الأحد، 26 ربيع الأول 1446| 2024/09/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: مصر میں صلح صفائی کیسے ہوسکتی ہے؟

 

سوال: کئی مہینوں سے مصر کے شاہراہوں اور میدانوں میں تشدد، قتل، گرفتاری، تخریب کاری اور تباہی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ معمول کی زندگی معطل ہے اور لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ اس ماحول میں کئی ایک صلح صفائی کرنے کے لیے سامنے آچکے ہیں جن میں امریکہ، یورپ حتٰی کہ روس نے بھی مصر کے ساتھ رابطے کیے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ چین بھی مداخلت کرے! اسی طرح بعض مقامی ثالث بھی درمیان میں آگئے ہیں جن میں جماعتی اور غیر جماعتی افراد شامل ہیں اور انھوں نے بھی ثالثی اور اصلاحات کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ حزب التحریر نے اس معاملے میں فریقین کے درمیان ثالثی یا صلح صفائی یا اصلاحات کی کوشش نہیں کی جبکہ جو کوئی بھی حزب التحریر کو جانتا ہے اس پر اعتماد اور اس کی عزت کرتا ہے۔ حزب التحریر یقیناً رسول اللہﷺ کے اس قول سے آگاہ ہوگی کہ ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟)) "کیا میں تم کو درجے کے لحاظ سے روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل عمل نہ بتادو؟" انھوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ فرمایا: ((إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ)) "لوگوں کے درمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ تو کیا حزب کی جانب سے ثالثی اور صلح صفائی کی خاطرمداخلت نہ کرنے کا کوئی سبب ہے؟ اللہ آپ کوئی بہترین جزا دے۔

جواب: پہلا: سب سے پہلے حزب پر اعتماد کرنے اور اس کے بارے میں حسن ظن پر آپ کا شکریہ ۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کی رہنمائی کرے اللہ ہی دعائیں سننے اور قبول فرمانے والا ہے۔
جی ہاں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہماری نظروں سے اوجھل نہیں جس کو ابو داؤد نے ام الدردا سے ابو الدرداکے حوالے سے روایت کی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ » "کیا میں تمہیں درجے میں روزہ، نماز اورصدقہ سے بھی افضل چیز کے بارے میں نہ بتادوں" انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول، فرمایا: "لوگوں کےدرمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ لیکن صلح اور اصلاح اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے مطابق ہو نی چاہیے۔ کسی حلال کو حرام کرتے ہوئے اور کسی حرام کو حلال کرتے ہوئے کوئی صلح صفائی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل احادیث میں اسی کی وصیت فرمائی ہے:
ابوداؤد نے اپنی سنن میں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ )) "دو مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے" احمد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ((إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حلالا)) "مگر وہ صلح جوکسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے" اور سلیمان بن داؤدنے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ((الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ)) "مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں"۔ اور ترمذی نے اپنے سنن میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی سے اور انہوں نے اپنے باپ پھر دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا)) "مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے، مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں مگر وہ شرط جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے" اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اسی طرح ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے ان الفاظ سے ہی روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا)) " مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر ایسی صلح نہیں جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے"۔
دوسرا: ہم نے فریقین کے معاملے پر غور کیا تو جو کچھ ہم نے دیکھا اس سے ہمیں سخت تعجب ہوا:
ہم نے دیکھ لیا کہ دونوں اللہ کی شریعت کے مطابق حکمرانی کرنے کے بارے میں نہیں لڑ رہے ہیں، کہ ایک فریق اس کے مطابق حکومت کر تا ہو اور دوسرا فریق اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا ہو، بلکہ ان میں سے کسی نے بھی پہلے یا بعد میں اس کے مطابق حکومت نہیں کی !
ہم نے دیکھ لیا کہ وہ ایسے دستور کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں جو احکام شرعیہ کے مطابق ہو، بلکہ ایک ایسے خود ساختہ دستور کے لیے دست وگریبان ہیں جو سابقہ حکومت میں بھی باطل تھا اور موجودہ حکومت میں بھی باطل تر ہے؟
اسی طرح دونوں کے درمیان یہودی وجود اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں جس پر سابقہ حکومت بھی کاربند تھی اور موجودہ حکومت بھی کاربند ہے؟ نہ ہی دونوں کے درمیان یہود کو گیس سپلائی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی اختلاف رائے ہے بلکہ یہ کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری وساری ہے؟
دونوں ہی نہر سویز سے گزرنے والے دشمن ممالک کے بحری جہازوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں وہ کل بھی گزرتے تھے اور آج بھی گزرتے ہیں؟
دونوں فریق اس بات پر نہیں لڑ رہے ہیں کہ پیٹرول گیس یا معدانیات جیسی اشیاء عوامی ملکیت کی چیزیں ہیں جو کہ مسلمانوں کا حق ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی دولت ان پر خرچ کی جانی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ پہلے بھی اور آج بھی ان سے کنانہ (مصر)کی بڑی مچھلیوں کی جیبیں ہی بھرتی ہیں؟
پھر دونوں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ بحال ہیں اور دونوں نے کل بھی اور آج بھی امریکہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہو ا ہے؟
تیسرا: ہم جانتے ہیں کہ روئے زمین پر اللہ کے تیرکش ، مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں پاسکیں گے جب تک ایک فریق فوج کو دشمن کے آنگن کو میدان کارزار بنانے کی بجائے مصر کو ہی میدان جنگ بنانے کے لیے اس کو تھپکی دیتا رہے گا۔ ۔ ۔ جبکہ دوسرا فریق خلافت کے عادلانہ نظام کا داعی بننے کی بجائےباطل اور خود ساختہ نظام کو بحال کرنے کے لیےمصر کی شاہراہوں کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا نے کے لیے لوگوں کو اکساتا رہے گا۔ ۔ ۔
مصر کے باشندوں کو دونوں فریقین سے کوئی خیر امن اور سلامتی نصیب نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ہی اس سیکولر جمہوریت اور عوامی ریاست کے داعی ہیں جو اسلام کو ایک طرف کردیتی ہیں۔ وہ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں اللہ نہیں بلکہ انسان قانون سازی کرتا ہے، جس میں حاکمیت اعلی رب کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔
اسی طرح دونوں فریقوں سے کسی خیر، امن اور سلامتی کی توقع نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنا خود ساختہ دستور رکھتے ہیں جس کے بارے میں اللہ نے کوئی برہان نازل نہیں فرمائی۔ دونوں ہی اللہ رب العالمین کے اس دستور کو پس پشت ڈالتے ہیں جس کو اللہ نے امت کی فلاح اور بھلائی کے لیے نازل فرما یا ہے ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ "کیا یہ نہیں جانتے کہ کس نے پیدا کیا، وہ ہی تو تدبیر والا اور جاننے والا ہے"۔
مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود اور سابقہ اورموجودہ حکومتوں کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ موجود ہو اور جب تک کہ اس کو ختم کر کے ردی کی ٹوری میں نہیں پھینک دیا جاتا۔
یہ اس وقت تک کسی قسم کی بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود کو گیس کی سپلائی جاری رہے گی کیونکہ جس کو غصب کیا گیا ہے اس کے خون سے غصب کرنے والے کو جینے کا سامان مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ !
وہ اس وقت تک خیر کو ترستے رہیں گے جب تک عوامی ملکیت حقداروں ، جو کہ مصر کےباشندے ہیں، کو ملنے کی بجائےباطل طریقے سے حکمرانوں کے جیبوں میں جاتی رہے گی۔ ۔ ۔
وہ اس وقت تک کسی خیر سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے جب تک امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم ہیں اور جب تک امریکی رسی واشنگٹن سے قاہرہ تک بچھی ہوئی ہے اور اس کو کاٹا نہیں جاتا۔ ۔ ۔
آخر میں یہ کہ اہل مصر اس وقت تک بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کی تیر کش مصر میں خلافت کے ستونوں میں سے ایک ستون بن کر اپنی پہلی صورت پر نہ آجائیں:جب رومیوں سے اس کو فتح کیا گیا۔ ۔ ۔ پھر اس نے فلسطین اور اس کے آس پاس سے صلیبیوں کو ماربھگا یا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کا سفر اللہ کے اذن سے فلسطین کو آزاد کر کے اور یہودی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ہی مکمل ہو گا۔ ۔ ۔ ۔
چوتھا: ہم نے فریقین پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ دونوں مشرق اور مغرب سے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ادھر اُدھر کے ثالثوں کے ذریعے اندر اور باہر حل تلاش کر رہے ہیں لیکن ہدایت کی طرف نہیں آتے، اس لیے یہ حل تلاش کرنے کے اہل ہی نہیں۔ جو حل وہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں کوئی خیر نہیں۔
جہاں تک بیرونی ثالثوں کا تعلق ہے ان کو مصر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیا کوئی عقلمند شخص امریکہ سےیہ توقع کر سکتا ہے کہ اس کے لائے ہوئے حل میں کوئی خیر ہو۔ وہی سابقہ ، اس سے پہلی اور موجودہ حکومت کا پشت بان ہے۔ سابقہ ، اس سے پہلے یا موجود ہ حکومت کی جانب سے قتل و غارت کے پیچھے امریکہ ہی ہے۔ مقتولین کی تعداد یا تباہی کی مقدار کی امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ اس کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ مصر پر اس کی بالادستی قائم دائم رہے۔ ۔ ۔ اس کا ماضی بلکہ عراق اور افغانستان میں اس کا حال اس کا شاہد ہے، جس کا یہ حال ہو وہ مصر اور اہل مصر کے لیے کیا صحیح حل لائے گا؟ کیا او بامہ یا اس کا فرستادہ کیری مصر اور اہل مصر کا خیر خواہ ہے؟ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ۔ ۔
کیا کوئی باشعور بصیرت اور بصارت والا شخص یورپ سے ایسے حل کی توقع کر سکتا ہے جس میں خیر ہو؟ برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں نے 1342 ھ بمطابق 1924ء میں خلافت کا خاتمہ کیا ۔ یہی خلافت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا بدترین دشمن ہے، یہی بلفور کے منحوس معاہدے کے پیچھے ہیں۔ یہ امریکہ، فرانس اور روس ہی فلسطین کو غصب کرنے والے اور اس کے باشندوں کو جلاوطن کرنے والے یہو د کے پشت پناہ ہیں۔ انہوں نے ہی اسراء اور معراج کی سرزمین اور اسلام کی سرحد فلسطین میں اس یہودی وجود کو تخلیق کیا۔ ۔ ۔ جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو وہ یہودی وجود کے ابتدائی پشت بانوں میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی انتہائی سیاہ تاریخ کا حامل ہے جس نے پہلے الجزائر اور اب مالی میں مسلمانو ں کا خون بہایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ رہی بات روس کی جس کی تمام حرکات وسکنات سوویت یونین کے زوال کے بعد خطے میں امریکہ کے اشارے ہی پر ہوتی ہیں، شام کے سرکش کی حمایت اس پر مستزاد ہے۔ اسی طرح قفقاز کے مسلمانوں خاص کر چیچنیا میں اس کی قتل و غارت گری ، قازان میں مساجد کو منہدم کرنا، تاتارستان میں آئمہ کی گرفتاریاں اور بعض کو قتل کرنا اور اسلام کے داعیوں کی گرفتاریاں سب اس کے جرائم ہیں۔ ۔ ۔ کیا اس سے کسی خیر کی توقع ہے؟یہی حال چین کا ہے جس نے مشرقی تر کستان پرقبضہ کر رکھا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے، اگر وہ بھی مداخلت کرے یا ثالث بن جائے توکیا اس سے خیر کی توقع ہے؟
ان سارے بیرونی ثالثوں کے ساتھ صرف زہر قاتل ہی ہو گا۔ ان کے لیے اہل کنانہ کے خون کی کوئی قیمت نہیں بلکہ وہ خون چوستے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ان سب کا سرغنہ امریکہ ہے جو کنانہ (مصر)کو خطے میں اپنا مضبوط ٹھکانہ سمجھتا ہے۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی زندہ اور عقلمند انسان جھاڑیوں میں انگور کی توقع نہیں کرتا! کیا یورپ کا آشتون یا امریکہ کا کیری یا کسی بھی اجنبی ملک سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے؟ ﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح یہ جب بھی تم پر غالب آتے ہیں تو تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی قرابت کا لحاظ۔ اپنی زبانوں سے تو تمہیں خوش کرتے ہیں جبکہ ان کے دل یہ نہیں چاہتے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں" (التوبہ:8)۔
رہی بات اندرونی ثالثوں کی تو وہ بھی کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں، یہ بھی وہی حل دے رہے ہیں جو فریقین پیش کر رہے ہیں، جس کی رو سے جمہوری نظام ، سیکولر عوامی حکومت اور اس جمہوریت کی حفاظت جس کی رو سے انسانوں کے خالق کی جگہ خود انسان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور حاکمیت اعلی عوام کے رب کی بجائے خود عوام کے پاس ہے، جس میں شخصی آزادیاں ہیں، جس میں دین، ملکیت اور رائے کی آزادی ہے ، وہ سب کچھ جو اس افراتفری اور تباہی کے ذمہ دار ہیں۔۔۔! یہ ثالث یہی کر رہے ہیں، کبھی ایک فریق سے کچھ چیزوں سے دستبردار ہو نے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی دوسرے سے کچھ اور چیزوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہیں جبکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اس مصیبت اور بدبختی کے اصل سبب اس نظام کو برقرار رکھا جائے! تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان ثالثوں میں سے بعض مسلمان ہیں جو اللہ کی کتاب میں ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ "اور نماز قائم کرو" پڑھتے ہیں تو نماز ادا کرتے ہیں اور نماز سے دستبردار نہیں ہوتے، جبکہ اسی کتاب اللہ میں ایک اور آیت ﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ﴾ "اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو" پڑھتے ہیں تو اس سے دستبردار ہو جاتے ہیں، یہ لوگ حدود اللہ کو نافذ کر نے کی بات کرتے ہوئے "شرمندگی" محسوس کرتے ہیں، فریقین سے نظام خلافت کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ کانپتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکہ، یورپ، روس اور چین ناراض نہ ہو! بے شک یہ بڑی ہی عجیب بات ہے!
پانچواں: یوں موجودہ اندرونی یا بیرونی ثالثین کنانہ اور اہل کنانہ کے مسائل کوپائیداراور پر امن طور پر حل کر نے کی اہلیت ہر گز نہیں رکھتے ہیں ۔ حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ سب لوگ اپنے دل ، دماغ اور تمام تر توانائی سے اس نظام خلافت کے ذریعے جس کو اللہ رب العالمین نے فرض قرار دیا ہے اللہ کی شریعت کو نافذ کر نے کی طرف متوجہ ہوں، جس کے واضح اورصحیح دلائل کتاب اللہ ، سنت رسو ل ﷺ اور اجماع صحابہ رضوان اللہ علیھم میں موجود ہیں:
جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ط ۔۔۔ وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْك﴾ "ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کے بارے ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو ۔۔۔ اور اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو اور ہوشیار رہو کہ کہیں یہ تمہیں اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں فتنے میں مبتلا نہ کر دیں" (المائدہ:48-49)۔
اس کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنے کا خطاب امت کے لیے بھی خطاب ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی ایسے حکمران ہونے چاہیے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کریں ۔ اس خطاب میں امر بھی جزم کا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ خطاب کا موضوع فرض ہے۔ یہ جزم کا قرینہ ہے جیسا کہ اصول میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد جو حکمران اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کر تا ہے اس کو خلیفہ کہا جاتا ہے اور اس نظام حکمرانی کو خلافت کا نظام کہا جاتا ہے۔
جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو نافع سے روایت ہے کہ: عبد اللہ بن عمر نے مجھے بتایا کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : «من خلع يداً من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية»"جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو جاہلیت کی موت مرا" اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ہر مسلمان پر فرض قرار دیا کہ اس کی گردن میں بیعت ہو اور جو اس کے بغیر مرا اس کو جاہلیت کی موت قرار دیا جو کہ اس گناہ کے عظیم تر ہو نے کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بیعت خلیفہ کے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔ مسلم نے الاعرج سے اور اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «إنما الإمام جُنة يُقاتَل من ورائه ويُتقى به» "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے" اور مسلم نے ابو حازم سے روایت کی ہے کہ: میں پچاس سال تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھتا رہا اور میں نے ان کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر، قالوا فما تأمرنا؟ قال: فُوا ببيعة الأول فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم» "بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو ایک اور اس کی جگہ آجاتا ، چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور کثرت سے خلفاء ہوں گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا: ایک کے بعد ایک کی بیعت کی وفا کرو، ان کو ان کا حق دو کیونکہ اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا" ان احادیث میں خلیفہ کو ڈھال قرار دیا گیا ہے، یعنی بچاؤ ، اس میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی سیاست کریں گے وہ خلفاء ہونے چاہیے ، یعنی ان کو وجود میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رہی بات اجماع صحابہ کی تو صحابہ رضوان اللہ علیھم نے رسول اللہ ﷺ کے رحلت فرما جانےکے بعد ان کا خلیفہ مقرر کرنے پر اجماع کیا ۔ ان کے اس اجماع کی تاکید رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی تدفین میں تاخیر اور خلیفہ کے تقرر میں مشغولیت سے ہوتی ہے، حالانکہ وفات کے بعد میت کی تدفین فرض ہے۔ جن صحابہ پر رسول اللہﷺ کی تجہیز و تدفین فرض تھی ان میں سے بیشتر نے رسول اللہ ﷺ کی تدفین پر خلیفہ کے تقرر کو ترجیح دی اور باقی اس پر خاموش رہے اور تدفین کی تاخیر میں شریک رہے قدرت کے باوجود کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ، اور قدرت کے باوجود انہوں نے خلیفہ کے تقرر سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تدفین بھی نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن پہلے پہر کو انتقال فرماگئے اور منگل کی رات پھر منگل کے دن بھی نہیں دفنائے گئے۔ جس دن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بعیت کی گئی اس بدھ کی رات کو آدھی رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کی تدفین کی گئی، یعنی تدفین میں دوراتوں کی تاخیر کی گئی۔ اس دوران رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے پہلے ہی ابوبکر کی بیعت کی گئی، یوں یہ خلیفہ کے تقرر کو میت کی تدفین پر ترجیح دینے پر اجماع ہے، جو خلیفہ کے تقرر کے فریضہ کے عظیم ترین ہو نے کی دلیل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے حکمران کی غیر موجود گی میں جو مسلمانوں پر اسلام کے ذریعے حکومت کرے جو کہ "خلیفہ"ہے، مسلمانوں پر اس کو وجود میں لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نا فرض ہے۔ وہی اللہ رب العالمین کی طرف سے فرض کیے گئے حدود کو نافذ کرے گا جو کہ ایک بڑا فریضہ ہے اور جس میں امت کی بھلائی اور کامیابی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنے سنن میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا» "زمین پر ایک حد کو نافذ کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی صبح کے وقت کی بارش سے بہتر ہے"۔
یہ ہے مصر اور تمام مسلم علاقوں کے مسائل کا حل جس سے وہ خیر سے بھر جائیں گے اور یہ خیر چاردنگ عالم میں پھیل جائے گا۔
چھٹا: ہم واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور خون خرابہ اور تباہی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ المناک بات تو یہ ہے کہ تمام فریق ہر جگہ حل تلاش کررہے ہیں اس اسلام کے علاوہ جو ان کا عقیدہ ہے اور جس کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں!
چونکہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا کہ تمام فریق خلافت کے نظام کو قبول کریں جبکہ تمام فریق خلافت کے نظام اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں تردد ہوا کہ ہم فریقین کے درمیان صلح صفائی کے لیے خلافت کانظام ان کے سامنے پیش کریں۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں ڈرہے کہ ہماری یہ پکار صدا بصحرا ثابت ہو گی اس لیے اس سے باز رہنے اور اس پر نظر رکھنے کو ہی ترجیح دی شاید اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوئی بہتری لائے۔
اسی چیز نے ہمیں مداخلت سے روکا ، ہماری طرف سے کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود فریقین کی قیادتیں خلافت اور اہل خلافت کی طرف رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خلافت کا تو ذکر کرتے ہوئے بھی اس خوف سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ کہیں مغرب بقول ان کے مشتعل نہ ہو۔ جن کا یہ حال ہو ہم کیسے ان کے درمیان ثالث بننے کے لیے مداخلت کریں؟
ہم ان کے درمیان صلح کر انے کے لیے بھرپور کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ دونوں نظام خلافت پر اکٹھا ہو جائیں۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فریقین اللہ کی شریعت کی حکمرانی چاہتے ہیں خلافت کے اعلان اور اس کے جھنڈے کو بلند کرنےکے لیے تیار ہیں جو کہ العقاب ہے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا جھنڈا ہے تب ہم ان کے درمیان صلح کرا نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور تب ہی ہم فریقین کو ایک ہی نظام کے سائے میں یکجا کرنے کے قابل ہوں گے جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم معاملات کو پھر درست طریقے سے سنبھالنے کے اہل ہیں ، خلافت کے قیام اس کے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں جس سے روئے زمین پر اللہ کا تیر کش مصر ایک بار پھر اپنے رب کی مدد سے طاقتور اور اپنے دین کی وجہ سے باوقار ہو گا، اللہ کے دشمنوں کی کمر توڑدے گا، اسلام ، مسلمانوں اور ان کے اہل ذمہ کے ہر بد خواہ کولرزادے گا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔ جو بھی حزب التحریر، اس کے ماضی اور حال کو جانتا ہے وہ اس کی گواہی دے گا، اس کے بعد اللہ ہی مدد گار ہے۔ ۔ ۔
صلح اور اصلاح اس طرح ہوتی ہے ، اس منہج پر ہم گامزن ہیں، ممکن ہے فریقین اس مصیبت اور سختی کا سامنا کرنے کے بعد صحیح حل جو کہ خلافت کا نظام ہے کی طرف آئیں گےجو اس رب العالمین کا نظام ہے جو اپنے بندوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کو سب سے بہتر جانتا اور اور سب سے اچھا فیصلہ کرتا ہے۔ ممکن ہے فریقین کی اس پر موافقت اس امت کی شاندار تاریخ کو دہرانے کا سبب بن جائے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾ "تم ہی بہترین امت ہوجو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیے گئے ہو ، تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو اور تم اللہ پر (صحیح معنوں میں) ایمان رکھتے ہو" (آل عمران:110)۔ یوں خلافت ایک بار پھر لوٹ آئے گی، اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشے گی، کفر اور اہل کفر کو ذلیل کر دے گی، دنیا کے ہر گوشے میں خیر کا چرچا ہو گا، یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ہمارے بارے میں کہے کہ "یہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں" یا کوئی کہے کہ ان کو "ان کے دین نے مغرور کردیا ہے"یا کوئی شخص یہ کہے کہ "یہ لوگ اس دنیا میں ہی نہیں رہتے جس پر امریکہ اور مغرب کا راج ہے"کوئی چوتھا شخص ممکن ہے یہ کہے کہ "خلافت تھی ختم ہو گئی مگر پھر کبھی نہیں آئے گی"۔ ۔ ۔
لیکن ہم عین اسی وقت میں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:: ﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرمالیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے اور یقینا ان کے لیے ان کےاس دین کو (اقتدار کے ذریعے)مضبوط کردے گا جس کو ان کےلیے پسند فرما چکا ہے، پھر یقینا ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا جس کے بعد وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں بنا ئیں گے اس کے بعد بھی کوئی ناشکری کرے تو وہی لوگ ہی فاسق ہیں" (النور:55)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس کو احمد ابو داؤد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا تو اس کو اٹھا لے گا، اس کے بعد نبوت ہی کے طرز پر خلافت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا ، پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد خاندانی حکومت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد جابرانہ حکومت ہو گی اور اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہو گی"۔
کوئی بھی عقلمند صاحب بصارت اور بصیرت شخص سمجھے گا کہ ان کا یہ کہنا غلط اور باطل ہے۔ عقل والوں کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں جبکہ اللہ سبحانہ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان حق ہے
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُون) "حق کے بعد گمراہی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے پھر یہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں" (یونس:32)۔
ہم صورت حال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور ممکن حد تک فریقین سے رابطہ کر رہے ہیں ممکن ہے اللہ اس کے بعد کوئی بہتری لائے ﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ﴾ "بے شک اللہ متقیوں اور احسان کرنے والوں کےساتھ ہے" (النحل:128) ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ "اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین میں ستائے گئے لوگوں پر احسان کریں اور ان کو دنیا کا امام اور وارث بنائیں" (القصاص:5)
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے" (یوسف:21)

Read more...

سوال و جواب: چین کی حالیہ اقتصادی اصلاحات

سوال:

چین کے صدر شی جین پنگ نے بروز بدھ 13/11/2013 کو کہا کہ "چین اقتصادی مسائل کو حل کر نے کے لیے اصلاحات میں آگے بڑھتا رہے گا لیکن ان اصلاحات کے لیے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان کو راتوں رات حاصل نہیں کیا جاسکتا "چینی ٹی وی نے شی سے ان کا یہ قول نقل کیا کہ "اصلاحات ہی چین کے موجودہ مسائل کا حل ہیں۔۔۔"، یہ بیانات چینی قیادت کی جانب سے ہفتہ 09/11/2013 کو منعقد کیے جانے والے اجلاس جو کہ چار دن جاری رہا کے اختتام پر سامنے آئے، یہ اجلاس 6 نومبر 2013 کو چینی کمیونسٹ پارٹی جو کہ چین میں حکمران پارٹی ہےکے ایک مرکز میں ہو نے والے سات دھماکوں کے بعد اور چین کے دار الحکومت بیجنگ کے دل تیانا مین کے شارع عام میں ایک چوراہے پر ایک گاڑی کے راہ گیروں کو کچلنے کے بعد اس میں آگ بھڑکنے کے واقعے کے ایک ہفتے کے بعد پیش آیا، سوال یہ ہے کہ:ہم سنتے آرہے ہیں کہ چین کی معیشت بلندیوں کو چھو رہی ہے پھر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے چینی قیادت کے اجلاس کا کیا مطلب ہے؟ کیا ان دھماکوں اور اقتصادی امور کو زیر بحث لانے کے لیےچینی عہدہ داروں کے اجلاس کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

جواب:
1 ۔ جی ہاں ان کے درمیان تعلق ہے اگر چہ چین نے حسب عادت یہ کہنے میں جلد بازی کی کہ :"حکومت نے ان لوگوں کومورد الزام ٹھہرایا جن کو وہ اسلامی شدت پسندوں کہتی ہے "۔ یہ بیان معیشت کی اس بگڑتی صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے چینی عوام کو لینے کے دینے پڑرہے ہیں، خاص طور پر مضافات اور وسطی علاقوں میں لوگوں کو بھوک اور افلاس کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے معاشی مسائل کی طرف ریاست کی توجہ مبذول کروانے کے لیے پر تشدد احتجاج پر اتر آئے ہیں۔
2 ۔ یہ واقعات اس سیاسی تحریک کا حصہ ہیں جو اندر ہی اندر چل رہی ہے اور جو اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ چین کو داخلی طور پر گہرے مسائل کا سامنا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ چین 2005ء میں 87000 معاشرتی بے چینی کے واقعات کا سامنا کر چکا ہے جن میں عوامی نارضگی، مظاہرے اورداخلی تنازعات شامل ہیں، جبکہ سال 2010ء میں چین میں 180000 احتجاجات، مظاہرے اور معاشرتی بے چینی کے واقعات رونما ہوئے، یعنی بے چینی بڑھ رہی ہے۔۔۔
3 ۔ چین میں آزاد تجارتی علاقے Free Economic Zones جو کہ چین میں تیز ترین پیداوار کے بنیادی عنصرتھے سب کے سب چین کے مشرقی ساحل پر قائم کیے گئے، جہاں جو بھی پیداوار ہوتی ہے اس کوبحری جہازوں میں لاد کر دنیا کوبر آمد کیا جاتا ہے، اس کے نتیجے میں ساحلی علاقے عالمی معیشت سے مربوط ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے چین میں انتہائی تیز پیداوار دیکھنے میں آئی، اسی پیداوار کی بدولت نو دولتیوں کا ایک نیاطبقہ تیار ہوا، جس کی قیمت چین کے دوسرے تمام لوگوں کو ادا کرنی پڑی، چین کا بیشتر حصہ اب بھی بڑی حد تک زرعی ہے، جس کا انفراسٹرکچر پسماندہ قسم کا ہے اور ان علاقوں میں لوگ پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں، دولت کی تقسیم کےایک عالمی جائزےکے مطابق جس کا اہتمام Boston Consulting Group نے2008ء میں کیا تھا چین کے باشندوں کا 0.2٪ چین کی 70٪ دولت پر قابض ہیں، دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ جسمانی تشدد، قید وبند، ظالمانہ لیبر قوانین اور غیر معقول اجرتیں اور چینی حکومت کی اپنے شہریوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکامی کی بدولت صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔
4 ۔ چینی اقتصادی ماڈل جو کم اجرتوں اور بے تحاشا بر آمدات پر بھروسہ کرتا ہے اب ناکام ہو گیا ہے، 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے اس کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیاہے، بہت سے ماہرین کی رائے میں چین کی معیشت دباؤ کا شکار ہے، نوبل انعام پانے والے ماہر معاشیات Paul Krugman نے کہا کہ "اب اشارے واضح ہیں: چین بڑی تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے، ہم کچھ عارضی مسائل کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ بات انتہائی بنیادی ہے، ملک میں تجارتی عمل کا مکمل طریقہ کار اور وہ اقتصادی نظام جس نے تین دہائیوں تک تیز پیداوار حاصل کرنے میں مدد دی اب اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ چینی ماڈل دیوار چین سے ٹکرانے والا ہے، اب صرف یہ سوال باقی ہے کہ یہ بربادی کس قدر تباہ کن ہو سکتی ہے" (دیوار چین سے ٹکرانا Paul Krugman نیو یارک ٹائمز 18 جولائی 2013)، Stratfor نے کہا: "چینی معیشت میں حالیہ بڑی تبدیلیاں جن کی توقع Stratfor کئی سال سے کر رہا تھا اور اس پر تبصرےبھی کیا کرتا تھا اب زیادہ ترمیڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں کئی لوگ پوچھتے تھے کہ ہمارےخیال میں چین کب تک معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے، ہم جواب میں کہتے تھے کہ کچھ عرصے سے چین بحران کی زد میں آچکا ہے، لیکن یہ ایسا معاملہ ہے جس کا چین سے باہر زیادہ چرچا نہیں، خصوصاًہمارے ہاں امریکہ میں، یہ بھی ممکن ہے کہ اعتراف کرنے سے پہلے ہی بحران پیدا ہو کیونکہ بحران کا اعتراف اس کے خطرناک موڑپر جاکر کیا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہو تا ہے جب بہت سے دوسرےلوگ بحران کے ردعمل کے طور پر اپنا رویہ تبدیل کرنا شروع کردیتے ہیں، ہم جو سوال پوچھتے تھے وہ یہ تھا کہ آخر کب چینی معاشی بحران ناقابل تردید حقیقت کا روپ دھارے گا، جس سے دنیا کی صورتحال تبدیل ہو جائے گی" (The End of the Chinese Miracle Stratfor 23 July 2013)
5 ۔ چین نے گزشتہ دس سالوں کے دوران اقتصادی ترقی میں اس سرمایہ دارانہ منہج پر چلنا شروع کردیا جو یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں کا دارومدار تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے پیداوار کو بڑھانے پر ہے، اگر پیداوار زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت مضبوط اور ترقی یافتہ ہے خواہ دولت سب کی سب چندہاتھوں میں ہی کیوں نہ ہو اور باقی لوگ تنگدستی کا شکار ہوں۔۔۔یعنی توجہ پیداوار کی زیادتی پر ہے اس کی منصفانہ تقسیم پر نہیں، اگر چین نے اشتراکیت اور سرما یہ داریت کے ملغوبے پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو سویت یونین کے ساتھ ہو ا جب اس نے اشتراکیت اور سرمایہ داریت کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی تو اس کی حالت اس کوّے کی طرح ہو گئی جوہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گیا ! چین میں بھی ایسا ہو نے کا خطرہ ہے۔۔۔ہاں اگر چین خطرے کو بھانپ کر اس کا علاج ڈھونڈ لے تو الگ بات ہے۔
6 ۔ چین اس بحران سے اس صورت میں ہی نجات حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اس ملے جلے معاشی ماڈل اوربے تحاشہ بر آمدات پر توجہ مرکوزکرنے کی بجائے پہلےمقامی طلب پر توجہ دے اور اپنی عوام کی ضروریات پوری کرے، ورنہ1.3 بلین میں سے 948 ملین لوگ اسی طرح 5 ڈالر سے بھی کم یومیہ آمدن پرزندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے اور دولت بدستور ایک چھوٹے سے ٹولے کے پاس ہی رہے گی جو مزدوروں کا استحصال کرتارہے گا، یوں آبادی کی اکثریت کی ضروریات کو پوری کرنا ناممکن ہو گا، کچھ لوگ ہی پیداوار پر کنٹرول رکھیں گے اور اس کو بر آمد کرتے رہیں گے اور اکثریت کی غربت میں اضافہ ان کو احتجاج اور انتشار پر اکسائے گی۔۔۔ Zhou Xiaozheng جو کہ چین کی رنمین یونیورسٹی میں قانون اور معاشرتی علوم کے پروفیسر ہیں چین کی حقیقی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ مت بھولےپ کہ چین کی موجودہ کامیابی اس بات کی مرہون منت ہے کہ 300 ملین افراد کی جانب سے ایک بلین سستے مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے، عدالتی نظام غیر منصفانہ ہے، دولت کی بے ڈھنگ تقسیم نے چیلنجز کو اور بڑا کر دیا ہے"۔
7 ۔ چین کو چاہیے کہ وہ مغرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر احتجاج اور اضطراب کو "اسلامی شدت پسندی" کے کھاتے میں نہ ڈالے، بلکہ اپنی ملی جلی معیشت کے بحران کی وجوہات کو جاننے پر توجہ دے جو صرف پیداوار کو زیادہ کرنے اور بر آمدات کو بڑھانے پر قائم ہے اور جس کے نتیجے میں پیداوار تو زیادہ ہوتی ہے لیکن بری تقسیم اور بری ہو جاتی ہےاور غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس کے نتیجے میں احتجاج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔ہم چین کو انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے اس اقتصادی پالیسی "اشتراکی سرمایہ داریت" کو جاری رکھا تو وہ بھی سوویت یونین والے انجام سے دوچار ہو گا اور یوں وہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔۔۔
ہم چین سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ اسلام نافذ کرو تو خوشحال ہو جاؤ گے۔۔۔یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس کو نافذ کرنے کے لیے پہلے اسلامی عقیدے کو اپنانا پڑے گا جو کہ ابھی ان کے پاس نہیں ہے ۔۔۔لیکن ہم ان سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم کےبجائے مغرب کی نقالی کرتے ہوئے صرف پیداوار کو بڑھانے کی تگ ودو مت کرو، ورنہ معاشی بد حالی اور فکری خستہ حالی کے سبب احتجاج میں اضافے کا خطرہ ہے نہ کہ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کی وجہ سے جیسا کہ مغرب واویلا کر تا رہتا ہے۔۔۔اسلامی انتہا پسندی کی بات کر نا سیاسی الزامات کا ایک باب ہے، یہ اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے کہ خود چین نے آتش و آہن کے ذریعے مشرقی ترکستان (سنکیانگ) پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، لیکن ان تمام دھوکے بازیوں، مکروفریب اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوششوں سے مسلمان کبھی یہ نہیں بھولیں گے کہ چین نے ترکستان پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، بلکہ یہ اللہ کے اذن سے جلد یابہ دیر امت مسلمہ سے ہم آغوش ہو گا، ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِين﴾ " کچھ عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Read more...

امریکی سیکریٹری دفاع چَک ہیگل کا دورہ پاکستان کافر حربی (دشمن) ریاست سے دوستانہ تعلقات رکھنا ممنوع ہے

آج امریکی سیکریٹری دفاع چَک ہیگل پاکستان کے ایک روزہ دورے پر اسلام آباد آیا ہے۔ اس دورے میں اس کی پاکستان کے وزیر اعظم، آرمی چیف، جوائنٹ چیفس آف سٹاف، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ افواج پاکستان کی قیادت میں تبدیلی کے بعد کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔
حزب التحریر امریکی سیکریٹری دفاع کے دورہ پاکستان کی پرزور مذمت کرتی ہے اور انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کرتی ہے کہ دشمن کے سیکریٹری دفاع سے ملاقات کر کے سیاسی و فوجی قیادت اسلامی شریعت سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے جس کے تحت ایک ایسی کافر ریاست سے کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھے جاسکتے جو مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے، ان کی پاک دامن ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کی عفت و عصمت کو پامال کررہی ہے، قرآن کی بے حرمتی کرتی ہے اور ان کی زمینوں پر قابض ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ "جو تمھارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو تم بھی اس پر حملہ کرو جیسا کہ انھوں نے تم پر حملہ کیا " (البقرۃ:194)۔
امریکہ جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے تَر بتر ہیں، جس نے سلالہ حملے میں ہمارے فوجی جوانوں کو بے دردی سے قتل کیا، جس نے ایبٹ آباد پر حملہ کیا، جو ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے کر کے مسلمانوں کو قتل اور ہماری آزادی وخودمختاری کی دھجّیاں اُڑا رہا ہے، جو ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ذریعے ملک بھر میں فوجی و شہری مقامات کو نشانہ بنا کر فتنے کی جنگ کو جاری و ساری رکھنا چاہتا ہے، اس دشمن ملک کے سیکریٹری دفاع کے ساتھ ملاقاتیں کر کے سیاسی وفوجی قیادت اپنے اس عہد سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے جس کے تحت اس سرزمین کے لوگوں کی جان و مال اور اس سرزمین کی حفاظت کرنا ان پر فرض ہے۔
حزب التحریر امت اور افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت کے اس عمل کی پُر زور مذمت کریں اور اللہ کے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں سے دوستی اور تعلقات رکھنے کے خلاف اللہ کے واضح حکم کی خلاف ورزی پر ان کا سخت محاسبہ بھی کریں۔
انشاء اللہ ، امت اور افواج پاکستان کے مخلص افسران اور جوانوں کی مدد سے خلافت کے قیام کے بعد، خلیفہ امریکہ اور اس جیسے دشمن کافر ممالک سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر دے گا۔ خلافت امریکی سفارت خانے، قونصل خانوں، اڈوں اور امریکی انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر کو بند اور امریکی اہلکاروں کو ملک بدر کردے گی اور افواج اور مخلص مجاہدین کی مشترکہ قوت کو استعمال کر کے خطے کو امریکی نجاست سے پاک کردے گی جو اس خطے میں بدامنی، عدم استحکام، معاشی استحصال اور خون خرابے کی بنیادی وجہ ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان
شہزاد شیخ

Read more...

امریکی راج کے خاتمے کے لیے حزب التحریر ولایہ پاکستان کے ملک بھر میں مظاہرے امریکی راج ختم کرو ، ایمبیسی اڈے بند کرو

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ملک بھر میں خطے سے امریکی راج کے خاتمے کے مطالبے کے حق میں مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "دھماکے، بدامنی، عدم استحکام۔۔۔وجہ ہے امریکہ اور غدار حکمران۔۔۔۔واحد حل خلافت کا قیام"، "امریکی راج ختم کرو، ایمبیسی اڈے بند کرو"۔ مظاہرین نے ملک میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرو نفوذ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کیا کہ ملک میں جاری فتنے کی اس جنگ سے نکلا جائے جسے امریکہ نے بھڑکایا ہے اور ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب آپ امریکی سفارت خانہ، قونصل خانوں، اڈوں اور ان کے انٹیلی جنس دفاتر کو بند اور امریکی سفارتی و فوجی اہلکاروں کو ملک بدر کریں۔
مظاہرین نے افواج پاکستان کے افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کریں کہ وہ اس سرزمین اور اس کے باشندوں کی حفاظت کریں گے ۔ انھوں نے مخلص افسران سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس سرزمین پر امریکی راج کو مسلط کرنے والے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو ہٹا کر پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں کیونکہ خلافت کا قیام ایک انتہائی اہم اسلامی فریضہ ہے اور صرف خلافت کا قیام ہی ملک پر نافذ کفریہ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی اثرو نفوذ کا خاتمہ کرے گا۔
مظاہرے میں شریک لوگوں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام تک اپنی پرامن سیاسی و فکری جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس راہ میں آنے والی تکالیف کا سامنا صبر و استقامت کے ساتھ کریں گے۔

Read more...

جبری گمشدہ افراد کی عدم بازیابی نے اس کفریہ نظام میں آزاد عدلیہ کے جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے


تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:17دسمبر2013
خبر: نومبر کا آخری ہفتہ اور دسمبر کے پہلے دس دن پاکستان کے میڈیا میں جبری گمشدہ افراد کا تذکرہ چھایا رہاجن کے عزیز و اقارب اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا ذمہ دار حکومتی ایجنسیوں کو ٹھراتے ہیں۔ ان جبری گمشدہ افراد میں سے کئی کو اغوا ہوئے تقریباً ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے، جبکہ ان میں کچھ افراد کی لاشیں ویران جگہوں سے ملیں جن پر شدید تشدد کے نشانات واضح تھے۔

تبصرہ: پاکستان میں جبری گمشدہ افراد کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت پیدا ہوا جب 9/11 کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔پاکستان سے امریکی راج کے خاتمے اور خلافت کے قیام کی ایک توانا آواز،پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی ان جبری گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ نوید بٹ کو 11مئی 2012 کو ان کے بچوں کی موجودگی میں حکومتی ایجنسی کے غنڈوں نے اغوا کیا تھا۔
یہ ظلم اور ناانصافی مشرف و عزیز حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ کیانی و زرداری حکومت میں اس ظلم میں مزید کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ اس عرصے میں ایک وزیر اعظم اپنی وزارت اعظمٰی سے صرف اس لیے ہاتھ دھو بیٹھا کیونکہ اس نے عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا۔لیکن اس عظیم انسانی المیے پر آج کے دن تک آئی۔ایس۔آئی (I.S.I)کے سربراہ یا ملٹری انٹیلی جنس (M.I)کے سربراہ یا افواج پاکستان کے سربراہ کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری نہیں ہوا جبکہ کئی مقدمات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جبری گمشدہ افراد خفیہ ایجنسیوں کے قبضے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے وکیل نے کہا کہ "یہ ثابت کرتا ہے کہ عدلیہ اب بھی آزاد نہیں ہے" ۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر نے کہا کہ "یہ محض ایک دھوکہ ہے"۔
چاہے آمریت ہو یا جمہوریت یہ کفریہ نظام صرف استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کا حل اس کفریہ نظام میں "آزاد عدلیہ" نہیں ہے ۔ جب یہ سرمایہ دارانہ نظام ہمیں خارجی تعلقات، معیشت اور دیگر معاملات میں آزادانہ پالیسیاں بنانے کی اجازت نہیں دیتا تو کیا ہم اس غلامانہ نظام کے ذریعے آزاد عدلیہ کے قیام کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟ کیانی و زرداری حکومت سے راحیل و نواز حکومت تک، چہروں کی تبدیلی کبھی کسی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوگی۔ دراصل اس کفریہ نظام کا خاتمہ ہی وقت کی ضرورت ہے۔
آزاد عدلیہ کے قیام کے لیے پہلے آزاد سیاسی نظام کا ہونا انتہائی ضروری ہے جو کہ صرف خلافت کا نظام ہے۔یہ نظام عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے اثرو رسوخ سے آزاد کرتا ہے کیونکہ عدلیہ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرتی ہے اور ہر حکومتی عہدیدار چاہے وہ خلیفہ ہو یا امیر جہاد یا والی، کسی صورت عدلیہ کے سامنے پیش ہونے یا ان کے فیصلوں کو نافذ کرنے سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا خلافت میں عدلیہ عام عوام کے حقوق کی حقیقی ضامن ہوتی ہے اور اگر حکمران شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کریں تو ان کا سخت احتساب کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا " تم سے پہلے کے لوگ اس لیے تباہ ہوگئے کیونکہ جب ان میں سے کوئی بڑا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر سزا لاگو کردیتے۔ اللہ کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا" (بخاری)۔

Read more...

تفسیر سورہ البقرہ آیات 97 تا 100

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ
مَن كَانَ عَدُوًّا لّلَّهِ وَمَلـئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَـلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ
وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ءَايَـتٍ بَيِّنَـتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ إِلاَّ الْفَـسِقُونَ
أَوَكُلَّمَا عَـهَدُواْ عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ

"کہہ دیجئے(اے محمدﷺ) کہ جو جبریل سے دشمنی رکھے جس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ کے قلب پر نازل کیا جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور مؤمنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تو جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اورجبریل اور میکائیل کا دشمن ہو، تو اللہ بھی ایسے کافروں سے دشمنی رکھتا ہے۔بے شک ہم نے بہت ہی واضح نشانیاں تمہاری طرف بھیجی ہیں،جن کو فاسقوں کے علاوہ کوئی نہیں جھٹلاتا۔ کیا یہ بات نہیں کہ جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا ان میں سے ایک فریق نے عہد شکنی کی بلکہ ان میں سے اکثر ایمان سے خالی ہیں "۔
ان آیات میں اللہ تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ :
1۔ یہود نے اس فرشتے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا جو آپ ﷺ کے پاس آتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جبریل علیہ السلام۔ یہودیوں نے کہا کہ: یہ تو ہمارا دشمن ہے یہ تو انبیاء کے پاس کتاب لے کر نہیں آتا بلکہ یہ عذاب لے کر آتا ہے، اگر تمہارے پاس آنے والا میکائیل ہوتا تو ہم تم پر ایمان لاتے۔ اس پر اللہ نے یہ آیتیں نازل کیں جن میں اپنے رسول ﷺ سے فرمایا کہ جو شخص جبریل کا دشمن ہے اس سے کہو کہ جبریل ہی نے یہ قرآن میرے دل میں اتار دیا ہے ۔ یہ قرآن پہلے نازل کی گئی تمام کتابوں (توراۃ اور انجیل)کی تصدیق کرتا ہے اور یہی مؤمنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔لہٰذا تمھارا یہ کہنا غلط ہے کہ جبریل عذاب لے کر آتے ہیں۔
قرآن کو ھُدَی (ہدایت) اس لیے کہا گیا کہ مؤمن اس سے ہدایت لیتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے اور اس کو قائد بنا کر اس کے اوامر اور نواہی کے مطابق چلتا ہے۔ 'ہادی' ہر چیز کے آگے کے حصے کو کہتے ہیں جس کے پیچھے باقی چلتے ہیں اسی لیے گھوڑوں میں سے آگے والوں کو 'ہوادی' کہا جاتا ہے۔
قرآن کو بُشرَی (خوشخبری) کہا گیا ہے کیونکہ یہ مؤمنوں کو اس جنت کی خوشخبری دیتا ہے جو قیامت کے دن ان کے واسطے تیار کی گئی ہے۔
بَینَ یَدَیہِ سے مراد اس کے سامنے یا آگے اور اس کا مطلب اس سے پہلے نازل کی گئی کتابیں ہیں۔
فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ یہ شرط کا جواب ہے کہ جو بھی اس کا دشمن ہو ۔۔۔اس سے کہہ دو کہ اسی نے اس قرآن کو اتارا ہے۔۔۔
2 ۔ اس کے بعد اللہ نے یہودیوں کو یہ بتا دیا کہ میکائیل اور جبریل دونوں فرشتے ہیں اور جس نے ان میں سے کسی سے بھی دشمنی رکھی تو اس نے تمام فرشتوں سے دشمنی مول لی۔ جو اللہ ، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں سے دشمنی مول لے تو اللہ بھی کافروں کو دشمن قرار دیتا ہے۔ اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کا دشمن ہے تو وہ کافروں میں سے ہے، فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَـفِرِينَ "یقیناً اللہ بھی کافروں کا دشمن ہے "۔
اللہ نے ملائکہ کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر کیا جو عام کے ذکر کے بعد خاص کے ذکر کی اقسام میں سے ہے۔
3 ۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنے رسول ﷺ پر ایسی واضح اور قطعی آیات نازل فرمائیں جو اس کی سچائی کی روشن دلیل ہیں جن کو سوائے اس شخص کے کوئی نہیں جھٹلا سکتا جو اپنے رب کے حکم سے سرتابی کرے ،اس کے شرع کو نظر انداز کرے اور اس کی حدود کو پامال کرے۔
4 ۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی یہودیوں کی عہد شکنی کی عادت کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی عہد کرتے ہیں اس کو توڑ ڈالتے ہیں۔ اس میں اوکُلمَا کا لفظ استعمال کیا جو ظرف ہے اور شرط اور اس کے جواب کو دہرانے کا فائدہ دیتا ہے،یعنی جب بھی وہ کوئی وعدہ کرتے ہیں لامحالہ بدعہدی کرتے ہیں۔
نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ کامطلب یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ضرور عہد شکنی کرتا ہے۔
بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ "بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عہد توڑنے والا فریق ہی اکثریت ہے اقلیت نہیں جیسا کہ لفظ فریق سے گمان ہو سکتا ہے۔

Read more...

خود احتسابی (قرآن ،سنت اور علماءکے فرمودات کے آئینے میں)

قرآن کریم کی رُو سے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تَعْمَلُونَ "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو" (الحشر 59 : 18)۔ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرما تے ہیں کہ (ہر شخص کو چاہیے کہ وہ دیکھ لے کہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے ) یعنی "حساب کتاب کے لیے جانے سے قبل ہی اپنا محاسبہ کرو اور سوچ لو کہ تم نے آخرت کے دن اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کے دن کے لیے کون کونسے نیک اعمال کا ذخیرہ کر رکھا ہے۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے تمام اعمال اور احوال سے باخبر ہے اور اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں"۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ "اور میں ملامت کرنے والےنفس کی قسم کھاتا ہو" (القیامہ75 : 2)۔ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ "اور ملامت کرنے والےنفس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اس کو ملامت کرتا رہتاہے ، کہتاہے کہ اس سے تیرا ارادہ کیا ہے؟ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کوستا ہے، ابن عباس، مجاہد اور حسن وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے"۔ حسن کہتے ہیں کہ "اللہ کی قسم اس سے مراد مؤمن کانفس ہےجو ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ میں اپنی بات میں کیا کہنا چاہتا تھا ؟میں کیا کھانے کا ارادہ رکھتا تھا ؟ اور میں اپنے آپ سے بات کر کے کیا حاصل کرنا چاہتا تھا ؟ اور فاجر (کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والا) اپنا محاسبہ نہیں کرتا"۔مجاہد کہتے ہے کہ "وہ گزرے ہوئے پر ملامت کرتاہے اور کوئی شر ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کا ارتکاب کیوں کیا اور اگر خیر کا کام ہو تو اس لیے ملامت کرتاہے کہ اس کو زیادہ کیوں نہیں کیا؟ اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملامت والاہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جس چیز پر کسی کو ملامت کرتاہے اسی پر اپنے آپ کو بھی ملامت کرتاہے ۔ ان تمام صورتوں میں "لَوَّامَةِ" کا مطلب ملامت کر نے والاہے جو کہ اچھی صفت ہے"۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ "اس دن انسان کو بتایا جا ئے گا کہ اس نے کیا کیا اور کیا نہیں کیابلکہ انسان اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہے" ( القیامہ 75 : 13-14)۔ اس کی تفسیر میں ماوردی فرماتے ہیں کہ "اس میں تین تاویلات ہیں: ایک یہ کہ وہ جو کچھ آگے بھیج رہا ہے اس کے ذریعے اپنے آپ کے خلاف گواہ ہے،جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں، وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا " اور انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگا دی ہے اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کُھلا ہوا پائے گا۔ فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال آج پڑھ لو تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے" (الاسراء 17 : 13-14) دوسری تاویل یہ ہے کہ: اس کے جوارح (اعضاء) اپنے اعمال کے بارے میں اس کے خلاف گواہ ہیں۔ ابن عباس کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ "آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے ہم کلام ہوں گے اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے" (یٰس 36 : 65) تیسری تاویل یہ ہے کہ لوگوں کے عیبوں کو خوب باریکی سے دیکھنے والا جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے عیوب سے غافل ہے کہ اس کے نتیجے میں کیا سزا اور جزاء ملنے والی ہے۔ بصیرہ کے آخر میں"ہ" مبالغے کے لیے ہے ۔ جہاں تک اللہ کے اس فرما ن کا تعلق ہے وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ "اگرچہ وہ عذر پیش کرتا ہے" ( القیامہ 75 : 15)۔ اس میں بھی چار تاویلات ہیں: ایک یہ کہ اگر اس دن معذرت بھی کرے تو قبول نہیں کی جائے گی اور یہ قتادہ کا قول ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ اپنے کپڑے بھی اتاردے اوریہ ابن عباس کا قول ہے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ وہ اپنی حجت کو سامنے بھی لائے اوریہ السدی کا قول ہے۔ چوتھا یہ کہ وہ اپنا ستر اتار پھینکےکہ یمن کی لغت میں عذربھی ستر کو کہتے ہیں یعنی اگرچہ وہ اپنے عذر بھی پیش کرے اوریہ ضحاک کا قول ہے اور ایک پانچواں احتمال بھی ہے کہ اگر وہ معذرت چھوڑ بھی دے اور سرتسلیم خم بھی کردے اس کو نہیں چھوڑا جائے گا"۔
سنت نبوی ﷺ سے:
نبی ﷺ نے بھی اس ملامت کرنے والےنفس کی طرف اشارہ فرمایا جو مؤمن کانفس ہےاور اس کو ہمیشہ ملامت کرتارہتاہے۔چنانچہ اس حدیث میں فرمایا جس کو ترمذی اور احمد نے روایت کی ہے اور ترمذی نے اس کو حسن قرار دیا ہے: امام احمد نے اپنی مسند میں اور الحاکم نے اپنی مستدرک علی الصحیحین میں النواس بن سمعان الکلابی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال دی ہے کہ راستے کے دونو ں پہلو میں دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں اور ان دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں اور راستے کے آخر میں ایک منادی ہے جو کہتا ہے کہ: 'سیدھی راہ پر قائم رہو اور بھٹک مت جانا'۔ راستے کے اوپر بھی ایک پکارنے والا ہے جب بھی انسان کوئی دروازہ کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ: 'تیرا ستیناس ہو ! اس کو کبھی بھی مت کھولو کیونکہ اگر تو اس کو کھولے گا تو اس میں داخل ہو جائے گا' لہٰذا اس مثال میں یہ راستہ اسلام اور یہ دودیواریں اللہ عزوجل کی حدود ہیں اور یہ دروازے اللہ کی حرام کی ہوئی چیز یں ہیں، راستہ میں منادی کرنے والا اللہ کی کتا ب اور راستے کے اوپر پکارنے والا ہر مسلمان کانفس ہے"۔
ایک حدیث میں جو انس بن مالک نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الكيّس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنَّى على الله الأمانيّ» "ہوشیار آدمی وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے، بے بس شخص وہ ہے جس کا نفس اس کی خواہشات کے تابع ہو اور وہ اللہ سے طرح طرح کی تمنائیں کرے" اس کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إذا أراد الله بعبد خيراً جعل له واعظاً من نفسه يأمره وينهاه» " جس وقت اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے اندر ہی اس کے لیے ایک واعظ مقرر فرماتے ہیں جو اسے حکم دیتا ہے(نیک اعمال کا) اور روک دیتا ہے (نافرمانی سے)" السیوطی نے الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
سلف صالحین اور علماء کے نزدیک محاسبہ کا مطلب:
نفس کے محاسبے کا معنی اس کو کوسنے اور شدت سے نگرانی کرنے کے ہیں۔
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جو اللہ کے لیے اپنے نفس پر سختی کرے اللہ اپنی سختی (غصے) سے اس کو محفوظ رکھے گا"۔
امام احمد نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ "آدمی اس وقت تک فقیہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ کے معاملے میں لوگوں سے سختی سے پیش آنے کے بعد اپنے آپ سے اس سے بھی زیادہ سختی سے پیش نہ آئے"۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں نفس کے محاسبے کا مطلب بندے کا یہ سمجھنا کہ اس کے لیے کیا اچھا اور کیا برا ہے اور اپنے حق کو لے اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے کیونکہ وہ ایک ایسے سفر میں ہے جہاں سے مسافر کبھی واپس نہیں آتا۔ اور وہ مزید کہتے ہیں کہ نفس یہ ہے کہ بندہ پہلے یہ دیکھے کہ آیا اس نے اللہ کا حق ادا کیا پھر دیکھے کہ کیا اس نے یہ حق کما حقہٗ ادا کیا ۔اور وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی نفس کا محاسبہ ہے کہ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانے ۔ وہ ان کی ادائگیی میں سستی کرنے یا چھوڑدینےکی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضائع ہو جائیں۔ اس کے علاوہ نفس کی پاکی اور طہارت بھی خود احتسابی پر موقوف ہے اور خود احتسابی کے بغیر وہ نہ پاک صاف ہو سکتا اور نہ ہی اس کی اصلاح ہو گی۔
محاسبے کے بارے میں ماوردی کہتے ہیں کہ "انسان رات کو اپنے دن بھر کے اعمال پر غور کرے اگر اچھے ہوں تو اس کو جاری رکھے اور اگر برے ہوں تو باز آئے اور مستقبل میں اس کا تدارک کرے"۔
حارث المحاسبی نے خود احتسابی کی تعریف یوں کی ہےکہ"کہ ہر حال میں کوئی بھی فعل انجام دینے یا اس کو ترک کرنے سےاس کا ضمیر مطمئن ہو یا کسی بھی فعل کے جوارح کو ادا کرنے میں مکمل یکسوئی کا مظاہرہ کرنا تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کام سے اللہ ناراض ہو گا تو اس کام کو دل اور جوارح سے ترک کردے اور اسی طرح اپنے آپ کو فرض کو ترک کرنے سے باز رکھے بلکہ اس کی ادائیگی میں جلدی کرے"۔
سعید بن جبیر اور عکرمہ نے نفس لوامہ کے بارے میں کہا ہے کہ "یعنی وہ خیر اور شر دونوں پر ملامت کر تاہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اچھے اور بُرے وقت میں صبر کرتا ہے۔
قتادہ نے کہا ہے کہ الَوَّامَة سے مراد فاجرہ (سیدھی راہ پر نہ چلنا) ہے جبکہ مجاہد کہتا ہے کہ وہ چھوٹ جانے والے فرض پر نادم ہو تا ہے اور کہتاہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے تھا ۔
الفراء کہتے ہیں کہ "کوئی نفس نیک یا فاجر نہیں ہوتا وہ تو اپنے آپ کو خیر کے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ زیادہ کیوں نہیں کیا اور برے کام میں یہ کہہ کر ملامت کرتاہے کہ کاش میں یہ نہ کرتا"۔الحسن کہتے ہیں کہ "یہ مؤمن نفس ہے اور مومن اپنے آپ کو ملامت کرتاہے کہ میں نے اپنی بات سے کیا ارادہ کیا اوراپنے کام سے کیا ارادہ کیا جبکہ فاجر آگے بڑھتا ہی جاتا ہے اور اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتا ہے"۔مقاتل کہتے ہیں کہ "اس سے مراد کافر نفس ہے جو قیامت کے دن دنیا میں اللہ کے معاملے میں نا انصافی پر اپنے آپ کو ملامت کرے گا"۔
یحیی بن مختا رنےالحسن سے روایت کی ہے کہ "مؤمن اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کا احتساب کرتا ہے۔جو لوگ دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں قیامت کے دن اس سے حساب ہلکا لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں خود احتسابی نہیں کرتے اس سے سخت حساب لیا جائے گا۔مؤمن کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور اس کے دل کو بھاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم تو میری خواہش ہے اور میری ضرورت بھی ہے لیکن اللہ کی قسم مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں میرے اور تمہارے درمیان بہت دوری ہے۔ اور جب اس سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں تو یہ نہیں چاہ رہاتھا ؟یہ کیا ہو گیا؟اللہ کی قسم آئندہ ایسا نہیں کروں گا ان شاء اللہ۔ مؤمنین ایسے لوگ ہیں جن کو قر آن پر بھروسہ ہے اور وہی ان کے اور ان کی ہلاکت کے درمیان حائل ہے۔ مؤمن دنیا میں ایک قیدی ہے جو اپنی گردن کو چھوڑانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ وہ اللہ سے ملنے تک کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو گا۔ اس کو معلوم ہے کہ اس کے کان، آنکھ، زبان اور جوارح کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا"۔
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ "کوئی آدمی اس وقت تک متقین میں سے نہیں ہو سکتا جب تک اپنے شریک سے زیادہ اپنا محاسبہ نہیں کرتا ہو، جب تک وہ یہ نہیں دیکھے کہ اس کا کھاناکہاں سے آتا ہے، لباس کہاں سے آرہا ہے، کہاں سے پی رہا ہے یہ سب حلال ہیں یا حرام"۔
ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا اور کہا کہ "تم یونس بن عبید ہو؟ کہا جی ہاں، اس نے کہا: اللہ کا شکر ہے تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے موت نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہا: جو چاہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا ۔ اس شخص نے کہا کہ زہد کی غایت کے بارے میں بھی مجھے بتادو؟ کہا: راحت کو ترک کرنا"۔
حسن بن علی الدقاق نے کہا ہے کہ " اطاعت کی بنیاد پرہیز گاری ہے اور پرہیز گاری کی بنیاد تقوی ہے اور اصل تقوی نفس کا محاسبہ ہے اور محاسبہ بھی خوف اور امید کے ساتھ کیونکہ خوف اور امید معرفت ہے اور معرفت کی اصل علم کی زبان اور فکر ہے"۔
الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ "اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضاہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے"۔
میمون بن مہران نے کہا ہے کہ "کوئی بھی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہو سکتا جب تک اپنے نفس کااس قدرسخت محاسبہ نہ کر ے جو دو شراکت دار ایک دوسرے کا کرتے ہیں اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ نفس خیانت کرنے والے شریک کی طرح ہے، اگر اس کا محاسبہ نہیں کرو گے تو یہ سب کچھ لے اڑے گا"۔
ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ "یاد رکھو تمہارا سب سے بڑ دشمن تمہارا اپنانفس ہےاس کی تخلیق ہی برائی کا حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔تمہیں اس کو سدھارنے اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے حکم دیا گیا ہے ۔تم اس کو اپنے رب کی عبادت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گاجس پر تم پھر قابو نہیں پاسکو گے۔ اگر اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں پابندی کرو گے تو امید ہے مطمئن رہو گے اور اس یاد دہانی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ مت کرو"۔

Read more...

ولایہ شام: ترمانین میں مظاہرہ جس میں جنیوا-2 کنونشن کو بے نقاب کیا گیا۔

حزب التحریر /  ولایہ شام نے جنیوا-2 کنونشن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ترمانین میں مظاہرے کا اہتمام کیا

 

جمعہ، 17 صفر 1435ھ بمطابق  20 دسمبر 2013م

 

Read more...

وضاحتی خط حزب التحریر اور رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کو بدنام کرنے کی کوشش

جیو انتظامیہ کے نام،
اسلام علیکم،
18دسمبر 2013کو آپ کے چینل پر کامران خان کی جانب سے حزب التحریر پر ایک انتہائی خوفناک الزام لگایا گیا کہ حزب التحریر نے اپنے ترجمان کے ذریعے افواج پاکستان پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ برائے مہربانی اس بات کو جان لیں کہ اسی دن دوسرے تمام ٹی وی چینلز نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا کہ اس مجرمانہ حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم نے قبول کی ہے اور دوسرے دن کے اخبارات نے بھی اسی غیر معروف تنظیم کی اس حملے کی ذمہ داری کو قبول کرنے کی خبر کو شائع کیا۔
یہ خوفناک الزام کئی حوالوں سے بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔
1۔ یہ الزام آپ کے چینل کی ساکھ کے لیے بدنامی کا باعث ہےجو مسلمانوں کے لیے حالت حاضرہ سے آگاہی کا ایک معتبر ذریعہ ہے۔ معاشرہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کا مقصد خلافت کے قیام کے ذریعےاسلامی طرز زندگی کا احیاء ہے۔ بلکہ یہ بات اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ایک دوسرے چینل نے بھی اسی قسم کا الزام نشر کیا تھا لیکن چند ہی منٹوں میں اس الزام کو واپس بھی لے لیا کیونکہ اس قسم کے جھوٹےالزام کو دہرانے سے اس کو نشر کرنے والے ہی کی بدنامی ہونی تھی۔ آپ کی جانب سے اس الزام کو نشر ہوئے پورے چار دن گزر چکے ہیں لیکن آپ کے ادارے نے اپنی ساکھ پر لگے اس کالے دھبے کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ یقین رکھیں اس قسم کے جھوٹے الزام حزب التحریر کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ، الحمد اللہ ، لیکن آپ کی ساکھ اس سے ضرور خراب ہوئی ہے۔
2۔ یہ گھٹیا الزام آپ کی اس ذمہ داری پر بھی ایک حملہ ہے جس کے تحت آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ عوام کو ملک کو درپیش حقیقی خطرے سے آگاہ کریں جو دراصل ملک میں امریکہ کی وسیع پیمانے پر موجودگی ہے۔ امریکہ نے ہمارے ملک کے خلاف صرف ایک حملہ ہی نہیں کیا بلکہ بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی ایک پوری مہم شروع کررکھی ہے تا کہ فتنے کی آگ کو بھڑکایا جائے اور اس کو بنیاد بنا کر ہماری افواج کو کم شدت کی تنازعات میں ملوث رکھا جائے جس نے ہمارے ملک کو انسانی خون میں نہلا دیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکہ اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے ویسے ہی خونی اور شیطانی ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے جیسا کہ وہ دنیا کے دوسرے حصوں ، وسطی امریکہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیاء تک میں، کئی دہائیوں سےکررہا ہے ۔ کیا آپ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ آپ اپنی نشریات میں لوگوں کو اس اصل اور انتہائی خوفناک خطرے سے آگاہ کریں بجائے اس کے کہ آپ کے چینل سے حزب التحریر کے خلاف اس قسم کے سفیدجھوٹ نشر کیے جائیں؟
3۔ یہ الزام رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر بھی ایک بہتان ہے جس کو حزب التحریر نے اپنے قیام کے سال 1953 سے ، چالیس سے زائد ممالک میں اختیار کررکھا ہے اور حزب اس طریقہ کار کا کُھل کر اور واضح اظہار کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار میں جابر حکمرانوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا، اس مقدس دین کے فہم سے آگاہی کے لیے عوام الناس کی تربیت کرنا اور طاقت کے حامل لوگوں (افواج)سے قوت (نصرۃ) طلب کرنا شامل ہے۔ حزب التحریر کا رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار پر چلنا اس قدر مشہور و معروف ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکومت کے چمچوں نے ہمیشہ حزب التحریر کی جانب سے افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ یہ انتباہ حکومتی چمچوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب حزب التحریر ولایہ پاکستان نے جنرل راحیل شریف کے نام ایک کھلا خط جاری کیا جس میں انھیں ان کی اس شرعی ذمہ داری سے آگاہ کیا ہے۔ تو کیا لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے اور کیا راحیل -نواز حکومت کا ایسا کوئی بھی ڈرامہ لوگوں کو اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کردے گا کہ حزب التحریر اسی فوج کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے جس سے اسلام نے نصرۃ طلب کرنے کو لازمی قرار دیا ہے؟ اور قیامت کے دن رسول اللہﷺ کے اس طریقہ کار کو اس طرح بدنام کر کے ہم اللہ کے سامنے کس منہ سے کھڑے ہو سکیں گے؟
لہٰذا حزب التحریر آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کریں تا کہ جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں اور آپ کو آپ کی ساکھ واپس مل جائے۔ ہم یہ چاہیں گے کہ آپ ہمارے بیان کو اپنے ٹی وی چینل پر نشر اور اخبارات میں شائع کریں اور اللہ سبحانہ و تعالٰی سے عظیم اجر حاصل کریں ۔ یقیناً آپ کا ایسا کرنا مستقبل قریب میں ہماری جانب سے اپنے حق کے دفاع کے لیے کسی بھی فوری قانونی چارہ جوئی کی ضرورت کو ہی ختم کردے گا۔
والسلام
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان مںب حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

شہداء کے سردار

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہﷺپر ایمان لانے والو!
رسول اللہﷺنے فرمایا
«سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى إمام جائر فنصحه فقتله»

''شہداء کے سردار حمزہ ہیں، اور وہ شخص جس نے جابر حکمران کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے صحیح نصیحت کی اور اُسے قتل کر دیا گیا'' (الحاکم)
آج کے جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے والو!
ہمارے آقا، رسول اللہﷺنے جابر حکمران کا محاسبہ کرنے والے کو شہداء کے سردار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شیر، محمدﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ سے متشابہہ بیان کیا۔ تو آخر یہ حمزہ کون ہیں جن کی صف میں ہم کھڑے ہونا چاہتے ہیں؟ یہ وہ حمزہ ہیں جنہوں نے قریش میں اپنی ممتاز حیثیت کی وجہ سے، مشکل ترین وقت میں مسلمانوں کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اپنے رتبے کی وجہ سے، مختلف قبائل کے لوگوں کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنے۔ یہ وہ حمزہ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد اُس پر اس مضبوطی سے جم گئے کہ کفار نے غزوہ احد میں ایک غلام وحشی کو آزادی کے بدلے اس ہدف پر معمور کیاکہ وہ حمزہ کوقتل کرے گا۔ یہ وہی حمزہ ہیں کہ جب اُحد کے دن رسول اللہﷺنے اُن کے جسدِخاکی کو دیکھا تو فرمایا ''میں نے اپنی زندگی میں اتنا شدید نقصان نہیں اُٹھایا جتنا آج اور مجھے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا جتنا آج ۔۔اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے قریش پر غلبہ عطا کیا تو میں اُن کے 30لوگوں کا مثلہ کروں گا''۔اور رسول اللہﷺکی طرف سے شہداء کے سردار حمزہ کے بارے میں انہی الفاظ پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (•) وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (•) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلاَّ بِاللَّهِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلاَ تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (•)
ترجمہ: ''اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے۔ یقینا آپﷺ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے۔اوراگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہواور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لیے یہی بہتر ہے۔ آپ صبر کریں، بغیر توفیق الہٰی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور جو مکروفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں '' (النحل: 125 - 127)۔
یقینا یہ اُمت اپنے شہداء پر غمگین نہیں ہوتی، اور نہ ہی اُن کی گنتی کرتی ہے۔ اُن کے لیے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے اور اُن کے چہرے اُس دن خوشی سے روشن ہونگے جس دن تمام انسان شدید خوف کی حالت میں اپنے فیصلے کا انتظار کر رہے ہونگے۔ یہ ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں شہداء کا مقام۔ تو پھر سیدالشہداء کی تو کیا ہی شان ہوگی؟
سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والو!
جابر حکمرانوں کا محاسبہ کرنے کا رستہ رسول اللہﷺکا رستہ ہے۔یہ وہ افضل ترین عبادت ہے کہ جس میں نہ جسم تھکتے ہیں اورنہ ذہن اور قلوب اُس اجر عظیم کی تمنارکھتے ہیں جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔حکمران کا محاسبہ کرنا فرض ہے اور یقینا حکمران ہی المعروف کی بنیاد ہے اگر وہ عادل ہو، اور وہی منکر کی جڑ ہے اگر وہ ظالم ہو۔ امرباالمعروف ونہی عن المنکر کرنا اور ظالم کے ہاتھ کو روکنا، یہ وہ عمل ہے کہ جس کی شریعت میں بہت تعریف کی گئی ہے اور اس کے ترک کرنے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے۔
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا ''اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرورامرباالمعروف ونہی عن المنکر کرو ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا ،پھر تم اُس سے دعائیں کرو گے اور وہ اُنہیں قبول نہیں کرے گا'' (جامع الترمذی)
اور رسول اللہﷺنے فرمایا ''نہیں !اللہ کی قسم !تم ضرور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑو اور اسے حق پر قائم رکھو۔ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے قلوب کو آپس میں ٹکرائے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسے بنی اسرائیل پر کی''
سیدالشہداء کے راستے پر چلنے والو!
جابر حکمرانوں کے محاسبے کے راستے پر چلتے ہوئے، مسلمان کسی قسم کے نقصان پر خوفزدہ نہیں ہوتا، جو ظالموں کی طرف سے تنگ کرنے،قیدوبند کرنے،تشدد کرنے اور کبھی شہید کر دینے کی حد تک بھی ہوتا ہے جیسا کہ آج ہم پوری مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔مسلمانوں میں نہ تو اپنے پیاروں کا ساتھ چھُٹ جانے کا خوف ہوتا ہے، نہ ہی اُن کا نفقہ ختم ہو جانے کا اور نہ ہی جان چلے جانے کا (جو اہل وعیال کے ساتھ اور اُن کے نفقے کی بنیاد ہے)۔کیونکہ وہ شخص جو سیدالشہداء کی صف میں شامل ہونا چاہتاہے، وہ اللہ کے اس فرمان کو یاد رکھتا ہے :
فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي
۔ '' پس، اُن سے مت ڈرو،صرف مجھ سے ڈرو '' (البقرہ: 150)
اور وہ قریش کی جارحیت پر رسول اللہﷺکے اس جواب کو بھی یاد رکھتا ہے ''اللہ کی قسم !میں اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھوں گا جس کے لیے اُس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔تاوقتیکہ یہ دین غالب آجائے یا میری گردن اُڑا دی جائے''
وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ بہترین رزق وہ ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت میں مؤمنین کے لیے عطا کر رکھا ہے۔ اور بہترین صحبت اُن لوگوں کی ہے جو اس جنت کے سب سے اُونچے درجے میں ہیں۔وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ جن لوگوں سے وہ اس دنیا میں محبت رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُس کے درجے کو اُن لوگوں تک بلند کر دے گا تاکہ اُسے اپنے محبوب لوگوں کا ساتھ نصیب ہو۔ یہ ایمان اُس میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ زیادہ جدوجہد کرے، زیادہ قربانی دے، جنت الفردوس کی تمنا رکھے، ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں بہترین رزق اور بہترین صحبت حاصل کرے اور اُس کا حشر اُن لوگوں کے ساتھ ہوجن سے وہ محبت رکھتا ہے۔ انشاء اللہ۔
تو پھر آخر کیوں ایک مسلمان کے دل میں اس عارضی دنیا میں مال اور اہل وعیال کے نقصان کا خوف ہو؟ یہ ہے وہ عزم جو ہمارے گھر والوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور پریشانی کے وقت اُنہیں مضبوط رکھتا ہے۔ یہ ہے وہ عزم جو اُس تحریک کی آنکھوں میں نظر آتا ہے اور جوش وولولے میں محسوس کیا جاتا ہے جو کفروباطل کو مٹا ڈالنے کے لیے اُٹھی ہے۔ یہ ہے وہ عزم کہ جسے دیکھ کر داعی کے گھر والے اُسے کہتے ہیں ''اگر تم ظالموں کے آگے کانپ گئے یا کمزور پڑے،تو تمہیں واپسی پر خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ شہادت تک ثابت قدم رہنا اور ہم مل کر جنت میں خوشیاں منائیں گے''
سیدالشہداء کے راستے پر دوڑنے کی تمنا رکھنے والو!
آئیں اس راستے پر مضبوطی سے قدم رکھیں۔ آئیں کہ ایک قدم بھی ہم کمزور مت پڑیں، نہ ہی ظالموں کے خوف کی وجہ سے اور نہ ہی اپنے پیاروں کی محبت کی وجہ سے۔ آئیں آگے بڑھیں، اُس اجر پر یقین رکھتے ہوئے جو ہم اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے اکھٹا کریں گے۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ اُمت کی پُر عزم جدوجہد کے سامنے جابر حکمران کمزور پڑ رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں۔ آئیں آگے بڑھیں، اِس دعا کے ساتھ کہ بہت جلد ہم کفر کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے آغاز پر خوشیاں منائیں۔ ہماری زندگی سرداروں کی طرح گزرے اور ہماری موت شہداء کی طرح ہو۔ آمین۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (•) فَرِحِينَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (•)
''جو لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو ہر گزمردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس روزیاں دیے جاتے ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے '' (آلِ عمران: 169 - 170)۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک