الأحد، 26 ربيع الأول 1446| 2024/09/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

پاکستان کی حکومت شام میں خلافت کے قیام کو روکنے کی امریکی جنگ میں اس کا ساتھ دے رہی ہے

شام کے مسئلہ پر راحیل-نواز حکومت کی پالیسی عین امریکی مفادات کے مطابق ہے اور یہ بات اب لوگوں پر بھی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ حزب التحریر یہ دیکھ رہی ہے کہ حکومت شام کے مسئلہ پر اس کی پالیسی کے حوالے سے ہونے والی شدید تنقید سے بوکھلا گئی ہے۔ 28 فروری 2014 کو وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اس تنقید پر غصے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ "شام کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے ،لیکن اس کے باوجود اگر اس مؤقف کو نہیں سمجھا جارہا تو میں یہ کہوں گی کہ یہ تنقید کسی کے کہنے پر کی جارہی ہے اور وہ لوگ جو اس بحث کو اٹھا رہے ہیں ان کی ذہانت پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں"۔
ہم حکومت سے کہیں گے کہ عوام میں نہیں بلکہ حکومت میں ذہانت اور دوراندیشی کی شدید کمی ہے۔ یہ بات ذہین لوگوں پر آشکار ہوچکی ہے کہ شام کی بابرکت زمین کے مسلمان اسلام کے قیام کے لئے ایک مقدس انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ دوسرے ممالک میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کے برعکس شام کے عوام نے بشار کی جگہ کسی نئے امریکی ایجنٹ کو اقتدار میں لانے اور کفریہ جمہوری ریاست کے تسلسل کے امریکی منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ اور جب شام کے مسلمان یہ نعرے لگاتے ہیں کہ الشعب یرید الخلافة من جدید "لوگ ایک بار پھر خلافت کا قیام چاہتے ہیں" تو ظالموں اور جابروں کے تخت لرز جاتے ہیں۔ ذہین اور باخبر لوگ جانتے ہیں کہ دنیا میں جلد ہی ایک انقلابی تبدیلی آنے والی ہے اور وہ اس کے لئے تیاری کررہے ہیں۔
لیکن حکومت نے اسلا م اور مسلمانوں کا ساتھ دینا گوارا نہیں کیا بلکہ خلافت کے قیام کو روکنے کی مغرب اور جابر بشار کی جنگ کا حصہ بننا قبول کر لیا۔ شام کے مسلمان مسلسل مسلم ممالک سے مدد کے لئے پکار کررہے ہیں لیکن راحیل-نواز حکومت نے ہماری افواج کو بیرکوں میں بِٹھا رکھا ہے اور اگر ان کےمغربی آقا اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مسلم افواج کو حرکت میں لانے کا مطالبہ کرتے تو لائبیریا جیسے دور دزار کے ملک بھی اپنی افواج کو فوراً روانا کردیتے۔ حکومت پاکستان نے جنیوا-2 کے مطالبات کو منظور کر کے شام کے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے جس کے تحت شام میں ایک عبوری حکو مت قائم کی جائے جو لاکھوں مسلمانوں کے قاتل بشار حکومت کے نمائندوں اور نام نہاد اپوزیشن پر مشتمل ہو گی جبکہ اس اپوزیشن کی شام میں مقبولیت کا یہ حال ہے کہ وہ وہاں اُن علاقوں میں بھی داخل بھی نہیں ہوسکتی جو بشار حکومت کے قبضے میں نہیں ہیں۔ لہٰذا حزب التحریر ولایہ پاکستان سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو خبردار کرتی ہے اور یاد دہانی کراتی ہے کہ تم خلافت کے قیام کو کو روکنے کی چاہے کتنی ہی زبردست کوشش کیوں نہ کرلو وہ انشاء اللہ جلد ہی قائم ہو گی۔ اور اگر وہ شام میں قائم نہیں ہوتی تو اللہ کے حکم سے پاکستان میں قائم ہوگی اور امت ان لوگوں کو کبھی نہیں بھولے گی جنھوں نے اس کے دشمنوں کا ساتھ دیا تھا اور سب سے اہم یہ کہ اللہ تعالٰی تو بالکل بھی بھولنے والے نہیں ہیں۔ یقیناً ذہین لوگ سبق حاصل کریں گے!
حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کو پکارتی ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں اور انھیں یادہانی کراتی ہے کہ یہ ہم پر لازم ہے کہ شام کے مسلمانوں کی اپنی افواج کے ذریعے مدد کریں جو ایٹمی اسلحے سے لیس دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِماً عِنْدَ مَوْطِنٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلاَّ خَذَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِى مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ، وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ امْرَأً مُسْلِماً فِى مَوْطِنٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلاَّ نَصَرَهُ اللَّهُ فِى مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ "ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو مسلمان کو اس صورتحال میں بے یارو مدد گار چھوڑ دے جہاں اس کو بے عزت کیا جائے اور اس کی حرمت کو پامال کیا جائے (اور اگر وہ ایسا کرے) تو اللہ اسے اس وقت بے یارو مدد گار چھوڑ دے گا جب وہ اللہ سے مدد کا طلبگار ہوگا۔ اور ایسا کوئی شخص نہیں جو مسلمان کی اس وقت مدد کرے جب اس کو بے عزت کیا جارہا ہو اور اس کی حرمت کو پامال کیا جارہا ہو کہ اللہ اس کی اس وقت مدد فرمائیں گے جب وہ اللہ سے مدد کا طلب گار ہوگا" (احمد)۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

جمہوریت کو ختم کرو اور خلافت کو قائم کرو پاکستان کی دہلیز پرایک مستقل صلیبی وجود کو تحفظ فراہم کر کے کیانی نے اپنی غداریوں میں مزید اضافہ کیا

امت کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی دہلیز پر امریکہ کو مستقل فوجی اڈے قائم کرنے میں مدد فراہم کر کے جنرل کیانی غداری کی ہر حد کو پار کرتا جا رہا ہے۔ 25 مئی 2013 کو جنرل کیانی نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ایساف کمانڈر جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق ملاقات کے دوران جنرل کیانی نے افغانستان میں امن کے قیام اور نیٹو افواج کے انخلأ کے لیے امریکہ کو تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ خطے میں امریکہ کے سب سے اہم آدمی جنرل کیانی کی یہ ملاقات مختلف امریکی و مغربی اہلکاروں اور بین الاقوامی اداروں سے ہونے والی ان ملاقاتوں کا تسلسل تھی جن کا مقصد افغانستان پر امریکی گرفت کو مضبوط بنانا تھا۔ اس سے قبل 20 مئی 2013 کو جنرل کیانی نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں آئی ای ڈیز (Improvised Explosive Devices) کے حوالے سے ایک پالیسی بنانے اور پاکستان سے کیمیائی کھاد کی افغانستان کے طالبان کو فراہمی روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ امریکی فوج کے تخمینوں کے مطابق 80فیصد افغان بم کیمیائی کھاد سے بنے ہوتے ہیں اور افغانستان میں ہونے والی امریکی اموات میں سے 60 فیصد انھی بموں (IEDs) سے ہوتی ہے۔ فوجی قیادت میں موجود اپنے ساتھی غداروں کے چھوٹے سے گروہ کی مدد لینے کے ساتھ ساتھ جنرل کیانی نے سیاسی قیادت میں موجود غداروں کی مدد بھی طلب کر لی ہے۔ لہذا نواز شریف اور دوسرے بِکاؤ سیاستدان اب مسلمانوں کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں اور صلیبی قبضے کو تسلیم کرلیں۔ کراچی اور کوئٹہ میں آپریشنز اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں تاکہ مسلمانوں کو یہ بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ معاونت اس مدد کے علاوہ ہے جو جنرل کیانی نے فوج میں امریکی راج کی مخالفت کرنے والے افسران کو ہٹانے، نیٹو سپلائی لائن کو تحفظ فراہم کرنے اور امریکہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دینے کی صورت میں فراہم کر رکھی ہے۔
جنرل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ساتھی پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کو یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دراصل امریکہ کو خطے سے نکلنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود شدید غصے سے باخبر ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں پاکستان کے مسلمان خطے میں امریکی موجودگی کو اپنے اور اپنے دین کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ لہذا امریکہ نے ان حکمرانوں کو ایسا ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے کہ جیسے خطے سے امریکہ کو نکلنے میں مدد فراہم کر کے یہ لوگوں کی خواہش کو پورا کر رہے ہیں جبکہ درحقیقت یہ غدار حکمران محدود انخلأ کے دھوکے میں افغانستان میں مستقل امریکی اڈوں کے قیام کے ذریعے خطے میں امریکی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ہے ان غداروں کی مسلمانوں کے خلاف دوہری حکمت عملی کی حقیقت جس کا مقصد اپنے کافر آقاوں کے خوشنودی حاصل کرنا ہے۔
يُخَادِعُونَ ٱللَّهَ وَٱلَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ
"وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، مگر سمجھتے نہیں" (البقرة:9)
اے افواج پاکستان کے افسران! تمھارے حکمرانوں کا طرز عمل تمھارے سامنے ہے۔ یہ افغانستان پر حملے اور خطے میں امریکہ کو اپنے قدم جمانے کے لیے اس کی جانب دوڑے چلے جاتے ہیں اور پاکستان کی سرزمین اور فضائیں اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے سامنے کھول دیتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شہروں میں مجاہدین کا پیچھا کیا، انھیں گرفتار کیا اور پھر انھیں امریکہ کے حوالے کیا۔ پھر جب امریکہ کی افغانستان میں مشکلات بہت بڑھ گئیں تو انھوں نے افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں بھیج دیا تاکہ افغانستان جانے والے مجاہدین کا راستہ روکا جاسکے اور پاکستان میں فتنے کی جنگ کو بھڑکایا جائے جس کا ایندھن افواج پاکستان کے جوان اور پاکستان کے شہری بن رہے ہیں۔ اور اب بجائے اس کے کہ یہ بزدل، صلیبیوں اور ان کے دم توڑتے قبضے کے خلاف اپنی افواج اور مجاہدین کے طاقت کو یکجا کریں یہ مجاہدین کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔
اے بھائیو! حزب التحریر کو نصرة فراہم کرو اور مشہور فقہی اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل عطا ابو رشتہ کی بیعت کرو، پاکستان میں خلافت کا فوری قیام عمل میں لاؤ اور اس امت کی تذلیل کے دنوں کا خاتمہ کر دو۔ بھائیوں یہی وقت ہے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی بجائے اس امت، اس کے دین اسلام اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن جاؤ۔ حزب التحریر تمھیں پکارتی ہے کہ تم میں جنھوں نے اب تک اس پکار پر لبیک نہیں کہا وہ لازمی اب اس کا جواب دیں۔

Read more...

جمہوریت کو ختم کرو اور خلافت کو قائم کرو بجلی کا بحران عوام سے جمہوریت کا بہترین انتقام ہے

ملک بھر میں جاری بجلی کا بدترین بحران عوام سے جمہوریت کا بہترین انتقام ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ اس بحران کی بنیادی وجہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کی کمی نہیں ہے تو پھر آخر کیوں عوام کو نہ تو مشرف و شوکت عزیز کی حکومت اور نہ ہی زرداری و کیانی کی حکومت اس بحران سے نجات دلاسکی۔ حکمران گردشی قرضے، مہنگے فرنس آئل،بجلی چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں موجود شدید بد انتظامی کو اس مسئلے کی وجوہات قرار دیتے ہیں۔ کیا یہ ایسے مسائل ہیں جنھیں پچھلی دو حکومتیں بھی حل نہیں کرسکتی تھیں۔ جمہوریت کی بدولت بجلی کے پیداواری ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں عوامی اثاثے نہیں بلکہ نجی کاروبار ہیں۔ جب حکومت ان کے واجبات ادا نہیں کرتی تو وہ بجلی کی پیداوار میں کمی یا پاورپلانٹ ہی بندکرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لہذا اس بات کے باوجود کہ بجلی کی پیداواری استعداد 21000میگاواٹ جبکہ انتہائی طلب 17500میگاواٹ ہے، بجلی کی پیداوار 9000میگاواٹ سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ جمہوریت ہی اس قسم کی پالیسی کی اجازت دیتی ہے جس میں چیز استعمال کرلینے کے باوجود اس کی قیمت ادا نہیں کی جاتی۔اس کے علاوہ جب عوامی غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار بڑھا بھی دی جاتی ہے تو اس کامطلب ریاست کے لیے مزید خسارہ اوراس خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضہ اور لوگوں کے لیے مہنگی بجلی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ پالیسی اس لیے اختیار کی جاتی ہے تا کہ عوام شدید بد حالی کا شکار ہو کر ملک میں امریکی راج کے خلاف آواز بھی بلند نہ کرسکیں۔ درحقیقت بجلی کا کوئی بحران سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ حکمرانوں نے جانتے بوجھتے پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا کا طاقتور ترین ملک کسی کمزور ترین افریقی ملک سے بھی کمزور تر لگنے لگا ہے تا کہ حکمران امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا جواز فراہم کرسکیں۔
11مئی2013کے انتخابات کے نتیجے میں آنے والے حکمرانوں نے بھی قوم کو حکومت سنبھالنے سے قبل ہی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمے کی کوئی مدت متعین نہیں کرسکتے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ تائثربھی مستحکم کررہے ہیں کہ وہ ملک جس نے بغیر کسی بیرونی مدد کے شاندار ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی،اس بحران کو امریکہ،چین اور بھارت کی مدد کے بغیر حل نہیں کرسکتا۔ ایک طرف یہ حکمران اس بحران کے خاتمے کے لیے وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں لیکن بارہ سالوں سے امریکی جنگ کو لڑنے کے لیے معیشت کو 70ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا چکے ہیں اور پاکستان کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی رقم کو نیٹو سپلائی لائن کوبرقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
جمہوریت و آمریت صرف اور صرف امریکہ اور استعماری طاقتوں کے مفادات کو پورا کرتی ہے۔ صرف خلافت ہی عوام کو بجلی کے اس بدترین بحران سے، توانائی سے متعلق اسلام کے احکامات کے نفاذ کے ذریعے، نجات دلائے گی۔ خلافت رسول اللہﷺ کے ارشاد ((المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء و الکلا و النار)) ''تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہیں اور آگ'' (ابو داؤد)، کے مطابق بجلی کے تمام پیداواری کارخانوں،یونٹس،اداروں اور اس کی تقسیم کار کمپنیوں کو عوامی ملکیت قرار دے گی اور پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسز کا خاتمہ کردے گی ۔ ان اقدامات کے نتیجے میں عوام کو نہ صرف بجلی گھروں کے نجی مالکان کی بلیک میلنگ سے نجات مل جائے گی بلکہ سستی بجلی بھی میسر آئے گی۔ اس کے علاوہ خلافت خود انحصاری کے حصول کے لیے بجلی پیدا کرنے کے لیے ریاست میں دستیاب وسائل جیسے پانی، کوئلہ،گیس وغیرہ کو استعمال میں لائے گی اور اس طرح بجلی کی پیداواری لاگت میں مزید کمی آئے گی۔
حزب التحریر عوام کو خبردار کرتی ہے جمہوریت و آمریت سرمایہ دارانہ نظام کو نافذاور استعماری ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ صرف خلافت ہی اسلام کے نفاذ کے ذریعے امت کو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم اور استعماری ممالک کے شکنجے سے آزاد کرائے گی۔ لہذاخلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کے ساتھ شامل ہوجائیں۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

پاکستان کے جابر کے نام کھلا خط ایک سال سے نوید بٹ کا اغوا ،خلیفۂ راشد کے ہاتھوں تمہارے انجام کو نہ تو روک سکے گا اور نہ ہی اس میں تاخیرہوگی

اس پر سلامتی ہوجو ہدایت کی پیروی کرے
ہم یہ خط دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتی خانوں کے ذریعے اورایسے مقامی ذرائع سے تمہیں بھیج رہے ہیں کہ جن کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ان کے ذریعے یہ خط تم تک پہنچ جائے گا۔
جنرل کیانی ،ہم تم سے تمہاری اس حیثیت کی بناپر مخاطب ہیں کہ تم پاکستان میں امریکہ کے سب سے اہم ایجنٹ ہو اور پاکستان سمیت اس پورے خطے میں امریکی راج کے نگہبان ہو۔ ہم تم سے ایک ایسے وقت میں مخاطب ہیں جب تمہاری غداریوں پر پردہ ڈالنے والی راجہ پرویز اشرف کی حکومت جاچکی ہے اور11مئی 2013کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت مستقبل میں تمہاری غداریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ کھیل تمہارے سنگین جرائم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے پوشیدہ رکھ سکتا ہے ، جوکہ السمیع (سننے والا)،البصیر(دیکھنے والا) اور العلیم( تمام علم رکھنے والا) ہے!
آج جب ہم تم سے مخاطب ہیں تو تم نے امریکی افواج کو پاکستان کے دہانے پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے، پاکستان کے راستے مدد فراہم کر کے، ہماری عوام اور ہماری افواج کے ساتھ غداری کی ہے۔ اورٍاب تم پاکستان، اس کی عوام اور افواج کے ساتھ اپنی غداری کو مزید سنگین بنا رہے ہو، کیونکہ تم افغانستان سے محدود اور جزوی فوجی انخلا ء کے نام پرصلیبیوں کے مستقل فوجی اڈے قائم کرنے میں بھر پورمدد فراہم کر رہے ہو ۔ تم وہ غدار ہو جس نے اُس حلف کو توڑ دیا ہے ، جو تم نے دشمن سے اس ملک کا دفاع کرنے کے لیے اٹھایا تھاجب تم نے دشمن امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں، افواج اور پرائیویٹ فوجی تنظیموں کو ملک بھر میں آزادانہ گھومنے اور اس ملک کی عوام اور افواج کے خلاف خونی سازشیں کرنے کی اجازت دی ۔ تم وہ بد عہد ہو، جو ہر اُس مسلمان، چاہے وہ فوجی افسر ہو یا سیاست دان، کی زبان کو خاموش کروادیتے ہو اوراسے اپنے تاریک قید خانوں میں پھینک دیتے ہو ،جو تمھارے سامنے کلمۂ حق بلند کرتا ہے اور امت کے خلاف تمہاری غداری کو اس لیے بے نقاب کرتا ہے تا کہ اس امت کو تمھارے شر سے محفوظ کرسکے ۔
لہٰذا ہم تمہارے ہاتھوں اپنے معززبھائی نوید بٹ کے اغوا کی سخت مذمت کرتے ہیں جسے 11مئی 2012ء کو تمہارے غنڈوں نے اغوا کیا تھا اور اب انہیں تمہارے خفیہ قید خانوں میں قید ہوئے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔ نوید بٹ، پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان ہونے کے ناطے ،اپنی بے باکی اور بے خوفی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ نوید بٹ اللہ کے سواکسی سے نہیں ڈرتے تھے اور اس ملک اور امت کے خلاف امریکہ کے منصوبوں کو مؤثر انداز سے بے نقاب کرتے تھے۔ نوید بٹ نے ان شیطانی منصوبوںکو اس وقت بھی بے نقاب کیا جب تم مشرف کے دست راست تھے اور جب امریکیوں نے تمہیں مشرف کی جگہ پاکستان میں اپنے نئے ایجنٹ اور اہم ترین مہرے کے طور پر بٹھایاتھا۔ اور ہم اپنی مذمت میں اس دعا کو بھی شامل کرتے ہیں کہ اللہ تم پر اپنا غضب نازل کرے کیونکہ تم نے ان لوگوں کے خلاف جنگ کا اعلان کررکھا ہے جو اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالی سے مخلص اور اس کے فرمانبردار ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایک حدیث قدسی کے ذریعے ارشاد فرماتا ہے : ((من أھان لی ولیاً فقد بارزنی فی العداوة)) ''جس کسی نے میرے دوست کی اہانت کی اس نے مجھے دشمنی کا چیلنج دیا'' (بخاری)۔
ہم تمھیں مزید خبردار کرتے ہیں کہ انشاء اللہ مسلمانوں کا خلیفۂ راشد، جواسلام کی بنیاد پرحکمرانی کرے گا اور امت کو اس کے دشمنوں کے خلاف یکجا کرے گا، وہ جلد تمہاری گردن میں طوق ڈالے گا ،اوراس وقت نوید بٹ کے اغواء کا جرم بھی تمھارے جرائم میں شامل کیا جائے گا۔ اس دن کے آنے سے قبل اپنی توبہ اور معافی کے لیے جو ہلکا ترین کام تم کر سکتے ہو وہ یہ ہے کہ تم خلافت کے قیام کی طرف امت کی پیش قدمی کو راستہ دو اور حزب التحریرمیں موجود امت کے بیٹوں کے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اس طرح تم اُس وقت اپنی صفائی میں کسی حد تک یہ کہہ سکو گے کہ تم نے بھی اس امت کا ساتھ دیا تھا؛ فتح وخوشی کا وہ وقت کہ جو اب قریب آن پہنچاہے۔
اگر تم ہماری اس تنبیہہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تو ہم تمھارے لیے اُس نازک اور غیر محفوظ صورتحال کو بھی بیان کیے دیتے ہیں کہ جس سے تم دوچار ہو ۔
سب سے پہلے تو تم خود اپنے ان پیغامات پر غور کروجو تم نے اپنے غنڈوں اور جاسوسوں کے ذریعے حزب التحریرکو بھیجے ہیں ۔ ان پیغامات میں تم نے حزب کو اپنی زبان نرم کرنے کو کہا اور اس کے بدلے میں پیش کش کی کہ تم حزب کے خلاف اپنے جبر کو کم کردو گے، یہاں تک کہ نوید بٹ کو بھی رہا کر دو گے! کیا تم نے غور نہیں کیا کہ حزب کی طرف تمہارا بار بار کایہ فضول پیغام خود تمہاری کمزور صورتحال کی تصدیق کرتاہے ؟ تمہارے یہ پیغامات ثابت کرتے ہیں کہ حق و سچ پر مبنی ہمارے موقف نے تمھیں چاروں جانب سے گھیر رکھاہے۔ کیونکہ تم اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہو اور ہم بھی آگاہ ہیں کہ جن مسلم افسران پر امریکہ نے تمھیں بٹھایا ہے ان میں اسلام اور اسلام کے احکامات کی محبت بہت گہرائی سے پیوست ہے۔ اورکیا تم نہیں جانتے کہ فوج کے افسران اپنی بیریکوں میں اور میسوںمیں تمہیں اور تمہارے آقا کو کن کن ناموں سے پکارتے ہیں ،اور اسلام اور خلافت ان کی نظر میں کتنا عظیم مقام رکھتے ہیں؟
دوسرے تم اس دباؤ پر غور کرو، جوامریکہ کی طرف سے تم پر ڈالا جاتا ہے کہ تمہیں خلافت کی دعوت اور اس کی جماعت حزب کے خلاف فرنٹ لائن میں ہونا چاہئے۔ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران اس دباؤ میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے؟ جان لو کہ یہ دباؤ اس وجہ سے ہے کہ تمہارا آقا امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ خلافت کا قیام بہت قریب ہے،جس کی واضح نشانیاں پوری مسلم دنیا میں نظر آرہی ہیں خواہ یہ پاکستان ہو یا شام یا کوئی بھی دوسرا مسلم ملک۔ انشاء اللہ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اعلیٰ پائے کے سیاست دان عطا بن خلیل ابو رَشتہ، امیر حزب التحریر، تمام مسلمانوں کے خلیفہ کی حیثیت سے تم سے معاملہ کریں گے۔ اور یاد رکھوکہ مسلم دنیا کے دیگر جابر حکمرانوں کے مقابلے میں تمہاری صورتحال زیادہ کمزور ہے کیونکہ تم اس سرزمین پر بیٹھے ہو جس کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے اور یہ وہ فوج ہے جو اپنے آپ کو خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی اولاد سمجھتی ہے ۔ اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ جب جابر حکمران گرتے ہیں یا اپنے مغربی آقائوں کی خدمت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کے یہی مغربی آقا خوشی خوشی انھیں ان کی بدقسمت زندگی کے حوالے کردیتے ہیں اورپھر امت انھیں گٹر نما تہہ خانے یا سیوریج پائپ سے نکال کر ان کے انجام تک پہنچا دیتی ہے۔
اے پاکستان کے جابرحکمران! تیسری بات یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم تبدیلی کی ہواؤں سے محفوظ رہو گے، توذرا اپنے سے پہلے کے جابروں اور فرعونوں کے انجام کو یاد کروکہ جو یہ گمان کرتے تھے کہ گویا وہ ہمیشہ برقراررہیں گے اور اللہ کی بجائے وہ لوگوں کی جانوں کے مالک اوران کے رازق ہیں ۔ لیکن انھیں اس چیز نے گھیر لیا جو ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی نے مقرر کررکھی تھی۔ اور انہی میں سے ایک اپنی سیاہ بدقسمتی کا انتظار کررہا ہے جسے وہ جلد ہی دیکھ لے گا۔
(اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا)
''اللہ تعالی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ بے شک اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے''(الطلاق:3)

Read more...

کو ئی ہے جو وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی مدد کرے!

پریس ریلیز

کل بروز پیر 17 فروری 2014 کو بی بی سی کی ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ "وسطی افریقہ میں افریقی فورسز نے انٹرینشنل سپورٹ مشن فار سنٹرل افریقن ری پبلک(ISMCA) کی سرپرستی میں ان 2,000 مسلمانوں کی ملک بدر ی پر قابو پا لیا ہے، جومسیحی ملیشیا کے فرقہ وارانہ تشددکے حملوں سے فرار ہوکر کیمرون کی طرف منتقل ہورہےتھے۔ بی بی سی کے رپورٹر کے مطابق، جوروانڈا کے فوجیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا، "فوجیوں کے قافلے پر بندوقوں، نیزوں، تلواروں، تیروں، پتھروں اور چھریوں سے حملہ کیاگیا"۔
عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کے جسموں کے بخیے ادھیڑنے، بلکہ ان کے گوشت تک کو کچا کھانے کے کئی یقینی شواہد موجود ہیں۔ بی بی سی نے 13 جنوری 2013 کو ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کا گوشت انتقامی طور پر کھایا گیا تھا، کے متعلق تفصیلی تحقیقات پر مبنی ایک مضمون نشر کیا۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق 20 سے زائد لوگوں نے ایک گاڑی والے کو زبردستی روکا، جو کہ ایک مسلمان تھا۔ انہوں نے اس کو سڑک پر گھسیٹا، اور اس کو زدوکوب کرنے لگے، اس کے سر پر ایک بڑا پتھر مارا، پھر اس کو آگ لگا دی، پھرایک شخص جھپٹ کر اس کے پورے پاؤں کو کاٹ ڈالتاہے اور اسے کچا کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جمہوریت پسند وں نے اس بدترین جرم پرچپ سادھ لی ہوئی ہےاور قاتلوں کے ساتھ مل کران کی اس "بہادری" پرانہیں شاباش دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا "ہم سب مسلمانوں سے نہایت غصہ میں ہیں، ہم اس کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرسکتے"۔
دوسری طرف افریقی امن فورسز کے ساتھ تشدد کو روکنے کے سلسلے میں تعاون کرنے کے بہانے فرانس نے اپنی فوجیں داخل کیں۔ ان فوجوں نے ان صلیبی قاتلوں کی بھرپورجانب داری کی جومسلمانوں اور ان کے مقدسات کے خلاف جرائم کے مرتکب تھے۔ اس لئے وسطی افریقہ میں عالمی فورسز سے تحفظ کی امید کرنے والوں کی حالت یوں ہے جیسے کو ئی کڑکتی دھوپ سے بھاگ کر آگ کے ذریعے پناہ حاصل کرنے کی کو شش کرے۔
وسطی افریقہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے ساتھ روارکھے جانے والے جرائم اور ظلم وستم کی یہ ایک جھلک ہے، اس کی وجہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن صلیبیوں کاوہ حسد ہے جس میں جل کر وہ اس قسم کی ناپاک کاروائیوں پراترآتے ہیں۔ فرانس کے تعاون اور عالمی گٹھ جوڑ کے سائے تلےبدترین قتل وغارت گری اور بد ترین تشدد، اعضاء کو الگ کرکے ٹکڑے کردینا، آگ میں جلادینا، جسموں کو چیرپھاڑکرنااور خام انسانی گوشت کاکھانا، وہ صورتحال ہے جس کاسامناوہاں کے مسلمان کررہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم ممالک کے حکمران شرمناک بزدلی کامظاہرہ کررہے ہیں۔ وسط افریقی مسلمانوں کے ساتھ ان کارویہ بالکل ویساہی ہے جیساکہ 1995 میں سربرانیکاکے مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے روارکھا، جس میں 8ہزارسے زائد عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیااور اقوام متحدہ کے ڈچ فوجیوں کے آنکھوں کےسامنے بوسنیائی مسلمان خواتین کی منظم طورپرعصمت دری کی گئی۔ شام میں امریکہ کے ہاتھوں خونریزی کی داستان ہویابرمامیں جاری صورتحال، فلسطین، آوانتی، کشمیر، مشرقی ترکستان اور مسلمانوں کے دیگرمصیبت زدہ علاقوں کے لہورنگ مناظر۔۔۔۔۔۔ان تمام مصائب وآلام اور ظلم وستم کاخاتمہ جودنیابھرمیں مسلمانوں پر ڈھائے جاتے ہیں، صرف اور صرف اس خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہے، جوامت کی ڈھال اور جس کافریضا اس کی رکھوالی کرناہوتا ہے۔
لہٰذا حزب التحریر کامرکزی میڈیاآفس وسطی افریقی مسلمانوں کے حق میں ایک مہم کاآغاز کرنے والاہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کاارشاد گرامی ہے «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى». " آپس کی محبت، ہمدردی اور مہربانی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے کسی عضو میں تکلیف ہوتوساراجسم اس کی وجہ سے جاگتااور بیماررہتاہے"۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا۔ اس مہم اور اس کے مندرجات کااعلا ن اپنے وقت پرعنقریب ہورہاہے۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾
"یقین رکھوجن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ظلم کانشانہ بنایاہے، پھرتوبہ نہیں کی ہے، اُ ن کے لئے جہنم کاعذاب ہے اور ان کو آگ میں جلنے کی سزادی جائے گی"۔ (سورۃ البروج: 10)
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

 

 

Read more...

شامی انقلاب کاراستہ روکنے کے لئے اوبامہ کےآپشنز

پریس ریلیز

امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے جمعہ کے دن 14 فروری 2014 کو یہ کہا کہ "صدرباراک اوبامہ نے ایک دفعہ پھرشام کے حوالے سے امریکی پالیسی پر مختلف آپشنز کو پیش کرنے کا مطالبہ کیاہے ، لیکن اب تک کسی آپشن کو ان کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ "کیری نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا "اوبامہ شام میں بگڑتی انسانی صورتحال پر تشویش زدہ ہیں ، اور اس لئے بھی کہ وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن مذاکرات، منصوبے کے مطابق عبوری حکومت کی تشکیل پر غور و فکر کے حوالے سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے"۔ کیری نے مزید کہا کہ "اس لئے اوبامہ نے ہم سب سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم متعدد آپشنز پر غور کریں ، جو موجود ہوں یا نہ ہوں "۔
لگتا ایسا ہے کہ کیری اور اس کا صدر دونوں ہی شامی انقلاب کو سرنگوں کرنے کے لئے میسر آپشنز کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلاء ہیں ۔ سیاسی حل پر کام جنیوا میں ہوا ، جہاں امریکہ اور اس کے چیلوں مجرم بشار حکومت اور الجربا کی قیادت میں قومی اتحاد کی نمائندگی کرنے والے نام نہاد سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ہرشخص یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ بشارامریکہ کے کسی بھی حکم سے روگردانی نہیں کرتا، خواہ وہ کیمیائی اسلحے کی سپرد گی ہو، یا شام کی مشتعل اورنالاں قوم کاقتل عام ہو۔ اسی طرح سب یہ جانتے ہیں کہ اس اتحاد کا کرتادھرتا روبرٹ فورڈ ہی ہےجسےاس نے اپنے ہاتھوں سے تشکیل دیاہے ۔ سواس اتحادکے پاس اگرکوئی اختیارہے تو صرف اتناکہ ہائی کمشنرصاحب کی خواہشات کی اطاعت بجالانے میں لگارہے کیونکہ اسد کے جانے کے بعد اس نے یہ امیدیں لگائی ہیں کہ وہ ان کوبھی کسی حقیرسی خدمت کاشرف بخش دے گا، جیساکہ برطانیہ نے شریف حسین اوراس کے بیٹے فیصل کے ساتھ کیاتھا، جب خلافت کے انہدام کے بعد غنائم کی تقسیم پربحث کی جارہی تھی۔
جہاں تک حقیقی مذاکرات کاتعلق ہے تویہ شام کے میدانوں میں ہورہے ہیں ، جہاں اوبامہ شام کے اس سرپھرے اورناقابل تسخیر انقلاب پراپنے حل کومسلط کرنے کیلئے موجود آپشنز کوکام میں لانے کے حوالے سے تذبذب کاشکارہے، کہ کیاسکڈ میزائل چلانے کا سلسلہ پھر شروع کیا جائے ؟ یا بارود سے بھرے ڈرم گرانے کا سلسہ جاری رکھےیاپھر کیمیائی اسلحہ ایک بار پھر استعمال کیا جائے؟ کیاایران اور اس کے پیرو کار ، جوظلم اورظالموں کے خلاف کربلاء انقلاب کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، اس قابل ہیں کہ شامی انقلابیوں کوانکل سام کے آگے جھکادیں گے ( انکل سام جس نے ایرانی حکومت کے ساتھ ایٹمی معاملہ طے کرکے اس کی زندگی کوطول دی اورایرانی خزانے میں کئی ملین ڈالرکی ترسیل کی تاکہ شام میں اپنی جنگ کی مالی ضرورتوں کوپوراکرسکے) اوراس مقصد کے حصول کیلئے وہ تکفیری دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے نعروں کواستعمال کرتے ہیں۔
مگراس کاجواب شام کے علاقے درعا سے آیاکہ مذکورہ بالاآپشنز کے ساتھ امریکہ نے نمازِجمعہ کی ادائیگی کرکے مسجد سے نکلنے والوں کے ہجوم میں بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکے کروائے۔جیساکہ کل درعاکے شہر الیادودۃ میں ہوا، جہاں حکومت کے ایجنٹوں نے بارودسے بھری گاڑی گھسادی جو جمعہ کی نماز کےبعدپھٹ گئی ،جس کے نتیجے میں 32 نمازی جاں بحق اوردسیوں لوگ زخمی ہوئے جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بعید نہیں کہ ان آپشنز کے ساتھ ساتھ بعض "مشائخ" کی طرف سے فتوی ٰ صادرکیاجائے کہ ولی الامرکے خلاف خروج حرام ہے۔ جب واشنگٹن کے پاس سیاسی حل تیار ہوجائے گا تو پھر جس چیز کی ضرورت ہو گی وہ صرف سعودی انٹیلی جنس کی سرپرستی میں نکلنے والے فتوئے کی ضرورت ہو گی جس کےلئے بس ولی الامر کی طرف سے ادنی ٰاشارے کی دیرہے۔ جہاں تک ایک ایسےخلیفہ کی بیعت کی طرف دعوت کی بات ہے جواللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اورشام کی مبارک سرزمین میں خونریزی کی روک تھام کرے ، توعرض ہے کہ سلطان کے مشائخ اس سے پہلوتہی کرتے ہیں ،کیونکہ ایساکرکے وہ ولی الامر کی ناراضگی مول لیں گے ،جبکہ اگر کائنات کے مالک کی معصیت ہوجاتی ہے تواس میں ان کااپناایک نقطہ نظرہے، یہ لوگ زندگی سے پیارکرتے ہیں، چاہے اس کے لئےکتنی ہی ذلت و رسوائی اورجبارذات کی طرف سے غصے کے حقدارٹھہرتےہوں۔
اس میں خیرہی خیرہے ، کیونکہ شام کے انقلاب نے مسلمانوں کے ساتھ امریکی دشمنی کی حقیقت کھول کررکھ دی ،اتحاد کے اندراس کے بنائے ہوئےآدمیوں کی حقیقت کوبے نقاب کیااورشیطان ِاکبرکانعرہ لگانے والی ایرانی حکومت کی منافقت کا پردہ چاک کیا۔ اسی طرح مینڈکوں کی طرح ٹرٹر کرنے والےان خلیجی مشائخ کے دجل کوبے نقاب کیاجواپنے "ولی امر " کی مرضی کے فتوے صادرکرتے ہیں ۔ ان کایہ عمل ان کودنیاوآخرت میں ہلاکت کی طرف لے جائے گا۔
جہاں تک امت کےواحد آپشن کا تعلق ہے تووہ یہ ہے کہ تمام اسباب کے پیدا کرنے والے سے نصرت کے اسباب مانگے اوررب العالمین کے سامنے مخلص بن کر اپنی بندگی پیش کرکے گڑگڑائے، پھرمنہج نبوی کے مطابق خلافت راشدہ ثانیہ کے لئے مخلصین کے ساتھ سنجیدہ اوران تھک عمل کرے ۔ اللہ رب العزت کاارشاد ہے۔
﴿وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾
"اورفتح توکسی اورکی طرف سے نہیں ، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جومکمل اقتدارکابھی مالک ہے،تمام تر حکمت کابھی مالک " (آل عمران: 126)۔
اوراللہ کاوعدہ حق ہے،
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾
"اورہم نے زبورمیں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیاتھاکہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے" (الانبياء: 105)۔
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

 

 

Read more...

أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ "اس کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے، یعنی موت'' (الترمذی۔2229)۔


تحریر: مصعب عمیر ، پاکستان
بے شک موت اس قابل ہے کہ اس کو یاد کیا جائے۔ معیارِ زندگی، مال اور صحت کے برعکس موت ایک یقینی امر ہے۔یہ اس دنیا کی عارضی زندگی سے ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کے طرف سفر کا آغاز ہے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَـعُ الْغُرُورِ ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے۔پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے'' (آلِ عمران: 185)۔ اس کے علاوہ موت کو دھوکہ دینا،اس کو ٹال دینا یا بچ نکلنا ناممکن ہے۔ہر ذی روح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت پر مر جائے گی۔اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، "جب ان کا وہ معین وقت آ پہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 10)۔ اور اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ "جب ان کا معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 49)۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَـباً مُّؤَجَّلاً "بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے'' (آلِ عمران: 145)۔
یہ موت ہے۔یہ اٹل ہے اوراس زندگی کو ختم کرنے والی ہے۔یہ ایسے وقت پر واقع ہوتی ہے جو صرف اللہ سبحان وتعالیٰ کو معلوم ہے۔ لہٰذامستقبل میں واقع ہونے والے ایک غیر اعلانیہ امر سے متعلق ایک شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ ایک ایسا امر جو ہمیں ہماری زندگی کے ہر لمحے سے دور کر دے گا! عقل مند وہ ہے جواس کے لئے ہمیشہ تیار ہے،اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کے اور ہلاکت ہے اس کمزور انسان کے لئے جو اس سے افسوس کے ساتھ ملاقات کرے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا، الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ "عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو درست کیا اور موت کے بعد کی تیاری کی اور کمزور وہ ہے جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور پھر اللہ سے بے سود دعائیں کیں" (الترمذی:2383)۔ ہلاکت ہے ان کمزوروں کے لئے جو موت کو دیکھنے کے بعد توبہ کی طرف لپکیں گے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَـتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّى تُبْتُ الاٌّنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً "ان کی توبہ (قبول) نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے ا ب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں،یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے'' (النساء: 18)۔ اور اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار!مجھے واپس لوٹا دے۔کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کرنیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک'' (المؤمنون: 99-100)۔ ہلاکت ہے اس کمزور کے لئے جس کے لیے لفظ كَلاَّ استعمال کیا گیا جس کا معنی ہے: "نہیں، جو یہ کہتا ہے ہم اس کا جواب نہیں دیں گے اور اس کو قبول نہیں کریں گے"۔ لہٰذا ہم ربیع بن خثام کے متعلق سنتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں ایک قبر کھود رکھی تھی کہ اگر وہ اپنے دل میں سختی پاتے تو وہ اس میں داخل ہو جاتے اور اس وقت تک لیٹے رہتے جب تک اللہ چاہتا اور بار بار یہ آیات تلاوت کرتے، رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ ''اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے کہ شاید میں اعمال ِ صالح کر سکوں جو میں نے چھوڑ دیے''۔ پھر اپنے آپ کو جواب دیتے، ''اے ربیع! تجھے واپس بھیج دیا گیا ہے لہٰذا عمل کر''۔
برزخ میں ہمارا وقت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمیں روزِ قیامت حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ لہٰذا برزخ میں داخل ہونے کے بعد زندگی کی طرف واپسی نہیں، صرف احتساب کی طرف راستہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک حجاب ہے''۔ محمد بن کعب کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے۔ وہ نہ تو اس دنیا کی طرح کھاتے پیتے لوگ ہیں نہ ہی آخرت کے لوگوں کی طرح سزا یافتہ یا جزاء یافتہ لوگ''۔ لہٰذا یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ، سزا اور جزاء کے فیصلے سے بچنا توایک طرف، کوئی عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا جب ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ روزِ حساب کب آئے گا تو ذاتی طور پر اس شخص کے لیے اس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کے حساب کتاب کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
لہٰذا عقل مند وہ ہے جو اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے اور زندگی کے ہر لمحے میں اس کے لیے کام کرتا ہے۔ اور اللہ اس شخص سے واقف ہے جو ہم میں سب سے زیادہ عقل مند اور بہترین ہے یعنی رسول اللہﷺ کیونکہ وہ ہمیشہ موت کے لیے تیار رہتے تھے۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ سے عرض کیا، ''یا رسول اللہﷺ! آپ کے بال سلیٹی رنگت کے ہو گئے ہیں''۔ آپﷺنے فرمایا، شَيَّبَتْنِي هُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلَاتُ وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَت ''میرے بالوں کی سلیٹی رنگت کی وجہ (سورۃ) ہوداور واقعہ اور مرسلات اور عم یتسا ء لون اور اذا الشمس کورت ہیں'' (الترمذی: 3219)۔ ابن عمر کے ابن نجار سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو یہ تلاوت کرتے سنا، إِنَّ لَدَيْنَآ أَنكَالاً وَجَحِيماً ''یقیناََ ہمارے ہاںسخت بیڑیاں ہیں اور سلگتی ہوئی جہنم ہے'' (المزمل: 12) اور آپﷺ یہ سن کر بے ہوش ہو گئے۔ تو صحابہ موت کو اس طرح یاد کرتے تھے۔نبیﷺ نہ صرف خود موت کو یاد کرتے تھے اور اس کے لئے تیار تھے بلکہ انہوں نے ہمیں بھی اس کو یاد کرنے اور اس کی تیاری کرنے کی تلقین کی۔اسی لئے آپﷺ نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لئے دعا کرنے پر زور دیا کیونکہ یہ بہترین یاد دہانی اور بہترین سرزنش ہے۔ابو زر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ ''قبروں پر جایا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دہانی ہے'' (ابن ماجہ: 1558)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ ''اس چیز کو کثرت سے یاد کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے'' (الترمذی: 2229)۔
لہٰذا آج ہم سب کو سوچنا اور غور کرنا چاہیے، زندگی کے آرام و سکون کا خاتمہ کرنے والی کے بارے میں اور تیاری کرنی چاہیے۔ ہم محنت کریں اوراللہ سبحان وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی نہ ضائع کریں۔ہم اپنی تمام ذمہ داریوں کو جاننے اور پورا کرنے کے لئے کوشش کریں۔ ہم تمام محرّمات کو جاننے اور ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ ہم اپنی ذاتی زندگیوں اور اس امت کی اجتماعی زندگی میں اسلام کو خلافت کے طور پر استوار کرنے کی کوشش کریں جو اسلام کو نافذ کرے گی، اس کی حفاظت کرے گی اور تمام انسانیت کو اس کے نور سے منوّ کردے گی۔

Read more...

سوال کا جواب: مجددکی پہچان

 

سوال: اللہ آپ کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح یاب کرے اور آپ کے علم سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مشہور صحیح احادیث میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے جلیل القدر صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) "بے شک اللہ ہر سو سالوں میں اس امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس دین کو امت کے لیے زندہ کرتا ہے" (ابوداود 4291 نےروایت کی اور اسخَوی نے المقاصد الحسنة 149 میں اور اللبانی نے السلسلة الصحيحة 599 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ حدیث میں مجدد کا جو ذکر ہے یہ ایک فرد کے لیے ہے یا جماعت کے لیے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ماضی میں گزرے ہوئے مجددین کی فہرست بیان کردیں؟ (ازطرف ابو مومن حماد)
جواب: وعليكم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے منسلک پانچ معاملات ہیں:
1۔ سو سال کا آغاز کس تاریخ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ کے نبیﷺ کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے؟ یا نبیﷺ کی بعثت سے ؟ یا ہجرت کے وقت سے یا پھر ان کی وفات سے؟
2۔ کیا ہر سو سال کے آغاز کا مطلب ہر سو سال کا آغازہے یا سو سالوں کے دوران یا سو سالوں کے آخر میں؟
3۔ کیا لفظ 'مَن' کا مطلب ایک فرد کا ہے یا لوگوں میں سے ایک گروہ جو لوگوں کے لیے دین کو زندہ کرے۔
4۔ کیا کسی صحیح ذریعے سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے جو پچھلے کئی سو سالوں میں مجددین کی تعداد بتاتی ہو؟
5۔ کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ چودھویں صدی ہجری میں جو 30 ذی الحجہ 1399 کو ختم ہوئی کون مجدد تھا جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
میں مقدور بھر کوشش کرو ں گا کہ ان ممکنات کے متعلق جو مضبوط ترین رائے (راجع قول) ہے بغیر کسی اختلافی نکات میں پڑے بیان کردوں۔ اور میں کہتا ہوں کہ توفیق اللہ کے پاس ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔
1۔ کس تاریخ سے سو سالوں کا آغاز ہوتا ہے؟
المناوی نے فتح القدیر میں کہا ہے کہ "اور انھوں نے سال کے آغاز کے معاملے میں اختلاف کیا ہے۔کیا یہ آغاز پیدائش نبوی سے ہے یا بعثت سے یا ہجرت سے یا پھر آپ ﷺ کی وفات سے؟ اور میری رائے میں راجع قول یعنی قوی بات یہ ہے کہ اس کو ہجرت سے لینا چاہیے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن مسلمانوں اور اسلام کو ریاست کے قیام سے عزت اور طاقت عطا کی گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کو سال کےآغاز کے بارے میں جاننے کے لیے اکٹھا کیا تو انھوں نے ہجرت پر ہی انحصار کیا"۔ الطبری نے اپنی طریق میں کہا ہے کہ "عبد الرحمن ابن عبد اللہ بن عبدل الحکم نے مجھ سے کہا ، نعیم بن حماد نے ہم سے کہا کہ الدراوردی نے ہمیں عثمان بن عبید اللہ بن ابی رافع سے بتایا، جس نے کہا کہ میں نے سعید ابن مصعب کو کہتے سنا کہ ، 'عمر بن خطاب نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے پوچھا ، کس دن سے ہم تاریخ لکھیں تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اس دن سے جس دن اللہ کے نبی ﷺ نے ہجرت کی اور شرک کی زمین کو چھوڑا"۔ اور ابو جعفر نے کہا "ہجرت کے پہلے سال کا تعین اس سال کے محرم سے ہونا چاہیے جس سال محمد ﷺ نے ہجرت کی یعنی نبی ﷺ کی مدینہ آمد سے دو ماہ اور چند دن قبل سے کیونکہ محمدﷺ 12 ربیع الاول کو مدینہ پہنچے تھے"۔ اس بنیاد پر یہ زیادہ بہتر ہے کہ سو سال کی گنتی ہجرت کی تاریخ سے کی جائے جس کی تبنی صحابہ کرام نے کی۔
2۔ جہاں تک صدی کی شروعات کا تعلق ہے تو راجع قول اختتام ِصدی کا ہے یعنی کہ مجدد ایک ایسا متقی و مشہور عالم ہے جوسو سال کے آخر میں ہو گا اور اس کا انتقال بھی سو سال کے آخر میں ہو گا نہ کہ صدی کے شروع یا وسط میں۔ جہاں تک میرا اس رائےپر بھروسہ کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے:
ا) صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "عمر بن عبدلعزیز (راس) پہلے سو سالوں کے آغاز میں آئے اور 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا جب ان کی عمر 40 سال تھی۔ جبکہ امام شافعی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں آئے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں 54 سال کی عمر میں ہوا۔
اب اگر ہم دوسری رائے کو سو سالوں کے آغاز کے بارے میں دیکھیں جو صدی کے آغاز کو ان سو سالوں کے لیے بنیاد بناتی ہے تو پھر عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ آپ کی پیدائش 61 ہجری میں ہوئی۔ اور امام شافعی بھی دوسری صدی ہجری کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی پیدائش 150 ہجری میں ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا حدیث میں ہر سو سال پر مجدد کی آمد سو سال کے آخر کے بارے میں ہے نہ کہ آغاز کے بارے میں یعنی مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہو ، پھر صدی کے آخر کی طرف وہ مشہور عالم ہو اور صدی کے اختتام پر اس کا انتقال ہو۔
ب) جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے جو یہ بتاتی ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی کے مجدد تھے، جو اس امت کے علما اور اماموں میں مشہور ہے تو ازہری اور امام احمد بن حنبل اورشروع اور بعد کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز اور دوسری صدی ہجری کے مجدد امام شافعی ہیں۔ عمر بن عبد العزیز کا انتقال 101 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 40 برس تھی اور ان کی خلافت کی مدت ڈھائی سال تھی جبکہ امام شافعی کا انتقال 204 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 54 برس تھی۔ حافظ ابن حجر نے 'توالی التاسیس' میں بیان کیا ہے کہ "ابو بکر البزار نے کہا کہ میں نے عبد المالک بن عبد الحمید المامونی کو کہتے سنا کہ میں امام احمد بن حنبل کے ساتھ تھا جب امام شافعی کا ذکر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ سے منقول کیا کہ اللہ تعالی ہر سو سال کے شروع میں ایک ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو دین سِکھاتا ہے ۔اور انھوں نے کہا کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی ہجری کے آخر میں تھے اور میں یہ امید کرتا ہو ں کہ دوسری صدی ہجری کے آخر میں وہ امام شافعی تھے"۔
اور ابو سعید الفربابی نے کہا کہ امام احمد نے کہا "بے شک اللہ لوگوں کے لیے ہر سو سال میں ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو سنت سِکھاتا ہے اور نبیﷺ کی سنت سے جڑے ہوئے جھوٹ کو رد کرتا ہے، تو ہم نے اس کو سمجھا اور جانا کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز تھے جبکہ دوسری صدی ہجری میں امام شافعی تھے۔اور خاتم نے اپنی مستدرک میں ابو الوحید سے روایت کیا کہ "میں ابو العباس بن شریح کی مجلس میں تھا جب ایک شیخ ان کے پاس آئے اور ان کی تعریف کی۔ پھر میں نے ان کو کہتے سنا کہ ابو طاہر الخولانی نے ہم سے کہا اور دوسرا عبد اللہ بن وحب کہ سعید ابن ایوب نے مجھے شوراحیل بن یزید سے بتایا، انھوں نے ابو القامہ سے اور انھوں نے ابو ہریرہ سے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) " بے شک اللہ اس امت میں ہر سو سال کے آخر میں ایک ایسا بندہ( مجدد) بھیجتا ہے جو ان کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ تو اے قاضی خوشخبری ہو کہ بے شک اللہ تعالی نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں عمر بن عبد العزیز کو بھیجا اور دوسری صدی ہجری کے آخر میں اللہ نے محمد ابن ادریس الشافعی کو بھیجا۔حافظ ابن حجر نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حدیث اس دور میں مشہور تھی۔
د) یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کے آغاز کا مطلب لغوی طور پر اس کی ابتدا ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قوی رائے میں ہر سو سال کے آغاز سے مطلب سو سال کے آخر ہوتے ہیں، ابتدا نہیں ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح 'راس' کا مطلب عربی میں کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے اسی طرح 'راس' کے معنی آخر کے بھی ہیں۔ تاج العروس لغت میں کہا گیا ہے کہ کسی چیز کے راس کا مطلب ہے راس کی انتہا یعنی اس کا آخری حصہ۔ اور لسان العربی لغت میں کہا گیا ہے چھپکلی اپنے راس کے ساتھ بل سے باہر آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ سر پہلے باہر آیا یا دُم، یعنی آخری حصےکا پہلا حصہ۔ اس لیے کسی چیز کے راس کا مطلب عربی زبان میں ابتدا ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب انتہا بھی ہوسکتاہے چاہے وہ آغاز ہو یا آخر ۔ لہذا ہمیں قرینہ کی ضرورت ہے جو ظاہر کرے کہ یہاں کون سے معنی مطلوب ہیں۔ کیا "سو سال کے راس" کا مطلب آغاز ہے یا آخر؟ اور یہ قرینہ پچھلی روایت میں موجود تھا جس کے مطابق عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 101 ہجری میں ہوا اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں ہوا۔ یہ تمام دلائل واضع کرتے ہیں کہ قوی معنی حدیث میں راس کے سو سال کے آخر میں مجدد کے ہیں نہ کہ شروع میں۔لہذا ان دلائل کی بنیاد پر میرے نزدیک مضبوط رائے یہ ہے کہ 'راس' کے معنی ہیں"ہر سو سال میں راس" کا مطلب صدی کے آخری حصے کے ہیں۔
3۔ جہاں تک لفظ 'مَن' کا تعلق ہے کہ یہ ایک فرد کے لیے ہے یا ایک گروہ کے لیے تو حدیث کہتی ہے ((يبعث لهذه الأمة... من يجدد لها دينها)) "اللہ امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس امت کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ اب اگر 'مَن' سے مرادگروہ ہوتا تو فعل جمع کی شکل میں ہوتا جیسے 'یجدونا'، لیکن یہاں فعل واحد کی شکل میں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ 'مَن' جمع کے معنی بھی ظاہر کرتا ہے چاہے فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک یہاں قوی رائے فرد کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ قرینہ 'یجدو' واحد کی شکل میں موجود ہے۔ اور میں قوی رائے بیان کر رہا ہوں کیونکہ جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اس کے معنی قطعی طور پر فرد کے نہیں ہیں چہ جائکہ فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے کچھ فقہا نے یہاں 'مَن' کے معنی سے گروہ مراد لی ہے اور انھوں نے وہ قول لیے ہیں جو ہر صدی میں علما کے گروہوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ رائے پہلی بیان کردہ رائے سے کمزور ہوجاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔
آخر میں قوی رائے یہ ہے کہ 'مَن' سے مراد فرد کے ہیں یعنی مجدد، جس کا حدیث میں ذکر ہے یعنی ایک فرد جو متقی اور مشہور عالم ہیں۔
4۔ جہاں تک گزری ہوئی صدیوں میں مجددین کے ناموں کی فہرست کا تعلق ہے تو روایات بتاتی ہیں کہ سب سے مشہور فہرست منظم انداز میں السیوطی کی ہے جو نویں صدی ہجری تک بیان کرتی ہے اور وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ خود نویں صدی ہجری کے مجدد ہوں۔ اب میں ان کا کچھ حصہ بیان کرتا ہوں۔
۔ پہلی صدی ہجری میں عمر تھے، عادل خلیفہ جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور امام شافعی دوسری صدی میں اپنے اونچے علم کی بنیاد پر۔
۔ پانچویں امام غزالی اپنے بحث اور دلائل کی بنیاد پر ۔
۔ ساتویں جو اونچائی تک اونچے ہوئے ابن دقیق العید جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور یہ نویں صدی ہے اور جو ہدایت دیتا ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور میں امید کرتا ہوں کہ نویں صدی کا مجدد میں ہوں کیونکہ اللہ کا کرم کبھی ختم نہیں ہوتا۔
5۔ اور کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کون تھا چودھویں صدی ہجری کا مجدد جو 30 ذی الحجہ 1399 کو اختتام پذیر ہوئی جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
یہ بات میری توجہ میں آئی جو مشہور اور قابل احترام علما ء کے درمیان موجود ہے جس کے مطابق 'راس' صدی کے آخر میں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز 61 ہجری میں پیدا ہوئے اور پہلی صدی ہجری کے آخر میں 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا اور امام شافعی سن 150 ہجری میں پیدا ہوئے اور صدی کے آخر میں 204 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ہر مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور صدی کے آخری دور میں مشہور ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میرے نزدیک مضبوط ترین رائے جو قابل احترام علما ءکے نزدیک مشہور ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے۔ تو اس بنیاد پر میرے نزدیک قوی رائے یہ ہے کہ عظیم عالم ِدین تقی الدین النبہانی چودھویں صدی کے مجدد تھے۔ ان کی پیدائش 1332 ہجری میں ہوئی اور وہ صدی کے آخر میں مشہور ہوئے خاص کر جب انھوں نے جمادی الثانی 1372 ہجری میں حزب التحریر کی بنیاد رکھی اور ان کا انتقال 1398 ہجری میں ہوا۔ ان کی دعوت مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے یعنی خلافت کے قیام کی طرف تھی، اسلامی زندگی کے ازسرنو آغاز کی طرف اور اس دعوت نے مسلمانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ۔ اور ان کی دعوت اور اجتہاد کےذریعےخلافت آج مسلمانوں کی آواز بن چکی ہے۔ تو اللہ کا رحم اور مہربانی ہو ابو ابراہیم پر اور اللہ کی مہربانی ہو ان کے بھائی ابو یوسف پر جو ان کے بعد آئے اور اللہ ان کو جنت میں انبیاء، صدیقین، شہدا ءاور صالحین میں اکٹھا کرے اور یہ کیا ہی عظیم صحبت ہے۔
میرے بھائی ابو مومن! یہ وہ ہے جو میں سب سے قوی سمجھتا ہوں اور اللہ سب سے زیادہ با خبر ہے کہ کیا صحیح ہے اور اسی کا ہے جو سب سے بہتر ٹھکانہ ہے۔
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو الرشتہ

Read more...

حزب التحریر نے خلافت کی صحت پالیسی کا اعلان کردیا خلافت صحت کی سہولیات کی دستیابی کو تمام شہریوں کا حق قرار دے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نےخلافت کے شہریوں کی صحت کو یقینی بنانے کے حوالے سے پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صحت کی سہولیات کی دستیابی معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت اورحق ہے اور آنے والی خلافت میں بلا امتیازِ رنگ، نسل، جنس اور مذہب ،یہ حق تمام شہریوں کو حاصل ہوگا۔
پاکستان کی صحت عامہ کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ۔ قابل علاج مگر خطرناک بیماریاں عام ہیں، مریضوں کی صحت کے حوالے سے تعلیم کی کمی، ناقص طریقہ علاج جو صحت کے اصولوں سے متصادم ہے، صحت عامہ کا کوئی جامع نظام نہ ہونا، ناقص بنیادی کلینیکل تربیت اور بنیادی طبی تحقیق کی غیر موجودگی جو مقامی بیماریوں اور صحت کی ضروریات کی بنیاد پر کی جارہی ہو۔ اس وقت نجی شعبہ 80فیصد بیرونی مریضوں(outpatient) کی دیکھ بحال کرتا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں نجی شعبہ کے غلبے نے اِن سہولیات کی فراہمی کوخدمت کی جگہ کاروبار اور بنیادی حق کی بجائے آسائش بنا دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی نجی ڈاکٹر وںکی فیس، ادوایات اور میڈیکل ٹیسٹ کی قیمتوں نے پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لیے ایک آسان اور سستا علاج انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ، اور ہمارے حکمرانوں کے آئیڈل ماڈل ، امریکہ کے نطام سے منسوب ہے۔ امریکہ میں جمہوریت نے مریضوں کو گاہک اور صحت کی سہولت کو ایک آسائش بنا دیا ہے۔ جمہوریت نے صحت عامہ کے شعبے اور ادویات میں تحقیق کو ایک چھوٹے سے اشرافیہ کے طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے نجی شعبے کے حوالے کردیا ہےاور یوں یہ اقلیتی طبقہ کروڑوں لوگوں کی پریشانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نجکاری کی بدولت طبی ادویات اور صحت کی سہولیات نہ صرف دنیا کے بیشتر لوگوں کے لئے بلکہ مغربی دنیاکے کئی لوگوں کے لیے بھی ایک ناقابل حصول شے بن چکی ہیں۔
یہ تکلیف دہ صورتحال خلافت کے دور سے کوسوں دور ہے۔ خلافت میں ریاست رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی بنیاد پر ایک مضبوط صحت عامہ کے شعبے کو چلاتی تھی۔ رنگ ،نسل، جنس یا مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست خلافت پر فرض ہے۔ رعایاکے لیے صحت اور علاج معالجے کی ضروریات کو فراہم کرنا بھی ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ ڈسپنسریاںاورہسپتال وہ سہولیات ہیں جن سے مسلمان ادویات اور علاج معالجے کے سلسلے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔
ریاست اپنے عام شہریوں کو ہر قسم کی طبی سہولتیں مفت فراہم کرے گی۔ تاہم ڈاکٹروں کو فیس پر بلوانے یا ادویات کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں لگائے گی۔
صحت عامہ کی اس قدر عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے درکار مالیاتی وسائل کو حاصل کرنے کے لیے ریاست خلافت محاصل کے نظام میں شریعت کے مطابق تبدیلیاں لائے گی اور تعلیمی ترقی کی رفتار کو بھی بڑھائے گی۔ خلافت عوامی اثاثوں جیسے توانائی کے وسائل اور ریاستی اداروں جیسا کہ تعمیراتی کمپنیوں اور بھاری صنعتوں سے وسیع مالیاتی وسائل حاصل کرے گی۔ خلافت صنعتوں پر زکوٰۃ اور زراعت پر خراج نافذ کرے گی اور ظالمانہ انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کا خاتمہ کرے گی جنھوں نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
نوٹ :اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک