السبت، 25 ربيع الأول 1446| 2024/09/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

دنیا اور امریکہ کو مسلمانوں کے خون اور دھماکہ خیز ڈرموں سے شہریوں کے قتل کی کوئی فکر نہیں

پریس ریلیز
اگست 2012 سے سفاک بشارالاسد کی حکومت نے پہلی مرتبہ دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا اور اب تک شام کے معصوم شہریوں پر ان ڈرموں کی بارش کی جارہی ہے جو ان پرتباہی و بربادی لاڈالتی ہیں۔ یہ بیرل دوسرے بموں اور میزائلوں کے مقابلے میں کم قیمت ہوتے ہیں اور حکومتی افواج ان کو دہشت انگیز اسلحے کے طور پراستعمال کرتی ہیں کیونکہ ان کوفضا سے ہیلی کاپٹر کے ذریعےآسانی سے پھینکا جاسکتا ہے اورپھر چشم زدن میں شہریوں پر بلا امتیاز موت چھا جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں اب تک 6000 بیرل بم استعمال کئے گئے ہیں جس کے باعث 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ قرارداد نمبر 2139 جس کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل نے 22 فروری 2014 کومنظور کیا تھا جو اس قسم کے اسلحے پر پابندی عائد کرتی ہے ،کے نفاذ کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کااستعمال برابر جاری رہے گا۔ بشار حکومت کی شام کے مسلمانوں کا خون بہانے کی پیاس بڑھ گئی ہے اور ان ڈرموں کا بہت زیادہ استعمال کررہی ہے اور اب اس کا دائرہ نئے علاقوں تک وسیع کردیا گیا ہے۔ چنانچہ صرف حلب میں ہیومن رائٹس واچ نے 650 حملوں کے اعداد وشمار شائع کئے جن میں ان ڈرموں کواستعمال کیا گیا۔ یہ حملے قرارداد کی منظوری اور 14 جولائی 2014 تک کے عرصے میں کئے گئے۔ اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ریاستوں نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر مشتمل ان رپورٹوں کے حوالے سے بہت محتاط ردعمل دیا اور اس دوران اس کے ایجنٹوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی منظم اور سنگدلانہ کارروائیوں پرمعمولی سی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ان کا وطیرہ یہی رہے گا۔ اسی قابلِ اعتراض خاموشی نے عراق کے اندر فرقہ وارانہ حکومتی نظام کی حوصلہ افزائی کی تاکہ عراق میں بھی شام کی مثال دہرائی جائے۔ چنانچہ عراق کے مختلف علاقوں، فلوجہ سے لے کر کرمہ، تکریت اور بیجی سے لے کرموصل تک میں بڑے پیمانے پر ان دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
یہ امریکہ اور یورپین قائدین کی کھلی منافقت ہے جو شام اور عراق میں ان کے ایجنٹوں کے طرف سے مسلمانوں کے اجتماعی قتل پر خاموشی کی صورت میں ہمیں نظرآتی ہے .....جبکہ غزہ پر بدترین انتقامی حملوں کے دوران یہودی ریاست کو ان کا لامحدودتعاون حاصل رہاہے،ان یہودی حملوں نے انسانوں اور درختوں اور پتھروں تک کو بھسم کر چھوڑا۔ یہ سب کچھ بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانیت کی خیرخواہی اور انسانی زندگی کے احترام کے دعوے مکمل طور پر جھوٹے، کھوکھلے اور گمراہ کن دعوے ہیں جو زمینی حقائق سے کسی طرح میل نہیں کھاتے ۔ مجموعی طور پر ان ممالک کو مسلمانوں کے حقوق اور ان کے خون کے ا حترام کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ بعض اوقات مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں مگر عین اسی وقت وہ اپنے ایجنٹوں اور دوستوں کے جرائم پر چپ سادھ لے لیتے ہیں جب اپنا مفاد پیش نظر ہو.....اس بنا پر موت کے یہ ڈھانچے جو دنیائے اسلام کے اندر بوئے گئے ہیں صرف مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اوران کی قوت کو منتشر کرنے اور ان کے علاقوں کو مختلف ٹکڑوں اور باہمی خون خرابےکے میدانوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہیں تاکہ ان کے ذخائر کو لوٹنے اور ان کے توانائی کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور اس سے بھی زیادہ اہم بات ان کے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری ریاستِ خلافت کے قیام کو روکا یا مؤخر کیا جائے.....وہ ریاستِ خلافت جو ان کے جھوٹ اور فریب کاریوں کو بے نقاب کرے گی، ان کی زبانوں کو لگام دے گی اور ان کے ان جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول کے رکھ دے گی کہ ہم حق، بھلائی، عدل وانصاف اور انسانی احترام کے محافظ ہیں جبکہ دنیا ان کے مظالم اور فساد انگیزیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ مگر ان کی یہ ساری کوششیں ناکام ہوں گی۔ جہاں تک ہم حزب التحریر کی بات ہے تو ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ اب دنیا کی قیادت اور زمام ِ کاراپنے ہاتھ میں لینے کے بہت زیادہ قریب ہے یہ امر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں، حق تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ ط وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
"وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا ،خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے،خواہ مشرکوں کو ناگوار ہی ہو " (الصف :8-9)

Read more...

یورپ کے اندرونی اختلافات، امریکہ-یورپ تعلقات اور ریاست ِ خلافت کا اِن کے خلاف ممکنہ لائحہ عمل


تحریر:کامران شیخ
آج کا یورپ جو یورپی یونین کی شکل میں بظاہر متحد نظر آتا ہے۔ اپنی بنیادوں میں وطن پرستی (Nationalism)، منفعت اور خود غرضی کی اساس پر مبنی سوچ اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کے خون بہا نے و الی جنگوں کا خوفناک ماضی لئے ہوئے ہے۔
یورپی ممالک نے ایک دوسرے کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بالعموم اور بیسویں صدی میں بالخصوص جنگوں کی شکل میں شدید نقصان پہنچایا تھا۔ آخر کار اپنے خونریز ماضی سے پیچھا چھڑانے کیلئے جنگ عظیم دوئم کے بعدیورپ نےمعاشی بنیادوں پر متحد ہونے کا فیصلہ کیا اور 1951 میں European Coal and Steel Community اور 1958ء میں European Economic Community کی بنیاد ڈالی تاکہ یورپ کو معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو انہیں مجبور کردے کہ آپس کے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں اور اپنی عوام، جو کہ صدیوں کی جنگوں اور ناقص معاشی پالیسیوں سے بیزار تھی، کی خوشحالی اور مادی ترقی کے لیے کام کریں۔ شروع میں یورپ کے صرف چھ ممالک فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، اٹلی اور لگسمبرگ نے اِن دو اداروں کی بنیاد ڈالی اور یورپ میں موجود وسائل کو مشترکہ پالیسیوں کے تحت سمیٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یورپ کے باقی ممالک بھی اِن پلیٹ فارمز پر شامل ہونا شروع ہوئے۔ آخر کار سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اور کمیونزم کے زوال کے بعد 15 یورپی یونین کے ممالک نے اِن دو اداروں کو Maastricht Treatyکے تحت 1993ء میں یورپی یونین کی شکل دی تا کہ معاشی فوائد کے علاوہ سیاسی طور پر بھی اس طرح متحرک ہوا جائے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکیں اور اگر ممکن ہو تو دنیا کے افق پر امریکہ کے علاوہ یورپی یونین کو بھی ایک مضبوط سیاسی طاقت کے طور پر منوایا جا ئے۔ اس خواہش کو رکھنے والے ممالک میں یورپ کے دو ستون جرمنی اور فرانس پیش پیش تھے جبکہ موجودہ یورپی یونین میں اب 28 ممالک شامل ہیں۔ ایک اہم بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یورپ کو اکٹھا کرنے کے محرکات معاشی سے زیادہ سیاسی تھے جن میں سب سے اہم یورپ کو دوبارہ جنگوں میں ملوّث ہونے سے روکنا تھا جو بار بار وطن پرستی (Nationalism) اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے پھوٹ پڑتی تھیں۔
1993ء میں یورپی یونین نے اپنے قیام کے بعد قابل ذکر حد تک معاشی ترقی کی اور کئی اقدامات کے ذریعے اپنے آپ کو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر لا کھڑا کیا۔ یورپ کے ممالک کو آپس میں مزید مربوط کرنے کے لیے کئی پالیسیز بھی نافذ کی گئیں جن میں پہلے سے نافذ یورپ کی Singly Market یعنی Free Trade Zone کے علاوہ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک پرداخلی طور پر عدلیہ، تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے لئے یکسا ں قوانین کا نفاذ اور خارجی طور پر لوگوں، services یعنی خدمات، اشیاء اور سرمائے کا بِلا روک ٹو ک تبادلہ یقینی بنانا ہے۔ اس کے ساتھ شنگین ویزہ (schengen visa) نے بھی یورپ کو پوری دنیا کے لوگوں کے لیے توجہ کا ایک بہت بڑا مرکز بنادیا۔ یورپی ممالک، جو اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے، نےاپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معشیت بنانے کے لیے 2002ء میں اپنی ملکی کرنسیوں سے دستبردار ہو کر واحد کرنسی یورو کو اختیار کرلیا۔ اِس وقت یورو زون یعنی یورو کرنسی کو اختیار کرنے والے ممالک کی تعداد 18ہو چکی ہے۔
1993ء میں یورپی یونین کے آغاز کے بعد سے 2007ء تک بین الاقوامی سطح پرمعاشی عناصر (Economic Factors) مستحکم ہونے کی بدولت یورپی ممالک نے معاشی میدان میں خوب ترقی کی گو کہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے یورپ تب بھی امر یکہ کے اثرو رسوخ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، لیکن اِس معاشی ترقی کی بدولت وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید انہوں نے اختلافا ت سے بھر پورماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہے اور اب اُن کی ترقی کا دارو مدار یورپی یونین کے اتحاد پر ہی ہے۔ لیکن 2008ء میں آنے والے معاشی بحران نے جس کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا یورپ کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ ممالک جو منفعت کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے تھے بحران شدید ہوتے ہی دوبارہ اِن اختلافات کی جانب لوٹ آئے جو کہ یونین کی بنیا د وں میں شامل تھی اور جن کی اساس ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف قومی ریاستوں (Nation States) میں بٹے ہونا تھا۔ آئیے اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یورپ کا بحران کس نوعیت کا ہے اور اِس نے کس طرح یورپی ممالک کی بنیادوں میں موجود اختلافا ت کو ایک مرتبہ پھر سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
نومبر 2008ء میں جب عالمی مالیاتی بحران اپنے مرکز امریکہ سے شروع ہوا تو یورپ نے سرکاری طور پر کساد بازاری اور معاشی سکڑاؤ کے شروع ہونے کا اعلان کیا۔ پھر پے در پے اقتصادی اور مالیاتی بحران نمودار ہونے لگے مثلاً سٹاک مارکیٹس کا بحران، کمپنیوں اور بنکوں کا دیوالیہ ہونا وغیرہ۔ پھر اِن ممالک کی طرف سے اِن مالیا تی اداروں کے بچانے کے لیے بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا جو اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ان ملکوں پر بہت بھاری بوجھ بن گیا جس نے بہت تیزی سے Sovereign Debt Crisis یعنی ریاستی قرضوں کے بحران کی شکل لے لی جو تا دمِ تحریر جاری ہے۔ یورو کا بحران اُس وقت نمایا ں ہوا جب بڑی عالمی کرنسیوں خاص کر ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت گرنے لگی اوراس کے بعد ہی Sovereign Debt یعنی ریاستی قرضوں کا بحران شروع ہوا۔ ریاستی قرضے اُس وقت بحران کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جب ایک ریاست کے قرضے اُس کی آمدن اور GDPسے بڑھ جائیں اور وہ ملک اپنے قرضوں کو Treasury Bonds کی شکل میں دوسرے ممالک، بنکوں اور عالمی اِداروں کو جاری کرتا ہے جن پر وہ انہیں شر ح سود بھی ادا کر تا ہے لیکن اگروہ ملک اس قابل نہ رہے کہ بانڈز پر ہر دم بڑھتے سود اور انشورنس ویلیو کی رقم ادا کر سکے جبکہ دوسری طرف وہ اُس قرضے کو بھی ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو اُسکے جاری کردہ Treasury Bonds پر ان ممالک اور مالیتی اداروں کا اعتماد گھٹ جاتا ہے اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں یوں ایسا بحران جنم لیتا ہے جو نہ صرف اس ملک کے پورے اقتصادی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاسی استحکام اور حکومتی پوزیشن کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
یورپ کا یورو زون اُس وقت کے بعد سے شدید متاثر ہوا جب 2011ء میں یونان کے ریاستی قرضوں کے بارے میں یہ خبر عام ہوگئی کہ وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کہ 350 ملین یورو یا 482 بلین ڈالرز کے مساوی تھے۔ یہ قرضے اُس کی سالانہ پیداوار (GDP) سے 160 فیصد زیادہ تھے یہاں تک کہ اس کا بجٹ خسارہ 13.6 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے لیے بجٹ خسارے کی حد 3.5 فیصد ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہوا کہ آخر کار یونان کے وزیر اعظم پاپا نڈریو کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہونا پڑا۔ یہی حال اُس وقت اٹلی کا بھی تھا جب ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی وجہ سے اٹلی کے وزیر اعظم بر لسکونی کو بھی اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی قسم کے بحرانوں کا سا منا یورپ کے مزید ممالک آئرلینڈ، پرتگال اور سپین کو بھی کرنا پڑا حتی کہ Sovereign Debt Crisis نے فرانس جیسے ملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جو یورپی یو نین کا ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ یورو زون کا بھی ایک بڑا ملک ہے۔ آج اس معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے یورپ کو تقریباً 6 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اب تک یورپ اس سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ یونین کے مجموعی فائدے کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہر ملک کا وطنیت اور مفاد کی بنیاد پر سوچنا ہے۔
یورپی یونین کے دو اہم ترین ستون جرمنی اور فرانس ہیں۔ یہی دو ممالک سب سے زیادہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یونین کو ایک مضبو ط بلاک بنائیں تا کہ دنیا میں اپنی سیاسی بر تری کے خواب کو پورا کر سکیں۔ فرانس اور جرمنی دونوںہی یورو زون کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن یوں لگ رہا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے اوراس کو حل کرنے کے طریقہ کار پر ان دو ملکوں میں بھی بنیادی اختلافا ت پائے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اقتصادیات کا موضوع ریاستوں کی بالا دستی کے موضوع سے ٹکرا تا ہے اور اس کی وجہ ان دونوںمما لک کااپنے آپ کو یورپی یونین کے دو بڑے لیڈر سمجھنا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان پس پردہ بالا دستی کی رسہّ کشی چلتی رہتی ہے کہ کون اس اتحاد کے فیصلوں پر اثر انداز ہو گا اور کس کی بات مانی جائے گی۔ فرانس نے ان بحرانوں کے حل کے لیے اقتصادی حکومت بنانے کی پیشکش کی جو ہر ملک پر ایک مخصوص اقتصادی پالیسی نا فذ کرے گی اور ہر ملک اس کا پابند ہو جبکہ جرمنی نے اکنامک مینجمنٹ قائم کرنے کی تجویز دی یعنی ایسا اسٹرکچر اور فریم ورک بنایا جائے جو صرف پابندیاں لگائے اور اقتصادی حکومت بنانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اس سے ہر ملک کو یہ تاثر ملے گا کہ ان کی حکومتوں سے بھی کوئی بڑا ادارہ ہے جو انہیں حکم جاری کرتا ہے اور اس طرح اُنہیں اپنی بالادستی خطرے میں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کی اس تجویز کو پورے یورپ میں پذیرائی نہ مل سکی۔
یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کے کردار کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کے اکٹھا ہونے کے بعد سے بالعموم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد سے بالخصوص پورے یورپ کی منڈیوں سے سب سے زیادہ معاشی فائدہ جرمنی نے اٹھایا اور پورے یورپ کے وسائل کو اپنے اور اپنی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جرمنی معاشی اعتبار سے یورپی یونین اور یوروزون کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ اس کی مضبوط معیشت کا سا را دارو مدار اس کی برآمدات پر ہے جو اس کے GDP کا 40 فیصد ہے۔ جرمنی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ Free Trade Zone ہونے کی وجہ سے 500 ملین سے زائد لوگوں کی ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے جس کی زرعی اور صنعتی پیداوار انتہائی بڑے پیمانے پر تیار ہونے کے بعد ایک وسیع مارکیٹ چاہتی ہیں۔ یورپ کا Free Trade Zone ہونا ہر لحاظ سے جرمنی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جرمنی کی وسیع برآمدات نے یورپ کے تمام ممالک کی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے باعث جرمنی پورے یورپ سے مفادات سمیٹتا ہے۔ دوسری طرف معاشی اعتبار سے یورپ کا سب سے زیادہ مضبوط ملک ہو نے کی وجہ سے یورپین سینٹرل بینک میں نسبتاً سب سے زیادہ حصہ جرمنی کا ہے جس کی وجہ سے اس کے مفادات ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ یورپ میں یورو کی قدریہی یورپین سینٹرل بینک ہی کنٹرول کر تا ہے۔ لہٰذا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر جرمنی سینٹرل بینک میں سب سے بڑا حصہ دار ہے تو وہ اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس طرح وہ اس بینک کے ذریعے پورے یورپ کی مالیاتی پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح جرمنی کو معلوم ہے کہ پورے یورپ کو یورپی یونین کے چارٹر کے تحت جوڑے رکھنے اور انہیں ایک ہی کرنسی کی چھتری تلے جمع رکھنے میں اس کا اپنا ہی مفاد ہے۔ مگر دوسری طرف اس کے معاشی مفادات اور پالیسیاں یورپ کے معاشی بحران کے حل میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ یورپ کا تقریباً ہر ملک ہی جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کا شکار ہے حتی کہ یورپ کا دوسرے بڑے ملک فرانس کے بھی اربوں یورو جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کی وجہ سے ڈوب چکے ہیں یہی تجارتی خسارہ ان ممالک کے بجٹ میں بجٹ خسارے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف یورپین سینٹرل بینک میں جرمنی کا اثر و رسوخ بھی دوسرے ممالک کے معاشی معا ملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرمنی یورپی یونین کو مزید کمزوری سے بچانے کے لیے یورپی ممالک کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نکالنا بھی چا ہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ اپنے ریاستی مفادات کسی صورت داؤ پر نہیں لگا نا چاہتا۔ جرمنی کی طرف سے یورپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) یورپی یونین قانون سازی کے تحت برسلز جو کہ یورپی یونین کا بیلجیم میں دارالحکومت ہے کو یورپی سینٹرل بینک کے ذریعے یہ اختیار دے کہ وہ اُن تمام ممالک کے بجٹ کو، جو ریاستی قرضوں کے بحران کا شکار ہیں، کنٹرول کر سکے۔
2) ایسے ممالک ہر صورت اپنی مالیاتی پالیسی میں سادگی کے اصول اختیار کرنے والے اقدامات اپنائیں یعنی ریاستی اخراجات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں پر اُٹھنے والے خرچوں کو کم کریں۔
3) یورپی یونین کی طرف سے مقروض ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر کوئی مدد فراہم نہ کی جائے۔
4) ریاستی قرضوں میں ڈوبے ممالک کے یورپی یونین کے الیکشن میں، جو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، ووٹ ڈالنے کا اختیارمنجمد کر دیا جائے۔
5) ایسے ممالک سادگی کے اصولوں کے تحت اپنے عوام کی تنخواہوں کی سطح کو کم کریں۔
6) بجٹ کو بڑھانے کے لیے بجٹ خسارے کی اجازت دینے والے ممالک کی مالی مدد بند کر دی جائے۔
7) ہر ملک اپنے آئین میں بجٹ خسارے کی حد مقرر کرے تاکہ نادہندہ ہونے کی صورت میں اُسے یورپی یونین سے نکلنا نہ پڑے۔
لیکن یورپی ممالک کی حکومتیں جرمنی کی ان تجاویز کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف تو عوامی ترقیاتی منصوبوں پر رقم کم کرنے اور عوام کی تنخواہوں کو کم کرنے سے انہیں اپنے ہی ملک میں اپنی عوام کی مخالفت مول لینا پڑے گی دوسری طرف انہیں 2009ء میں طے پانے والے لسبن معاہدہ (Lisbon Treaty) میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ لسبن معاہدہ یورپی یونین پر حکمران ہے اور یورپی ممالک ان پر پہلے ہی بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے اور اپنے قومی مفادات کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھے۔ پھر یہ تجاویز کسی بھی ملک کے اقتدار اعلٰی(Sovereignty) میں براہ راست مداخلت تھیں جس کے لیے یورپی ممالک کبھی بھی متفق نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اب تک یورپی یونین اس بحران سے نکلنے میں ناکام نظر آتی ہے کیونکہ ہر ریاست یونین سے بڑھ کر اپنے مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔
جہاں تک Austerity Measures یعنی سادگی پر مبنی اقدامات کی بات ہے تو مقروض ممالک ایک حد سے زیادہ سادگی اپنا نے کے لیے تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنی عوام پر مزید ٹیکسوں سمیت کئی ایسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو اُن کی حکومت کو انتہائی غیر مقبول بنادیں گے۔ ان مقروض ممالک کا کہنا ہے کہ چونکہ یورپ کے امیر ممالک نے یورپی Free Trade Zone اور دوسری پالیسیوں کے تحت یورپ کے وسائل کو زیادہ استعمال کیا ہے لہٰذا ریاستی قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے بڑے ممالک ہی ان قرضوں کا بوجھ اٹھائیں اور قرضوں میں پھنسے ہوئے ممالک، جن میں یونان، اٹلی، پرتگال، آئر لینڈ اور سپین سرفہرست ہیں، کو مزید قرضے بھی دیتے رہیں تا کہ یہ مما لک defaultنہ کریں اور یورپی یونین کو مزید خطرے سے بچائیں۔ لیکن امیر ممالک خصوصاً جرمنی جو پہلے ہی بہت قرضے دے چکے ہیں مزید ایسے قرضے نہیں دینا چاہتے جن کی واپسی کی کوئی امید نہ ہو بلکہ وہ مقروض ممالک کو سادگی پر مبنی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہر ملک کے اندرطبقاتی فرق (Class difference) بھی شدید اختلا فات کا باعث بن رہا ہے۔ ہر ملک کانچلا اور درمیانہ طبقہ (Lower and Middle class) یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جو اس بحران کے سبب پہلے ہی بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور ٹیکسوں کے بوجھ کا شکار ہیں، سادگی پر مبنی اقدامات کا نشانہ بھی وہی بنیں گے اور اشرافیہ کو اس کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ملک کی اشرافیہ کو ہی اس کا بوجھ اٹھانا چاہیے جنہیں پہلے ہی حکومتوں نے کئی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ کئی ممالک کے عوام یورپی یونین کو ہی اپنے مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس یونین سے بڑے ممالک ہی فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں یونین سے نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی ہیں۔
جرمنی ایک طرح سے شدید مخمصے اور کشمکش کا شکار ہے۔ اگر قرضوں میں ڈوبے تمام ممالک سادگی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تو اس سے جرمنی کی برآمدات، جو اس کی معیشت کے لیے آکسیجن اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، پر شدید ضرب پڑے گی کیونکہ ان اقدامات سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ لہٰذا جرمنی نہ چاہتے ہوئے بھی ان ممالک کو یورپین سینٹرل بینک کے ذریعے قرضے جاری کرواتا رہتا ہے تاکہ ان ممالک میں جرمنی کی مصنوعات کے لیے طلب اور قوت خرید دونوں برقرار رہیں۔
جرمنی نے قرضوں میں پھنسے ممالک کی مدد کے لیے قائم کردہ فنڈ European Stabilization Fund میں بھی اپنا حصہ 450 بلین یورو سے بڑھا کر 1000 بلین یورو کر دیا ہے۔ پھر اس نے کچھ عرصہ قبل سپین کی بیمار معشیت کو بھی 100 بلین یورو کا قرضہ دیا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جرمنی اس یونین کو بچانے کے لے سر توڑکوششیں کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک ملک بھی defaultکر گیا تو اُسے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا اور اگر ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو جرمنی بھی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا اور یونین کے وجود کو شدید خطرات سے دو چار کردے گا۔ لیکن جرمنی یہ بھی چاہتا ہے کہ باقی ممالک اپنے بجٹوں کو منظم کریں اور ریاستی قرضوں کے بحران سے خود چھٹکارا پائیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور یورو کرنسی بدستور خطرے میں ہے۔ جرمنی کی چا نسلر انجیلا مر کل نے یوروزون کے مستقبل کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے تاکید سے کہا تھا کہ ''جرمنی نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ ہو کیو نکہ ایک کے دیوا لیہ ہونے کامطلب ہے سب کا دیوالیہ ہونا''۔ پھر ایک موقع پر اپنی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے مشکل ترین دورسے گزر رہا ہے اگر یورو ناکام ہوگیا تو یورپ ناکام ہو جائے گا"۔
جرمنی کی طرف سے بکثرت تجاویز، یورپین سٹیبلائزیشن فنڈ میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ کے ساتھ سا تھ یورپ، یورپی یونین اور یورو کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نجات دلانا چاہتا ہے اس بات کو جانتے ہوئے کہ یورو یورپی یونین کی کامیا بی کا راز ہے اور یورو کا زوال یورپ کا زوال ہے۔
اس بحران کے سیاسی اور معاشرتی منفی اثرات بھی یورپ پر کم نمایاں نہیں۔ جیسے پہلے بات ہوئی کہ ہر ملک اس بحران کی قیمت چکانے کے لیے متوسط درجے اور اشرافیہ کے طبقات میں تقسیم ہے جبکہ دوسری طرف یورپ میں بے روز گاری کی شرح ہر دم بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں یورپ میں بے روز گاری کی شرح کی اوسط 11.6 فیصد تھی جبکہ 11 ممالک میں یہ شرح 10-17 فیصد اور دو ممالک سپین اور یونان میں بالتر تیب 25 اور 26.5 فیصد ہے۔ بے روز گاری کی یہ شرح کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملک کے لیے خطرناک قرار دی جا سکتی ہے۔ اس بے روز گاری کی وجہ سے یہ ممالک بہت سے دوسرے معاشرتی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں جبکہ سیاسی طور پر اس صورتحال کا الزام یورپی یونین کے سر تھوپتے ہیں۔
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے جو کہ اس اتحاد کا بڑا اہم رکن ہے تو وہ اٹلانٹک کارنر کے ایک مقام پر کھڑا یورپ کی حالت زار کا تماشہ دیکھ رہا ہے اوراپنے آپ کو اتحاد کی تباہی اور اس مالیاتی بحران جس کا وہ خود بھی شکار ہے، کے نتائج سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن وہ اتحاد کی مشکلات کو حل کرنے میں اس قدر دلچسپی نہیں لے رہا جس قدر وہ مفادات اور غنائم کی تاک میں بیٹھا ہے۔ چونکہ وہ یوروزون میں داخل ہی نہیں ہوا لہٰذا اپنی کرنسی پاؤنڈ سٹرلنگ سے دستبردار نہیں ہوا اور یورو کو اختیار کرنے میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کرتا اس لیے یورو کا معاملہ اس کے لیے کسی اہمیت کا حا مل نہیں۔ برطانیہ کے اندر بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو یورپی یونین سے علیحدگی کی باتیں کرتی ہیں تاکہ کوئی اس پر یورو کو اپنانے کے لیے دباؤ نہ ڈالے۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک موقع پر کہا کہ ''یورو اجتماعی حماقت ہے اور وہ بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا''۔ پھر یورو زون کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک ایسی جلتی ہوئی عمارت ہے جس میں آگ سے بچ نکلنے کے دروازے ہی موجود نہیں"۔ ایک اور موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''یورو بحران صرف یورپی معیشت کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کے گھنٹی ہے''۔ یورپ کے سیاستدانو ں کو برطانیہ کی دوغلی پالیسی اور بدیانتی کا علم ہے چنانچہ یورپی کمیشن کے سابق صدر باروسو نے یہ کہتے ہوئے اشارہ کیاکہ ''ان اتحادی ممالک کو چاہیے کہ جو یورو میں شامل ہونے کی تائید نہیں کرتے کہ وہ اُن ممالک کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کریں جو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں''۔
اس سب کے باوجود جب تک یہ یونین قائم ہے برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اس سے وہ سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرتا ہے۔ برطانیہ عا لمی سطح پر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کو اس بات کی طرف کھینچتا ہے کہ وہ عالمی امور پر اس کے مفاد کے مطابق رائے اختیار کرے بلکہ یورپی یونین سے سے نکلنا اس کے لیے نقصان دہ ہوگا اسی لیے وزیر اعظم کیمرون نے یہ کہتے ہوئے وضاحت کی کہ ''یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں جس وقت ہم یورپی یونین سے نکلے ہمارے حالت ناروے کی طرح ہو جائے گی یعنی برسلز سے ہونے والے ہر فیصلے سے ہم متاثر تو ضرور ہوں گے لیکن کسی فیصلے میں شریک نہیں ہوں گے''۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کی بالادستی سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار نہیں جب اُس نے کہا کہ ''برسلز میں یورپی کمیشن کے اختیارات کے بڑے حصے کو قومی حکومتوں کو دے دینا چاہیے''۔ یوں برطانیہ یورپی یونین سے نکلنا بھی نہیں چاہتا جبکہ یورو زون میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتا۔
یورپی یونین کا 28 ممالک میں بٹے ہونا اور اس میں ایک مضبوط سیاسی لیڈر شپ کا نہ ہونا اس کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور فوجی محاذ پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یورپ کی فوجی طاقت کو امریکہ نیٹو کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ2000 ء سے بڑے یورپی ممالک، جن میں جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین شامل ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یورپین آپریشنل ہیڈ کوارٹر قائم کیا جائے جس کے تحت علیحدہ یورپین فورس بنائی جائے جو کہ نیٹوسے علیحدہ اور امریکی اثر سے آزاد ہو اور یورپ کے سیا سی اور فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ لیکن اب تک اس ارادے کو کمزور یورپی سیاسی قیادت کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا کیونکہ دوسری طرف برطانیہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کر رہا ہے کیو نکہ وہ سمجھتا ہے اس طرح یورپ پر اس کا اثر ورسوخ کم ہو جائے گاجبکہ وہ ہر حالت میں یورپ پراثرو رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی طرف سے تازہ ترین کوشش 2011ء میں کی گئی جب پانچ یورپی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور پولینڈ نے ایک خفیہ مراسلہ یورپی یونین کی وزیر خارجہ Lady Ashton کو ارسال کیا جس میں اُسے برطانیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے آپریشنل ہیڈ کوارٹر بنانے کی ہدایت کی گئی اور یقین دلایا گیا کہ اُسے ان ممالک کی طرف سے ہر ممکن تعاون دستیاب ہوگا۔ لیکن یہ خفیہ مراسلہ منظر عام پر آگیا اور برطانیہ نے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں اسے ویٹو کرنے کی دھمکی دیدی۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں برطانیہ کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو ہر صورت یورپی یونین کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یورپ صرف نیٹوکی شکل میں ہی مشترکہ فوجی صلاحیت رکھے جس کا فائدہ صرف امریکہ ہی اٹھاتا رہے۔ دوسری طرف امریکہ نے یورپ کی کئی ریاستوں خاص طور پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر فوجی معا ہد ات کر رکھے ہیں۔ وہ ان معاہدات کے ذریعے اُن کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا دلاسہ بھی دیتا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یورپ کی یہ ریا ستیں جو خود بھی یورپی یونین کا حصہ ہیں یورپ کی علیحدہ فورس بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ یوں یورپ کے بٹے ہونے اور مضبوط سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یونین اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔ اس بات پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی کمیشن کے سابق صدر Prodi نے کہا کہ ''یورپ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اپنے معاشی معاملا ت تو خود سنبھالے جبکہ سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ کے حوالے کردی جائے''۔
یورپ کا توانائی کی ضروریات میں خود کفیل نہ ہونا بھی اسے بہت کمزور کرتا ہے، خاص کر گیس کے معاملے میں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کا صرف 35 سے 40 فیصد خود مہیا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے جو یورپ کو خطرناک حد تک روس کا محتاج بنادیتا ہے۔ اس محتاجی کے باعث یورپ روس کی 2008ء میں جارجیا اور 2014ء میں یوکرائن کے خلاف جارحیت کے خلاف چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا اور روس نے گیس کے کارڈ کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ کو بے بس کر دیا۔
یونین کی ان تمام کمزوریوں اور موجودہ معاشی اور ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی بے روز گاری اور دوسرے مسائل یورپ کی عوام کی رائے یونین کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت پچھلے ماہ بر طانیہ اور فرانس میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تھے جن میں لوگوں نے اُن جماعتوں کو ووٹ دیا جویورپی یونین کو اپنے ممالک کی ترقی کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں اور یونین کے زیادہ تر اختیارات ریاستی حکومتوں کو دلوانا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کو ملنے والی سیٹیں اب تک ہونے والے تمام انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں گو کہ اسکے باوجود یورپی یونین کے ٹوٹنے کا فی الفور خطرہ نہیں لیکن انتخابات کے نتائج یونین کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یورپ کے دانشور اور مفکرین ان الیکشن کے نتائج کے یورپی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ووٹ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذ یورپی یونین کی 2008ء تک کی معاشی کامیابیاں جس نے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا تھا کہ یورپی یونین آنے والے سالوں میں کیا کچھ بن سکتی ہے، اس کی حالیہ ناکامیوں نے اس سوال کو تبدیل کر کے ایک نیا سوال ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے کہ ان بحرانوں اور کمزور عوامی حمایت کے ساتھ یہ یونین کب تک قائم رہ سکتی ہے۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یورپی یونین محض مفادات کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے ممالک کا اتحاد ہے یہ ایک مضبوط سیاسی وحدت(political entity) نہیں بلکہ 28 ریاستوں کا ایک غیر فطری اتحاد ہے جو اپنے اندر کئی کمزوریاں رکھتا ہے جس میں سب سے اہم قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اسے کبھی ایک مضبوط سیاسی قوت نہیں بننے دے گا۔
آئیے اب کچھ بات امریکہ کے حوالے سے ہو جائے۔ امریکہ کسی ایسے بلاک یا نظر یاتی ریاست کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو چیلنج کرے۔ ہم آنے والی نظر یاتی ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے تو امریکی کوششوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں، آیئے دیکھتے ہیں کہ خود اپنی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کے باوجود یہ یورپ کو کس طرح کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں ایک مضبوط بلاک کی شکل میں ابھر نے نہیں دیتا۔
معاشی طور پر امریکہ نے یورپ کے بحران سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف تو اسے یہ موقع ملا کہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی مالی اور اقتصادی بدحالی سے ہٹائے اور ان کی نگاہ اس حقیقت سے پھیر دے کہ اس بحران کی اصل وجہ وہ خود ہے۔ دوسری طرف اس نے یورپ کے عوام کا یونین کے اتحاد اور یورو کرنسی پر کم ہوتے اعتماد کو مزید کم کرنے کے لیے یورپ کی معاشی مدد سے انکار کر دیا تاکہ امریکہ اور ڈالر کے مقابلے میں یورپ اور یورو کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ پائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ اس کے زیرِ دست رہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس کی اُس قدر ہی مدد کرتا ہے کہ وہ اس کے ماتحت رہے۔ امریکہ نے دو سال پہلے یورپ کی درخواست کے باوجود ریاستی قرضوں کے بحران میں مدد کے لیے آئی ایم ایف میں اپنے فنڈز کو دوگنا کرنے سے انکار کر دیا تاکہ یورپ اس بحران سے نکل نہ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہور کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں جیسے Standards and Poor's اور Moody's and Fitch وہ امریکی کمپنیاں ہیں جو یورپی ممالک کی معاشی حالت کو مزید ڈانوا ڈول کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں، چنانچہ ان کمپنیوں نے سپین، یونان، اٹلی، پرتگال کے ساتھ ساتھ 21 یورپی بینکوں کی درجہ بندی میں کمی کردی۔ ان بینکوں میں یورپ کے کئی بڑے بینک بھی شامل ہیں جس نے یورپ کو مزید مالی مشکلات سے دو چار کردیا۔ اس کے علاوہ امریکہ ریاستی اور فوجی اعتبار سے بھی یورپ کو کمزور اور تقسیم رکھنے کی کوشش مندرجہ ذیل ذرائع سے کرتا ہے:
1) نیٹو کو قائم رکھ کر جو کہ سوویت یونین کی expansion policy کو مدِ نظر رکھ کریورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے 1949ءمیں بنائی گئی تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اصولی طورپر اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر اس کو ختم نہ کرنا اور اس کو اپنی قیادت میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔ اسی نیٹوکو وہ ایک طرف اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے بہانے یورپ کو اپنی علیحدہ فورس بنانے نہیں دیتا۔
2) برطانیہ، جو کہ مکمل طور پریورپی یونین میں شامل نہیں ہونا چاہتا بلکہ اپنا آزاد اور بالادست و جود قائم رکھنا چاہتا ہے، اپنا مفاد یورپ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کا ساتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس وجہ سے وہ یونین کے اندر تقسیم اور اختلاف کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ چیز امریکی مفادات کا تحفظ جو کمزور یورپی یونین سے جڑا ہوا ہے یقینی بناتی ہے۔
3) مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو 2003ء میں یورپی یونین میں شامل ہوئے تھے جن میں پولینڈ، بلغاریہ، چیک ریپبلک، ہنگری، رومانیہ اور دوسرے شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر ممالک کے ساتھ امریکہ کے فوجی و سکیورٹی معاہدات ہیں جو ایک طرف یونین پر امریکی اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان ممالک کو یونین کی علیحدہ فورس بنانے کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔
4) امریکہ دنیا میں زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہےاور یہ چیز یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں پر گہرا اثر و رسوخ بھی دنیا بھر کی تجارت اور دوسرے معا ہدات میں یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے غلبے کو یقینی بنا تا ہے۔
ان وجوہات کی بناہ پر امریکہ کا یورپ پر پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے گو کہ امریکہ خود بھی شدید اقتصا دی بحران کا شکار ہے۔ امریکہ میں بھی بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے تیس ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر دو وجوہات کی بنیاد پر امریکہ کی ریاست کو یورپی یونین کے مقابلے میں ٹوٹنے کا خطرہ نہیں۔
1) امریکہ کی فیصلہ سازی یورپی یونین کی طرح 28 ممالک میں تقسیم نہیں بلکہ تمام فیصلے واشنگٹن ڈی سی میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ امر اُس کی سیاسی طاقت کو تقسیم نہیں ہونے دیتا۔
2) امریکہ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کوئی نظریاتی ریاست فی الحال موجود نہیں۔
اس کے باوجود یورپ جب اور جہاں موقع پائے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ امریکہ نے جب چا ہااقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے اپنے مفادات اور منصوبوں کے مطابق قرار دار کو پاس کروا لیتا چاہے وہ کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگانے کا معاملہ ہو یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا۔ مگر2003ء میں فرانس اور جرمنی نے عراق کے خلاف سکیورٹی کونسل کو امریکہ کی حمایت کرنے اور دنیا کو عراق پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہونے سے روک دیا۔ فرانس نے با لخصوص ایسی مہم چلائی کہ ایک طرف تو سکیورٹی کونسل نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ جب امریکہ نے اکیلے ہی عراق پر چڑھائی کی تو فرانس نے امریکہ کو ایک ایسی ریاست کے طورپر مشہور کیا جو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے اور اپنے غرور میں کسی اصول اور ضابطے کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس طرح پوری دنیا میں امریکہ کا image متاثر ہوا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ گو کہ امریکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر بعض یورپی ممالک اہم مواقع پر اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے، واپس بلوا کر یا فوجیوں کو نہ بھجوا کر اہم مہمات میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیٹو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ عراق کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے علاوہ کوئی دوسرا یورپی ملک شامل نہ ہوا۔ جبکہ افغانستان کے خلاف جنگ میں گو کہ یورپی ممالک شروع میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے ساتھ شامل تھے لیکن پچھلے چار سے پانچ سالوں میں یورپی ممالک کی اس حمائت میں واضح کمی آئی ہے بلکہ کئی ممالک نے تو اپنی پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملنے کے بہانے کو استعمال کرتے ہوئے سرے سے فوج بھیجنے سے ہی انکار کر دیا جبکہ برطانیہ سمیت چند ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنے فوجیوں کی تعیناتی افغانستان کے اُن اضلاع میں کرواتے ہیں جہاں طالبان کا خطرہ کم سے کم ہے اور خطر ناک علاقوں میں زیادہ تر امریکی افواج کو ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ میں نیٹو افواج کی بجائے امریکی افواج کی اموات زیادہ ہیں۔
یورپ عام طور پر امریکی انتخابات والے سال بھی امریکہ کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ تمام امریکی حکومتیں انتخابات والے سال کسی نئے مسئلہ یا تنازع میں الجھنا نہیں چاہتیں تاکہ آنے والے انتخابات میں اُن کی ساکھ متاثر نہ ہو اور اس صورت حال کا فائدہ مضبوط یورپی ممالک اٹھاتے ہیں اور انتخابات والے سال مختلف انداز سے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری گفتگو سے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کے تمام علمبرداروں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ تمام ممالک ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود جس نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) پر یقین رکھتے ہیں وہ ان میں صرف مادیت اور منفعت کے حصول کی لالچ ہی پروان چڑھاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے بھی صرف فائدے کی بنیاد پر ہی رشتہ استوار کرتے ہیں اور فائدے کے حصول کی خاطر یہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے بھی نہیں چوکتے اور ان کے دل آپس میں ٹکراتے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) سے پھوٹنے والے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ نظام جو خود شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان ممالک کی بنیادوں میں شدید کمزوریاں پیدا کرچکا ہے۔ آج اگر کمی ہے تو صرف ایک ایسی ریاست کی جو حق نظریہ حیات (آئیدیالوجی) کی بنیاد پر وجود میں آئے اور ان کی کمزوریوں کو سیاسی بصیرت کے ذریعے مکمل ناکامی میں بدل دے۔ آج پوری دنیا کو ریاست خلافت کی ضرورت ہے جو اسے کفر کے اندھیرے سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے۔ ان کے آپس کے اختلافا ت اور ان کے نظام کو بار بار بحران سے دو چار ہوتا دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کےاِذن سے قائم ہونے والی خلافت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔ خلافت کے قیام سے پہلے ہی الحمد اللہ ان ممالک کے عوام اور کئی دانشو ر اور مفکرین اپنے نظام کی خامیوں کے خلاف احتجاج کرتے اور تحریر یں لکھتے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کسی دوسرے نظریہ حیات (آئیڈیا لوجی) کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی باطل نظام سے حل ڈھونڈھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انشا ء اللہ خلافت کے قیام کے ساتھ ہی خلافت کی قیادت اور ہزاروں سیاست دان جو کہ تیار بیٹھے ہیں اسلام کی دی ہوئی ہدایت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے وہ اقدامات کریں گے جو انشا ء اللہ کفار کے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کو مزید ناکامی سے دو چار کرنے اور اسلامی نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کو اس پر غالب کرنے میں زبر دست کامیابیاں سمیٹ سکیں۔
خلافت اپنے قیام کے ساتھ ہی مضبوط میڈیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے شباب چاہے وہ یورپ میں ہوں امریکہ، مشرقی وسطیٰ یا کہیں بھی، کے ذریعے سر مایہ دارانہ نظام کی غلاظت اور باطل فکر کو دنیا کو لوگوں پر بے نقاب کرے گی اور اسلامی ریاست کے اندر اسلام کے قوانین اور نظاموں سے پیدا ہونے والے ثمرات اور خوشحالی کی تصویر انہیں دکھائے گی جو یقیناً ان لوگوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کے خلاف نفرت بھی پیدا کرے گی اور یاد رہے کہ اس سے پہلے سوویت یونین بھی ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ایسا کر چکا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوویت یونین کے پرو پیگنڈا نے ہی ان ریاستوں کومجبور کر دیا تھا کہ اپنی آئیڈیالوجی میں فلاحی ریاست (welfare state) کے تصور کا پیوند (patchwork) کریں تاکہ پرو پیگنڈا سے متاثر ہوتی عوام کو مطمئن کرسکیں۔
ریاستِ خلافت اپنی خارجہ پالیسی اور اسلام کے حکم کے مطابق دوسرے مسلم علاقوں کو اپنے اند ضم کرنے کا عمل تیز کرے گی اس عمل میں وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں اسلام کے حق میں موجود عوامی رائے عامہ، شباب اور اہل قوت میں ہونے والا کام انتہائی مدد گار ثابت ہوں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان علاقوں کو اسلامی ریاست اپنے اندر ضم کرنے کے بعد یہاں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی براہ راست مالک ہوگی اور یہ چیز اسلامی ریاست کو دنیا کے باقی ممالک پر زبر دست برتری دلائے گی۔ اسلامی ریاست یورپ سمیت باقی دنیا کے وہ ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہونے کی وجہ سے غیر حربی ہیں تیل اور گیس فراہم کرنے کی پالیسی کے تحت امریکہ اور گنتی کے چند یورپی ممالک کے تسلط سے نجات دلائے گی اور ان کے کیمپ سے نکالے گی۔ اس کے لیے وہ ان ممالک سے مختصر مدتی معاہدات بھی کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ یورپ آج کے روس جو اب نظریاتی ریاست نہیں رہا، کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکا جب روس نے جار جیا اور یوکرائن کے خلاف جارحیت کی کیونکہ یورپ روس کی گیس کا محتاج ہے تو کل آنے والی نظر یاتی ریاست خلافت کی پھیلنے کی پالیسی (expansion policy) کے خلاف یورپ یا امریکہ کا برا ہ راست سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان دکھا ئی نہیں دیتا اور اگر ایسا خطرہ ہوا بھی تو خلافت بھاری صنعت اور فوجی میدان میں تیز تر ترقی اور پہلے سے موجود زبر دست افواج اور ان میں موجود جذبہ جہاد کے ذریعے اس سے نپٹنے کے لیے تیار ہو گی۔
یہ اسلامی ریاست ہی ہوگی جو اِس وقت دنیا پر نافذ ڈالر کی حکمرانی کا خاتمہ کر دے گی کیو نکہ اسلامی ریاست ہی سونے اور چاندی کی کرنسی کا اجرا ء کرے گی۔ صرف یہی کرنسی آج ڈالر کی طلب کو کم کر سکتی ہے کیو نکہ دنیا خود بھی جانتی ہے کہ اصل دولت کاغذی کرنسی نہیں بلکہ سونا اور چاندی ہے۔ اسلامی ریاست اور خاص کر وسیع ہوتی اسلامی ریاست میں اس کرنسی کا نفاذ دنیا میں امریکہ اور ڈالر کی سیاسی اورمعاشی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچائے گا اور اس سے دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کم کرنے میں زبر دست مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے امریکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس کی 30 ریاستوں کے اندر وفاق سے علیحدہ ہونے کی خواہش کے عمل کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ عمل بہت تیز نہ بھی ہو تو بھی امریکہ کی توجہ بیرونی محاذوں سے ہٹاکر اندرونی مسائل کی طرف موڑنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ دوسری طرف کئی مسلم علاقے جن میں آج امریکی اڈے موجود ہیں اور دنیا میں امر یکی بالادستی کا ذریعہ ہیں، اسلامی ریاست میں ضم ہو کر امریکی ٹھکانے نہیں رہیں گے۔ امریکہ سے اس کے اڈوں کا اس طرح چھن جانا دنیا پر اس کی بالا دستی کو انشا ء اللہ و اپسی کے سفر پر گامزن کر دے گا۔
دوسری طرف وہ غریب ممالک جو مسلم علاقے نہیں ہیں، اسلامی ریاست اپنی expansionپالیسی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے اور بعض اوقات محض امداد دے کر عالمی بینک، آئی۔ ایم۔ ایف اور امریکی تسلط سے نجات دلائے گی اور ان میں اسلامی ریاست سے ہمدردی اور دوستی کے جذبات پیدا کرے گی۔ اس طرح پوری دنیا کو باطل آئیڈیالوجی کے علمبردار وں سے آہستہ آہستہ کاٹنے کے عمل میں مدد ملے گی۔
یہ سارے اقدامات گو کہ زبر دست سیاسی بصیرت کے متقاضی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ آنے والی خلافت کی قیادت اسلام کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس سیاسی بصیرت کی حامل ہے اور اس قیادت کی نگرا نی میں تیار ہونے والے ہزاروں لاکھوں فرزندانِ اسلام پوری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے اور انسانیت کو ہدایت اور فلاح کے راستے پر گامزن کرنے کےلیے بے چین بیٹھے ہیں۔
اللہ ربّ العزت اس قیادت اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Read more...

اوباما کے استعماری اتحاد میں شامل ہونا جرم ِعظیم اور عظیم ترین غداری ہے ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾ "عنقریب مجرموں کواپنی سازشوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ذلت اورشدید عذاب سے دوچار ہو


بدھ 10 ستمبر 2014 کو اوباما نے آئی ایس آئی ایس تنظیم (داعش) اور دہشت گردی کا بہانہ بنا کر خطے کے لیے قاتل استعماری اتحاد کی قیادت کے اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا.....اس سے پہلے امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری کہہ چکا ہے کہ اس اتحاد میں چالیس ممالک شامل ہوں گے اوریہ منصوبہ مہینوں نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہو گا، امریکہ عراقی فوج کو تربیت دے گا اور اسے مسلح کرے گا اور معتدل اپوزیشن کی مدد کرے گا ! اوباما اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جمعرات 11 ستمبر 2014 کو امریکی وزیر خارجہ کیری کی سربراہی میں خطے کے اسلامی ممالک کا اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا۔ اس اجلاس میں سعودی عرب، اردن، مصر، لبنان، ترکی، عراق اور خلیج کے چھ ممالک شامل تھے.....جہاں تک ایران کا تعلق ہے جو اس اجلاس میں نہ ہونے کے باوجود موجود تھا اور وہی عراق، شام حتی کہ لبنان کی تباہی کا اصل ذمہ دار ہے، اُس کو اِس اتحاد میں اعلانیہ شامل ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اُس کے اور امریکہ کے درمیان گٹھ جوڑ افغانستان اور عراق پر قبضے کے وقت سے ہی قائم ہے جو کبھی پسِ پردہ ہو تا ہے اور کبھی کھلے عام۔ اس کے علاوہ کل ہی خامنائی نے آئی ایس آئی ایس تنظیم (داعش) کے خلاف لڑنے میں امریکہ کے ساتھ ساز باز کی حمایت کا اعلان کر دیا ! اور اس اعلان کی خبر کچھ نیوز ایجنسیوں نے 5 ستمبر 2014 کو ہی نشر کردی تھی .....اس طرح جان کیری اسلامی خطے میں اوباماکے اتحادی آلہ کاروں کی قیادت کر رہا ہے جو کہ نکمّے حکمران ہیں اور شرم و حیا سے عاری ہیں بلکہ اس اتحاد کی تشکیل اور اس کے آلہ کار بننے کے لیے امریکہ سے التجا کر رہے ہیں! رسول اللہﷺ نے سچ فرمایا ہے : ((إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) "جب تم میں شرم نہ رہے تو جو چاہو کرو" (بخاری نے ابو مسعود سے روایت کیا ہے)۔
اے مسلمانو! اس اتحاد کے لیے امریکہ نے جو بہانہ تراشا ہے وہ عذر لنگ اور ایک جھوٹ ہے.....جو کوئی دہشت گردی کے خلاف لڑے اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اس کے ہاتھ صاف ہوں نہ کہ وہ خود دہشت گردی کے درخت کی جڑ ہو، اس کی آبیاری کرنے والا اور اس کی پرورش کرنے والا ہو! افغانستان، عراق میں شرمناک قتل و غارت اور بگرام، ابوغریب اور گونتاناموبے میں رسوائے زمانہ تشدد کی پشت پناہی کرنے والا کون ہے؟ کیا یہی امریکہ نہیں ؟ پھر برما اور وسطی افریقا میں مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام جس سے جنگل کے درندے بھی کانپ اٹھیں، کیا یہ دہشت گردی نہیں جو امریکہ سن اور دیکھ رہا ہے بلکہ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ برمی حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر حملوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برما کے درمیان اقتصادی تعاون میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے .....اس کو ہم کیسے نظر انداز کریں ؟ شام کے سرکش بشار الاسد کی جانب سے کی جانے والی قتل و غارتگری کی مہم کا پشت پناہ کون ہے ؟! جس کے جرائم نے انسانیت سے بڑھ کر شجر اور حجر کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ اس لیے کہ امریکہ اس کا متبادل ایک ایسا ایجنٹ تیار کر رہا ہے جس کا منہ اس کے موجودہ ایجنٹ بشار سے کم کالا ہو جبکہ بشارکا کردار اب ختم ہو نے والا ہے .....پھر کوئی عقل والا صاحب بصیرت و بصارت شخص ایسا ہو سکتا ہے جو امریکہ کی طرف سے ایک مسلح تنظیم سے لڑنے کے لیے چالیس ممالک کے اتحاد کی سچائی کو ذرہ برابر تسلیم کر لے بلکہ صرف وہ شخص اس کی تائید کر سکتا ہے جس کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہو بلکہ وہ مکمل اندھا ہو ؟ اب معاملات خفیہ اورچھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ سازشیں دن دھاڑے ترتیب دی جارہی ہیں.....!
اے مسلمانو ! یقیناً خطے کے لیے اوباما کا قاتل استعماری منصوبہ امریکی اثر ونفوذ کو ایک ایسے کھلے دروازے سے داخل کر نے کے لیے ہے جس کو غدّار مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں کھولا جارہا ہے جو اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں سے حیا نہیں کرتے۔ پہلے امریکی اثرونفوذ ایسے چور دروازوں سے داخل ہوا کر تاتھا جن دروازوں کی نشان دہی امریکہ کے لیے یہ غدار مسلم حکمران خفیہ طور پر کیا کرتے تھے لیکن اب تو یہ ایسے دروازوں سے داخل ہو رہا ہے جس کو یہ حکمران، کسی شرم و حیا کے بغیر، اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھول رہے ہیں.....! اوباما کا اتحا د دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے نہیں بلکہ دو مقاصد کی خاطر خطے پر کنٹرول حاصل کر نے کے لیے ہے: پہلا مقصد، خطے کے کالے سونے (یعنی تیل) کی یقینی اور مسلسل فراہمی اور اس کو امریکی اسٹوروں میں بھر نے کے سلسلے کو جاری رکھنا ہے جبکہ دوسرا مقصد اسلامی ممالک میں مداخلت کر کے خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ کی واپسی کو روکنا ہے۔ امریکہ اور اس کے آلہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سازش اور چال سے ایسا کر سکیں گے، (وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ) "اور انہی لوگوں کا مکر ہی تباہی سے دوچار ہو گا" (فاطر:10)۔ یہی وہ دو مقاصد ہیں جن کے لیے امریکہ کوشش کر رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تو وہ پردہ ہے جس کو امریکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کررہا ہے!
اے مسلمانو! مسلمانوں کے علاقوں میں موجود سیاسی خلاء اس خطے میں موجود ممالک کو غیر محفوظ کررہا ہے اور استعماری کفار کو لشکر کشی اور اتحاد قائم کرنے، بلاخوف و خطر گمراہ کن پروپیگنڈا اور سازشیں کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ سیاسی خلاء ہی اس خطے کے لیے زہر قاتل ہے اوریہ سیاسی خلاء اس وجہ سے نہیں ہے کہ مسلمانوں کے علاقوں میں حکومتیں موجود نہیں بلکہ یہ خطرناک سیاسی خلاء اس وجہ سے پیدا ہورہا ہےکہ امت پر ایسا نظام حکمرانی مسلط کیا گیا ہے جس کا اُس کے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ صورتحال امت کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب ہے جس سے اس امت کے معاملات خراب ہورہے ہیں اور یہ امت افراتفری، کمزوری اور ذلت کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ اوریہی سرحدیں اور اِن پر غدّاروں کی حکمرانی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر استعماریوں کو مسلم ممالک پر یلغار کرنے میں آسانی ہورہی ہے.....تقریباً ایک صدی پہلے خلافت کے خاتمے کے وقت سے اس سیاسی خلاء نے زمین اور اس پر بسنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ لہٰذااستعماری کفار اور ان کی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ سازشوں اور اسلحہ کے ذریعے مسلمانوں کی جانب سے اسلام کی حکمرانی کی واپسی کی کسی بھی کوشش کے خلاف شدید مزاحمت کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے کفار، جن کی سربراہی امریکہ کررہا ہے، نے لبرل، سرمایہ دارانہ یا اشتراکی آمرانہ یا جمہوری حکومتوں کو دوام بخشنے اور ان کی حمائت جاری رکھنےکا تہیہ کر رکھا ہے اورکبھی بے رنگ مخلوط حکومتیں قائم کر لیتے ہیں جس میں مخالف نظریات کے لوگ شامل ہوتے ہیں! تو اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے علاقوں میں ظلم و نا انصافی اور نسل کشی کے دور کو جاری و ساری رکھتے ہیں اور امت پر ذلیل ترین اورگرے ہوئے حکمرانوں کو سرکس کے شیروں کے طور پر مسلط کرتے ہیں جو امریکہ اور کافر مغرب کے سامنے "ہاتھ جوڑے" کھڑےرہتے ہیں حتی کہ حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ انہی کے علاقوں میں خون کی ہولی کھیلنے کے لیے انہی کو لے کر اتحاد قائم کر رہا ہے.....پھر بھی یہ حکمران اس کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں! (قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ) "اللہ ان کو ہلاک کرے کہ یہ کہا ں بھٹکے جارہے ہیں" (المنافقون:4)۔
اے مسلمانو! یہ معاملہ مذاق نہیں بلکہ بڑا سنجیدہ ہے، اور یہ کوئی معمولی معاملہ بھی نہیں بلکہ اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں کے نزدیک یہ بہت بڑا معاملہ ہے اور حزب التحریر وہ جماعت ہے جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی بلکہ ان کی رہنمائی کرتی ہے، تمہیں خبردار کرتی ہے اور تمہارے سامنے یہ وضاحت کر تی ہے :
اس اتحاد کا قیام اور مسلمانوں کے علاقوں میں اس کی بقاء بہت بڑا اور انتہائی شر انگیزمعاملہ ہے۔ یہ بہت بڑا جرم اور اسلام میں حر ام ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ((لا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِينَ)) "مشرکوں کی آگ سے روشنی مت لو" اس حدیث کو البیھقی نے السنن الکبریٰ میں انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔ اور کسی قوم کی آگ سے مراد جنگ میں ان کی موجودگی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ((فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ)) "میں ہر گز کسی مشرک سے مدد نہیں لوں گا" اس حدیث کو مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے۔ ابن داؤد اور ابن ماجہ نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے کہ : ((إِنَّا لا نَسْتَعِينُ بِمُشْرِكٍ)) "ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے"۔
اگر احمق حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم و بربریت اور کافروں کے سامنے جھکنے اور ان کی وفاداری کو جاری رکھا جو کہ فتنہ ، مصیبت اور تباہی ہے تو صرف یہ ظالم حکمران ہی نہیں بلکہ ان کے ظلم پر خاموش رہنے والے بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچیں گے، (وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّة) "اس فتنے سے بچو جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا" (الانفال:25)۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا : ((إِنَّ النَّاسَ إِذَا عُمِلَ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي فَلَمْ يُغَيِّرُوا أَوْشَكَ اللَّهُ أَنْ يَعُمَّهُمْ بِعِقَابٍ)) "اگر لوگوں کے درمیان گناہ کا ارتکاب کیا جارہا ہو اور وہ اس کو روک نہ دیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب پر عذاب نازل کر دے" اس حدیث کو عثمان ابو الدانی نے الفتن میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
کفار کے اس جال کو کاٹ دینا فرض ہے جس کو اوباما مسلمانوں کے علاقوں میں پھیلانا چاہتا ہے اور اس میں وہ حکمران اس کی مدد کر رہے ہیں جنہوں نے تھوڑی سی دنیا بلکہ کسی اور کی دنیا کی خاطر اپنا دین بیچ دیا ہے! اس جال کے مضبوط ہو نے اور کھیتوں اور پہاڑوں تک اس کے پھیلنے کے انتظار سے پہلے ہی اس کو کاٹ دینا زیادہ آسان ہے...
ہم مسلمانوں کی افواج سے مخاطب ہیں! کیا تم میں کوئی ذہین آدمی نہیں جو اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں سے حکمرانوں کی اس خیانت کو مسترد کر دے ...؟...؟کیا تم میں کوئی ایسا ہدایت یافتہ آدمی نہیں جو اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو پر غیرت مند ہو اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے ڈٹ کر ان کے جال اور رسّی کو کاٹ دے ...؟کیا تم میں کوئی ایسا سمجھدار آدمی نہیں جو ان احمقوں کا قصہ تمام کر کے انصار کی سیرت کو دہرا دے، اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے ہمیں نصرت دے جو نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ ہو گی...؟
یقیناً حزب التحریر تمہاری ہمتوں کو جگا رہی ہے اور تمہارے عزائم کو بلند کر رہی ہے کہ تم ایسا قدم اٹھاؤ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو محبوب ہو تاکہ اس اتحاد کی کمر توڑ کر رکھ دو اس سے پہلے کہ زمین اور انسان دشمنوں کے اس جال میں جکڑ دئیے جائیں تب تم ندامت کا احساس کرو گے لیکن اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا...
((هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ))
"یہ لوگوں کے لیے اعلان ہے اس سے ان کو ڈرنا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ وہی ایک ہی معبود ہے اور عقل والوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے " (ابراھیم:52)
اے اللہ ہم نے پہنچا دیا .....اے اللہ تو گواہ رہنا

Read more...

خبر اور تبصرہ فوج اور حکومت کے درمیان خفیہ رسہ کشی

خبر:

پاکستان میں جاری سیاسی بحرا ن اس وقت سے طول پکڑتا جا رہا ہے جب گزشتہ ہفتے کے دن یعنی 23 اگست 2014 کو حکومتی نمائندوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور کسی پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 30 دن کے لیے استعفی دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات ہو سکیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ اس مطالبے کے پورا ہو نے تک ملک کے طول و عرض میں دھرنے جاری رہیں گے۔
تبصرہ:
1 ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی ممالک جن میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں جو عرب بہارکا شکار ہوئے اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ اسی طرح بعض تجزیہ نگار یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جہاں یہ بہار نہیں پہنچی، محفوظ ہیں اور وہاں کے رہنے والے اپنے حکمرانوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہے ہیں جو اگر چہ کسی بھی طرح اپنے ان ہم عصر حکمرانوں سے کم ظالم نہیں جو عرب بہار کا چکار بنے تھے۔ تا ہم یہ دونوں قسم کے تجزیہ نگار غلطی پر ہیں۔ بہت سے ممالک میں اگر چہ ہنگامے نہیں پھوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں اور نظام سے راضی ہیں۔ حالات کسی بھی ایسی جماعت یا عوامی رہنما کے لیے بالکل تیار ہیں جو ان حکمرانوں کو برطرف کرنے میں عوام کی قیادت کرے، خواہ وہ لیڈر امت کی اسلامی شناخت کا مظہر نہ ہو اور نہ ہی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کیے جائیں جیسا کہ عمران خان اور طاہر القادری۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی خود پر مسلط نااہل حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اسی قدر بے چین ہیں جس قدر کہ عرب بہار کے ممالک میں موجود ان کے مسلمان بھائی۔
2 ۔ پاکستانی عسکری قیادت میں موجود غداروں اور ان کے پشت بان امریکہ نے عوام اور افواج میں موجود ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ لوگوں کی توجہ وزیرستان کے مجرمانہ آپریشن سے ہٹا دی جائے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام خائن سیاسی اور عسکری قیادت کے اختلافات کی بحث میں مشغول ہو جائیں جو اپنے آقا امریکہ کی خدمت پر متفق ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت وزیرستان آپریشن کے بارے میں متفق نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں کے اپنے سیاسی زرائع ہیں اور وہ دونوں انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا عسکری قیادت میں موجود غداروں نے نواز حکومت اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان جذبات سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کریں جس کو عوام اور فوج کا ایک بڑا حصہ مسترد کرتے ہیں، خصوصا درمیانی رینک کے افسران اور ان سے نیچے والے افسران اور جوان اور لڑنے والے سپاہی۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت میں موجود غدار یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے ان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری نواز شریف پر ڈالی جائے تاکہ اس آپریشن کے خلاف فوج میں موجود غصے کا رخ ان کی جانب سے نواز شریف کی جانب مڑ جائے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ اپنے امریکی آقا کا شکر گزار ہے کہ اس نے اسے تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر اقتدار دلوادیا ہے اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
3 ۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی جماعتوں کی پشت پناہی کی تاکہ حکومت کے خلاف عوام اور فوج میں موجود لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور اپنے خلاف موجود غصے کا رخ حکومت کی جانب پھیر دیا جائے۔ فوجی قیادت میں موجود غدار فوج کے سامنےایسا ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات پر اصرار کیا جبکہ عسکری قیادت میں موجود غدار فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ نواز شریف نے انتہائی نازک موقع پر اس آپریشن کے حق میں اپنی حمائت فراہم کی لیکن اس کے ساتھ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے اس جانب بھی افواج کی توجہ مبذول کروائی کہ حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہےاور خاص طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے خاص طور پر حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فوجی قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی پارٹیوں کے ذریعے حکومت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ حکومت سبق حاصل کر لے گی اور اسی سمت میں چلے گی جس کی جانب فوجی قیادت چلانا چاہتی ہے۔ لیکن امت بدستور اس حقیقی قیادت کے انتظار میں ہے جو ان امریکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں اس کی قیادت کرے گی اوران پر ان کے رب کی شریعت کو خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے سائے میں نافذ کرے گی اور بے شک اللہ کے اذن سے بہت جلد ایسا ہی ہونے والا ہے۔

یہ تبصرہ ابوعمر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا ہے۔

Read more...

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جمہوری حکمران اور سیاست دان پاکستان کو سیلاب سے بچانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے

ایک بار پھر جمہوری حکمران پاکستان اور اس کے عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے ممکنہ بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ حکمران خود پر ہونے والی تنقید سے بچنے کے لئے اس کی ذمہ داری محکمہ موسمیات پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ حزب التحریر ان نام نہاد عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں سے سوال کرتی ہے کہ کیا وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ 2010 سے اب تک پاکستان میں تین سیلاب آچکے ہیں جن میں سے 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا؟ کیا یہ جمہوری و عوامی حکمران اس بات سے بھی بے خبر تھے پاکستان پچھلے تین سالوں میں عالمی موسمی تغیراتی انڈیکس میں پہلے نمبر پر آرہا ہے؟ یہ حکمران جو خود کو عوامی نمائندے کہتے نہیں تھکتے اگر واقعی عوام کی مشکلات اور تکالیف دور کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تو کس طرح ان باتوں سے بے خبر ہوسکتے تھے؟
جمہوریت کے گُن گانے والے حکمرانوں نے 2010 میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب سے نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور آنے والے دنوں میں ان نقصانات سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنا تو دور کی بات بلکہ اس رپورٹ کو دفن کردیا۔ ان تجاویز پر پہلے پی۔پی۔پی نے اور پھر پی۔ ایم۔ایل(ن) کی جمہوری حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ جمہوری سیاست دان عوام کے خوان پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم کو بڑے بڑے شہروں میں پانی کے نکاس کے منصوبے شروع کرنے کے لئے استعمال تو نہیں کرتے لیکن اربوں روپوں کی لاگت سے تیار ہونے والی میٹرو بس سروس شروع کرتے ہیں کیونکہ زمین کے نیچے بچھنے والے نکاسی کے پائپ کسی کو نظر نہیں آتے اور بارشیں کون سی روز روز ہوتی ہیں لیکن سڑک پر دوڑتی میٹرو بسیں روزانہ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور پھر اگلی انتخابی مہم میں اپنی کارکردگی جتانے کے لئے ایسے منصوبوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
درحقیقت جمہوریت ایسے سیاست دان پیدا کر ہی نہیں سکتی جو عوام کے دکھ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوں۔ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار امریکہ میں بھی عوام کو قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔2005 میں امریکہ میں کاترینہ طوفان کے بعد لوگوں کی دیکھ بحال میں ہونے والی ناکامی کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے کانگریس کی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا کہ "F.E.M.A (فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی) اور ریڈ کراس کے پاس وہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ وہ متاثرین کی بڑی تعداد کو مدد فراہم کرسکتے"۔ اس رپورٹ میں طوفان سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ذمہ داری وفاقی، ریاستی اور شہری،تینوں حکومتوں پر ڈالی گئی۔
اسلام نے سیاست کو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا اور فرض قرار دیا ہے اور اس فرض میں کوتاہی یا ناکامی پر حکمرانوں کو قیامت کے دن اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ "اگر عراق کی زمین پر کوئی جانور بھی گر پڑا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی سڑک کو ٹھیک نہ رکھنے پر میرا محاسبہ کریں گے"۔ پاکستان کے عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت دونوں میں حکمران خود کو عوام اور اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالٰی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ، عوام اور اللہ سبحانہ و تعالٰی، دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہی سب سے سخت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "اس شخص کا کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکہ دیتے دیتے مر جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں" (بخاری)۔ تو پاکستان کے عوام کو جمہوریت اور آمریت دونوں کو رد کرتے ہوئے خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کا ہمسفر بن جانا چاہیے کہ صرف خلافت کا قیام ہی ہمیں دنیا میں ہماری مشکلات کو دور کرنے میں ہماری معاون ہوگی اور آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کی خوشنودی کا باعث بنے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

حزب التحریر نے پاکستان بھر میں بیانات کی مہم چلائی حقیقی تبدیلی خلافت ہے جو افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کی ذریعے سےہی آئے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان بھر میں عوامی بیانات کی مہم چلائی۔ اس مہم کا مقصد جمہوریت اور آمریت کے تماشے کو بے نقاب کرنا تھا جس نے پاکستان کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ مساجد اور عوامی مقامات پر خطاب کرتے ہوئے حزب التحریر کے شباب نے عوام سے کہا کہ موجودہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکمرانی میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، موجودہ اس کفریہ نظام کی حمائت کر کے خود کو بے نقاب کرچکی ہیں جس کو برطانوی راج اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جماعتیں امت کی اسلام کی بنیاد پرتبدیلی کی مقدس اور پاک خواہش کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی ترویج کررہے ہیں جو صرف ان جماعتوں اور ان کے واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے آقاوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
مقررین نے امت سے کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں سے جمہوریت کو دھتکارنے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف خلافت کا قیام ہے کیونکہ خلافت اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرتی ہے جبکہ جمہوریت امریکی ایجنٹوں کی خواہشات کو قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہے۔
مقررین نے امت سے کہا کہ وہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں اور اس کے ساتھ مل کر خلافت کے قیام کی فرضیت کو پورا کریں جو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ان پر عائد کی ہے۔ انہوں نے امت سے کہا کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بیٹوں اور دوستوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں بالکل ویسے ہی جب انصارِ مدینہ نے رسول اللہﷺ کی دعوت پر مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لئے انہیں نصرۃ فراہم کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے جو ظالم حکمرانوں کے سامنے بہادری کے ساتھ کلمہ حق بلند کرتے ہیں اور کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
﴿مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾
"کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے" (ق:18)

Read more...

افواجِ پاکستان کوجمہوریت کی حمایت کرنے کی بجائے خلافت کے قیام کے لئے نُصرہ فراہم کرنی چاہیے


پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والی طویل اور پرتشدد محاذ آرائی کے دوران امریکہ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ وہ جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ جب یہ بحران پروان چڑھ رہا تھا تو اس دوران پاکستان میں موجود امریکی سفیر مد مقابل جماعتوں سے ملاقاتوں میں مصروف تھا اور اس نے سب پر واضح کیا کہ وہ صرف ایسی تبدیلی کی حمایت کرے گا جو جمہوریت کے آئین کے مطابق ہو گی۔ پھر جب بحران سنگین ہوتا چلا گیا تو امریکی دفتر خارجہ کے نائب ترجمان نے 22 اگست 2014 کو بیان دیا کہ "امریکی سفیر کی پاکستان میں کئی عہدیداروں سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں" اوراس بیان کے دوران امریکی نائب ترجمان نے ایک مرتبہ پھر جمہوریت کے آئین پر عمل کرنے پر زور دیا۔ اس کے بعد 29 اگست 2014 کو جب پرتشدد ٹکراؤکا خطرہ منڈلا رہا تھا، امریکی دفتر خارجہ نے پھر اس بات پر زور دیا کہ "پر امن مظاہرے اور آزادیٕٔ اظہار...جمہوریت کے اہم پہلو ہیں "۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے کہ جن کے ذریعے امریکہ پاکستان اور اس کی افواج کو کنٹرول کرتا ہے تو انہوں نے بھی اپنے آقا کی بات کوہی دہرایا کہ وہ جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ راحیل-نواز حکومت نے یکم ستمبر 2014 کوآئی.ایس.پی.آر (ISPR) کے ذریعے یہ بیان دیا کہ "فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جو کئی موقعوں پر جمہوریت کی حمایت کا واضح اظہار کرچکا ہے"۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس نے اعلان کیا کہ اس کی جدوجہد جمہوریت ہی کے لیے ہے اور یوں اس نے خود کو پاکستان کے عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح وہ بھی پاکستان پر حکمرانی کرنے کی اہل نہیں ہے۔یکم ستمبر 2014 کو عمران خان نے بڑے فخر سے کہا کہ "میری اٹھارہ سال کی جدوجہد انصاف اور 'جمہوریت' کے لیے ہے"۔
پس امریکہ نے براہِ راست بھی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت ہی کی حمایت کی جائے گی کیونکہ آمریت کی طرح جمہوریت بھی پاکستان میں امریکہ کے مفادات کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 12 دسمبر 2012 کو بی.بی.سی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے پورے اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں "ہمارا گھوڑا جمہوریت ہے"۔ جی ہاں ! یقینا، یہ جمہوریت ہی ہے جسے امریکہ اپنے مفاد کے مطابق چلاتا ہے چاہے کوئی بھی اس گھوڑے کا سوار بن جائے ، خواہ وہ پی پی پی ہو، پاکستان مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان تحریک انصاف۔
جمہوریت کی باگ ڈور حقیقتاً امریکہ ہی کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جمہوریت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بغاوت کا نظام ہے۔جمہوری نظام اسمبلیوں میں موجود مرد و خواتین کو قانون ساز قرار دیتا ہے اور انہیں اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ ان احکامات کو پسِ پشت ڈال دیں جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق قوانین بنائیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرما چکا ہے: (وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ) "(اے محمدﷺ) ان کے درمیان اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق حکمرانی کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی ہرگز نہ کیجئے گا اور خبردار رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں" (المائدہ:49)۔ امریکہ پاکستان کے حکمرانوں اور اسمبلیوں کے اراکین سے مسلسل رابطے رکھتا ہےاور ان کے ذریعے پاکستان کے قوانین کو اپنے مفادات کے مطابق بنواتا ہے۔ لہٰذا یہ جمہوریت ہی ہے جس نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کو روک رکھا ہے اور اس کی بجائے امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنارہی ہے۔
پس جمہوریت کے ذریعے امریکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نجکاری کے ذریعےپاکستان کے توانائی کے وسیع ذخائراور معدنیات کی دولت کی لوٹ کھسوٹ جاری ر ہے اور پاکستان ایک طاقتور معاشی طاقت کے طور پر نہ ابھرسکے۔ جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان کی طاقتور افواج کو مغربی مفادات کی تکمیل کے لئے تودنیا کے کونے کونے میں بھیجا جائے لیکن جب کشمیر و فلسطین کے مسلمان اپنی افواج کو پکاریں تو انہیں بیرکوں میں ہی پڑا رہنے دیا جائے۔ آج جمہوریت ہی پاکستان میں امریکہ کے قائم کردہ وسیع جاسوسی اور نجی فوجی نیٹ ورک کو کام کرنے کی اجازت دیے ہوئے ہے جو ہماری افواج پر حملے کرواتی ہیں تا کہ ان حملوں کو جواز بنا کرپاکستانی افواج کو امریکہ کی جنگ لڑنے کے لئے قبائلی علاقوں میں بھیجا جاسکے۔ اس کے علاوہ اس لاحاصل اور تباہ کن جدوجہد کا بندوبست کرکے کہ کون اس امریکی گھوڑے یعنی جمہوریت پر سواری کرے گا، امریکہ مسلمانوں کے رخ کو پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے امریکی راج کے خاتمے سے پھیرنا چاہتا ہےکیونکہ صرف خلافت ہی پاکستان کے وجود کو امریکی موجودگی اور اس کے اثرو نفوذ کی غلاظت سے پاک کرسکتی ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جمہوریت سے منہ موڑ لو، اس سے کوئی امید نہ لگاؤکیونکہ یہ کفر کا نظام ہے، جسے تمہارے سروں پر اس لیے نافذ کیا گیا ہے تاکہ تمہاری اعلیٰ تمناؤں اور عظیم صلاحیت کو کچلا جا سکے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ جمہوریت کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لئے کام کریں۔ اور آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں جس کا نظریہ حیات اسلام ہے اور جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَلْتَكُنْ منكُمْ أمّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ويَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَأُولئكَ هُمُ المُفْلِحُون) "اور تم میں کم ازکم ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں" (آل عمران:104)۔
اے افواج پاکستان! یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی آپ پر ہی منحصر ہے اور باقی مسلم دنیا کی بھی یہی حقیقت ہے۔ مصر کی افواج کی رضامندی اس بات کا سبب بنی کہ مرسی کو جمہوری گھوڑےکے سوار کے طور پر لایا گیا اور پھر مصری افواج کے حرکت میں آنے کے نتیجے میں ہی مرسی کےا قتدار کا خاتمہ ہوا اور پھر جمہوریت کے گھوڑے پر سواری کے لیے ایک نیا سوارجنرل سیسی آگیا۔ ترکی میں بھی جمہوریت فوج کے کندھوں پر کھڑی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو آج ہمارے لوگ اس لیے مصائب کا شکار ہیں کیونکہ آپ کی قیادت میں موجود غدار آپ کی طاقت کو جمہوریت کے امریکی گھوڑے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تو آپ کس طرح اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ آپ کی طاقت کو جمہوریت کے کفریہ اور اللہ سے بغاوت پر مبنی نظام کی خاطر استعمال کیا جائے؟!
اے افواج پاکستان ! جان لیں کہ یہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہی ہیں جو جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنائے ہوئے ہیں اور اسلام کی واپسی کو روکے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غدار ہر اس آفیسر کو ترقیاں دیتے ہیں اور انعامات سے نوازتے ہیں جو ہمارے دشمن امریکہ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہو اور دنیا کے مال و دولت کے بدلے اپنے لوگوں اور اپنے دین کو بیچ دے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہر اس آفیسر کو سزا دیتے ہیں جواسلام کا مضبوط حامی ہو جیسا کہ بریگیڈئر علی خان جیسی معزز شخصیت ، جنہیں پندرہ مہینے تک محبوس رکھنے کے بعد قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خلافت کے قیام کے جشنِ استقبال میں انہیں کندھوں پر اٹھایا جاتا ۔ تو آپ کیسے اپنی طاقت و قوت کے موجودہ غلط استعمال کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے اللہ کے سامنے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ آپ اس ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کریں گے؟!
جان لیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک خاص طریقہ کار پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کی اور تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود آپﷺ اس طریقہ کار سے پیچھے نہیں ہٹے اور وہ طریقہ کار یہ تھا کہ طاقت و قوت کے حامل لوگوں سے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے نُصرہ طلب کی جائے۔ پس رسول اللہﷺ ذاتی طور پر عرب قبیلوں کے جنگجو سرداروں سے ملے اور ان سے دین کے مکمل اور فوری نفاذ کے لئے نصرۃ طلب کی۔ اے افواجِ پاکستان یہ آپ کےآباؤ اجداد تھے اور آج آپ ان کے جانشین ہیں۔ رسول اللہ ﷺ صبر و استقامت کے ساتھ اسی طریقہ ٔکار پر کاربند رہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروا کی یہاں تک کہ اللہ نے انصارِ مدینہ کے مختصر لیکن مخلص اور بہادر جنگی گروہ کے ذریعے آپﷺ کی مدد کا اہتمام فرما دیا جنہوں نے عقبہ کے مقام پر آپﷺ کو بیعت دی، جو کہ اس دین کے نفاذ و تحفظ کی خاطر لڑنے کی بیعت تھی ۔
رسول اللہﷺ کا اختیار کردہ طریقہ کار اس بات کو فرض بناتا ہے کہ اسلام کو حکمرانی اور ریاست کے طور پرقائم کرنے کے لئےنصرۃ دی جائے۔ لہٰذا آج حزب التحریر آپ کے سامنے موجود ہے اور آپ سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے کہ جس سے آپ اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں عزت حاصل کریں گے،جب آپ ظلم کی حکمرانی کا خاتمہ کریں گے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کردیں گے۔ امام احمدبن حنبل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ)) "پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اس کا خاتمہ کردے گا جب وہ چاہے گا۔ اور پھر خلافت قائم ہوگی نبوت کے نقشِ قدم پر۔ اس کے بعد آپﷺ خاموش ہوگئے"۔

Read more...

ضرب عضب رسول اللہ ﷺ کی مبارک تلوار نہیں ہے بلکہ امریکہ و بھارت کے تعلق کو مضبوط کرنے کا نام ہے

 

تحریر: خالد صلاح الدین
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہی تسلسل کا نام ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو امریکہ نے 11ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کے بعد شروع کی۔ جنرل مشرف نے ایک پالیسی فیصلہ کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس امریکی جنگ میں شامل ہونا ہے۔ اب وہی مشرف پاکستانی عدالتوں میں انتہائی غداری کے مقدمات کا سامنا کررہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان آرمی کی براہ راست شمولیت سانحہ لال مسجد کے ساتھ شروع ہوئی۔ اب جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ اس سے قطعی مختلف ہیں جو اس وقت غدار مشرف نے میڈیا پر پھیلائے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ لال مسجد آپریشن میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے مقدس خون سے رنگے تھے۔
مشرف نے پاکستان کے عوام کے سامنے عموماً اور افواج پاکستان کے سامنے خصوصاً یہ تصویر پیش کی تھی کہ لال مسجد کے مولانا امن معاہدے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور اس وجہ سے تشدد کا راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری لال مسجد میں موجود لوگوں پر ڈالی گئی اور ایک بھر پور فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کو سول سوسائٹی، میڈیا، تجزیہ کاروں اور اسٹبلشمنٹ کے لبرل حلقوں کی حمائت حاصل تھی۔ آپریشن کے سات سال بعد سامنے آنے والے حقائق مشرف کو اس جرم کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور ایسا بالکل صحیح بھی ہے۔ لال مسجد کمیشن نے کہا کہ "رضا کارانہ گواہی دینے والوں اور عدالتی گواہان کے بیانات سے یہ بات واضح ہے کہ اموات سے بچا جاسکتا تھا.....انہوں نے پرویز مشرف کو جو کہ اس وقت صدارت کی کرسی پر براجمان تھے، اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا"(1)۔
واقعات کا تھوڑا سا پس منظر جاناا ضروری ہے کیونکہ لوگوں کو دھوکہ دینے کی اس پالیسی کو اگلی ایک دہائی تک مشرف کے بعد آنے والوں نے بھی جاری رکھا تا کہ امریکی پالیسی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ مسلسل ہونی والی پرتشدد کاروائیوں کا ذمہ دار اسلامی انتہا پسندوں کو قرار دیا گیا ، امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈالی گئی اور فوجی آپریشن شروع کیے گئے جس نے افواج پاکستان کو ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی فوجی آپریشن کا مقصد امن کا قیام کبھی بھی نہیں تھا۔ ہر بار یہ بات ثابت ہوئی کہ فوجی قیادت میں موجود غدار اور امریکہ قبائلی علاقوں میں امن یا استحکام کے قیام کے لیے نہ ہی سنجیدہ تھے اور نہ ہی ان کا یہ ارادہ تھا۔درحقیقت دونوں کا کردار تنازعہ کو برقرار رکھنے اور امن مذاکرات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے استعمال کرنے اور جنوبی ایشیاء میں امریکی ایف-پاک پالیسی کو افواج پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے نافذ کرنا تھا۔
اس کے بعد 2009 میں سوات میں راہ راست فوجی آپریشن کیا گیا۔ ایک بار پھر اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے ایک نام نہاد امن معاہدہ سوات کے صوفی محمد اور حکومت پاکستان کے درمیان کیا گیا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد ایک لڑکی کو کوڑے مارنے اور ایک فوجی کے سر قلم کرنے کی وڈیو جاری ہوئی جس نے ایک اور فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی۔ زمینی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی نہ تو امن معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی اس کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس بات کا ثبوت اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی سیکریٹری خارجہ ہلری کلنٹن کی مارچ 2010 میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس ہے جس میں ہلری کلنٹن نے کہا : "آپ نے سوات کا معاہدہ کیا ہے؟ یہ تو شکست کی مانند ہے"۔ شاہ محمود نے کہا : "رکیے، رکیے۔ وہ ایک طریقہ کار ہے۔ ٹہریے۔ اس وقت تک ٹہریں جب تک آپ نتائج نہ دیکھ لیں۔ اور ہم نے نتائج دِکھا دیے ہیں"(2)۔
اکثر امن معاہدوں کا یہی حشر ہوا۔ شمالی وزیرستان کے نیک محمد وزیر نے اپریل 2004 میں شکئی امن معاہدے پر دستخط کیے لیکن اسے جون 2004 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(3)۔ جنوبی وزیرستان کے بیت اللہ محسود نے فروری 2008 میں امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس نے ایک لیفلٹ جاری کیا جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ امن مذاکرات جاری تھے۔ اس کو بھی اگست 2009 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(4)۔ اسی طرح مئی 2013 میں ایک اور ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے نائب سربراہ ولی الرحمان کو ہلاک کردیا گیا جس کی شہرت یہ تھی کہ وہ طالبان میں امن کی سوچ رکھنے والوں میں سے ہے۔ اس ڈرون حملے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ "اس ڈرون حملے میں امن کا حامی سمجھے جانے والے ولی الرحمان کے قتل کا بدلہ لینے کے نتیجے میں ہمارے سپاہی قتل اور زخمی ہوئے! یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے"(5)۔ اس حملے کے کچھ ہی عرصے کے بعد نومبر 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو اس وقت ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا جبکہ اس کے اور حکومت پاکستان کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے(6)۔ اسی مہینے میں حقانی نیٹ ورک (جس کی وجہ شہرت افغانستان میں امریکی افواج پر حملےہے ) کے ترجمان نصیر حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے بھی تھے، کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا(7)۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ضرب عضب کسی بھی پچھلے فوجی آپریشنوں سے کوئی مختلف آپریشن ہے اور اس سے کوئی نیا نتیجہ برآمد ہوگا تو وہ تاریخ اور حقائق کو جانتا ہی نہیں ہے۔ ضرب عضب کے باضابطہ اعلان کے بعد جو پہلا فضائی حلہو کیا گیا وہ دتہ خیل ڈسٹرکٹ پر تھا جو کہ مشہور طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کا علاقہ تھا جس میں 140 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا(8)۔ حافظ گل بہادر نے 2006 میں پاکستان آرمی کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس وقت سے اس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس نے امن معاہدے کی پاسداری کی اور اپنی توجہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج پر حملے کرنے پر مرکوز رکھی۔ ضرب عضب کا باضابطہ اعلان 15جون 2014 کو کیا گیا تھا اور اس وقت سے 23 جون تک حافظ گل بہادر نے امن معاہدے کو توڑنے کا اعلان نہیں کیا جبکہ اسی دوران دتہ خیل، میران شاہ، میر علی اور شوال وادی میں ہونے والے حملوں میں قبائلی بہت بڑی تعداد میں مارے گئے تھے(9)۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے ایک دہائی سے جاری امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر ایک نام نہاد امن معاہدے کو عملی تعبیر دینے کی اجازت دی جس کو عملی جامہ راحیل۔نواز حکومت نے پہنایا تاکہ مذاکرات کے دھوکے میں امریکی ایما ء پر ایک اور فوجی آپریشن کیا جائے جس کی تیاری جنوری 2014 سے ہی شروع کردی گئی تھی(10)۔
امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری طالبان پر کس طرح ڈالی جاسکتی ہے جبکہ شمالی وزیرستان میں ایک بھر پور آپریشن کی تیاریاں چھ مہینے پہلے سے ہی جاری تھیں؟ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا معاملہ بھی کسی طرح سوات، جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں ہونے والے آپریشنوں سے مختلف نہیں ہے۔ ہر امن معاہدے کے دوران مذاکرات کے لئے اختیار کیا جانے والا غیر سنجیدہ رویہ اس بات سے واضح تھا کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی مذاکراتی ٹیم بے اختیار ہوتی تھی جس میں اہم سیاسی جماعتوں میں سے کسی کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی افواج پاکستان کا کوئی نمائندہ ان میں موجود ہوتا تھا۔ شمالی وزیرستان میں امن مذاکرات حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے چلائے لیکن پھر اچانک آپریشن کے آغاز کا اعلان آئی۔ایس۔پی۔آر کی جانب سے کیا جاتا ہے نہ کہ وزیر اطلاعات کی جانب۔ اہم ترین اپوزیشن جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف (تحریک انصاف قبائلی علاقوں سے منسلک صوبے خیبر پختون خواہ میں حکومت میں ہے) نے واضح طور پر اعلان کیا کہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ جلد ہی فوجی آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ لیکن آپریشن شروع ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کر اس آپریشن کی حمائت کا اعلان کرنا پڑا کیونکہ اصل اختیار والوں نے تو آپریشن شروع کر ہی دیا تھا(11)۔ ضرب عضب آپریشن شروع کرنے کے لئے درکار عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے 8 جون 2014 کو کراچی ائرپورٹ پر ہونے والے انتہائی تباہ کن حملے کو استعمال کیا گیا۔ اس حملے کے اختتام سے قبل ہی اس کا ذمہ وزیرستان پر ڈال دیا گیا۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اس تباہ کن حملہ کی منصوبہ بندی شمالی وزیرستان میں موجود ازبک جنگجوؤں اور پاکستانی طالبان نے کی ہے(12)۔
کراچی ائرپورٹ پرحملے سے صرف تیس دن قبل، 7 مئی 2014 کو جوئیل کاکس، جس کو امریکی دفتر خارجہ نے ایف۔بی۔آئی ایجنٹ قرار دیا، کو کراچی ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ایس۔ایس۔پی ملیر کینٹ کے مطابق اس کے قبضے سے 9ایم ایم کی پندرہ گولیاں میگزین سمیت تین خنجر، جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والا کیمرہ اور دیگر آلات برآمد ہوئےتھے(13)۔ آخر کیوں پاکستان میں موجود ایجنسیوں نے ایک غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ کا کراچی ائرپورٹ حملے سے کوئی تعلق جاننے کی کوشش نہیں کی؟ جبکہ اس کی جگہ وزیرستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور تباہ کن فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ یہ پہلا واقع نہیں ٍہے جہاں پاکستانی ایجنسیوں نے اس قسم کے ایک واقعہ کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ جولائی 2014 کو اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک اور امریکی سکو رٹی ٹریرن گرفتار ہوتا ہے لیکن اسے بھی جلد ہی رہا کردیا گیا(14)۔ یہ بات قابل یاد دہانی ہے کہ اس سے قبل 27 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس، ایک نجی ملٹری کنٹریکٹر کو اس بات کے باوجود رہا کردیا گیا کہ اس نے دن دہاڑے لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کردیا تھا۔ اب یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کیا کررہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے شرمناک کردار ادا کیا جو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی امریکی پالیسی سے وفاداری کا ثبوت تھا۔
شمالی وزیرستان میں ہونے والا فوجی آپریشن پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتا آرہا تھا۔ یہ مطالبہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب امریکی کانگریس نے افواج پاکستان کو ملنے والی 1.2ارب ڈالر کی فوجی امدادکو شمالی وزیرستان آپریشن سے مشروط کردیا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ اس امداد کو جاری کرنے کے لئے لکھ کر یہ دے کہ "پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں محفوظ ٹھکانوں اور حقانی نیٹ ورک کی نقل و حرکت کو کافی نقصان پہنچا ہے"(15)۔ عمران خان نے کانگریس کے اس نئے قانون کے متعلق کہا کہ "امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے لئے حکومت کو رشوت دے رہا ہے"(16)۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے متعلق میڈیا میں سب سے پہلے 24 جنوری 2014 کو خبریں آئیں کہ مارچ میں یہ آپریشن شروع ہوسکتا ہے(17)۔ جس کے بعد امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 352 ملین ڈالر 12 فروری 2014 کو جاری کیے(18)۔ ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد امریکہ نے 2015 کے مالیاتی سال کے تحت 960 ملین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت دینے کی منظوری دی(19)۔ اگر آپریشن ضرب عضب رسول اللہﷺ کی تلوار کے نام کی نسبت سے شروع کی گئی ہے تو پھر اس جنگ کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے امریکی ڈالروں سے کیوں لڑا جارہا ہے؟
لہٰذا یہ آپریشن امریکی جنگ کا ہی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس جنگ کا براہ راست فائدہ جہاں امریکہ کو پہنچتا ہے وہیں بھارت میں امریکہ کی نئی اتحادی مودی حکومت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ نواز راحیل-نواز حکومت کی موجودگی میں آپریشن ضرب عضب کی منصوبہ بندی جنوری 2014 میں کی گئی اور اس کو مارچ-اپریل 2014 میں شروع کیے جانے کا امکان تھا۔ لیکن بھارت میں ہونے والے 16 مئی 2014 کے انتخابات کی وجہ سے امریکہ نواز بی۔جے۔پی کی فتح تک اس آپریشن میں تاخیر کی گئی۔ صرف ایک ہفتے بعد 21 مئی 2014 کو پاکستان کے جیٹ لڑاکا طیاروں نے شمالی وزیرستان میں بمباری کی اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 60 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے۔ اس کے بعد جلد ہی شمالی وزیرستان میں فوج کی بھاری نقل و حمل شروع ہو گئی اور اس دوران طیارے دتہ خیل۔ میران شاہ، میر علی اور خیبر ایجنسی میں بمباری کرتے رہے۔ 2 جون 2014 تک پاکستان نے بھارتی سرحدوں پر تعینات اپنی افواج کا تقریباً ایک تہائی حصہ مغربی سرحد پر پہنچا دیا(20)۔ اس قدر بھاری نقل و حمل بھارتی افواج کے لئے زبردست فائدے اور سکون کا باعث بنا ۔
یہ نقل و حرکت ایک منصوبے کا حصہ تھی۔ یہ اس منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت افواج پاکستان کی تمام تر توجہ کا مرکز دشمن بھارت سے موڑ کر قبائلی علاقوں میں موجود امریکہ کے دشمنوں کی جانب کردیا جائے۔ جنوری 2013 میں جنرل کیانی نے افواج پاکستان کی مشہور 'سبز کتاب' میں ایک نئے ڈاکٹرائن کا اعلان کیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق افواج پاکستان کے ہدف میں تبدیلی کی گئی اور بھارت کی جگہ اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی توجہ بھارت کی سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کی سرحد کی جانب کردی۔ لیکن پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کا جواب بھارت نے بالکل مختلف طریقے سے دیا۔ بھارت نے پاکستان کو اپنی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اس نے پاکستان کی سرحدوں پرتعینات اپنی افواج میں کوئی کمی نہیں کی۔ لیکن بھارت میں امریکہ نواز مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد اس بات کی بنیاد ڈال دی گئی ہے کہ بھارت کو یہ یقین دہانی کرادی جائے گی کہ پاکستان اب اس کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہا۔ یہ یقین دہانی پاکستان آرمی کی اعلٰی قیادت نے اپنے اعمال اور بیانات کی صورت میں کرادی ہے جیسا کہ :
پہلی یقین دہانی: بھارتی سرحدوں سے افواج کے بڑے حصے کو افغان سرحد پر منتقل کیا جانا جو کہ ایک اہم سٹریٹیجک تبدیلی ہے۔
دوسری یقین دہانی: عوامی سطح پر سٹریٹیجک گہرائی کو رد کردینا اور اور ان لوگوں کا مذاق اڑایا جانا جو افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی کی حمائت کرتے ہیں جس میں راحیل شریف کے سابقہ باس اشفاق پرویز کیانی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کو پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی سے نکال دینے سے بھارت کو اس بات کا موقع ملا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کرے۔
تیسری یقین دہانی: راحیل شریف کی جانب سے مرکزی تجارتی راہ داری کی صورت میں معاشی یقین دہانی تا کہ بھارت کو معاشی فوائد پہنچائیں جائیں۔
لہٰذا بھارت کو راستہ فراہم کرنے کے لئے امریکی منصوبے کے تحت پاکستان نقصانات اٹھا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے 80 ہزار فوجیوں کو بھیجا گیا ہے جبکہ 40 ہزار فوجی اس علاقے میں پہلے سے موجود تھے(21)۔ اس امریکی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو براہ راست 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع خلاء میں مزید اضافہ ہو گیا(22)۔ سابق ائر وائس مارشل شہزاد چوہدری نے کہا کہ "جبکہ بھارت اپنے ہتھیاروں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے بے دریغ خرچ کررہا ہے لیکن ہمارے معاملات بہت زیادہ پھیل چکے ہیں کہ ہم کوئی اہم ہتھیار بھی نہیں خرید سکتے۔ ہم مال کی کمی کے باوجود یہ جنگ لڑ رہے ہیں"(23)۔ بڑے بڑے منصوبے یا تو سست روی کا شکار کردیے گئے ہیں جیسا کہ JF-17جنگی طیارہ یا ان کو ختم ہی کردیا گیا ہے جیسا کہ جرمنی سے نئی آبدوزوں کی خریداری(24)۔ فوجی قیادت میں موجودغداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی یقین دہانیاں براہ راست امریکہ کو مدد فراہم کریں گی کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلا سکے کہ اس کو اب پاکستان کی صورت میں روایتی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس خطے میں افواج پاکستان نہ صرف بھارت کے لئے براہ راست خطرہ ہیں بلکہ افواج پاکستان جہادی گروہوں کو استعمال کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دفاعی عدم موافقت کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن اب جنرل راحیل شریف گیاری سیکٹر کی شہدوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر بھارت کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ان جہادی گروپوں کا خاتمہ کر کے چھوڑے گا۔سیاچن میں کھڑے ہوکر بھارت کو یقین دہانی کرانے کے لئے جاری ہونا والا یہ ایک انتہائی اہم اور مضبوط بیان ہے ۔
امریکہ اور پاکستان کی فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ یک زبان ہو کر پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی سے دستبردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں تا کہ بھارت کے لئے افغانستان میں راہ ہموار کی جائے۔ 21 جون 2014 کو امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھارتی چینل NDTVسے بات کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کا سٹریٹیجک گہرائی کا تصور اب مردہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کا افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی حاصل کرنے کی کوشش غلط ثابت ہوئی اور اب ملک کو اپنی تمام تر قوت کو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"(25)۔ اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ "ہم افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی چاہتے ہیں مگر اسے کنٹرول نہیں کرنا چاہتے اور پر امن اور دوست افغانستان پاکستان کو سٹریٹیجک گہرائی فراہم کرسکتا ہے"(26)۔ 28جون 2014 کو جنرل راحیل شریف نے سیاچن گلیشیر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے گیاری سیکٹر میں شہداء کی یادگار پر پھول چڑھائے اور ان افسران اور سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں اور کہا کہ "فوج تمام تر خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے"(27)۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آپریشن کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کی ابتداء ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج 'اچھے اور برے طالبان' کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرے گی اور فوج کے لئے تحریک طالبان کے مختلف گروہوں اور حقانی نیٹ ورک میں کوئی فرق نہیں ہے.....فوج ان تمام کا خاتمہ کردے گی"(28)۔ 28 مئی 2014 کو راحیل شریف نے خاص طور پر مرکزی تجارتی شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا جو کہ 714 کلومیٹر طویل سڑکوں کا ایک نیٹ ورک ہے جس کے تحت پاکستان کی انڈس ہائی وے اور وزیرستان کی ایجنسیوں کو افغان رنگ روڈ کے ساتھ منسلک کردیا جائےگا(29)۔
آپریشن ضرب عضب کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ تمام یقین دہانیاں مودی کو اس بات کا موقع فراہم کرتیں ہیں کہ وہ چین کو گھیرا ڈالنے کی امریکی پالیسی میں بھارتی کردار کی ادائیگی کو شروع کرے۔ 19 مئی 2014 کو بی۔بی۔سی عربی پر ایک مضمون "نقطہ نظر: مودی کس طرح امریکہ-بھارت تعلقات پر اثر انداز ہو گا؟" شائع ہوا۔ اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں لیزا کیرٹیس کا مضمون "مودی کے ساتھ کام کرنا" شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ "نئی دہلی اور واشنگٹن ایک جیسے سٹریٹیجک اہداف رکھتے ہیں چاہے اس کا تعلق دہشت گردی سے ہو، سمندری راستوں کو کھلا رکھنا ہو یا ابھرتے ہوئے چین کو دھمکانا ہو۔ خاص طور پر بی۔جے۔پی کی چین کو دھمکانے کی پالیسی میں دلچسپی امریکی اہلکاروں کو اس بات کو موقع فراہم کرے گی کہ وہ ان کے ساتھ قربت کے ساتھ کام کریں"۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے مودی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی جب اس نے مودی کو فون کال کی اور انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔ اوباما نے کہا کہ وہ مودی کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے تا کہ غیر معمولی امریکہ بھارت سٹریٹیجک دوستی کے وعدے کو پورا کیا جائے۔ ستمبر میں مودی کی اوباما سے ملاقات طے ہوچکی ہے۔
لہٰذا شمالی وزیرستان آپریشن پاکستان کے مفادات کو سنگین نقصان پہنچا کر امریکہ اور بھارت کے اتحاد کو زبردست فائدہ پہنچا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود راحیل-نواز حکومت ہندو مشرکین کو ہمارے مفادات پر بالادستی دلوانے کے لئے کام کررہی ہے جن سے ہمیشہ ہیںت زبردست نقصان ہی پہنچا ہے چاہے وہ کشمیر پر قبضہ ہو یا سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنا ہو اور آج بھی افغانستان میں قائم اس کے سیکڑےوں قونصل خانے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ حکومت ہم پر ہندو کی سیاسی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ آج اس خطے میں مسلم امت تعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے بھی ہندو مشرکین سے بڑھ چکی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی ہے ناکہ ہندو مشرکین نے۔ حکومت ہم پر ہندو کی معاشی بالادستی کو قائم کرنے کےلئے کام کررہی ہے جبکہ امت زبردست انسانی و مادی وسائل سے مالا مال ہے اور صدیوں تک دنیا کی معاشی ترقی میں انجن کا کام کرتی رہی ہے۔ اور یہ حکومت ہم پرہندو کی فوجی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ اس امت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں اتنی بڑی فوج ہے جو تعداد اور اپنی بہادری میں ہندو فوج سے کئی گنا بڑی ہے اور صدیوں تک ایک کے بعد دوسری جنگ جیتی رہی ہے ان حالات میں بھی جب کبھی دشمن ہمارے سے کئی گنا زیادہ بڑا بھی تھا۔ بجائے اس کے کہ امت کو اس بات کی دعوت دی جائے کہ ہم ایک اسلامی ریاست خلافت کے سائے تلے طاقتور امت کے طور پر اٹھیں۔ راحیل-نواز حکومت ہمیں کفر کی بالادستی کو ہم پر قائم کرنے ، شکست خوردہ ذہنیت اختیار کرنے اور خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کی دعوت دے رہی ہے۔ ہماری صورتحال صرف اسی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے جب ہم ایک امت، ایک ریاست کے طور پر، ایک حکمران کی زیر نگرانی کھڑے ہوں جو ہم پر دین اسلام کو نافذ کرے اور اسلام کو پوری دنیا تک پہنچائے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ امت خلافت کو دوبارہ قائم کرے تا کہ مسلمان ایک بار پھر وہی حیثیت حاصل کرسکیں کہ پوری انسانیت اسلام کے نور سے فیضیاب ہوسکے جیسا کہ اس سے پہلے صدیوں تک ایسا ہوتا رہا ، چاہے ہندو مشرکین کو یہ کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو سچی ہدایت اور دین کے ساتھ بھیجا تا کہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے" (التوبۃ:33)
حوالہ جات:


[1] http://tribune.com.pk/story/540741/probe-report-one-man-lal-masjid-commission-fails-to-apportion-blame/
[2] http://www.state.gov/secretary/20092013clinton/rm/2010/03/138996.htm
[3] http://en.wikipedia.org/wiki/Nek_Muhammad_Wazir
[4] http://en.wikipedia.org/wiki/Baitullah_Mehsud#cite_note-32
[5] http://tribune.com.pk/story/560646/imran-khan-tweets-slain-ttp-commander-waliur-rehman-pro-peace/
[6] http://tribune.com.pk/story/625762/another-drone-strike-kill-3-north-waziristan/
[7] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-26603-Jalaluddin-Haqqanis-son-killed-in-Islamabad
[8] http://tribune.com.pk/story/722202/army-launches-operation-in-north-waziristan/
[9] http://www.nation.com.pk/national/23-Jun-2014/hafiz-gul-to-remain-in-peace-until-shawwal-10
[10] http://www.criticalthreats.org/pakistan/jan-what-you-need-to-know-north-waziristan-operation-june-19-2014
[11] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-7-256751-Minister-tells-assembly-PTI-govt-not-consulted
[12]http://timesofindia.indiatimes.com/world/pakistan/Pakistan-kills-100-extremists-including-Karachi-airport-attack-mastermind/articleshow/36605712.cms
[13] http://www.dawn.com/news/1104901/
[14] http://tribune.com.pk/story/737360/us-citizen-arrested-for-carrying-weapon-at-islamabad-airport/
[15] http://www.dawn.com/news/1112121
[16] http://tribune.com.pk/story/721140/new-congress-legislation-us-bribing-govt-for-n-waziristan-operation-says-imran/
[17] http://tribune.com.pk/story/663142/waziristan-offensive-likely-in-march/
[18] http://tribune.com.pk/story/670568/unpaid-bills-us-releases-352m-under-csf/
[19] http://www.dawn.com/news/1114420
[20]http://www.dnaindia.com/world/report-pakistan-removes-third-of-army-s-border-deployment-1390778
[21]http://in.reuters.com/article/2014/06/17/uk-pakistan-airstrikes-offensive-idINKBN0ES1A620140617?feedType=RSS&feedName=southAsiaNews
[22]http://www.thenews.com.pk/Todays-News-2-219913-Dar-says-Pakistan-lost-$100-bn-in-war-on-terror
[23]http://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20120608&page=2
[24]http://www.revolutionobserver.com/2014/06/who-benefits-from-zarb-e-azab-waziristan.html
[25]http://www.ndtv.com/article/india/full-transcript-hillary-clinton-to-ndtv-on-iraq-pm-modi-and-plans-for-2016-545348
[26] http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2010/02/01/AR2010020102506.html
[27] http://tribune.com.pk/story/728451/army-prepared-to-fight-against-entire-spectrum-of-threat-army-chief/
[28] http://www.criticalthreats.org/pakistan-security-brief/pakistan-security-brief-july-18-2014
[29] https://www.ispr.gov.pk/front/main.asp?o=t-article&id=95

Read more...

مھنا الجبیل کے مقالے کا جواب کیا یہ ممکن ہے کہ امت کی وحدت کو حاصل کرنے کے لئے جمہوریت خلافت کا متبادل ہو سکتی ہے؟

پریس ریلیز
الجزیرہ ویب سائیٹ نے 23 اگست 2014 کو المعرفۃ سیکشن میں استاد مھنا الجبیل کا مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا : "وحدت ،خلافت اور جمہوریت"۔ اس مقالے کو لکھنے والے نے ان مسلمان نوجوانوں کو قدامت پسند کے نام سے مخاطب کیا جو جمہوریت کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں یا اسلامی وحدت کے حصول کے لیے اس کا تجربہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ وحدت بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت متواتر کے مطابق فرض ہے۔
لکھنے والے نے یہ سوچ عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ "جمہوری دستوری نظام کو سمجھنے بڑی تشنگی پائی جاتی ہے جبکہ یہ دستوری نظام ہی مختلف ادیان اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو قومی دستوری حق کی ضمانت دیتا ہے"۔ وہ مزید کہتا ہے کہ "وہ ممالک جو جمہوریت کے زیر سایہ ہیں دوسرے غیر جمہوری ممالک کے بنسبت اسلامی وحدت کے مفہوم اور پیمانے سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں"۔
اس پر زور دینے کے بعد کہ جمہوریت ہی وحدت کے حصول کا زیادہ قابل عمل طریقہ ہے، لکھنے والے نے اشاروں اور کنایوں میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اصطلاحی خلافت کے مفہوم کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ خلافت ایک تاریخی نام ہے جس کو وراثت میں حکمرانی پانے والوں کے لیے استعمال کیا گیا جو اس کے مستحق نہیں تھے۔ پھر اس نے خلافت کا یہ تصور دیا کہ چند علاقائی ممالک کی فیڈریشن بنا کر اس اتحاد کے سربراہ کو خلیفہ قرار دیا جائے!
لکھنے والےنے آخر میں اس کا یہ خلاصہ کیا ہے کہ شرع اور مسلمانوں کی تاریخ میں خلافت کی اصطلاح فکری پیچیدگی ،ظاہری فہم اور پھر دور حاضر کی سیاست میں اس کے نتائج ایسے نہیں جو بعض نوجوان سمجھتے ہیں،اس لیے کسی بھی مسلم قوم کے لیے وطن کو سیاسی اور اجتماعی قوت بنا نے اور آزادی کی خاطر قانونی مزاحمت کے لیے اس سیاسی ڈھانچے کو مسترد کر نے کا یہ کوئی معقول بہانہ نہیں ہے جو جمہوریت میں بن چکا ہے چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ملکوں کے درمیان وحدت کے حصول کے لیے جمہوری منصوبے پر ہی کاربند رہیں۔۔۔
اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر ہم یہ تبصرہ کریں گے:"جمہوری ریاست" کی اصطلاح گھڑ نے اور اس کو رواج دینے اور کسی ریاست کو جمہوری قرار دینے کے لئے مغرب نے تین من گھڑت،خیالی اور ناکام پیمانوں پر اعتماد کیا (Constitutional definition، Substantive measure، Procedural)۔ یہ تین اپنے تیئں خود تضادات کا مجموعہ اور عملاً خیالی ہیں !۔۔۔چنانچہ جمیکا جیسے ملک کسی حد تک جمہوری ملک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ یسے انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو جمہوریت پسندوں کو پسند آئے حالانکہ جمیکا اپنے شہریوں سے زیادتی کرتا رہتا ہے جو کہ خود مغرب کےمطابق "جمہوری آزادیوں" کے خلاف ہے۔اسی طرح انہوں نے عراق جیسے ملک کو جمہوریت میں بے مثال قرار دیا حالانکہ حال ہی میں المالکی کی حکومت جرائم میں صدام حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ! ۔۔۔ جنوری 2011 کے انقلاب کے بعد مصر کے انتخابات جن کے نتیجے میں مرسی حکومت بنی تھی اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ انتخابات شفاف تھے پھر فوج کی جانب سے سب کچھ الٹ دیا گیا اور مرسی کو برطرف کر دیا گیا اور یہ جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا!
ان زمینی حقائق اور جمہوری ماڈل کے مکمل ناکام ہو نے کے بعد ہم اس لکھنے والے کے ہدف کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ایک ایسے خیالی، تضادات سے بھر پو اور ناقابل عمل نظام پر اعتماد اور اسے اختیار کرنے کی دعوت اور امت کے عقیدے سے پھوٹنے والے نظام خلافت جس کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں جو تقریباً چودہ صدیوں تک نافذ رہا ، کو ترک کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا لکھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے ناکام اور خیالی نظام سے چمٹے رہنا جو ناقابل عمل ہے ایسا ہی ہے جیسا کہ ایسی رسی سے لٹکنا جو ہوا میں معلق ہو اور کیا یہ ایک خیالی چیز کے پیچھے بھاگنا نہیں۔۔۔؟
اس کے بعد مقالے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ جمہوریت لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مثالی نمونہ ہے حالانکہ زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں اور جمہوری ممالک کی صورت حال اس کے خلاف ہے۔ فرانس کو ہی لیں جہاں مسلمانوں عورتوں کے سکارف اوڑھنےپر پابندی ہے، سوئٹزر لینڈ میں مناروں پر پابندی لگائی گئی ہے، امریکی ڈرون جو افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں ۔۔۔بلکہ وہ صر ف مسلمان ہونے کی وجہ سے بغیر کسی منصفانہ عدالتی فیصلے کے خود اپنے مسلمان شہریوں کو قتل کرتے ہیں، امریکی خفیہ ایجنسیوں کو پیشگی قتل کی اجازت کا قانون جس کی اوباما نے بھی توثیق کردی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے ۔۔۔ پھر جمہوری مغرب کی جانب سے سب سے بڑا جرم جس کو (اسرائیل ) کہا جاتا ہے کی سرپرستی، ابوغریب کی شرمناکیاں، گونتاناموبے کی رسوائیاں اور اس کے ساتھ ویتنام میں امریکہ کی روسیاہی، پھر دیکھیں دوسری عالمی جنگ میں جو کچھ ہوا ۔۔۔آخر میں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جمہوریت نے انسانیت کو شر، قتل و غارت گری اور کرپشن کے سوا کیا دیا؟
خلافت ایک شرعی حقیقت ہے اور یہ شرعی وحدت بھی ہے ، کتاب اور سنت کے نصوص اس کے ذکر سے بھرے ہیں، اس کے قواعد کو بیان کرتے ہیں۔ خلافت کی فرضیت کے بارے میں امت یا آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ "کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کریں تو ان کو اس میں کوئی اختیار ہو اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا " (الاحزاب:36)۔
خلافت صرف بیعت کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب نہیں بلکہ یہ خلافت ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں معاشرتی نظام، اقتصادی نظام، حکمرانی کا نظام، عدالتی نظام، تعلیمی نظام، سزاوں کا نظام اور دیگر نظام ہائے حیات پائے جاتے ہیں۔ یہ نظام اس اسلامی ریاست میں صدیوں تک موجود تھے جو اسلام کو نافذ کرتی تھی، اسی لیے وہ ریاست دنیا کے لیے ایک آئیڈیالوجیکل ریاست تھی جس نے نور اور عدل کے علم کو بلند کیا، جس نے امت ، اس کے عقیدے اور اس کے مقدسات کی حفاظت کی ضمانت دی ۔۔۔
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاك إِلَّا رَحْمَة لِلْعَالَمِينَ﴾ "اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء:107)

ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

Read more...

بہن زولفیا امانوف کے خلاف عدالتی کاروائیوں کے مضمرات (قَدْ بَدَتْ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ) "بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ " (آل عمران:118)

22 اگست کوجمہوریہ کرغستان کے شہر اوش میں ضلعی عدالت میں بہن زولفیا امانوف کا مقدمہ اختتام کو پہنچا۔ اس سے پہلے کویا توف ایلار، میرزا بائیکوف بولات، عبدالداییف الماس پر مشتمل عدالتی بنچ نے جج کوجامکولاف رمضان کی طرف سےیکم جون 2014 کو لگائے گئے الزامات سے بہن کو بری قرار دیا تھا جس میں بہن کے بارے میں 50 ہزار سوم جرمانہ اور ایک سال جیل کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ ماہرین اور تحقیق کاروں کی عدم حاضری کی بنا پر عدالتی کاروائی بار بار ملتوی ہونے کے باعث تاخیر کا شکار بنی رہی اور 13 مئی سے اس حوالے سے میٹنگ کو آٹھ دفعہ ملتوی کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ ہماری بہن زولفیا اور اس کے خاندان کا مذاق اُڑارہے ہیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جرنل ریمکولافا ایم نے ہماری بہن زولفیا پر انتہا پسندانہ سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے جج سے مطالبہ کیاتھا کہ اسے مجرم قرار دیا جائے اور 5 سال جیل کی سزا دی جائے ۔
ہم پوچھتے ہیں کہ بہن زولفیا پر یہ الزامات اور سزائیں ججز اورایوان عدالت کے اراکین کی جانب سے ذاتی اقدامات کی بنیاد پر عائد کیے جارہے ہیں؟ یا یہ سب کچھ ازبکستان کی اس مجرم حکومت کے احکامات کی پیروی میں کیا جارہا ہے جس نے زولفیا کے والد امانوف حمید اللہ شہید کو اغواء کیا تھا اور ان کومسلسل 14 سال تک قیدخانوں میں تشدد کا نشانہ بنائے رکھااور جب انہیں پتہ چلا کہ امانوف کے ارادے مضبوط ہیں جنہیں توڑا نہیں جاسکتا تو ان کو درندگی سے قتل کرڈالا؟ یا پھر یہ کاروائیاں کرغستان کے اندر تشکیل پانے والی اس نئی حکومت کی طرف سے عمل میں لائی جارہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ لڑنے میں اپنے پڑوسیوں کی پیروی کرتی ہے؟ یہ وہ حکومت ہے جس نے انتہائی بے شرمی سے اپنے عوام کی آزادی سلب کرلی ہے، وہ حکومت جو لوگوں کے اندر شراب نوشی اور گھٹیا طرزِ زندگی کو رواج دے رہی ہے، وہ حکومت جس نے اپنی قوم کو روٹی کے ٹکڑوں کو حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبو ر کیاہے، اور یہ وہ حکومت ہے جو بے چاری عورتوں پر ظلم ڈھاکر ان کو جیلوں میں قید کردیتی ہے اور ان کے شوہروں کو قتل اور بچوں کو یتیم بنادیتی ہے ۔
ہم آپ لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ تم کس بنیاد پر ہماری بہن زولفیا پر یہ الزامات تھوپ رہے ہو جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرتی ہے ؟ اور کس وجہ سے تم ہماری ان پاکباز اور متقی بہنوں کو جیلوں میں قید کرتے ہو ؟ تم نہیں جانتے کہ مسلمان خواتین کا پیچھا کرنا اور کوئی بھی ایسا عمل جو ان کی ایذا رسانی کا باعث بنے حرام ہے حرام ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں مؤمنین اور مؤمن عورتوں کو ایذا پہنچانے پر سخت تنبیہ کی ہے اور فرمایا ہے ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا "اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، اُنہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے " (الاحزاب:58
)۔
اور اے ججوں اور اٹارنی جنرلو اور تجھے بھی اے اتامبایوف ! ہم اللہ تعالیٰ کے اس قول سے خبردار کرتے ہیں وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا "اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، اُنہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے " (الاحزاب:58
)۔
ہماری بہادر بہن زولفیا اپنا حق مانگتی ہے کہ اس کے والد کی لاش اس کے سپرد کی جائے اور اس کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ یہ حق اس کو اللہ عز وجل اس کے خالق نے دیا ہے کہ خون کا بدلہ خون سے لیا جائے اور اس کے اس موقف کا مکمل احترام ہونا چاہئے تھا ۔
ہم تم سے پوچھتے ہیں! تم اپنی ذمہ داریاں کیوں نبھاہ نہیں رہے ہو اور ان مجرموں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے ہو جنہوں نے ہمارے بھائی امانوف حمید اللہ کے ساتھ خیانت کی اور اس کے اغواء کی اجازت دی؟ اور اسی وقت تم نے امانوف حمید اللہ کی رہائی کامطالبہ کیوں نہیں کیا؟ جبکہ تب بھی تم جج اور اٹارنی جرنل کے عہدوں پرفائز تھے ؟ یہی تمہاری ذمہ داری تھی! تم کس طرح ایک کمزور اور بے بس مسلمان کی عزت پر دست درازی پر خاموشی کواختیار کرتے ہو؟ اس کی حمایت کے لئے تم لوگ حرکت میں کیوں نہیں آئے ؟ بے شک مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی ایذا رسانی پر خاموشی عظیم ظلم ہے اور اس کی وجہ سے آدمی گناہ کے اندھیر وں میں غرق ہو جاتا ہے۔
آخر میں ہم حزب التحریر والے اس بات پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی نصرت اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دوبارہ قیام نزدیک ہے .....وہ خلافت جو حق اور عدل کی روشنی سے چمکتی ہوگی .....تب اپنی عدالت میں ہر اس ظالم کو کھڑا کر دے گی جس نے اس امت کے لوگوں پر دست درازی کی ہوگی تاکہ اسے اپنے کئے کی سزا مل جائے .....اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل امرنہیں۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اوراس روز مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کاوعدہ فرمایاہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں فرماتا، لیکن اکثر لوگ (اللہ کے تصرفات کو) نہیں جانتے " (الروم:4-5)

ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر



Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک