السبت، 25 ربيع الأول 1446| 2024/09/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

حزب التحریر کے تیارکردہ اسلامی آئین کو اردو زبان میں جاری کردیا گیا قرآن و سنت سے اخذ کردہ آئین ہی پاکستان کو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کے بوجھ سے آزاد کردسکتا ہے

مسلم دنیا 3 مارچ 1924 بمطابق 28رجب 1342 ہجری کو اسلامی آئین سے محروم ہو گئی تھی جب خلافت کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ اس تاریخ کی مناسبت سے حزب التحریر ولایہ پاکستان نے حزب التحریر کی کتاب آنے والی خلافت کے اسلامی آئین "مقدمہ الدستور أوالأسـباب المـوجبة له" کا اردو ترجمہ"مقدمہ الدستور"جاری کردیا ہے۔1953 میں اپنے قیام کے بعدحزب التحریر نے 1963 میں خلافت کے خاتمے کے بعد پہلی بار امت کے سامنے ایک اسلامی آئین اسلام کی زبان عربی میں پیش کیا تھا ۔ آج جبکہ اس کا دوسرا شمارہ بھی شائع ہو چکا ہے، یہ آئین مسلم دنیا میں رائج کسی بھی نام نہاد اسلامی آئین سے قطعی منفرد اور جدا ہے کیونکہ اس میں شامل 191 دفعات صرف اورصرف قرآن و سنت سے اخذ کی گئی ہیں اور ان میں کسی برطانوی ، فرانسیسی ، امریکی یا جمہوری ، بادشاہی، آمریت یا مغربی ، مشرقی یا کسی غیر اللہ کے قانون کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔ایک ایسے وقت میں جب امت خلافت کے قیام کے بہت قریب پہنچ چکی ہے، یہ آئین ہر زاویے سے ایک مکمل اسلامی آئین ہے۔
اس رجب حزب التحریر کے شباب اس اردو ترجمے سے لیس ہو کر پاکستان میں بھر میں ہونی والی اس بحث میں اپنا کردار ادا کریں گے کہ آیا1973کاآئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ دو جلدوں پر مشتمل یہ آئین اس بات کو جاننے کے لیے انتہائی اہم ہے کہ موجودہ کوئی بھی آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اس کے علاوہ یہ کتاب "مقدمہ الدستور" امت کے سامنے ریاست خلافت کی شکل واضح کرتا ہے۔ اس کتاب میں بیان کی گئی ہر دفعہ کے ساتھ ان تمام آیات و احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دفعات صرف اسلامی شرعیت کے ماخذ قرآن و سنت سے لی گئی ہیں اور کسی بھی قسم کے غیر شرعی انسانی قوانین کی آلودگی سے مکمل پاک ہیں۔ یہ کتاب باخبر اور اہل رائے دانشوروں کے لیے بھی ایک نادر تحفہ ہے جو اسلامی طرز زندگی کی جانب لوٹنے کی امت کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں رہنمائی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
پوری امت میں اس وقت ایک زبردست بحث اور دین حق اسلام کو ایک اسلامی ریاست کی شکل میں بااختیار دیکھنے کی شدید خواہش موجود ہے۔ لہٰذا اس کتاب کا اردو ترجمہ "مقدمہ الدستور" امت اور پاکستان کے اہل قوت کے لیے، معروف رہنما اور فقیہ ، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں حزب التحریر کی جانب سے ایک انتہائی قیمتی تحفہ ہے۔یہ کتاب امت اور آج کے انصارپر یہ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ قرآن و سنت کسی بھی انسانی مسئلے پر خاموش نہیں اور اسلامی شریعت ہر دور اور جگہ کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
نوٹ: کتاب مقدمہ الدستور کو اس ویب لنک سے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے: http://pk.tl/1fAh

Read more...

حزب التحریر کی طرف سے "نوید بٹ کوفوراًرہاکرو" مہم کے سلسلے میں حزب التحریر ولایہ یمن کے وفد نے پاکستانی سفارت خانے کو خط پہنچایا

منگل، یکم اپریل 2014کو حزب التحریر کے ممبرا نجینئر ناصر وحان اللهبي کی قیادت میں حزب التحریر کی ایک وفد نے پاکستانی سفارت خانے کےناظم الامور جناب خالد حسین خان قوداروسے ملاقات کی اور انہیں حزب التحریر کی جانب سے ایک خط پہنچایا ۔ یہ خط اس مہم کے ضمن میں دیاگیا جسے دنیابھرمیں "نوید بٹ کوفوراً رہاکرو" کے عنوان سے حزب التحریر چلارہی ہے۔
وفد نے ناظم امور کو وہ پیغام حوالے کیا جسے ولایہ پاکستان میں حزب نے مندرجہ ذیل عنوان کے تحت جاری کیا کہ وہ اسے پاکستانی حکومت تک پہنچادیں :
﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾
"یہ لوگ اُن ایمان والوں سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے یہ کہ وہ اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے" (البروج: 8)
اس ملک کے حکمران کے نام ، جس نے حزب التحریر ولایہ پاکستان کے تر جمان نوید بٹ کو تقریباً دو سال قبل اغواکیا تھا۔ اب تک ان کی موجودگی کے مقام کاعلم نہیں ہوسکااورنہ ہی ان کوکسی عدالت کے سامنے پیش کیاگیا۔ نوید بٹ کاقصور یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنارب مانتے ہوئے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے دوبارہ قیام کےلئے سرگرم عمل تھے، وہ خلافت جو مسلمانوں کووحدت بخشے گی ۔ وہ سچ کابرملا اظہار اوربھلائی کی دعوت دیتےتھے، انہوں نے ان منصوبوں کوبے نقاب کیاجن کومغرب اوراس کے ایجنٹ ملک اوراس کے عوام کے خلاف بناتے رہتے ہیں۔
ناظم الامور کو مندرجہ ذیل پمفلٹ ایک خط کی صورت میں پیش کیا گیا :
"نوید بٹ ،ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے مشہور ومعروف اورانتہائی قابل احترام ترجمان ،جنہیں آج سے دوسال قبل 11مئی 2012 کو اغواکیاگیاتھا ،آج تک حکومتی غنڈوں کے قبضے میں ہیں۔ نوید بٹ کامسلمانوں کے خلاف کافر استعماری طاقتوں کی سازشوں کومسلسل بے نقاب کرنااوراسلام کی بنیاد پر حکمرانی کے نقشے کوواضح طور پر پیش کرنا، سیاسی وفوجی قیاد ت میں موجود غداروں کوسخت ناپسندتھا،وہ مسلسل اس حقیقت کوواضح کرتے رہے کہ کس طرح اسلام کی حکمرانی مسلم دنیاکے لئے بالخصوص اورپوری دنیا کے لئے بالعموم خیروبھلائی کاباعث بنے گی۔ ان غداروں نے اپنے استعماری آقاؤں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے نوید بٹ کوخاموش کرنے کیلئے اپنے غنڈوں کومتحرک کیا،وہ استعماری آقا کہ جنہوں نے شام سے لے کر ازبکستان تک ہرجگہ خلافت کی دعوت کے خلاف جنگ برپاکررکھی ہے ۔ پس ان ظالموں نے اسلام کے خلاف اپنے متعددجرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا اور نوید بٹ کا پیچھا کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اِن کے غنڈوں نے نوید بٹ کو اُن کے بچوں کے سامنے اغوا کرلیا۔ اور آج کے دن تک ان غداروں نے صرف نوید بٹ کو ہی اپنے قید خانے میں قید نہیں کر رکھا ہے بلکہ انہوں نے حزب التحریر کے شباب کے خلاف ظلم و جبر کی مہم برپا کر رکھی ہے۔خلافت کی دعوت ان کی آنکھوں میں اس قدرکھٹکتی ہے کہ آج کے دن تک ان غنڈوں نے نہ صرف حزب التحریر کے شباب کے خلاف ظلم وجبر کی مہم برپاکررکھی ہے ،اور یہ ٖغنڈے ہراس جگہ پہنچ جاتے ہیں،جہاں حزب التحریر کے شباب عوام سے مخاطب ہوں یاان کے درمیان پمفلٹ تقسیم کررہے ہوں، خواہ یہ چندمنٹوں کیلئے ہی ہو!"
ناظم الامورنے اپنی حکومت کویہ پیغام پہنچانے کی حامی بھری جو سرسے پاؤں تک غداری کے جرم میں ڈوبی ہوئی ہے،جس نے یہ ٹھان لیاہے کہ اپنے مغربی آقاؤں بالخصوص امریکہ کے مفادات کی خاطر حزب التحریر کے مخلص کارکنان کوپکڑتی اوراغواکرتی رہے گی ۔
عبد المؤمن الزيلعي
ولایہ یمن میں میڈیاآفس حزب التحریر کے سربراہ

Read more...

حزب التحریر ولایہ اُردن کے وفد نے اُردن میں پاکستانی سفارت خانے کو حزب التحریر ولایہ پاکستان کی طرف سے شائع کردہ پمفلٹ پہنچادیا

منگل، یکم اپریل 2014کو حزب التحریر ولایہ اردن کی وفد نے عمان میں پاکستانی سفارت خانے کو وہ لیفلٹ سپرد کردیا جسے حزب التحریر ولایہ پاکستان نے شائع کیا ہے۔ وفد کی نمائندگی مرکزی رابطہ کمیٹی کے صدر الاستاذ علی الصمادی نے کی۔ یہ لیفلٹ نوید بٹ کی رہائی کیلئے چلائی گئی مہم کاحصہ ہے جس کاعنوان ہے :
"نوید بٹ کوفوراً رہاکرو"
حزب التحریر عالمی سطح پریہ مہم چلارہی ہے تاکہ کفریہ استعماری طاقتوں کیلئے ایجنٹ کاکرداراداکرنے پر پاکستانی حکومت کوبے نقاب کیاجائے اور اس کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھایاجائے جواسلام اورمسلمانوں کا دشمن ہے اوردعوت کاکام کرنے والے امت کے ان با اثر اور مخلص بیٹوں کے ساتھ اس کا بغض وعداوت اپنی مثال آپ ہے۔ اور ان نوجوانوں کے سربراہ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان "نوید بٹ" صاحب ہیں جوتقریباًعرصہ دوسال سے آج تک پاکستانی حکومت کے غنڈوں کے ہاں گمشدگی کی زندگی صبر استقامت کے ساتھ گزاررہےہیں۔ ذیل میں اس لیفلٹ کامتن دیاجارہاہے جو سفارتخانے میں جمع کرایاگیا:


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
﴿وَمَا نَقَمُوامِنھُم إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾
"اور وہ ایمان والوں کو صرف اس بات کی سز ادے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا ،بہت قابل تعریف ہے"(البراج:8)


نوید بٹ ،ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے مشہور ومعروف اورانتہائی قابل احترام ترجمان ،جنہیں آج سے دوسال قبل 11مئی 2012 کو اغواکیاگیاتھا ،آج تک حکومتی غنڈوں کے قبضے میں ہیں۔ نوید بٹ کامسلمانوں کے خلاف کافر استعماری طاقتوں کی سازشوں کومسلسل بے نقاب کرنااوراسلام کی بنیاد پر حکمرانی کے نقشے کوواضح طور پر پیش کرنا، سیاسی وفوجی قیاد ت میں موجود غداروں کوسخت ناپسندتھا،وہ مسلسل اس حقیقت کوواضح کرتے رہے کہ کس طرح اسلام کی حکمرانی مسلم دنیاکے لئے بالخصوص اورپوری دنیا کے لئے بالعموم خیروبھلائی کاباعث بنے گی۔ ان غداروں نے اپنے استعماری آقاؤں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے نوید بٹ کوخاموش کرنے کیلئے اپنے غنڈوں کومتحرک کیا،وہ استعماری آقا کہ جنہوں نے شام سے لے کر ازبکستان تک ہرجگہ خلافت کی دعوت کے خلاف جنگ برپاکررکھی ہے ۔ پس ان ظالموں نے اسلام کے خلاف اپنے متعددجرائم میں ایک اور جرم کا اضافہ کیا اور نوید بٹ کا پیچھا کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اِن کے غنڈوں نے نوید بٹ کو اُن کے بچوں کے سامنے اغوا کرلیا۔ اور آج کے دن تک ان غداروں نے صرف نوید بٹ کو ہی اپنے قید خانے میں قید نہیں کر رکھا ہے بلکہ انہوں نے حزب التحریر کے شباب کے خلاف ظلم و جبر کی مہم برپا کر رکھی ہے۔خلافت کی دعوت ان کی آنکھوں میں اس قدرکھٹکتی ہے کہ آج کے دن تک ان غنڈوں نے نہ صرف حزب التحریر کے شباب کے خلاف ظلم وجبر کی مہم برپاکررکھی ہے ،اور یہ ٖغنڈے ہراس جگہ پہنچ جاتے ہیں،جہاں حزب التحریر کے شباب عوام سے مخاطب ہوں یاان کے درمیان پمفلٹ تقسیم کررہے ہوں، خواہ یہ چندمنٹوں کیلئے ہی ہو!
اے پاکستان کے مسلمانو! ہمیں انشاء اللہ نوید بٹ کے لئے کوئی افسوس یا رنج یا مایوسی نہیں ہے کیونکہ وہ خیر کی دعوت کی راہ کے مسافر ہیں، وہ راہ کہ جس پراس سے قبل انبیاء علیہ السلام ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کی پیروی کرنے والے صالحین نے چل کر دکھایا اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو صبر و استقامت سے برداشت کیا۔ نوید بٹ کے اپنے بیوی بچوں اور خاندان سے لمبی جدائی بھی کسی افسوس یا رنج کا مقام نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ قیامت کے دن نیکو کاروں کو ان کے خاندان والوں کے ساتھ ملادے گا، اس دنیا کی مختصر زندگی کی طرح نہیں بلکہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، ایک ایسا ملاپ کہ جس کے بعد پھر کبھی کوئی جدائی نہیں ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ جَنّٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ءَابَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ﴾ "ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ داداؤں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ نہ ہی یہ ظلم و جبر ان لوگوں کے لیے کسی رنج یا افسوس کا باعث ہے جو اسلام کی دعوت کے علمبردار ہیں کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انشاء اللہ کامیابی قریب ہے۔ یقیناً آزمائش وہ بھٹی ہے جس سے گزر نے سے اللہ پر ایمان مضبوط ہوتا ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قرب اور رضا نصیب ہوتی ہے اور اس کی مدد اور کامیابی حاصل ہوتی ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشادہے: ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِيْنَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ﴾ "کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ:214)۔
ہاں یقیناً رنج و غم اور افسوس ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کر کے اللہ کے حضور اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں، بلکہ افسوس اور حسرت تو ان جابروں کے حصے میں آئے گی جو اسلامی دعوت کے عَلمبرداروں کی جانب سے پہنچائی گئی دعوت کو مسترد کرتے ہیں اور ان پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾ "بے شک جن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ستایا پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اوران کے لئے جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10)۔ اور رنج و افسوس ان لوگوں کے لئے ہے جو ظلم ڈھانے کے احکامات جاری کرتے ہیں، اوررنج و افسوس ان غنڈوں کے لئے ہے جو ان جابروں کے بازو، آنکھیں اور کان بنے ہوئے ہیں اور ان کے احکامات کو نافذ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت نہیں کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ﴾ "اور(جہنمی) کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی بات مانی جنہوں نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 67)۔
اے افواج پاکستان! اسلامی دعوت کے عَلمبرداروں کا اغوا اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد آج پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کا محض ایک جرم ہے۔ لیکن بے شک وہ ہر طرح کے سنگین جرائم سر انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے ملکِ پاکستان کو دشمنوں کی چراگاہ بنا رکھا ہے اور اس کے لوگوں کو غربت اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ جب تک یہ ظلم یعنی کافر دشمنوں کی اطاعت اور کفر کے نفاذ کا سلسلہ جاری رہے گا، ہم ذلت، مایوسی، فتنے اور سزا سے ہی دوچار رہیں گے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ "اور ڈرو ایسے وبال سے کہ جو خاص کر تم میں سے ظالموں پر ہی واقع نہ ہوگا (بلکہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے)، اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (الانفال: 25)۔ اوررسول اللہﷺ نے فرمایا: ﴿إنَّ النَّاسَ إَذا رَأوُا الظَّالِمَ فَلمْ يَأْخُذُوا عَلى يَدَيْهِ أوْشَكَ أن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقَاب﴾ "اگر لوگ ایک ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا دے" (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔
اگر آج یہ ظلم وجبر جاری و ساری ہے تو یہ آپ کی گردن پر ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں آپ ہی اہلِ نُصرۃ یعنی عسکری مدد فراہم کرنے کے اہل ہیں، اورآپ یہ قوت رکھتے ہیں کہ کفریہ حکمرانی کا خاتمہ کرکے اسلام کی حکمرانی کو بحال کردیں۔یقیناً آپ کے اسلاف آپ ہی کی مانند میدانِ جنگ کے شہسوار تھے کہ جن کی مادی مدد سے رسول اللہﷺ نے کفر کی حکمرانی کواُس مادی سہارے سے محروم کردیا تھا کہ جس پر وہ کھڑی تھی۔رسول اللہﷺ ایک مضبوط مادی قوت کی تلاش میں تھے اور قبیلوں سے واضح طور پر پوچھتے تھے ﴿﴿و هل عند قومك منعة؟﴾﴾ "کیا تمھارے لوگوں میں طاقت ہے؟" آپﷺ نے ان لوگوں کی مدد کو مسترد کردیا جو اسلام کو اس کے دشمنوں سے تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تھے۔ پس رسول اللہﷺ کئی قبائل سے ملے جن میں بنو کلب، بنی عامر بن صعصہ، بنو کندہ اور بنو شیبان وغیرہ شامل تھے۔رسول اللہﷺ اس طریقہ کار پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا رہے
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انصارِ مدینہﷺ کے ذریعے آپ کو نُصرۃ کے معاملے میں کامیابی عطا کردی۔ انصار کا یہ گروہ جنگی صلاحیت کے حامل گروہوں میں سے ایک چھوٹا لیکن بہادر اور مخلص افراد کا گروہ تھا۔ اوریوں سیرتِ نبوی کے ذریعے اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لیے نُصرۃ کے شرعی حکم کاتعین ہو گیا اور اس کے نتیجےمیں منتشر ا ورتقسیم شدہ یثرب اسلام کے طاقتور قلعے مدینہ منورہ میں تبدیل ہو گیا۔

اے افواج پاکستان! نوید بٹ کی طرح کے افراد نہ تو کوئی حیران کن بات ہے اور نہ ہی کوئی یکتا مثال، کیونکہ یہ سرزمین ایسے بہادر لوگوں سے بھری پڑی ہے کہ جن کا ایمان انہیں کفر کے سامنے دلیری دکھانے اورڈٹ جانے کی طرف ابھارتا ہے۔ اس خطے کے لوگوں نے خلافتِ راشدہ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ اس وقت سےہم مسلمان ہونے کے ناطے اسلام کے لئے اپنا خون پسینہ بہاتے رہے ہیں۔ ہم مسلمان کفار کی افواج کو شکست سے دوچار کرتے رہے ہیں اور کئی سو سال تک اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ یہ برِصغیر اپنی خوشحالی کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ ہم نے اس سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کیا اور دو سو سال تک کفر یہ برطانوی راج کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے رہے۔ ہم نے برطانوی افواج کو اس سرزمین کو چھوڑنے پر اس طرح مجبور کیا کہ انہوں نے دوبارہ واپس آنے کی ہمت نہیں کی اور پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آگیا۔ مسلم انڈیا کی تقسیم کے دوران ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی اور یہ قربانیاں ہمارے لیے ہرگز رنج اور افسوس کا باعث نہیں ہیں ۔
اسلام آج بھی ہماری رگوں میں دوڑتا ہے ، یہ ہماری زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے اور ہم اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اور آج، اس موقع پر، اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کا طریقہ کار نصرۃ کے حامل افراد سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے نُصرۃ فراہم کریں اور آپ میں سے ہر شخص نُصرۃ فراہم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ سو تم راحیل ۔نواز حکومت کی صفوں میں موجود ان لوگوں کی دنیاوی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کو برباد کرنے سے بچو کہ جواُس حلف سے پِھر چکے ہیں جو انہوں نے اٹھایا تھا اور تمھاری قیادت کو آلودہ کررہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرو، جوفقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت تلے سرگرمِ عمل ہے۔ وہ لوگ جو اب تک اس مقصد کے لئے آگے نہیں بڑھے، انہیں اب لازماً آگے آنا چاہیے کیونکہ خلافت کے قیام کا کام اپنے ابتدائی مرحلے میں نہیں بلکہ آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھو اور اس بات کو جان لو کہ ہم پر کوئی بھی مشکل اور تکلیف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہیں آتی اور مؤمن اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرا کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ "کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ جبکہ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو" (التوبۃ: 13)۔

Read more...

حزب التحریر ولایہ سوڈان کے وفد نے خرطوم میں پاکستانی سفارت خانے کو حزب التحریر ولایہ پاکستان کاجاری کردہ لیفلٹ حوالے کیا

پریس ریلیز
حزب التحریر ولایہ سوڈان کے وفد نے سوڈان میں پاکستان کے سفارت خانے کا دورہ کیا ،جس کی قیادت ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے ترجمان ابراہیم عثمان ابو خلیل کررہے تھے۔ وفد میں ولایہ سوڈان میں حزب التحریر ولایہ کمیٹی کے رکن بھائی محی الدین بخاری اورولایہ سوڈان کی میڈیاآفس کے رکن بھائی یعقوب ابرہیم بھی شامل تھے۔ وفد نے حزب التحریر ولایہ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ لیفلٹ پاکستان کے سفارت خانے کے حوالے کیا جس کاعنوان تھا:
﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾
یہ لوگ اُن ایمان والوں سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے یہ کہ وہ اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پر
ایمان لائے تھے (البروج: 8)
یہ وفد اس مہم کے سلسلے میں سفارت خانے گیا جو پوری دنیامیں "ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کورہاکرو" کے نام سے چلائی جارہی ہے ۔ جنہیں آج سے دوسال قبل 11مئی 2012 کو پاکستانی حکومت کے غنڈوں نے اغواکر لیا تھا۔انہیں آج تک نہ تو رہا کیا گیا ہے، نہ ہی یہ علوم ہے کہ انہیں کہا ں رکھا گیا ہے اور نہ ہی ان کوکسی عدالت کے سامنے پیش کیاگیا۔
اس لیفلٹ میں پاکستان کے مسلمانوں کومخاطب کرکے ان پر یہ واضح کیاگیاہے کہ" نوید بٹ کیلئے کوئی افسوس یارنج یامایوسی نہیں ہے ،کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ عنقریب نصرت ومدد کاوعدہ ہے ،اوریہ کہ یہ آزمائشیں مسلمانوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے امتحان ہے،جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ط مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّ‌اءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّ‌سُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ‌ اللَّـهِ ط أَلَا إِنَّ نَصْرَ‌ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ﴾
"کیاتم یہ گمان کیے بیٹھے ہوکہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤگے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جوتم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے ۔ انہیں بیماریاں اورمصیبتیں پہنچیں اوروہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اوراس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سن لو اللہ کی مدد قریب ہی ہے"( البقرہ: 214)

ہاں یقیناً رنج وغم اورافسوس ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو ظالم وجابر کے سامنے کلمہ حق بلند کرکے اللہ کے حضور اپنی ذمہ داری کوپوراکرتے ہیں، بلکہ افسوس اورحسرت تو ان جابروں کے حصے میں آئے گی جودعوت کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتےرہتے ہیں۔
لیفلٹ میں پاکستان کےمسلح افواج میں موجود مخلص مسلمانوں کو خطاب کیاگیا اورانہیں کہاگیا ہے کہ " اسلام آج بھی ہماری رگوں میں دوڑتا ہے ، یہ ہماری زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے اور ہم اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اور آج، اس موقع پر، اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کا طریقہ کار نصرۃ کے حامل افراد سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے نُصرۃ فراہم کریں اور آپ میں سے ہر شخص نُصرۃ فراہم کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ سو تم راحیل ۔نواز حکومت کی صفوں میں موجود ان لوگوں کی دنیاوی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کو برباد کرنے سے بچو کہ جواُس حلف سے پِھر چکے ہیں جو انہوں نے اٹھایا تھا اور تمھاری قیادت کو آلودہ کررہے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر چلتے ہوئے خلافت کے دوبارہ قیام کے لئےحزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرو، جوفقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت تلے سرگرمِ عمل ہے۔ وہ لوگ جو اب تک اس مقصد کے لئے آگے نہیں بڑھے، انہیں اب لازماً آگے آنا چاہیے کیونکہ خلافت کے قیام کا کام اپنے ابتدائی مرحلے میں نہیں بلکہ آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا آگے بڑھو اور اس بات کو جان لو کہ ہم پر کوئی بھی مشکل اور تکلیف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی کے بغیر نہیں آتی اور مؤمن اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرا کرتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾
"کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ جبکہ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو" (التوبۃ: 13)۔
خرطوم سفارت خانے کے ذمہ دار نے لیفلٹ کے اردو ،عربی اورانگریزی کی کاپیاں لے کر سفیر کودینے کاوعدہ کیا، جو کسی میٹنگ میں مصروف تھے اوراس نے حزب کااڈریس بھی طلب کیاتاکہ سفیر بعد میں حزب کے ساتھ رابطہ کرسکے۔
ولایہ سوڈان میں حزب التحریر کے ترجمان

Read more...

حزب التحریر کے اراکین کا اغوا خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتا ڈاکٹر اسماعیل شیخ کے اغوا کے خلاف حزب التحریر کے ملک گیر مظاہرے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے اپنے رکن ڈاکٹر اسماعیل شیخ کے اغوا کے خلاف پاکستان بھر میں مظاہریے کیے۔ مظاہرین نے بینر اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا : "ڈاکٹر اسماعیل شیخ کا اغوا۔۔۔۔خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتا"، "جمہور یت امریکی راج کی محافظ۔۔۔خلافت مسلمانوں کی ڈھال" ۔ یہ مظاہرے ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی فوری رہائی کے مطالبے کے لیے کیے گئے۔
مظاہرین ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی سلامتی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کررہے تھے جن کو راحیل۔نواز حکومت کے غنڈوں نے جمعہ 18اپریل 2014 کو اس وقت اغوا کرلیا تھا جب وہ گلستان جوہر، کراچی میں واقع اپنے گھر سے صبح 10بجے نکلے ہی تھے۔ ڈاکٹر اسماعیل شیخ ایک مایہ ناز اور انتہائی تعلیم یافتہ ڈینٹل سرجن اور خلافت کے متحرک داعی ہیں جنہوں نے خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرز زندگی کی بحالی کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے سیاسی و فکری جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ مظاہرین اس بات پر انتہائی غم و غصے کا اظہار کررہے تھے کہ ایک ایسے ملک میں جس کا قیام اسلام کے نام پر ہوا اور لاکھوں مسلمانوں نے اسلام کے نفاذ کے لیے اپنی زندگیا نچھاور کیں ہوں وہاں پر ڈاکٹر اسماعیل جیسے انسان کے ساتھ ایسا انتہائی شرمناک اور قابل مذمت سلوک کیا گیا ۔
حزب التحریر جابر حکمرانوں کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ اگر دو سال قبل پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کا اغوا، جو آج کے دن تک لاپتہ ہیں، حزب اور اس کے شباب کو خلافت کے قیام کی جدوجہد سے روک نہیں سکا تو ڈاکٹر اسماعیل شیخ کا اغوا بھی حزب اور اس کے شباب کو خوفزدہ نہیں کرسکتا بلکہ اُن کا اغوا انشاء اللہ اس دن کو مزید قریب کردے گا جب خلافت کے قیام کے بعد امت ان غداروں کا احتساب کرے گی اور انہیں سزائیں دے گی۔

 

Read more...

خبر اور تبصرہ خطے سے متعلق راحیل-نواز حکومت کا نقطہ نظر بہت محدود ہے

خبر: بروز جمعرات، 11 اپریل 2014 کو وزیر اعظم نواز شریف نے باؤ فورم برائے ایشیاء کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ طریقہ کار کی ضرورت ہے اور "کامیابی کے لئے اضافی ربط" کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین، یوریشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے جس کی بنا پر پاکستان تین معاشی راہ داریوں چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطٰی کے پاس واقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "شاہراہ ریشم سے ہمارا تعلق ان تین حوالوں سے ہے"۔
تبصرہ: جناب نواز شریف اس وقت دنیا کے ہر کونے تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی قوم کو یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ پاکستان کو دنیا کے سامنے کاروبار کے حوالے سے بہترین ملک کے طور پر متعارف کرانے اور بیرونی سرمایہ کار کو ملک میں لانے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ ایک بار پھر پاکستان کی معیشت کو بلندی کی جانب گامزن کرسکیں۔ باؤ فورم برائے ایشیاء کی سالانہ کانفرنس میں شرکت اور خطاب بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔ راحیل۔نواز حکومت اس بات کا دعویٰ کررہی ہے کہ وہ عالمگیریت کے تصور کے حوالے سے پاکستان کو ایک علاقائی اور بین الاقوامی تجارتی مرکز کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یہی وہ جواز ہے جس کو حکومت ، بھارت کو "پسندیدہ ملک" کا درجہ دینے اور افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے پردے میں افغانستان میں امن مذاکرات کی حمائت کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ان دو کاموں سے وسطی ایشیا سے لے کر بھارت تک کا خطہ ایک دوسرے کے قریب آجائے گا اور اس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے کے عوام اس سے زبردست فائدہ اٹھائیں گے۔
خطے سے متعلق یہ محدود نقطہ نظر ، جہاں خارجہ تعلقات میں صرف معاشی فوائد کو سامنے رکھا جائے ، غلط اور خطرناک ہے۔ اکثر معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں میں ایک یا دو بڑے ممالک زیادہ فوائد سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ اپنے معاشی فوائد میں اضافے کے لیے کم ترقی یافتہ ہمسایہ ممالک کی مارکیٹوں کو اپنے مال سے بھر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی صنعت تباہ ہوجاتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو ان معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں کا حصہ بننے کی صورت میں جو حصہ ملتا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے۔ چاہے یورپی یونین ہو یا نیفٹا (NAFTA) یا کوئی بھی دوسری ایسی تنظیم ، ہمیشہ بڑے ممالک کو چھوٹے ممالک کی قیمت پر بڑا حصہ ہی ملتا ہے۔ نیفٹا کے تحت میکسیکو امریکی گوشت کے لیے ایک زبردست مارکیٹ ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں امریکی گوشت کی صنعت کے منافع میں مسلسل اضافہ ہو ا۔ امریکی ایوان تجارت کے مطابق نیفٹا کے نتیجے میں کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ امریکی تجارت میں اضافہ ہوا۔ 1993 میں ان ممالک کے ساتھ امریکی تجارت 337بلین ڈالر تھی جو 2011 تک بڑھ کر 1200بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اعلٰی صنعتی بنیاد کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک مختلف اقسام کی اشیاء کو بہت بڑی تعداد میں پیدا کرتے ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک کے پاس ایسی اعلیٰ صنعتیں نہیں ہوتیں ، لہٰذا وہ صرف چند ہی اشیاء پیدا کرپاتے ہیں۔ اس لیے ترقی پزیر ممالک ان نام نہاد معاشی تعاون کی علاقائی تنظیموں سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
پچھلے ساٹھ سالوں سے صنعتی ترقی کی منزل کو پانے سے پاکستان کو روکا گیا ہے اوراس نام نہاد علاقائی معاشی تعاون کے منفی نتائج کا ہم پہلے ہی سے سامنا کررہے ہیں۔ ہماری مارکیٹیں سستی چینی اشیاء سے بھری پڑی ہیں اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مقامی صنعتیں ان سے مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ اور اب بڑے بڑے بھارتی پیداواری ادارے بھی چین کی طرح اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں۔ ہمارے مقامی پیداواری ادارے آخر کار اپنے کاروبار کو بند کر کے اشیاء کی درآمد شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں وہیں بیرونی ممالک پر ہمارا انحصار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کی معاشی انحصاری بیرونی ممالک کو ہمارے قومی معاملات پر اثر انداز ہونے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
راحیل۔نواز حکومت صرف وہی کچھ دیکھنا چاہتی ہے جو مغربی دارلحکومتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ہیڈکواٹروں میں بیٹھے ان کے آقا انہیں دِکھانا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی اصل صلاحیت کو دیکھنے سے قاصر ہیں اگر پاکستان دوسری خلافت راشدہ کے آغاز کی سرزمین بن جائے۔ اگر پاکستان ریاست خلافت بن جائے تو اسلام کے معاشی نظام کا نفاذ زبردست معاشی خوشحالی کا باعث بنے گا کیونکہ اس نظام کی توجہ دولت کی تقسیم پر ہوتی ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت چند ہاتھوں میں مقید ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب وسطی ایشیا سے بھارت، مشرقی افریقہ سے جزیرۃ العرب اور انڈونیشیا سے ملیشیا تک کے مسلم علاقے ایک ریاست خلافت کا حصہ بن جائیں گے تو مسلمانوں کو دوسری اقوام کی مارکیٹوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ ان کی اپنی مارکیٹ ہی اتنی وسیع ہو گی کہ ان کی اشیاء بڑی آسانی سے مقامی مارکیٹوں میں استعمال ہوجائیں گی۔ جبکہ دوسری جانب کرہِ ارض پر موجود ہر قوم ہم سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گی تا کہ ہم انہیں اپنی مارکیٹوں تک رسائی دیں اور وہ اپنا مال بیچ کر اپنی قسمت بنا سکیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم خود کو استعماری کفار کے ہاتھوں بنائی گئی سرحدوں میں قید رکھیں، ہمیں ان مصنوعی سرحدوں کو ختم کردینا چاہیے اور 1.6 ارب مسلمانوں کو ایک واحد زبردست امت میں بدل دینا چاہیے جو دنیا کی صفِ اول کی امت اور ان کی ریاست صفِ اول کی ریاست ہوگی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

روس نے حزب التحریر کے ممبر عبدالرحیم توشموتوف کو 17 سال قید کی سزا سنادی

پریس ریلیز
3 اپریل 2014کوانٹرفیکس نیوز ایجنسی نے روس کےفیڈرل سکیورٹی سروس کی میڈیاآفس (ایف ، ایس ،بی) سے یہ رپورٹ نقل کی کہ : "سٹافروبل (Stavropol)شہر کی علاقائی عدالت نے عالمی دہشت گرد تنظیم حزب التحریر کے ایک رکن کو سزا سنائی جس پر 2013میں مایسکی(Maiskii) کی تہواری تقریبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کاالزام تھا۔ عبدالرحیم توشموتوف کو جو تاجکستان کاباشندہ ہے، کریمنل لاز کے جز اوّل کےآرٹیکل 205 اور30 کے تحت مجرم ثابت کیا گیا (اس پر دہشت گردی اور دہشت گردانہ جرائم کے ارتکاب میں ملوث ہونے، دہشت گردانہ خیالات یا دہشت گردی کی کاروائیوں میں معاونت فراہم کرنے کاالزام لگایاگیا)۔ اس کو 17 سال قید بامشقت کی سزاسنائی گئی جبکہ 55ہزار روبل مالی جرمانہ اس کے علاوہ ہے "۔
بھائی عبدالرحیم کے خلاف یہ فیصلہ ہمارے لئے کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ روسی حکومت عرصہ دراز سےاسلام اورمسلمانوں کے خلاف کھلم کھلاجنگ لڑرہی ہے،جس میں کئی بھیانک اور وحشیانہ سلوک پرمبنی مختلف طریقوں کو استعمال کیاجاتاہے ۔ ہر کوئی یہ جانتاہے کہ روس میں مکمل طورپر کریملن کا پینل سسٹم پر کنٹرول ہے تو جو بھی قوانین جاری کیے جاتے ہیں وہ کریملن اتھارٹی کے مطالبے پر جاری ہوتے ہیں جو دعوتی سرگرمیوں کودہشت گردی قرار دیکر ہر اس شخص سے جان چھڑانا چاہتا ہے جو کلمہ حق کو بلند کرتا ہے۔ 2014 کے اوائل میں ڈوما(روسی پارلیمنٹ) نے شرمناک قوانین منظور کئے جو ہر قسم کی سیاسی سرگرمی پرنام نہاد دہشت گردی کالیبل لگاکراس کوجرم قراردیتے ہیں ،خواہ یہ سیاسی سرگرمیاں کتنی ہی پر امن کیوں نہ ہوں اور انہی قوانین کے تحت اس قسم کی سرگرمیوں پر 15 تا 20 سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔
روس کے اندر دہشت گردی کی واحدذمہ دارکریملن کی مجرم حکومت ہےاور اس کے بے شماردلائل ہیں۔ ہمارے بھائی عبدالرحیم کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اس دہشت گردی کی صرف ایک مثال ہے۔ اسے ماسکومیں13ستمبر 2011کو عشاء کی نمازاداکرنے کے بعد مسجد کے باہر پکڑاگیا۔ پھر 29نومبر2011 کواسے ایک سال قید کی سزاسنائی گئی ، صرف اس لئے کہ اس نے مسجد میں کچھ باتیں کیں اورمسلمانوں کوماہ رمضان کی مبارکباد دی ۔ اسی سال روسی سکیورٹی کے اہلکار وں نے کئی مرتبہ ان کے ساتھ جیل میں ملاقات کی اوران کے ساتھ تعاون کرنے اوربطورجاسوس کام کرنے کامطالبہ کیالیکن اُنہوں نے اِس مطالبے کو سختی سے مسترد کردیا ۔ پھر جب وہ جیل سے رہاہو ئے تواُن کو16اپریل 2013 کو سٹافروبل شہر میں امیگریشن اورپاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں حاضر ہونے کے لئے کہا گیا کہ ان کو کچھ کاغذات دینے ہیں لیکن وہاں انہیں حراست میں لےلیاگیا۔ روسی دہشت گرد مشینری نےا ُن کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں کاالزام تراش لیا ۔ اس واقع کے گواہ ماسکو میں حقوق کے میموریل مرکز کے جناب ویتالی بونومارف ہیں جنہیں روسی سکیورٹی بیورو کی غیر قانونی حرکتوں اور دعوت کے حاملین کے خلاف ان کی الزام تراشیوں کو بے نقاب کرنے کے جرات مندانہ کردار کی وجہ سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔
کریملن حکومت کا یہ اسٹالنی طریقہ کار برسراقتدارطبقے کی اسلام اورمسلم دشمنی کی حقیقت کوبے نقاب کرتاہے اوریہ کہ حزب التحریر نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیاہواہے کہ حق کے اظہار اورباطل کوبے نقاب کرنےکے راستے میں اس قسم کے ہتھکنڈوں سے نہیں دبے گی اور اس کے باجود کہ مسلمانوں کے حکمرانوں نے ماسکو کے سرکش کے جرائم پرخاموشی اختیارکررکھی ہے، ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری مدد کرے گا ۔ اللہ تعالی ٰ کاارشاد ہے:
﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾
"اوروہ ایمان والوں کوصرف اس بات کی سزادے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جوبڑے اقتدار والا،بہت قابل تعریف ہے" (البروج: 8)

Read more...

کرغیزستان کے سپیشل فورسز نے بہن آمانوف زولفیا بنت آمانوف حمیداللہ شہید کو گرفتارکرلیا

پریس ریلیز
31مارچ 2014 کو کرغیزستان کی سپیشل فورسز نے بہن آمانوف زولفیا کو اوش شہر میں گرفتارکرلیا۔ جابرمجرموں نے آمانوف زولفیاکوپانچ سال کی عمر میں اس کے والد سےمحروم کردیاتھا ، جنہیں اس وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ سیاسی پارٹی حزب التحریر کے رکن تھے ۔ گزشتہ سال ہم نے بھائی آمانوف حمیداللہ کی افسوسناک موت کی خبر نشرکی تھی جو کرغیزستان کے شہر اوش کےرہنے والےتھے،جہاں آمانوف کو ازبک سپیشل فورسز نے اغواکرکے 14 سال تک قید میں رکھا اس دوران ان کو جابر کریموف کے قیدخانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اورپھر اس کے خاندان والوں کو اس کی لاش تک حوالے نہیں کی گئی۔
آمانوف زولفیابنت حمید اللہ شہید بچپن سے ہی اسلام سے شدید محبت کرتی آرہی ہیں۔ انہوں نے دیگرعلوم کے ساتھ ساتھ اسلام اور اس کے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا اورعربی زبان کے ساتھ کئی زبانیں بھی سیکھیں ۔ کریموف کے پاگل کتوں نے کرغیزستان کی معاونت سے شہادت سے پہلے شہید کے اہل خانہ کاپیچھاکیابلکہ شہادت کے بعد بھی ان کوتنگ کرتے رہے ،کیونکہ شہید کے خاندان نے کرغیزستان اورازبکستان کی ظالم حکومتوں سے شہید کے قتل کی تحقیات شروع کرنے اور ان کی لاش کو حوالے کرنے کامطالبہ کیاتھا۔ آمانوف زولفیا نے متعدد نے متعدد لوگوں سے رابطہ کیا تا کہ ان کے جرم اور جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے ۔ ان کی اس کوشش نے حکومت کو غضبناک کردیا جنہوں نے انہیں انتقام کانشانہ بناتے ہوئے گرفتارکرلیا۔
مجرم حکومت نے کرغیزستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے حزب التحریر کے شباب کوپکڑنے کیلئے مہم تیز کردی ہے ، دسیوں شباب کو نارینسکایا، باتکینسکایا،بشکیک اوراوش کے علاقوں سے گرفتارکرلیاگیا ہے۔ یہ مجرم حکومت عورتوں اوربچوں کو گرفتار کرنے سے بھی نہیں شرماتی چنانچہ زولفیا کو گرفتارکرکے ایک نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا ہے اور کسی کویہ علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اورکن حالات سے دوچارہے ۔ سو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسے ایما ن پر ثابت قدمی عطافرمائے ،اس کے عزم کو مضبوط کردے اوراس مصیبت پر صبر کی توفیق دے ۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اس کے گھروالوں اور اس کے رشتہ داروں کو صبر جمیل عطافرمائے اور اللہ ہی مدد گار ہے۔ ازبکستان اورکرغیزستان کی مجرم حکومتیں یاد رکھیں کہ زولفیا ، اس کے خاندان اوراس کے والد کے ساتھ ان کے جرائم پرانہیں ضرور سزامل کے رہے گی ۔
دنیا بھرمیں خلافت کے جھنڈے لہرائے جارہے ہیں اوراب مسلمان خلافت علٰی منہاج النبوۃ اورایک خلیفہ راشد کی بیعت کے ذریعے نئے سرےسےاسلامی زندگی کے آغاز کیلئے کمربستہ ہوگئے ہیں ۔ اللہ کے اذن سے آج نہیں تو کل خلافت آکر رہے گی ،تب کرغیزستان ،ازبکستان اور مسلم ممالک میں موجود حکومتیں اپنے ان جرائم کامزہ چکھ لیں گی جن کاارتکاب اسلام اورمسلمانوں کے خلاف یہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ دور آئے گا ،صبح کے انتظار کرنے والے پر صبح طلوع ہواکرتی ہے ۔ پھر آخرت کاعذاب تو اس سے کئی گنابڑھ کر ہوگا کاش یہ لوگ سمجھتے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَقِفُوَهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ﴾ "ان کوروکو ان سے پوچھ گچھ ہونے والی ہے" (اصآفات: 24)

Read more...

راحیل۔نواز حکومت حق کی آواز کو خاموش کردینا چاہتی ہے حزب التحریر کے رکن کو قید کر کے پاکستان میں خلافت کے قیام کو روکا نہیں جاسکتا

حزب التحریر ولایہ پاکستان کے رکن ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو آج صبح تقریباً دس بجے اس وقت چوروں کی طرح راحیل۔نواز حکومت کے غنڈوں نے روک کر اپنی قید میں لے لیا جب وہ گلستان جوہر میں واقع اپنے گھر سے نکلے ہی تھے۔ پھر ان غنڈوں نے ایک مسلمان کے گھر کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ان کے گھر کے گیٹ پر گولی چلا کر تالے کو توڑا اور ان کی گاڑی کو لے گئے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر اسماعیل کے بیوی بچوں کو دھمکیاں دیں اور انہیں شدید خوف میں مبتلا کردیا اور گھر سے کئی اشیاء کو لوٹ کر لے گئے۔
ڈاکٹر اسماعیل شیخ جو گلستان جوہر کے رہائشی ہیں ، ایک مایہ ناز اور انتہائی تعلیم یافتہ ڈینٹل سرجن اور خلافت کے متحرک داعی ہیں۔ ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی زندگی ایک داعی کی زندگی ہے جس نے اسلام کی سربلندی اور اس امت کو زوال سے نکالنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے سیاسی و فکری جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ایک طرف سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار وں نے امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو تو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے کہ وہ پاکستان بھر میں فوجی و شہری تنصیبات کو نشانہ بنائیں لیکن حزب التحریر کے پرامن شباب کو ہر ممکن طریقے سے پاکستان میں خلافت کے قیام کی سیاسی و فکری جدوجہد سے روکنے کے لئے انتہائی ذلیل ترین ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
ہم پوچھتے ہیں کہ آخر کس طرح کافر ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو کھلی چھوٹ فراہم کی جاتی ہے جو دن رات پاکستان کے سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ وہ مسلمان جو امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لیے کام کرتے ہیں انہیں قید کرلیا جاتا ہے؟ ہم پوچھتے ہیں کہ آخر یہ کس طرح قابل قبول ہوسکتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جیسے دہشت گردوں کے لیے پاکستان آنے والے سامان کو حکومت اس قدر تقدس فراہم کرتی ہے کہ پاکستانی حکام کو اُن کے سیلڈ کنٹینروں کو دیکھنے کی اجازت بھی فراہم نہیں کی جاتی جبکہ خلافت کے داعی کے گھر کی چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے اور گھر میں موجود چیزوں کو لوٹ لیا جاتا ہے؟ اور یہ سب کچھ اس مسلم سرزمین پر ہورہا ہے جس پر اسلام کے نفاذ کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے خوشی سے اپنی جانیں قربان کردیں تھیں اور اب خلافت کی حمائت بھی ملک کے تمام طبقات میں پائی جاتی ہے ۔
حزب التحریر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں پر واضح کردینا چاہتی ہے کہ صدام اور قذافی جیسے سفاک حکمرانوں نے حزب التحریر کو اس کی سیاسی و فکری جدوجہد سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور پھر ان کی وہاں سے پکڑ ہوئی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور آج بھی ان جیسے موجود ہیں جو اپنے بد قسمت انجام کا انتظار کررہے ہیں۔ لہٰذا ایک ایسے وقت میں جب خلافت کا قیام عنقریب ہے انشاء اللہ، عقل مند لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں وہ امت کے غضب اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے غضب کو دعوت دیں گے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ط مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ
" اور مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے۔ وہ اِن کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہےجب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور لوگ سر اوپر اٹھا کر دوڑرہے ہوں گے، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں لوٹ نہ سکیں گی اور اُن کے دل (خوف کے مارے) ہوا ہو رہے ہوں گے" (ابراھیم:43-42)

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

کیا امریکی انحطاط یقینی ہے یا خیالی؟ (حصہ دوئم)

(تین قسطوں پر مشتمل اس مضمون کے دوسرےحصے میں عابد مصطفٰی مختصراً ان افکار کا جائزہ لیں گے جنہیں مفکرین عظیم طاقتوں ، خصوصاً امریکہ کے انحطاط کو ثابت یا پیشگوئی کرنے کیلئےاستعمال کرتے ہیں۔ پھر عابد مصطفٰی آگے چل کر کہانی کے انداز میں نہضہ (نشاۃ ثانیہ)کے فہم اور بڑی طاقتوں کے انحطاط کو بیان کرتے ہیں)۔

امریکہ کے انحطاط کے موضوع نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ سپر پاور کا انحطاط کیسا ہوتا ہے؟ کیا امریکی انحطاط صرف معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدان تک محدود ہے یا یہ امریکی معاشرے اور تمدن کے ہر جزو کا احاطہ کرتا ہے؟ امریکی انحطاط کی رفتار کیا ہے؟ کیا امریکی انحطاط اتنا شدید ہے کہ یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے؟ اگر امریکہ تباہ ہونے کے قریب ہے تو یہ تباہی وقتی ہوگی یا مستقل؟ اس طرح کے سوالات نے پچھلے اور موجودہ تاریخ دانوں کے اذہان کو گھیرے رکھا ہے۔
سپرپاور کے زوال کے بارے میں کچھ مصنفین نے دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ پول کینیڈی اپنی کتاب "عظیم طاقتوں کا عروج اور زوال" میں لکھتے ہیں: "بڑی طاقتوں کا عروج اور زوال ان کی صنعتوں کے شرح نمو(بڑھنے کی رفتار)اور ریاستی اخراجات کی جی ڈی پی کے مقابل قیمت ہے"۔ کینیڈی کہتا ہے: "اگر ریاست تضویراتی طور پر خود کو حد سے زیادہ بڑھا دے گی تو اسے یہ خطرہ اٹھانا ہوگا کہ بیرونی پھیلاؤ سے حاصل ہونے والے فائدے مجموعی خرچوں سے تجاوز کر سکتے ہیں"۔ جارڈ ڈائمنڈ جو کہ مزید جدید مصنف ہے اپنی کتاب ، کولیپس: معاشرے کس طرح کامیابی یا ناکامی کا انتخاب کرتے ہیں" میں لکھتا ہے کہ معاشروں نے خود کو اپنے آپ ہی تباہ کیا کیونکہ انہوں نے قدرتی ماحول کی تحقیر کی۔
امریکی انحطاط کے مخصوص موضوع پر جورج پیکر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکی انحطاط امیر اور غریب کے درمیان معاشی فرق کی وجہ سے ہے۔ وہ کہتا ہے: "تفریق معاشرے کو طبقاتی نظام میں جکڑ دیتی ہے، لوگوں کو ان کے پیدائشی حالات میں قید کر دیتی ہے جو کہ امریکی خواب کی سوچ کی نفی ہے۔ تفریق شہریوں کے درمیان بھروسے کو کھرچ دیتی ہے اور ایسا تاثر دیتی ہے کہ جیسے کھیل میں دھاندلی ہو چکی ہو۔ تفریق وسیع اجتماعی مسائل کیلئے ٹھوس حل پیدا کرنے کی صلاحیت کو مجروح کر دیتی ہے کیونکہ وہ مسائل پھر اجتماعی نہیں لگتے۔ تفریق جمہوریت کو کمزور کر دیتی ہے"۔ نیال فرگوسن اس بات کا قائل ہے کہ دنیا میں امریکی بالادستی میں کمی آہستہ اور مستقل نہیں ہوگی۔ وہ کہتا ہے کہ "سلطنتیں ایک پیچیدہ اور ڈھل جانے والے نظام کے طور پر برتاؤ کرتی ہیں، وہ کچھ انجانی مدت تک ظاہری توازن میں کام کرتی ہیں اور پھر ایک دم سے تباہ ہو جاتی ہیں"۔
گو کہ یہ تصورات انحطاط کے عوامل پر نظر ڈالتے ہیں، یہ عظیم طاقتوں کی تنزلی کا ڈھانچہ کھینچنے میں مددگار نہیں ۔جس چیزکی ضرورت ہے وہ ایک ایسا ماڈل ہے جو نہ صرف انحطاط کو واضح کرے بلکہ عظیم طاقتوں کے زوال کو بھی رقم کر سکے۔ اس تناظر میں، اسلام ایک ایسا نمونہ دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال کا اندازہ لگائے۔
انحطاط کو نشاۃ ثانیہ کو سمجھے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے اس کو واضح کریں کہ نشاۃ ثانیہ سے ہمارا کیا مطلب ہے۔ اوکسفورڈ آن لائن ڈکشنری کے مطابق نشاۃ ثانیہ کا مطلب "کسی چیز یا شخص کے حالات، قوت یا قسمت میں بہتری ہے"۔ عیسائیت میں نشاۃ ثانیہ کا مطلب "جب پرہیزگاروں کی ایک اکائی خالق کے پیغام کا جواب دے" ہے۔لیکن نشاۃ ثانیہ کو اس زاویے سے دیکھنے کیلئے لسانی اور عیسائی تعریفیں نامکمل اور ناکافی ہیں۔
اسلام کے نقطہ نظر سے نشاۃ ثانیہ کی ایک مخصوص تعریف ہے اور اس کو یوں بیان کیا جاتا ہے " روحانی بنیاد پر فکری بلندی"۔ اس تعریف کی دو شرطیں ہیں اس سے پہلے کہ قوم کے نشاۃ ثانیہ کو مکمل اور درست تصور کیا جائے۔ ایک یہ کہ نشاۃ ثانیہ کی اساس آئیڈیولوجی یا مبداء(نظریہ حیات) پر ہو یعنی یہ انسان، حیات اور کائنات کے متعلق جامع فکر رکھتی ہو اور ان کے آپس میں تعلق کے بارے میں یعنی ما قبل اور ما بعد سے متعلق۔ یہ جامع فکر افکار اور نظاموں کے مجموعے کو جنم دیتی ہے جو زندگی کے ہر میدان کا احاطہ کرتے ہیں لیکن یہ جامع مبداء افکار اور نظاموں کے ساتھ صرف کتابوں اور الفاظوں میں موجود رہے گا جب تک ان کو زندہ کرنے کے لئے طریقہ موجود نہ ہو یعنی افکار اور نظاموں کو حیات بخشنے کے لئے۔ یہ صرف اس ہی وقت ممکن ہے جب طریقہ بھی جامع مبداء کی طرح ہو یعنی یہ طریقہ جامع مبداء سےہی پھوٹنا چاہئے۔ مثال کے طور پر شریعت کو جمہوریت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ فکری آئیڈیولوجی یعنی مبداء اور طریقہ سے عاری کوئی بھی چیز نشاۃِ ثانیہ کو ایک مخصوص علاقے میں محدود کردے گی مثلاً سنگاپور کو معروف مواصلات کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، جنوبی کوریاڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں سر فہرست ہے اور جب طویل فاصلے تک بھاگنے والوں کو پیدا کرنے کی بات کی جائے تو کینیا کو بہترین گردانا جاتا ہے۔ ان باتوں کے باوجود ان تینوں ملکوں کو مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کا نشاۃِ ثانیہ محدود ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے آئیڈیالوجی یعنی مبداء کو اختیار کرنے میں ناکامی ہے۔ دوسرا، نشاۃِ ثانیہ کے لئے روحانی پہلے کا ہونا ضروری ہے یعنی اس کو لازمی خالق کے وجود کا ادراک کرنا چاہئے۔ یہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ نشاۃِ ثانیہ روحانی لحاظ سے درست ہے۔
اس وقت دنیا میں موجود تین آئیڈیالوجیز یعنی اسلام، مغربی سرمایہ داریت (لبرل، جمہوریت) اور کمیونزم میں صرف اسلام ہی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بیان کی گئیں شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ وہ ممالک جہاں مغربی سرمایہ داریت اور کمیونزم نافذ ہے نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر نہیں، بلکہ ان ممالک نے اپنی آئیڈیالوجی کی مدد سے نشاۃ ثانیہ کو حاصل کیا ہے، لیکن دونوں نشاۃِ ثانیہ باطل ہیں کیونکہ دونوں آئیڈیالوجیز روحانی پہلو کی انکاری ہیں۔ مغربی سرمایہ داریت خالق اور روز مرہ معاملات کے ساتھ اس کے تعلق کی انکاری ہے جبکہ کمیونزم خالق کے تصور کا سرے سے انکاری ہے۔
آج دنیا میں واحد درست آئیڈیالوجی اسلام ہے۔ اسلام شرط عائد کرتا ہے کہ انسان، حیات اور کائنات سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لئے درست دین دے کر مبعوث فرمایا ہے۔ لہٰذا جو مسلمان پوری دنیا میں اسلامی طرز حیات کو زندہ کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں انہیں اسلامی آئیڈیالوجی کو فکر اور طریقہ دونوں کے طور پر پورے دل سے قبول کرنا ہوگا۔ صرف اس ہی صورت میں امت مسلمہ کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن کرنے کا سفر کامیاب ہوگا۔
جو بات ہم نے کی اس کی بنیاد پر نشاۃِ ثانیہ کے تین مرحلے ہیں: فکری، سیاسی اور قانونی۔ فکری مرحلے میں فکری سوچ جامع آئیڈیا کو بناتی ہے جس کو پھر ان تصورات کے لئے بنیاد کے طور پر لیا جاتا ہے جو بنی نوع انسان کے مسائل کا حل ایک خاص نقطہ نظر سے دیں اور ان کے نفاذ کا طریقہ کار بھی فراہم کریں۔ اس مرحلے کے درمیان نئے تصورات معاشرے کے پرانے تصورات سے ٹکراتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ان تصورات کی افادیت اور برتری کو معاشرے میں موجود فاسد افکار سے ممتاز کر دیا جائے۔ اس کے بعد سوچ کا سیاسی مرحلہ آتا ہے جہاں سیاسی سوچ کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نئے تصورات کو معاشرے پر غالب کیا جائے اور موجودہ سیاسی اتھارٹی کے ساتھ تصادم کیا جائے تاکہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنے میں اس کی عدم قابلیت کو آشکار کیا جائے۔ اس مرحلے میں معاشرے کی موجودہ سیاسی قیادت ہٹا دی جاتی ہے اور نئی قیادت ظاہر ہوتی ہے جو نئی فکر کے نفاذ کی سرپرستی کرتی ہے۔ آخر ی یعنی تیسرے مرحلے میں جب نئے آئیڈیا کے پاس سیاسی اتھارٹی اور قوت آجاتی ہے، تب قانونی سوچ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے کیونکہ بیشمار مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور قانونی سوچ انہیں حل کرتی ہے۔
جب قوم نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لیتی ہے تو اسے برقرار رکھنا لازمی ہو جاتا ہے۔ اس کا حصول اس طرح ہوتا ہے کہ سیاسی سوچ معاشرے میں موجود دوسری تمام سوچوں پر نگرانی کرے جیسا کہ فکری، قانونی، لسانی، سائنسی وغیرہ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قوم کے لئے نشاۃِ ثانیہ کے تین مرحل ہیں فکری، سیاسی اور قانونی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سوچ کے یہ مراحل باہم جدا ہیں اور بیان کردہ مراحل میں ساتھ نہیں چلتے بلکہ سوچ کے سیاسی مرحلے میں سیاسی سوچ کے ساتھ فکری اور قانونی سوچ بھی قدم بہ قدم چلتی ہے لیکن سیاسی سوچ زیادہ نمایاں رہتی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ توجہ معاشرے پرایک نئے آئیڈیا کو قائم کرنے کے لئے ہے جو اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سیاسی جدوجہد نہ کی جائے جس کی وجہ سے سیاسی سوچ نمایاں رہے گی۔ یہی بات باقی مراحل پر بھی ثابت ہوتی ہے۔
اس ماڈل پہرپہنچنے کے بعد اب قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ اس ماڈل کی روشنی میں تین مثالیں توجہ طلب ہیں:
آپﷺ کی زندگی، جو کہ مکی اور مدنی زندگی پر محیط ہے، سوچ کے تین مختلف مراحل میں بانٹی جا سکتی ہے۔ ابتداء میں مکی دعوت جس میں فکری انداز غالب رہا اور آپﷺ کی جدوجہد میں فکری سوچ حاوی رہی۔
اس کے بعد شدید سیاسی جدوجہد کا دور ہے جو قریش کے قائدین کےخلاف تھا اور اس مرحلے پر سیاسی سوچ غالب رہی ۔
جیسے ہی آپﷺ نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تب قانونی سوچ غالب ہوگئی کیونکہ زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں احکامات نازل ہوئے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ پاپایئت کے خلاف یورپ کی فکری بیداری سے پیدا ہوا۔ اس کے بعد اصلاح کے دور نے شدید سیاسی عمل کی ابتداء کی یہاں تک کہ چرچ کی طاقت کو ریاست کی طاقت سے جدا کر دیا گیا اور سیکولرازم نے جنم لیا۔ اس کے بعد روشن خیالی کا دور ہے جو کہ فکری اور قانونی سوچوں پر مشتمل ہے اس ہی دوران جدید یورپین قانون کی دو بنیادی روایات نے جنم لیا۔ منظم قانونی نظام جس کا استعمال براعظم یورپ کے عظیم حصے پر ہوا اور انگریزی روایات جو کہ سابقہ مقدموں پر بنا ئے گئے قوانین پر مشتمل ہے۔
انیسویں صدی کی ابتداء میں کارل مارکس نے کمیونزم کے بنیادی اصول مرتب کیے اور ایک نئی فکر کا ظہور ہوا۔ اس کی شروعات قلیل مدت کی سیاسی حرکت سے ہوئی جوروس میں اکتوبر 1917ء کے بولشویک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ بولشویک کو ایک منجمد ریاست ملی جسے بیشمار مسائل درپیش تھے اور ان کے حل کے لئے قانونی سوچ کی ضرورت تھی۔ تینوں صورتوں میں جیسے ہی قوم نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے سیاسی سوچ نہ صرف لوگوں کے معاملات کو چلاتی ہے بلکہ دوسری سوچوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کی فکری اور قانونی فہم کی سطح کو برقرار رکھنا ریاست کے سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوتا ہے۔
نشاۃِ ثانیہ اورانحطاط کے پیش کردہ ڈھانچے کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ یہ دونوں گردشی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قوموں کی نشاۃِ ثانیہ کے دنوں کے بعد انحطاط کے جھٹکے بھی آتے ہیں۔ مثلاً جب صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو سو سالوں تک یہ واضح تھا کہ خلافت انحطاط میں ہے لیکن اس کے بعد نہضہ(نشاۃ ثانیہ) کا ایک مختصر دور آیا جب صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو نکال باہر کیا یہاں تک کہ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کردیا۔
خلافت دوبارہ کھڑی ہوگئی جب مملوکوں نے تاتاریوں کے جنگجو جتھوں کو شکست دی اور خلافت کو اس کی حقیقی شان پر لوٹادیا لیکن ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا کہ قوموں کے انحطاط کے ادوار کے بعد مکمل نشاۃِ ثانیہ کا دور آجائے یعنی سوچ کے تمام پہلوؤں میں نہضہ یعنی فکری، سیاسی اور قانونی۔ یہی دلیل انحطاط پر بھی لاگو ہوتی ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچوں پر مکمل انحطاط نہیں آتا جب قومیں ایک مقرر عرصے تک نشاۃِ ثانیہ میں وقت گزار لیتی ہیں۔
یہ سب کچھ بیان کر دینے کے بعد بہرحال یہ ممکن ہے کہ قوم کی مجموعی زندگی اور اس کی تنقیدی ہئیت یعنی ریاست کی بنیاد پر مکمل نشاۃِ ثانیہ یا انحطاط کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اموی خلافت کا عروج عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ہوا۔ اموی خلافت کے بعد عباسی خلافت آئی جس نے خلیفہ ہارون الرشید اور ان کے فرزند کی حکمرانی میں بلندی حاصل کی۔ عباسی خلافت کے بعد عثمانی خلافت کا دور آیا۔ عثمانی ریاست کی بلندی کا دور سولویں صدی میں سلیمان القانونی کے دور میں آیا اس کے بعد عثمانی ریاست تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھی یہاں تک کہ تباہ ہوگئی۔ ان شدید جھٹکوں کے باوجود امت محفوظ رہی اور آج یہ سوچ کے تمام مرحلوں میں بلندی کی طرف گامزن ہے سوائے اس کے تنفیذی حق یعنی خلافت کی کمی باقی ہے۔
اگر انحطاط اور نشاۃِ ثانیہ کے اندازے کے لئے وسیع دور پر نظر رکھی جائے تو اس قوم کے مقام کی بہتر تصویر ابھرتی ہے۔ لہٰذا خلافت کے بارے میں ہماری اس مثال سے یہ صاف واضح ہے کہ سیاسی، فکری اور قانونی سوچ خلاف راشدہ کے دور میں بلند ترین سطح پر تھیں اور عثمانی خلافت کے آخری ادوار میں پست ترین۔
آئیے ایک مثال لیتے ہیں قرونِ وسط کے دوران جب برطانیہ جنگجو ٹولوں کا یاک مجموعہ تھا جو ہر وقت بیرونی حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہوتاتھا۔ لیکن سولویں صدی کی ابتداء پر برطانیہ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں ابھرا اورانیسویں صدی کے اواخر میں ملکہ وکٹوریا کے دور میں دنیا کی صف اول کی ریاست بن گیا۔ اس برطانوی سلطنت کا سنہری دور قلیل مدت کے لئے تھا اور برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے بعد عالمی صف اول کی ریاست ہونے کا مرتبہ کھو دیا جب اس کی سلطنت حیران کن انداز میں سکڑ گئی۔ آج برطانیہ تنزلی کی طرف گامزن ایک بڑی طاقت ہے اور باوجود اس کے کہ اس کی قیادت برطانوی سلطنت کو دوبارہ بلند کرنے کے پرعزم منصوبے رکھتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ سوچ کی تمام جہتوں میں تنزلی کو پلٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مختصر بیان سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وکٹورین دور کے وقت برطانیہ کی فکری، سیاسی اور قانونی سوچ اپنے عروج پر تھی اور آج یہ سب کی سب انحطاط کی جانب رواں ہیں۔
گو کہ خلافت کے مختلف ادوار اور مختلف اقوام کے ادوار جن پر انحطاط کے ڈھانچے کو لاگو کر کے دیکھا جائے اور ان پر سوچ کے مختلف مرحلوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اس تحریر کے دائرے سے باہر ہیں، پھر بھی یہ ضروری ہے کہ سیاسی سوچ میں کمزوری اور اس سے قوموں پر واقع ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالی جائے۔
مثلاً: خلاف 1300 سالوں تک موجود رہی، یہاں تک کہ1924ء میں اس کا خاتمہ ہوا لیکن سیاسی سوچ میں کمزوری چاہے تنفیذی سطح پر ہو یا امت کی سطح پر، کئی صدیوں پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ ایک معاملہ جس میں طاقت کے زور پر حاصل کی گئی بیعت کے طریقے کا غلط نفاذ تھا یعنی خلیفہ کی تقرری کا قانونی عقد، معاویہ اول کے دور میں بیعت کے طریقے کا غلط استعمال کیا گیا۔ جب معاویہ نے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت دینے پر مجبور کیا، جبکہ وہ خود زندہ تھے۔ لہٰذا ان تین سیاسی فیصلوں نے صدیوں تک مسلم امت کو متاثر کیا، یہاں تک کہ1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ حکمرانی سے متعلق کچھ اسلامی مفاہیم شدید کمزور ہو چکے تھے اور درست قانونی فیصلوں کی جگہ غلط فہم نے لے لی تھی۔ دیگر غلط سیاسی فیصلوں میں اس بات کی اجازت دینا کہ اسلام اور بیرونی فلسفوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے، عربی زبان کی اہمیت سے بے رغبتی، اجتہاد کے دروازوں کا بند ہونا اور جہاد کو ترک کرنا ۔ اس طرح سے سیاسی فیصلوں نے خلافت کو انحطاط کے راستے پر گامزن کیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی آئیڈیالوجی کو کمزور کیا اور قانونی نصوص سے درست استنباط کو آلودہ کر دیا۔
آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں جہاں ایک بڑی طاقت بیرونی پالیسی کے حوالے سے غلط سیاسی فیصلہ لیتی ہے، جو عالمی سطح پر اس کے مقام کو اور اس کی اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی صلاحیت کو شدید مجروح کر دیتا ہے ۔ بہت سارے لوگوں کے لئے برطانیہ کا زوال ہندوستان کی آزادی سے شروع ہوااوراس کے بعد مشہور زمانہ سوئیز بحران نے برطانیہ کے دنیا کے صف اول کی ریاست کے مقام سے گرنے کو شدید تر کیا۔ دونوں واقعات نے نہ صرف برطانیہ کی بیرونی معاملات پر محدود صلاحیت کو واضح کیا بلکہ یہ تاثر بھی چھوڑا کہ برطانیہ ایک گرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اگرچہ یہ اور اس جیسے دیگر واقعات جس میں برطانیہ کو عالمی سطح پر استعمار مخالف لہر کی وجہ سے اپنی فتح کردہ زمینوں سے دستبردار ہونا پڑا دراصل برطانیہ کی اس خواہش کی بنا پر تھے کہ امریکہ جنگ عظیم دوئم میں شریک ہوجائے۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اوراس کے مشیروں نے امریکی قوت اور اس کی دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کی جستجو کو بے وقعت سمجھا۔ آنے والے دنوں میں برطانیہ کو یہ سیاسی فیصلہ بہت مہنگا پڑا اور اس نے اپنی کافی کالونیاں امریکہ کے ہاتھوں کھو دیں۔ برطانوی ثقافت کو دیگر ممالک میں فروغ دینے کی اہلیت امریکی ثقافت نے روک دی اور اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے کی برطانوی صلاحیت امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر سے شدید طور پر تھم گئی۔ مزید یہ کہ عالمی اداروں جیسے آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، یو این ا وغیرہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا جو کہ امریکی کنٹرول میں کام کرتے تھے۔
ہم آخری مثال میں اس بات کو دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین نے کس طرح اپنی آئیڈیالوجی پر سمجھوتہ کیا جب اس کا بیرونی ریاستوں سے سامنا ہوا۔ مثلاً 1961ء میں سوویت یونین نے دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ ریاست امریکہ سے بقائے باہمی کی کوشش کی جو کہ اس کی کمیونسٹ آئیڈیالوجی کے سراسر خلاف تھا۔خریوشیو اور کینیڈی کے درمیان معاہدے نے فکری نقطہ نظر کے مطابق سوویت یونین کے انہدام کو تیز تر کر دیا کیونکہ کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام سے کسی بھی قسم کی باہمی بقاء کو رد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کی سوچ سے اس کو جگہ دینے کی طرف اس قدم نے بہت سارے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ کمیونزم ریاستوں کے خارجی تعلقات کی تنظیم کے لئے غیر عملی ہے۔
ان تمام سابقہ مثالوں میں نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن قوم بری طرح متاثر ہوئی ہے جب ریاست نے غلط سیاسی فیصلے کیے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اندازہ کرنے کے لئے سیاسی سوچ کے کردار پر نظر رکھی جائے۔
تیسری تحریر میں عابد مصطفٰی اس بات کی جانچ پڑتال کریں گے کہ کیا دنیا میں امریکہ کا مقام واقعی انحطاط کی طرف بڑھ رہا ہے یا یہ ایک معمولی ناکامی ہے جس کے بعد امریکہ پوری طرح اپنی ساکھ کو بحال کر لے گا؟

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک