمی بھی کہ مبارک حکومت کے باقیات الاخوان اور حزب اختلاف سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں،تاہم ایک اور موجوع جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا وہ ہے مصر میں امریکی بالادستی کا زوال ہے۔
1956 م میں جمال عبد الناصر کے مصر کی سیاسی زندگی میں ظہور کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں امریکی پالیسی عروج حاصل ہو ا اور یہ بڑھتا گیا ،امریکہ پہلی بار مصر کے اثر ورسوخ کو عرب دنیا میں ان ممالک میں گھسنے اوراپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا جو اس کے اثر ورسوخ سے باہر اور بر طانیہ کے زیر اثر تھے،یوں خطے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور مصر کے اندر اور اس سے باہر امریکہ کے اثر ونفوذ میں روز افزوں اضافہ ہوگیا،مصر پر امریکہ کا پنجہ عبد الناصر کی ہلاکت کے بعد بھی ڈھیلا نہیں ہوا بلکہ صدر السادات کے دور میں بھی بدستور اس کی بالادستی قائم رہی اور اس کے بعد حقیقی عبد الناصر امریکی مفادات کے مخلص محافظ (حسنی مبارک)زمانے میں بھی یہی حال رہا،صورت حال 2011 م جوں کا توں رہی یہاں تک کہ مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات شروع ہوگئے جن سے مصر میں امریکی بالادستی لڑکھڑانے لگی،امریکہ کے پاس عام لوگوں کی سیاسی بیداری اور اسلام کی حکمرانی کے لیے ان کے جوش اور ولولہ کے مقابلے کے لیے سوائے اس کے کوئی آپشن باقی نہ رہا کہ مصر میں سیاسی منظر نامے میں ترجیح تکمیل پر نظر ثانی کی جائے اور بلا آخر اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت اور امریکی بالادستی کو استحکام دینے کے بدلے سودابازی پر مجبور ہوا،یوں مرسی اور الاخوان کو مبارک کی پرانی حکومت کے باقیات کے ساتھ یکجا کر کے ایک نیا سیاسی میڈیم وجود میں لایا گیا جس پر فوج کی نظر رہے گی۔جوں ہی امریکہ نے اپنے سامنے سے روکاوٹیں ہٹادی اس کو اظمئنان ہو گیا،مطمئن کیسے نہ ہو سوئیس کنال حسب دستور کام کررہا ہو،اسرائیل کی حفاظت برقرار ہو،مصر کو غزہ سے ملانے والے سرنگوں کو معلوم ہو تے ہی منہد م کیا جارہا ہو،حماس مکمل طور پر قابو میں ہو،مرسی نئی لبرل اقتصادی پالیسی کو نافذ کرنے میں مصروف ہو!
لیکن ہوائیں امریکہ کے خوہشات کے مخالف سمت چلنے لگیں،امریکہ اور اس کا مدد گار مرسی خطے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے،امریکہ کی جانب سے مرسی کی حد سے زیاد حمایت نے مصر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا،مرسی مخالف جذبات سے سب سے پہلے اپوزیشن نے فائدہ اٹھا یا اور مصر کے سیکیولر باشندوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے قلوب واذہان پر ایک مختصر مدت کے لیے چھا گیا،یہی وہ طبقہ ہے جس نے صرف ایک سال قبل حزب الحریہ والعدالہ( Party Freedom and Justice)اور مرسی کو مصر کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا تھا اب اس کے خلاف ہو گیا اور اس کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ نے عوام کے اندر مرسی کی مقبولیت میں کمی کو محسوس کیا اور چند مہینے پہلے فوج کے ذریعے اس کے تختے کو الٹنے کا منصوبہ بنا یا،اپوزشن کو مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار کیا گیا آخرکار فوج انقلاب کے ذریعے مرسی کو برطرف کیا گیا،امریکہ نے یہ اعتراف کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فوجی انقلاب تھا،یوں امریکہ پھر مربع کے نمبر ایک پہ پہنچ گیا اور مبارک کی ظالم حکومت کے باقیات سے بغلگیر ہو گیا،اب امریکہ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ جو کچھ ہو یہ انقلاب نہیں!
آج امریکہ کو مصری عوام کے غصے کا سامنا ہے،عالمی رائے عامہ کو جاننے کے لیے پیو سنٹر کے سروے کے مطابق مئی 2013 میں مصریوں کی صرف 16٪ نے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا(آج اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے)،ناصری سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھودیا،الاخوان کے حمایتی غصے میں ہیں،وہ وقت بھی دور نہیں کہ فوج بھی عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔
اگر امریکہ کسی بھی طریقے سے مبارک کے باقیات اور نئے ناتجربہ کارٹکنوکریٹ جیسے البرادعی کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ :''مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟!،،کسی دور جانے کی ضرورت نہیں ان حکومتو کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ نے افغانستان،عراق،لبنان اور پاکستان میں تشکیل دی،سیدھی بات یہ ہے کہ امریکہ ان ممالک میں فیل ہو چکا ہے،امریکہ بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کے سامنے بہت کمزور ہوچکا ہے،دوسرے ملکوں جیسے لیبیا،شام اور صومال میں بھی اس کی پوزیشن اچھی نہیں۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ مصر کا تجربہ بھی امریکی پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اضافہ ہو گا، مصر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے،زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملک میں افراتفری بڑھے گی،مختصرا اب امریکہ پہلے کی طرح عظیم طاقت نہیں رہا،اب وہ بڑی تیزی سے عالم اسلام میں اپنی بالادستی اور اعتبار کھو رہا ہے،ممکن ہے کہ مصر ہی امریکہ کی کمر توڑنے کا سبب بن جائے،بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کے ساک میں برق رفتار گراوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں، انگریزی رسالہSpectator Magazine کہا ہے کہ:"امریکی بالادستی اب اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ اوباما نے زیادہ تر عالمی چودھراہٹ سے دستبردار ہو گیا ہے،،وقت ہی اس بات کی سچائی کو ثابت کرے گا۔

عابد مصطفی

Read more...

لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خلاف سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا ردعمل انتہائی شرمناک ہے تحریر: شہزاد شیخ (پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان) تاریخ:16 اگست 2013

خبر: پاکستان اور بھارت میں اچانک کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ 6 اگست کو پاکستان کے فوجیوں نے جموں میں لائن آف کنٹرول پر واقع پونچھ سیکٹر میں سارلہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پانچ بھارتی فوجیوں کو قتل کردیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس قسم کی مداخلت کے واقع سے مکمل انکار کیا ہے۔ اس واقع کے بعد نہ صرف لائن آف کنٹرول پر،جو کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر میں سیئز فائر لائن ہے، بلکہ بین الالقوامی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ بھارتی حکومت نے پہلے سے طے شدہ سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کردیا بلکہ اب یہ افواہیں بھی سرگرم ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان نیویارک میں اقوامی متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات بھی منسوخ ہوجائے گی۔
تبصرہ: 2003 میں مشرف کے دور حکومت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن 2013 کی شروعات سے اب تک بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی سو سے زائد خلاف ورزیاں کی جاچکی ہیں۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور بین الالقوامی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافے، پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں کے باوجود ،پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ،جن کی قیادت نواز شریف اور جنرل کیانی کررہے ہیں، انتہائی نرم اور کمزورردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جنرل کیانی نے 13اگست2013 کو کاکول ملٹری اکیڈمی میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب میں بھارتی جارحیت پر کسی سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ واشنگٹن میں موجود اپنے آقاوں کی مرضی کے مطابق کیانی نے قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی بھارتی جارحیت کے مقابلے میں اندرونی سیکیوریٹی کے مسائل اس وقت قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اسی طرح نواز شریف نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی اور ماضی کو بھول جانے کا درس دیا۔
سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار مشرف کے وقت سے ہی قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہیے چاہے اس کے لیے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی قبضے کے خاتمے اور بھارت بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے انتہائی برے سلوک کے خاتمے کے مطالبے سے ہی کیوں نہ دست بردار ہونا پڑے۔لہذا یہ غدار حکمران بھارت سے تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں ،اسے "پسندیدہ ترین ملک" قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے ایک ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی خریدنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔
در اصل ان غداروں کا یہ رویہ اور طرز عمل عین امریکی پالیسی کے مطابق ہے۔ امریکہ پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کر کے بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانا چاہتا ہے تا کہ وہ چین کو اس کی سرحدوں تک محدود رکھنے کے لیے بھارت کو اس کے خلاف استعمال کرسکے ۔ بھارت اس وقت اس امریکی منصوبے کے مطابق کردار ادا نہیں کرسکتا جب تک اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق نہ ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ پاکستان کو بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنا دینا چاہتا ہے تا کہ جب خلافت قائم ہو تو وہ کمزور ہو۔
ایک طاقتور مسلمان ملک کے حکمرانوں کا یہ ردعمل انتہائی شرمناک ہے کہ جس کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہو اور جس کے پاس دنیا کے ساتویں بڑی فوج بھی موجود ہو۔ اگر بولیویا، ایکواڈور اور وینیزویلا جیسے ممالک، جونہ صرف انتہائی کمزور ہیں بلکہ امریکہ کے پڑوسی بھی ہیں، امریکی احکامات کو نظرانداز کردیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں امریکی سفارت کاروں ملک بدر بھی کردیتے ہیں تو پھر دنیا کے واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان امریکی احکامات کو مسترد اور بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب کیوں نہیں دے سکتا؟ ایک عزت دار اور باوقار ردعمل پیش کرنے کے بجائے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار امریکی پالیسیوں کے نفاذ اور ملکی خودمختاری کی تذلیل کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو اس کمزور اور رسوا کن صورتحال سے نکالے گی اور اس کو وہ مقام دلائے گی جس کا یہ اپنی صلاحیت اور طاقت کی بنا پر حقدار ہے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک