السبت، 25 ربيع الأول 1446| 2024/09/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

عالمی سیاست اور بیدار امت

الم . غُلِبَتِ الرُّومُ . فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ‏.‏ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ . فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ } [الروم‏:1‏ ـ4].‏

 

حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں  لکھتے ہیں کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آگیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آکر قسطنطیہ میں محصور ہوگیا۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہوگی۔ مفصل بیان آگے آرہا ہے۔ مسند احمد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں۔ اس لئے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لئے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا رومی عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ صدیق اکبر نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کرلو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہوگئی اور رومی غالب نہ آئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خدمت نبوی میں یہ خبر پہنچائی آپ نے فرمایا تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لئے لفظ بضع استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندراندر رومی پھر غالب آگئے ۔

 

ان قرآنی آیات میں اللہ سبحان و تعالیٰ عالمی سیاست کو موضوع بنارہے ہیں اور یہ بحث  بھی ایسے موقع پر کی جارہی ہے جب  کفر کاغلبہ ہے۔  پھر بھی صحابہ عالمی سیاست پر کفار سے بحش و مباحثے میں مصروف ہیں اور آپ ﷺ اس معاملے میں بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ  کی اسلام سے رہنمائی کر رہے ہیں جو اس بات کی  عکاسی کرتا ہے کہ مسلمانوں کا نقطہ نظر ابتدا ہی سے  ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ عالمی رہا ہے۔  جس کے بعد یہ سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا کہ سیاست یا عالمی سیاسی صورت حال وغیرہ جیسے موضوع تو محض دنیاوی معاملات ہیں  وغیرہ وغیرہ۔

یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان کفار کی سازشوں کو صرف اسی صورت میں ناکام  اور امت کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ،جب وہ اس کا صحیح ادراک کرسکتے ہوں۔ حزب اپنی کتاب "سیاسی مفاہیم" میں  لکھتی ہے کہ، " دنیا میں ہر ریاست کی پالیسی سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہے اور ایک مسلم سیاست دان اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ بات ہر مسلمان کے لیے نہایت اہم ہے کہ عمومی انداز میں عالمی طاقتوں کی  نوعیت (nature)، رازوں (secret)،  منصوبوں (plan) اور طرز عمل (style)، سے باخبر رہنا اور ان امور کا تفصیلی اور حقیقت پر مبنی فہم، روزانہ کی بنیاد  پر بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کی بنیادوں اور ستونوں کا مکمل ادراک ہر مسلمان مفکر کے لیے ضروری ہے۔ یوں امت کو ان سے محفوظ رکھنے کا مقصد واضح  ہوتا ہے جس کے ذریعے ریاست اور امت مسلمہ کی حفاظت اور اسلامی دعوت کو دنیا میں پھیلانے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔"

اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ  عالمی سیاست اوراس کی بنیادوں  کو کچھ بنیادی اصولوں کے ذریعے سمجھا جائے۔ اول تو یہ کہ عالمی منظر نامے پر موجود ممالک کی موجودہ حیثیت ، ان کے سیاسی منصوبوں اور سیاسی  طرز عمل کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔

عالمی دنیا کا فہم اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ آیا وہ کون سے ممالک ہیں جن کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور ہے  اور وہ دنیا کی سیاست پر متاثر ہوتے ہیں  اور وہ کن ممالک کو  براہ راست کنٹرول کرتے ہیں یا ان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

 

بنیادی طور پر آج دنیا میں چار اقسام کی ریاستیں پائی جاتی ہیں ۔ پہلی تو وہ جسے سپر پاور ریاست کہا جاتا ہے جو دنیا میں طاقتور ترین ریاست کا کردار ادا کرتی ہے اور دوسری ریاستوں کی حیثیت  کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسا کہ امریکا ۔ دوسری وہ  ماتحت (sub-ordinate) ریاستیں ہیں جن کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا انحصار دوسری طاقتور ریاستوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، قطر  اور مالی وغیرہ  جیسے ملکوں کا شمار ان ہی ریاستوں میں ہوتا ہے۔  تیسری  وہ سیٹلائٹ ریاستیں ہیں جن کی داخلہ  پالیسیاں تو خود مختار ہوتی ہیں تاہم بیشتر خارجی پالیسیاں  دوسرے ممالک کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آسٹریلیا ، کینیڈا وغیرہ۔ اور چوتھی قسم کی ریاستیں وہ ہیں جو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے اعتبار سے خودمختار ہوتی ہیں جیسا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور اسرائیل وغیرہ۔

ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طاقتور ممالک کی اپنے مقاصد  کی حفاظت کیلیے  مرتب کی گئی سیاسی حکمت عملی (politcial plan)اور  ان  سیاسی حکمت عملیوں کو عملی جامع پہنانے کیلیے سیاسی طور طریقوں(political style) کو سمجھا جائے ۔ جیسا کہ عراق پر قبضہ اور اس قبضے کو مقامی اور عالمی  دونوں سطح پر قانونی جواز فراہم کرنا امریکا کی حکمت عملی میں شامل تھا۔ جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے  امریکا نے  مختلف  سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا ۔ جن میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا بہانہ،  جھوٹ پر مبنی  سی آئی اے رپورٹس کی تشہیر، اقوام متحدہ کے ذریعے  جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنا ، شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینا، اہل تشیعوں کو حکومت کا حصہ بنانے  اور ایرانی و شامی اثرو رسوخ کا استعمال شامل ہے۔

 

تاہم یہ بات سمجھنا بھی لازم ہے کہ  سیاسی  طور طریقے سیاسی حکمت عملی کے مطابق مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں جب کہ سیاسی حکمت عملی صرف اسی صورت تبدیل  کی جاتی ہے  جب تمام اختیار کردہ سیاسی طریقے ناکام ہوجائیں  اور سیاسی اہداف حاصل نہ ہوسکیں یا  یہ کہ سیاسی حکمت عملی کسی خاص صورت حال کی وجہ  سے سیاسی مقاصد کے ہی مخالف ہوجائے  مثال کے طور پر  پہلے چین کی امداد کرکے اسے روس کے خلاف کھڑا کیا گیا اور پھر چین ہی کا گھیرا تنگ کرکے اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کیلیے سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا گیا ۔

کچھ یہی حال امریکا کا مسلم دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلیے ہے جس کے لیے وہ اپنے سیاسی طور طریقوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلی  لاتا رہتا ہے جیسا کہ  پہلے عسکری بغاوتوں  اور دیگر سیاسی اقدامات کے ذریعے مسلم ممالک کو کنٹرول کیا  گیا  اور اب مسلم زمینوں پر عسکری حملوں  کے ذریعے  اس کنٹرول کو مستحکم کیا جارہا ہے ۔لہٰذا ہماری سیاسی جدوجہد کا ہدف استعمار کی سیاسی فکر ، سیاسی حکمت عملیوں اور اس کے طور طریقوں کو بے نقاب  کرنا ہونا چاہیے۔

 

آج انبیاء کی سرزمین شام کی صورت حال  کچھ ایسی ہے کہ اقوام عالم اس پر بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔ امریکا  ہو ، سعودی عرب ہو، روس ہو یا ایران ۔۔ سب کے سب  یک زبان ہو کر شام کے بابرکت انقلاب اور اس کے مخلص انقلابیوں کے خلاف  کمربستہ ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں استعما ر نے اپنی سیاسی فکر  کے مطابق ہر سیاسی  حکمت عملی  کو پایہ تکمیل  تک پہنچانے کے لیے مختلف طور طریقوں کو آزمایا تاہم   شام کے عوام  نے بیدار امت کا ثبوت دیتے ہوئے  استعمار کی ہر حکمت عملی اور اس کے طور طریقوں کو خاک میں ملادیا ۔ جب کہ مصر ، تیونس ، لیبیا اور یمن وغیرہ سیاسی بصیرت اور پختگی نہ ہونے  کے باعث استعمار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ۔  شام میں لگ بھگ چار سال سے جاری  سیاسی بغاوت  اس بات کا ثبوت ہے کہ امت کو سیاسی پختگی اور سیاسی شعور اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب اسے اسلام کی جانب مسلسل دعوت  دی جاتی رہے۔

شام کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے  شام کی عالمی حیثیت  اور پس منظر کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔  شام  گزشتہ چالیس برسوں سے  حافظ الاسد اور پھر اس  کی اولاد بشار الاسد کی زیرسربراہی امریکا کے ماتحت رہا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ  سیاسی قائدین   کی زبانی جمع  خرچ  اور کچھ سیاسی بیانات  اور اقدامات سے مرعوب ہو کر شام  اور اس کے حکمرانوں کو  امریکا مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں جیسا کہ  مئی دو ہزار چار میں امریکا نے اس الزام پر  شام پر معاشی پابندیاں عائد کردیں کہ وہ  عراق میں عسکریت پسندوں کے داخلے کو  روکنے میں ناکام رہا۔ جب کہ حقیقت کا مفصل اورصحیح جائزہ لینےسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شام الاسد خاندان کی کمان میں ہمیشہ امریکی ایجنٹ ہی رہا ہے۔ شام کا خلیجی جنگ میں صدام حسین کے خلاف امریکا  کا ساتھ دینا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ شام  وہ واحد جمہوری عرب ریاست  تھی  جس نے پہلی خلیجی جنگ  میں عراق کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا اورOperation  Desert Storm میں مدد کیلیے اپنے دستے روانہ کیے۔

 

شام نے اسلام پسندوں کے خلاف بھی امریکا کی بھرپور مدد کی۔ اور اس بات کا اعتراف خود امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کیا کہ شام کی مدد سے امریکا کو وہ معلومات حاصل ہوسکیں جس کا اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔ شام ہی نے اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ شامی صدر بشار الاسد کی دوستی و  امن کی آشا کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ  اسرائیل نے 2007 میں شام میں  جوہری ری ایکٹر کو فضائی حملے میں تباہ  کردیا اور صدر بشار الاسد نے خاطر خواہ   جواب تک دینے کی زحمت نہ کی ۔    امریکا اور شام کے درمیان اتحاد  کی اس سے بہتر اور کیا مثال  ہوگی کہ بشارالاسد ساڑھے تین برس تک  شام کے معصوم شہریوں پر مسلسل بم برساتا رہا اور امریکا  کے ماتھے پر بل تک نہ آیا مگر جیسے ہی باغی  بشار الاسد کو اکھاڑ پھینکنے کے اہل ہوئے امریکا نے ان پر ہی چڑھائی کردی۔ مگر آفرین ہو  شام کے عوام پر  جنہوں نے ہر موڑ پر باخبر  ہونے کا ثبوت دیا اور امریکا کے سیاسی عزائم کو مسلسل ناکام بناتے ہوئے اسے اپنےسیاسی منصوبے فوری تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ثمر کوئی ایک ماہ یا ایک سال کی جدوجہد کا نہیں بلکہ برسوں کی محنت کا تھا۔ مارچ 2011میں ملک گیر احتجاج  کے آغاز کے بعد جب بات بشار کے دھڑن تختے تک جاپہنچی  تو شامی عوام میں موجود سیاسی قائدین   نے اس بات کو جانچ لیا کہ مصر، تیونس  اور لیبیا کی طرح شام میں بھی عوام کو  بشار کی حکومت کے  متبادل کی صورت میں دھوکہ دیا جائے گا۔ اور اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکا نے بشار کے مخالفین کو صفوں میں کھڑا کرنا شروع کیا۔ اکتوبر 2011 میں   Syrian National Council قائم کی گئی۔ نومبر میں  عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل  کرکے اس پر پابندیاں عائد کیں تاکہ  بشار پر دباؤ ڈال کر  اور اسے پس پشت ڈال کر اس کا متبادل  تیار کیا جاسکے۔

حزب التحریر  شامی انقلاب کے آغاز سے عوام میں مضبوط جڑیں بناکر انقلابیوں کی رہنمائی میں پیش پیش  رہی ۔ حزب نے کفار کی اس سازش کو  دو نومبر 2011 کو  اپنے پمفلٹ کے ذریعے بے نقاب کیا ، " امریکا اپنے آلہ کار عرب لیگ کے ذریعے  شامی حکومت کو مزید وقت فراہم کر رہا ہے  تاکہ وہ مزید معصوم شہریوں کا خون بہا سکے اور اس دوران بشار کا متبادل تیار کیا جاسکے۔"

مخلص قائدین انقلابیوں کو  اللہ سبحان و تعالیٰ کے اس فرمان کو بار بار یاد دلا رہے تھے کہ ،

"ان لوگوں کی جانب ہرگز راغب نہ ہونا جو ظلم کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تمہیں آگ پکڑ لے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔" {سورۃ ہود 11:113}

 

ادھر مارچ 2012 میں  اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کوفی عنان کے غیرمشروط امن معاہدے کی توثیق کردی جس کی حمایت کا اعلان روس اور چین  نے بھی کردیا  تاہم  پھر بھی  خون کی ہولی جاری رہی۔ کوفی عنان کے مستعفی ہونے پر اقوام متحدہ نے الجزائر کے سفارتکار لخدار  براہمی  کو  اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا شام کیلیے ایلچی مقرر کردیا۔

جون 2012 میں پہلی جنیوا کنونشن کے انعقاد تک پچاس ہزار شہری  لقمہ اجل بن چکے تھے۔ 30جون 2012 کو حزب التحریر نے امت سے خطاب میں جنیوا  معاہدے  کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے   یہ واضح کیا کہ جنیوا معاہدے کی منظوری  ایسا داغ ہوگی جس کو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا ، یہ امت سے بغاوت ہوگی۔۔۔ روس اپنے مالک کے لیے تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ ۔۔۔"

امریکا شام  کی چاروں  سرحدوں  یعنی لبنان، اسرائیل، ترکی اور عراق  پر بیٹھا تھا  جب کہ روس کی موجودگی تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر وہ صرف  مادی فوائد  ، مسلمان ملکوں  میں بڑھتی  تبدیلی کی لہر  اور وسطی ایشیا کے ممالک  تک ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطرامریکا کی ہر چال میں اس کا اتحادی بنا رہا۔ جب کہ امریکا کا مقصد واضح تھا کہ جب تک متبادل تیار نہیں ہوجاتا شامی عوام کو خون میں نہاتے رہنے دیا جائے۔ یہاں تک کہ امریکا نے لیبیا کی طرح  شام میں نو فلائی زون کا قیام بھی درست نہ سمجھا کہ کسی طرح فضائی بمباری سے ہونے والے جانی نقصانات کو ہی روکا جاسکے۔

 

نومبر 2012 میں  قطر میں منعقدہ اجلاس میں  نام نہاد اپوزیشن جماعتیں  National Coalition for Syrian Revolutionary & Opposition Forces  کی چھتری تلے یکجا ہوگئیں  جن کا نعرہ جمہوریت کا قیام تھا۔ دسمبر 2012 میں  امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی اور خلیجی ریاستوں نے معاذ الخطیب کی زیرسربراہی  Syrian National Coalition کو  شامی عوام کا نمائندہ قرار دینے کی کوشش کی تو  اس موقع پر حزب التحریر نے  امت پر یہ بات واضح کی کہ ،

" یہ ایک شرانگیز منصوبہ ہے، جسے امریکا اور اس کے حواریوں نے تشکیل دیا ہے۔ شام میں بے پناہ قتل و غارت گری  کرکے دشمن  ہمیں مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی اتحاد کو تسلیم کرلیں ۔۔۔ ۔"

اور الحمداللہ  شام کے غیور عوام نے حزب التحریر کی مخلص پکار کا مثبت جواب دیتے ہوئے شامی اپوزیشن اتحاد کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔  میدان عمل میں بشار الاسد سے برسرپیکار اہم ترین گروہ جبہۃ النصرہ اور  التوحید نے اتحاد کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ  وہ جمہوری نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ انہوں نے  شام کے قوم پرست جھنڈوں کو  پس پشت ڈالا اور رایہ اور لواء کو ہاتھوں میں تھامنا شروع کردیا۔ منصوبوں کی مسلسل ناکامی کو دیکھتے ہوئے  اپوزیشن  اتحاد کے سربراہ معاذ الخطیب نے استعفیٰ دیا اور خود یہ انکشاف کیا کہ  کچھ بیرونی عناصر اپوزیشن اتحاد  سے اپنے کام نکلوانا چاہتے ہیں۔

جس کے بعد 13مارچ 2013 کو حزب التحریر نے امت کو اللہ کے اس قول سے خبردار کیا،

"اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے  بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ ڈالا۔۔"{ سورۃ النحل:92}

شامی قومی اتحاد کی ناکامی کے بعد امریکا نے  شامی سیکولر بریگیڈز پر پیسہ لگانا شروع کیا ۔ واشنگٹن پوسٹ نے مئی 2013 کو خبر شائع کی کہ "امریکی حکومت اب سلیم ادریس  پر جوا لگا رہی ہے ۔" اخبار نے مزید لکھا کہ ،"سلیم ادریس کے اعتدال پسند  اور ذمہ دارانہ رویے پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکی حکومت اس  پر پیشہ لگانا چاہتی ہے۔" جس کے بدلے میں سلیم ادریس  نے براک اوباما کو خط لکھ کر اس بات کا اظہار کیا کہ "اسے شام میں مداخلت  کے حوالے سے امریکی پوزیشن کا اندازہ  ہے ۔ سلیم ادریس نے امریکا سے مالی امداد اور ٹریننگ میں مدد کی درخواست کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ جہادی گروپوں سے نمٹنے کیلیے تیار ہے۔"

تمام منصوبے ایک طرف اور ایران اور حزب ایران کا استعمال کرکے شامی انقلاب کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش  کا امریکی منصوبہ ایک طرف  تھا۔ ایران کو بشار الاسد کی امداد میں اپنے عوام کو یہ بہانہ پیش  کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ایران تو شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کیلیے مداخلت کر رہا ہے۔ ادھر حمص اور لبنانی سرحد کے درمیان  میں واقع اہم ترین شامی علاقے قصیر میں حزب ایران اور عسکری گروہوں میں لڑائی کا آغاز ہوچکا تھا اور یوں امریکا اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب رہا کہ ظلم کے خلاف بغاوت  کو فرقہ ورانہ رنگ دے کر بشار کی حکومت کو محفوظ بنایا جائے۔

دوسری جانب اب اسرائیل بھی شامی عوام کے خلاف کھل کر میدان میں آچکا تھا۔ حزب التحریر نے 7مئی 2013 کو امت سے خطاب  میں ان علاقوں پر اسرائیلی بمباری کی تصدیق کی جہاں باغیوں کا پلڑا بھاری تھا " 5مئی 2013 کو اسرائیلی طیاروں نے شام پر بمباری کی ۔۔۔ یقیناً بشار حکومت  یہود، امریکا  اور اس کے حواریوں کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھتی  بلکہ اس کے دشمن تو بس شام کے عوام ہیں۔۔ اور یہی کھیل ہے جو امریکا اور اس کے حواری کھیلتے ہیں کہ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے تبدیل کردیا جائے۔"

 

ایک طرف شامی افواج کا بدترین ظلم جاری تھا تو دوسری جانب امریکا بھی مسلسل اپنی سیاسی چالیں چلنے میں مصروف تھا ۔ جارج صابرہ کی جگہ سعودی حمایت یافتہ احمد جربا شامی قومی اتحاد کے  قائم مقام سربراہ  کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ جب کہ عبوری وزیراعظم یہ کہہ کرعہدے سے مستعفی ہوگئے  کہ وہ باغیوں کے زیرتسلط علاقوں میں حکومت قائم نہیں کرسکتے۔

اسی اثنا ء میں  امریکا کے کئی زبانی دعووں اور دھمکیوں کے باوجود بشار نے اگست 2013میں  دارالحکومت دمشق کے علاقے غوطہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں تقریباً 300شہری جان سے گئے۔ امریکا  کے مطابق تو یہ اس کی اپنی بنائی ہوئی  سرخ لکیر تھی  جس کو عبور کرنے پر امریکی صدر براک اوباما بار بار بشار کو دھمکیاں دیتا آیا تھا مگر حملہ ہوئے ڈیڑھ برس گزر چکے، آج تک بشار کے سر سے ایک امریکی طیارہ نہ گزرا۔  کیمیائی ہتھیاروں کا سارا ڈرامہ صرف اس لیے رچایا گیا کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کیا جاسکے تاکہ مستقبل قریب میں قائم ہونے والی خلافت کے پاس وہ صلاحیت ہی نہ ہو کہ وہ کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے، مگر وہ شائد بھول گئے کہ جنگ صرف عسکری قوت کےبل بوتے پرنہیں بلکہ ایمان کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔

شام کے بیدار عوام مسلسل دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے آرہے تھے چاہے وہ بشار کے خلاف مزاحمت ہو یا سفارتی محاذ۔  2014 کے اوائل میں دوسری جنیوا  کانفرنس کی ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہے  جب شامی اتھارٹی نے عبوری حکومت پر بحث کرنے سے انکار کردیا۔ حزب التحریر نے  امت کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا" شامی عوام کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا اور اس بات کا یقین رکھنا  ہوگا  کہ فتح صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آپ کو اپنے انقلاب  کو شفاف انداز اور انتہائی وضاحت کے ساتھ برقرار رکھنا ہوگا ، وہ انقلاب  جس کا آغاز یہ کہہ کر کیا گیا  کہ 'یہ صرف اللہ کے لیے ہے، یہ صرف اللہ کے لیے ہے' اور اس بابرکت انقلاب کو جنیوا کانفرنس کی مذاکراتی میزوں پر فروخت کرنے سے ہر صورت باز رہا جائے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا جائے، " اے ایمان والو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے) {سورۃ آل عمران: 118}

 

اور یقیناً امت کا نعرہ یہی تھا، "شعب یرید - الخلافۃ بالجدید"

ادھر امریکی حمایت یافتہ  FSA بھی  شدید ناکامی سے دوچار تھی۔ اسلام پسندوں نے اس کے قدم اکھاڑ کر رکھ دیے تھے ۔ پے درپے ناکامیوں کے پیش نظرFSA کی کمان  سلیم ادریس  سے  بریگیڈیئر عبداللہ البشیر کو سونپی گئی۔ مگر شکست کے بادل   مسلسل منڈلاتے رہے۔ ساری سیاسی چالیں   شکست کھاچکی تھیں اس لیے ضروری تھا کہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے ۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کو نشانہ بنانے کی آڑ میں امریکا  بالآخر شام پر براہ راست حملہ آور ہوگیا ۔۔مگر یہ امت کے لیے کوئی  انوکھی بات نہ تھی کیوں کہ اس کے متعلق امیر حزب التحریر شٰخ عطابن خلیل ابو الرشتہ   مئی 2013 میں ہی آگاہ کرچکے تھے ۔ امیر حزب التحریر نے یہ  واضح کیا تھا کہ ، "میڈیا   کی سیکولر عناصر کو بے پناہ کوریج دینے کے باوجود سیکولر آوازیں  بالکل دب کر رہ چکی تھیں اور  امریکا  خلافت کے قیام کیلیے اٹھنے والی آوازوں سے  بوکھلاکر رہ گیا تھا۔"

امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی تھی ۔ امیر حزب التحریر نے ڈیڑھ برس قبل  ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا تھا کہ معاملات مکمل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر  امریکا نے تین نکات  پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اول یہ کہ بشار کو قتل و غارت گری کی چھوٹ دی جائے  تاکہ عوام کو اپنے منصوبوں کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے تاکہ  شام میں سیکولر سول ریاست کا قیام ممکن بنایاجاسکے  اور پھر مکمل ریاستی ڈھانچہ اور جمہوری نظام برقرار رکھتے ہوئے  چہروں  کو تبدیل کردیا جائے۔ تاہم  کفار اور اسکے ایجنٹوں کو  بیدار امت کے مقابلے میں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ۔ شام کے عوام نے  معاذ الخطیب، جارج سابرا، احمد جابرا ، عبوری وزیراعظم  غسان ہیتو ، سلیم ادریس،  عبداللہ البشیر،  کوفی عنان ، لخدر براہمی ، جنیوا ون  اور جنیو ٹو  سمیت کفار کے تمام منصوبوں کو دھول چٹائی ۔

پہلا منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں ان کا دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ  اگر وہ  اپنے حمایت یافتہ باغیوں  یا حزب اختلاف کے ذریعے بشار الاسد کو عہدے سے ہٹانے میں ناکام رہے تو  عالمی مداخلت کے ذریعے  اپنی مرضی کی حکومت منتخب کی جائے  گی ۔یہ دونوں منصوبے ناکام ہونے کی صورت میں کفار کی یہ سوچ تھی کہ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں ، ہر طرف اتنی تباہی  پھیل چکی ہوگی کہ اگر اسلام کو اقتدار حاصل ہوبھی جاتا ہے تو امت  مایوسی کے سبب نشاۃ ثانیہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنے احیا ء کی جانب  قدم نہ بڑھا سکے گی۔

مگر کفار  اور ان کے پیروکار یہ سمجھنے میں قاصر رہے کہ  یہ ایک بہترین امت ہے جسے دنیا  کی امامت کے لیے چنا گیا ہے  اور اس امت میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو  امت کو نشاۃ ثانیہ کی جانب لے جانا جانتے ہیں اور کفار و منافقین کے سارے  منصوبوں  کو ناکام بنادیں گے۔ یہ جانتے نہیں کہ یہ وہی امت ہے جس نے روم و فارس جیسے عظیم سلطنتوں کو ناکون چنے چبوانے پر مجبور کیا ، صلیبیوں  کو ان کی اوقات یاد دلائی اور یہود و ہنود پر اپنا رعب و دبدبا طاری کیا۔ رب کائنات کا  یہ فرمان کسی صورت جھٹایانہیں جاسکتا کہ ،

" تم وہ بہترین امت ہو  جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔"{ آل عمران:110}

 

امت مسلمہ کو اللہ نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو اسے  دنیا کی دیگر اقوام سے ممتاز کرتی ہے  بس ضرورت  ہے تو صرف اس بات کی کہ امت میں بیدار سیاسی شخصیات اور گروہ موجود رہیں  جو امت کو کفار کے منصوبوں سے باخبر رکھیں ۔ اور اس باخبر اور باشعور حزب پر بھی  یہ لازم ہے کہ وہ  امت میں اپنی جڑیں مضبوط کرے اور امت کے ہر طبقے سے مستحکم روابط رکھے  تاکہ امت حزب کے ساتھ آگے بڑھے اور  کفار کے گھناؤنے منصوبوں  کو ملیامیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ امت کے فرزندوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم    امت میں بہترین انداز میں دعوت رکھیں ، بہترین سیاست دان بنیں اور اس امت کو اس منزل تک پہنچائیں جس کی  یہ مستحق ہے۔ یہ عمل ہمیں اس دنیا میں  بھی عزت دلائے گا اور آخرت میں بھی ہمارا حساب شہدا ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ کیا جائے گا، انشاء اللہ۔ بے شک عزت اور ذلت دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، " واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ ﷺنے فرمایا، ہاں کسریٰ بن ہرمز کے ۔تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان پورا ہوا ۔ یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشنگوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔"

واللہ ہمیں بھی یقین ہے کہ رسول ﷺ  کی  "نبوت  کے نقش قدم پر خلافت  کے دوبارہ قیام " کی بشارت بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

انجینئرعمیر ، پاکستان

 

Read more...

خبر اور تبصرہ راحیل-نواز حکومت نیشنل ایکشن پلان (امریکی ایکشن پلان) کو نافذ کرنے کے لئے پاگل ہوگئی ہے

خبر: 6 فروری 2015 کو وزیر اعظم کے دفتر نے اعداد و شمار پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دس ہزار سے زائد مبینہ "دہشت گردوں" کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن اس دستاویز میں پکڑے جانے والے لوگوں کے پس منظر اور اُن کی کِن جماعتوں سے وابستگی ہے کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ پریس کو جاری کی جانے والی اس دستاویز میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ حکومت کب اور کیسے ان دس ہزار سے زائد لوگوں پر مقدمات چلائے گی جنہیں ملک بھر سے چودہ ہزار سے زائد چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب کاروائیاں دسمبر 2015 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہونے کے بعد کی گئی ہیں جس میں 140 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔


تبصرہ: پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے خوفناک حملے اور پھر نیشنل ایکشن پلان کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت نے ملک بھر میں چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا جس میں اُن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف لڑتے ہیں یا پھر اُن کو جو پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس حکومت نے امام مساجد کو بھی نہیں بخشا اور ہزاروں کو لاوڈ سپیکر ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔ حکومت کی ایجنسیاں مدارس کے طلبہ کا پیچھا کررہی ہیں اور انہیں اغوا کررہی ہیں۔ لیکن اِن کا پاگل پن اُس وقت انتہاء کو پہنچ گیا جب انہوں نے لاہور، گلبرگ میں ایک انتہائی معزز اور مشہور جگرانوی خاندان کے گھر پر چھاپہ مارا۔
حکومت کے غنڈے جگرانوی خاندان کے ایک فرد کو گرفتار کرنے آئے تھے جسے پچھلے کئی سالوں سے بد نام زمانہ فورتھ شیڈول میں ڈال رکھا گیا ہے۔ لیکن جب وہ اسے گرفتار نہ کرسکے تو 11 فروری کو اُس کے بھائیوں اور اُن کی بیویوں کے نام چارج شیٹ لکھ ڈالی۔ لیکن حکومت کی جانب سے یہی کافی نہ تھا کہ 13فروری کو نماز جمعہ سے قبل حکومت کے غنڈے واپس آئے اور جگرانوی خاندان کے گھر کی چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا اور بغیر اجازت گھر میں داخل ہوگئے اور ایک غنڈے نے اِس خاندان کی ایک عورت کو پکڑ لیا جب اس کی گود میں اس کا جسمانی طور پر معزور بچہ بھی موجود تھا اور اُسے گرفتار کر کے لے گئے۔ اب وہ خاتون اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ لاہور کی کوٹھ لکھپت جیل میں قید ہیں اور عدلیہ کی جانب سے اپنی ضمانت کی درخواست سننے کی منتظر ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جگرانوی خاندان نے حکومت کے غضب اور جبر کا سامنا کیا ہے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ اُن کے کچھ مرد حضرات حزب التحریر کے ساتھ خلافت کے قیام کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ پورا خاندان اس مقصد کی حمایت کرتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار جگرانوی خاندان کے مرد حضرات کو گرفتار کیا گیا اور وہ اس اعلٰی مقصد کے لئے کام کرنے کے جرم میں جیل بھی گئے۔ لیکن حکومت کا جبر اور ظلم اِس خاندان کو اسلام سے محبت اور اس کے نفاذ کی جدوجہد سے دستبردار نہیں کراسکا۔ اب اُن کے استقامت کو متزلزل کرنے کے لئے حکومت نے اُن کی پاک دامن عورت پر اپنا گندا ہاتھ ڈالا ہے۔ یہ عمل پاکستان کے معاشرے میں ایک سرخ لکیر ہے کیونکہ پاکستان کا معاشرہ اسلام سے شدید محبت رکھتا ہےاور اس حد کو کسی صورت عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ یہ غلیظ عمل کر کے اِس حکومت نے پورے معاشرے کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے کافر آقاؤں کی خوشنودی کے لئے کسی بھی حد تک گرسکتی ہے۔
الحمد اللہ حکومت کے خلاف غصہ اس کی جانب سے مسلط کیے گئے خوف پر غالب آرہا ہے۔ حکومت کی اس ظلم وجبر کی مہم نے بہت سو ں کو غصے میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومت کے غنڈے گھر کی چار دیواری کا تقدس بغیر پوچھے داخل ہو کر پامال کررہی ہے یہاں تک کہ خواتین اور چھوٹے بچوں کو دہشت زدہ کررہی ہے۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان جو درحقیقت امریکی ایکشن پلان ہے، کے خلاف کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہیں کررہی تا کہ پاکستان میں امریکی راج کو مستحکم کیا جائے۔ اِس حکومت نے اسلام اور اس کی امت کو چھوڑ دیا ہے اور یہ واشنگٹن میں بیٹھے اپنے کافر آقاؤں کی خدمت کرنے پر فخر کرتی ہے اوراس حکومت کے افراد کفار سے میڈلز اور گارڈ آف آنرز وصول کرنے میں انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ اس حکومت کی انہی خصوصیات کی بنا پر اس نے اپنے آپ پر اللہ سبحانہ و تعالٰی کا غضب لازم کرلیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

 

وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً
"اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور راہ راست کے واضح ہو جانے کے بعد بھی اہل ایمان کے سوا کسی اور کی روش پر چلے، تو اُسے ہم اُسی طرف چلتا کردیں گے جدھر وہ خود پھر گیا۔ اور ہم اُسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بدترین جائے قرار ہے"(النساء:115)



حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

المیوں کی ماں

پشاور واقعے جیسے لرزہ خیزواقعات کسی بھی با شعور قوم کو احساس دلانے  کے لئے کافی  ہوتے ہیں، مگر یہاں  ایک اور بڑا المیہ ہے،جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ  اُمت عرصہ دراز سےان جیسے  المیوں سے  مانوس ہوچکی ہے۔ یہ کوئی نیا المیہ نہیں  یکے بعد دیگرے مسلم علاقوں میں مسلمان ماؤں ،بہنوں کی عصمت دری اور بچوں ،بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرڈالنے کے بے شمار واقعات  تاریخ کے اوراق  اور آج کی جدید ٹیکنالوجی  کے ذریعے متحرک شکل میں محفوظ ہیں۔  وحشت وبربریت  کے ایسی داستاں رقم کی گئی جس میں جدید ٹیکنالوجی کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا بلکہ خاص اسی مقصد کے لئے  بنائے گئے آلات اورتشدد کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔ انسانیت پر مسلط کی گئی  جنگ ،پریشانی اور بے چینی  صرف مسلمانوں تک ہی محدود  نہیں رہی۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے تباہ کن واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ  کی حیثیت سے تا قیامت موجود رہیں گے۔ مگر جدید ظلم  ودردندگی کا نشانہ سوچے سمجھے منصوبے اور منظم سازش کے ذریعے  اکثر مسلمان بنتے رہے ہیں۔ بوسنیا اور چیچنیا کے اندر روس اور سربیا کے مظالم  کے خوفناک مناظر آنکھوں کےسامنے ہیں۔  گوانتاناموبے ، ابوغریب اور بگرام  کے قیدخانوں کےانسانیت سوز اور حیا سوز واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ماضی قریب میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھسٹوں کی ستم کاریاں ، شام کے مسلمانوں پر اسد ی حکومت کی طرف سے پٹرول بموں کی بارش اور اس کے ہاتھوں دمشق شہر کی تہہ وبالا کی گئی عمارتیں اور لہو رنگ مناظر۔   وحشت ،سفاکیت اور بہیمیت  سے بھر پور المیوں  کی ایک  طویل  اور ناقابل بیان  ناقابل فراموش تاریخ ہے ۔   یہاں میں جس المیے کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ المیۂ فکریہ ہے،یعنی جب انسانیت  کوصحیح حل سے  محروم کردیا جائے  اور اس کی سوچنے کی صلاحیت ہی متاثر ہوجائے ،جب سچ بولنا جرم ٹھہرجائے ،جب ظلم روکنے کو دہشت گردی سے موسوم  اور دہشت گردی کو امن اور انصاف کی تلاش کا نام دیا جائے۔ جہاں دلیل کے بجائے جبر اور طاقت کی زبان بولی جاتی ہو،تو یہ تمام المیوں سے بڑھ کر المیہ ہے، یہ المیوں کی ماں ہے، ماں! وجہ یہ ہے کہ جب صحیح حل تک رسائی ہی نہیں ہورہی یا نہیں ہونے  دی جارہی تو ظاہرہے کہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اورانسانیت سسک سسک کر تڑپتی رہے گی اور درندگی ،وحشت وبربریت کا شکار رہے گی ،جو اس کی بدبختی ہے۔

 

بلاشبہ اس طرح کے واقعات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بہت جلد اصل اسباب وعوامل کا تعین  کرکے حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں  پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتے  ہیں تاکہ مستقبل میں سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کیا جائے اور اگر سچ  پر قدغن نہ ہو اور رائے کی آزادی کی بجائے اس کے مبنی بر دلیل ہونے کو مدِ نظر رکھا جائے توحق و سچائی تک پہنچا جا سکتا ہے۔  مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ "وسیع تر قومی مفاد" ،"دہشت گردی کے خلاف جنگ "، "ملکی سالمیت " وغیرہ یہ کیا ہے ، ان الفاظ کی حقیقت مکمل طورپرمبہم اور بے بنیاد دعوؤں کے سوا  کچھ نہیں۔جنہیں مختلف مواقع پر استعمال کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حقائق تک رسائی  کے نام پر حقائق کو اوجھل رکھنے کی کوشش ، رسمی مذمت  اور جذباتی ماحول ،اورخوف کی فضائیں تخلیق کرکے  غیر معمولی حالات کا نام دے کربیرونی طاقتوں کے فائدے کے قوانین کی منظوری  اصل کامیابی اور حل سمجھا جاتا ہے۔  المیہ تب ہوتا ہے کہ جب دشمن اپنی چالاکی وہوشیاری کو بروئے کار لاکر اس حد تک حواس باختہ کردے اور اپنے آپ کو اس حد تک خفیہ رکھے کہ وہ  وار پر وارکرتا رہے ، مگر آپ  فیصلہ ہی نہ کر سکیں کہ وار کرنے ولا کون ہے۔  دشمن پے درپے ضرب اس مقصد کے لئے لگاتا ر ہے کہ سوچ بچار کاموقع ہی نہ ملےاورآپ   حواس باختگی کے عالم میں اِدھر اُدھر  لپٹ جھپٹ کر حملہ کرتےر ہیں۔ یہ ہے ہلاکت وبربادی کہ جس میں پاکستان کے مسلمانوں کو مبتلا کردیا گیا ہے۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ قول وعمل میں تضاد بہت مستحکم ہوچکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ یہ  تضاد ناسمجھی ،سادگی یا بے وقوفی کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم کا  لہو بیچنے کے لئے ہے ۔  کیا یہ بہت عجیب بات نہیں کہ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے اور دوسری طرف امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر جیسے بد نام زمانہ تنظیموں کو باقاعدہ ویزے جاری کئے جائیں اور انہیں ہر جگہ آزادانہ ،اسلحہ اور جاسوسی کے آلات سے لیس ،بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیوں میں پھرنے کی اجازت بلکہ تحفظ  فراہم کیاجائے؟  یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ بڑے بڑے سانحے ہوتے رہے اور اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے کمیٹیاں بنانے ،اتفاق رائے وغیرہ جیسے غیر ضروری کاموں میں وقت صرف کیا جائے ،کیا یہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ اخلاص ہے ؟

 

آج کل اکثر جنگیں اسٹریٹجک بنیادوں پر لڑی جاتی ہیں۔بالخصوص امریکہ کی اگر ہم بات کریں۔  مثلاً    بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے کر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں،مگر یہ دھمکی عوام کے لئے تو دھمکی ہوسکتی ہے،اصحاب اقتدار کے لئے نہیں ، اس لئے کہ یہ سب کچھ گٹھ جوڑ کے بعد ہوتا ہے ۔  امداد کے نام پر سیاسی وعسکری اور اقتصاد ی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا، ایجنٹ اشخاص وحکومتیں،مبہم اصطلاحات :جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ،انصاف،انسانیت وغیرہ، وہ ہتھکنڈے ہیں جنہیں استعماری منصوبہ ساز اپنے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بروئے کار لاتے  رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  آج تک دہشت گردی کی تعریف ہی متعین نہیں کی جاسکی  بلکہ آج کل  "سہولت کاروں" کی جو اصطلاح نکلی ہے ،اُن سے کون لوگ مراد ہیں؟  کوئی واضح تعین نہیں۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ ایسے مواقع پر صرف موم بتیاں جلا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور دشمن کی چال میں آکر اس کانام لینے کے بجائے اس کو گالیاں دیتےاور لعنت بھیجتے  ہیں جنہیں  دشمن ان سے  دلوانا  چاہتا ہے۔ یوں دشمن کے منصوبے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہمارے بچوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔   یہ کام اکثر لوگ سطحیت کی وجہ سے کر رہے ہیں مگر اس کااصل سبب  صاحبان اقتدار ہیں جو میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور میڈیا  اصل حقائق جاننے کے باوجود  انہیں بیان نہیں کرسکتا ۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسا اشتعال انگیز ماحول قائم ہوجاتا ہے کہ  ایک طرف  خون کی ندیاں بہتی ہیں  جبکہ  دوسری طرف اسی ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصل ذمہ داروں عوام کے سامنے بے نقاب نہیں ہوتے۔  ایسے میں اگر کوئی حقائق جاننے کی بات کرتا ہے تو اس کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔اور بے سروپا دلائل کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔   ہونا تو یہ چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟  اصل مسئلہ کہاں ہے اور کیسے حل کریں؟ مگر ہائے رے کم نصیبی!

 

ایسے مواقع پر سربراہان ِقوم مسئلہ کاحل ڈھونڈنے کے لئے اکٹھے ہوکر سنجیدگی سے سوچتے ہیں ،مگر جب قیادت ہی بکی ہوئی ہو تو آپ خود سوچئے ، کیا ہوگا؟  ابہام درابہا م درابہام ! سنجیدگی کا سب سے  اولین تقاضا یہ ہے کہ  اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا جائے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کریں ۔تاکہ کوئی ابہام نہ رہے، لیکن یہاں ایسا نہیں۔

اگر ہم اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہم نے مندرجہ ذیل کام  طےکرنے ہوں گے:

1-      دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے۔

2-      اس تعریف کا مصداق کون کون ہے، ان کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا سنائی جائے۔

3-      کیا قابض کفار کے خلاف جہاد دہشت گردی ہے؟اس کو واضح کیا جائے  اور اسی کی روشنی میں  افغانستان کی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ   کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔

4-      ہمارے چھوٹے بڑے تمام فیصلوں کی بنیاد کیا ہونی چاہئے؟

5-      کیا اسلامی نظام کے نفاذ اور اپنے فیصلے قرآ ن وسنت کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ یا اس مقصد کے لئے جدوجہد کرنا انتہا پسندی اور جرم ہے؟۔

6-      کیا  اسلامی نظام سے مسلمانان پاکستان کو محروم رکھنا جرم نہیں؟

7-      یا پھر ایسا ہے کہ اسلام ناقبل عمل ہے؟ جس کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہئے۔

8-      اگر یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے تو کیوں؟

9-      حساس مقامات تک کسی بھی غیر ملکی کورسائی دیناکیا حیثیت رکھتا ہے؟

10-  غیر ملکی حملہ آور یا دہشت گرد حساس مقامات تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ جبکہ ملک کے حالات غیر معمولی ہیں؟

11-  سہولت کار کون ہے؟

یہ وہ  امور ہیں جو اگر طے ہو جائیں تو  ہم اس مخمصے سے بہت جلد نکل سکتے ہیں کہ جس میں پاکستان کے عوام کو پچھلے کئی سالوں سے مبتلا کیا گیا ہے۔ ان سوالات  میں اہم ترین سوال نمبر 4 ہے  ۔ آج تک جن المیوں سے ہم دوچار ہوتے رہے ہیں ،ان کی اصل بنیاد قوم کو بیوقوف بنانے کی پالیسی ہے جس میں ابہام اور عدم شفافیت سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ ہمارے کئی لوگ ایسے ہیں جو اس حوالے سے شک وشبہ کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اس خونریزی ، قتل وغارت گری  اور تباہی وبربادی کا اصل ذمہ دارامریکہ ہے جو براہ راست ان جیسے مذموم کاروائیوں میں ملوث ہے یا کوئی اور۔اور جنہیں یہ یقین کرنا مشکل پڑتا ہے کہ ایک حکمران کس طرح قوم کی عزت وناموس اور جان ومال کے سودوں کا دھندا کرنے میں ملوث ہوسکتا ہے؟  اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطاء فرمائے۔ آمین!

 

تحریر : راغب فاتح

Read more...

مغرب کا تہذیبی دیوالیہ پن اور مغرب سے مرعوب لوگوں کا المیہ

 

کچھ عرصہ قبل امریکہ کی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے سرکاری طور پر اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو شائع کردیا جو کہ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران بنائے گئے طریقہ کار اور اس کے مطابق امریکی سی۔آئی۔اے کا قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق ہے۔   مکمل رپورٹ تو 6000صفحوں پر مشتمل ہے مگر اس کے صرف 400 صفحات کو شائع کرنے کی اجازت دی گئی ۔   لیکن یہ 400 صفحات بھی مغرب اور اس کی حکومتوں کی درندگی  کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کومسلسل چھ دن تک جگائے رکھا گیا اور انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ نیند کے بغیر مسلسل گھڑے رہیں۔اس ذہنی تشدد کے نتیجے میں یہ قیدی نیم پاگل ہو گئے۔    ان میں سے دو قیدیوں کے  پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک قیدی کو یہ گھٹیا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گا تو اس کی والدہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔"مہذب" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے واٹر بورڈنگ تکنیک (technique  Water boarding) بھی استعمال کی جو کہ تشدد کا بدترین اسلوب ہے۔  اس تکنیک میں ایک شخص کے ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس پر بار بار پانی ڈالا جاتا ہے جس سے وہ شخص ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ گویا وہ ڈوب رہا ہے۔  رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو 183مرتبہ اس عمل سے گزارا گیا۔

 

یہ ظالمانہ سلوک کوئی نیا نہیں ہے۔  اس سے پہلے عراق کی ابو غریب جیل میں روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی تصویریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔  اور ماضی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اپنی کالونیوں میں لوگوں کو جن ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے وہ مغرب کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور ایک مخصوص طبقہ مغرب کے متعلق یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔  چنانچہ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو مغرب کی اعلیٰ اقدار کے گن گاتے نظر آتے ہیں اورانہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرہ اجڈ ، جاہل، گنوار اور تہذیب سے عاری ہے، جبکہ مغربی معاشرے مہذب اور بااخلاق ہیں۔  چنانچہ یہ لوگ مغرب کی نقالی کرنے میں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کرنا ،مہذب اورپڑھا لکھا ہونے اورروشن فکری کی علامت ہے۔

 

ان لوگوں کے مغرب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی مادی ترقی ہے۔  بلند و بالا عمارتیں، سائنسی ایجادات، مستحکم حکومتوں کی موجودگی، دولت کی فراوانی، مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں عوام کے لیے اچھی سہولیات کی فراہمی اور ایک منظم نظام کی موجودگی، انہیں اس سوچ کی طرف لے جاتی ہے کہ مغرب کے لوگ اقدار کے لحاظ سے بھی تیسری دنیا خاص طور پر مسلمانوں سے بہتر ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایجادات اور مادی ترقی کے لحاظ سے مسلم ممالک سے کہیں آگے ہے۔  اور یہ ممالک اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور کسی دوسری قوم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خود سے اس کے متعلق غور و فکر کریں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب کے لوگ انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے باقی دنیا  کے انسانوں سے بہتر ہیں یا ان کی تہذیب اور اقدار ہم سے بہتر ہے۔ایسے ممالک کہ جن کے پاس ایک ایسا نظریہ موجود ہو کہ جس میں سے انسانی مسائل کے کے حل نکلتے ہوں ان میں ہمیں یہ صفت نظر آئے گی۔   ماضی میں سوویت رشیا کی بھی یہی صورتِ حال تھی کہ جہاں سوشلزم کے نظریے کے نفاذ نے مادی ترقی اورخوشحالی کو جنم دیا۔مگر ایک نظریئے کی بنیاد پر انسانی مسائل کو حل کرنے اور ان حل کے درست ہونے اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے میں فرق ہے۔  حقیقت یہ ہے مغربی تہذیب جس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار ہے،اس میں سے نکلنے والے  زندگی کے مسائل کے حل کا نفاذ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے ۔یہ کیونکر ہےیہ بحث آج کے موضوع سے الگ ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ جو چیز موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی بذاتِ خودمغرب کے اخلاقی و تہذیبی دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ہے۔

 

اس سے پہلے کہ ہم مغربی تہذیب کی گراوٹ اور مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ اس کے فکری تعلق کو بیان کریں ۔  پہلے اس کنفیوژن کو واضح کر دیا جائے جو کہ مغرب کے بعض لوگوں کے حسنِ سلوک اور خیرات اور رفاحی کاموں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے۔   یہ لوگ بل گیٹس جیسی  مثالیں پیش کرتے ہیں،کہ   فوربز میگزین کے مطابق 2013میں بل گیٹس اور اس کی بیوی نے 2.65ارب ڈالر بیماریوں سے بچاؤ اور تعلیم کی بہتری کے لیے خیرات کے طور پر دیے ۔  میگزین کے مطابق بل گیٹس اور اس کی بیوی اپنی پوری زندگی میں 30.2 ارب ڈالرکی خطیر رقم  خیرات کے طور پر خرچ کر چکے ہیں جو ان کی دولت کا 37فیصد بنتا ہے۔  اسی طرح فیس بک کے کو فاونڈراور سی ای او مارک زکر برگ نے 2013میں خیرات کے طور پر 991ٍملین ڈالر خرچ کیے۔  ایسی مثالوں کو پیش کر کے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ  اگر مغرب کے لوگ مادہ پرست اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر ہی برے ہیں تو پھر ہمیں یہ مثالیں کیوں نظر آتی ہیں۔

اس بحث میں جائے بغیر کے مندرجہ بالا انفرادی مثالوں میں انسانیت کی بہتری اور غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے اخلاص کا جذبہ کس حد تک کارفرما ہے اور کس حد تک یہ دولت واقعی غریب لوگوں کے ہاتھوں میں ہی پہنچتی ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ  اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جس طرح ہر انسان کو دو آنکھیں ، ناک ، کان اور ہاتھوں سے نوازا ہے ، اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ جبلتیں اور عضویاتی حاجات بھی رکھیں ہیں۔ کوئی انسان بھی سانس لیے بغیر، کھانا کھانے بغیریا پانی پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔  یہ اس کی عضویاتی حاجات ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر تین جبلتیں موجود ہیں۔  جبلتِ بقا کہ جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ، جیسا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت و آسائش کی چیزیں ہوں، اگر وہ میچ کھیل رہا ہے تو وہی جیتے، بحث کے دوران اس کی دلیل حاوی ہو، یہ سب جبلتِ بقا کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر جبلتِ نوع بھی موجود ہے جو کہ اسے اس چیز کی طرف ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے بنائے، اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرے، اپنے لیے کنبہ بنائے ،اپنے والدین، بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر اس انسان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبات کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ یہ مغرب کا انسان ہو یا مغرب کا۔  کسی انسان کا زندہ جل جانا، ڈوب کر مر جانا، غربت و افلاس کے ہاتھوں خود کشی کر لینامشرق کے انسان کو بھی افسردہ کرتا ہے اور مغرب کے انسان کوبھی۔ اور جس طرح ایک انسان کو مادی قدر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے انسانی اور اخلاقی قدر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔   اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔  چنانچہ جس طرح وہ دولت کو حاصل کرکے اطمینان اور خوشی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ کسی ڈوبتے ہوئے کی جان بچانے میں اور کسی غریب کی مدد کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔

 

لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی جبلتیں اور ان کی بنا پر جنم لینے والے جذبات  کی تدوین ان افکار کی پر ہو تی ہیں، جو کہ کوئی بھی انسان زندگی کے متعلق رکھتا ہے۔  پس ایک مسلمان کے لیے کسی نبی کی توہین ایک انتہائی قبیح اور ہیجان انگیر حرکت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایسی حرکت کرنے والے شخص کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔   کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ انبیاء کے متعلق کچھ افکار فراہم کرتا ہے۔ یہ افکار ایک مسلمان میں پائی جانے والی جبلتِ تدین (worship instinct)کو ایک خاص شکل دیتے ہیں ۔  پس ایک مسلمان کے جذبات ان افکار کے مطابق ہوتے ہیں جو وہ جبلتِ تدین کو پورا کرنے کے متعلق رکھتا ہے۔  جبلتِ تدین ، جبلتِ نوع اور جبلتِ بقا کے علاوہ وہ تیسری جبلت ہے جو کہ ہرانسان میں پائی جاتی ہے۔اور یہ بھی افکار کے ذریعے ہی ریگولیٹ ہوتی  ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں انبیاء کی توہین اتنا سنگین مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ مغرب کے نزدیک  آزادی اظہارایک درست تصور ہے اور کوئی شخص کسی نبی کے متعلق کوئی بھی تصور رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے۔  یہ تصور مغرب کے ایک سیکولر شخص کی جبلتِ تدین کو متاثر کرتا ہے اور اس کے اعمال اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

چنانچہ جیسا کہ بیان کیا گیاکہ مغرب کے انسان میں بھی جبلتِ نوع موجود ہے جو اسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ان کے لیے ایثار کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف ابھارتی ہے۔  مگر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے سے نکلنے والے افکار کو اپنانے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے لیے آسائشوں کا حصول،اپنے لیے مال و دولت کو جمع کرنا اور انفرادیت پسندی ہر چیز پر حاوی ہے۔کیونکہ سرمایہ دارنہ آئیڈیالوجی ایک مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی ہے کہ جو یہ فکر دیتی ہے کہ  مادی قدرو قیمت کا حصول ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے ۔  اور مال و دولت و آسائشوں کا حصول ہی خوشی و سعادت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا صف اول کا مفکر ایڈم سمتھ اپنی دو کتابوں Theory of Moral SentimentsاورThe Wealth of Nationsمیں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائشوں سے اپنی لیے زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کر سکے۔  اور ہر شخص کی فطرت ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے ہی کام کرتا ہے۔  جب ہر شخص کو اپنی بہتری کے لیے آزاد ماحول فراہم کر دیا جائے اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہو تو معاشرے کے مفادات کا تحفظ خود بخود ہو جائے گا۔   اخلاق کو قوانین کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ لوگوں کو اس معاملے میں آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔    اور کوئی بھی مذہب جو عقائد و رسومات(مذہبی قانونی ضابطوں) کو اخلاق پر ترجیح دیتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور ایک مہذب اور پر سکون معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔  چنانچہ یہ آئیڈیالوجی زندگی کے لیے جو پیمانہ مقرر کرتی ہے وہ نفع و نقصان کا پیمانہ ہے  کہ ایک انسان کسی بھی عمل کوکرتے وقت جس چیز کو مدِ نظر رکھے وہ یہ ہے کہ آیا یہ عمل اس کی ذات کے لیے کس حد تک فائدے کا باعث ہے،  خواہ یہ کاروبار ہو ، ذاتی تعلقات ہوں حتیٰ کہ اخلاق بھی۔  چنانچہ اگر کسی جگہ پر اخلاق دکھانا نفع بخش ہے تو وہاں خوش اخلاقی اور ایمانداری دکھائی جائے گی اور جہاں پر اخلاق دکھانا مادی نقصان کا باعث ہو وہاں اخلاق ، رشتوں ناطوں کی پرواہ نہیں کہ جائے گی۔  یہی وجہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی اور جب تک سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی مغرب میں نافذ ہے مغربی معاشرہ اس صورتِ حال سے چھٹکارہ حا صل نہیں کر سکتا۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا بنیادی عقیدہ سیکولرازم ہے ۔  جو دین کو ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔  اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے لیے نظام بنائے گا۔  جو اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کی عقل اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ معاشرے میں کیاچیز جائز یا قانونی ہونی چاہئے اور کیا چیز ناجائزاور غیر قانونی۔  گویا انسانی عقل ہی اس چیز کو طے کرے گی کہ کیا چیز معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کیا چیز بری ۔پس مغرب کے نزدیک انسانی عقل اس چیز کا تعین بھی کر سکتی ہے کہ اچھا اخلاقی طرزِ عمل کیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں۔  معاشرے کے لیے اچھی یا برے اقدارکا تعین کرنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن انسانی عقل سے جنم لینے والی اس آئیڈیالوجی نے مغرب میں کس طرح تہذیبی  گراوٹ کو جنم دیا ہے، آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

 

مغرب کی گراوٹ ان کے معاشرتی نظام میں سب سے نمایاں ہے۔     بچوں کے ساتھ برے  سلوک کی بات پاکستان کے معاشرے کے متعلق بہت کی جاتی ہے لیکن جب ہم مغرب کے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ضمن میں مغرب کا معاشرہ نہایت بھیانک صورت حال پیش کرتا نظر آتاہے۔   11جنوری 2014ء کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے25سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے طیش میں آ کر اپنی بچی کو پل سے نیچے پھینک کر ہلاک کردیا۔ 30 دسمبر2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا میں ہی پولیس نے ایک جوڑے کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس نے اپنی نوزائدہ بیٹی کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اور وہ بھوک و فاقے سے مر گئی جب کہ اس کی عمر صرف 22 دن تھی۔   21دسمبر2014 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلیا میں ایک عورت نے اپنے سات بچوں اور ایک بھتیجی کو مار ڈالا ، ان بچوں کی عمریں 2سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ 5نومبر2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ نیویارک پولیس نے ایک کروڑ پتی عورت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس کے خلاف الزام ہے کہ اس نے فروری 2010میں اپنے 8 سالہ بیمار بیٹے کو دوائی کی بہت زیادہ مقدار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔   30 اکتوبر 2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک شادی شدہ جوڑے کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنے 9سالہ بیمار بچے کو کھانے کو کچھ نہیں دیا اور وہ اس وجہ سے ہلاک ہو گیا ۔  اس نو سالہ بچے کا وزن کم ہو کر صرف 17 پاؤنڈ رہ گیا تھا ۔   پولیس کو یہ بچہ اس حال میں ملا کہ اس کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی باتھ روم میں پڑی تھی ۔    19اکتوبر 2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک سٹی میں ایک 20سالہ شخص نے اپنی 3 سالہ بیٹی کو صرف اس وجہ سے گلا گھونٹ کراور چھری کے وار کر کے مارڈالا کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پاخانہ کر دیا تھا۔   قائرین یہ وہ اندوہ ناک واقعات ہیں جو محض پچھلے چار ماہ کے دوران خبروں میں آئے، اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ہے مغرب کے معاشرے کی تصویر کی ایک جھلک جہاں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے اس حد تک انفرادیت اور ذاتی خوشی کے حصول کو معاشرے پر حاوی کر دیا ہے کہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کو ایک بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔ اور وہ اسے اپنی زندگی کے خوشیوں میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔  اور جہاں تک  پاکستان کے معاشرے میں بچوں کے ساتھ برے سلوک کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات مغرب کے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں ۔  پاکستان میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے اکا دکا واقعات کی اہم وجہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق افکاراور شعور کی کمی اور بچوں کے ساتھ سخت گیر رویے کے درست ہونے کا تصور ہے۔ مشکل مالی حالات ، زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہونے اور نظام کی طرف سے کسی بھی قسم کی سپورٹ اور رہنمائی کے فقدان کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی جاتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہے مسلم معاشرے اسلام کی دولت سے مالامال ہیں ۔  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

((لیس من امت من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا))

''وہ شخص میری امت میں سےنہیں جوہمارےبڑوں کی عزت کونہ جانےاورہمارےچھوٹوں پررحم نہ کرے"۔

 

جہاں تک نظامِ حکومت اور سیاست دانوں کے طرزِ عمل کا تعلق ہے  توعام طور پر  پاکستان کے عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے ریاستی خرچ کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کس طرح عوام کے خون کو نچوڑ کر جمع کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکس کو بے دردی سےپاکستان کے امیر سیاست دانوں پر دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔اور بعض لوگوں میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے عوامی نمائندوں کی  صورتِ حال ایسی نہیں  ۔  لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔  امریکی کانگریس بھی اسی طرح امیروں لوگوں کا ٹولہ ہے جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کی صورتِ حال ہے۔   امریکہ کے آدھے سے زیادہ عوامی نمائندوں کی دولت ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہے اورامریکی  کانگریس کے دوسوممبران ایسے ہیں جو multi millionaireہیں۔جبکہ پچھلے دو الیکشن کے دوران صرف 13 ایسے لوگ امریکی کانگریس کا حصہ بنے جن کا پس منظر ورکر کلاس سے تھا۔   ایک امریکی کانگریس مین کی سالانہ تنخواہ 174000ہے۔  Weekly Standard Magazineکی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ کے سو ممبران نے پچھلے پندرہ سالوں کے دوران 5.25ملین ڈالر بالوں کی کٹائی پر خرچ کیے۔  جبکہ ایک سال کے دوران ان کا ذاتی اور دفتری خرچہ 4005900ڈالر تھا۔  یہ صورتِ حال بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔  جہاں یہ آئیڈیالوجی ایک شخص کو زندگی کا یہ مقصد دیتی ہے کہ وہ مال و دولت کو اکٹھا کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جئے ، وہاںوہ  ایسا حکومتی نظام بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کے ذریعے مادہ پرست افراد اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں ۔     اس آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والا جمہوری نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منتخب اراکین اپنے مفادات کے مطابق قوانین میں ردو بدل کر کے اپنی  اور اپنےساتھیوں  کی جیبیں بھر سکیں۔  جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہا ں وہاں اشرافیہ کے ایک مختصرٹولے نے قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیاہے کہ  جس کے ذریعے وہ  ایسے  اثاثوں کے مالک بن گئے  جن سے بے پناہ دولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر، بھاری صنعتیں اور اسلحہ سازی کی صنعتیں ۔

 

جہاں تک مغرب کی کاروباری ایمانداری کا تعلق ہے ، تو امریکہ سے جنم لینے والا 2008کامالیاتی بحران جس نے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سرمایہ دار کمپنیاں لوگوں کے اعتماد سے کھیلتی ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھتی ہیں اور غلط معلومات فراہم کر کے ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔  2010میں Goldman Sachsکمپنی نے اس چیز کو قبول کیا کہ وہ 550ملین ڈالرجرمانے کے طور پر ادا کر ے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنے انویسٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔    پچھلے سال رائل بینک آف سکاٹ لینڈ نے 150ملین ڈالر ادا کرنا قبول کیا، اس پر الزام تھا کہ 2007 میں اس نے 2.2ارب ڈالر کے mortagage-backed bondکو فروخت کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر ناجائز ذرائع  استعمال کیے ۔ بینک کے خلاف اس چیز کے متعلق بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چلتے ہوئے کاروباروں کو دیوالیے سے دوچار کیا تاکہ ان کے اثاثوں کو کوڑی کے داموں خرید سکے۔   اکتوبر 2013 میں ڈان نے گارڈین کے توسعت سے  یورپ میں گوشت میں ملاوٹ کا سکینڈل رپورٹ کیا۔ایگلو آئرش پروسیسر کمپنی  یورپ کی سب سے بڑی گائے کا گوشت سپلائی کرنے والی کمپنی ہے۔ ہر ہفتے  50ملین یورپین اس کمپنی کا پروسیس کردہ گوشت استعمال کرتے ہیں ۔اس کمپنی کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔  یہ کمپنی ہالینڈکے بزنس مین ٍSeltenسے گوشت خرید رہی تھی جو گائے کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ  کا دھندا کر رہا تھا۔   Seltenکمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک ملازم نے گارڈین کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سپلائی کے دوران پرانا ڈی فراسٹ ہوا بیف بھی مکس کرتے تھے اور بعض اوقات یہ گوشت اتنا پرانا ہوتا تھا کہ اس کی رنگت سبز ہو چکی ہوتی ۔    دسمبر 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک  رپورٹ شائع کی کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی ملٹی نیشل کمپنیوں نے  ٹیکس بچانے کے لیے اپنے قانونی ایڈریس کیمن جزیرہ، لکسمبرگ، برمودہ وغیرہ میں منتقل کر رکھے ہیں جہاں ٹیکس یا تو انتہائی کم ہے یا بالکل  صفر ہے۔  اس کے لیے وہ کسی چھوٹی سے کمپنی کے ساتھ اپنا mergerبناتی ہیں اور پھر اس کمپنی کے لیے ایسے ممالک کا پتہ رجسٹر کرواتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔  ایک اندازے کے مطابق یوں یہ کمپنیاں 100ارب ڈالر ٹیکس کی مد میں چوری کر  رہی ہیں۔

 

جہاں سرمایہ دارانہ آیئڈیالوجی سے جنم لینے والی مادیت پرستی نے ایک عام انسان، حکومتی اشرافیہ و سیاستدانوں کی فطرت کو مسخ کیا ہے وہاں مغرب کا مذہبی طبقہ بھی اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔جنوری 2012میں کیتھولک چرچ کا سکینڈل منظر عام پر آیا جسے Vatileak Scandalکا نام دیا گیا ۔  پوپ بینی ڈکٹ کے بٹلر Paolo Gabrieleنے ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات لیک کیں جن میں وہ خطوط بھی شامل تھے جو پوپ بینی ڈکٹ اور ویٹیکن کے دیگر عہدیداروں کو ویٹیکن کے اندرونی معاملات کے متعلق مختلف لکھے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ویٹیکن طاقت کی کشمکش، سازشوں، دھڑے بندیوں اور مالیاتی کرپشن کی منظر کشی کرتی ہیں۔ان معلومات کو بنیاد بنا کر اٹلی کے صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام : His Holiness: The Secret Papers of Benedict XVIہے۔  جس میں چرچ کی کرپشن کا پرہ چاک کیا گیا ہے ۔  24اکتوبر 2013 کو رائٹرز نے رپورٹ کیاکہ پوپ فرانسس نے جرمنی کے بشپ کو اس کے علاقے کی ذمہ داری سے سے ہٹا دیا ہے کیونکہ اس نے چرچ کے فنڈ میں سے  31ملین یورو محض اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیےتھے۔  جائزے کے مطابق گھر کے باتھ روم میں لگے ہوئے سٹینڈنگ باتھ کی مالیت 15000یورو ہے، جو کہ پاکستانی روپے میں 17لاکھ پچاسی ہزار روپے بنتی ہے۔  جبکہ گھر میں رکھی گئی کانفرنس ٹیبل25000یورو(29لاکھ 75ہزار روپے) کی ہے۔   اس شاہ خرچی کی بنا پر جرمنی کے بشپ کو میڈیا میں "luxury bishop"کا خطاب دیا گیا۔

اور وہ مغرب جو مسلم معاشروں پر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ، تشدد اور عدم برداشت کا الزام لگاتا ہے اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں واویلا مچاتا رہتا ہے، خود اس کے اپنے معاشرے کی صورتِ حال کیا ہے اس کا پول یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی(FRA)کا سروے کھول کر بیان کرتا ہے۔  یہ سروے 2014 میں 28 یورپی ممالک میں کیا گیا، جس میں 42000عورتوں کے انٹرویو لیے گئے جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔  سروے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو15سال کی عمر کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہر بیس میں سے ایک عورت کی عزت مرد کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو اپنے خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی ظلم و تشددکا سامنا کرنا پڑا۔   رپورٹ کے مطابق  صرف 14 فیصد عورتیں ان زیادتیوں کے متعلق پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں   ۔  یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ معاشرہ جو مرد و عورت کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں کی عورت کتنی مظلوم ہے۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی یہ تصور دیتی ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد چھوڑ دینا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔  پس ہر انسان کو عقیدہ، رائے کے اظہار،ملکیت اور ذاتی زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے اور اس پر کوئی قدغن یا روک ٹوک ہونا درست نہیں۔  خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ایسا کرنا تو دقیانوسیت اور پسماندگی ہے۔  لیکن یہ آئیڈیالوجی انسان کو خوشی اور اطمینان کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔  اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے جو مغرب کے صحت کے ادارے اپنے معاشرے میں ڈپریشن Depressionکے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے متعلق فراہم کرتے ہیں۔   امریکہ میں اس وقت ادویات کے استعمال کے لحاظ سے امراض قلب کی دوائیں سرفہرست ہیں۔  اس کےبعددوسرا نمبر ڈپریشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ہے۔  اور ایک اندازے کے مطابق 2020تک ڈپرشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات پہلے نمبر پر آجائیں گی۔

 

قارئین یہ ہے مغرب کے معاشرے کا اصل چہرہ جسے ہم سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔  اور ہمارے سیاست دان ، حکمران اور لبرل طبقہ رٹو طوطے کی طرح دن رات مغرب کے گن  گاتے رہتے ہیں تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ مغرب کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیں بلکہ مغرب کی اس ذلت آمیز غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کریں۔

آج مغرب سمیت پوری دنیا کو اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس سے پھوٹنے والے نظامِ خلافت کی ضرورت ہے جس نے ماضی میں بھی انسانیت کو اعلیٰ اقدار اور تہذیب و اخلاق سے بہرہ ور کیا اور آج بھی اسلام کی آئیڈیالوجی ہی مغرب کی پست اور ناقص تہذیب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

 

ڈاکٹر افتخار

 

 

Read more...

حکومت کی جانب سے فاش غفلت کا سبب جمہوری سیاست ہے جبکہ پاکستان میں 115 افراد طوفانی بارش میں لقمۂ اجل بن گئے

 

تحریر: انجینئر سہام، پاکستان
حال ہی میں پاکستان کے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصّوں میں شدید بارش کے بعد پانی کے چڑھاؤ کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 115 تک پہنچ گئی، جبکہ کئی اور لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اموات چھتیں گرنے، ریزشِ زمین اور بجلی کے جھٹکے لگنے سے واقع ہوئیں ہیں۔ بعض شہروں میں ہونے والی بارش کی مقدار 130 ملی میٹر سے زائد ہے۔ پاکستان کے محکمۂِ موسمیات نے شمال مشرقی پنجاب اور کشمیر میں موسم شدید ہونے کی تنبیہ جاری کی ہے اور ان کا بیان ہے کہ مزید شدیدبارش متوقع ہے جس کی وجہ سے مزید سیلاب آ سکتے ہیں۔
پاکستان میں طغیانی بارش اور سیلاب ہر سال پابندی سے واقع ہوتے ہیں، مگر جمہوری حکومتیں اس بات سے قاصر ہیں کہ وہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے موزوں اقدامات کرسکیں۔ پاکستان کے لوگ پچھلے کم از کم چار سالوں سے جان لیوا مون سون سیلابوں کا شکار ہیں۔ 2013ء میں ملک بھر میں سیلاب آنے کی وجہ سے 178 افراد ہلاک ہوئے اور کچھ 15 لاکھ شدید متاثر ہوئے۔2012ء میں 520 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 1180 سے زائد تھی۔ 2010ء کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ایک بڑے انسانی بحران کی صورت اختیار کر لی تھی، اور اس میں 1800 ہلاکتیں ہوئیں اور 12 ملین لوگ متاثرین میں سے تھے۔ پچھلے تین سالوں سے پاکستان عالمی موسمی خطرات کی فہرست، جسےانصاف کے عالمی مسائل پر نظر رکھنے والی این-جی-او جرمن واچ نے ترتیب دیا ہے، میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ 2010ء میں پاکستان ملک گیر سیلابوں کی وجہ سے موسمی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ملک کے طور پر درج تھا، اور 2011ء میں وہ اس ضمن میں تیسرے نمبر پر تھا۔
پچھلے چار سالوں میں مسلسل سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کوئی مناسب عملی اقدامات نظر سے نہیں گزرتے۔ این-سی-سی-پی (قومی موسمی تبدیلی حکمتِ عملی) جسے پچھلے سیلابوں کے بعد عوام کے غم وغصے کے ردعمل کے طور پر جاری کیا گیا تھا، اب پس منظر میں چلی گئی ہے۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں اقتدار میں آنے کے بعد جلد ہی ن-لیگ نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کو گھٹا کر محض ایک ڈویژن بنا چھوڑا اور اس کا بجٹ بھی بہت کم کر دیا گیا کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت عوام کی نظر میں عملی اہمیت کا حامل نہیں تھا۔
اس موجودہ سانحے میں وزیرِ اعظم کو طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہی سے آگاہ ہونے میں ہی کئی دن لگ گئے۔ اتنی تاخیر کے بعد بھی محض ایک عمومی ہدایت جاری کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے، کہ تمام اہم شاہراہیں جو بارش کی وجہ سے منقطع ہوگئیں ہیں ان کی جلد از جلد مرمت کی جائے تاکہ امدادی کام تیز رفتاری سے عمل میں لایا جائے۔ مزید یہ کہ این-ڈی-ایم-اے کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جائے۔ تھوڑی بہت عقل سمجھ رکھنے والا بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان ساری ہدایات سے انسانی جانیں بچانے میں کیا مدد ملے گی؟ مگر وزیرِاعظم صاحب کو سب سے زیادہ فکر شاہراہوں کے صاف ہونے کی ہے تاکہ افغانستان پر قابض نیٹو افواج کو پہنچنے والے ہتھیاروں، سور کے گوشت اور شراب کی رسد میں کوئی تعطل نہ پیدا ہونے پائے، جیسا کہ 2010ء میں بھی اس معاملے کو انسانی جانیں پچانے سے زیادہ اہمیت حاصل تھی ۔
پاکستان کی عوام ہلاکت اور بربادی کا سامنا کر رہی ہے، جبکہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے سیاسی تماشے سے فرصت نہیں ہے، جس میں وہ اپنے دھرنوں اور سڑکوں پر جشن منانے ، اسمبلی میں بیٹھ کر کھوکھلی تقاریر پر تالیاں بجانے اور الزامات کے اسی تبادلے میں مصروف ہیں جو کہ ماضی قدیم سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ لہٰذیکم ستمبر 2012ء میں جب انگریزی روزنامہ ٹریبیون (Tribune) کی ایک خبر کے مطابق بارش اور سیلاب کی وجہ سے کم از کم 78 ہلاکتیں ہوئیں توعمران خان کی پارٹی پی-ٹی-آئی نے پنجاب کی ن-لیگی حکومت پر اعتراض کیا کہ انہوں نے سیلاب آنے کا انتباہ جاری نہیں کیا اور موسمیاتی مسائل کے لئے صرف6 ارب روپے مختص کیے۔ اسی طرح جب اگست 2014ء کے وسط میں شدید بارشوں نے کم از کم 16 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 80 سے زائد زخمی ہوئے تو وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک "آزادی مارچ" میں کنٹینر پر ناچنے میں مگن تھا، جس بات پر ن-لیگ سمیت کئی سیاسی حلقوں نے اس کی مذمت کی۔ جمہوریت میں سیاست دانوں کا کردار روم کے شہنشاہ نیرو کی طرح کا ہے کہ جس اثناء میں شہر جل رہا ہے، وہ بانسریاں بجانے میں مشغول ہیں۔
جمہوری حکومت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ جمہوریت کے علمبردار سیاست دان، حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، ڈھٹائی سے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے جمہوری حکومتوں کی انسانی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی بنیادی وجہ دراصل جمہوریت کی اپنی اصلیت ہے۔ جمہوری طریقِ کار لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص سیاسی طبقۂِ اشرافیہ کے منافع کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ جہاں بھی جمہوریت کا وجود ہے، وہاں ایک اونچے طبقے کی طرف سے کیے جانے والا عوام کا استحصال اور لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی لا محالہ پائی جاتی ہے ۔ مغربی جمہوری نظاموں میں بھی امیر ترین لوگ وہی ہیں جن کہ ہاتھ میں براہِ راست یا بالواسطہ سیاسی طاقت کی کنجیاں ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو جمہوریت کے تحت انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے جائز اور قانونی عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ لوگوں کے حقیقی مسائل پر ان کا انتہائی سست اور ناکافی ردعمل جس کی وجہ سے عوام کا غم وغصہ بھڑک اٹھا ہے کاترینا طوفان جیسے کئی قدرتی سانحوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کاترینا طوفان اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں میں کم از کم 1833 افراد مارے گئے، جس کا مطلب ہے کہ یہ 1982ء کے بعد امریکہ میں آنے والا سب سے مہلک طوفان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طوفان میں 108 ارب 2005ء کے امریکی ڈالر کی مالیت کی جائد2اد کا نقصان ہوا۔ کانگریس نے جب وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ردِعمل کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ ریڈ کراس اور FEMA کے پاس "رسد کی وہ موذوں استعداد نہ تھی جس سے وہ خلیج کے ساحل کے متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کی مدد کر سکیں"۔ اس تفتیش کا نتیجہ یہ تھا کہ اس سانحہ میں ہونے والے جان و مال کے نقصان کی ذمہ داری حکومت کی تینوں سطحوں پر عائد ہوتی ہے۔ طوفان کے متاثرین کی امداد کیلئے پیسے جمع کرنے کیلئے امریکہ میں کانسرٹ منعقد کیا گیا، جس میں کانسرٹ کی تمام تررقم طوفان کے متاثرین کیلئے تھی۔ اس موقع پر موسیقار کانیے ویسٹ نے مرتب کئے ہوئے گانے کے الفاظ سے بالکل ہٹ کر حکومتی ردعمل پر سخت تنقید کی اور کہا کہ: "جارج بش کو 'کالے آدمیوں' کی پرواہ ہی نہیں ہے"۔ یہ ہے جمہوریت میں سیاست کی حقیقت کہ سیاست دانوں کو صرف اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ کسی طرح وہ ایک اور ٹرم کو یقینی بنا سکیں تا کہ زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل کیا جا سکے جبکہ ان کی توجہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کی طرف ہونی چاہئے تھی۔
لوگوں کے معاملات سے غفلت برتنا جمہوریت کا ایسا جزولاینفک ہے کہ نتیجتاً جمہوریت کی طرف وہی لوگ مائل ہوتے ہیں جو فطری طور پر بے درد، مکار اور لالچی ہوتے ہیں۔ ماکیاویلی نے اپنی مشہور کتابThe Prince میں سیاست سے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے وہ کچھ یوں ہے: "رہنماؤں کو ہمیشہ اپنے اصل مقاصد پوشیدہ رکھنے چاہییں، انہیں اپنی باتوں میں تضاد سے پچنا چاہیے اور بیشتر اوقات رحمدلی، ایمان، انسانیت، شفافیت اور مذہب سے عاری ہوکر اپنا کام کرنا چاہیے کیونکہ یہی ریاست کی بقا کی ضمانت ہے"۔ جیمز جانسن جو کہ CAS میں تاریخ کا ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے، جس نے 1996ء میں بہترین معلم کا تمغہ Metcalf حاصل کیا تھا، اس سے کسی موقع پر پوچھا گیا : "آپ کے خیال میں ماکیاویلی کا موجودہ امریکی سیاست کے بارے میں کیسا تاثر ہوتا؟"۔ اس نے جواب دیا: "وہ اپنے مشہور ناقابلِ فہم انداز میں مسکراتا، جیسے کہ کہہ رہا ہو کہ یہ تو کچھ جانا پہچانا لگتا ہے"۔ فلپ بابٹ جو دیگر کئی قابل ذکر کتابوں کے ساتھ ساتھ The Shield of Achilles, War, Peace and the Course of History کا مصنف ہے، اس نے لکھا ہے کہ: "ماکیاویلی امریکی دستور کا روحانی باپ ہے"۔
اگر واشنگٹن کے آقاؤں کا یہ حال ہےتو ہم ان کے ایجنٹوں اور پتلوں سے اس سے بہتر کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ موجودہ وزیرِاعظم کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پنجاب نے 2012ء میں صرف 11 ماہ میں میٹروبس پراجکٹ؟ مکمل کرلیا۔ اس پراجکٹے سے اس کا ذاتی تعمیراتی مفاد پورا ہوا اور اس کو اس نے الیکشن کی مہم میں سیاسی کارڈ کے طور پر بھی استعمال کیا۔ تاہم اس سارے وقت میں ہنگامی صورتحال کیلئے سیلاب سے محفوظ ٹھکانے تعمیر کروانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جاسکے۔ نکاسی کے نظام کے متعلق ایک WASA کے اہلکار کا یہ کہنا ہے کہ" دسمبر میں WASA نے ضروری نقشے، خاکے اور پانی اور نکاسی کے نظام سے متعلق اہم معلومات ترکی کے ماہرین کے پاس بھیجیں تاکہ وہ نکاسی کے نظام میں بہتری لانے کے بارے میں تجاویز دے سکیں"۔ ترکی کے ماہرین نے WASA کو یہ تجاویز دیں کہ وہ گٹرکے نالے اور بارش کے پانی کیلئے نالے الگ الگ متعین کردیں تاکہ بارش کے موسم میں یہ نالے رکاوٹوں کی وجہ سے بند نہ ہوجائیں ۔ انہوں نے یہ بھی رائے دی کہ حسبِ ضرورت نئے نالے بننے چاہییں اور پُرزور الفاظ میں یہ بھی کہا کہ سارا انحصار ان بیسیوں سال پرانے مجموعی نکاسی کے نظام پر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ شہر میں ایسے پانی صاف کرنے والے پلانٹ ہونے چاہییں جن کا پانی پھر آبپاشی کیلئے استعمال ہوسکے، نہ کہ اس کا رخ دریا کی طرف موڑ دیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ لوگوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے گھریلو کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں بجائے اس کے کہ وہ سڑکوں اور گلیوں میں اڑتا پھرے۔ ان تجاویز پر سرے سے کبھی غور ہی نہیں کیا گیا۔
اسلام نے سیاست کا مطلب لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا متعین کیا ہے اور اس کو ایک فرض عمل قرار دیا ہے جس کی عدم ادائیگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکمران قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: كَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تُسَوِّسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَسَتَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَتَكْثَرُ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: فُوْا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، وَأَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ [مسلم] "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی کی وفات پاتا تو اس کی جگہ ایک اور نبی لے لیتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، البتہ خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ایک کے بعد دوسرے کی بیعت کو پورا کرو اور انہیں ان کا حق دے دو کیونکہ اللہ یقیناً ان سے ان کے بارے سوال کرے گا جن کو اس نے ا ن کی رعیت میں دیا"۔ اور رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِه [مسلم] "تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا حکمران اپنے لوگوں کا رکھوالا ہے اور ان کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ آدمی اپنے گھر والوں کا رکھوالا ہےاور وہ ان پر ذمہ دار ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی رکھوالی ہے اور اس پر ذمہ دار ہے اور ایک آدمی کا غلام اس کے مال کا رکھوالا ہے اور اس پر ذمہ دار ہے۔ پھر سن لو، یقیناً تم میں سے ہر کوئی ایک رکھوالا ہے اور اپنی رعیت کیلئے ذمہ دارہے" ۔ حضرت عائشہؓ نے روایت کیا: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي بَيْتِي هَذَا 'اللَّهُمَّ مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَشَقَّ عَلَيْهِمْ فَاشْقُقْ عَلَيْهِ وَمَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِي شَيْئًا فَرَفَقَ بِهِمْ فَارْفُقْ بِهِ' [مسلم] "میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے اس گھر میں یہ کہتے ہوئے سنا: 'اے اللہ جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس نے ان سے سختی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے سختی کا معاملہ کر اور جس کو میری امت کے کچھ امور کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے ان سے نرمی کا معاملہ کیا تو تُو بھی اس سے نرمی کامعاملہ کر'"۔ اور فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [بخاری] "کوئی حکمران ایسا نہیں جس کو مسلمانوں کی رعیت کی ذمہ داری دی جائے اور وہ ان سے خیانت کرتا ہوا مرے، اِلّا یہ کہ اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے"۔
لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں سیاست دان امت کے امور کی دیکھ بھال میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کو جب حکمرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے کہا : "اگر عراق کی سرزمین میں ایک جانور بھی ٹھوکر کھائے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ اس کا حساب بھی مجھ سے لے گا کہ میں نے سڑک کیوں مرمت نہ کروائی"۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مکہ میں سیلاب آیا تو آپؓ نے حکم دیا کہ کعبہ کی حفاظت کیلئے دو بند تعمیر کیے جائیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے مدینہ میں بھی بند تعمیر کروائے تاکہ چشموں کے ابلنے سے سیلاب نہ آجائے اور اس طرح سیلاب کی وجہ کو جڑ سے ہی ختم کروادیا۔ مزید برآں، ایک قحط کے دوران، حضرت عمرؓ نے مصر میں ایک نہر کی تعمیر کا حکم دیا جو دریائےِ نیل کو سمندر سے متصل کرتی تھی۔ اس نہر کا مقصد یہ تھا کہ بحیرہ عرب کے راستے (حجاز تک) غلہ کی ترسیل کو آسان کیا جا سکے جبکہ اس سے قبل غلہ صرف زمینی راستے سے منتقل ہوا کرتا تھا۔ یہ نہر حضرت عمروؓ بن العاص کی نگرانی میں ایک سال کے اندر اندر پایۂ تکمیل تک پہنچ گئی۔ سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ اس کے بعد سے سرزمینِ حجاز کو آنے والے تمام وقتوں کیلئے قحط سے نجات مل گئی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہوریت ایسے سیاست دانوں کو جنم دیتی ہے جن کو برسرِ اقتدار صرف اپنے مفاد کی پرواہ ہوتی ہے اور ان کو لوگوں کا خیال صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اتنا خوش رکھیں کہ اگلے الیکشن میں ان کی کرسی پکی رہے۔ مسلمان آج جن جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں ان کا واحد حل یہ ہے کہ جمہوریت کا قلع قمع کر کے خلافت کا نظام قائم کیا جائے۔ جو مخلص اور باخبر سیاست دان آج خلافت کیلئے کام کر رہے ہیں وہ اس وقت پھر ایسا ماحول قائم کریں گے کہ مخلص سیاست دانوں کی پوری ایک نسل کے لئے زمین ہموار ہو جائے اور یہ ایسے لوگ ہوں گے جو کہ امت کے امور کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بھی ہوں گے اوروہ تخلیقی انداز میں یہ کام سرانجام دیں گے۔

Read more...

خبر اور تبصرہ خلافت لائن آف کنٹرول کو مٹا کر کشمیر کے مسلمانوں کو آزاد کروائے گی

خبر: ایک بیان میں پاکستان آرمی نے کہا کہ کیپٹن سرفراز "لائن آف کنٹرول پر شکمہ سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال گولہ باری کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے"۔ اسی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ 16 ستمبر کی رات سوا گیارہ بجے ایک اور سپاہی اس وقت شدید زخمی ہوا جب بھارتی افواج نے سکردو کے قریب شکمہ سیکٹر میں فائرنگ کی۔ نریندر مودی نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ کشمیر میں بالواسطہ جنگ کررہا ہے۔ بھارتی حکومت کی پریس انفارمیشن بیورو کی ویب سائٹ کے مطابق مودی نے کہا کہ فوجی "جنگ سے زیادہ دہشت گردی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں"۔

تبصرہ: حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں واقع لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول مسلم کشمیر سے گزرنے والی وہ لکیر ہے جس نے کشمیر کو آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی جانب رہنے والے شہریوں اور فوجیوں کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک و زخمی اور املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ شروع میں الیکٹرونک میڈیا نے ان واقعات کو زیادہ نمایاں طور پر نشر نہیں کیا کیونکہ ان کی پوری توجہ دارلحکومت اسلام آباد میں ہونے والے دھرنوں پر تھی۔ اس کے علاوہ واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی ہدایت کے مطابق راحیل-نواز حکومت نے بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ ایسا کرنا بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے عمل کو نقصان پہنچا سکتا تھا ۔ لیکن جب یہ واقعات تواتر سے ہونے لگے اور الیکٹرانک میڈیا نے بھارتی جارحیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو نمایاں طور پر نشر کرنا شروع کیا تو راحیل-نواز حکومت بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئی۔
پاکستان نے کشمیر سے متعلق اپنے موقف کو اس وقت تبدیل کیا جب 1996 میں کلنٹن انتظامیہ نے بھارت کو اپنے اثرورسوخ کے دائرےمیں داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس سے قبل امریکہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا تھا اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے کا حامی تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلہ کو بھارت کو پریشان کرنے اور دباؤ میں لانے کے لئے ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ لہٰذا 1947 سے 2000 تک امریکہ نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر بھارت کو شرمندہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اس عہد میں پاکستان نے کشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی، مالی بلکہ فوجی مدد بھی کی اور پاکستان بھر میں کشمیری جہادی تنظیموں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بھارت نے پاکستان کی جانب سے دخل اندازی کو روکنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر پانچ سو کلومیٹر طویل لوہے کی باڑ لگانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتا تھا کیونکہ جب بھی بھارت یہ باڑ لگانے کی کوشش کرتا پاکستانی فوج زبردست فائرنگ اور گولہ باری شروع کردیتی تھی۔ لیکن جب امریکہ نے بھارت کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے ڈنڈے کی جگہ گاجر کی پالیسی اختیار کی تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو امریکہ کی پالیسی کے مطابق ڈھال دیا۔ اس کے بعد کشمیری جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کی سرگرمیوں کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے فوراً 2004 میں 500 کلومیٹر طویل باڑ کو لگانے کا کام پاکستانی فوجیوں کی جانب سے بغیر کسی مزاحمت کے مکمل کرلیا اور مشرف نے کشمیر کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کا ایک نیا حل پیش کیا جس کے مطابق دو حصوں پر پاکستان، دو حصوں پر بھارت کا براہ راست کنٹرول ہوگا جبکہ وسطی کشمیر پر قوام متحدہ کی زیر نگرانی پاکستان اور بھارت کا مشترکہ کنٹرول ہوگا۔
بھارت میں بی۔جے۔پی کی حکومت بن جانے کے بعد امریکہ بہت پُرامید ہے کہ مودی بھارت کی اسٹبلشمنٹ اور دانشوران کو کشمیر کے مسئلے کو امریکی منصوبے کے مطابق حل کرنے پر راضی کرلے گا۔ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پہلے مودی کو اپنے متعلق ایسا تاثر مضبوط کرنا ہے کہ وہ ایک سخت گیر آدمی ہے جو پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور پاکستان سے ہر وقت پنجہ آزمائی کے لئے تیار رہتا ہے چاہے اس کی نوعیت فوجی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تاثر مودی کو اس قابل کرے گا وہ بھارت میں موجود تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا ہمنوا بنا سکے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کا تعلق ہے تو انہیں کوئی شرم نہیں، لہٰذا وہ مسلمانوں کے حقوق کی پروا کیے بغیر ہر وہ حل قبول کر لیں گے جو امریکہ پیش کرے گا۔
پاکستان کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، ہر حکمران نے مسئلہ کشمیر کو امریکی مفاد میں استعمال کیا ہے۔ کشمیر اور اس کے لوگوں کو صرف خلافت ہی آزادی دلوا سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے یہ فرض ہے کہ مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرایا جائے۔ لہٰذا آنے والی خلافت مسلم علاقوں کے درمیان موجود سرحدوں کو مٹا دے گی، ان میں موجود مادی اور فوجی وسائل کو یکجا کرے گی اور ان کی مدد سے ایک ناقابل شکست مسلم افواج اور مجاہدین کی ملین فوج تیار کرے گی جو سری نگر کی جانب مارچ کریں گے اور ایک بار پھر کشمیر میں اسلام کا جھنڈا سربلند کریں گے۔
وَأَنْفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِ يكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوۤاْ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ
"اللہ تعالیٰ کی راہ (جہاد) میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالٰی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے" (البقرۃ:195)

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

یورپ کے اندرونی اختلافات، امریکہ-یورپ تعلقات اور ریاست ِ خلافت کا اِن کے خلاف ممکنہ لائحہ عمل


تحریر:کامران شیخ
آج کا یورپ جو یورپی یونین کی شکل میں بظاہر متحد نظر آتا ہے۔ اپنی بنیادوں میں وطن پرستی (Nationalism)، منفعت اور خود غرضی کی اساس پر مبنی سوچ اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کے خون بہا نے و الی جنگوں کا خوفناک ماضی لئے ہوئے ہے۔
یورپی ممالک نے ایک دوسرے کو اٹھارویں اور انیسویں صدی میں بالعموم اور بیسویں صدی میں بالخصوص جنگوں کی شکل میں شدید نقصان پہنچایا تھا۔ آخر کار اپنے خونریز ماضی سے پیچھا چھڑانے کیلئے جنگ عظیم دوئم کے بعدیورپ نےمعاشی بنیادوں پر متحد ہونے کا فیصلہ کیا اور 1951 میں European Coal and Steel Community اور 1958ء میں European Economic Community کی بنیاد ڈالی تاکہ یورپ کو معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جو انہیں مجبور کردے کہ آپس کے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں اور اپنی عوام، جو کہ صدیوں کی جنگوں اور ناقص معاشی پالیسیوں سے بیزار تھی، کی خوشحالی اور مادی ترقی کے لیے کام کریں۔ شروع میں یورپ کے صرف چھ ممالک فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، اٹلی اور لگسمبرگ نے اِن دو اداروں کی بنیاد ڈالی اور یورپ میں موجود وسائل کو مشترکہ پالیسیوں کے تحت سمیٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یورپ کے باقی ممالک بھی اِن پلیٹ فارمز پر شامل ہونا شروع ہوئے۔ آخر کار سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اور کمیونزم کے زوال کے بعد 15 یورپی یونین کے ممالک نے اِن دو اداروں کو Maastricht Treatyکے تحت 1993ء میں یورپی یونین کی شکل دی تا کہ معاشی فوائد کے علاوہ سیاسی طور پر بھی اس طرح متحرک ہوا جائے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکیں اور اگر ممکن ہو تو دنیا کے افق پر امریکہ کے علاوہ یورپی یونین کو بھی ایک مضبوط سیاسی طاقت کے طور پر منوایا جا ئے۔ اس خواہش کو رکھنے والے ممالک میں یورپ کے دو ستون جرمنی اور فرانس پیش پیش تھے جبکہ موجودہ یورپی یونین میں اب 28 ممالک شامل ہیں۔ ایک اہم بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یورپ کو اکٹھا کرنے کے محرکات معاشی سے زیادہ سیاسی تھے جن میں سب سے اہم یورپ کو دوبارہ جنگوں میں ملوّث ہونے سے روکنا تھا جو بار بار وطن پرستی (Nationalism) اور مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے پھوٹ پڑتی تھیں۔
1993ء میں یورپی یونین نے اپنے قیام کے بعد قابل ذکر حد تک معاشی ترقی کی اور کئی اقدامات کے ذریعے اپنے آپ کو امریکہ کے سامنے ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر لا کھڑا کیا۔ یورپ کے ممالک کو آپس میں مزید مربوط کرنے کے لیے کئی پالیسیز بھی نافذ کی گئیں جن میں پہلے سے نافذ یورپ کی Singly Market یعنی Free Trade Zone کے علاوہ یورپی یونین میں شامل تمام ممالک پرداخلی طور پر عدلیہ، تجارت، زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے لئے یکسا ں قوانین کا نفاذ اور خارجی طور پر لوگوں، services یعنی خدمات، اشیاء اور سرمائے کا بِلا روک ٹو ک تبادلہ یقینی بنانا ہے۔ اس کے ساتھ شنگین ویزہ (schengen visa) نے بھی یورپ کو پوری دنیا کے لوگوں کے لیے توجہ کا ایک بہت بڑا مرکز بنادیا۔ یورپی ممالک، جو اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط ہوتا دیکھ رہے تھے، نےاپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی معشیت بنانے کے لیے 2002ء میں اپنی ملکی کرنسیوں سے دستبردار ہو کر واحد کرنسی یورو کو اختیار کرلیا۔ اِس وقت یورو زون یعنی یورو کرنسی کو اختیار کرنے والے ممالک کی تعداد 18ہو چکی ہے۔
1993ء میں یورپی یونین کے آغاز کے بعد سے 2007ء تک بین الاقوامی سطح پرمعاشی عناصر (Economic Factors) مستحکم ہونے کی بدولت یورپی ممالک نے معاشی میدان میں خوب ترقی کی گو کہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے یورپ تب بھی امر یکہ کے اثرو رسوخ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، لیکن اِس معاشی ترقی کی بدولت وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید انہوں نے اختلافا ت سے بھر پورماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہے اور اب اُن کی ترقی کا دارو مدار یورپی یونین کے اتحاد پر ہی ہے۔ لیکن 2008ء میں آنے والے معاشی بحران نے جس کا آغاز امریکہ سے ہوا تھا یورپ کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ ممالک جو منفعت کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے تھے بحران شدید ہوتے ہی دوبارہ اِن اختلافات کی جانب لوٹ آئے جو کہ یونین کی بنیا د وں میں شامل تھی اور جن کی اساس ہم مذہب ہونے کے باوجود مختلف قومی ریاستوں (Nation States) میں بٹے ہونا تھا۔ آئیے اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یورپ کا بحران کس نوعیت کا ہے اور اِس نے کس طرح یورپی ممالک کی بنیادوں میں موجود اختلافا ت کو ایک مرتبہ پھر سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
نومبر 2008ء میں جب عالمی مالیاتی بحران اپنے مرکز امریکہ سے شروع ہوا تو یورپ نے سرکاری طور پر کساد بازاری اور معاشی سکڑاؤ کے شروع ہونے کا اعلان کیا۔ پھر پے در پے اقتصادی اور مالیاتی بحران نمودار ہونے لگے مثلاً سٹاک مارکیٹس کا بحران، کمپنیوں اور بنکوں کا دیوالیہ ہونا وغیرہ۔ پھر اِن ممالک کی طرف سے اِن مالیا تی اداروں کے بچانے کے لیے بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا جو اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ان ملکوں پر بہت بھاری بوجھ بن گیا جس نے بہت تیزی سے Sovereign Debt Crisis یعنی ریاستی قرضوں کے بحران کی شکل لے لی جو تا دمِ تحریر جاری ہے۔ یورو کا بحران اُس وقت نمایا ں ہوا جب بڑی عالمی کرنسیوں خاص کر ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قیمت گرنے لگی اوراس کے بعد ہی Sovereign Debt یعنی ریاستی قرضوں کا بحران شروع ہوا۔ ریاستی قرضے اُس وقت بحران کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جب ایک ریاست کے قرضے اُس کی آمدن اور GDPسے بڑھ جائیں اور وہ ملک اپنے قرضوں کو Treasury Bonds کی شکل میں دوسرے ممالک، بنکوں اور عالمی اِداروں کو جاری کرتا ہے جن پر وہ انہیں شر ح سود بھی ادا کر تا ہے لیکن اگروہ ملک اس قابل نہ رہے کہ بانڈز پر ہر دم بڑھتے سود اور انشورنس ویلیو کی رقم ادا کر سکے جبکہ دوسری طرف وہ اُس قرضے کو بھی ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو اُسکے جاری کردہ Treasury Bonds پر ان ممالک اور مالیتی اداروں کا اعتماد گھٹ جاتا ہے اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں یوں ایسا بحران جنم لیتا ہے جو نہ صرف اس ملک کے پورے اقتصادی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ سیاسی استحکام اور حکومتی پوزیشن کو بھی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
یورپ کا یورو زون اُس وقت کے بعد سے شدید متاثر ہوا جب 2011ء میں یونان کے ریاستی قرضوں کے بارے میں یہ خبر عام ہوگئی کہ وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کہ 350 ملین یورو یا 482 بلین ڈالرز کے مساوی تھے۔ یہ قرضے اُس کی سالانہ پیداوار (GDP) سے 160 فیصد زیادہ تھے یہاں تک کہ اس کا بجٹ خسارہ 13.6 فیصد تک پہنچ گیا جبکہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے لیے بجٹ خسارے کی حد 3.5 فیصد ہے۔ یہ بحران اتنا شدید ہوا کہ آخر کار یونان کے وزیر اعظم پاپا نڈریو کو اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہونا پڑا۔ یہی حال اُس وقت اٹلی کا بھی تھا جب ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی وجہ سے اٹلی کے وزیر اعظم بر لسکونی کو بھی اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اسی قسم کے بحرانوں کا سا منا یورپ کے مزید ممالک آئرلینڈ، پرتگال اور سپین کو بھی کرنا پڑا حتی کہ Sovereign Debt Crisis نے فرانس جیسے ملک کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جو یورپی یو نین کا ایک بڑا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ یورو زون کا بھی ایک بڑا ملک ہے۔ آج اس معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے یورپ کو تقریباً 6 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اب تک یورپ اس سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ یونین کے مجموعی فائدے کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہر ملک کا وطنیت اور مفاد کی بنیاد پر سوچنا ہے۔
یورپی یونین کے دو اہم ترین ستون جرمنی اور فرانس ہیں۔ یہی دو ممالک سب سے زیادہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ یونین کو ایک مضبو ط بلاک بنائیں تا کہ دنیا میں اپنی سیاسی بر تری کے خواب کو پورا کر سکیں۔ فرانس اور جرمنی دونوںہی یورو زون کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں لیکن یوں لگ رہا ہے کہ اس بحران پر قابو پانے اوراس کو حل کرنے کے طریقہ کار پر ان دو ملکوں میں بھی بنیادی اختلافا ت پائے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اقتصادیات کا موضوع ریاستوں کی بالا دستی کے موضوع سے ٹکرا تا ہے اور اس کی وجہ ان دونوںمما لک کااپنے آپ کو یورپی یونین کے دو بڑے لیڈر سمجھنا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان پس پردہ بالا دستی کی رسہّ کشی چلتی رہتی ہے کہ کون اس اتحاد کے فیصلوں پر اثر انداز ہو گا اور کس کی بات مانی جائے گی۔ فرانس نے ان بحرانوں کے حل کے لیے اقتصادی حکومت بنانے کی پیشکش کی جو ہر ملک پر ایک مخصوص اقتصادی پالیسی نا فذ کرے گی اور ہر ملک اس کا پابند ہو جبکہ جرمنی نے اکنامک مینجمنٹ قائم کرنے کی تجویز دی یعنی ایسا اسٹرکچر اور فریم ورک بنایا جائے جو صرف پابندیاں لگائے اور اقتصادی حکومت بنانے کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اس سے ہر ملک کو یہ تاثر ملے گا کہ ان کی حکومتوں سے بھی کوئی بڑا ادارہ ہے جو انہیں حکم جاری کرتا ہے اور اس طرح اُنہیں اپنی بالادستی خطرے میں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کی اس تجویز کو پورے یورپ میں پذیرائی نہ مل سکی۔
یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کے کردار کو سمجھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کے اکٹھا ہونے کے بعد سے بالعموم اور یورپی یونین کے قیام کے بعد سے بالخصوص پورے یورپ کی منڈیوں سے سب سے زیادہ معاشی فائدہ جرمنی نے اٹھایا اور پورے یورپ کے وسائل کو اپنے اور اپنی عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جرمنی معاشی اعتبار سے یورپی یونین اور یوروزون کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ اس کی مضبوط معیشت کا سا را دارو مدار اس کی برآمدات پر ہے جو اس کے GDP کا 40 فیصد ہے۔ جرمنی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ Free Trade Zone ہونے کی وجہ سے 500 ملین سے زائد لوگوں کی ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ جرمنی ایک ایسا ملک ہے جس کی زرعی اور صنعتی پیداوار انتہائی بڑے پیمانے پر تیار ہونے کے بعد ایک وسیع مارکیٹ چاہتی ہیں۔ یورپ کا Free Trade Zone ہونا ہر لحاظ سے جرمنی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جرمنی کی وسیع برآمدات نے یورپ کے تمام ممالک کی منڈیوں پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے باعث جرمنی پورے یورپ سے مفادات سمیٹتا ہے۔ دوسری طرف معاشی اعتبار سے یورپ کا سب سے زیادہ مضبوط ملک ہو نے کی وجہ سے یورپین سینٹرل بینک میں نسبتاً سب سے زیادہ حصہ جرمنی کا ہے جس کی وجہ سے اس کے مفادات ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ یورپ میں یورو کی قدریہی یورپین سینٹرل بینک ہی کنٹرول کر تا ہے۔ لہٰذا ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگر جرمنی سینٹرل بینک میں سب سے بڑا حصہ دار ہے تو وہ اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اس طرح وہ اس بینک کے ذریعے پورے یورپ کی مالیاتی پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح جرمنی کو معلوم ہے کہ پورے یورپ کو یورپی یونین کے چارٹر کے تحت جوڑے رکھنے اور انہیں ایک ہی کرنسی کی چھتری تلے جمع رکھنے میں اس کا اپنا ہی مفاد ہے۔ مگر دوسری طرف اس کے معاشی مفادات اور پالیسیاں یورپ کے معاشی بحران کے حل میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ یورپ کا تقریباً ہر ملک ہی جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کا شکار ہے حتی کہ یورپ کا دوسرے بڑے ملک فرانس کے بھی اربوں یورو جرمنی کے ساتھ تجارتی خسارے کی وجہ سے ڈوب چکے ہیں یہی تجارتی خسارہ ان ممالک کے بجٹ میں بجٹ خسارے کا باعث بنتا ہے۔ دوسری طرف یورپین سینٹرل بینک میں جرمنی کا اثر و رسوخ بھی دوسرے ممالک کے معاشی معا ملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جرمنی یورپی یونین کو مزید کمزوری سے بچانے کے لیے یورپی ممالک کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نکالنا بھی چا ہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ اپنے ریاستی مفادات کسی صورت داؤ پر نہیں لگا نا چاہتا۔ جرمنی کی طرف سے یورپ کو بحران سے نکالنے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1) یورپی یونین قانون سازی کے تحت برسلز جو کہ یورپی یونین کا بیلجیم میں دارالحکومت ہے کو یورپی سینٹرل بینک کے ذریعے یہ اختیار دے کہ وہ اُن تمام ممالک کے بجٹ کو، جو ریاستی قرضوں کے بحران کا شکار ہیں، کنٹرول کر سکے۔
2) ایسے ممالک ہر صورت اپنی مالیاتی پالیسی میں سادگی کے اصول اختیار کرنے والے اقدامات اپنائیں یعنی ریاستی اخراجات اور عوامی ترقیاتی منصوبوں پر اُٹھنے والے خرچوں کو کم کریں۔
3) یورپی یونین کی طرف سے مقروض ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر کوئی مدد فراہم نہ کی جائے۔
4) ریاستی قرضوں میں ڈوبے ممالک کے یورپی یونین کے الیکشن میں، جو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، ووٹ ڈالنے کا اختیارمنجمد کر دیا جائے۔
5) ایسے ممالک سادگی کے اصولوں کے تحت اپنے عوام کی تنخواہوں کی سطح کو کم کریں۔
6) بجٹ کو بڑھانے کے لیے بجٹ خسارے کی اجازت دینے والے ممالک کی مالی مدد بند کر دی جائے۔
7) ہر ملک اپنے آئین میں بجٹ خسارے کی حد مقرر کرے تاکہ نادہندہ ہونے کی صورت میں اُسے یورپی یونین سے نکلنا نہ پڑے۔
لیکن یورپی ممالک کی حکومتیں جرمنی کی ان تجاویز کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ایک طرف تو عوامی ترقیاتی منصوبوں پر رقم کم کرنے اور عوام کی تنخواہوں کو کم کرنے سے انہیں اپنے ہی ملک میں اپنی عوام کی مخالفت مول لینا پڑے گی دوسری طرف انہیں 2009ء میں طے پانے والے لسبن معاہدہ (Lisbon Treaty) میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ لسبن معاہدہ یورپی یونین پر حکمران ہے اور یورپی ممالک ان پر پہلے ہی بڑی مشکل سے راضی ہوئے تھے اور اپنے قومی مفادات کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھے۔ پھر یہ تجاویز کسی بھی ملک کے اقتدار اعلٰی(Sovereignty) میں براہ راست مداخلت تھیں جس کے لیے یورپی ممالک کبھی بھی متفق نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اب تک یورپی یونین اس بحران سے نکلنے میں ناکام نظر آتی ہے کیونکہ ہر ریاست یونین سے بڑھ کر اپنے مفادات کو مقدم رکھتی ہے۔
جہاں تک Austerity Measures یعنی سادگی پر مبنی اقدامات کی بات ہے تو مقروض ممالک ایک حد سے زیادہ سادگی اپنا نے کے لیے تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنی عوام پر مزید ٹیکسوں سمیت کئی ایسے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو اُن کی حکومت کو انتہائی غیر مقبول بنادیں گے۔ ان مقروض ممالک کا کہنا ہے کہ چونکہ یورپ کے امیر ممالک نے یورپی Free Trade Zone اور دوسری پالیسیوں کے تحت یورپ کے وسائل کو زیادہ استعمال کیا ہے لہٰذا ریاستی قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے بڑے ممالک ہی ان قرضوں کا بوجھ اٹھائیں اور قرضوں میں پھنسے ہوئے ممالک، جن میں یونان، اٹلی، پرتگال، آئر لینڈ اور سپین سرفہرست ہیں، کو مزید قرضے بھی دیتے رہیں تا کہ یہ مما لک defaultنہ کریں اور یورپی یونین کو مزید خطرے سے بچائیں۔ لیکن امیر ممالک خصوصاً جرمنی جو پہلے ہی بہت قرضے دے چکے ہیں مزید ایسے قرضے نہیں دینا چاہتے جن کی واپسی کی کوئی امید نہ ہو بلکہ وہ مقروض ممالک کو سادگی پر مبنی اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہر ملک کے اندرطبقاتی فرق (Class difference) بھی شدید اختلا فات کا باعث بن رہا ہے۔ ہر ملک کانچلا اور درمیانہ طبقہ (Lower and Middle class) یہ سمجھتے ہیں کہ عوام جو اس بحران کے سبب پہلے ہی بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور ٹیکسوں کے بوجھ کا شکار ہیں، سادگی پر مبنی اقدامات کا نشانہ بھی وہی بنیں گے اور اشرافیہ کو اس کی کوئی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے ملک کی اشرافیہ کو ہی اس کا بوجھ اٹھانا چاہیے جنہیں پہلے ہی حکومتوں نے کئی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دے رکھی ہے۔ کئی ممالک کے عوام یورپی یونین کو ہی اپنے مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں کیو نکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس یونین سے بڑے ممالک ہی فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں یونین سے نکلنے کی آوازیں بڑھتی جارہی ہیں۔
جرمنی ایک طرح سے شدید مخمصے اور کشمکش کا شکار ہے۔ اگر قرضوں میں ڈوبے تمام ممالک سادگی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تو اس سے جرمنی کی برآمدات، جو اس کی معیشت کے لیے آکسیجن اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، پر شدید ضرب پڑے گی کیونکہ ان اقدامات سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ لہٰذا جرمنی نہ چاہتے ہوئے بھی ان ممالک کو یورپین سینٹرل بینک کے ذریعے قرضے جاری کرواتا رہتا ہے تاکہ ان ممالک میں جرمنی کی مصنوعات کے لیے طلب اور قوت خرید دونوں برقرار رہیں۔
جرمنی نے قرضوں میں پھنسے ممالک کی مدد کے لیے قائم کردہ فنڈ European Stabilization Fund میں بھی اپنا حصہ 450 بلین یورو سے بڑھا کر 1000 بلین یورو کر دیا ہے۔ پھر اس نے کچھ عرصہ قبل سپین کی بیمار معشیت کو بھی 100 بلین یورو کا قرضہ دیا۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ جرمنی اس یونین کو بچانے کے لے سر توڑکوششیں کر رہا ہے کیونکہ اگر ایک ملک بھی defaultکر گیا تو اُسے یورپی یونین سے نکلنا پڑے گا اور اگر ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو جرمنی بھی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا اور یونین کے وجود کو شدید خطرات سے دو چار کردے گا۔ لیکن جرمنی یہ بھی چاہتا ہے کہ باقی ممالک اپنے بجٹوں کو منظم کریں اور ریاستی قرضوں کے بحران سے خود چھٹکارا پائیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور یورو کرنسی بدستور خطرے میں ہے۔ جرمنی کی چا نسلر انجیلا مر کل نے یوروزون کے مستقبل کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے تاکید سے کہا تھا کہ ''جرمنی نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ ہو کیو نکہ ایک کے دیوا لیہ ہونے کامطلب ہے سب کا دیوالیہ ہونا''۔ پھر ایک موقع پر اپنی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے مشکل ترین دورسے گزر رہا ہے اگر یورو ناکام ہوگیا تو یورپ ناکام ہو جائے گا"۔
جرمنی کی طرف سے بکثرت تجاویز، یورپین سٹیبلائزیشن فنڈ میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ کے ساتھ سا تھ یورپ، یورپی یونین اور یورو کو ریاستی قرضوں کے بحران سے نجات دلانا چاہتا ہے اس بات کو جانتے ہوئے کہ یورو یورپی یونین کی کامیا بی کا راز ہے اور یورو کا زوال یورپ کا زوال ہے۔
اس بحران کے سیاسی اور معاشرتی منفی اثرات بھی یورپ پر کم نمایاں نہیں۔ جیسے پہلے بات ہوئی کہ ہر ملک اس بحران کی قیمت چکانے کے لیے متوسط درجے اور اشرافیہ کے طبقات میں تقسیم ہے جبکہ دوسری طرف یورپ میں بے روز گاری کی شرح ہر دم بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں یورپ میں بے روز گاری کی شرح کی اوسط 11.6 فیصد تھی جبکہ 11 ممالک میں یہ شرح 10-17 فیصد اور دو ممالک سپین اور یونان میں بالتر تیب 25 اور 26.5 فیصد ہے۔ بے روز گاری کی یہ شرح کسی بھی لحاظ سے کسی بھی ملک کے لیے خطرناک قرار دی جا سکتی ہے۔ اس بے روز گاری کی وجہ سے یہ ممالک بہت سے دوسرے معاشرتی مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں جبکہ سیاسی طور پر اس صورتحال کا الزام یورپی یونین کے سر تھوپتے ہیں۔
جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے جو کہ اس اتحاد کا بڑا اہم رکن ہے تو وہ اٹلانٹک کارنر کے ایک مقام پر کھڑا یورپ کی حالت زار کا تماشہ دیکھ رہا ہے اوراپنے آپ کو اتحاد کی تباہی اور اس مالیاتی بحران جس کا وہ خود بھی شکار ہے، کے نتائج سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن وہ اتحاد کی مشکلات کو حل کرنے میں اس قدر دلچسپی نہیں لے رہا جس قدر وہ مفادات اور غنائم کی تاک میں بیٹھا ہے۔ چونکہ وہ یوروزون میں داخل ہی نہیں ہوا لہٰذا اپنی کرنسی پاؤنڈ سٹرلنگ سے دستبردار نہیں ہوا اور یورو کو اختیار کرنے میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کرتا اس لیے یورو کا معاملہ اس کے لیے کسی اہمیت کا حا مل نہیں۔ برطانیہ کے اندر بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جو یورپی یونین سے علیحدگی کی باتیں کرتی ہیں تاکہ کوئی اس پر یورو کو اپنانے کے لیے دباؤ نہ ڈالے۔ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ایک موقع پر کہا کہ ''یورو اجتماعی حماقت ہے اور وہ بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا''۔ پھر یورو زون کو تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک ایسی جلتی ہوئی عمارت ہے جس میں آگ سے بچ نکلنے کے دروازے ہی موجود نہیں"۔ ایک اور موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ ''یورو بحران صرف یورپی معیشت کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کے گھنٹی ہے''۔ یورپ کے سیاستدانو ں کو برطانیہ کی دوغلی پالیسی اور بدیانتی کا علم ہے چنانچہ یورپی کمیشن کے سابق صدر باروسو نے یہ کہتے ہوئے اشارہ کیاکہ ''ان اتحادی ممالک کو چاہیے کہ جو یورو میں شامل ہونے کی تائید نہیں کرتے کہ وہ اُن ممالک کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کریں جو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں''۔
اس سب کے باوجود جب تک یہ یونین قائم ہے برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اس سے وہ سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرتا ہے۔ برطانیہ عا لمی سطح پر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے یورپ کو اس بات کی طرف کھینچتا ہے کہ وہ عالمی امور پر اس کے مفاد کے مطابق رائے اختیار کرے بلکہ یورپی یونین سے سے نکلنا اس کے لیے نقصان دہ ہوگا اسی لیے وزیر اعظم کیمرون نے یہ کہتے ہوئے وضاحت کی کہ ''یورپی یونین سے نکلنا برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں جس وقت ہم یورپی یونین سے نکلے ہمارے حالت ناروے کی طرح ہو جائے گی یعنی برسلز سے ہونے والے ہر فیصلے سے ہم متاثر تو ضرور ہوں گے لیکن کسی فیصلے میں شریک نہیں ہوں گے''۔ ساتھ ہی وہ برطانیہ کی بالادستی سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار نہیں جب اُس نے کہا کہ ''برسلز میں یورپی کمیشن کے اختیارات کے بڑے حصے کو قومی حکومتوں کو دے دینا چاہیے''۔ یوں برطانیہ یورپی یونین سے نکلنا بھی نہیں چاہتا جبکہ یورو زون میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتا۔
یورپی یونین کا 28 ممالک میں بٹے ہونا اور اس میں ایک مضبوط سیاسی لیڈر شپ کا نہ ہونا اس کو صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور فوجی محاذ پر بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یورپ کی فوجی طاقت کو امریکہ نیٹو کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ2000 ء سے بڑے یورپی ممالک، جن میں جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین شامل ہیں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یورپین آپریشنل ہیڈ کوارٹر قائم کیا جائے جس کے تحت علیحدہ یورپین فورس بنائی جائے جو کہ نیٹوسے علیحدہ اور امریکی اثر سے آزاد ہو اور یورپ کے سیا سی اور فوجی اہداف حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جائے۔ لیکن اب تک اس ارادے کو کمزور یورپی سیاسی قیادت کی وجہ سے عملی جامہ نہیں پہنا یا جا سکا کیونکہ دوسری طرف برطانیہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کر رہا ہے کیو نکہ وہ سمجھتا ہے اس طرح یورپ پر اس کا اثر ورسوخ کم ہو جائے گاجبکہ وہ ہر حالت میں یورپ پراثرو رسوخ رکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یورپ کی طرف سے تازہ ترین کوشش 2011ء میں کی گئی جب پانچ یورپی ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور پولینڈ نے ایک خفیہ مراسلہ یورپی یونین کی وزیر خارجہ Lady Ashton کو ارسال کیا جس میں اُسے برطانیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے آپریشنل ہیڈ کوارٹر بنانے کی ہدایت کی گئی اور یقین دلایا گیا کہ اُسے ان ممالک کی طرف سے ہر ممکن تعاون دستیاب ہوگا۔ لیکن یہ خفیہ مراسلہ منظر عام پر آگیا اور برطانیہ نے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ میں اسے ویٹو کرنے کی دھمکی دیدی۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں برطانیہ کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو ہر صورت یورپی یونین کو کمزور دیکھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ یورپ صرف نیٹوکی شکل میں ہی مشترکہ فوجی صلاحیت رکھے جس کا فائدہ صرف امریکہ ہی اٹھاتا رہے۔ دوسری طرف امریکہ نے یورپ کی کئی ریاستوں خاص طور پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر فوجی معا ہد ات کر رکھے ہیں۔ وہ ان معاہدات کے ذریعے اُن کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا دلاسہ بھی دیتا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یورپ کی یہ ریا ستیں جو خود بھی یورپی یونین کا حصہ ہیں یورپ کی علیحدہ فورس بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ یوں یورپ کے بٹے ہونے اور مضبوط سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یونین اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہ کر سکی۔ اس بات پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے یورپی کمیشن کے سابق صدر Prodi نے کہا کہ ''یورپ اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اپنے معاشی معاملا ت تو خود سنبھالے جبکہ سکیورٹی کی ذمہ داری امریکہ کے حوالے کردی جائے''۔
یورپ کا توانائی کی ضروریات میں خود کفیل نہ ہونا بھی اسے بہت کمزور کرتا ہے، خاص کر گیس کے معاملے میں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کا صرف 35 سے 40 فیصد خود مہیا کرتا ہے جبکہ اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے حاصل کرتا ہے جو یورپ کو خطرناک حد تک روس کا محتاج بنادیتا ہے۔ اس محتاجی کے باعث یورپ روس کی 2008ء میں جارجیا اور 2014ء میں یوکرائن کے خلاف جارحیت کے خلاف چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر پایا اور روس نے گیس کے کارڈ کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے یورپ کو بے بس کر دیا۔
یونین کی ان تمام کمزوریوں اور موجودہ معاشی اور ریاستی قرضوں کے بحران کو حل نہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی بے روز گاری اور دوسرے مسائل یورپ کی عوام کی رائے یونین کے خلاف کر رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت پچھلے ماہ بر طانیہ اور فرانس میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تھے جن میں لوگوں نے اُن جماعتوں کو ووٹ دیا جویورپی یونین کو اپنے ممالک کی ترقی کے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں اور یونین کے زیادہ تر اختیارات ریاستی حکومتوں کو دلوانا چاہتے ہیں۔ ان جماعتوں کو ملنے والی سیٹیں اب تک ہونے والے تمام انتخابات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں گو کہ اسکے باوجود یورپی یونین کے ٹوٹنے کا فی الفور خطرہ نہیں لیکن انتخابات کے نتائج یونین کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یورپ کے دانشور اور مفکرین ان الیکشن کے نتائج کے یورپی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ووٹ قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذ یورپی یونین کی 2008ء تک کی معاشی کامیابیاں جس نے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا تھا کہ یورپی یونین آنے والے سالوں میں کیا کچھ بن سکتی ہے، اس کی حالیہ ناکامیوں نے اس سوال کو تبدیل کر کے ایک نیا سوال ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے کہ ان بحرانوں اور کمزور عوامی حمایت کے ساتھ یہ یونین کب تک قائم رہ سکتی ہے۔
یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یورپی یونین محض مفادات کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے ممالک کا اتحاد ہے یہ ایک مضبوط سیاسی وحدت(political entity) نہیں بلکہ 28 ریاستوں کا ایک غیر فطری اتحاد ہے جو اپنے اندر کئی کمزوریاں رکھتا ہے جس میں سب سے اہم قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو اسے کبھی ایک مضبوط سیاسی قوت نہیں بننے دے گا۔
آئیے اب کچھ بات امریکہ کے حوالے سے ہو جائے۔ امریکہ کسی ایسے بلاک یا نظر یاتی ریاست کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو چیلنج کرے۔ ہم آنے والی نظر یاتی ریاستِ خلافت کے قیام کو روکنے کے لیے تو امریکی کوششوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں، آیئے دیکھتے ہیں کہ خود اپنی بڑھتی ہوئی کمزوریوں کے باوجود یہ یورپ کو کس طرح کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کس طرح اسے دنیا میں ایک مضبوط بلاک کی شکل میں ابھر نے نہیں دیتا۔
معاشی طور پر امریکہ نے یورپ کے بحران سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ایک طرف تو اسے یہ موقع ملا کہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی مالی اور اقتصادی بدحالی سے ہٹائے اور ان کی نگاہ اس حقیقت سے پھیر دے کہ اس بحران کی اصل وجہ وہ خود ہے۔ دوسری طرف اس نے یورپ کے عوام کا یونین کے اتحاد اور یورو کرنسی پر کم ہوتے اعتماد کو مزید کم کرنے کے لیے یورپ کی معاشی مدد سے انکار کر دیا تاکہ امریکہ اور ڈالر کے مقابلے میں یورپ اور یورو کا اثر و رسوخ بڑھنے نہ پائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ اس کے زیرِ دست رہے اور اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس کی اُس قدر ہی مدد کرتا ہے کہ وہ اس کے ماتحت رہے۔ امریکہ نے دو سال پہلے یورپ کی درخواست کے باوجود ریاستی قرضوں کے بحران میں مدد کے لیے آئی ایم ایف میں اپنے فنڈز کو دوگنا کرنے سے انکار کر دیا تاکہ یورپ اس بحران سے نکل نہ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہور کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں جیسے Standards and Poor's اور Moody's and Fitch وہ امریکی کمپنیاں ہیں جو یورپی ممالک کی معاشی حالت کو مزید ڈانوا ڈول کرنے میں کردار ادا کر رہی ہیں، چنانچہ ان کمپنیوں نے سپین، یونان، اٹلی، پرتگال کے ساتھ ساتھ 21 یورپی بینکوں کی درجہ بندی میں کمی کردی۔ ان بینکوں میں یورپ کے کئی بڑے بینک بھی شامل ہیں جس نے یورپ کو مزید مالی مشکلات سے دو چار کردیا۔ اس کے علاوہ امریکہ ریاستی اور فوجی اعتبار سے بھی یورپ کو کمزور اور تقسیم رکھنے کی کوشش مندرجہ ذیل ذرائع سے کرتا ہے:
1) نیٹو کو قائم رکھ کر جو کہ سوویت یونین کی expansion policy کو مدِ نظر رکھ کریورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے 1949ءمیں بنائی گئی تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اصولی طورپر اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر اس کو ختم نہ کرنا اور اس کو اپنی قیادت میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔ اسی نیٹوکو وہ ایک طرف اسلام کے خلاف استعمال کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے بہانے یورپ کو اپنی علیحدہ فورس بنانے نہیں دیتا۔
2) برطانیہ، جو کہ مکمل طور پریورپی یونین میں شامل نہیں ہونا چاہتا بلکہ اپنا آزاد اور بالادست و جود قائم رکھنا چاہتا ہے، اپنا مفاد یورپ سے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور امریکہ کا ساتھ بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس وجہ سے وہ یونین کے اندر تقسیم اور اختلاف کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ چیز امریکی مفادات کا تحفظ جو کمزور یورپی یونین سے جڑا ہوا ہے یقینی بناتی ہے۔
3) مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو 2003ء میں یورپی یونین میں شامل ہوئے تھے جن میں پولینڈ، بلغاریہ، چیک ریپبلک، ہنگری، رومانیہ اور دوسرے شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر ممالک کے ساتھ امریکہ کے فوجی و سکیورٹی معاہدات ہیں جو ایک طرف یونین پر امریکی اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان ممالک کو یونین کی علیحدہ فورس بنانے کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔
4) امریکہ دنیا میں زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہےاور یہ چیز یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے پر مجبورکرتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں پر گہرا اثر و رسوخ بھی دنیا بھر کی تجارت اور دوسرے معا ہدات میں یورپ کے مقابلے میں امریکہ کے غلبے کو یقینی بنا تا ہے۔
ان وجوہات کی بناہ پر امریکہ کا یورپ پر پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے گو کہ امریکہ خود بھی شدید اقتصا دی بحران کا شکار ہے۔ امریکہ میں بھی بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے تیس ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں مگر دو وجوہات کی بنیاد پر امریکہ کی ریاست کو یورپی یونین کے مقابلے میں ٹوٹنے کا خطرہ نہیں۔
1) امریکہ کی فیصلہ سازی یورپی یونین کی طرح 28 ممالک میں تقسیم نہیں بلکہ تمام فیصلے واشنگٹن ڈی سی میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ امر اُس کی سیاسی طاقت کو تقسیم نہیں ہونے دیتا۔
2) امریکہ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی حیثیت کو چیلنج کرنے والی کوئی نظریاتی ریاست فی الحال موجود نہیں۔
اس کے باوجود یورپ جب اور جہاں موقع پائے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ امریکہ نے جب چا ہااقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے اپنے مفادات اور منصوبوں کے مطابق قرار دار کو پاس کروا لیتا چاہے وہ کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگانے کا معاملہ ہو یا کسی ملک پر حملہ کرنے کا۔ مگر2003ء میں فرانس اور جرمنی نے عراق کے خلاف سکیورٹی کونسل کو امریکہ کی حمایت کرنے اور دنیا کو عراق پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہونے سے روک دیا۔ فرانس نے با لخصوص ایسی مہم چلائی کہ ایک طرف تو سکیورٹی کونسل نے امریکہ کو عراق پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ جب امریکہ نے اکیلے ہی عراق پر چڑھائی کی تو فرانس نے امریکہ کو ایک ایسی ریاست کے طورپر مشہور کیا جو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتی ہے اور اپنے غرور میں کسی اصول اور ضابطے کی پر واہ نہیں کرتی۔ اس طرح پوری دنیا میں امریکہ کا image متاثر ہوا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ گو کہ امریکہ نیٹو کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر بعض یورپی ممالک اہم مواقع پر اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر کے، واپس بلوا کر یا فوجیوں کو نہ بھجوا کر اہم مہمات میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے نیٹو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں۔ عراق کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے علاوہ کوئی دوسرا یورپی ملک شامل نہ ہوا۔ جبکہ افغانستان کے خلاف جنگ میں گو کہ یورپی ممالک شروع میں نیٹو کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے ساتھ شامل تھے لیکن پچھلے چار سے پانچ سالوں میں یورپی ممالک کی اس حمائت میں واضح کمی آئی ہے بلکہ کئی ممالک نے تو اپنی پارلیمنٹ سے منظوری نہ ملنے کے بہانے کو استعمال کرتے ہوئے سرے سے فوج بھیجنے سے ہی انکار کر دیا جبکہ برطانیہ سمیت چند ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنے فوجیوں کی تعیناتی افغانستان کے اُن اضلاع میں کرواتے ہیں جہاں طالبان کا خطرہ کم سے کم ہے اور خطر ناک علاقوں میں زیادہ تر امریکی افواج کو ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اس جنگ میں نیٹو افواج کی بجائے امریکی افواج کی اموات زیادہ ہیں۔
یورپ عام طور پر امریکی انتخابات والے سال بھی امریکہ کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ تمام امریکی حکومتیں انتخابات والے سال کسی نئے مسئلہ یا تنازع میں الجھنا نہیں چاہتیں تاکہ آنے والے انتخابات میں اُن کی ساکھ متاثر نہ ہو اور اس صورت حال کا فائدہ مضبوط یورپی ممالک اٹھاتے ہیں اور انتخابات والے سال مختلف انداز سے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اس ساری گفتگو سے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کے تمام علمبرداروں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ یہ تمام ممالک ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود جس نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) پر یقین رکھتے ہیں وہ ان میں صرف مادیت اور منفعت کے حصول کی لالچ ہی پروان چڑھاتی ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے بھی صرف فائدے کی بنیاد پر ہی رشتہ استوار کرتے ہیں اور فائدے کے حصول کی خاطر یہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے بھی نہیں چوکتے اور ان کے دل آپس میں ٹکراتے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) سے پھوٹنے والے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ وہ نظام جو خود شدید مشکلات کا شکار ہے اور ان ممالک کی بنیادوں میں شدید کمزوریاں پیدا کرچکا ہے۔ آج اگر کمی ہے تو صرف ایک ایسی ریاست کی جو حق نظریہ حیات (آئیدیالوجی) کی بنیاد پر وجود میں آئے اور ان کی کمزوریوں کو سیاسی بصیرت کے ذریعے مکمل ناکامی میں بدل دے۔ آج پوری دنیا کو ریاست خلافت کی ضرورت ہے جو اسے کفر کے اندھیرے سے نکال کر حق کے نور کی طرف لے جائے۔ ان کے آپس کے اختلافا ت اور ان کے نظام کو بار بار بحران سے دو چار ہوتا دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ کےاِذن سے قائم ہونے والی خلافت کے لیے راہ ہموار ہو چکی ہے۔ خلافت کے قیام سے پہلے ہی الحمد اللہ ان ممالک کے عوام اور کئی دانشو ر اور مفکرین اپنے نظام کی خامیوں کے خلاف احتجاج کرتے اور تحریر یں لکھتے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی سے کسی دوسرے نظریہ حیات (آئیڈیا لوجی) کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی باطل نظام سے حل ڈھونڈھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن انشا ء اللہ خلافت کے قیام کے ساتھ ہی خلافت کی قیادت اور ہزاروں سیاست دان جو کہ تیار بیٹھے ہیں اسلام کی دی ہوئی ہدایت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے وہ اقدامات کریں گے جو انشا ء اللہ کفار کے باطل نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کو مزید ناکامی سے دو چار کرنے اور اسلامی نظریہ حیات (آئیڈیالو جی) کو اس پر غالب کرنے میں زبر دست کامیابیاں سمیٹ سکیں۔
خلافت اپنے قیام کے ساتھ ہی مضبوط میڈیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے شباب چاہے وہ یورپ میں ہوں امریکہ، مشرقی وسطیٰ یا کہیں بھی، کے ذریعے سر مایہ دارانہ نظام کی غلاظت اور باطل فکر کو دنیا کو لوگوں پر بے نقاب کرے گی اور اسلامی ریاست کے اندر اسلام کے قوانین اور نظاموں سے پیدا ہونے والے ثمرات اور خوشحالی کی تصویر انہیں دکھائے گی جو یقیناً ان لوگوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے نظام کے خلاف نفرت بھی پیدا کرے گی اور یاد رہے کہ اس سے پہلے سوویت یونین بھی ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ایسا کر چکا ہے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سوویت یونین کے پرو پیگنڈا نے ہی ان ریاستوں کومجبور کر دیا تھا کہ اپنی آئیڈیالوجی میں فلاحی ریاست (welfare state) کے تصور کا پیوند (patchwork) کریں تاکہ پرو پیگنڈا سے متاثر ہوتی عوام کو مطمئن کرسکیں۔
ریاستِ خلافت اپنی خارجہ پالیسی اور اسلام کے حکم کے مطابق دوسرے مسلم علاقوں کو اپنے اند ضم کرنے کا عمل تیز کرے گی اس عمل میں وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں اسلام کے حق میں موجود عوامی رائے عامہ، شباب اور اہل قوت میں ہونے والا کام انتہائی مدد گار ثابت ہوں گے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ میں شامل ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان علاقوں کو اسلامی ریاست اپنے اندر ضم کرنے کے بعد یہاں کے تیل اور گیس کے ذخائر کی براہ راست مالک ہوگی اور یہ چیز اسلامی ریاست کو دنیا کے باقی ممالک پر زبر دست برتری دلائے گی۔ اسلامی ریاست یورپ سمیت باقی دنیا کے وہ ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہونے کی وجہ سے غیر حربی ہیں تیل اور گیس فراہم کرنے کی پالیسی کے تحت امریکہ اور گنتی کے چند یورپی ممالک کے تسلط سے نجات دلائے گی اور ان کے کیمپ سے نکالے گی۔ اس کے لیے وہ ان ممالک سے مختصر مدتی معاہدات بھی کر سکتی ہے۔
یاد رہے کہ یورپ آج کے روس جو اب نظریاتی ریاست نہیں رہا، کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکا جب روس نے جار جیا اور یوکرائن کے خلاف جارحیت کی کیونکہ یورپ روس کی گیس کا محتاج ہے تو کل آنے والی نظر یاتی ریاست خلافت کی پھیلنے کی پالیسی (expansion policy) کے خلاف یورپ یا امریکہ کا برا ہ راست سامنے کھڑا ہونا اتنا آسان دکھا ئی نہیں دیتا اور اگر ایسا خطرہ ہوا بھی تو خلافت بھاری صنعت اور فوجی میدان میں تیز تر ترقی اور پہلے سے موجود زبر دست افواج اور ان میں موجود جذبہ جہاد کے ذریعے اس سے نپٹنے کے لیے تیار ہو گی۔
یہ اسلامی ریاست ہی ہوگی جو اِس وقت دنیا پر نافذ ڈالر کی حکمرانی کا خاتمہ کر دے گی کیو نکہ اسلامی ریاست ہی سونے اور چاندی کی کرنسی کا اجرا ء کرے گی۔ صرف یہی کرنسی آج ڈالر کی طلب کو کم کر سکتی ہے کیو نکہ دنیا خود بھی جانتی ہے کہ اصل دولت کاغذی کرنسی نہیں بلکہ سونا اور چاندی ہے۔ اسلامی ریاست اور خاص کر وسیع ہوتی اسلامی ریاست میں اس کرنسی کا نفاذ دنیا میں امریکہ اور ڈالر کی سیاسی اورمعاشی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچائے گا اور اس سے دنیا میں امریکی اثر و رسوخ کم کرنے میں زبر دست مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے امریکی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اس کی 30 ریاستوں کے اندر وفاق سے علیحدہ ہونے کی خواہش کے عمل کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ عمل بہت تیز نہ بھی ہو تو بھی امریکہ کی توجہ بیرونی محاذوں سے ہٹاکر اندرونی مسائل کی طرف موڑنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ دوسری طرف کئی مسلم علاقے جن میں آج امریکی اڈے موجود ہیں اور دنیا میں امر یکی بالادستی کا ذریعہ ہیں، اسلامی ریاست میں ضم ہو کر امریکی ٹھکانے نہیں رہیں گے۔ امریکہ سے اس کے اڈوں کا اس طرح چھن جانا دنیا پر اس کی بالا دستی کو انشا ء اللہ و اپسی کے سفر پر گامزن کر دے گا۔
دوسری طرف وہ غریب ممالک جو مسلم علاقے نہیں ہیں، اسلامی ریاست اپنی expansionپالیسی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو انتہائی آسان شرائط پر قرضے اور بعض اوقات محض امداد دے کر عالمی بینک، آئی۔ ایم۔ ایف اور امریکی تسلط سے نجات دلائے گی اور ان میں اسلامی ریاست سے ہمدردی اور دوستی کے جذبات پیدا کرے گی۔ اس طرح پوری دنیا کو باطل آئیڈیالوجی کے علمبردار وں سے آہستہ آہستہ کاٹنے کے عمل میں مدد ملے گی۔
یہ سارے اقدامات گو کہ زبر دست سیاسی بصیرت کے متقاضی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ آنے والی خلافت کی قیادت اسلام کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس سیاسی بصیرت کی حامل ہے اور اس قیادت کی نگرا نی میں تیار ہونے والے ہزاروں لاکھوں فرزندانِ اسلام پوری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے اور انسانیت کو ہدایت اور فلاح کے راستے پر گامزن کرنے کےلیے بے چین بیٹھے ہیں۔
اللہ ربّ العزت اس قیادت اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!

Read more...

خبر اور تبصرہ فوج اور حکومت کے درمیان خفیہ رسہ کشی

خبر:

پاکستان میں جاری سیاسی بحرا ن اس وقت سے طول پکڑتا جا رہا ہے جب گزشتہ ہفتے کے دن یعنی 23 اگست 2014 کو حکومتی نمائندوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور کسی پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 30 دن کے لیے استعفی دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات ہو سکیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ اس مطالبے کے پورا ہو نے تک ملک کے طول و عرض میں دھرنے جاری رہیں گے۔
تبصرہ:
1 ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی ممالک جن میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں جو عرب بہارکا شکار ہوئے اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ اسی طرح بعض تجزیہ نگار یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جہاں یہ بہار نہیں پہنچی، محفوظ ہیں اور وہاں کے رہنے والے اپنے حکمرانوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہے ہیں جو اگر چہ کسی بھی طرح اپنے ان ہم عصر حکمرانوں سے کم ظالم نہیں جو عرب بہار کا چکار بنے تھے۔ تا ہم یہ دونوں قسم کے تجزیہ نگار غلطی پر ہیں۔ بہت سے ممالک میں اگر چہ ہنگامے نہیں پھوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں اور نظام سے راضی ہیں۔ حالات کسی بھی ایسی جماعت یا عوامی رہنما کے لیے بالکل تیار ہیں جو ان حکمرانوں کو برطرف کرنے میں عوام کی قیادت کرے، خواہ وہ لیڈر امت کی اسلامی شناخت کا مظہر نہ ہو اور نہ ہی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کیے جائیں جیسا کہ عمران خان اور طاہر القادری۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی خود پر مسلط نااہل حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اسی قدر بے چین ہیں جس قدر کہ عرب بہار کے ممالک میں موجود ان کے مسلمان بھائی۔
2 ۔ پاکستانی عسکری قیادت میں موجود غداروں اور ان کے پشت بان امریکہ نے عوام اور افواج میں موجود ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ لوگوں کی توجہ وزیرستان کے مجرمانہ آپریشن سے ہٹا دی جائے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام خائن سیاسی اور عسکری قیادت کے اختلافات کی بحث میں مشغول ہو جائیں جو اپنے آقا امریکہ کی خدمت پر متفق ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت وزیرستان آپریشن کے بارے میں متفق نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں کے اپنے سیاسی زرائع ہیں اور وہ دونوں انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا عسکری قیادت میں موجود غداروں نے نواز حکومت اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان جذبات سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کریں جس کو عوام اور فوج کا ایک بڑا حصہ مسترد کرتے ہیں، خصوصا درمیانی رینک کے افسران اور ان سے نیچے والے افسران اور جوان اور لڑنے والے سپاہی۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت میں موجود غدار یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے ان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری نواز شریف پر ڈالی جائے تاکہ اس آپریشن کے خلاف فوج میں موجود غصے کا رخ ان کی جانب سے نواز شریف کی جانب مڑ جائے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ اپنے امریکی آقا کا شکر گزار ہے کہ اس نے اسے تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر اقتدار دلوادیا ہے اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
3 ۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی جماعتوں کی پشت پناہی کی تاکہ حکومت کے خلاف عوام اور فوج میں موجود لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور اپنے خلاف موجود غصے کا رخ حکومت کی جانب پھیر دیا جائے۔ فوجی قیادت میں موجود غدار فوج کے سامنےایسا ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات پر اصرار کیا جبکہ عسکری قیادت میں موجود غدار فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ نواز شریف نے انتہائی نازک موقع پر اس آپریشن کے حق میں اپنی حمائت فراہم کی لیکن اس کے ساتھ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے اس جانب بھی افواج کی توجہ مبذول کروائی کہ حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہےاور خاص طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے خاص طور پر حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فوجی قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی پارٹیوں کے ذریعے حکومت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ حکومت سبق حاصل کر لے گی اور اسی سمت میں چلے گی جس کی جانب فوجی قیادت چلانا چاہتی ہے۔ لیکن امت بدستور اس حقیقی قیادت کے انتظار میں ہے جو ان امریکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں اس کی قیادت کرے گی اوران پر ان کے رب کی شریعت کو خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے سائے میں نافذ کرے گی اور بے شک اللہ کے اذن سے بہت جلد ایسا ہی ہونے والا ہے۔

یہ تبصرہ ابوعمر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا ہے۔

Read more...

ضرب عضب رسول اللہ ﷺ کی مبارک تلوار نہیں ہے بلکہ امریکہ و بھارت کے تعلق کو مضبوط کرنے کا نام ہے

 

تحریر: خالد صلاح الدین
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہی تسلسل کا نام ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو امریکہ نے 11ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کے بعد شروع کی۔ جنرل مشرف نے ایک پالیسی فیصلہ کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس امریکی جنگ میں شامل ہونا ہے۔ اب وہی مشرف پاکستانی عدالتوں میں انتہائی غداری کے مقدمات کا سامنا کررہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان آرمی کی براہ راست شمولیت سانحہ لال مسجد کے ساتھ شروع ہوئی۔ اب جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ اس سے قطعی مختلف ہیں جو اس وقت غدار مشرف نے میڈیا پر پھیلائے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ لال مسجد آپریشن میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے مقدس خون سے رنگے تھے۔
مشرف نے پاکستان کے عوام کے سامنے عموماً اور افواج پاکستان کے سامنے خصوصاً یہ تصویر پیش کی تھی کہ لال مسجد کے مولانا امن معاہدے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور اس وجہ سے تشدد کا راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری لال مسجد میں موجود لوگوں پر ڈالی گئی اور ایک بھر پور فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کو سول سوسائٹی، میڈیا، تجزیہ کاروں اور اسٹبلشمنٹ کے لبرل حلقوں کی حمائت حاصل تھی۔ آپریشن کے سات سال بعد سامنے آنے والے حقائق مشرف کو اس جرم کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور ایسا بالکل صحیح بھی ہے۔ لال مسجد کمیشن نے کہا کہ "رضا کارانہ گواہی دینے والوں اور عدالتی گواہان کے بیانات سے یہ بات واضح ہے کہ اموات سے بچا جاسکتا تھا.....انہوں نے پرویز مشرف کو جو کہ اس وقت صدارت کی کرسی پر براجمان تھے، اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا"(1)۔
واقعات کا تھوڑا سا پس منظر جاناا ضروری ہے کیونکہ لوگوں کو دھوکہ دینے کی اس پالیسی کو اگلی ایک دہائی تک مشرف کے بعد آنے والوں نے بھی جاری رکھا تا کہ امریکی پالیسی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ مسلسل ہونی والی پرتشدد کاروائیوں کا ذمہ دار اسلامی انتہا پسندوں کو قرار دیا گیا ، امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈالی گئی اور فوجی آپریشن شروع کیے گئے جس نے افواج پاکستان کو ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی فوجی آپریشن کا مقصد امن کا قیام کبھی بھی نہیں تھا۔ ہر بار یہ بات ثابت ہوئی کہ فوجی قیادت میں موجود غدار اور امریکہ قبائلی علاقوں میں امن یا استحکام کے قیام کے لیے نہ ہی سنجیدہ تھے اور نہ ہی ان کا یہ ارادہ تھا۔درحقیقت دونوں کا کردار تنازعہ کو برقرار رکھنے اور امن مذاکرات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے استعمال کرنے اور جنوبی ایشیاء میں امریکی ایف-پاک پالیسی کو افواج پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے نافذ کرنا تھا۔
اس کے بعد 2009 میں سوات میں راہ راست فوجی آپریشن کیا گیا۔ ایک بار پھر اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے ایک نام نہاد امن معاہدہ سوات کے صوفی محمد اور حکومت پاکستان کے درمیان کیا گیا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد ایک لڑکی کو کوڑے مارنے اور ایک فوجی کے سر قلم کرنے کی وڈیو جاری ہوئی جس نے ایک اور فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی۔ زمینی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی نہ تو امن معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی اس کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس بات کا ثبوت اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی سیکریٹری خارجہ ہلری کلنٹن کی مارچ 2010 میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس ہے جس میں ہلری کلنٹن نے کہا : "آپ نے سوات کا معاہدہ کیا ہے؟ یہ تو شکست کی مانند ہے"۔ شاہ محمود نے کہا : "رکیے، رکیے۔ وہ ایک طریقہ کار ہے۔ ٹہریے۔ اس وقت تک ٹہریں جب تک آپ نتائج نہ دیکھ لیں۔ اور ہم نے نتائج دِکھا دیے ہیں"(2)۔
اکثر امن معاہدوں کا یہی حشر ہوا۔ شمالی وزیرستان کے نیک محمد وزیر نے اپریل 2004 میں شکئی امن معاہدے پر دستخط کیے لیکن اسے جون 2004 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(3)۔ جنوبی وزیرستان کے بیت اللہ محسود نے فروری 2008 میں امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس نے ایک لیفلٹ جاری کیا جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ امن مذاکرات جاری تھے۔ اس کو بھی اگست 2009 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(4)۔ اسی طرح مئی 2013 میں ایک اور ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے نائب سربراہ ولی الرحمان کو ہلاک کردیا گیا جس کی شہرت یہ تھی کہ وہ طالبان میں امن کی سوچ رکھنے والوں میں سے ہے۔ اس ڈرون حملے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ "اس ڈرون حملے میں امن کا حامی سمجھے جانے والے ولی الرحمان کے قتل کا بدلہ لینے کے نتیجے میں ہمارے سپاہی قتل اور زخمی ہوئے! یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے"(5)۔ اس حملے کے کچھ ہی عرصے کے بعد نومبر 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو اس وقت ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا جبکہ اس کے اور حکومت پاکستان کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے(6)۔ اسی مہینے میں حقانی نیٹ ورک (جس کی وجہ شہرت افغانستان میں امریکی افواج پر حملےہے ) کے ترجمان نصیر حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے بھی تھے، کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا(7)۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ضرب عضب کسی بھی پچھلے فوجی آپریشنوں سے کوئی مختلف آپریشن ہے اور اس سے کوئی نیا نتیجہ برآمد ہوگا تو وہ تاریخ اور حقائق کو جانتا ہی نہیں ہے۔ ضرب عضب کے باضابطہ اعلان کے بعد جو پہلا فضائی حلہو کیا گیا وہ دتہ خیل ڈسٹرکٹ پر تھا جو کہ مشہور طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کا علاقہ تھا جس میں 140 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا(8)۔ حافظ گل بہادر نے 2006 میں پاکستان آرمی کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس وقت سے اس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس نے امن معاہدے کی پاسداری کی اور اپنی توجہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج پر حملے کرنے پر مرکوز رکھی۔ ضرب عضب کا باضابطہ اعلان 15جون 2014 کو کیا گیا تھا اور اس وقت سے 23 جون تک حافظ گل بہادر نے امن معاہدے کو توڑنے کا اعلان نہیں کیا جبکہ اسی دوران دتہ خیل، میران شاہ، میر علی اور شوال وادی میں ہونے والے حملوں میں قبائلی بہت بڑی تعداد میں مارے گئے تھے(9)۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے ایک دہائی سے جاری امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر ایک نام نہاد امن معاہدے کو عملی تعبیر دینے کی اجازت دی جس کو عملی جامہ راحیل۔نواز حکومت نے پہنایا تاکہ مذاکرات کے دھوکے میں امریکی ایما ء پر ایک اور فوجی آپریشن کیا جائے جس کی تیاری جنوری 2014 سے ہی شروع کردی گئی تھی(10)۔
امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری طالبان پر کس طرح ڈالی جاسکتی ہے جبکہ شمالی وزیرستان میں ایک بھر پور آپریشن کی تیاریاں چھ مہینے پہلے سے ہی جاری تھیں؟ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا معاملہ بھی کسی طرح سوات، جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں ہونے والے آپریشنوں سے مختلف نہیں ہے۔ ہر امن معاہدے کے دوران مذاکرات کے لئے اختیار کیا جانے والا غیر سنجیدہ رویہ اس بات سے واضح تھا کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی مذاکراتی ٹیم بے اختیار ہوتی تھی جس میں اہم سیاسی جماعتوں میں سے کسی کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی افواج پاکستان کا کوئی نمائندہ ان میں موجود ہوتا تھا۔ شمالی وزیرستان میں امن مذاکرات حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے چلائے لیکن پھر اچانک آپریشن کے آغاز کا اعلان آئی۔ایس۔پی۔آر کی جانب سے کیا جاتا ہے نہ کہ وزیر اطلاعات کی جانب۔ اہم ترین اپوزیشن جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف (تحریک انصاف قبائلی علاقوں سے منسلک صوبے خیبر پختون خواہ میں حکومت میں ہے) نے واضح طور پر اعلان کیا کہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ جلد ہی فوجی آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ لیکن آپریشن شروع ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کر اس آپریشن کی حمائت کا اعلان کرنا پڑا کیونکہ اصل اختیار والوں نے تو آپریشن شروع کر ہی دیا تھا(11)۔ ضرب عضب آپریشن شروع کرنے کے لئے درکار عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے 8 جون 2014 کو کراچی ائرپورٹ پر ہونے والے انتہائی تباہ کن حملے کو استعمال کیا گیا۔ اس حملے کے اختتام سے قبل ہی اس کا ذمہ وزیرستان پر ڈال دیا گیا۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اس تباہ کن حملہ کی منصوبہ بندی شمالی وزیرستان میں موجود ازبک جنگجوؤں اور پاکستانی طالبان نے کی ہے(12)۔
کراچی ائرپورٹ پرحملے سے صرف تیس دن قبل، 7 مئی 2014 کو جوئیل کاکس، جس کو امریکی دفتر خارجہ نے ایف۔بی۔آئی ایجنٹ قرار دیا، کو کراچی ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ایس۔ایس۔پی ملیر کینٹ کے مطابق اس کے قبضے سے 9ایم ایم کی پندرہ گولیاں میگزین سمیت تین خنجر، جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والا کیمرہ اور دیگر آلات برآمد ہوئےتھے(13)۔ آخر کیوں پاکستان میں موجود ایجنسیوں نے ایک غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ کا کراچی ائرپورٹ حملے سے کوئی تعلق جاننے کی کوشش نہیں کی؟ جبکہ اس کی جگہ وزیرستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور تباہ کن فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ یہ پہلا واقع نہیں ٍہے جہاں پاکستانی ایجنسیوں نے اس قسم کے ایک واقعہ کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ جولائی 2014 کو اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک اور امریکی سکو رٹی ٹریرن گرفتار ہوتا ہے لیکن اسے بھی جلد ہی رہا کردیا گیا(14)۔ یہ بات قابل یاد دہانی ہے کہ اس سے قبل 27 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس، ایک نجی ملٹری کنٹریکٹر کو اس بات کے باوجود رہا کردیا گیا کہ اس نے دن دہاڑے لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کردیا تھا۔ اب یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کیا کررہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے شرمناک کردار ادا کیا جو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی امریکی پالیسی سے وفاداری کا ثبوت تھا۔
شمالی وزیرستان میں ہونے والا فوجی آپریشن پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتا آرہا تھا۔ یہ مطالبہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب امریکی کانگریس نے افواج پاکستان کو ملنے والی 1.2ارب ڈالر کی فوجی امدادکو شمالی وزیرستان آپریشن سے مشروط کردیا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ اس امداد کو جاری کرنے کے لئے لکھ کر یہ دے کہ "پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں محفوظ ٹھکانوں اور حقانی نیٹ ورک کی نقل و حرکت کو کافی نقصان پہنچا ہے"(15)۔ عمران خان نے کانگریس کے اس نئے قانون کے متعلق کہا کہ "امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے لئے حکومت کو رشوت دے رہا ہے"(16)۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے متعلق میڈیا میں سب سے پہلے 24 جنوری 2014 کو خبریں آئیں کہ مارچ میں یہ آپریشن شروع ہوسکتا ہے(17)۔ جس کے بعد امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 352 ملین ڈالر 12 فروری 2014 کو جاری کیے(18)۔ ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد امریکہ نے 2015 کے مالیاتی سال کے تحت 960 ملین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت دینے کی منظوری دی(19)۔ اگر آپریشن ضرب عضب رسول اللہﷺ کی تلوار کے نام کی نسبت سے شروع کی گئی ہے تو پھر اس جنگ کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے امریکی ڈالروں سے کیوں لڑا جارہا ہے؟
لہٰذا یہ آپریشن امریکی جنگ کا ہی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس جنگ کا براہ راست فائدہ جہاں امریکہ کو پہنچتا ہے وہیں بھارت میں امریکہ کی نئی اتحادی مودی حکومت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ نواز راحیل-نواز حکومت کی موجودگی میں آپریشن ضرب عضب کی منصوبہ بندی جنوری 2014 میں کی گئی اور اس کو مارچ-اپریل 2014 میں شروع کیے جانے کا امکان تھا۔ لیکن بھارت میں ہونے والے 16 مئی 2014 کے انتخابات کی وجہ سے امریکہ نواز بی۔جے۔پی کی فتح تک اس آپریشن میں تاخیر کی گئی۔ صرف ایک ہفتے بعد 21 مئی 2014 کو پاکستان کے جیٹ لڑاکا طیاروں نے شمالی وزیرستان میں بمباری کی اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 60 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے۔ اس کے بعد جلد ہی شمالی وزیرستان میں فوج کی بھاری نقل و حمل شروع ہو گئی اور اس دوران طیارے دتہ خیل۔ میران شاہ، میر علی اور خیبر ایجنسی میں بمباری کرتے رہے۔ 2 جون 2014 تک پاکستان نے بھارتی سرحدوں پر تعینات اپنی افواج کا تقریباً ایک تہائی حصہ مغربی سرحد پر پہنچا دیا(20)۔ اس قدر بھاری نقل و حمل بھارتی افواج کے لئے زبردست فائدے اور سکون کا باعث بنا ۔
یہ نقل و حرکت ایک منصوبے کا حصہ تھی۔ یہ اس منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت افواج پاکستان کی تمام تر توجہ کا مرکز دشمن بھارت سے موڑ کر قبائلی علاقوں میں موجود امریکہ کے دشمنوں کی جانب کردیا جائے۔ جنوری 2013 میں جنرل کیانی نے افواج پاکستان کی مشہور 'سبز کتاب' میں ایک نئے ڈاکٹرائن کا اعلان کیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق افواج پاکستان کے ہدف میں تبدیلی کی گئی اور بھارت کی جگہ اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی توجہ بھارت کی سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کی سرحد کی جانب کردی۔ لیکن پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کا جواب بھارت نے بالکل مختلف طریقے سے دیا۔ بھارت نے پاکستان کو اپنی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اس نے پاکستان کی سرحدوں پرتعینات اپنی افواج میں کوئی کمی نہیں کی۔ لیکن بھارت میں امریکہ نواز مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد اس بات کی بنیاد ڈال دی گئی ہے کہ بھارت کو یہ یقین دہانی کرادی جائے گی کہ پاکستان اب اس کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہا۔ یہ یقین دہانی پاکستان آرمی کی اعلٰی قیادت نے اپنے اعمال اور بیانات کی صورت میں کرادی ہے جیسا کہ :
پہلی یقین دہانی: بھارتی سرحدوں سے افواج کے بڑے حصے کو افغان سرحد پر منتقل کیا جانا جو کہ ایک اہم سٹریٹیجک تبدیلی ہے۔
دوسری یقین دہانی: عوامی سطح پر سٹریٹیجک گہرائی کو رد کردینا اور اور ان لوگوں کا مذاق اڑایا جانا جو افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی کی حمائت کرتے ہیں جس میں راحیل شریف کے سابقہ باس اشفاق پرویز کیانی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کو پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی سے نکال دینے سے بھارت کو اس بات کا موقع ملا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کرے۔
تیسری یقین دہانی: راحیل شریف کی جانب سے مرکزی تجارتی راہ داری کی صورت میں معاشی یقین دہانی تا کہ بھارت کو معاشی فوائد پہنچائیں جائیں۔
لہٰذا بھارت کو راستہ فراہم کرنے کے لئے امریکی منصوبے کے تحت پاکستان نقصانات اٹھا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے 80 ہزار فوجیوں کو بھیجا گیا ہے جبکہ 40 ہزار فوجی اس علاقے میں پہلے سے موجود تھے(21)۔ اس امریکی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو براہ راست 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع خلاء میں مزید اضافہ ہو گیا(22)۔ سابق ائر وائس مارشل شہزاد چوہدری نے کہا کہ "جبکہ بھارت اپنے ہتھیاروں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے بے دریغ خرچ کررہا ہے لیکن ہمارے معاملات بہت زیادہ پھیل چکے ہیں کہ ہم کوئی اہم ہتھیار بھی نہیں خرید سکتے۔ ہم مال کی کمی کے باوجود یہ جنگ لڑ رہے ہیں"(23)۔ بڑے بڑے منصوبے یا تو سست روی کا شکار کردیے گئے ہیں جیسا کہ JF-17جنگی طیارہ یا ان کو ختم ہی کردیا گیا ہے جیسا کہ جرمنی سے نئی آبدوزوں کی خریداری(24)۔ فوجی قیادت میں موجودغداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی یقین دہانیاں براہ راست امریکہ کو مدد فراہم کریں گی کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلا سکے کہ اس کو اب پاکستان کی صورت میں روایتی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس خطے میں افواج پاکستان نہ صرف بھارت کے لئے براہ راست خطرہ ہیں بلکہ افواج پاکستان جہادی گروہوں کو استعمال کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دفاعی عدم موافقت کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن اب جنرل راحیل شریف گیاری سیکٹر کی شہدوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر بھارت کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ان جہادی گروپوں کا خاتمہ کر کے چھوڑے گا۔سیاچن میں کھڑے ہوکر بھارت کو یقین دہانی کرانے کے لئے جاری ہونا والا یہ ایک انتہائی اہم اور مضبوط بیان ہے ۔
امریکہ اور پاکستان کی فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ یک زبان ہو کر پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی سے دستبردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں تا کہ بھارت کے لئے افغانستان میں راہ ہموار کی جائے۔ 21 جون 2014 کو امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھارتی چینل NDTVسے بات کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کا سٹریٹیجک گہرائی کا تصور اب مردہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کا افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی حاصل کرنے کی کوشش غلط ثابت ہوئی اور اب ملک کو اپنی تمام تر قوت کو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"(25)۔ اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ "ہم افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی چاہتے ہیں مگر اسے کنٹرول نہیں کرنا چاہتے اور پر امن اور دوست افغانستان پاکستان کو سٹریٹیجک گہرائی فراہم کرسکتا ہے"(26)۔ 28جون 2014 کو جنرل راحیل شریف نے سیاچن گلیشیر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے گیاری سیکٹر میں شہداء کی یادگار پر پھول چڑھائے اور ان افسران اور سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں اور کہا کہ "فوج تمام تر خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے"(27)۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آپریشن کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کی ابتداء ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج 'اچھے اور برے طالبان' کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرے گی اور فوج کے لئے تحریک طالبان کے مختلف گروہوں اور حقانی نیٹ ورک میں کوئی فرق نہیں ہے.....فوج ان تمام کا خاتمہ کردے گی"(28)۔ 28 مئی 2014 کو راحیل شریف نے خاص طور پر مرکزی تجارتی شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا جو کہ 714 کلومیٹر طویل سڑکوں کا ایک نیٹ ورک ہے جس کے تحت پاکستان کی انڈس ہائی وے اور وزیرستان کی ایجنسیوں کو افغان رنگ روڈ کے ساتھ منسلک کردیا جائےگا(29)۔
آپریشن ضرب عضب کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ تمام یقین دہانیاں مودی کو اس بات کا موقع فراہم کرتیں ہیں کہ وہ چین کو گھیرا ڈالنے کی امریکی پالیسی میں بھارتی کردار کی ادائیگی کو شروع کرے۔ 19 مئی 2014 کو بی۔بی۔سی عربی پر ایک مضمون "نقطہ نظر: مودی کس طرح امریکہ-بھارت تعلقات پر اثر انداز ہو گا؟" شائع ہوا۔ اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں لیزا کیرٹیس کا مضمون "مودی کے ساتھ کام کرنا" شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ "نئی دہلی اور واشنگٹن ایک جیسے سٹریٹیجک اہداف رکھتے ہیں چاہے اس کا تعلق دہشت گردی سے ہو، سمندری راستوں کو کھلا رکھنا ہو یا ابھرتے ہوئے چین کو دھمکانا ہو۔ خاص طور پر بی۔جے۔پی کی چین کو دھمکانے کی پالیسی میں دلچسپی امریکی اہلکاروں کو اس بات کو موقع فراہم کرے گی کہ وہ ان کے ساتھ قربت کے ساتھ کام کریں"۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے مودی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی جب اس نے مودی کو فون کال کی اور انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔ اوباما نے کہا کہ وہ مودی کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے تا کہ غیر معمولی امریکہ بھارت سٹریٹیجک دوستی کے وعدے کو پورا کیا جائے۔ ستمبر میں مودی کی اوباما سے ملاقات طے ہوچکی ہے۔
لہٰذا شمالی وزیرستان آپریشن پاکستان کے مفادات کو سنگین نقصان پہنچا کر امریکہ اور بھارت کے اتحاد کو زبردست فائدہ پہنچا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود راحیل-نواز حکومت ہندو مشرکین کو ہمارے مفادات پر بالادستی دلوانے کے لئے کام کررہی ہے جن سے ہمیشہ ہیںت زبردست نقصان ہی پہنچا ہے چاہے وہ کشمیر پر قبضہ ہو یا سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنا ہو اور آج بھی افغانستان میں قائم اس کے سیکڑےوں قونصل خانے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ حکومت ہم پر ہندو کی سیاسی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ آج اس خطے میں مسلم امت تعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے بھی ہندو مشرکین سے بڑھ چکی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی ہے ناکہ ہندو مشرکین نے۔ حکومت ہم پر ہندو کی معاشی بالادستی کو قائم کرنے کےلئے کام کررہی ہے جبکہ امت زبردست انسانی و مادی وسائل سے مالا مال ہے اور صدیوں تک دنیا کی معاشی ترقی میں انجن کا کام کرتی رہی ہے۔ اور یہ حکومت ہم پرہندو کی فوجی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ اس امت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں اتنی بڑی فوج ہے جو تعداد اور اپنی بہادری میں ہندو فوج سے کئی گنا بڑی ہے اور صدیوں تک ایک کے بعد دوسری جنگ جیتی رہی ہے ان حالات میں بھی جب کبھی دشمن ہمارے سے کئی گنا زیادہ بڑا بھی تھا۔ بجائے اس کے کہ امت کو اس بات کی دعوت دی جائے کہ ہم ایک اسلامی ریاست خلافت کے سائے تلے طاقتور امت کے طور پر اٹھیں۔ راحیل-نواز حکومت ہمیں کفر کی بالادستی کو ہم پر قائم کرنے ، شکست خوردہ ذہنیت اختیار کرنے اور خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کی دعوت دے رہی ہے۔ ہماری صورتحال صرف اسی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے جب ہم ایک امت، ایک ریاست کے طور پر، ایک حکمران کی زیر نگرانی کھڑے ہوں جو ہم پر دین اسلام کو نافذ کرے اور اسلام کو پوری دنیا تک پہنچائے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ امت خلافت کو دوبارہ قائم کرے تا کہ مسلمان ایک بار پھر وہی حیثیت حاصل کرسکیں کہ پوری انسانیت اسلام کے نور سے فیضیاب ہوسکے جیسا کہ اس سے پہلے صدیوں تک ایسا ہوتا رہا ، چاہے ہندو مشرکین کو یہ کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو سچی ہدایت اور دین کے ساتھ بھیجا تا کہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے" (التوبۃ:33)
حوالہ جات:


[1] http://tribune.com.pk/story/540741/probe-report-one-man-lal-masjid-commission-fails-to-apportion-blame/
[2] http://www.state.gov/secretary/20092013clinton/rm/2010/03/138996.htm
[3] http://en.wikipedia.org/wiki/Nek_Muhammad_Wazir
[4] http://en.wikipedia.org/wiki/Baitullah_Mehsud#cite_note-32
[5] http://tribune.com.pk/story/560646/imran-khan-tweets-slain-ttp-commander-waliur-rehman-pro-peace/
[6] http://tribune.com.pk/story/625762/another-drone-strike-kill-3-north-waziristan/
[7] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-26603-Jalaluddin-Haqqanis-son-killed-in-Islamabad
[8] http://tribune.com.pk/story/722202/army-launches-operation-in-north-waziristan/
[9] http://www.nation.com.pk/national/23-Jun-2014/hafiz-gul-to-remain-in-peace-until-shawwal-10
[10] http://www.criticalthreats.org/pakistan/jan-what-you-need-to-know-north-waziristan-operation-june-19-2014
[11] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-7-256751-Minister-tells-assembly-PTI-govt-not-consulted
[12]http://timesofindia.indiatimes.com/world/pakistan/Pakistan-kills-100-extremists-including-Karachi-airport-attack-mastermind/articleshow/36605712.cms
[13] http://www.dawn.com/news/1104901/
[14] http://tribune.com.pk/story/737360/us-citizen-arrested-for-carrying-weapon-at-islamabad-airport/
[15] http://www.dawn.com/news/1112121
[16] http://tribune.com.pk/story/721140/new-congress-legislation-us-bribing-govt-for-n-waziristan-operation-says-imran/
[17] http://tribune.com.pk/story/663142/waziristan-offensive-likely-in-march/
[18] http://tribune.com.pk/story/670568/unpaid-bills-us-releases-352m-under-csf/
[19] http://www.dawn.com/news/1114420
[20]http://www.dnaindia.com/world/report-pakistan-removes-third-of-army-s-border-deployment-1390778
[21]http://in.reuters.com/article/2014/06/17/uk-pakistan-airstrikes-offensive-idINKBN0ES1A620140617?feedType=RSS&feedName=southAsiaNews
[22]http://www.thenews.com.pk/Todays-News-2-219913-Dar-says-Pakistan-lost-$100-bn-in-war-on-terror
[23]http://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20120608&page=2
[24]http://www.revolutionobserver.com/2014/06/who-benefits-from-zarb-e-azab-waziristan.html
[25]http://www.ndtv.com/article/india/full-transcript-hillary-clinton-to-ndtv-on-iraq-pm-modi-and-plans-for-2016-545348
[26] http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2010/02/01/AR2010020102506.html
[27] http://tribune.com.pk/story/728451/army-prepared-to-fight-against-entire-spectrum-of-threat-army-chief/
[28] http://www.criticalthreats.org/pakistan-security-brief/pakistan-security-brief-july-18-2014
[29] https://www.ispr.gov.pk/front/main.asp?o=t-article&id=95

Read more...

خبر اور تبصرہ پاکستان میں انقلاب کبھی بھی جمہوریت یا آمریت کے ذریعے نہیں بلکہ صرف خلافت کے ذریعے ہی آسکتا ہے

خبر: 14اگست 2014 کو دو اپوزیشن کی جماعتوں نے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلحکومت لاہور سے آزادی اور انقلاب مارچ کا آغاز کیا ۔ ان مارچوں کا ہدف پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد تھا۔ اپوزیشن کی ان دونوں جماعتوں نے نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ ان جماعتوں نے اپنے حامیوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے دن گنے جاچکے ہیں جس کے بعد ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔
تبصرہ: ریاست پاکستان اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ اس نئی مملکت میں اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کرسکیں گے۔ لیکن پاکستان کے قیام کے بعد سے اس کے امور و معاملات برطانوی راج کی جانب سے چھوڑے گئے کفریہ نظام کے مطابق چلائے جارہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والے حکمران پاکستان کے مسلمانوں کے اس خواب کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ زندگی کے ہر میدان میں اسلام کا نفاذ ہو۔ جب جمہوری حکمران ناکام ہوئے تو فوجی آمروں نے مداخلت کی اور عوام کو یقین دلایا کہ وہ تبدیلی لائے گی جس کا ان کو ایک عرصے سے انتظار ہے۔ لیکن فوجی آمر بھی اسی رستے پر چلتے رہے جو برطانوی راج پیچھے چھوڑ گیا تھا یعنی حکمرانی اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی بنیاد پر نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح جب فوجی آمر، لوگوں کی خواہش کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو ایک بار پھر جمہوری حکمرانوں کو لایا گیا اور انھوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ چونکہ اب جمہوریت آچکی ہے لہٰذا لوگوں کی خواہش ہی مقدم ہو گی۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی لوگوں کی اس خواہش کو پورا نہیں کیا ۔ اور اس طرح پچھلی سات دہائیوں سے کرسی کی تبدیلی کا کھیل جاری و ساری ہے۔
1947 سے جمہوریت و آمریت کا یہ تماشہ چل رہا ہے اور اب لوگ اس سے بیزار ہو گئے ہیں۔ 2011 سے تبدیلی کی شدید خواہش کو محسوس کیا جارہا ہے کیونکہ لوگ مشرف کی روشن خیال اعتدال پسندی اور زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے نتائج دیکھ چکے تھے۔ درحقیقت ان دونوں پالیسیوں کا مقصد حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور خطے میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ اور اب موجودہ جمہوری حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی کے بعد لوگ جمہوریت اور آمریت دونوں سے ہی سخت بیزار ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں، ایسی تبدیلی جو اسلام کی بنیاد پر ہو جہاں زندگی کے ہر شعبے میں اسلام نافذ ہو۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کے پاس ہی وہ طاقت ہے جو ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہے چاہے وہ معاشی ہوں یا عدالتی، سیاسی ہوں یا فوجی۔
یہ صورتحال امریکہ اور پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ امریکہ کے ایجنٹ اس وقت تبدیلی، حقیقی جمہوریت یا 1973 کے آئین کو اس کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں جس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ دیکھنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لوگوں نے بھی یہ بات محسوس کرلی اور اسی وجہ سے انہوں نے ان آزادی اور انقلاب مارچوں میں بڑی تعداد میں شرکت نہیں کی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ لوگ حزب التحریر کے پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں جو یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں کو مسترد کرو اور اس خلافت کو قائم کرو جس کا آئین مکمل طور پر اسلام پر مبنی ہے۔
حقیقی تبدیلی یا انقلاب صرف اسی صورت میں آئے گا جب خلافت رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق قائم ہو گی۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ کرپٹ نظام اور ایجنٹ حکمرانوں کے خلاف سیاسی و فکری جدوجہد اور افواج سے نصرۃ طلب کی جائے۔ موجودہ کرپٹ نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی جو کہ اپنی بنیاد سے ہی کرپٹ ہے کیونکہ وہ انسانوں کا بنایا گیا ان برطانوی قوانین کا ہی تسلسل ہے جو ہم پر برطانوی استعماری دور میں مسلط کیے گئے تھے۔ ہم حقیقی تبدیلی کو صرف اسی صورت دیکھ سکتے ہیں جب حکمرانی کی بنیاد اللہ سبحانہ و تعالٰی کی وحی قرار دی جائے۔
وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللہُ إِلَيْكَ
"(اے محمدﷺ) آپ ان کے معاملات میں اللہ کے نازل کر دہ قوانین کے ذریعے ہی حکمرانی کریں، اوران کی خواہشات کی تابعداری ہرگز نہ کیجئے گا اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے اِدھر اُدھر نہ کردیں" (المائدہ:49)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک